رات کی ڈیوٹی - خوفناک کہانی ۔ پہلا حصہ

 

 رات کی ڈیوٹی - خوفناک کہانی

پہلا حصہ: تحریر دیمی ولف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنڈی بھٹیاں کے علاقے میں شوکت نامی ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ رہا کرتا تھا جو کہ بہت ہی غریب اور چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔ شوکت جب پانچ سال کا تھا تو اس کی ماں بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے فوت ہو چکی تھی اس لیئے شوکت کے گھر میں ٹوٹل چھ لوگ تھے جن میں ایک شوکت کا بوڑھا باپ بشیر۔ اس کی بیوی صدیقہ اور اس کی سولہ سالہ بیٹی ناظمہ اور دو بیٹے ایک کا نام جمشید جو کہ تیراں سال کا تھا دوسرا اسد جو کہ نو سال کا تھا اور یہ دونوں بچے کسی سرکاری سکول میں پڑھتے تھے ۔ اس طرح شوکت گھر میں اکیلا ہی کمانے والا اور وہ کسی اینٹیں بنانے والے بھٹے میں کام کیا کرتا تھا جس کے پیسے شوکت ہفتے کے ہفتے لیا کرتا تھا اور اس سے وہ گھر چلایا کرتا تھا ایک دن شوکت کام سے تھکا ہارا گھر آیا اور صحن میں بچھی چار پائی پر بیٹھ کر اپنے کاندھے سے رومال اتار کر اپنا پسینہ صاف کرنے لگا

اتنے صدیقہ نے شوکت کو پانی کا گلاس دیا اور خود شوکت کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پاؤں دباتے ہوئے کچھ سوچنے لگی ۔ شوکت نے پانی پیا اور گلاس سائیڈ پر رکھتے ہوئے صدیقہ کی طرف دیکھا اور پھر بولا کیا ہوا صدیقہ آج تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو ؟؟ صدیقہ نے شوکت کی بات پر غور نہیں کیا اور پاوں دباتے ہوئے کسی سوچ میں گم رہی ۔ شوکت نے اپنے پاؤں پیچھے ہٹاتے ہوئے صدیقہ سے دوبارہ سے پوچھا کیا ہوا کہاں کھوئی ہوئی ہو ؟؟ صدیقہ نے اچانک چونک کر شوکت کی طرف دیکھا اور بولی جی جی کیا کہا آپ نے ؟؟ شوکت نے حیرت سے صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا پریشانی ہے تمہیں میں کب سے پوچھ رہا ہوں کیا ہوا اور تم ہو کہ جواب ہی نہیں دے رہی سب کچھ ٹھیک تو ہے نا ؟؟ صدیقہ نے کہا ہاں سب ٹھیک تو ہے پر آپ کو پتا ہے نا ہماری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے اور اب ہمیں اس کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ شوکت نے افسردہ سا ہو کر کہا ہاں سوچنا تو چاہیئے پر میں جو پیسے لاتا ہوں وہ تو گھر کے اخراجات میں خرچ ہو جاتے ہیں اور آج کل تو بنا جہیز کے شادی میں لوگ کسی کی بچی کے سر پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے۔۔

پتا نہیں یہ سب کیسے ہو گا ؟ میرا تو کوئی بہن بھائی بھی نہیں ہے جو کہ میری مدد کر پاتا اور میرے باپ نے میرے لیئے کوئی زمین جائیداد بھی نہیں رکھی ہوئی کہ جسے بیچ کر میں اپنی بچی کی شادی کرا سکوں۔ آ جا کے یہ گھر ہے اور اگر اس کو بیچ دیں گے تو ہم سڑک پر آجائیں گے ۔ ابھی شوکت یہ بات کر ہی رہا تھا کہ صدیقہ نے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو کیا میں بھی آپ کے ساتھ بھٹے میں کام کر سکتی ہوں ؟؟ شوکت نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے صدیقہ کی طرف دیکھا اور بولا یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں کیا لگتا ہے میں اتنا گر گیا ہوں کہ اب میں تمہیں بھی اپنے ساتھ بھٹے میں جھونک دونگا ؟؟ صدیقہ نے کہا ارے نہیں نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو بس یہ چاہتی تھی کہ جیسے باقی عورتیں بھی بھٹے میں کام کرتیں ہیں میں بھی انہی کی طرح کام کر کے اپنی بچی کے لیئے جہیز کا سامان تیار کر لوں گی ذرا آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اگر میں کام کروں گی تو جو پیسے میں کماؤں گی وہ پیسے میں جمع کر کے اپنی بیٹی کی شادی کے لیئے رکھ دونگی اور جو پیسے آپ کماتے ہو وہ آپ گھر کے اخراجات پر ہی خرچ کرتے رہنا اور جب ہماری بچی کی شادی ہو جائے گی تو میں کام چھوڑ دوں گی تو کیا یہ سہی نہیں ہے ؟ شوکت نے صدیقہ کی طرف دیکھا اور پھر اپنی چھوٹی انگلی اپنے منہ میں دبا کر اپنی نظریں ادھر اُدھر کرتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اچانک اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ صدیقہ نے شوکت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا آپ کو ؟ میں نے کچھ غلط کہہ دیا کیا ؟؟ شوکت نے کہا مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں تم سے کیا کہوں جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں سب لوگ مجھے جانتے ہیں اور ایسے میں اگر کسی کو بھی پتا چل گیا کہ میں اپنی بیوی کو بھی کام کروانے کے لیئے ساتھ لایا ہوں تو وہ سب طرح طرح کی باتیں کریں گے۔ نہیں نہیں میں یہ سب برداشت نہیں کر سکوں گا ۔ صدیقہ نے آپ کو لوگوں کی باتوں کی پرواہ پر اپنی بیٹی کی پرواہ نہیں ہے کیا ؟؟

شوکت نے کہا مجھے پرواہ ہے لیکن یہ سب میری سمجھ میں نہیں آرہا ۔ صدیقہ تھوڑی دیر کے لیئے خاموش ہو گئی اور پھر کچھ سوچنے کے بعد صدیقہ نے کہا اچھا تو ٹھیک ہے اگر میرے بھٹے میں کام کرنے سے آپ کی عزت کم ہوتی ہے تو میں پھر کوئی اور کام کر لوں گی جیسے کہ لوگوں کے گھر میں جھاڑوں برتن یا کپڑے وغیرہ دھو لوں گی کیونکہ سامنے گھر والی باجی نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ کوئی کام کرنے والی ڈھونڈ کر دینا اس لیئے میں خود ہی وہ کام کر لوں گی ویسے بھی سامنے والی باجی بہت اچھی ہیں اور وہ ہماری اکثر مدد کرتی رہتی ہیں اس وجہ سے وہ تنخواہ بھی اچھی دیں گی مجھے ۔ شوکت پھر سے ادھر اُدھر دیکھ کر کچھ سوچنے لگا پھر صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا میرا دل تو نہیں مان رہا پر میں بہت مجبور ہو کر تمہیں اجازت دیتا ہوں لیکن جب ہماری بچی کی شادی ہو جائے گی تو تم کام چھوڑ دینا ؟ صدیقہ نے کہا جی ٹھیک ہے۔ پھر شوکت نے صدیقہ کو کہا اچھا اب کھانا تو دے دو بہت بھوک لگ رہی ہے اور بچوں کو بھی بلا لو ۔ صدیقہ نے کہا ہاں ہاں کھانا تیار ہے بس ابھی گرم کر کے لاتی ہوں اور بچے کمرے میں ٹی وی دیکھ رہے ہیں تب تک آپ ہاتھ منہ دھو لیں ۔ یہ کہہ کر صدیقہ کھانا لینے کے لیئے چلی گئی اور شوکت ہاتھ منہ دھو کر بچوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور کچھ دیر میں سب نے کھانا کھایا اور پھر سب سو گئے اگلے دن شوکت روزمرّہ کی طرح کام پر گیا اور صدیقہ سامنے والی ہمسائی ( فوزیہ) کے گھر گئی جو کہ کافی پیسے والے لوگ تھے ۔

صدیقہ نے فوزیہ کو ناظمہ کی شادی کو لے کر ساری بات بتائی اور اپنے کرنے کے لیئے کام مانگا فوزیہ نے صدیقہ کو کہا ارے تمہاری بچی کی شادی میں جتنا خرچا ہو گا وہ سب میں کر لوں گی اس کے لیئے تمہیں ہمارے پاس کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ صدیقہ نے کہا نہیں فوزیہ باجی میں اپنی بیٹی کی شادی کے لیئے آپ سے پیسے نہیں لے سکتی آپ کا بہت بہت شکریہ آپ پہلے ہی میری بہت مدد کرتی رہتی ہیں بس آپ مجھے کام پر رکھ لیں تو یہ آپ کی مجھ پر بہت بڑی مہربانی ہوگی کیونکہ میرے شوہر جو پیسے کماتے ہیں وہ سب گھر میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں اس وجہ سے میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا کر اپنی بیٹی کے لیئے جہیز کا سامان اکٹھا کرنا چاہتی ہوں تو آپ مجھ کام دے کر یہ ایک احسان کر دیں مجھ پر ۔ فوزیہ نے کہا ارے اس میں احسان والی کونسی بات ہے تم آج سے ہی اس گھر میں کام کر سکتی ہو باقی مجھے تمہاری خودداری پسند آئی اسی لیئے میں تمہیں تنخواہ بھی اچھی دونگی اور ہاں تمہارا شوہر کیا کام کرتا ہے ؟؟ صدیقہ نے کہا باجی وہ کسی اینٹوں کے بھٹے میں کام کرتے ہیں ۔

فوزیہ نے کہا اچھا خلیل(یعنی فوزیہ کا شوہر ) آتے ہیں تو میں ان سے تمہارے شوہر کے لیئے بھی کوئی اچھا سا کام ڈھونڈنے کو کہوں گی تاکہ تمہارے گھر کے حالات بہتر ہو سکیں اور تمہاری بیٹی کی شادی اچھے سے ہو سکے ۔ صدیقہ نے کہا فوزیہ باجی آپ کا بہت بہت شکریہ اللّٰہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین ۔ یہ کہہ کر صدیقہ نے فوزیہ گھر کام کرنا شروع کر دیا اور جھاڑو برتن وغیرہ کا کام مکمل کر کے گھر واپس آگئی ۔ پھر شام کو شوکت بھی اپنے کام سے واپس آیا تو صدیقہ نے اسے فوزیہ کے ساتھ ہوئی تمام باتوں کے بارے میں بتایا اور اپنے کام کے بارے میں بتایا تو شوکت بہت خوش ہوا اور پھر صدیقہ نے کہا کہ فوزیہ باجی اپنے شوہر سے آپ کے لیئے کوئی اچھا سا کام بھی ڈھونڈنے کو کہیں گی جس میں آپ کو زیادہ پیسے ملیں گے ۔ شوکت نے کہا اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے ویسے بھی بھٹے کا کام کر کے میں بہت تھک جاتا ہوں اور پیسے بھی بہت کم ملتے ہیں ۔ صدیقہ نے کہا ہاں پر مجھے امید ہے کہ فوزیہ باجی آپ کے لیئے بھی کام کا بندوست کر دیں گی ۔ شوکت نے آسمان کی طرف منہ کر کے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور فوزیہ اور اس کے شوہر کے لیئے دعا کی ۔ پھر اپنے والد کے کمرے میں گیا وہاں جا کر شوکت نے اپنے والد کی خیریت پوچھی اور ان سے اپنے حق میں بہتری کے لیئے دعا کرنے کو کہا تو بشیر نے آنکھوں میں آنسوں لیئے شوکت کے حق میں دعا کی اور اسے کہا بیٹا میں بہت لاچار ہوں کہ میں تمہارے لیئے کوئی زمین جائیداد نہیں بنا سکا اور تمہیں اس حال میں دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے ۔

شوکت نے بشیر کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا ابو یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کی وجہ سے ہی تو میں آج چل پھر رہا ہوں میں نے تو امی کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا اور وہ فوت ہو گئیں تھیں اس کے بعد میں نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے آپ کو ہی میرے لیئے محنت کرتے ہوئے دیکھا ہے آپ کا راتوں کو جاگ جاگ کر مجھے ہوا دیتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ کا خود بھوکا رہ کر مجھے کھانا کھلاتے ہوئے دیکھا ہے میرے لیئے ماں اور باپ سب کچھ آپ ہی ہیں جو آپ نے میرے لیئے کیا میں ساری زندگی بھی لگا دوں تو آپ کے ایک لمحے کا بھی احسان نہیں چکا سکتا ۔ یہ کہتے ہوئے شوکت نے بشیر کو گلے لگا لیا دونوں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور پھر شوکت نے کہا ابو مجھے آپ سے کسی بھی قسم کا کوئی گلا نہیں ہے بس اور نا ہی مجھے کچھ چاہیئے بس میرے لیئے آپ کی دعائیں ہی کافی ہیں ۔ بشیر نے شوکت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بیٹا میری دعائیں ہمیشہ تم لوگوں کے لیئے ہیں آج جب میں اپنے پوتی پوتوں کو دیکھتا ہوں مجھے ایک نئ زندگی مل جاتی ہے بس بیٹا تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ؟ شوکت نے کہا جی جی ابو کہیں آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں۔ بشیر نے کہا میں نے تمہاری پرورش تو کی پر غربت کی وجہ سے تمہیں پڑھا لکھا نہیں سکا اس وجہ سے آج تمہیں بھٹے میں کام کرتا دیکھ بہت دل جلتا ہے اگر میں نے تمہیں پڑھایا لکھایا ہوتا تو شاید آج تم اتنا مشقت والا کام نہ کر رہے ہوتے ۔ اسی لیئے میں اج تم سے کہنا چاہتا ہوں چاہے جو بھی ہو جائے تم اپنے بچوں کو ضرور پڑھانا تاکہ ان کا آنے مستقبل روشن ہو اور وہ میری اور تمہاری طرح انپڑھ نہ ہوں اور تمہاری طرح کسی بھٹے میں کام نہ کریں اور انہیں ایسے مشقت والے کام کرتا دیکھ کر تمہارا بھی دل نہ جلے یہ کہتے ہوئے بشیر پھر سے رونے لگا ۔

شوکت نے اپنے والد کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ابو آپ فکر نہ کریں میں سمجھ رہا ہوں آپ کیا کہہ رہے ہیں میں اسی وجہ سے اپنے بچوں کی پڑھائی پر توجہ دیتا رہتا ہوں تاکہ وہ میری طرح انپڑھ نہ بنے اور مستقبل پڑھے لکھے اور کامیاب انسان بنیں بس آپ دعا کرتے رہا کریں انشاء اللہ جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا اب آپ روئیں مت اور ہاں میں آپ کو بتانے آیا تھا کہ سامنے والے ہمسائے میرے لیئے کوئی اچھا کام ڈھونڈنے لگے ہیں تو آپ دعا کریں کہ ان وسیلے سے مجھے کوئی اچھا سا کام مل جائے اور پھر میں یہ بھٹے کا کام چھوڑ دونگا اس طرح آپ کی تکلیف کچھ کم ہو جائے گی ۔ بشیر نے آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے اوپر کی طرف منہ کرکے پھر سے شوکت کے لیئے دعا کی اور شوکت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جاؤ بیٹا اللّٰہ تمہیں کامیاب کرے اور تمہیں کوئی اچھا کام مل جائے ۔ شوکت نے پھر سے بشیر کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ہاتھ چوم کر اس کے کمرے سے باہر آگیا اور بچوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا اتنے میں باہر دروازے پر دستک ہوئی ۔
صدیقہ نے جا کر دروازا کھولا تو باہر فوزیہ ہاتھ میں کھانے کی ایک ٹرے ہاتھ میں لیئے باہر کھڑی تھی صدیقہ نے جلدی سے فوزیہ کو اندر بلایا اور پھر کمرے سے ایک کرسی لا کر فوزیہ کو بیٹھنے کو کہا فوزیہ نے ٹرے صدیقہ کو دیتے ہوئے کہا ارے میں بیٹھ جاتی ہوں پہلے تم یہ رکھ لو اس میں کچھ کھانا ہے جو میں بچوں کے لیئے لے کر آئی ہوں صدیقہ نے ٹرے پکڑی اور اسے کمرے میں رکھ کر صحن میں فوزیہ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی اور فوزیہ کو چائے پانی کا پوچھنے لگی ۔ فوزیہ نے کہا ارے میں کھانا کھا کر چائے وغیرہ پی کر آئی ہوں ۔ اور میں تمہیں یہ کہنے آئی تھی کہ اپنے شوہر کو ساتھ لے کر میری طرف آؤ خلیل سے میں نے تمہارے شوہر کی نوکری کے لیئے بات کی تھی تو وہ کہہ رہے تھے کہ ٹھیک ہے ان لوگوں سے بولو کہ مجھ سے اکر مل لیں اور اس وجہ سے میں تمہیں لینے آئی ہوں ۔ فوزیہ کی یہ بات سن کر صدیقہ جلدی سے کمرے میں گئی اور شوکت ساتھ لے کر باہر صحن میں آگئ شوکت نے فوزیہ کو سلام کیا اور فوزیہ نے سلام کا جواب دینے کے بعد شوکت سے کہا بھائی آپ کو میرے میاں بلا رہے ہیں آپ لوگ میرے ساتھ جا کر ان سے مل لیں وہ صدیقہ نے آپ کو بتایا ہو گا کہ میں آپ کی نوکری کے لیئے اپنے شوہر سے بات کی تھی ۔

شوکت نے کہا جی جی باجی اس نے بتایا تھا ۔ فوزیہ نے کہا تو چلیں پھر آپ میرے ساتھ آئیں یہ کہتے ہوئے فوزیہ اٹھی اور شوکت اور صدیقہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی وہاں جا کر فوزیہ نے خلیل سے شوکت اور صدیقہ کا تعارف کروایا پھر خلیل نے شوکت سے کہا دیکھو شوکت مجھے فوزیہ نے تم لوگوں کے بارے میں سب بتایا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگ بہت خوددار ہیں لیکن میں پھر بھی چاہوں گا کہ ہمسائے ہونے کے ناطے ہم لوگ تمہاری بیٹی کی شادی میں تمہاری مدد کر سکیں اور اس لیئے تمہاری بیٹی کی شادی میں جو بھی خرچ ہو وہ سب ہم لوگ کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے سے آپ ہمیں نہیں روکیں گے کیونکہ شاید آپ لوگوں کو پتا نہیں ہے ہمارے پاس اللّٰہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن اولاد نہیں ہے اسی وجہ سے ہم تمہاری بیٹی کی شادی اپنی بیٹی سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ لوگ ہمیں یہ حق دے سکتے ہیں ؟؟ شوکت حیران ہو کر صدیقہ کی طرف دیکھنے لگا صدیقہ نے شوکت کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے سر ہاں میں ہلایا پھر شوکت خوشی سے خلیل کی طرف دیکھنے لگا اور شوکت کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور شوکت نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خلیل کا ہاتھ پکڑ کر ہاں میں سر ہلایا اور رونے لگا تو خلیل نے شوکت کو گلے سے لگا لیا یہ دیکھ کر فوزیہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور وہ صدیقہ کے گلے سے لگ گئی۔

پھر خلیل نے شوکت کو تھپکی دیتے ہوئے کہا بس بس رو مت میرے بھائی اور یہ کہتے ہوئے خلیل نے شوکت کے دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے سے دور کیا اور پھر خلیل نے شوکت کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا شوکت تمہارا بہت بہت شکریہ آج تم نے ہمیں یہ حق دے کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے شوکت نے کہا نہیں نہیں خلیل بھائی احسان تو آپ کر رہے ہیں میں تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گا میں اپنی بیٹی کی شادی کیسے کرونگا لیکن آج سمجھ میں آیا کہ اللّٰہ نے آپ جیسے نیک لوگ بھی اس دنیا بھیجے ہوئے ہیں جو کہ مجھ جیسے گناہگار کی مدد کرتے ہیں ۔ خلیل نے کہا ارے نہیں شوکت بھائی یہ سب اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری بیٹی کے نصیب میں لکھ دیا ہے اور اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے ہم تو خود گناہگار لوگ ہیں ۔ بس اللّٰہ ہی سب کچھ کرنے والا ہے اسی کی مدد سے ہی میں اس قابل ہوا ہوں کہ میں آپ کے لیئے اس نیک کام میں وسیلہ بن سکوں ورنہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں ۔ شوکت نے آسمان کی طرف منہ کر کے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور اللّٰہ سے خلیل اور فوزیہ بہتری کے حق میں دعا کی۔ یہ دیکھ کر خلیل اور فوزیہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ پھر خلیل نے کہا اچھا شوکت یہ بتاؤ کہ تم کچھ تھوڑا بہت لکھ سکتے ہو ؟ جیسے کہ کسی کا نام یاں نمبر وغیرہ ؟؟ شوکت نے شرمندہ انداز میں کہا خلیل بھائی اگر میں یہ کر سکتا تو بھٹے میں کام کیوں کرتا ۔ خلیل نے کہا اچھا اچھا میں سمجھ گیا چلو کوئی بات نہیں پھر خلیل اپنا سر کجھاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر شوکت کی طرف دیکھتے ہو بولا اچھا شوکت کیا تم چوکیدار کی نوکری کر لو گے ؟؟

دراصل میں نے اپنا ایک نیا آفس بنایا ہے جگہ سستی ملی تو میں نے موقع کی مناسبت سے وہاں ایک اور آفس بنا لیا تھا پر وہاں کچھ سکیورٹی کا تھوڑا بہت ایشو ہے کیونکہ دن میں تو سیکیورٹی گارڈ ہوتا ہے لیکن رات میں ایک چوکیدار کی ضرورت ہے اصل میں وہ علاقہ تھوڑا سا سنسان ہے کیونکہ وہاں آبادی ابھی بہت کم ہے اور وہ علاقہ میرے لیئے بلکل نیا ہے اور ابھی حال ہی میں وہاں ایک رات کو میرے کمپیوٹرز لیپ ٹاپس کو کسی نے نقصان پہنچایا تھا اس کے ساتھ کچھ آفس کے سامان وغیرہ کو کسی نے توڑ پھوڑ دیا تھا لیکن ایسا کیوں ہوا کس نے کیا یہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی یہ پتا ہے کہ کسی نے شرارت سے کیا ہے یاں بغض میں کیا ہے۔ اس لیئے میں چاہتا ہوں کہ وہاں رات کے وقت کوئی چوکیدار ہونا چاہیئے جو کہ آفس کی حفاظت کر سکے ویسے ایک چوکیدار میں ابھی دو دن پہلے رکھا تھا پر پتا نہیں اسے کیا ہوا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور مجھے فون کر کے بولا کوئی اور بندے کا انتظام کر لو میں یہاں کام نہیں کر سکتا لیکن اس نے مجھے وجہ نہیں بتائی اور نہ ہی وہ میرا فون اٹھاتا ہے ۔ شوکت نے کہا آپ چھوڑیں اسے میں کر لوں گا خلیل بھائی کم سے کم اس بھٹے میں کام کرنے سے تو بہتر ہے کہ میں آفس میں رہوں ۔ خلیل نے کہا تو ٹھیک ہے شوکت بھائی میں کل صبح ہی آپ کو ساتھ لے کر جاؤں گا اور آپ کو وہ آفس دیکھا دوں گا ۔

شوکت نے خلیل کا شکریہ ادا کیا اور صدیقہ کے ساتھ گھر واپس آگیا اور گھر جا کر شوکت نے بشیر کو وہ ساری باتیں جو کہ ناظمہ کی شادی اور شوکت کی نوکری کو لے کر شوکت اور خلیل کے درمیان ہوئیں ۔ شوکت کی ساری باتیں سن کر بشیر نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور ایک بار پھر سے شوکت اور اس کے ساتھ خلیل کے حق میں بہتری کے لیئے دعا کی اور شوکت کے سر پر ہاتھ پھیرا اس کے بعد شوکت اپنے بچوں کے پاس گیا اور ان سے گپ شپ کر کے کھانا وغیرہ کھا کر سو گیا ۔ اگلے دن صبح شوکت گھر سے نکلا اور خلیل کے گھر کے گیٹ پر جا کر گھنٹی بجائی اور کچھ ہی دیر میں خلیل کے گھر سے ایک ملازم نکلا اور شوکت نے اس سے خلیل کے بارے میں پوچھا تو ملازم نے کہا آپ کا نام شوکت ہے ؟؟ شوکت نے کہا جی جی میرا نام شوکت ہے ۔ ملازم نے کہا آپ میرے ساتھ اندر چلیں خلیل صاحب آپ ہی کا انتظار کر رہے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے ملازم شوکت کو اپنے ساتھ لے کر خلیل کے پاس چلا گیا ۔

.............................
............................ 
............................ 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں