عمرو عیار اور گنجا جادوگر

 
 
عمرو اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھا زنبیل میں موجود دولت کا حساب اپنی انگلیوں پر کر رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اس کا خادم اندر داخل ہوا ۔۔۔
کیا بات ہے ۔۔۔
کیوں آئے ہو ؟
 
عمرو عیار نے حیران ہو کر پوچھا تو خادم نے ایک خط عمرو عیار کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔
یہ خط سردار امیر حمزہ نے میدان جنگ سے بھیجا ہے ۔
خادم نے کہا اور تیزی سے واپس مڑ گیا ۔۔۔۔
عمرو عیار نے جلدی سے شاہی خط کھولا اور اسے پڑھنے لگا ۔۔۔
سردار امیر حمزہ نے اس خط میں اسے حکم دیا تھا کہ طلسم ہو شربا کی سرحد کے قریب افراسیاب نے مسلمان فوجوں کو روکنے کے لئے ایک گنجے جادوگر کو فوج دے کر بھیجا ہے ۔۔۔
جس نے سرحد کے قریب اپنا پڑاؤ ڈالا ہوا ہے ۔۔۔
 
چونکہ سردار امیر حمزہ جادوگروں کی ایک بڑی فوج سے لڑنے میں مصروف ہے اور اسے خطرہ ہے کہ یہ گنجا جادوگر کہیں عقب سے ان پر حملہ نہ کر دے اس لئے عمرو فورا جا کر اس گنجے جادوگر کا خاتمہ کر دے ۔۔اسے کثیر انعام دیا جائے گا ۔۔۔
عمرو نے رقعہ پڑھ کر فورا لباس تبدیل کیا اور شاہی اصطبل سے گھوڑا لیا اور پھر طلسم ہو شربا کی سرحد کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔
وہ چونکہ سینکڑوں بار طلسم ہوشربا آتا جاتا رہا تھا ۔۔۔
اس لئے اسے اس کے بارے میں اچھی طرح علم تھا کہ یہ گنجا جادوگر کہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہو گا ۔۔۔
 
عمرو منزلیں مارتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا اور جب وہ طلسم ہو شربا کی سرحد سے پہلے آنے والے جنگل کے پاس پہنچا تو وہ گھوڑے سے اترا اور اس نے گھوڑے کو آزاد کر دیا تا کہ وہ وہاں آزادانہ گھوم پھر کر اپنا پیٹ بھر سکے ۔۔۔
اور جنگلی جانوروں سے اپنا تحفظ کر سکے ۔۔۔
اور خود وہ زنبیل سنبھالے جنگل میں داخل ہو گیا ۔ جنگل زیادہ بڑا نہ تھا اس لئے اسے یقین تھا کہ وہ شام ہونے سے پہلے پہلے اس جنگل کو عبور کر کے دوسری طرف واقع طلسم ہو شربا کی سرحد تک پہنچ جائے گا ۔۔۔
 
لیکن ابھی اس نے آدھا جنگل ہی پار کیا ہو گا کہ اچانک جنگل کے درمیان بنے ہوئے ایک بڑے سے محل نما مکان کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا ۔۔۔۔
مکان بہت بڑا تھا اور باقاعدہ بڑے بڑے پتھروں سے بنایا گیا تھا ۔۔۔
جبکہ اس کا بڑا سا پھاٹک لکڑی کا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔
اس مکان کے اوپر سیاہ رنگ کا ایک جھنڈا لہرا رہا تھا جس پر انسانی کھوپڑی اور وہ ہڈیوں کی تصویر بنی ہوئی تھی ۔۔۔
اس جھنڈے کو دیکھ کر عمرہ سمجھ گیا کہ یہ کسی جادوگر کا مکان ہے ۔۔۔۔
اسے خیال آیا کہ کہیں وہ گنجا جادوگر اس مکان میں نہ رہتا ہو ۔۔۔
چنانچہ وہ محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا مکان کے باہر کوئی آدمی نہ تھا ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی ۔۔۔
عمرو اس بڑے سے پھاٹک کے سامنے پہنچ گیا ۔۔۔
اس نے زور سے پھاٹک پر دستک دی ۔۔۔
کون ہے ؟
اندر سے چیختی ہوئی کرخت آواز سنائی دی ۔
میرا نام حکیم الحکما ہے ۔ میں طلسم ہوشربا کے شہنشاہ افراسیاب کا شاہی حکیم ہوں ۔۔۔
 
عمرو عیار نے اونچی آواز میں جواب دیا تو دروازہ درمیاں سے تھوڑا سا کھل گیا لیکن یہ دروازہ اتنا نہ کھلا تھا کہ عمرو عیار اندر داخل ہو سکتا ۔۔۔
سامنے ایک کرسی پر ایک گنجا آدمی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
اس کے ماتھے پر بھی کھوپڑی کا نشان تھا ۔۔۔
اس کی باریک لیکن لمبی لمبی مونچھیں تھی اس نے ایسا لباس پہنا ہوا تھا کہ جیسے وہ کسی برفانی علاقے میں رہتا ہو ۔۔۔
اس کی نظریں دروازے کی درز سے سامنے کھڑے عمرو عیار پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔
عمرو عیار آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اب سامنے نہ وہ مکان تھا اور نہ وہ دروازہ بلکہ وہاں عام سا جنگل تھا ۔
وہ یہ دیکھ کر بے حد حیران ہوا اس نے جلدی سے زنبیل میں ہاتھ ڈالا اور تختی داؤدی نکال لی ۔۔۔
تختی داؤدی مجھے بتاؤ یہ سب کیا تھا ؟
اور یہ مکان کہاں غائب ہو گیا ۔
عمرو عیار نے تختی داؤدی کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو تختی داؤدی پر فورا ایک تحریر ابھر آئی ۔۔۔
خواجہ عمرو عیار کو بتایا جاتا ہے کہ یہ مکان جادو کا تھا اور اس میں گنجا جادوگر رہ رہا تھا ۔
 
اسے طلسم ہوشربا کے شہنشاہ افراسیاب نے نہ صرف تمہارے متلق پوری تفصیل سے بتا دیا تھا بلکہ تمہاری تصویر بھی اسے دکھا دی تھی ۔
اور اسے حکم دیا تھا کہ وہ تم سے مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ اس طرح تم اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے ۔
اس لئے جس اس نے تمہیں دیکھا تو وہ تمہیں پہچان گیا اور اس نے تمہارا مقابلہ کرنے کی بجائے مکان سمیت یہاں سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور اب وہ اپنی فوج کے اندر بنے ہوئے شاہی خیمے میں موجود ہے ۔
اس کی فوج جنگل کے پار میدان میں موجود ہے ۔
اور خواجہ عمرو کو بتایا جاتا ہے کہ گنجا جادوگر اس وقت ہلاک ہو سکتا ہے جب عمرو عیار اپنی تلوار پر ایک خونخوار شیر ،
خونخوار بھینسے اور ایک خونخوار چیتے کا خون نہ لگا لے ۔
ان تینوں درندوں کا خون لگنے کے بعد ہی اس تلوار سے گنجے جادوگر کو ہلاک کیا جا سکتا ہے اور وہ مقابلے پر مجبور بھی ہو سکتا ہے ویسے گنجا جادوگر جسمانی طور پر اور جادو کے لحاظ سے بھی بے حد طاقتور ہے ۔اس کی پیشانی پر کھوپڑی اور دو ہڈیوں کا نشان ہے ۔ گنجا جادوگر اس وقت ہلاک ہو سکتا ہے جب تمہاری تلوار کا پہلا وار اس کی پیشانی پر موجود اس نشان پر پڑے ۔ ورنہ وہ ہلاک نہیں ہو سکتا اور اس کے جادو کے توڑ کے لئے تمہیں اپنی تلوار کے دستے کے ساتھ لومڑی کی دم باندھنی ہو گی پھر اس کا کوئی جادو تم پر اثر نہ کر سکے گا لیکن اگر تمہاری تلوار کا پہلا وار اس گنجے جادوگر کی پیشانی پر موجود نشان پر نہ لگ سکا تو پھر تم خود ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس لئے یہ سارا کام تم نے اپنی عقل اور عیاری سے کرنا ہے کہ تینوں درندوں کے خون سے بھری ہوئی تلوار کا پہلا وار اس گنجے جادوگر کی پیشانی پر لگے ہوئے نشان پر پڑے ۔
تب یہ جادوگر فورا ہلاک ہو جائے گا ۔ عمرو عیار نے یہ تحریر پڑھی تو وہ بے حد پریشان ہوا کیونکہ اتنے خونخوار درندوں سے وہ کیسے لڑ سکتا تھا ۔
وہ تو ہمیشہ اپنی عقل اور عیاری سے لڑتا تھا ورنہ جسمانی طور پر تو وہ بے حد کمزور سا آدمی تھا لیکن ظاہر ہے اب اسے ایسا کرنا پڑے گا ۔
اس نے تختی داؤدی کو زنبیل میں ڈالا اور سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہئے ۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس جنگل کے اندر پانی کا ایک بڑا چشمہ اور اس کے ساتھ جوہڑ ہے جہاں سے تمام درندے پانی پینے آتے ہیں ۔
اگر وہ وہاں پھندہ لگا دے تو یہ درندے پانی پینے آئیں گے اور پھندوں میں پھنس جائیں گے پھر وہ انہیں آسانی سے ہلاک کر دے گا ۔
چنانچہ اس نے درختوں کی لچکدار لیکن انتہائی مضبوط شاخیں توڑیں اور پھر وہیں بیٹھ کر اس نے پانچ مضبوط پھندے بنائے جن میں چار بڑے اور ایک چھوٹا پھندہ تھا ۔
پھر وہ ان پھندوں کو اٹھا کر چشمے کے پاس پہنچ گیا اسے معلوم تھا کہ بڑے جانور جوہڑ کے کھلے حصے کی طرف سے آ کر پانی پیتے ہیں جبکہ چھوٹے جانور جوہڑ کے تنگ حصے کی طرف آتے ہیں ۔
چنانچہ اس نے چھوٹا پھندہ تو تنگ حصے کی طرف لگا دیا جبکہ بڑے پھندے اس نے جوہڑ کے کھلے حصے کیطرف علیحدہ علیحدہ لگا دیئے اور خود ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے لومڑیوں کے ایک گروہ کو تنگ حصے کی طرف پانی پینے کے لئے آتے ہوئے دیکھا تو وہ بے حد خوش ہوا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی لومڑی تو یقیناً چھوٹے پھندے میں پھنس جائے گی اور وہی ہوا ۔
ایک لومڑی اس پھندے میں پھنس کر چیخنے لگی تو باقی لومڑیاں بھاگ گئیں ۔
عمرو عیار فورا درخت سے نیچے اترا اور دوڑتا ہوا اس پھندے میں پھنسی لومڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
اس نے تیزی سے تلوار کھینچی اور اس لومڑی کو ہلاک کر دیا پھر اس نے اس کی دم کاٹی اور اسے اپنی تلوار کے دستے سے باندھ دیا اور ایک بار پھر واپس جا کر درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد چار بھینسے پانی پینے آئے تو ان میں سے ایک بھینسا بڑے پھندے میں پھنس گیا ۔ اس نے نکلنے کے لئے بڑا زور لگایا لیکن نکل نہ سکا ۔ جب باقی بھینسے بھاگ گئے تو عمرو عیار درخت سے نیچے اترا اور اس نے پھندے میں پھنسے ہوئے بھینسے کی گردن تلوار سے کاٹ دی ۔
اس طرح اس کا خون اس کی تلوار پر لگ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک چیتا بھی اسی طرح پھندے میں پھنس گیا اور عمرو عیار نے اسے بھی ہلاک کر دیا پھر شیر پھنسا اور عمرو عیار نے اسے بھی ہلاک کر دیا ۔ اس طرح اس کی تلوار پر شیر بھینسے اور چیتے کا خون لگ گیا تھا اور اس نے شرط کے مطابق تلوار کے دستے پر لومڑی کی دم بھی باندھ لی تھی اور یہ سب کچھ اس نے اپنی عقل سے کر لیا تھا ۔ ورنہ وہ ان میں سے کسی ایک درندے کے ساتھ بھی لڑنے کے قابل نہ تھا ۔جب یہ سب کچھ ہو گیا تو عمرو عیار تلوار اٹھائے آگے بڑھا ۔
جنگل پار کر کے جیسے ہی وہ کھلے میدان میں آیا ۔
اس نے دیکھا کہ وہاں دور دور تک خیمے لگے ہوئے تھے اور وہاں جادوگروں کی فوج موجود تھی ۔
درمیاں میں ایک بڑا خیمہ تھا جس پر وہی سیاہ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا ۔
جس پر کھوپڑی اور ہڈیوں کا نشان موجود تھا ۔
عمرو عیار سمجھ گیا کہ یہی اس گنجے جادوگر کا خیمہ ہے ۔
وہ جیسے ہی فوج کے قریب پہنچا بے شمار جادوگر تلواریں لہراتے ہوئے اکٹھے ہو کر اس کی طرف لپکے ۔جبر دار ۔ رک جاؤ ۔ میرا نام خواجہ عمرو عیار ہے میرا مقابلہ صرف گنجے جادوگر سے ہو سکتا ہے ۔
عمرو عیار نے چیختے ہوئے کہا تو سارے جادوگر رک گئے اسی لمحے اس جھنڈے والے خیمے کا دروازہ کھلا اور وہی گنجا جادوگر باہر نکل آیا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی خوفناک تلوار تھی ۔
آخر کار تمہاری موت تمہیں یہاں کھینچ ہی لائی عمرو عیار ۔
اس گنجے جادوگر نے باہر آ کر چیختے ہوئے کہا ۔
یہ تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کی موت آئی ہے ۔
لیکن تم جیسا بزدل جادوگر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا جو مجھ جیسے کمزور سے آدمی کو دیکھ کر خوف سے فرار ہو جائے ۔
عمرو عیار نے کہا ۔
ایسا میں نے شہنشاہ افراسیاب کے حکم پر کیا تھا ورنہ تم جیسے مچھر کو تو میں صرف پھونک مار کر اڑا دوں ۔
گنجے جادوگر نے چیختے ہوئے کہا ۔
تو پھر آؤ کرو مقابلہ ۔ پھر دیکھو تم بھینسے اس مقابلے میں کامیاب ہوتے ہو یا پھر میں ۔
عمرو عیار نے اس کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا تو گنجے جادوگر نے آگے بڑھ کر اپنا ایک ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور اسے زور سے عمرو عیار کی طرف جھٹکا ۔
اس کے ہاتھ سے آگ کی لہریں نکل کر عمرو عیار کی طرف بڑھیں لیکن عمرو عیار مطمئن کھڑا رہا ۔
کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی تلوار کے دستے سے لومڑی کی دم بندھی ہوئی ہے اس لئے اس پر جادو کا اثر نہ ہو گا اور وہی ہوا ۔
آگ کے شعلے عمرو عیار کے قریب آکر بجھ گئے ۔ اب تو گنجا جادوگر غصے کی شدت سے پاگل ہو گیا ۔ اس نے مسلسل عمرو عیار پر جادو کے حملے کرنے شروع کر دیئے ۔
انتہائی خوفناک حملے کبھی انگاروں کی بارش ۔ کبھی خوفناک تیروں کی بارش ۔ کبھی بڑے بڑے پتھروں کی بارش۔ لیکن عمرو عیار ان سب سے محفوظ اپنی جگہ صیح سلامت کھڑا رہا ۔
جب گنجا جادوگر اپنے جادو کے حملوں میں ناکام ہو گیا تو اس نے تلوار سنبھالی اور پوری قوت سے آگے بڑھ کر عمرہ عیار پر حملہ کر دیا ۔
رک جاؤ پہلے میری بات سن لو عمرو عیار نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تو گنجا جادوگر رک گیا ۔
کیا بات ہے ۔ گنجے جادوگر نے حیران ہو کر کہا ۔تمہارے سارے حملے ناکام ہو گئے ہیں ۔
میں چاہوں تو ایک لمحے میں تمہیں ہلاک کر دوں لیکن میری ایک تجویز ہے ۔
اگر تم اس پر عمل کرو تو میں خاموشی سے واپس چلا جاؤں گا اور وہ تجویز یہ ہے کہ تم مجھے اپنی کلائی پر تلوار کا ایک معمولی سا زخم لگانے دو تاکہ میں اپنے سردار کو بتا سکوں کہ میں نے واقعی تمہارا مقابلہ کیا ہے ورنہ وہ یقین نہ کرے گا اور میں ایسا اس لئے چاہتا ہوں کہ میں کسی گنجے کو ہلاک نہیں کرنا چاہتا ۔
کیونکہ مجھے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ جب میں کسی گنجے کو ہلاک کروں گا تو میری زندگی کے دس سال کم ہو جائیں گے ۔
عمرو عیار نے فورا ہی عیارانہ لہجے میں کہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ گنجا جادوگر جسمانی طور پر اس سے زیادہ طاقتور ہے اور لڑنے میں بھی مہارت رکھتا ہے ۔
اس لئے وہ اس کی پیشانی پر پہلا وار نہ کر سکے گا اور اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو پھر وہ خود ہلاک ہو جائے گا ۔
کیا تم وعدہ کرتے ہو کہ تم واپس چلے جاؤ گے ۔
گنجے جادوگر نے فورا رضا مند ہوتے ہوئے کہا کیونکہ وہ بھی عمرو عیار سے خوفزدہ ہو چکا تھا جس پر اس کا کوئی جادو نہ چل سکا تھا اور عمرو عیار نے فورا وعدہ کر لیا ۔
ٹھیک ہے تو لگاؤ زخم ۔
گنجے جادوگر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر دیا ۔
فکر نہ کرو صرف ہلکا سا زخم لگاؤں گا ۔
بس تمہیں تھوڑی سی تکلیف سی ہو گی ۔
عمرو عیار نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے تلوار اٹھائی اور بظاہر اس طرح تلوار کو آگے بڑھایا جیسے وہ اس گنجے جادوگر کی کلائی پر زخم لگانا چاہتا ہو لیکن پھر اس نے اچانک پوری قوت سے تلوار کو گھمایا اور اس کی تلوار ٹھیک گنجے جادوگر کی پیشانی پر موجود کھوپڑی اور ہڈیوں والے نشان پر پڑی اور چونکہ تلوار پر بھینسے شیر اور چیتے کا خون لگا ہوا تھا اس لئے جیسے ہی تلوار اس نشان پر پڑی گنجا جادوگر بری طرح چیختا ہوا نیچے گرا اور چند لمحے تڑپنے کے بعد ہلاک ہو گیا ۔
اس کے ہلاک ہوتے ہی اس کی ساری فوج بھی غائب ہو گئی ۔
میرا نام گنجا جادوگر تھا ۔
میں بے حد طاقتور جادوگر تھا مگر عمرو عیار نے مجھے عیاری سے ہلاک کر دیا ۔
گنجے جادوگر کی روتی ہوئی آواز سنائی دی اور عمرو عیار بے اختیار خوشی سے ناچنے لگا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب وہ سردار امیر حمزہ سے اس گنجے جادوگر کی ہلاکت پر بہت بڑا انعام حاصل کرے گا ۔
اس نے گنجے جادوگر کی گردن کاٹی اور اسے زنبیل میں ڈال کر واپس جنگل کی طرف مڑ گیا ۔
وہ خوشی سے اچھلتا ہوا آگے بڑھا چلا جا رہا تھا ۔
ختم شد

بچوں کی کہانیاں ۔ سیب کا درخت

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں