نافرمانی کا بھیانک انجام ۔ پہلا حصہ


میرے پانچ بہن بھائی اور تھے۔ میرا باپ معمولی ملازم تھا۔ اس کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی تھی کہ ہم پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے۔ ہم لوگ دو وقت کے کھانے کے کو ترس جاتے تھے۔

ایسے میں میرے گھر رشتے بھی ایسے آتے جو ہم جیسے ہوتے۔ میں منع کر دیتی اور اماں کو کہتی میرے لیے کوئی امیر گھر کا لڑکا دیکھیں۔ میری خواہش تھی کہ کسی ایسے بندے سے شادی کرو ں جو مہینے کا پچاس ساٹھ ہزار کماتا ہو تا کہ میں اپنی ساری حسرتیں پوری کر لوں۔ میری ماں بیچاری کہاں سے امیر لڑکا ڈھونڈتی ،اس لیے میں نے یہ کام خود ہی کرنے کا سوچا۔ میں نے اپنے رشتے داروں میں سے کسی لڑکے کا سوچا مگر پھر خود ہی یہ خیال رد کر دیا کیونکہ سارے رشتے دار ہمارے جیسے غریب ہی تھے۔ میں روز اللہ سے دعا کرتی کہ کسی امیر بندے سے میرا ٹکراؤ کروادے۔ ایک دن اللہ نے میری سن لی ۔۔

تھیں۔ وہ فور اباہر آئیں اور مجھے اندر بٹھایا۔ مجھے زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی مگر پھر بھی دین والا سب کو گھر چھوڑ کر مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ اس نے مجھے سے معافی مانگی اور ڈھیر سارے فروٹ بھی لے کر دیے۔

پھر اکثر ہی میری اس سے اپنے کالج کے سامنے ملا قات ہونے لگی۔ ایک دن وہ کہنے لگا کہ میں اس کی وین میں ہی کا لج آجایا کروں، وہ مجھ سے کرایہ بھی نہیں لے گا۔ مجھے اور کیا چاہیے تھامیرے کرائے کے پیسے بچ جاتے ۔ کالج وین کا ڈرائیور ایک اچھا لڑکا تھا اور اس کے رویے سے لگتا تھا کہ وہ مجھے پسند بھی کر تا تھا ۔۔

معصوم جذبات اردو کہانی

ایک دن اس نے مجھ سے شادی کے لیے کہا۔ وہ مہینے کا پچاس ہزار سے زائد ہی کمالیتا تھا جبکہ وہ تھا بھی اکیلا جبکہ ہمارے گھر دس ہزار بھی نہیں آتے تھے اور پورا خاندان کھانے والا تھا۔ میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتی تھی اور آگے پڑھنے کا نہ مجھے شوق تھا اور نہ میرے گھر کے حالات اس قابل تھے۔ ان حالات میں یہ رشتہ میرے لیے بہترین تھا۔ میں اس سے شادی کر کے عیش والی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔

میں نے اپنی اماں سے بات کی کہ وہ میرا رشتہ کروا دیں لیکن انہیں یہ اعتراض تھا کہ لڑکا اکیلا ہے۔ نہ ماں، نہ باپ اور نہ کوئی بہن بھائی۔ ایسے لڑکوں کا کیا بھروسہ۔ ابا نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ وہ کہنے لگے کہ بیٹی زمانہ کیا کہے گا اور ویسے بھی مجھے وہ لڑکا تمہارے لیے مناسب نہیں لگتا۔ مگر میں نے اپنے گھر والوں کو صاف کہہ دیا کہ شادی کروں گی تو اسی سے ۔میرے سر پر اس کے پیسوں کا بھوت سوار ہو چکا تھا اس لیے سب کی ناراضی کے باوجود میں شادی کر کے اپنے شوہر کے گھر آگئ

اس کا نام مطاہر تھا اور وہ پچھلے کئی سالوں سے ڈرائیوری کر رہا تھا ۔ مطاہر نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے بہت پسند کرتا تھا اور مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس نے شادی کی پہلی رات مجھے سونے کے جھمکے تحفےمیں دیے۔ میری ہمیشہ سے سونا پہننے کی خواہش تھی اس لیے میں اس کے تحفے پر بہت خوش ہوئی تھی۔ میں اس سے شادی کر کے نہایت مطمئن تھی۔ وہ بہت کھلا خرچ کر تا تھا۔ مجھے ہر ہفتے بعد شاپنگ پر لے جاتا۔ مہنگے مہنگے تحفے دیتا اور اکثر کھانا بھی مہنگے ہوٹلوں میں کھلاتا تھا۔ میں بھی تو یہی سب چاہتی تھی۔

خوبصورت اور جواں سالہ پڑوسن

وہ مجھے اچھی زندگی دینے کے لیے بڑی محنت کر رہا تھا۔ راتوں کو بھی وین لے کر نکل جاتا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جو رات کی سواریاں ہوتی ہیں ان سے کرایہ زیادہ ملتا ہے اس لیے وہ رات کو بھی پھیرا لگالیتا ہے۔ شادی سے پہلے میں نے اس کی آمدنی کا جو اندازہ لگایا تھا وہ بہت کم نکلا تھا کیونکہ وہ لا کھ دو لاکھ تک کمالیتا تھا اور میرے لیے یہ بات حیران کن بھی تھی اور اچھی بھی۔ کیونکہ مجھے وہ سب مل رہا تھا جس کی میں خواہش کرتی تھی۔ میری زندگی اچھی چل رہی تھی۔ میں جب سونے کا زیور پہن کر اپنے محلے میں جاتی تو سارے محلے والے رشک کرتے۔ سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر اچانک ہی ہمارے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے ۔

جانے کس کی نظر لگ گئی کہ میرے شوہر کا سارا کام ٹھپ پڑ گیا۔ پہلے میرے شوہر کی وین بکی پھر میرا سار از یور، اور پھر گھرکا سارا قیمتی سامان بھی بک گیا۔ میراشوہر ہر وقت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ سارا سارا دن گھر میں پریشانی سے گز ار دیتا اور کام ڈھونڈنے نکلتا تو کئی کئی دن بعد واپس آتا۔ پتا نہیں ایک دم سے حالات نے کیسے پلٹا کھایا تھا کہ برے دن شروع ہو گئے ۔ ایک دن میرا شوہر کہنے لگا ہم دوسرے شہر چلتے ہیں وہاں ہو سکتا ہے قسمت ہم پر مہربان ہو جائے ۔ میں نے بھی سوچا ہو سکتا ہے جگہ بدلنے سے حالات بدل جائیں ۔۔

یوں ہم اپنا تھوڑا بہت سامان لے کر اس شہر آگئے ۔ لیکن یہاں آ کر بھی حالات میں سدھار نہیں آیا بلکہ وہ مزید بگڑتے گئے ۔ ہم گھر کی چیزیں بیچ کر گزارہ کرتے تھے۔ گھر میں بیچنے کو بھی جب کچھ نہ رہا تو نوبت فاقے تک آگئی۔ میں ان حالات سے بہت تنگ آچکی تھی۔ آئے دن میری اپنے شوہر سے لڑائی ہوتی تھی۔ میں اسے مجبور کرتی تھی کہ وہ باہر جا کر کمائے ۔

میں نے اس لیے شادی کی تھی کہ مجھے ایک سکھی اور خوشگوار زندگی گزارنی تھی اور اب وہ حالات ہوگئے تھے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کو جنت سمجھنے لگی۔ ہم جتنے بھی غریب تھے میرے ماں باپ نے کبھی ہمیں بھوکے پیٹ سونے نہیں دیا تھا، اور اب میں دن میں ایک وقت روکھا سوکھا کھا کر گزارا کرتی تھی۔ اب روز میری میرے شوہر سے لڑائی بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے اسے دھمکی دی کہ اگر وہ پیسے گھر نہیں لائے گا تو میں اسے چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤں گی۔ میرا شوہر مجھ سے بہت پیار کرتا تھا اس لیے اس نے وعدہ کر لیا کہ ایک دو دنوں کے اندر وہ مجھے پیسے لا دے گا۔

وہ محبت کر بیٹھی تھی

اگلے دن ایک عجیب بات ہوئی۔ میرا شوہر گھر سے باہر گیا اور جب گھر واپس آیاتو اپنے ساتھ ایک چھوٹی سی بکری لے آیا۔ مجھے بکری دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ میں نے چلا کر کہا کہ

” گھر میں کھانے کو کچھ ہے نہیں اور تم یہ بکری اٹھا لائے ہو۔ اس کو چارہ کہاں سے دو گے؟”

میرے شوہر نے کہا

” یہ کوئی عام بکری نہیں ہے۔ بڑی خاص اور کرشماتی بکری ہے۔ اب اس کی وجہ سے ہم امیر ہو جائیں گے۔ ہم روز اسی سے پیسے حاصل کیا کریں گے۔”

میں یہ سن کر ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ

“تم کونسے زمانےمیں جی رہے ہو ،بھلا یہ بکری ہمیں کیا دے گی۔ “

میرے شوہر نے کوئی جواب نہیں دیا اور جا کر بکری کو گھر کے ایک کونے میں باندھ دیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس بکری کو گھر سے باہر کہیں چھوڑ آئے مگر اس نے میری ایک نہ سنی اور مجھے سختی سے کہا کہ میں نے اس بکری کو گھر سے نکالنے کی بات نہ کروں۔ میں رات بھر اس بکری کو لے کر پریشان رہی کہ ہم میاں بیوی کو کھانے کو روٹی مل نہیں رہی اس بے زبان کو کہاں سے کھلائیں گے ۔۔

صبح میرے اٹھنے سے پہلے ہی میرا شوہر اٹھ گیا۔ وہ بکری کا چار الے آیا تھا۔ لیکن اس وقت مجھے بڑا جھٹکا لگا جب وہ آگے بڑھا اور اس نے بکری کے منہ سے کچھ نکالا اور ایک تھیلی میں ڈال کر باہر بھاگ گیا۔میں وہیں کھڑی بے حد پریشانی سے دیکھ رہی تھی کہ آخر میرے شوہر نے یہ کیا حرکت کی ہے۔ کچھ دیر بعد وہ گھر واپس آیا تو اس کی جیبیں پیسو ں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں تو وہ ٹال مٹول کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ

“تمہیں کیا ہے تمہیں پیسوں سے مطلب ہے ،تم خرچ کرو جیسے چاہو۔ “

لیکن میں نے اصرار کر کے پوچھا کہ

” یہ راز کیا ہے کہ تم نے بکری کے منہ سے کچھ نکالا ہے اور اب تمہارے پاس پیسے آگئے ۔ “

میراشوہر پیار سے بکری کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا کہ

” میں نے تمہیں کہا تھا کہ یہ بڑی کر شاتی بکری ہے۔ اسی کی وجہ سے مجھے دولت ملی ہے۔ اس کی سیوا کرویہ بکر ی ہمیں بڑافائدہ دے گی۔”

میں اس کی بات پر حیران رہ گئے۔ سونے کے انڈے دینی والی مرغی کے بارے میں تو سن رکھا تھامگر نوٹ دینے والی بکری کاکبھی نہیں سنا تھا۔ میں حیرانی سے بکری کو دیکھ رہی تھی اور سوچنے لگی کہ کیا واقعی میرا شوہر سچ کہہ رہا ہے اور یہ بکری عام بکری نہیں ۔۔۔۔

خیر اس نے ان پیسوں سے گھر میں کھانے پینے کا سامان ڈالا اور میرے لیے کچھ کپڑے وغیرہ لے آیا۔ عرصے بعد اچھا کھانے اور پہننے کو ملا تھا۔ میں بہت خوش تھی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ حالات اب ٹھیک ہو جائیں گے ۔اگلی صبح میں نے اٹھ کر بکری کو چارا ڈالا اور اس کو پیار کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد میرا شوہر آیا اور مجھے کہا کہ اندر سے بکری کے لیے پانی لے آؤ۔ میں اندر کچن میں گئی اور ایک برتن میں پانی لے کر باہر آگئی تھی کہ میں نے دیکھا ،میرے شوہر نے کل کی طرح بکری کے منہ سے کچھ نکالا اور ایک تھیلی میں فور اًسے وہ چیز ڈال لی۔ میں نے اسے اسے آواز دی مگر وہ باہر بھاگ گیا ۔۔

کچھ دیر بعد میرا شوہر گھر آیا تو کل کی طرح آج بھی اس کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں دنگ رہ گئی کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ آج بھی میں نے اپنے شوہر سے پوچھا مگر وہ ٹال گیا۔ پھر روز ایسا ہی ہونے لگا۔صبح صبح وہ بکری کے منہ سے کچھ نکالتا اور ایک تھیلی میں ڈال کر چلا جاتا۔ جب گھر آتا تو جیبیں نوٹوں سے بھری ہوتیں۔

وہ اپنے لیے اور میرے لیے ان پیسوں سے بے تحاشا شاپنگ کرتا۔ اس نے ایک گھر کی بکنگ بھی کروالی اور ان پیسوں سے قسطیں بھرنے لگا۔ میں اسے سمجھاتی کہ اب ذرا دیکھ بھال کر خرچ کرو مگر عیاشی میں وہ مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ جب تک اپنے پاس موجود پیسے ختم نہ کر لیتا اس کو چین نہ ملتا۔ اب وہ مجھے کھانا بھی نہیں پکانے دیتاتھا اور روز ہم بڑے ہوٹلز میں جا کر کھانا کھاتے۔ یہ سب صرف اور صرف اس بکری کی وجہ سے ہو رہا تھا۔

اس کے منہ سے وہ کچھ نکالتا تھا اور بدلے میں پیسے پاتا تھا۔ مجھے اس سلسلے میں بہت تجسس ہو چکا تھا۔اور اب مجھے اپنے شوہر پر شک ہونے لگا تھا۔ ایک دو بار میں نے پیار سے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے سب سچ سچ بتاؤ لیکن اس نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ مجھے کچھ نہ بتایا۔ میرے غصہ کرنے پر بھی میرا شوہر بس یہی کہتا کہ یہ کرشاتی بکری ہے۔ مجھے جانے کیوں اپنے شوہر کی بات پر یقین نہیں آتا تھا۔ وہ بکری عام بکریوں کی طرح کھاتی پیتی تھی اور رہتی تھی۔ اس میں کوئی بھی خاص بات نہیں تھی۔

جن زادی کے ساتھ زیادتی

مگر پھر بھی میرا شوہر اسی بات پر اڑا ہوا تھا کہ ہمیں جو بھی دولت مل رہی ہے اسی بکری کے ذریے مل رہی ہے۔ اگر ہم نے اس بکری کو گھر سے نکال دیا تو پھر سے غریب ہو جائیں گے۔ میں اس کی بات سے ڈر گئی ۔ میں غریب نہیں ہونا چاہتی تھی اور نہ ہی دوباره فاقے کا ٹنا چاہتی تھی۔ کچھ دن تو میں نے سکون سے گزار دیے مگر پھر تجسس نے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ مجھے اپنے شوہر کی مشکوک حرکات نے مجبور کر دیا کہ میں اس پر نظر رکھوں ۔۔
............................ 
............................ 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں