دسمبر کی وہ سرد رات ۔ تیسرا حصہ

 
 
اس پر بھائی نے بابا سے کہا تو بابا اب آپ ان کی کیسے مدد کریں گے ۔ بابا نے کہا پتا نہیں پر میں وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں اور انداز کر سکتا ہوں کہ گزشتہ رات انہوں نے کیسے نکالی ہو گی ۔ اتنے میں امی کھانا لے کر آ گئیں سب نے کھانا کھایا اور بابا نے وکی بھائی کو بولا چلو ذرا عالم صاحب کی طرف ہو کر آ تے ہیں تو امی نے وجہ پوچھی جس پر بابا نے کہا واپس آکر بتاتے ہیں اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں۔ امی نے بولا سب خیر تو ہے جو آپ اس ٹائم رات کے وقت اچانک عالم صاحب کی طرف جا رہے ہیں بابا نے کہا ہاں ہاں سب خیریت ہے۔ تو امی نے کہا ٹھیک ہے لیکن چائے تو پیتے جائیں۔ بابا نے جلدی میں بائیک کی چابی جیب سے نکالتے ہوئے کہا آ کر پیوں گا ۔اس کے بعد بھائی اور بابا عالم صاحب کی طرف نکل پڑے۔ امی نے گیٹ بند کر کے واپس آتے ہوئےکہا اللہ خیر کرے پتا نہیں کیا ہوا ہے جو تمہارے بابا اتنی رات کو عالم صاحب کی طرف گئے ہیں۔ اب گھر میں صرف امی عاصم بھائی اور میں تھا ۔ ہم تینوں ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگئے ابھی کچھ وقت گزرا تھا اتنے میں اوپر کی منزل پر کسی کے بھاری قدموں سے چلنے کی آواز سنائی دی۔ عاصم بھائی نے کہا امی ایسا نہیں لگ رہا جیسے اوپر کوئی چل رہا ہے
 
 امی عاصم بھائی کی طرف دیکھا اور نے ٹی وی کی آواز کم کی اور سنسنے کی کوشش کی آواز پھر سے سنائی دی جس پر امی نے ڈرتے ہوئے انداز میں کہا ہاں کوئی اوپر چل رہا ہے پر یہ کون ہو سکتا ہے سب لوگ تو نیچے ہیں بھائی نے کہا امی آپ چھوٹے کے پاس یہیں روکیں میں دیکھ کر آتا ہوں جس پر امی نے عاصم بھائی کی بازو پکڑتے ہوئے کہا نہیں نہیں بیٹا تم مت جاؤ تمہارے بابا اور بھائی بھی گھر پر نہیں ایسے میں تمہارا اکیلے اوپر جانا ٹھیک نہیں ہے ایسا نہ ہو کوئی چور چکا گھر میں گھس آیا ہو اور وہ تمہیں کوئی نہ نقصان پہنچا دے ۔عاصم بھائی نے کہا امی ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ مجھے جا کر دیکھ لینے دیں۔ یہ نہ ہو کوئی چوری کر کے آرام سے چلا جائے اور ہم یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں امی نے کہا چلو پھر ہم سب ایک ساتھ چلتے ہیں ۔
 
 عاصم بھائی نے کہا اچھا چلیں پھر ۔ہم آ ہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر کی جانب بڑھنے لگے اور جب ہم اوپر کی منزل پر پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا ہم نے سب جگہ دیکھا پر کوئی نظر نہیں آیا اور پھر امی نے کہا لگتا ہے کہ ہمیں کوئی وہم ہوا ہوگا یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے عاصم بھائی نے کہا لیکن امی ہم نے آواز تو سنی تھی نا امی نے کہا ہاں سنی تو تھی پر دیکھو یہاں واقعی میں کوئی نہیں ہے تبھی ایک بار پھر سے تیسری منزل پر وہی آواز سنائی دی جیسے کوئی اوپر چل رہا ہے تو عاصم بھائی نے کہا امی واقعی میں کوئی تو ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ اوپر کی منزل پر چلا گیا ہے اس بار امی نے چلو اوپر جا کر دیکھتے ہیں اور ہم سب پھر سے آ ہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھنے لگے ابھی آدھی سیڑھیاں ہی چڑھے تھے کہ اوپر کی منزل سے اچانک ایک خوفناک چیخ سنائی اور ہم تینوں ڈر گئے 
 
امی نے کہا چلو جلدی سے نیچے چلو اوپر چور نہیں بلکہ کچھ اور ہے یہ کہہ کر امی جلدی سے نیچے کی طرف جانے لگیں اور ہم سے بھی جلدی نیچے اترے کو کہا اور ہم تینوں نیچے آ گئے اور ٹی وی لانج میں خاموش سے بیٹھ گئے اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔امی نے عاصم بھائی کو بولا لگتا ہے تمہارے بابا آ گئے جلدی جا کر دروازہ کھولو۔ عاصم بھائی بھاگ کر دروازہ کھولنے گئے اور کچھ پل میں واپس آ گئے امی نے فوراً پوچھا آگئے بابا ؟ عاصم بھائی نے کہا نہیں امی میں نے دروازہ کھولا پر باہر کوئی نہیں تھا ۔امی حیرت سے ڈرتے ہوئے بولی تو پھر دروازہ کس نے کھٹکھٹایا تھا ؟ عاصم بھائی نے سر نہ میں ہلاتے ہوئے کہا مجھے نہیں پتہ امی ۔ اس کے بعد امی اور میں اور بھی ڈر گئے امی نے عاصم بھائی کو بولا یہاں آ کر بیٹھو اس کے بعد امی نے ہم دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ گلے لگا لیا اور رونے لگیں۔عاصم بھائی نے کہا امی آپ روئیں مت اللہ پاک سب ٹھیک کر دیں گے یہ جو بھی ہے یہ ہمیں کچھ نہیں کر سکتا اگر کرنا ہوتا تو اب تک کر چکا ہوتا یہ صرف ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے ارو کچھ نہیں ۔
 
مجھے پتا تھا عاصم بھائی جو کہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے پر میں اور امی ڈر سے کانپتا شروع ہو گئے تھے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے اتنے میں پھر کسی کے سیڑھیوں سے نیچے اترے کی آواز سنائی دی عاصم بھائی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے اشارے سے ہمیں خاموش رہنے کا کہا میں نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر عاصم بھائی نے تھوڑا آ گے جا کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا اور جلدی سے واپس آگئے امی نے پوچھنا چاہا تو عاصم بھائی نے فوراً امی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر سے اسی عشارے میں ہمیں چپ رہنے کا کہا اور اپنی ایک انگلی سے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا پھر ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کو اوپر کی طرف نوچتے ہوئے ہمیں اپنے اشارے سے کچھ سمجھانا چاہا ہمیں سمجھ نہیں آئی عاصم بھائی نے پھر سے انگلی سیڑھیوں کی طرف کی اور پھر اپنے دونوں پاؤں کی ایڑیاں سامنے کی طرف گھوماتے ہوئے ہمیں اپنی ایڑیوں کی طرف دیکھنے کو کہا جس پر امی نے فوراً ڈر کے اپنے دوپٹے سے اپنے ہونٹوں کو ڈانپ لیا اور بہت زیادہ ڈر گئیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے کہ سیڑھیوں سے خوفناک قسم کی آوازیں سنائی دینے لگی جیسے کوئی مرد اور عورت ایک ساتھ بھاری آواز میں ھاں۔۔۔۔۔۔ ھاں ۔۔۔۔۔۔ھاں کی لمبی آواز نکال رہے ہوں میں نے عاصم بھائی کی طرف دیکھا تو وہ بھی بہت ڈرے ہوئے نظر آرہے تھے ان کے رونگٹے بھی کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے ہمیں اشارے سے اندر کے کمرے میں جانے کا کہا اور ہم تینوں آہستہ آہستہ سے اندر کے کمرے میں چلے گئے اور کمرہ بند کر لیا اور پھر عاصم بھائی نے آہستہ سے کہا امی ایک بہت ہی لمبی عجیب سی عورت ہماری سیڑھیوں پر عجیب طریقے سے لیٹی ہوئی ہے امی نے کہا کیا مطلب تو عاصم بھائی نے بتایا کہ اس کے پاؤں پہلے فلور والی منزل پر ہیں اور اس کا سر نیچے سے تین چار سیڑھیوں کے فاصلے پر ہے اور وہ ایسے لیٹی ہوئی ہے جیسے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ رہی ہو اس کے منہ کا رخ اوپر کی منزل کی طرف ہے اس کے بال گراؤنڈ فلور والی پہلی سیڑھی پر ہیں
 
 امی بولی یہ ضرور کوئی ہوائی چیز ہے اس کے بعد ہم سب آیت الکرسی پڑھنے لگ گئے پھر دروازے پر دستک ہوئی امی نے عاصم بھائی سے کہا اب نہیں جانا یہ اسی چیز کا کام ہے اور عاصم بھائی آرام سے بیٹھ گئے دروازہ تھوڑی دیر بعد بجتا رہا پر ہم نے نہیں کھولا اور کچھ دیر کے بعد دروازہ بجنا بند ہو گیا پھر کسی کے صحن میں پھلانگنے کی آواز سنائی دی عاصم بھائی نے کہا امی کوئی صحن میں کودا ہے امی نے بولا نہیں تم باہر مت جانا ۔ اور پھر کسی کے دروازہ کھولنے کی آواز سنائی دی امی کہا یہ دروازہ کس نے کھولا اور اچانک سے بابا کی آواز سنائی دی عاصم بھائی نے فوراً کمرے کا دروازا کھول کر دیکھا تو سامنے صحن میں بابا کھڑے ہوئے تھے اور وکی بھائی دروازہ بند کر رہے تھے عاصم بھائی نے فوراً امی سے کہا امی بابا آ گئے ہیں میں اور امی فوراً کمرے سے باہر نکل آئے دیکھا تو بابا اور بھائی تھے بابا بولے تم سب کہاں تھے میں بہت دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا پر تم لوگ کھول کیوں نہیں رہے تھے ؟ امی نے کہا اللہ کا شکر ہے ہم لوگوں نے آپ کو دیکھ لیا ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا ۔بابا بولے آخر ہوا کیا تھا اور تم سب لوگ ڈرے کیوں ہوے ہو ۔ 
 
عاصم بھائی بولے بابا اج پھر سے کسی چیز نے بہت تنگ کیا ہے اور ہمیں بہت ڈرایا تھا جسکی وجہ سے ہم اندر چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے ایک بار دروازے پر دستک ہوئی میں نے کھولا تو کوئی نہیں تھا اسی وجہ سے ہم نے دوبارہ دروازہ نہیں کھولا ۔ بابا نے کہا اب وہ چیز کہاں ہے عاصم بھائی نے کہا پتا نہیں بابا ہم جب اندر والے کمرے میں تھے تو اس وقت وہ چیز سیڑھیوں پر تھی ۔ اتنے میں وکی بھائی بولے ہاں ہاں بابا جب میں گھر میں پھلانگا تھا تو میں نے بھی کوئی کالی سی چیز سیڑھیوں پر سے اوپر کی طرف جاتی دیکھی تھی اسی وجہ سے میں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا تھا لیکن دروازہ کھولنے کے بعد جب میں نے واپس اس طرف دیکھا تو کوئی نہیں تھا ۔ بابا نے ہم سب کی طرف دیکھا اور کہا یہ معاملہ تو دن بہ دن بہت ہی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی چیز نے پھر سے ہمارے گھر کو بسیرا بنا لیا ہے اتنے میں پھر سے اوپر سے ایک زور دار چیخ کی آواز سنائی دی بابا نے فوراً امی سے کہا تم لوگ جلدی سے اندر جاؤ اور کمرہ بند کر لو میں اور وکی دیکھ لیتے ہیں اس کو عاصم بھائی بولے بابا میں بھی آؤں گا بابا نے کہا نہیں تم اپنی امی اور چھوٹے بھائی کو اندر لے کر جاؤ جلدی اس کے بعد بابا اور وکی بھائی ہاتھ ڈنڈا اور ایک لوہے کا راڈ لیئے اوپر کی منزل پر چلے گئے ابھی وہ تھوڑا ہی اوپر گئے ہوں گے کہ کسی بھاری بھرکم چیز کی صحن میں کودنے کی زور دار آواز آئی اور ساتھ ہی گیٹ کی دھڑ سے آواز آئی بابا اور وکی جلدی سے واپس پلٹے تو دیکھا کوئی عجیب سی لمبی سی خوفناک شکل والی عورت بند گیٹ کے اوپر سے ایسے گزر رہی تھی کہ جیسے وہ کسی دو فٹ کی دیوار سے اوپر سے گزر رہی ہو اس کا ایک پاؤں گھر کے اندر اور دوسرا گھر کے باہر تھا وہ بہت ہی خوفناک اور بڑی نظر آرہی تھی ۔۔۔۔
 
اور جیسے ہی یہ گھر سے باہر گی تو اچانک سے بہت سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں شروع ہو گئیں پھر کتوں کی عجیب طرح کی دردناک آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے ان کو کوئی بری طرح سے زبح کررہا ہو اور کچھ دیر کے بعد کتوں کی آوازیں بند ہو گئیں جیسے کہ کسی نے ان کو غائب ہی کر دیا ہو اس کے بعد بابا اور بھائی ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے پھر بابا نے اندر آ کر ہمیں یہ سب بتایا اور کہا میں نے آج تک کبھی اتنی بڑی ہوائی چیز نہیں دیکھی یہ جو بھی ہے اسی جگہ پر ہی نظر آنے لگی ہے اس کا مطلب صائم بھائی کے گھر بھی اسی چیز نے ہی ان کو تنگ کیا ہوگا عاصم بھائی نے بابا سے کہا بابا پھر اب ہم اس سے کیسے جان چھڑائیں گے؟ بابا نے کہا یہ تو مجھے پتا نہیں لیکن اس کا اس گھر میں یا اس گھر کے آس پاس نظر آنا یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ آرام سے جانے والی چیز نہیں ہے امی فوراً سے بولیں آپ عالم صاحب سے ملنے گئے تھے نہ تو کیا آپ اسی چیز کے بارے میں ان سے ملنے گئے تھے بابا نے کہا نہیں میں تو صائم بھائی کے گھر جو ہوا تھا اس کے بارے میں عالم صاحب سے ملنے گیا تھا ۔ امی نے بابا سے کہا تو پھر کیا کہا عالم صاحب نے ؟
 
 بابا نے کہا عالم صاحب تو گھر پہ بیمار پڑے ہیں اس وجہ سے ہم نے ان سے اس بارے میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ہم بس ان دادرسی کرکے واپس آ گئے وہ ہم سے ان کے پاس آنے کا مقصد پوچھتے رہے مگر ہم نے کہا عالم صاحب بس ہمیں پتا چلا آپ بیمار ہیں تو اس وجہ سے آپ کی طبیعت کا پوچھنے آ گئے تھے ۔ عالم صاحب بولے آپ کا بہت بہت شکریہ اور سنائیں سب کچھ ٹھیک ہے بیسمنٹ میں اب تو نہیں کسی قسم کا کوئی مسلہ ؟ ہم نے کہا نہیں عالم صاحب اللہ کا شکر ہے کہ بیسمنٹ اب بلکل ٹھیک ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی مسلہ نہیں ہے ۔عالم صاحب نے کہا چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن مجھے آپ کے چہروں سے لگ رہا ہے جیسے بات کچھ اور ہے اور آپ لوگ وہ بات کرنے سے ہچکچا رہے ہی ۔ 
 
ہم نے عالم صاحب سے کہا نہیں نہیں حضرت آپ کی دعا سے سب ٹھیک ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے اس کے بعد ہم نے عالم صاحب سے اجازت لی اور واپس آ گئے امی نے کہا آپ ان کو بتا ہی دیتے کچھ کہ ہمارے بیٹوں کے ساتھ جو بکری کے بچے والا واقع ہوا تھا بابا نے کہا میں تو ان کو بتانے کی نیت سے ہی گیا تھا پر ان کی حالت دیکھ کر میں نے بات میں نے بات کو بدل دیا کیونکہ وہ بہت کمزور نظر آرہے تھے ایسے میں اگر میں ان کو وہ سب بتاتا تو وہ ہمارے ساتھ اسی حالت میں ہی آجاتے اور ہو سکتا تھا کہ ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا اس وجہ سے میں نے ان کو کچھ نہیں بتایا امی بولیں جی جی پھر تو آپ نے بلکل سہی کیا ہم اپنی پریشانی میں کسی جان کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے بابا بولے تم فکر نہیں کرو صبح اس بارے میں کسی اور عالم سے بات کروں گا
 
 بس دعا کرو صائم بھائی کے گھر میں بھی سب خیریت سے ہوں ان کے بیٹے کی بازوں بھی اس چیز کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے امی بولی یہ سب کب ہوا تھا بابا نے کہا گزشتہ رات ۔جب ہمارے بیٹوں کو بھی کسی ہوائی چیزوں نے تنگ کیا تھا تو امی نے کہا اس کا مطلب ہے یہ چیز ہمارے بیٹوں کو تنگ کرنے کے بعد واپس گئ ہی نہیں تھی اور وہ صائم بھائی کی طرف چلی گئی ہو گی بابا نے کہا ہاں ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد بابا نے کہا چلو اب رات بہت ہو گئی ہے اب ہمیں سونا چاہیے ویسے اتنا سب ہونے کے بعد نیند تو نہیں آئے گی پر پھر بھی ہمیں سونے کی کوشش کرنی چاہیے ۔بابا نے یہ کہا اور سونے چلے گئے اور ہم تینوں بھائی بھی ایک ہی کمرے میں سو گئے رات کے تقریباً 3 بجے کا ٹائم تھا کہ میری آنکھ پھر سے کھل گئی میں نے لیٹے ہوئے ہی دیکھا بھائی سوئے ہوئے تھے اس سے پہلے میں آنکھیں دوبارہ بند کرتا اتنے میں پھر سے کوئی شیطانی سی آواز سنائی دی جیسے کوئی ہمارے کمرے کے دروازے پر ہی بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لے رہا ہو میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا کہ واقعی میں دروازے کے پیچھے کوئی ہے میں نے جلدی سے اپنا منہ کمبل میں چھپا لیا اور کمبل کے اندر سے آنکھیں کھولے وہ خوفناک آواز سنتا رہا اور مجھے خوف سے ہی سردی میں پسینے آنے لگے اور میں نے کمبل کے اندر سے ہی دبی ہوئی آواز سے بھائی کو جگانا چاہا پر بھائی نہیں جاگا پھر میں نے تھوڑی ہمت کر کے بھائی کو ہلایا تو بھائی نیند میں ہی بولا اب کیا ہے ؟
 
 میں نے پھر دبی آواز میں کہا بھائی دروازے پر کوئی ہے بھائی نے کہا سو جاؤ کچھ نہیں ہے اتنے میں دروازے کے ہینڈل کی آہستہ آہستہ سے نیچے ہونے کی آواز سنائی دی اب تو جیسے میری جان ہی نکل گئی تھی اور نے پھر سے خود کو پوری طرح کمبل میں چھپا لیا میں سوچ رہا تھا کہ اب وہ چیز ضرور اندر آنے لگی ہے میں نے جلدی سے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا اور اس چیز کے اندر آنے کا سوچنے لگا لیکن دروازہ کھلنے کی آواز نہیں آئی۔ اتنے میں بھائی جاگ گیا اور اس نے آٹھ کر کمرے کی لائٹ جلا دی تبھی میں نے فوراً کمبل سے منہ باہر نکالا تو اور میں بھائی کی طرف دیکھا تو وہ دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ دروازے کا ہینڈل ابھی تک کبھی نیچے کبھی اوپر ہو رہا تھا لیکن دروازے پر اندر سے کنڈی لگی تھی جسکی وجہ سے دروازہ نہیں کھل سکتا تھا بھائی نے میری طرف دیکھا اور اشارے سے مجھے چپ چاپ لیٹے رہنے کو کہا اور وہ بھی واپس بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا اور دروازے کو دیکھتا رہا کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ اس چیز کے سانس لینے کی آواز بہت تیز سنائی دے رہی تھی اور یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا کبھی وہ چیز عجیب طرح سے ہنسنے لگ جاتی اور کبھی زور زور سے سانس لینے لگتی اور جیسے ہی فجر کی اذان کا وقت ہوا یہ سلسلہ اچانک سے تھم گیا اور ساتھ ہی اذان کی آواز سنائی دینے لگی
 
 اذان کے ختم ہونے کے بعد بھائی نے ایک لمبی آہ بھری اور واپس اپنی جگہ پر لیٹ گیا مجھے بھی نیند آگئی ۔صبح ہوئی سب جاگے ناشتہ کیا بھائی نے بابا سے کہا بابا رات کے وقت وہ چیز پھر سے آئی تھی اور بھائی نے بابا کو وہ سب کچھ بتایا جو رات کے 3 کے بعد ہوا تھا تو بابا نے کہا تم لوگ بلکل بھی پریشان ہو آج میں اس کا کوئی نا کوئی حل ضرور کرکے واپس آؤنگا اس کے بعد سب اپنے اپنے کاموں کے لیے گھر سے روانہ ہوگئے میں سکول نہیں گیا کیونکہ میں نے بخار کی وجہ سے چھٹی کی تھی اس کے بعد امی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی میں اوپر چھت پر ٹہلنے کے لیے چلا گیا اور ٹہلتے ہوئے میں نے گھر کے ساتھ والے خالی پلاٹ کی طرف دیکھا تو اس میں 4 ٫5 کتے مرے پڑے تھے ان کے جسم کے بہت سے حصے غائب تھے کسی آنتیں پیٹ سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور کسی کا سر ہی ساتھ نہیں تھا بہت بری حالت تھی ان مرے ہوئے کتوں کی ۔ میں جلدی سے دیوار سے پیچھے ہٹ گیا اتنے میں کسی نے آواز دی بیٹا کیا حال ہے میں نے ساتھ والے گھر کی چھت پر دیکھا تو وہاں صائم انکل کھڑے تھے میں نے فوراً سے سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور بابا کا پوچھا میں نے کہا وہ تو آفس چلے گئے ہیں ۔ پھر میں کہا صائم انکل آپ نہیں گئے آفس ؟ انہوں نے کہا نہیں بیٹا میں نے آفس سے 2 ۔3 چھٹیاں لی ہوئی ہیں آفس سے میرے بیٹے کا بازو ٹوٹ گیا تھا اس وجہ سے اس کی دیکھ بھال کر رہا ہوں آجکل میں نے کہا جی انکل مجھے معلوم ہے ناصر بھائی کا بازو کیسے ٹوٹا تھا تو صائم انکل بڑی حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے اور کہا اچھا۔۔۔ 
 
میں نے کہا جی انکل اسی وجہ سے بابا آج کسی عالم صاحب کو لے کر آئینگے تو صائم انکل بولے بس بیٹا دعا کرو کوئی اچھا عالم مل جائے اور اس چیز سے ہماری جان چھوٹ جائے کیونکہ وہ چیز کل رات بھی ہمیں تنگ کرتی رہی ہماری ساری مرغیوں کو چیر پھاڑ ڈالا اور ہمارے کچن کے سارے برتن توڑ پھوڑ دیئے اس کے بعد باہر چلی گئی ہم سب نے تو خود کو کمرے میں بند کر کے اپنی جان بچائی ۔ تو میں نے بھی جلدی سے کہا جی انکل گزشتہ رات وہ ہمارے گھر میں بھی آئی تھی اور ہمیں بہت ڈرایا تھا اس نے اور صبح اذان کی آواز سن کر کہیں چلی گئی صائم انکل بولے بیٹا یہ تو بہت فکر والی بات ہے پر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر یہ چیز آ کہاں سے گئ اور یہ ہمیں ہی کیوں ستا رہی ہے مجھے تو لگتا ہے ہمیں یہاں سے گھر چھوڑنا پڑے گا۔ میں نے کہا نہیں انکل ایسی نوبت نہیں آئے گی انشاء اللہ بابا ضرور اس کا کوئی حل نکال کر آئیں گے آج۔ اتنے میں انٹی کی آواز آئی وہ صائم انکل کو بولا رہی تھیں صائم انکل نے کہا اچھا بیٹا جب آپ کے بابا آجائیں تو ان سے کہنا میں ان کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں یہ کہہ کر صائم انکل نیچے چلے گئے اور میں واپس ٹہلنے لگا اور کچھ دیر بعد امی نے مجھے آواز دی اور میں نیچے چلا گیا امی نے مجھے پرچون کی دکان جو ہمارے گھر سے کچھ ہی دوری پر تھی اس پر کچھ سامان لینے کے لیے بھیجا اور جب میں وہ سامان لے کر واپس آرہا تو میں خالی پلاٹ میں ایک بڑی عجیب سی کالے رنگ کی بلی دیکھی اس کی دم بہت ہی زیادہ لمبی تھی اس نے میری طرف دیکھا تو عجیب طرح سے منہ کھولا اور پھر کہیں بھاگ گئی ۔۔۔
 
 میں گھر آیا سامان امی کو دیکر پھر سے چھت پر چلا گیا اتنے میں میں نے چھت سے اسی خالی پلاٹ کی طرف دیکھا جہاں بلی بھاگی تھی تو وہاں بلی پھر سے نظر آئی میں نے چھت سے ایک چھوٹا سا کنکر اٹھایا اور بلی کی طرف پھینکا بلی نے مجھے ایسے دیکھا جیسے مجھے کھا ہی جائے گی اور پھر سے بھاگ کر کہیں غائب ہو گئ میں پھر ٹہلنے لگا ابھی کچھ سیکنڈ گزرنے تھے سیڑھیوں سے کسی کے اوپر آتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی میں سمجھا کہ امی آرہی ہیں اور پھر اچانک سے سیڑھیوں سے وہی بلی نمودار ہوئی لیکن اس بار اس کی دم اتنی لمبی ہو گئ تھی ک بلی تو اوپر آ گئی تھی پر اس کی ابھی تک سیڑھیوں پر ہی تھی جیسے کوئی رسی ہو بلی آنکھین پھاڑ کر میری طرف دیکھ رہی تھی میں نے اس ششکارنے کی کوشش کی پر بلی ٹس سے مس نہیں ہوئی اس نے پھر سے اپنا منہ کھولا اور اس کے بڑے بڑے دانت تھے جنہیں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا کیونکہ آم طور پر بلیوں کے دانت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اس کے دانت کتوں کی طرح تھے اس نے میری طرف بڑھنا شروع کیا اور میں پیچھے کی طرف ہٹتا جا رہا تھا تبھی سیڑھیوں سے پھر کسی کے اوپر آنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی امی کی آواز آئی بلی فوراً چھلانگ لگا کر دیوار پر چڑھی اور خالی پلاٹ جہاں کتے مرے پڑے تھے وہاں کود گئ میں یہ سب دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا کہ آخر چوتھی منزل سے بلی پلاٹ میں کیسے کود سکتی ہے میں نے فوراً اس طرف جا کر نیچے پلاٹ کی دیکھا تو بلی نیچے مرے ہوئے کتوں کو کھا رہی تھی میں بہت زیادہ ڈر گیا اتنے میں امی نے دیکھتے ہوئے بولا کیا ہوا ؟ 
 
 تم اتنا ڈرے ہوئے کیوں لگ رہے ہو میں نے امی سے کہا امی ذرا ادھر آ کر نیچے دیکھیں امی آ گے بڑھتی ہوئی بولیں کیا ہے وہاں امی نے پلاٹ میں دیکھا اور بولیں توبہ توبہ یہ وہی کتے ہیں نہ جو شاید رات کو بھونک رہے تھے ۔پر ان کی یہ حالت کیسے ہو گئ ۔ میں نے امی سے کہا امی آپ کو پلاٹ میں وہ بلی دکھائی نہیں دی جو کتوں کو کھا رہی ہے تو امی حیرت سے بولیں کیا کہا بلی کتوں کو کھا رہی ہے وہاں تو کوئی بلی نہیں ہے میں نے فوراً پلاٹ میں دیکھا تو واقعی میں بلی وہاں نہیں تھی میں نے کہا امی ایک بڑی سی بلی ہماری چھت سے اس پلاٹ میں کودی تھی اور وہ پلاٹ میں پڑے کتوں کو کھا رہی تھی ۔ امی بولیں یہ تم کیا کہہ رہے ہو بھلا اتنی اونچی جگہ سے کوئی بلی زمین پر کیسے کود سکتی ہے مجھے لگتا ہے تم رات والے واقعے سے ابھی تک ڈرے ہوئے ہو خیر چھوڑو تم ڈرو نہیں تمہارے بابا آج اس چیز کا مسلہ حل کر لیں گے اب چلو آرام سے بیٹھ جاؤ دیکھو کتی اچھی دھوپ لگی ہے ۔ میں اور امی کافی دیر تک دھوپ میں بیٹھے رہے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد باہر گیٹ پر دستک ہوئی میں اوپر سے ہی باہر گیٹ پر دیکھا تو بابا اور ایک داڑھی والے کوئی مولوی صاحب تھے میں نے فوراً امی کو بتایا اور ہم دونوں نیچے آگئے میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور بابا اور مولوی صاحب کو سلام کیا انہوں نے جواب دیا بابا مولوی صاحب کو ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے ۔۔۔
 
 چائے پی اور بابا نے مولوی صاحب کو سب کچھ بتایا جس پر مولوی صاحب نے کہا مجھے آپ کے پورے گھر کو دیکھنا ہے اور بابا نے ان کو پورے گھر کا معائنہ کروایا بیسمنٹ سے لے کر اوپر چھت تک ہر جگہ دیکھائی ۔ سب جگہ دیکھنے کے بعد مولوی صاحب نے کہا اب وہ ساتھ والا گھر دکھائیں جہاں اسی چیز نے حملہ کیا تھا بابا مولوی صاحب کو لے کر صائم انکل کے گھر چلے گئے وہاں بھی ہر جگہ کا معائنہ کرایا اور صائم انکل نے بھی انہیں سب کچھ بتایا اس کے بعد مولوی صاحب صائم انکل بابا اور میں باہر گلی میں ہی کھڑے ہو گئے مولوی صاحب نے کہا میں نے سب حسابِ لگا لیا ہے آپ لوگوں کے گھروں میں شیطانی چیزوں کا سایہ ہو گیا ہے اور اس کے لیے مجھے بہت محنت اور پڑھائی کرنا ہوگی اور ساتھ میں کچھ چیزوں کی بھی ضرورت پڑے گی جو میں نے علم کرتے وقت استعمال میں لانی ہیں تو آپ لوگوں کام تو ہو جائے گا پر آپ کے کچھ پیسے لگیں گے پر اس نصف کا حدیہ آپ کو مجھے ابھی دینا ہو گا تاکہ میں اس کام کی تیاری جلدی سے جلدی شروع کر سکوں بابا نے کہا جی جی مولوی صاحب کتنا حدیہ دینا ہے ابھی مولوی صاحب نے کچھ حساب لگایا اور کہا سات ہزار آپ کو ابھی دینے ہیں اور باقی کا حدیہ کام مکمل کرنے پر دینا ہو گا ۔۔۔
 
 بابا نے فوراً پیسے نکالنے اور مولوی صاحب کو دے دیئے اور مولوی نے کہا اب میں مغرب کی نماز کے بعد آؤں گا بابا نے کہا بس مولوی صاحب آپ جلدی سے جلدی ہماری اس چیز سے جان چھڑا دیں تو مولوی صاحب نے کہا آپ لوگ فکر نہ کرو میں اس چیز کو ایسے بھگاوں گا کہ ساری زندگی وہ ادھر کا رخ نہیں کرے گی بس آپ لوگ مغرب کی نماز تک انتظار کرو پھر میں دیکھتا ہوں اس پاگل مخلوق کو اور پھر مولوی صاحب وہاں سے چلے گئے اور صائم انکل بولے ریاض بھائی باقی کے پیسے میں دوں گا آپ فکر نہ کرنا بابا نے کہا ارے صائم بھائی آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ میرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرے ہمسائے بھی ہیں اور ایک ہمسائے کو دوسرے ہمسائے کا خیال رکھنا چاہیے اور پیسوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے مجھے۔ بس آپ دعا کریں کہ اس چیز سے ہمیں جلد از جلد چھٹکارا مل جائے صائم انکل بولے انشاء اللہ انشاء اللہ ضرور ریاض بھائی ۔پھر بابا نے گھر آ کر کھانا کھایا اور واپس اپنے آفس چلے گئے شام کو دونوں بھائی اور بابا سب گھر آ گئے اور مولوی صاحب کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔
 
 بابا نے مغرب کی نماز پڑھی اور ہم سب کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے پھر کچھ دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی بھائی نے دروازہ کھولا تو صائم انکل تھے اور بھائی انہیں بھی اپنے ساتھ اندر لے آیا اور وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر مولوی صاحب کا انتظار کرنے لگے اتنے میں مولوی صاحب بھی آگئے اور ساتھ میں اپنا ایک تھیلا بھی لے آئے بھائی نے دروازہ کھولا اور بھائی مولوی صاحب لے آیا اور آ تے ہی مولوی صاحب نے کہا تم سب لوگ یہیں رکو میں جب اس طرف آرہا تھا تو میں نے کسی چیز کو تمھارے گھر کی چھت پر منڈلاتے دیکھا ہے اب میں اس منحوس کو قابو کرنے اوپر جا رہا ہوں دیکھتا ہوں کیا کر لے گی میرا بس آپ لوگوں سے میری التجاء ہے مہربانی کرکے اوپر نہ آئیے گا ۔ یہ کہہ کر مولوی صاحب اپنا تھیلا اٹھائے اوپر چلے گئے ابھی کچھ پل ہی ہوئے تھے کہ اچانک مولوی صاحب سیڑھیوں سے نیچے کی طرف آ کر گرے ان کو کسی نے بری طرح سے زخمی کر دیا تھا ان کی آواز نہیں نکل پا رہی تھی اور وہ بری طرح سے کانپ رہے تھے بابا صائم انکل اور بھائی نے جلدی سے مولوی صاحب کو پکڑا اٹھا کر اندر کمرے میں لا کر لٹا دیا ان کی ناک اور منہ سے خون نکل رہا تھا بابا نے جلدی سے بھائی کو ڈاکٹر کو لانے کا کہا اور بھائی جلدی سے ڈاکٹر کو لانے چلا گیا اور پھر اوپر سے ایک خوفناک چیخ کی آواز سنائی دی آواز کے آ تے ہی مولوی صاحب اور کانپنے لگے بابا نے جلدی سے کپڑے سے مولوی صاحب کا خون صاف کیا اور مولوی صاحب سے کہا آپ فکر نہ کریں لڑکا ڈاکٹر کو لانے گیا ہے جلدی ہی آ جائے گا اتنے میں کوئی کالی سی چیز صحن میں آ کر بیٹھ گئی اور زور زور سے ہنسنے لگی جیسے مولوی صاحب نے اسے دیکھا تو وہ بیہوش ہو گئے ۔۔۔ 
 
بابا نے جلدی سے آ یت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور باقی لوگوں نے بھی جلدی سے آیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اتنے میں عشاء کی اذان کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی وہ چیز غائب ہو گئ پھر باہر دروازے پر دستک ہوئی صائم انکل نے جلدی سے دروازہ کھولا تو دیکھا بھائی ڈاکٹر کو کے کر آیا ہے ڈاکٹر نے مولوی صاحب کا چیکپ کیا اور پوچھا کیا ہوا تھا ان کو بابا نے کہا یہ سیڑھیوں سے نیچے گرے ہیں ڈاکٹر نے کچھ دیر تک مولوی صاحب کا ناک دبائے رکھا اور کچھ سیکنڈ کے بعد مولوی صاحب نے اک دم سے سانس لی اور ہوش میں آ گئے پھر ڈاکٹر نے جگہ جگہ ہاتھ لگا کر مولوی صاحب سے پوچھا کیا یہاں درد ہے مولوی صاحب ساتھ ساتھ بتاتے رہے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے آپ کو کوئی فیکچر نہیں آیا بس کچھ جگہوں پر اندرونی چوٹیں لگی ہیں اس کے بعد ڈاکٹر نے مولوی صاحب کو ایک انجیکشن لگایا اور کچھ دوائیاں بھی لکھ کر دے دیں اس کے بعد بھائی ڈاکٹر کو لے کر چلا گیا اور مولوی صاحب نے بابا سے کہا مجھے معاف کر دیں یہ چیز تو بہت بھیانک اور طاقتور ہے اس نے مجھے پکڑ کر اس طرح پھینکا تھا جیسے میں اس کے لیئے ۔ کوئی پلاسٹک کا کھلونا ہوں اس کی شکل سے مجھے دہشت ہو گئ تھی میرا آپ لوگوں کو یہی مشورہ ہے کہ آپ لوگ یہاں سے ہجرت کر جائیں ورنہ یہ کسی کو مار دے گی کیونکہ اس نے مجھے بولا تھا تم بیچ میں مت آؤ اور میں پکا کہہ سکتا ہوں وہ کہیں نہیں گئی بلکہ کسی جگہ پر چھپی ہوئی ہے ۔۔۔۔ 

.............................
............................ 
............................

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں