چوہدری کا قاتل بیٹا

 

پورے گاؤں میں شور مچ گیا کہ چوہدری غلام رسول کے منڈے جیلے سے قتل ہو گیا ۔ یہ خبریں تو روز مرہ کا معمول تھیں کہ چوہدری کے منڈے جیلے نے اپنے اوباش اور مسٹنڈے یاروں کے ساتھ مل کر لڑائ جھگڑا کیا یا شراب پی کر غل غپاڑہ کیا یا گاؤں کے کسی غریب کمی کمین کی دھی بہن کے ساتھ زور زبردستی کی -
چوہدری غلام رسول پچیس مربع زمین کا مالک تھا پچھلی کئ دہائیوں سے گاؤں کا چئیرمین بھی تھا ہر قسم کے گٹھ جوڑ اور داؤ پیچ کا ماہر تھا
جیلا اس کی اکلوتی اولاد تھی ساری زمین و جائیداد کا اکلوتا مالک -
غرض چوہدری نے اپنے منڈے جیلے کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی -
جیلے کی زیادتیوں پر کم از کم گاؤں میں کسی میں آواز اُٹھانے کی ہمت نہ تھی اگر معاملہ بڑھ جاتا تو چوہدری دے دلا کر معاملہ ٹھپ کروا دیتا
پر بات قتل تک کبھی نہیں پہنچی تھی
اور اگر قتل کسی کمی کمین کے منڈے کُڑی کا ہوتا تو چوہدری نے کوئ پرواہ نئیں کرنی تھی معاملہ چھیتی گاؤں میں ہی ٹھپ کرا دینا تھا۔اور گاؤں میں کوئ رولا شولا وی نہیں پڑنا تھا -
پر ایتھے ٹکٌر برابر کی تھی
کیونکہ قتل ہونے والا نذیر پٹواری کا منڈا تھا
اور نذیرے پٹواری نے بھی پٹوار سے
اَنیں واہ 😎 مال بنایا ہوا تھا سرکاری محکموں میں لین دین کرنے کا ماہر تھا
کیونکہ اس نے ساری زندگی کام ہی یہی کیا تھا -
منڈے تو اُسکے دو تھے پر چھوٹا ابھی جوان نہیں ہوا تھا قتل بڑے لڑکے کا ہوا تھا
جیلے اور پٹواری کے مُنڈے دونوں کو
گاؤں کی ایک ہی کمہاری سے وہ والا پیار ہوگیا تھا جواس قسم کے لڑکوں کو نشے میں اکثر ہو جاتا ہے
اسی پیار کی ضد میں جھگڑا ہوا اور جیلے سے دونالی چل گئ۔
اس جھگڑے سے پہلے دونوں جگری یار تھے اور ساری برائیاں اکٹھے مل کر بڑے سلوک سے کیا کرتے تھے
گاؤں میں قتل کا یہ پہلا واقعہ تھا
خبر سُن کر بہت سارے لوگ گاؤں کے چوک میں پانی کی ڈِگی کے پاس دو گروپوں میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے -
ایک گروپ چوہدری کی حویلی کی نُکڑ پر اور دوسرا پٹواری کی کوٹھی کے سامنے ۔
میرا ابا چوہدری کے گروپ میں تھا کیونکہ چوہدری نے میرے بڑے بھائ کا ویزا لگوا کر دوبئی بھجوایا تھا تے اُتوں برادری بھی ایک تھی
اتنی دیر میں پولیس کے دو ڈالے پٹواری کے گیٹ پر آکر رکے۔
اگلے ڈالے میں وڈا تھانیدار آپ بیٹھا تھا
پٹواری کیطرف کھڑےسارے لوگ بھاگ کر پولیس کی گاڑیوں کے اردگرد کھڑے ہو گئے تھانیدار نے گاڑی سے نکل کر محرر کو آواز دی اور پٹواری کے گیٹ کی طرف بڑھا
اتنے میں پٹواری خود باہر نکلا اور تھانیدار کے گلے لگ کر آنسو بہائے
تھانیدار نے بھی افسوس کیا اور کندھے پر ہاتھ کر کہا حوصلہ کر پٹواری تیرے ساتھ پورا انصاف ہوگا !
پٹواری تھانیدار کو لے گھر کے اندر چلا گیا آدھے گھنٹے بعد تھانیدار محرر کے ساتھ باہر نکلا تو محرر کے ہاتھ میں وڈا سارا شاپنگ بیگ تھا جس میں ابھری ہوئ نوٹوں کی گڈ یوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا
پھر گاڑیوں میں بیٹھ کر چوہدری کی حویلی پہنچ گئے
چوہدری اپنے پھاٹک پہ کھڑا تھانیدار کا انتظار کر رہا تھا تھانیدار نے چوہدری کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اس کے ساتھ اندر چلا گیا چوہدری نے تھانیدار اور اسکے عملے کے لیے پُرتکلف کھانا تیار کر رکھا تھا سب نے تُن کے کھایا
اسکے بعد چوہدری نے بھی نوٹوں سے بھرا بیگ تھانیدار کی خدمت میں پیش کیا -
تھانیدار نے بیگ لے کر اسکی زِپ کھول کر اندر جھانکا تو تھانیدار کی آنکھوں میں چمک آئ
تھانیدار نے جیلے کو ہتھ کڑی لگائ ساتھ لیا اور باہر کیطرف چل دیا چوہدری بھی جیلےکو تسلیاں دیتا ساتھ ساتھ چل رہا تھا
گاڑی کے پاس جاکر تھانیدار نے نوٹوں کا بیگ گاڑی میں رکھوایا
اور مڑ کر چوہدری کیطرف دیکھا اور کان میں کچھ کہا اور بولا چوہدری توں بس گبھراؤنا نئیں
چوہدری جو اس واقعہ سے کافی گبھرایا ہوا تھا اُس کے چہرے پر کچھ اطمینان آیا ۔
پولیس جیلے کو شہر تھانے لے گئی
چوہدری نے گاؤں کے نائ رحمت کو آواز دی اور پچیس تیس لوگوں کیلئے بکرے کا گوشت بھو ننے کا حکم دیا
شام کو چوہدری نے دیگ اپنی لینڈ کرو زر میں رکھوائ اور شہر تھانے پہنچ گیا
میرا ابا چونکہ چوہدری کا خاص بندہ تھا
اس لئے وہ بھی چوہدری کے ساتھ گیا اور تھانے کا عملہ جو وڈے تھانے دار سمیت بُھنے ہوئے بکرے کے انتظار میں ٹُن بیٹھا تھا
کھانے پر ٹُوٹ پڑا ۔
کھانے کے بعد وڈا تھانیدار چوہدری اور میرے ابے کو لے کر اپنے دفتر میں بیٹھ گیا اور چوہدری کو ایسی بات بتائ کے کہ چوہدری سنتے ہی ہشاش بشاش ہو گیا اور اپنی کلائ سے باندھی ہوئ راڈو گھڑی بھی اُتار کر تھانیدار کی خدمت میں پیش کردی
اور جیلے کو مل کر دلاسہ دے کر رات گئے میرا ابا اور چوہدری واپس گاؤں پہنچ گئے
😟 میں کون ہوں اور کیوں یہ سارا واقعہ آپکو سُنا رہا ہوں میرا اس واقعہ میں کیا کردار ہے ؟ جی میرا نام بشیر ہے اور اس رات کی تھانیدار سے چوہدری اور میرے ابے کی ملاقات کے بعد میری کہانی شروع ہوئ ۔ 😟
اگلے دن ہماری دوپہر کی روٹی کی دعوت چوہدری کی حویلی میں تھی میں میری دونوں چھوٹی بہنیں اور امی اور ابا نئے کپڑے پہن کر چوہدری کی حویلی پہنچ گئے
چوہدری اور چوہدرانی کو پتہ چلا کہ ہم آئے ہیں تو خلافِ توقع دونوں بھاگ کر استقبال کیلئے حویلی کے پھاٹک پر ہمیں لینے آئے جیسے میرا ابا نہیں آیا کوئ علاقے کا نیا ڈپٹی کمشنر چوہدری سے ملنے آیا ہو
چوہدرانی نے آگے بڑھ کر اور ہائے میرا پتر کہہ کر مجھے اپنے گلے لگا لیا اور ماتھےسے بار بار اسطرح چوما کہ تھوڑی دیر کیلئے مجھے اپنی اصلی ماں کا پیار ہی بھول گیا
پھر چوہدری اور چوہدرانی ہمارے دائیں اور بائیں چلنے لگے اور ہمیں ساتھ لیکر اپنے خاص وی آئ پی روم میں آگئے ہمیں کھانے کے دسترخوان پر انتہائ عزت واحترام سے بٹھایا اور جب تک ہم بیٹھ نہیں گئے خود دونوں کھڑے رہے ۔
میں ایک دم سے اپنی اس قدر عزت افزائ دیکھ کر سوچ رہا تھا چوہدری اور چوہدرانی ایسا کیوں کر رہے ہیں
تب ایک خیال نے تو میرا دل ہی خوش کردیا
میں نے حساب کتاب لگا کر سوچا کیونکہ چوہدری کا بیٹا جیلا پکڑا گیا ہے اور اس کو پھانسی ہو جانی ہے
اور چوہدری کی زمین اور جائیداد کا والی وارث تو کوئ رہ نئیں جانا
اس لئیے مجھے اپنا بیٹا بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
اس خیال کے ذہن میں آتے ہی میں نے چوہدری اور چوہدرانی کو اپنے نئے ابے اور اور امی کی نظر سے دیکھا تو بہت اچھا لگا اور میں تھوڑا اور چاؤڑا ہو کر بیٹھ گیا جیسے اب تو یہ سارا کچھ میرا حق ہی ہے
اور پھر چوہدری نے اپنے ہاتھ سے ڈونگا کھول کر ساری چنگی چنگی بَوٹِیاں نکال کر
میری اور ابے کی پلیٹ میں ڈال دیں اور چوہدرانی نے دوسرے ڈونگے سے امی اور بہنوں کی پلیٹ میں ۔
ھم سب نے کھانا شروع کردیا اور تب چوہدری نے بات شروع کی اور میرے ابے کو مخاطب ہو کر کہا کرم دین تمہیں تو پتہ ہی ہے تمہارے بچوں کو ہمیشہ میں نے اپنے بچے سمجھا ہے اَج میں نے تم لوگوں کو روٹی پر اس لئیے بلایا ہے کہ ۰۰۰
اَج توں تیری دونوں بیٹیوں کی بیاہ تک کی ساری ذمہ داریاں مجھ پر اور ساتھ ہی دونوں ہاتھ اوپر کھڑے کرکے اَکڑی ہوئ گردن کیساتھ فخر سے میرے ابے اور امی کیطرف دیکھنے لگا
میرا ابا اور امی خوشی سے دمق اُٹھے
اور دونوں بہنیں بیاہ کا لفظ سُن کر شرما گئیں
اور اب مجھے یقین ہو گیا کہ چوہدری مجھے اپنا بیٹا بنانے کیلئے مانگنے والا ہے
میں نے اسی خوشی میں ڈونگے سے ران کی بڑی سی بوٹی نکال کر اپنی پلیٹ میں ڈالی اور کھانی شروع کردی
چوہدری نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا
تیرا پتر بھی مجھے میرے جیلے جتنا ہی پیارا ہے میں یہ سُن کر تھوڑا سا شرما گیا
پھر چودھری بولا کرم دین توں بلکل بھی فکر نہ کر میں تیرے پتر کو پھانسی نہیں لگنے دونگا
یہ سُن کر میرے ہاتھ سے ران کی بَوٹی چُھوٹ کر واپس پلیٹ میں گر پڑی -
چوہدری بولا بس تیرے پتر نے قتل اپنے ذمے لینا ہے تھانے میں بھی میری بات ہو گئ ہے اُدھر جیلے سے بھی چنگا رکھیں گے اسے۔
شہروں چنگا وڈا وکیل کرونگا اپنے بشیر کیلئے -
وکیل آگے سیدھا جج کرے گا اور تیرا پتر چھ مہینے میں باہر ہو گا
میں چوہدری کیطرف اسطرح دیکھ رہا تھا جیسے عین چُھری پھِرنے کے ٹائم بکرا قصائ کیطرف ۔
پھر میں نے خوفزدہ ہوکراپنے ابے کی طرف دیکھا تو وہ تسلی سے بَوٹیاں پاڑ رہا تھا جیسے اسے سب کچھ پہلے ہی پتہ تھا
مجھے اپنے سامنے پڑا بوٹیوں سے بھرا ڈونگا پھانسی کا پھندا لگ رہاتھا
اس کے بعد ایک نوالا بھی میرے حلق سے نیچے نہیں اُترا بلکہ کھایا ہوا کھانا بھی باہر آنے کو کر رہا تھا
چوہدری ابے کو بولا کرم دین تمہیں تو پتہ ہی ہے میں نے جیلے کو کس قدر لاڈ سے پالا ہے وہ بیچارہ کہاں حوالاتیں اور جیلیں بھگتے گا
مجھے چوہدری اسوقت زگوٹا جن لگ رہا تھا دل کر رہا تھا ایک زور دار مکا اسکی ناک پر ماروں اور پوچھوں باگڑ بِلیا میں کیا کوٹ لکھپت جیل میں پیدا ہوا ہوں ؟
خیر غریب کو خریدنا آسان ہے اور میرا ابا بِک چُکا تھا
امی نے بہترے ترلے ڈالے پر اگلی صبح چوہدری مجھے اپنی لینڈ کروزر میں اگلی سیٹ پر بیٹھا کر تھانے لے گیا جہاں تھانیدار نے مجھے ساری ٹریننگ دی کے کورٹ میں کیا بیان دینا ہے اور پھر پہلی پیشی پر جیلا باہر اور میں اندر ۔
شروع شروع میں چوہدری ابے کے ساتھ ملاقات کیلئےہر ہفتے آتا اور مجھ بتاتا کے جج کے ساتھ معاملہ سیٹ ہو رہا ہے
بس تُو نے گبھرانا نئیں
اسکے بعد ابا تو ہر ہفتے چوہدری کا یہ پیغام لے کر آتا
کہ تو بس گبھرانا نئیں
پر چوہدری مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی آتا ۔
اگلی پیشی پر مجھے پھانسی کی سزا بول گئی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور مجھے موت نظر آنی شروع ہو گئی کورٹ سے باہر نکلے تو چوہدری نے گلے لگایا اور بولا اس جج کو پٹواری نے زیادہ ریٹ لگا دیا تھا پر ہم وڈے کورٹ میں جائیں گے اُس جج تک میری بڑی اچھی پہنچ ہے
بس توں نے گبھرانا نہیں
میرے دل میں آئ کہ اس زگوٹے جن چوہدری سے پوچھوں تجھے عدالت میں جج موت کی سزا سنائے اور تُو مجھے ذرا
نا ....گھبرا کے دیکھائیں
پر کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ ذگوٹاچوہدری ہی میری آخری اُمید تھا
مجھے چوہدری کی بات سُن کر تھوڑا حوصلہ بھی ہوا
خیر اپیل اور کورٹ کی تاریخ میں تین سال اور لگ گئے -
اب تو مجھے جیل بھی اچھی لگنے گئ تھی کہ چلو بے شک جیل میں ہوں زندہ تو ہوں آگے تو پھانسی کا پھندہ نظر آرہا تھا
بڑی کورٹ میں بھی جج نے دوسری پیشی پر فیصلہ برقرار رکھا اور پھانسی کی سزا سنا دی ۔
کورٹ سے باہر چوہدری مِلا اور بولا
میں بہت بڑی اپروچ کروا کے جج کو ملا تھا پر جج بڑا ایماندار نکلا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نے پٹواری سے رقم پکڑ لی ہے اس لئے میں تم سے پیسے نہیں لے سکتا -پر پُتر بشیر تو گبھراؤنا نئیں
میں اس سے بڑے کورٹ میں جاکر تمہیں چھڑوا لُونگا
اور ادھر میں نے اپنے ابے کو پہلی دفعہ گھبرائے ہوئے دیکھا
پر مجھے اُمید تھی کہ چوہدری بیشک اعلی درجے کا موقع پرست اور کمینہ انسان ہے پر ابے کے ساتھ اسکا ساری زندگی کا تعلق تھا اور برادری کو منہ دکھانے کے لئیے تھوڑی بہت حیاء تو کرے گا مجھے کم از کم پھانسی سے بچا لے گا
پر میرا اندازہ غلط نکلا چوہدری میری سوچ سے بھی بڑا کمینہ نکلا چوہدری کو کسی سیانے وکیل نے سمجھا دیا کہ وڈے کورٹ میں جانے کا کوئ فائیدہ نہیں کیونکہ وڈی عدالت میں بھی اسکو پھانسی ہی ہونی ہے کیونکہ اس نے اقرار جرم کیا ہوا ہے
اِس لئیے چوہدری نے آگے اپیل ہی نہیں کی
پہلا سال تو ابا میری ملاقاتوں پر آتا رہا بیچارہ شرمندہ سا کھڑا رہتا تھا اور روتا رہتا تھا اور کہتا رہتا پتر بشیر مینوں معاف کردے میں چوہدری کی باتوں میں آگیا تھا اس نے دس کِلے زمین میرے نام لگوا کر وعدہ کیا تھا کہ تجھے پھانسی نہیں لگنے دے گا
میں نے کہا ابا اب معاف کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے میں نے تو اب لٹک ہی جانا ہے
بس ابا توں جب گاؤں واپس گیا تو چوہدری سے اک گل پچھ لئیں کہ
اب میں تھوڑا گبھرا لوں ؟
پھر میں نے ابے کو ہر ہفتے آنے سے منع کردیا
اور نا امید ہو کر آگے کی فکر شروع کردی
پانچوں وقت کی نماز شروع کردی
موت کا منظر -قبر کی پہلی رات - مرنے کے بعد کیا ہوگا -عذابِ قبر جیسی عظیم کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا
مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ میں کنوارہ ہی مرنے لگا تھا ابھی تو میں نے دنیا میں کچھ دیکھا ہی نہیں تھا
ابا اور امی سال میں دو تین دفعہ آکر ملاقات کر جاتے
اسیطرح چار سال اور گزر گئے مجھے کل ملا کر سات سال ہو چکے تھے جب خبر آئ کے میری پھانسی کی ڈیٹ آگئی ہے
جو کہ تین مہینے بعد تھی اور اُس دن جمعہ کا مبارک دن بنتا تھا
دو مہینے اور گزر گئے اور مجھے وارڈن نے آکر بتایا کہ تمہاری ملاقات آئ ہے
میں ملاقات کے لئیےگیا تو آگے گاؤں کا امام مسجد کھڑا تھا
امام مسجد کو دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے اسکو چوہدری نے یہ بتانے کے لئے بھیجا ہے کہ بشیر پتر اگے فرشتیاں نال گل بات ہو گئی اے !
بس توں گبھراؤنا نئیں
لیکن امام مسجد نے آکر خبر سنائ کہ چوہدری کے منڈے جیلے کو پٹواری کے چھوٹے مُنڈے نے قتل کردیا ہے جو ان سات سالوں میں جوان ہو گیا تھا اور جیلے کی لاش جب گھر آئ تو اُسے دیکھ کر چوہدری کو دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ بھی موقعہ پر ہی اللہ کے حوالے ہو گیا اور میں نے آج صبح ہی اُن دونوں کا جنازہ پڑھایا ہے
میں نے پوچھا تو کیا اب توُ یہاں میرے جنازے کی بُکنگ کرنے آیا ہے
میری پھانسی میں تو ابھی ایک مہینہ رہتا ہے ؟
مولوی بولا نہیں مجھے تیرے ابے نے بھیجا ہے یہ سب بتانے کیلئے
میں نے کہا مولوی تیری مہربانی مجھے سُن کر بہت افسوس ہوا
افسوس اسِلئیے نہیں کہ وہ دونوں منحوس مر گئے بلکہ افسوس اس لئے ہوا اگلے جہان جا کے بھی انہی کی شکلوں کو دیکھوں گا۔
خیر امام مسجد خبر دے کر چلا گیا تین ہفتے اور گزر گئے ایک ہفتہ پھانسی میں رہ گیا میں جائے نماز بچھا کر رب سے دوائیں کر رہا تھا ہمارا دشمن ملک ہندوستان ہم پر حملہ کردے اور میری جیل والا علاقہ اس کے قبضے میں چلا جائے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئ اور وجہ میرے بچنے کی ذہین میں آ نہیں رہی تھی
یا اگر پھانسی ہو ہی جائے تو مرنے کی زیادہ تکلیف نہ ہو اور سیدھا جنت میں چلا جاؤں
اور وہاں حوریں میرا انتظار کررہی ہوں اور مجھے دیکھتے ہی مجھے گھیرلیں مجھ پر ٹوٹ پڑیں اور کہیں بشیر بڑی دیر کردی آتے آتے
ابھی حُوروں کے تصور سے اپنے دل و دماغ کو لُبھا ہی رہا تھا کہ جیلر کے بھیجے ہوئے سپاہی نے کیدو بن کر آواز دی اور میری اس لذتوں بھری دنیا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا جس کا مجھے اسوقت بہت افسوس ہوا
سپاہی نے کہا کے جیلر نے تمہیں بلایا ہے میں سپاہی کے ساتھ جیلر کے آفس میں گیا تو وہاں میرا ابا مٹھائ کا ٹوکرا لئیے برادری کے آٹھ دس بَندوں کے ساتھ بیٹھا تھا
خوشی اور جوش سے کانپ رہا تھا
میں حیران تھا میرے ابے کو میرے مرنے کی اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے کہیں چوہدری مرتے وقت مزید دس کلے زمین تو نہیں ابے کے نام کر گیا ؟
مجھے دیکھتے ہی ابے نے اُٹھ کر گلے لگایا اور اپنے ساتھ کرسی پر بیٹھا لیا
جیلر نے مجھے مبارک باد دی کہ تمہاری سزا معاف ہو گئ ہے اور تم آزاد ہو گھر واپس جاسکتے ہو ۔
میں سُن کر ہکا بکا رہ گیا میں نے جلدی سے اپنی ٹانگوں پر زور سے خارش کی صرف یہ چیک کرنے کیلئے کہ میں ہوش میں ہی ہوں ؟
ابے نے واپسی راستے میں بتایا چوہدری اور اسکے کے منڈے جیلے کے مرنے بعد میں نے پٹواری کے بڑے ترلے کئیے کے تمہارا بدلہ اُتر گیا ہے اب میرے منڈے کو معاف کردے پر پٹواری نہیں مانا _
پھر میں نے چوہدرانی کیطرف سے جیلے کے قتل کا پرچہ پٹواری کے منڈے پر کٹوا دیا تو اگلے دن پٹواری نے بلایا اور اس شرط پر تمہیں معاف کرنے کی حامی بھری کہ میں چوہدرانی کو آمادہ کرکے پرچہ واپس لے لوں اور دس کِلے زمین جو چوہدری نے مجھے دی ہے وہ میں پٹواری کے نام کردوں
پر میں نے زمین دینے سے صاف انکار کردیا
اور پٹواری نے معاف کرنے سے انکار کردیا
مجھے ابے کی اس کمینگی پر غصہ تو بہت آیا پر میں پی گیا
ابے نے کہا میں نے تھانیدار کو پچاس ہزار دے کر ساری رات پٹواری کے منڈے کو تھانے میں لِتر پڑوائے تو اگلے دن پٹواری بھاگا ہوا خود میرے گھر آیا اور زمین کے بغیر ہی معافی نامے پر راضی ہو گیا -
میں سات سال بعد جب واپس گاؤں پہنچا تو سب کچھ ویسا ہی تھا
پر میری لاٹری نکل آئی چودھرانی بیچاری غم میں ویسے ہی نڈھال ہو چکی تھی اس نے اپنی بھانجھی سے میرا بیاہ کرکے ساری جائیداد میرے نام کردی
( ویسے بیاہ کے بعد میں اب سوچتا ہوں کہ
😂 کنوارہ ہی مر جاندا تے چنگا سی 😂 )
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    بلاگر کمنٹس
    فیس بک کمنٹس

1 کمنٹس: