دسمبر کی وہ سرد رات ۔ چوتھا حصہ

 
 
 
کیوں کہ اس نے یہاں بسیرا کر لیا ہے اور یہ یہاں سے جانے والی نہیں ہے۔ بابا نے کہا مولوی صاحب اس کا کوئی تو علاج ہوگا مولوی صاحب نے درد سے جوجتے ہوئے انداز میں کہا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا علاج ممکن ہو لیکن یہ میرے بس سے باہر ہے اور یہ ایک ہوتی تو شاید میں کوئی حل کر لیتا پر یہ دو چیزیں ہیں اور بہت ہی خوفناک بدصورت اور ناقابل فراموش بہت ہی زیادہ طاقتور ہیں اور میں ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں اور جس طرح اس نے میری درگت بنائی ہے اب میں اس کے سامنے بھی نہیں جا سکتا ۔ پھر مولوی صاحب نے بابا سے پوچھا ریاض صاحب ویسے یہ کتنے عرصے سے یہاں ہیں اور کیا انہوں نے کبھی آپ پر ایسے حملہ کیا ہے جیسے مجھ پر کیا ؟
 
 بابا نے کہا حملہ تو نہیں کیا لیکن دو چار دنوں سے یہ ہمیں بہت تنگ کر رہی ہیں اور عجیب سی حرکتیں کر کے ہمیں ڈرا رہی ہیں ۔ تنے میں صائم انکل بھی بولے لیکن مولوی صاحب انہوں نے میرے بیٹے کو اوپر سے گرا کر اس کی بازو ٹوڑ دی ہے مولوی صاحب نے کہا بڑی حیرت کی بات ہے آپ لوگ ان کے ساتھ رہتے ہیں میں آپ کی جگہ ہوتا تو کب کا یہاں سے ہجرت کر جاتا ۔ بابا نے کہا مولوی صاحب اگر آپ ہی نا امیدی کی باتیں کریں گے تو ہم ان چیزوں سے کیسے نمٹیں گے خدارا کچھ کیجیے ہم اتنی جلدی ہجرت نہیں کر سکتے اور ویسے بھی یہ گھر میرے بابا (مرحوم ) کی نشانی ہے ہم اس گھر کو چھوڑ ایسے نہیں چھوڑ سکتے ۔ پہلے بھی اس گھر کے تہخانے میں ایسی چیزیں تھیں لیکن ہمارے جاننے والے ایک عالم صاحب (اللہ ان کو صحت عطا فرمائے ) انہوں نے ان چیزوں کو یہاں سے بھگا دیا تھا اور تب سے آج تک کسی بھی ایسی چیز نے تہخانے کا رخ نہیں کیا اور یہ جو بھی چیزیں ہیں یہ تہخانے کے علاوہ کسی بھی جگہ پر نظر آتی ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ یہ چیزیں تہخانے میں نہیں جا سکتیں اور آپ کہہ رہے ہیں ہم ان سے ڈر کر یہ گھر ہی چھوڑ دیں ۔ مولوی صاحب نے کہا تو پھر آپ کو اس معاملے میں انہی کے پاس جانا چاہیے تھا ۔بابا نے کہا عالم صاحب آجکل علیل ہیں اور ہم ان کو اس حالت میں اپنے معاملات میں نہیں گھسیٹ سکتے ۔
 
اور اگر آپ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں کسی اور بندے کا ہی بتا دیں تاکہ ہم ان کے پاس مدد مانگنے چلے جائیں ۔تو مولوی صاحب نے کہا اس کام کو ایک اور آدمی کر سکتا ہے پر وہ بہت ہی چڑچڑی طبعیت کا آدمی ہے مجھے نہیں لگتا کہ وہ آپ کے ساتھ آئے گا بابا نے فوراً کہا آپ ہمیں جلدی سے بتا دیں ہم اس کو لے آئیں گے انشاء اللہ ۔مولوی صاحب نے کہا کہ چلو پھر آپ مجھے ساتھ لے چلو میں ادھر سے ہی اپنے گھر چلا جاؤں گا اور آپ کو اس سے ملا بھی دوں گا اس کے بعد صائم انکل نے اپنی کار نکالی بابا سہارا دے کر مولوی صاحب کو کار میں بیٹھایا اور وہ مولوی صاحب کو ساتھ لے کر چلے گئے اتنے میں بھائی ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس آیا اور بولا بابا کہاں ہیں؟ ہم نے بتایا کہ وہ مولوی صاحب کو ان کے گھر چھوڑنے گئے ہیں پھر بھائی نے کہا میں نے اندر آتے ہوئے سیڑھیوں میں کسی کو دیکھا ہے امی بھائی اور میں واپس اندر والے کمرے میں چلے گئے اتنے میں باہر سے چیزوں کی توڑ پھوڑ کی آواز سنائی دی ہم خاموشی سے یہ سب سن رہے تھے اور آیت الکرسی پڑھنے لگے اور پھر کچھ دیر کے توڑ پھوڑ کی آوازیں رک گئیں اور باہر پر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی اور پھر کسی نے گیٹ پر دستک دی امی نے کہا تمہارے بابا آ گئے ہیں چلو اب باہر چلتے ہیں بھائی نے کمرے سے نکل کر فوراً باہر کا گیٹ کھولا تو واقعی میں بابا صائم انکل اور ساتھ میں ایک عجیب نکچڑا سا آدمی تھا اس کے گلے میں کافی سارے موتیوں والے ہار تھے ہاتھ میں ایک ٹیڑی میڑھی چھڑی تھی اور بڑا ہی غصے والا لگ رہا تھا۔ بابا نے کہا اندر چلیں
 
پیر صاحب۔ پھر اس نے عجیب طریقے سے اپنے سر کو جھٹکا اور اندر آتے ہی بولا مجھے بھوک لگی ہے پہلے کھانا کھاؤں گا بعد میں میں ان چیزوں کو بھی کھاؤں گا جو تمہیں تنگ کرتیں ہیں یہ بات سن کر سب حیرت سے پیر صاحب کی طرف دیکھنے لگے اور بابا فوراً امی سے کہا جلدی سے پیر صاحب کے لیے کھانا لے کر آئیں امی نے کھانا لا کر پیر صاحب کو دیا اور پیر صاحب نے کھانا پکڑا اور اسے نیچے زمین پر رکھ دیا اور خود بھی زمین پر بیٹھ کر کھانے لگے اور کھانا کھاتے ہوئے پیر صاحب نے اپنے دائیں جانب دیکھا اور کہا آؤ ادھر بیٹھو پھر اپنے بائیں جانب دیکھا اور کہا آؤ تم بھی ادھر بیٹھ جاؤ ۔ 
 
جبکہ جہاں پیر صاحب بیٹھے تھے وہاں نہ تو دائیں جانب کوئی موجود تھا اور نہ بائیں جانب کوئی تھا ۔ہم سب ایک ساتھ ایک سائیڈ پر تھے تو امی نے بابا سے آہستہ سے پوچھا یہ پیر صاحب کن چیزوں کو کھانے کی دعوت دے رہے ہیں وہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا بابا نے کہا اب مجھے کیا پتا ۔میں بھی وہی سب دیکھ رہا ہوں جو آپ سب دیکھ رہے ہیں ۔اتنے میں پیر صاحب نے اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بولا چلو اٹھو اب ہم ان چیزوں کو کھائیں گے چلو جلدی اس کے بعد پیر صاحب نے منہ میں ہی کوئی منتر پڑھا اور سیڑھیوں کی طرف چلے گئے اور اوپر پہلی منزل پر پہنچ کر رک کر کسی اندیکھی چیز سے بات کرنے لگے اور اچانک سے غصے میں بولے تم نے ان لوگوں کو بہت تنگ کر دیا اب چپ چاپ اس جگہ کو چھوڑ دو اور یہاں کبھی مت آنا ورنہ میری بھوک تمہیں کھا کر ہی مٹے گی کیونکہ تم جیسی چیزوں سے مجھے اچھی طرح نمٹنا آتا ہے ۔ہم یہ سب نیچے سے کھڑے ہوکر ہی دیکھ رہے تھے اتنے میں پیر صاحب نے پھر سے ایک جلالی انداز میں اونچی آواز سے کہا اب جاتے ہو یا تمھیں کھا جاؤں اتنے میں ایک زور دار چیخ کی آواز سنائی دی ہم سب اک دم ڈر گئے مگر پیر صاحب رتی بھر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹے بلکہ انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کو جیسے پکڑ لیا اور بولے اب تمہیں پچھتانے کا وقت بھی نہیں دوں گا
 
 اتنے میں عجیب سی چیخ وپکار شروع ہو گئی جسے کوئی دردناک حالت میں تڑپتے ہوئے چیخیں مار رہا ہو اس کے بعد پیر صاحب اپنا ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے ہی نیچے کی طرف اترے جیسے کے وہ کسی کو پکڑ کر نیچے لا رہے ہیں اور جیسے ہی پیر صاحب گیٹ کے پاس پہنچے تو کوئی کالے رنگ والی بڑی سی چیز کہں سے پیر صاحب پر کود پڑی اور پیر صاحب کو گرا دیا ہم لوگ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کے کوئی بڑی سی دو سر والی عورت صحن میں کھڑی تھی اور پیر صاحب اس کے سامنے گرے پڑے تھے تبھی پیر صاحب نے جلدی سے اٹھتے ہوئےکہا میں تجھے بھی کھا جاؤں گا اے بدصورت چڑیل تجھے نہیں پتا تونے نادانی میں کس سے پنگا لے لیا ہے آج تیرا وہ حال کروں گا کہ تیری آنے والی نسلیں بھی میرا نام سنتے ہی مر جائیں گی اس کے بعد اس دو سر والی عورت نے زور دار تھپڑ پیر صاحب کے منہ پے مار دیا پیر صاحب پھر سے گر گئے اور اس کالی چیز نے پیر صاحب کو گرے ہوئے ہی ہوا میں اٹھا لیا تبھی اس کا ایک منہ ہماری طرف گھوما اس کی چمکدار بڑی بڑی سرخ خوفناک آنکھین مجھے آج بھی نہیں بھولی اس کا دوسرا منہ پیر صاحب کی طرف تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے دو عورتیں ایک ساتھ جڑی ہوئی ہوں اس کے پاؤں کے بڑے بڑے پنجے ہماری طرف تھے اور ایڑیاں پیر صاحب کی طرف تھیں اس کے منہ سے عجیب سی لاریں ٹپک رہی تھیں وہ آنکھیں پھاڑے ہماری طرف گھور رہی تھی اتنے میں پیر صاحب نے کوئی منتر پڑھا پر اس نے پیر صاحب کو دیوار پر دے مارا اور پیر صاحب کا سر پھٹ گیا اور سر سے خون تیزی زمین پر گرنے لگا ہم سب بہت زیادہ ڈر گئے تھے اور ہم میں اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ پیر صاحب کی مدد کے لیے تھوڑا سا بھی اگے بڑھ سکیں ۔
 
 اور پھر اتنے میں کہیں سے وہی بلی نمودار ہوئی اور وہ زمین پر گرا پیر صاحب کا خون چاٹنے لگی اس کی دم اور بھی زیادہ موٹی اور بڑی ہوئی تھی یہاں تک کہ بلی تو صحن میں تھی پر اس کی دم سیڑھیوں پر تھی ۔ اس دو منہ والی عورت نے بھی پیر صاحب کو اٹھایا اور ان کے سر پر لگا خون چاٹنے لگی تبھی پیر صاحب نے کہا مجھے معاف کر دے میں تجھے نہیں جانتا تھا تجھے تیری شیطانی طاقت کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ دو میں کھبی تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا بس مجھے چھوڑ دے اور پھر اس عورت نے ایک خوفناک چیخ ماری اور دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرے کی طرف گئ اور غائب ہو گئ ارو بلی بھی چھت کی طرف گئ اور وہ بھی غائب ہو گئ۔ اور ہم سب یہ دیکھ کر جیسے صدمے میں آگئے تھے بابا جلدی سے پیر صاحب کی طرف بڑے پیر صاحب نے بابا سے کہا وہیں رک جاؤ ابھی وہ چیز ادھر ہی ہے تمہیں خدا کا واسطہ ہے میری طرف مت آنا ورنہ وہ تمہارے ساتھ میرا بھی چیڑ پھاڑ کر دے گی وہیں ٹھہرو کچھ دیر ۔ پیر صاحب بری طرح سے ڈرے ہوئے اور کانپ رہے تھے ۔ اور پھر تھوڑی دیر کے بعد پیر صاحب خود ہی ہماری طرف بڑھے اور کہا آپ سب لوگ بھی مجھے معاف کر دو میں مزید اس چیز سے دشمنی نہیں لے سکتا یہ تو بہت ہی زیادہ طاقتور ہے ۔میں نے آج تک ایسی طاقت والی شیطانی چیز نہیں دیکھی مجھے معاف کر دو میں اس کو قابو کرنے کی کوشش دوبارہ کبھی زندگی میں نہیں کروں گا بابا نے کہا پیر صاحب آپ نے تو اس پکڑ لیا تھا اوپر والی منزل پر تو پھر اس سے آپ ایسے کیسے ڈر گئے ہیں ۔
 
 پیر صاحب نے کہا میں نے اس کو نہیں بلکہ اس بیٹی کو پکڑ کر نیچے لایا تھا اس کی بیٹی کی طاقت بہت کم ہے لیکن اس کے آ تے ہی اس کی طاقت بھی مجھ سے زیادہ ہو گئی تھی ۔ بابا نے کہا تو اس کی بیٹی ہمیں نظر کیوں نہیں آئی تھی پیر صاحب نے کہا جو بلی آپ لوگوں نے دیکھی تھی وہ ہی اس کی بیٹی تھی اور وہ بہت سی شکلیں بدل سکتی ہے میں تو بس چھوٹے موٹے جن قابو کرتا ہوں یہ چیز تو میں نے پہلی بار ہی دیکھی ہے اور میں اب مزید آپ کے اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا میں جا رہا ہوں آپ کسی اور سے مدد لے لیں یا اس جگہ کو چھوڑ دیں اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔ یہ کہہ کر پیر صاحب نے اپنے سر پر کپڑا رکھا اور بابا سے کہا مجھے آپ ادھے پیسے دے دو کیونکہ آپکی وجہ سے میں اس حالت کو پہنچا ہوں بابا نے پانچ ہزار روپے پیر صاحب کو دے دیئے اور وہ چلے گئے۔ صائم انکل نے کہا ریاض بھائی آپ نے اس کو پیسے کیوں دیئے جبکہ اس نے نام پورا ہی نہیں کیا باتیں تو بڑی بڑی کر رہا تھا میں کھا جاؤں گا یہ تو وہ ۔ بابا نے کہا چھوڑو اس صائم بھائی میں کل اپنے عالم صاحب کے پاس جاؤں گا اور اگر ان کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو میں ان سے اس بارے میں ضرور بات کروں گا اور مجھے یقین ہے وہ اس مسلے کا حل نکالیں گے اس کے بعد صائم انکل نے کہا ریاض بھائی اب مجھے اجازت دیں رات بہت ہو گئی ہے اب مجھے چلنا چاہیے گھر میں سب فکر کر رہے ہو نگے بابا نے کہا جی جی آپ جائیں اور دعا کریں عالم صاحب جلد از جلد ٹھیک ہو جائیں ۔
 
 اس کے بعد صائم انکل چلے گئے اس کے بعد بابا اور امی اپنے کمرے میں سونے چلے گئے اور ایک بار پھر سے ہم تینوں بھائی ایک ہی کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے اور ہم تینوں بھائی رات دیر تک جاگ کر آج پیر صاحب کی باتیں کرتے رہے اور باتیں کرتے ہوئے میں کب سو گیا پتا نہیں چلا صبح میری آنکھ کھلی تو میں نے کمرے کی لائٹ جلا کر ٹائم دیکھا تو صبح کے چھے بجنے والے تھے میں کمرے سے باہر واشروم جانے لگا تو میری نظر ٹی وی لانج میں پڑے صوفے پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کوئی عورت صوفے پر بیٹھی بند ٹی وی کی طرف دیکھ رہی ہے جیسے کے کوئی چلتا ٹی وی دیکھ رہا ہو اس کے بال پورے صوفے پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ ایسے سانس لے رہی تھی جیسے کوئی نیند میں خراٹے مار رہا ہو۔ میں فوراً ڈر گیا لیکن اس کا منہ ٹی وی کی طرف تھا تو میں چپکے سے واپس کمرے میں چلا آیا اور میں نے وکی بھائی کو جگایا اور اس کے بارے میں بتایا تو وکی بھائی نے جب باہر اس کو دیکھنا چاہا تو اس بار وہ صوفے پر اس طرح بیٹھی تھی کہ اس کے دھڑ کا رخ ٹی وی کی طرف تھا اور اس کا منہ بلکل اس کی مخالف سمت تھا جیسے کسی نے اس کی گردن کو پوری طرح گھوما کر اس کا اس کی کمر کی طرف موڑ دیا ہو۔ 
 
اور اب وہ ہمیں ہی دیکھ رہی تھی اتنے میں وہ اسی حالت میں کھڑی ہو گئی اس کا منہ ہماری طرف اور پورا دھڑ ٹی وی کی طرف تھا اور کھڑے ہو کر وہ اور بھی بھیانک ہو گئی تھی بھائی نے کہا جلدی اندر چلو وہ ہماری طرف آ رہی ہے ہم دونوں بھاگ کر کمرے میں آئے اور وکی بھائی نے فوراً دروازہ اندر سے لاک کر دیا پھر کچھ دیر تک دروازے کا ہینڈل ہلتا رہا بعد میں رک گیا اور تھوڑی دیر کے بعد بابا اور امی کے باتیں کرنے کی آواز آئی اور بھائی نے گھڑی کی طرف دیکھا اب 6:50 کا ٹائم ہو گیا تھا پھر ہم نے دروازہ کھول کر دیکھا تو واقعی میں بابا اور امی ٹی وی لانج کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے اس کے بعد سب نے فریش ہو کر ناشتہ کیا بھائی نے بابا سے پھر سے اس چیز کے بارے میں بتایا بابا نے کہا بے فکر رہو آج میں عالم صاحبِ کو لے کر ہی آؤں گا اگر ان کی طبیعت بہتر ہو تو ۔یہ گھر ہمارا ہے اور ہم اس گھر کو نہیں چھوڑیں گے چاہے جو بھی ہو جائے اور اگر اس گھر سے کوئی جائے گا تو وہ یہ ہوائی چیزیں جائیں گی انشاء اللہ ۔
 
 اس کے بعد بابا اور دونوں بھائی اپنے اپنے کاموں کی طرف نکل پڑے اور میں سکول چلا گیا اور جب میں سکول سے واپس آیا تو بابا گھر پر ہی تھے بابا نے کہا آج عالم صاحب آئیں گے ہمارے گھر میں نے ان کو سارا کچھ بتا دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ شام کو آئیں گے اور انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اس کے بعد بابا واپس چلے گئے آفس ۔ میں کچھ دیر کے لیے سو گیا اور کچھ گھنٹوں کے بعد جب میں اٹھا تو شام کا وقت ہو گیا تھا میں فوراً سے کمرے سے باہر آیا تو دیکھا امی اور دونوں بھائی ٹی وی دیکھ رہے تھے میں نے ان سے پوچھا امی بابا نہیں آئے ابھی تک امی بولی آئے تھے اور وہ صائم بھائی کے ساتھ عالم صاحب کو لینے گئے ہوئے ہیں اب تو آتے ہی ہوں گے اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی وکی بھائی نے دروازہ کھولا تو بابا صائم اور عالم صاحب تھے اور وہ اندر آ گئے ہم سب نے عالم صاحب سے سلام دعا کی پھر بابا نے امی سے بولا پہلے چائے بنا لو عالم صاحب بہت دنوں بعد آئیں ہیں تو عالم صاحب نے کہا نہیں نہیں اس کی کو ضرورت نہیں۔ بابا نے کہا حضرت چائے تو آپ کو پینی ہی ہوگی ورنہ ہم سمجھیں گے آپ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے تو عالم صاحب نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
 
 چلیں اگر آپ اس خوش ہوتے ہیں تو پی لوں گا اس کے ہم سب چائے پی ہی رہے تھے ک اچانک سے اوپر کے فلور سے خوفناک چیخ سنائی دی عالم صاحب چائے کا کپ رکھا اور اور بابا سے کہا ایک بوتل میں صاف صاف پانی لے کر آئیں بابا جلدی سے پانی لے آئے پھر عالم صاحب نے منہ میں کچھ پڑھا اور پانی پر پھونک دیا اور اس کے بعد عالم صاحب نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل نکالی اور بابا سے کہا یہ پانی ایک جگ میں ڈال کر آپ سب لوگ تھوڑا تھوڑا پی لو سب وہ پانی پی لیا اس کے بعد جس پانی پر عالم صاحب نے پڑھ کر پھونکا تھا اس بوتل سے کچھ پانی اپنے ہاتھ میں لے کر سب پے باری باری چھڑک دیا اور آخر میں خود پر چھڑک لیا اور باقی بچی پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑی اور بابا سے کہا چلو آپ لوگ میرے ساتھ آجاؤ اور ہاں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی بھی شیطانی طاقت سے نہیں ڈرنا یہ گھر آپ کا ہے اور ان چیزوں کو یہاں سے جانا ہو گا ۔ اس بعد جیسے ہی ہم اوپر کے فلور پر پہنچے تو وہاں وہی کالی دو سر والی عورت کھڑی تھی اور اس کے ساتھ ایک اور خوفناک سے چہرے والی چھوٹی لڑکی بھی تھی یہ وہی تھی جسکو میں نے اور وکی بھائی نے صبح ٹی وی لانج میں دیکھا تھا اور وہ دونوں چیزیں عالم صاحب کی طرف بڑھنے لگی بابا نے کہا حضرت وہ آرہی ہیں تو عالم صاحب نے منہ میں کچھ پڑھا اور بولے چلو اب نیچے چلیں بابا نے کہا عالم صاحب وہ ہمارے پیچھے آرہی ہیں تو عالم صاحب مسکراتے ہوئے بولے وہ کچھ نہیں ہے آپ چلیں نیچے اور اب میں اللہ کے فضل سے آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ اب یہ چیزیں کھبی آپ کو نہ تو تنگ کریں گی اور نہ ہی کھبی اس گھر میں یا آس پاس کبھی نظر آئیں گی انشاء اللہ ۔ 
 
یہ کہہ کر عالم صاحب نیچے کی طرف چل دیئے اور ساتھ میں باقی لوگ بھی نیچے آگئے عالم صاحب نے بابا سے کہا اب میری بات غور سے سنیں آپ دو بکرے لے کر آ سکتے ہیں ۔۔۔ تحریر دیمی ولف۔۔۔ اور بکرے چھوٹے ہوں لیکن بکرے بلکل کالے رنگ والے لانے ہیں اور صائم انکل سے کہا آپ ایک بکرہ لے کر آئیں وہ بھی کا لے رنگ کا ہی ہو۔ ارو میں تب تک عشاء کی نماز کی تیاری کرتا ہوں آپ لوگ ابھی سے روانہ ہو جائیں ۔ اس کے بعد صائم انکل بھائی اور بابا بکرے لینے کے لیے نکل پڑے اور کافی دیر کے بعد دروازے پر گاڑی کے رکنے کی آواز آئی اور ہم نے دیکھا کہ بابا بھائی اور صائم انکل گاڑی سے بکرے نکال رہے ہیں اس کے بعد عالم صاحب نے بابا سے کہا آپ کے وہ دو بیٹے کون سے ہیں جو جنہیں بکری کا بچہ ملا تھا بابا نے وکی اور عاصم بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حضرت یہ دونوں ہیں عالم صاحب نے دونوں سے کہا نیچے بیٹھ جاؤ 
 
دونو بھائی بیٹھ گئے اس کے بعد عالم صاحب نے کچھ پڑھا دونو پر پھونک دیا اور بابا کو بولا اب ایک بکرا اٹھا کر اپنے بیٹے کے سر پر وار کر سائیڈ پر باندھ دو اور پھر دوسرے کے سر سے دوسرا بکرا وار کر الگ سے باندھ دو اس کے بعد صائم انکل سے کہا اپنے بیٹے کو لائیں اور انکل ناصر بھائی کو لے آئے پھر ان کے سر سے بھی بکرا وار کر الگ جگہ باندھ دیا اس کے بعد عالم صاحب نے کہا تم تینوں اپنا اپنا بکرا لے کر اسی جگہ جاؤ اور ادھر جو کنواں ہے اس کے پاس ان بکروں کو چھوڑ کر آجاؤ اور ہاں یاد رہے جب تم تینوں اپنا اپنا بکرا ادھر چھوڑ دو گے تو دوبارہ پیچھے مڑ کر بکروں کی طرف نہیں دیکھنا چاہتے کچھ بھی ہو جائے ۔ اب جاؤ جلدی سے اور ذرا بھی نہیں ڈرنا کو تمہیں کچھ نہیں کرے گا بس پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ورنہ تم واپس نہیں آ سکو گے یہ کام جتنا آسان ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہے بس پیچھے نہیں دیکھنا اس کے بعد سب اپنا اپنا بکرا ساتھ لے کر چلے گئے اور عالم صاحب اور ہم کچھ دور ہی کھڑے رہے تینوں نے اپنا بکرا اس کنویں کے پاس چھوڑا اور واپس آگئے عالم صاحب نے پھر کچھ پڑھا اور ان تینوں پر پھونک دیا ۔ 
 
اس کے بعد ہم سب گھر آ گئے تب عالم صاحب نے بتایا کہ یہ تینوں لوگ صدقے کو پھلانگ کر آئے تھے اور وہ بلائیں جو صدقے کا گوشت کھاتیں ہیں یا صدقے کے پیچھے ہوتی ہیں وہ ان کے پیچھے پڑ گئی تھیں اسی وجہ سے وہ سارا دن ادھر ہی ٹہلتی رہتیں تھیں اور جب ان کو غصہ آتا تھا تو وہ نقصان کرتی تھیں اس وجہ سے جہاں بھی صدقے کا گوشت یہ کو بھی چیز ہو تو کبھی بھی اس کے اوپر سے یا اس کے پاس سے نہیں گزرنا ۔ بھائی بولا عالم صاحب جب میں اپنے بکرے کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو کوئی میرا نام لیکر مجھے بلا رہا تھا پر میں نے پیچھے نہیں دیکھا اس کے بعد عاصم بھائی نے بھی جب میں بھی واپس آرہا تھا تو کوئی پیچھے سے عجیب سی آواز دے رہا تھا اس وجہ سے میں نے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
 
تو عالم صاحب پھر سے مسکراتے ہوئے بولے بس اسی وجہ سے کہا تھا پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے ورنہ وہ چیزیں نقصان پہنچا دیتی ہیں اس کے بعد عالم صاحب نے اپنی جیب سے کچھ کیل نکالنے اور ان کو گھر کے چاروں کونوں میں ٹھوک دیا پھر صائم انکل کے گھر میں بھی ایسے ہی کیا اور بابا سے کہا صبح میں فجر کے وقت آؤں گا اور اس کنویں کے آس پاس بھی کیل لگا دوں گا تاکہ وہ چیزیں اپنی حد میں رہیں کیونکہ جہاں صدقے کی چیزیں ہوں وہاں بلائیں بھی ہوتیں ہیں اس کے بعد سب نے رات کا کھانا کھایا اس کے بعد بابا نے اور صائم انکل نے عالم صاحب کا شکریہ ادا کیا صائم انکل عالم صاحب کو ان کے گھر چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلے گئے ۔ اس کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہوا ۔۔ 
ختم شد
............................ 
............................ 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں