ہم تم اور محبت ۔ مکمل ناول

 
 
یہ کینٹین کہاں ہے جی .....؟وہ یونیورسٹی کے خوبصورت سبز گھاس پہ ایک کتاب لیے بیٹها تها اس کی پوری توجہ اس کتاب پر تهی..لیکن اچانک سنائی دینے والی خوبصورت نسوانی آواز نے اس کی توجہ کا تسلسل توڑ دیا...اس نے گردن موڑ کر دیکها اور پلک جھپکنا بهول گیا.....اس کے بالکل قریب ایک سبز آنکھوں والی لڑکی کهڑی تهی. اس نے ماسیوں کے انداز میں پورے تن پہ سیاہ چادر اوڑھ رکهی تهی..نگاہیں جهکی ہوئیں تهیں.وہ شکل سے ہی کسی دیہات کی لگ رہی تھی .وہ سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی. ......جی.....؟جی وہ کینٹین کہاں ہے. ..؟ اس نے پهر سے اپنا سوال دہرایا....آپ کو نہیں معلوم. ..؟ اس نے اس لڑکی کے چہرے کی طرف دیکهتے ہوئے الٹا سوال کیا...جی میں یہاں آج ہی آئی ہوں.....وہ سامنے......اس نے انگلی کے اشارے سے سامنے کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک میلہ لگا ہوا تها......اس نے محسوس کیا وہ لڑکی تهوڑی گهبرا گئی. ..جی وہاں...وہ...وہاں تو بہت رش ہے. ...اس کی زبان لڑکهڑائی....ہاں تو کیا ہوا ....؟ اس نے عام انداز میں کہا....جی وہاں تو بہت لڑکے کهڑے ہیں میں کیسے جاوں....اس نے اپنا مسئلہ بتایا.....میں بهی تو لڑکا ہوں میرے پاس آتے ہوئے ڈر نہیں لگا....اس نے دیکها اس لڑکی کی نگاہیں مزید جهک گیئں. .وہ جانے کے لیے واپس پلٹی جب اس نے اس لڑکی کو آواز دی. ....سنو......جی...؟کیا لانا ہے مجھے بتائیں میں لا کر دے دیتا ہوں. ..ایک بسکٹ اور ایک جوس ...اس لڑکی نے اپنی مطلوبہ چیزوں کے نام بتائے........اور اگلے لمحے وہ اس لڑکی کی چیزیں لیے واپس آ رہا تھا. ..وہ اب بھی نظریں جهکا ئے کهڑی زمین پہ گهاس کو دیکھ رہی تھی....یہ لیں. ..اس نے جوس اور بسکٹ اس لڑکی کو تهما دیں...جی شکریہ. .کتنے پیسے ہیں. ...؟کوئی بات نہیں. ...نہیں بتائیں پلیز. ...میری دادی کہتی ہیں کهبی کسی لڑکی سے پیسے نہیں لینے چاہیے. ...اس نے ادائے بے نیازی سے جواب دیا. ....اور میری دادی کہتی ہیں کسی اجنبی سے کهبی ادهار نہیں لینا چاہیے. ....وہ پیسے اس کی کتاب پہ رکھ کر وہاں سے چلی گئی. .....اور وہ اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تها...دادی نے یہ سکھایا اپنی لاڈلی پوتی کو کہ کسی اجنبی سے پیسے نہیں لینے چاہیے لیکن یہ نہیں سکھایا کہ کسی اجنبی سے مدد بھی نہیں لینی چاہیے.....وہ زیر لب مسکرایا..وہ واپس گهاس پر بیٹھ گیا مگر اب اس کی توجہ کتاب پہ بالکل نہیں تهی.اس کا دماغ کہیں اور تها اس کی سوچ کا مرکز کہیں اور تها..کہاں..؟ یہ اسے خود بھی نہیں معلوم تها۔
اگلے دن وہ یونیورسٹی کی خوبصورتی سیڑھیوں پر بیٹها تها. اور سامنے مختلف لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنی اپنی کلاسز میں جاتا دیکھ رہا تها. ..کیوں دیکھ رہا تھا اسے خود بھی نہیں پتا. .اور واقعی دیکھ بھی رہا تھا یا نہیں. ......جی اسلام و علیکم. ....اس کے پاس سے ایک مانوس آواز ابهری....وعلیکم. .....اس کا جواب ادهورا رہ گیا. .سامنے وہی لڑکی کهڑی تهی اس کے لب شاید ہلنا بهول گئے. .اس کے چہرے پہ آج بھی وہی معصومیت اور وہی سادگی تهی. .....جی میں اپنا رجسٹر گهر بهول آئی ہوں..کیا آپ کے پاس کوئی اضافی رجسٹر ہے.....اس لڑکی نے خیریت دریافت کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا.سیدها اپنا مدعا بیان کیا. ..وہ اس لڑکی کی بے تکلفی پہ حیران رہ گیا. پورے یونیورسٹی میں وہ صرف اس پہ حق جمانے آ گئی. .اور اسے یہ بے تکلفی اچھی لگ رہی تھی. .کیوں. کس لیے اس نہیں معلوم. ...وہ لڑکی اب بھی اس کے جواب کی منتظر کهڑی تهی. .اور اس نے اپنے بیگ میں سے اپنا قیمتی رجسٹر نکال کر اس لڑکی کے ہاتھوں میں تهما دی. حالانکہ یہ رجسٹر اس کے خود کے لیے بھی بہت اہم تهی . لیکن اسے رجسٹر دینے سے وہ خود کو روک نہیں سکا.وہ اس لڑکی کو انکار نہیں کر پایا.......شکریہ جی. .میں لیکچر نوٹ کرنے کے بعد آپ کو واپس کر دوں گی....اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا شاید اس کے سماعت سننے سے انکاری ہو گئے تھے. .بس اس وقت اس کی جسم کے صرف دو حصے ہی کام کر رہے تھے. ..دل اور آنکھیں. .....اس کے خیالوں کا مرکز وہ دیہاتی سادہ لڑکی تهی.وہ وہاں سے کب کی جا چکی تھی مگر اس کا ذہن ابهی بهی وہیں تها...وہ زندگی میں پہلی بار اس طرح کی لڑکی سے ملا.اس نے ہمیشہ فیشن زدہ میک اپ سے بهر پور لڑکیوں کو اپنے ارد گرد پایا..جو نئے نئے فیشن جدید کپڑے پہن کر مختلف ادائیں دکها تی ہیں.مگر یہ لڑکی ان سب سے منفرد تهی سب سے الگ.آج کے دور میں اتنے بڑے شہر کے اتنے بڑے یونیورسٹی میں اس طرح کی سادہ لڑکی واقعی اسے حیرت میں مبتلا کر رہی تھی. ..اور وہ روحل ابراہیم جس نے آج تک کسی لڑکی کے بارے میں نہیں سوچا جس کی کسی لڑکی تو کیا کسی لڑکے سے بھی کوئی خاص دوستی نہ تهی وہ زندگی میں پہلی بار ایک دیہاتی سادہ لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا..وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبصورتی سے نا واقف نہ تھا. وہ جانتا تھا وہ کتنی لڑکیوں کی سوچوں کا مرکز ہے. اور کتنی لڑکیاں اس کے بارے میں باتیں کرتی ہیں. .اسے معلوم تھا کہ وہ جہاں سے گزرتا ہے وہاں کهڑی لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگتی ہے. مگر اس سب کے باوجود اس نے کهبی کسی لڑکی کو آنکھ اٹها کر نہ دیکها.......اور یہ یہاں آکر اسے کیا ہو رہا تها.
 
وہ اس لڑکی سے اس کی آخری ملاقات نہیں تهی..اس دن کے بعد بهی اس نے اس لڑکی کو کئی بار دیکها تها..کهبی گهاس پہ بیٹهے کوئی کتاب پڑهتے ہوئے تو کهبی بس کا انتظار کرتے ہوئے..کئی بار اس کا دل چاہا جاکر اس لڑکی سے بات کرے مگر کهبی خود میں اتنی ہمت ہی نہیں پیدا کر پایا .اسے نہیں معلوم اس کے اندر یہ خواہش کیوں پیدا ہو رہی ہے مگر اس کا اپنے دل پہ زور نہیں رہا..اس کا دل دن بہ دن بے قابو ہوتا جا رہا تها..اسے ایک ایسے موقعے کی تلاش تھی جب وہ اس لڑکی سے بات کر سکے.اور ایک دن اسے وہ موقع مل گیا......اس دن جب گرمی اپنے عروج پر تھی. سورج آگ برسا رہا تھا وہ اپنی سیاہ اے سی والی کار لیے یونیورسٹی کے بڑے گیٹ سے باہر نکل کر اپنے گهر کی طرف روانہ تها..تهوڑے ہی فاصلے پہ اسے وہ لڑکی دکھائی دی. .وہ وہاں کهڑی شاید بس کے انتظار میں کهڑی تهی.اس کا چاند سا چہرہ سورج کی روشنی میں مزید چمک رہا تها..اسے اتنی شدید گرمی میں دهوپ میں کهڑی اس لڑکی پہ بہت ترس آیا...وہ اپنے کار سے باہر نکلا..سورج واقعی آگ برسانے میں مصروف تها یہ احساس اسے کار سے نکلنے پہ ہوا.وہ لڑکی بیچاری کب سے وہاں کهڑی دهوپ میں جل رہی تھی. .اس کے دل کو کچھ ہونے لگا...بے اختیار اس کے قدم اس لڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے وہ اپنے قدموں پہ بھی اختیار کهو چکا تھا. .....اسلام وعلیکم. ...اس کے پاس پہنچ کر ماتهے سے پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے اس لڑکی کو سلام کیا. .وعلیکم السلام. ..ایک نظر اس لڑکے کو دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف پهیر کر جواب دیا...آپ یہاں بس کا انتظار کر رہی ہیں. ..؟ سوال احمقانہ تها مگر وہ پوچهے بنا نہیں رہ سکا....جی....اس نے سادہ جواب دیا...وہ جو اس سے ایک غصے بهری نگاہ اور طنزیہ جواب کا منتظر تها ایک پل کے لیے حیران ہو گیا.....آئیں میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں .....نہیں شکریہ میں چلی جاوں گی....پتا نہیں بس کب آئے گا چلیں آپ .....بس ابهی آنے ہی والا ہو گا...اس نے ایک نظر ہاتھ میں بندهی گهڑی کو دیکها ....آپ کو مجھ سے ڈر لگ رہا ہے یا پھر آپ کی دادی نے منع کیا ہے کہ کسی اجنبی سے لفٹ نہیں لینی چاہیے. ..اس نے ' دادی ' کو قصداً کهینچ کر ادا کیا....اور وہ اتنی نادان اور نا سمجھ نہیں تهی جو اس کے طنز کو ہی نہ سمجھ پاتی..اس نے ایک نظر ادھر ادھر سڑک پہ دوڑائی جب بس آتا نظر نہیں آیا تو وہ اس کے ساتھ چلنے لگی.......وہ جا کر کار میں بیٹھ گیا اور اس کے بیٹهنے کا انتظار کر رہا تھا. ......جی مجھے کار کا دروازہ کهولنا نہیں آتا. .اس نے اپنی آنکھوں سے سن گلاسز اتار کر اس لڑکی کو غور سے دیکها..یہ لڑکی اسے حیران کر رہی تھی. ..اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے اسے کار کا دروازہ کهول دیا........
 
آپ کہاں رہتی ہیں. ...؟ جب گاڑی اپنے سفر پہ رواں تها تو روحل نے بات شروع کرنا چاہی.اسے یہ بھی معلوم تها کہ یہ لڑکی کهبی خود دے کوئی بات شروع نہیں کرے گی.....ہاسٹل میں. ....گود پہ نگاہیں جمائے اس نے جواب دیا.....اچها آپ کا نام کیا ہے....؟ دوسرا سوال کیا گیا . حالانکہ یہ اس کا پہلا سوال ہونا چاہیے تھا ..حور...حور سبحان. ....جواب اسی سادگی سے دیا گیا. ..حور سبحان. ..اس نے نام زیر لب دہرایا اور مسکرا دیا .واقعی اس لڑکی کا نام حور ہی ہونا چاہیے تھا.اس نے سوچا. ......آپ کا گهر کہاں ہے. ...؟ وہ اتنی جلدی باتوں کا سلسلہ ختم نہیں کرنا چاہتا تھا. ...مظفر گڑھ کے ایک چهوٹے سے گاؤں. ...وہ لڑکی صرف انہی سوالوں کے جواب دے رہی تھی جو اس سے پوچھے جا رہے تھے وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر رہی تھی. ...اچها آپ کا ہوسٹل کس طرف ہے....؟یہاں سے سیدھے جا کر بائیں طرف سڑک مڑتی ہے اور وہاں ایک بہت بڑے حلوائی کی دکان ہے اس کے سامنے تاجو بوا کا گهر ہے ..بس تاجو بوا کے گهر سے دو گهر چهوڑ کر میرا ہاسٹل ہے.اس نے اسی معصومیت سے جواب دیا. ..
 
اس نے ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ بے اختیار قہقہہ لگانے پہ مجبور ہو گیا.کیا ہوا جی ..؟کچھ نہیں. .اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا....اس لڑکی کی سادگی اسے دن بہ دن متاثر کر رہی تھی. وہ اپنے جاننے والوں میں سے کم از کم اس لڑکی پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا..اسے یہ لڑکی اچهی لگ رہی تھی اس نے کوئی میک اپ نہیں کیا ہوا تھا. سادہ سے لون کے کپڑوں میں ملبوس وہ اس وقت بہت حسین لگ رہی تھی ان لڑکیوں کے مقابلے میں جو دس ہزار کے کپڑے پہن کر چہرے پہ مصنوعی میک اپ کا نقاب اوڑھ لیتی ہیں. ...اسے اس کے ہاسٹل ڈراپ کر کے اس نے اپنی گاڑی گهر کی طرف گهما دی....گهر آ کر بھی اس کی سوچوں کا تسلسل برقرار رہا
اور یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے وہ اسی طرح یونیورسٹی سے کار نکال کر اپنے گھر کی طرف جا رہا تها جب اس کی نظر سڑک پہ چلتے ہوئی لڑکی پر پڑی. ..پاس جانے پہ پتا چلا وہ حور تهی. .اس نے کار اس کے قریب روک دی وہ بھی اچانک چلتے چلتے رک گئی. روحل کار کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا..اس نے دیکها وہ لڑکی اپنے آنسو پونچھ رہی ہے....کیا ہوا کہاں جا رہی ہیں آپ.....؟میں وہ میں ہاسٹل جا رہی ہوں. ...اس نے نظریں چرائیں. ...کیسے جا رہی ہیں. .پیدل....؟جی....اسے اس سے اس جواب کی توقع ہر گز نہ تھی. .واٹ...؟ ہاسٹل اور پیدل....آر یو او کے. ...؟بس ویسے واک بھی ہو جائے گا. .اس کی زبان لڑکهڑائی. ..وہ واک کرنے والی لڑکی ہر گز نہ تھی ضرور وہ کچھ چهپا رہی تھی. ....واک...؟ وہ مزید حیران ہوا..بس نہیں ملی کیا. ..؟ملی تھی مگر.. ...اس نے نگاہیں نیچی کر لیں....تو آپ بس میں کیوں نہیں گیئں. ...؟جواب دینے کی بجائے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر وہ پهوٹ پهوٹ کر رو پڑی..اور وہ ایک دم بوکھلا گیا. اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کرے.اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے سامنے کسی لڑکی کو روتے ہوئے دیکها.....کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں. ..؟ اس نے اس کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے کیا....وہ ....و..وہ....میرے پاس کرایا نہیں تھا جو پیسے لائی تهی ان سے نوٹس خریدے تھے. .اس نے ہچکیوں کے درمیان اپنی بات مکمل کی.اور پهر سے رونا شروع کر دیا. ...کیا...؟ لیکن تم...اس طرح. .مطلب. .مجھ.سے....اس کی سمجھ میں نہیں آیا کیا کہے..پهر اس نے کار کا دروازہ کھول کر اسے اندر بیٹھایا. .اور خود بھی کار میں بیٹھ کر کار سٹارٹ کر دی..اس کی حیرت ابهی بهی ختم نہیں ہو رہی تهی. ..اچها اب رو مت یہ ٹشو لیں..اس نے اس کی طرف ٹشو بڑهائے..اسے اس کی آنسو سے حقیقتاً بہت تکلیف ہو رہی تهی..باقی کا راستہ خاموشی کی نذر ہو گیا.
اس دن سورج اپنی تپش دکهانے میں نا کام تها . کیونکہ سورج کے راستے میں گہرے سیاہ بادل حائل تهے..موسم حد سے زیادہ خوشگوار تها.....ایسے موسم میں اسے کسی کی شدت سے یاد آ رہی تھی. .مگر جس کی یاد آ رہی تھی وہ وہاں نہیں تهی وہ اسے پورے یونیورسٹی میں تلاش کر رہا تھا جیسے اس کی کوئی قیمتی شے اچانک گم ہو گئی ہو.......اس وقت جب وہ تهک ہار کر یونیورسٹی کے خوبصورت گارڈن میں آ گیا تب اسے وہ نظر آ گئی دور ایک درخت کے نیچے بیٹھے کچھ لکهتے ہوئے.....اس کے ہونٹوں پہ مسکان پھیل گئی دل کی دھڑکن ترتیب سے ہٹ گئی. .اور قدم ایک بار پھر بے اختیار ہو چکے تھے. ...وہ اس طرف بڑھ رہے تھے جہاں وہ ..وہ بیٹهی تهی.....اتنے خوبصورت موسم میں آپ یہاں بیٹهی کیا لکھ رہی ہیں محترمہ. .....وہ اس کی اچانک آمد پہ چونک گئی اور شرما کر نگاہیں نیچی کر لیں. .اسے اس کی یہ شرمیلی ادا بها گئی..چلو کہیں وزٹ پہ چلیں. ..جی...؟ اس کے اس' جی ' میں سوال زیادہ تها یا جواب وہ نہیں سمجھ سکا..مگر اس کی کسی بھی مزاحمت کو خاطر نہ لاتے ہوئے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جواب میں اسے بھی زبردستی یا خوشی سے مگر اٹهنا ہی پڑی......تهوڑی ہی دیر میں اس کی کار شہر کے بڑے سڑکوں کو ناپتے ہوئے ایک بہت بڑے عالیشان ہوٹل کے سامنے کهڑی تهی. .....آئیں باہر. ...وہ کار پارک کر کے باہر نکلا اور اس کے انتظار میں کهڑا تها جبکہ وہ آرام سے گود پہ نگاہیں جمائے بیٹهی تهی. ..تب اس نے ہی جا کر کار کا دروازہ کهولا. .تب اسے مجبوراً باہر آنا ہی پڑا........وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی ہوٹل کے اندر داخل ہوئی. وہ کافی جهجک رہی تهی. .اور اسے اچانک اس کے جهجک کی وجہ بھی سمجھ آ گئی. .اس وقت اس میں اور اس لڑکی میں زمین اور آسمان کا فرق تها..وہ کافی مہنگے کپڑوں میں اور اس کے ساتھ چلنے والی وہ لڑکی ایک سادہ سے لون کے سوٹ میں ملبوس تهی....آس پاس بیٹهے ہوئے لوگوں کی حیران کن نگاہیں وہ اچهے سے سمجھ رہا تها..مگر اس نے کهبی اپنی زاتی زندگی میں دوسروں کی دخل اندازی پہ توجہ نہ دی.......آپ کیا لیں گی ...وہ آس پاس لوگوں کو دیکھ رہی تھی جب اسے ہاتھ ہلا کر اسے مخاطب کرنا پڑا. ..جو آپ کو پسند ہو جی....وہ بے اختیار مسکرا دیا کیونکہ یہ سوال پوچھنے سے پہلے وہ اس سے اسی جواب کی توقع کیے بیٹها تها. .....کهانے کے بعد اس نے حور کو ہوسٹل ڈراپ کیا اور خود بھی گهر واپس آ گیا... 
 
 کچھ دنوں سے وہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی کو محسوس کرنے لگا تها.اسے نہیں پتا یہ تبدیلی کیسی تهی کیوں تهی..جب سوچنے پہ پتا چلا تو وہ مزید حیران ہو گیا. یہ کیسا انکشاف تها اس کا خود پہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا اس بات پہ جو اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا. وہ اتنے دنوں تک دل کی باتوں کو نظر انداز کرتا رہا مگر وہ مزید ایسا نہیں کر سکا..کیونکہ اس کا دل بہت بڑا انکشاف کر چکا تھا. .اور اس عجیب انکشاف پہ سب سے زیادہ وہ خود حیران ہوا....ایسا کیسے ہو سکتا ہے اسے ..اسے..محبت کیسے ہو سکتی ہے. ہر انسان کو محبت ہو سکتی ہے لیکن اسے روحل ابراہیم کو کهبی محبت نہیں ہو سکتی. اور وہ بھی اس لڑکی سے جسے کار کا دروازہ تک کهولنا نہیں آتا وہ دیہاتی سادہ لڑکی. ....کتنے پل وہ حیران آئینے کے سامنے بیٹها رہا.وہ اپنے اندر کئی دنوں سے ایک غیر معمولی تبدیلی کو نوٹ کر رہا تھا اور آج اس کے دل نے اس تبدیلی کو ایک نام دے دیا...محبت. ..وہ جو ساری رات جاگ کر اس لڑکی کے بارے میں سوچتا تها وہ محبت ہی تهی..وہ جو اسے دیکھ کر دهڑکن کی ترتیب بدل جاتی تھی وہ محبت ہی تهی...اسے محبت کیسے ہو گئی اور وہ بھی اس سادہ لڑکی سے.وہ سادہ لڑکی جو اپنی زندگی میں کهبی کار میں نہیں بیٹهی وہ اپنے سامنے ان ہزاروں میک اپ زدہ لڑکیوں کو مات دیے کهڑی تهی. وہ نہ تو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تهی اور نہ ہی سب سے مختلف. ..مگر اس میں کچھ تو تها کچھ ایسا جو اسے سب سے منفرد بنا رہا تها.......وہ جو کهبی آنکھ اٹها کر کسی لڑکی کو نہیں دیکهتا تها. جسے بہت غرور تها خود پہ کہ کهبی بهی کوئی بھی لڑکی اسے محبت کی جال میں نہیں پهنسا سکتی....آج وہ معمولی سی سادہ لڑکی اسے کے ہر دعوے ہر غرور کو ایک پل میں ہی توڑ چکی تھی. ...وہ اپنے دل کے سامنے ہار چکا تھا اس لڑکی کے سامنے ہار چکا تھا. ...'محبت صرف وقت کا ضیاع ہے یہ محبت صرف فلموں کہانیوں میں اچهی لگتی ہے 'ایک بار اس نے اپنے ایک دوست کے سامنے محبت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا. ....اور آج وہی جملہ اس پر قہقہے لگا لگا کے ہنس رہا تھا. .اس کی کہی اور بات ہر لفظ اس وقت بالکل کهوکهلا ہو چکا تھا. ...اس نے آہستہ سے دل کے دروازے پہ دستک دی. ..دل = کون...؟وہ = روحل ابراہیم. ...دل = کام....؟وہ = محبت. ....دل = .ہاہاہاہاہاہا....وہ = میں مذاق نہیں کر رہا..دل = واپس لوٹ جا....وہ = میری تمنا پوری کرو.....دل = یہ ناممکن ہے. ...وہ = کیوں. .؟ سب آپ کے ہاتھ میں ہے. ..دل = تم نے گناہ کیا ہے...؟وہ = میں نے کیا کیا....؟دل = محبت. ...وہ = اور محبت گناہ کب سے ہوگیا.....؟دل = صدیوں سے. ..وہ = معافی نہیں مل سکتی.....؟دل = کهبی نہیں. ....وہ = مگر کیوں. ...؟دل = کیونکہ تم لوگ میرے مجرم ہوتے ہو...وہ = سب آپ کرتے ہیں اور بدنام ہم ہوتے ہیں. ..دل = سارا قصور آنکھوں کا ہے.اور الزام مجھ پہ لگتا ہے. ...وہ = مجھے یہاں سے باہر جانا ہے. ...دل = یہاں آتے بھی لوگ میری مرضی سے ہیں اور جاتے بھی میری مرضی سے ہیں. .....وہ = پلیز مجھے یہاں سے رہائی دے دو....دل = تم اس وقت دل کے دربار میں کهڑے ہو اور یہاں میری مرضی چلتی ہے....وہ = میں آپ کے فیصلے ماننے کا پابند نہیں ہوں...دل = اور ہم تمہیں عمر قید کی سزا سناتے ہیں.. تمام گواہوں اور ثبوتوں کے کے بنا پر ہم دل روحل ابراہیم کو دل کی دنیا میں عمر قید کی سزا سناتے ہیں. .......ہر طرف تالیوں کی گونج سنائی دی. __ اور اس نے _ اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن سب لا حاصل تها..وہ شاید دل کی دنیا سے اب کهبی باہر نہیں جا سکتا تھا. اس نے اپنے آپ کو بے بس پایا . وہ دل کا قیدی بن چکا تها. اتنا ہمت والا اتنا ہوشیار اور اتنا توانا آدمی زندگی میں پہلی بار اپنے دل سے ہار چکا تھا.وہ جو زندگی میں کهبی نہیں ہارا.اور اس وقت اس نے نظر اٹها کر دل کو دیکها وہ قہقہے لگا لگا کے ہنس رہا تھا اس پہ اس کی بے بسی پہ اس کی مجبوری پہ _ . اگلے دن اس نے اس لڑکی کو یونیورسٹی کے خوبصورت سبزے پہ بیٹهے کوئی کتاب پڑهتے دیکها.اس کے قدم اس لڑکی کی طرف بڑهنے لگے....Hi...?اس لڑکی نے کتاب سے نظر اٹها کر اس کی طرف دیکها اور محض گردن ہلانے پہ اکتفا کیا. ..کیسی ہیں یا کیا ہو رہا اسے ایسے رسمی جملوں سے ہمیشہ سے ہی شدید چڑ تهی..اب نظر آ رہا ہے کہ سامنے والی کیا کر رہی ہے تو یہ کیا ہو رہا پوچهنے کا کوئی تک ہی نہیں بنتا. ....وہ بھی اس کے پاس خوبصورت سبز گھاس پر بیٹھ گیا. ...اچها آپ کا نمبر بتائیں. ...کل اسے ہوسٹل ڈراپ کرنے کے بعد اس نے خود کو خوب سرزد کیا کم از کم اسے اس لڑکی کا نمبر تو لے لینا چاہیے تھا. ..جی میرے پاس مبیل (موبائل) نہیں ہے. ..میں نہیں مانتا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی لڑکی کے پاس موبائل ہی نہ ہو..آپ جهوٹ بول رہی ہیں. ..اس نے بے یقینی سے اس لڑکی کی طرف دیکها.میں جهوٹ کهبی نہیں بولتی..اس نے سادگی سے جواب دیا...اور وہ مزید حیران ہوا تب اسے لگا واقعی وہ لڑکی جهوٹ نہیں بول رہی.وہ لڑکی اسے ہر قدم پہ حیرت میں ڈال رہی تھی.___ میں آپ کو موبائل دوں.....؟جی...اس کے اس جی میں اقرار زیادہ تها یا انکار وہ نہیں سمجھ سکا مگراگلے دن وہ اس کے لیے موبائل لیے ایک بار پھر سے اس کے سامنے کهڑا تها. ..بہت ہی زیادہ بحث و تکرار کے بعد بہرحال اس نے وہ موبائل روحل کے ہاتھوں سے لے ہی لیا......********Sssاور یہ صرف ایک موبائل نہیں تھا یہ ان دونوں کے درمیان رابطہ رکهنے کا وہ خوبصورت ذریعہ تها جو ان دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر رہا تھا. .اس لڑکی کی محبت اسے دن بہ دن اپنے سحر میں مبتلا کر رہا تھا. اور وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبت کا یہ کهیل دیکھ رہا تھا. ..دن رات کام یونیورسٹی پڑھائی یہ سب اب اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے.سارے کام اچانک غیر اہم ہو گئے. . اگر اس کے لیے کوئی ضروری تها کوئی اہم تهی تو صرف وہ...اس کے آگے کهبی وہ کچھ سوچ ہی نہیں پاتا تھا.وہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا. . مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی کهبی وہ اپنی محبت کا اظہار اس سے نہیں کر پا رہا تھا.اسے محبت میں سب سے مشکل مرحلہ محبت کا اظہار کرنا لگ رہا تھا. .فون پہ دونوں جہاں کی باتیں کرنے والا وہ لڑکا اس لڑکی سے صرف اپنے دل کی بات کہنے میں جهجک رہا تها.ہر پل ہر بات کہنے والا روحل ابراہیم صرف یہی ایک بات ہی نہیں کر پا رہا تھا. .. اور وہ... وہ کیا اتنی نادان اتنی نا سمجھ تهی جو اس کے دل میں موجود محبت کا پیغام بھی نہیں پڑھ سکتی تھی. 
.......اور وہ بہت خوبصورت صبح تهی کم از کم اس کی سوچ کے مطابق. لیکن انسان کا اپنی سوچوں اور اپنی قسمت پہ اختیار کب ہوتا ہے. ...یونیورسٹی کے وسیع و عریض احاطے میں ہر طرف خاموشی تهی...اتنی خاموشی کہ اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تهی. .....اس کے سامنے وہ لڑکی کهڑی تهی جسے دیکھ کر کسی کا بھی دل دهڑکنا بهول جائے اور یہی حال اس وقت اس کا تها . دهڑکن اپنی عام رفتار سے کہیں زیادہ تیز دهڑک رہا تها..اسے لگا اس کی دهڑکن حلق تک آ جائے گا........بہرحال آج اس نے اپنے دل کی بات اس لڑکی تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا تها...میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں. ...لرزتے ہوئے اس نے اپنا جملہ مکمل کیا..وہ لڑکی اسی کی طرف متوجہ تهی.اور اس کے اگلے جملے کی منتظر تهی..یہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سوچ رہا تها..اسے لگا اس کے جسم سے سارا خون ایک پل میں ہی خشک ہو گیا. کیا ہر محبت کرنے والا اظہار کرتے وقت اسی خطرناک مرحلے سے گزرتا ہے. ....میں ..میں. ....میں. ...اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے...وہ اب بھی سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی. ...آئی لو یو حور......جلدی جلدی اس نے اپنا فقرہ مکمل کیا .ماحول میں یک دم خاموشی چها گئی.وہ لڑکی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ...اچانک ایک زور دار تھپڑ کی آواز پورے فضا میں گونجی...اور وہ اپنے گالوں پہ ہاتھ رکھ کر حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا. ...بد تمیز بے شرم....سمجھتے کیا ہو تم لوگ اپنے آپ کو...؟ کیا سمجھ کر آپ نے یہ بات کی مجھ سے ..؟...اس کے پاوں کے نیچے سے جیسے زمین کھسک گئی. .تم لوگ سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو کیا ہم لڑکیاں اتنی بے وقوف ہوتی ہیں جو تم لوگوں کی پیار بهری باتوں سے تم لوگوں کی بنائی محبت کی جال میں پھنس جائیں گی. .......وہ ساکت کهڑا تها. .اچانک جیسے پورا آسمان اس کے سر پہ آ گرا ہو......میں تم جیسے آوارہ لڑکوں کو اچهے سے جانتی ہوں. جانے اس سے پہلے یہ محبت کا اظہار کتنی لڑکیوں سے کر چکے ہو گے.. اب دوبارہ کهبی میرے سامنے مت آنا ..سمجهے....؟حو..ر......اس کے منہ سے ادهورا لفظ نکلا..حور سبحان نہیں ارنسہ علی . روحل...اس نے اپنے جسم سے وہ لمبی سیاہ چادر اتاری. ..اور وہ حیرت سے کهڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا..جس نے تنگ جینز کے اوپر تنگ گلابی ٹی شرٹ پہنی تھی. .بال کهلے ہوئے تھے. .وہ کسی بھی اینگل سے دیہاتی نہیں لگتی تھی. اس نے اپنے جسم سے معصومیت اور سادگی کا وہ ڈھونگ ہٹا دیا تها.جس نے اسے دیوانہ بنایا تها..ایک پل میں ہی اس معصوم لڑکی نے ایک بهیانک روپ دھار لیا.ایسا روپ جسے دیکھ کر وہ خشک پتے کی مانند کانپ گیا..اور وہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس لڑکی کو پہچان گیا......ارنسہ.... علی.....؟ اس کی زبان لڑکهڑائی. ..ہاں میں. .یاد ہے ایک سال پہلے جب میں نے اپنی محبت کا اظہار تم سے کیا تها تو تم نے کیا کیا تها میرے ساتھ. ..آج جس جگہ پہ تم کهڑے ہو ایک سال قبل میں کهڑی تهی. آج جو درد تم محسوس کر رہے ہو وہ ایک سال قبل میں نے محسوس کیا ہے...اب سمجھ آیا مسٹر روحل ابراہیم محبت کیا ہوتی ہے اور محبت انسان کو کتنا مجبور کر دیتا ہے. ..اس کے لہجے میں کتنی نفرت کتنا غصہ تها وہ اچهے سے محسوس کر رہا تھا. ....اپنی بات مکمل کر کے وہ جا رہی تھی...اور وہ ساکت اور حیرت سے گنگ کهڑا اس لڑکی کو دور جاتا دیکھ رہا تها .اس کے سیاہ لمبے خوبصورت بال اس کی پشت پہ بڑی خوبصورتی سے لہرا رہے تھے......بے وفائی اور دهوکے کی سب سے پہلی سیڑھی پہ کهڑی یہ لڑکی وہ تهی جس سے اس نے سب سے زیادہ محبت کی ہے...اس کا دماغ اسے کہیں پیچھے لے گیا بہت پیچھے ایک سال پیچھے. .....وہ کوئی کتاب لیے یونیورسٹی کی سیڑھیاں اتر رہا تھا جب اس نے اپنے پیچھے کسی لڑکی کی آواز سنی.....Hi Rohil.....اس نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکها..اور اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے لگا مگر وہ لڑکی اس کے سامنے آ گئی. .
 
یہ کیا بدتمیزی ہے ہٹو سامنے سے...اس نے غصے سے کہا. ..میرا نام ارنسہ علی ہے..میں آپ سے پیار کرتی ہوں.اس نے صاف گوئی سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا. ..بد تمیز بے شرم....سمجھتی کیا ہو تم لوگ اپنے آپ کو...؟ کیا سمجھ کر آپ نے یہ بات کی مجھ سے ..؟اس کا ایسی لڑکیوں سے تقریباً روز سامنا ہوتا تھا .اور وہ نفرت کرتا تها ایسی لڑکیوں سے جو ادائیں دکها دکها کر مردوں کو اپنے جهانسے میں لے لیتی ہیں....تم لوگ سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو کیا ہم مرد اتنے بے وقوف ہوتے ہیں جو تم لوگوں کی پیار بهری باتوں سے تم لوگوں کی بنائی محبت کی جال میں پھنس جائیں گے. ..اس کے دل میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں جتنی نفرت اس دن وہ سب واضح کر دینا چاہتا تھا.....نہیں ارنسہ علی یہ آپ لوگوں کی غلط فہمی ہے سب سے بڑی غلط فہمی... 

نکاح سے پہلے ہمبستری

میں تم جیسی آوارہ لڑکیوں کو اچهے سے جانتا ہوں. جانے اس سے پہلے یہ سب کتنوں مردوں سے کہا ہو گا تم نے... اب دوبارہ کهبی میرے سامنے مت آنا ..سمجهی.وہ اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ گیا بنا اس کے چہرے کے تاثرات دیکهے..اس کی اپنی ہی آواز پوری یونیورسٹی میں گونج رہی تھی.........اسے نہیں پتا وہ لڑکی اس دن کہاں چلی گئی تهی مگر اس نے دوبارہ کهبی اسے یونیورسٹی میں نہیں دیکها.اور نہ کوئی یہ ایسا غیر معمولی واقعہ تها جسے وہ دماغ پر سوار کر لیتا..اس نے نہیں سوچا کهبی نہیں سوچا جس لڑکی سے وہ زندگی میں صرف ایک بار ملا وہ اس کی زندگی کا اتنا اہم حصہ بن جائے گا. وہ معمولی واقعہ وہ عام انداز میں کہے جانے والے الفاظ آج اچانک اس کے لیے کتنے اہم اور کتنے تکلیف دہ ہو گئے...نفرت سے محبت کا سفر اور محبت سے نفرت تک کا سفر دونوں ہی امتحان دہ ہوتے ہیں. .....دهوکہ...فراڈ ..بے وفائی. ..مزاق. ...بدلہ. مکاری فریب..یہ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ. .بے بسی سے اس نے اپنا سر تهام لیا اس کا حال ایسا تها جیسے اسے کسی نے زندہ قبر میں دفن کر دیا ہو....وہ کهبی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ وہ لڑکی ہے .وہ اتنی پرانی بات بهول بهی چکا تها..اور وہ لڑکی اتنی پرانی بات نہ صرف یاد رکهے ہوئے تهی بلکہ اس نے دوگنا کر کے اپنا قرض وصول بهی کر لیا تها..اس پہ پہلی بار انکشاف ہوا کہ وہ لڑکیوں کو کهبی نہیں سمجھ سکتا. اور صرف وہی نہیں دنیا کا کوئی بھی مرد کسی بھی لڑکی کے باطن میں نہیں جهانک سکتا. .... ..' وہاں تو بہت لڑکے کهڑے ہیں میں کیسے جاوں ''''' میرے پاس کرایا نہیں تھا '''''''' میں جهوٹ کهبی نہیں بولتی '''''
 
اس کی ساری تعلیم ساری ڈگریاں دهری کی دهری رہ گئیں .کسی وقت میں وہ خود کو بہت چہرہ شناس اور دانا تجربے کار سمجهتا تھا..مگر یہ لڑکی اس کے ہر تجربے ہر دعوے کو اپنے پیروں تلے روند کر سامنے قہقہے لگا لگا کے اس پہ ہنس رہی تھی. ...کیا اب وہ زندگی میں کهبی کسی پہ بهروسہ کر سکے گا کیا وہ محبت پہ بهروسہ کر سکے گا کهبی. یا پھر کهبی وہ یہ دعویٰ کر سکے گا کہ وہ بہت چہرہ شناس ہے.یا پهر روحل ابراہیم کهبی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ لڑکیوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے. .......وہ کیسے مان لے کہ جس سے اس نے محبت کی تهی وہ وہ نہیں وہ کوئی اور تهی. اس سے بہت مختلف. .کیسے یقین کرے کہ اس لڑکی کی کہی ہر بات ہر ادا ہر آنسو جهوٹ تها..اس نے جو کیا ایک دکهاوا تها ایک سازش تھی..
یقین 'اعتماد ' بهروسہ 'یہ لفظ اچانک اس کی زندگی سے غائب ہو گئے. .وہ ایسا منہ کے بل گرا کی دوبارہ کهبی کهڑے ہونے کے قابل ہی نہ رہا...دنیا کا کوئی بھی انسان اس کے ساتھ یہ کرتا مگر وہ...وہ..اسے نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے ساتھ ایسا.......بڑی شان اور تکبر سے کهڑی اس کے دل کی عمارت ایک پل میں ہی کسی نے بڑی بے دردی سے زمین بوس کر دیا .......اور وہ کهلے آسمان تلے بے بس مجبور لاچار کهڑا تها. اس کی آنکھوں میں آنسو تهے. ..'' یہ کیسا قرض تها تمارا _ اس قرض کے بدلے میں تم نے میری زندگی ہی چهین لی '''اس وقت غصے میں اس نے نہیں سوچا مگر آج وہ سوچ رہا تها واقعی وہ لڑکی اس سے بہت محبت کرتی تهی ...اور اس دن اسے بھی اتنی ہی تکلیف ہوئی ہو گی.....اس کا دل کہہ رہا تھا اس لڑکی نے جو اس کے ساتھ کیا وہ کسی دهوکے یا بدلے کی غرض سے نہیں بلکہ اسے احساس دلانے کے لیے. ...اسے معلوم تھا اب اسے کیا کرنا ہے. .کیسے اس لڑکی کو اس کا کهویا ہوا مان اور اس کی محبت لوٹانی ہے.وہ جانتا تھا محبت وہ جذبہ ہے جو کهبی نہیں مرتی. اس لڑکی کے دل میں آج بھی اس کے لیے محبت زندہ ہو گی..صرف اس وہ محبت حاصل کرنا ہے......روحل ابراہیم ایک بار پھر ارنسہ علی سے ملنا چاہتا ہے. .....
 
نہیں لوٹ سکتے اگر تم کهبی....تو لوٹا دو مجھ کو محبت میری .....وہ ساون کی راتیں وہ چاہت سبهی.....وہ خوبواں کے دن وہ نیندیں میری...وہ ساون کے موسم کی لمبی سی راتیں. ...وہ چاہت کا موسم وہ پیاری سی باتیں. ...میرا دل میرا پیار وہ سانسیں میری....لوٹا گی کیسے وہ قرضے سبهی. ....نہیں لوٹ سکتے اگر تم کهبی. .....تو لوٹا دو مجھ کو محبت میری
(ختم شدہ)

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں