وہ سخت گرمیوں کی ایک دوپہر تھی

 

وہ سخت گرمیوں کی ایک دوپہر تھی.
ایک کم سن بچہ کھیل ہی کھیل میں پانی کا نلکا چلا رہا تھا اور نلکے کی لمبی ٹونٹی کے عین نیچے جہاں پانی گر رہا تھا وہاں ایک پیتل کا لوٹا رکھا ہوا تھا. لوٹا جب پانی سے بھر جاتا تو وہ اسے اٹھا کر اپنے اوپر بہا لیتا اور پھر سے نلکا چلا کر لوٹا بھرنا شروع کر دیتا. کھیلتے کھیلتےایک بار ایسا ہوا کہ نلکے کی ہتھی پانی کھینچنے کا دباؤ بنانے میں ناکام رہی اور اچانک ہی زمین سے نکلنے والے لوہے کے مرکزی پائپ پر جا ٹکرائی . کم سن بچے کا ہاتھ بیچ میں آ کر بری طرح کچلا گیا اور ہاتھ سے خون کا فوارا ابل پڑا.
ایک تو شدید تکلیف، اوپر سے خون نکلتا دیکھ کر کم سن بچہ سہم گیا اور زور زور سے رونے لگا.
گھر میں موجود اس کے ماں, باپ, دادا, دادی سمیت سبھی دوڑے چلے آۓ.
اس کے ہاتھ پر چولہے میں پڑی لکڑی کی بجھی راکھ ڈال کر کپڑا لپیٹنے لگے تاکہ کسی طرح بہتا ہوا خون رک جاۓ.
” یہ کک کیا ہو گیا میرے خادُو کو“ ماں نے بیٹے کے ہاتھ سے خون نکلتا ہوا دیکھا تو اپنے حواس کھو بیٹھی اور چیخنے چلانے لگی.
سارے لوگ اس کو حوصلہ دے رہے تھے کہ کچھ نہیں ہوا تیرے خادُو کو. سب خیر ہے لیکن وہ اپنے حواس میں ہوتی تو کسی کی سنتی.
” دد دیکھو تو سہی مم میرا خادو کتنی تکلیف میں ہے اور کتنا رو رہا ہے“ کم سن خادُو کی ماں نے زاروقطار روتے ہوۓ کہا اور اس سے پہلے کہ کوئی سمجھ پاتا وہ نلکے کی طرف لپکی اور ایک ہاتھ سے خود ہتھی چلا کر اپنا دوسرا ہاتھ ویسے ہی کچل لیا جیسے بیٹے کا کچلا گیا تھا.
ماں کے ہاتھ سے بھی خون کا فوارا پھوٹ پڑا لیکن وہ روئی بھی جا رہی تھی اور کہتی بھی جا رہی تھی کہ
”ہاۓ اللہ! میں صدقے جاؤں میرے خادُو کو بھی تو اتنا شدید درد ہو رہا ہو گا“ ممتا کو اپنے درد کا کوئی احساس تک نہ تھا. احساس تھا تو بس یہی کہ میرے لخت جگر کو کتنی ڈھیر ساری تکلیف پہنچی ہے.
چیختی چلاتی ممتا کو زبردستی چارپائی پر بٹھا کر بڑی مشکل سے پانی پلایا گیا اور بیٹے کی طرح اس کے ہاتھ پر بھی راکھ کی پٹی باندھ دی گئی.
شادی کے بارہ تیرہ سال بعد اور ایک بیٹے کے فوت ہو جانے کے بعد پیدا ہونے والا ”خادم حسین“ جسے پیار سے سب ”خادُو“ کہہ کر بلاتے تھے گھر بھر کا لاڈلا تھا. اس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف بھی ممتا کیلئے بہت تکلیف دہ گزرتی تھی.
میں سوچ رہا تھا کہ ممتا کا پیار کیسی انمول چیز ہے اور اولاد کو ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو ممتا پریشانی میں حواس تک کھو بیٹھتی ہے. چھوٹے چھوٹے حشرات سے ڈر جانے والی لڑکی جب ماں کے رتبے پر فائز ہوتی ہے تو اولاد کی حفاظت کیلئے دنیا کی ہر طاقت سے بھڑ جاتی ہے.
ہمارے معاشرے میں والدین کی خدمت کا جذبہ بالکل موجود ہے. ہمارے ہاں مغربی معاشرے کی طرح والدین کو بڑھاپے میں لاوارث چھوڑ دینے کی روایت موجود نہیں لیکن پھر بھی کیا ہی بہترین بات ہوتی کہ نافرمان و نا ہنجار اولاد بھی والدین جیسے عزیز ترین رشتے کا ان کی زندگی میں احساس کریں. ان کے آرام و آسائش کا خیال رکھیں ورنہ بعد از مرگ تو زندگی کے ہر تھپیڑے پر ان کی یاد پچھتاوے کی صورت میں شدت سے آتی رہتی ہے.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے