دسمبر کی وہ سرد رات ۔ دوسرا حصہ

 
 
 ہمیں پتا نہیں چلا پر اتنا ضرور یقین ہوگیا تھا کہ یہ کسی غیر مرئی مخلوق کا کام ہے ۔ بابا اور ہم سب ایک پل کے لئے بہت ہی خوفزدہ ہو گئے تھے اور خدا کا شکر ہے کہ امی سوئی ہوئیں تھیں ورنہ یہ سب دیکھ کر امی بیہوش ہو جاتیں کیونکہ بکرا عید پر امی اکثر قربانی کے جانور کو ذبح ہوتا دیکھ کر بیہوش ہو جاتیں تھیں۔ خیر ہم بہت ہی حیرت سے کھبی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور کبھی ان کتوں کی آدھی کھائی ہوئی لاشوں کو دیکھتے ۔کیونکہ وہ سب دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی وحشی طاقت نے ان کا چیڑ پھاڑ کر دیا ہے اتنے میں بابا نے بولا ۔چلو ان جانوروں کے آلائشوں کو اٹھاؤ اور گھر سے باہر پھینک دو ۔ورنہ وہ چیز دوبارہ بھی آ سکتی ہے ۔ہم تینوں بھائیوں میں سے کوئی بھی یہ کام نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن بابا نے خود شروعات کردی تو مجبوراً ہمیں بھی بابا کا ساتھ دینا پڑا اور کتوں کے آلائشوں کو اٹھاکر باہر پھینکنا پڑا ۔
 
 اور بابا نے ساتھ ہی پانی کے پائپ کو نل پہ لگا نل کھولا اور پانی اور جھاڑو کی مدد سے صحن کا فرش دھو دیا اور سارا خون گیٹ سے باہر گلی میں بہا دیا ۔اس کے بعد بابا نے کہا کہ چلو اب رات بہت ہو گئی ہے اب آپ سب لوگ سو جائیں اتنے میں عاصم بھائی نے بابا سے کہا ۔ بابا ہم کیسے سو سکتے ہیں ہمارے ساتھ آج ہی اتنا کچھ ہو گیا ہے اب ایسے میں ہمیں نیند کہاں آئے گی ۔بابا نے کہا بیٹا آ ئیت الکرسی پڑھ کر سونے کی کوشش کرو گے تو نیند آ جائے گی ۔اس کے بعد ہم سب پریشانی کی حالت میں ہی اپنے کمروں میں چلے گئے اور میں تو بہت ہی ڈرا ہوا تھا میں نے بڑے بھائی سے کہا ۔ بھائی آ ج میں نے آپ کے کمرے میں ہی سونا ہے ۔ بھائی نے بولا ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ آجاؤ اس کے بعد میں آرام سے بڑے بھائی کے کمرے میں سونے لگا ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے کہ اچانک سے کسی نے دروازے پر دستک دی اور بھائی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اب اتنی رات کو کون آ یا ہے ۔
 
 بھائی اٹھا اور باہر جانے کے لئے کمرے سے باہر ہی نکلا تھا کہ عاصم بھائی جلدی سے نے سیڑھیوں سے نیچے آتے دکھائی دیئے اور عاصم بھائی نے فوراً بڑے بھائی سے کہا ۔روکو بھائی روکو باہر نہ جانا۔تو بڑے بھائی نے کہا کیونکہ؟ تو عاصم بھائی بولے میں نے اوپر کی کھڑکی سے نیچے گیٹ کی طرف جھانک کر دیکھا ہے ۔ دروازے پر کوئی نہیں ہے تو بڑے بھائی نے کہا یار کو تو ہو گا جس نے دروازے پر دستک دی ہے اتنے میں بابا بھی نیچے آ گئے اور بھائیوں سے پوچھا اب کیا ہوا تم لوگ سوئے کیوں نہیں ہو ۔ تو بڑے بھائی نے بولا بابا کسی نے دروازے پر دستک دی ہے ۔تو بابا نے کہا اتنی رات کو ۔اتنے میں عاصم بھائی کہا جی بابا دستک تو میں نے بھی سنی ہے پر جب میں نے اپنی اوپر کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو مجھے دروازے پر کوئی نظر نہیں آیا ۔بابا نے کہا تو پھر کوئی ضرورت نہیں ہے باہر جا کر دیکھنے کی۔ اب میں یہ جانتا ہوں کہ باہر کون ہے ۔ اور وہ جو بھی ہے اس وقت گھر کے آس پاس یاں گھر کے اندر ہی ہے بس وہ ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تم لوگ صرف اپنے کمروں میں جاؤ اور آ ئیت الکرسی اور سورۃ الناس پڑھ کر اپنے اوپر پھونک مار کر سو جاؤ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا یاد ہے نہ عالم صاحب نے کیا کہا تھا ؟؟ اللہ اور اللہ کے کلام سے بڑی کو طاقت نہیں ہے تو اب خود کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں چھوڑ کر سو جاؤ ۔ انشاءاللہ اللہ آپ سب کی حفاظت کرے گا۔ اس کے بعد ہم سب نے ایسا ہی کیا اور ہم سو گئے ۔ 
 
پھر صبح امی نے ہمیں جگایا اور بو تم سب لوگ آ ج اتنی دیر تک سو رہے ہو دیکھو کیا ٹائم ہو گیا ہے آ ج کام پر نہیں جانا کیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں تم بھی رات وکی (وقار یعنی میرا بڑا بھائی) کے کمرے میں سو رہے تھے تو بڑے بھائی نے کہا جی امی یہ کچھ ڈر گیا تھا تو میں نے ہی اس کو بولا تھا کہ میرے کمرے میں ہی سو جاؤ تو یہ سو گیا ۔ اس کے بعد امی مجھے کہا چلو چلو اب جلدی سے سکول کے لئے تیار ہو جاؤ اب تک تو کلاس بھی شروع ہو چکی ہو گی تمھاری ۔میں جلدی سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر یونیفارم پہنا ہاتھ منہ دھونے کے بعد ناشتے کا ٹفن اپنے بیگ میں رکھ کر امی سے سلام لیا اور جلدی سے سکول کی طرف جانے لگا اور سکول دیر سے پہنچے پر ٹیچر نے مجھے ڈانٹا اور اس کے بعد میں کلاس میں بیٹھ گیا اور رات کے واقعے کو لیکر سوچنے لگا ٹیچر کیا پڑھا رہی تھی مجھے کچھ خبر نہیں تھی میں بس سوچوں میں کھویا ہوا تھا اتنے میں میرے بازو پر کسی نے چھڑی سے مارا میں نے چونک کر دیکھا تو ٹیچر مجھ پہ پھر غصہ کر رہی تھی انھوں نے مجھے سزا کے طور پر لاس سے باہر نکال دیا اور میں پورہ ایک گھنٹہ کلاس سے باہر رہا اس کے بعد پھر سے میں کلاس میں گم سم ہو کر بیٹھ گیا اور کچھ دیر کلاس میں بیٹھنے کے بعد میں میں نے ٹیچر سے کہا ٹیچر میری آ ج طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس وجہ سے میں پڑھائی پر توجہ نہیں دے پارہا برائے مہربانی مجھے آج آپ چھٹی دے دیں تو ٹیچر نے بولا ٹھیک ہے اور گھر جا کر ارام کرنا کھیل کود میں مت پڑ جانا ۔میں نے بولا جی جی ٹیچر میں ایسا ہی کروں گا اور پھر میں سکول سے گھر آرہا تھا ابھی سڑک پر اتنی آمدورفت نہیں تھی کہ میری نگاہ سڑک کے سائیڈ پر لگے ان درختوں پر پڑی تو میں نے دیکھا کچھ بچے ان درختوں پر چڑھے ہوئے ہیں اور درختوں سے بیر توڑ رہے ہیں تو میں بھی ان کے پاس جا پہنچا میں نے ان سے کہا یار تھوڑے سے بیر مجھے بھی توڑ کر دے دو انھوں نے میری طرف دیکھا اور پھر سے بیر توڑنے لگے اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزر رہا تھا اور اس آدمی نے ہم سے کہا اوے تم لوگ پاگل ہو گئے ہو کیا ۔تمھیں پتا بھی ہے کیا تم لوگ کیا کر رہے ہو ؟ یہ پکی بیری (یعنی بیر کا درخت ہے ۔
 
 میں نے فوراً سے اس ادمی سے پوچھا انکل یہ پکی بیری کا کیا ہوتا ہے ۔ تو اس آدمی نے کہا پکی بیری کا مطلب ہے کہ یہ جنات کے درخت اور جنات کسی کو بھی اپنی چیزوں ہاتھ نہیں لگانے دیتے ۔تو میں جلدی سے اس درخت دور ہو گیا اور جیسے ہی میں سڑک واپس آیا تو دیکھا کہ جو آدمی ہمیں سمجھا رہا تھا وہ تیزی سے بھاگتا کہیں چلا گیا اور میں نے پھر سے جب درخت کی طرف دیکھا تو جو بچے اس پر چڑھے ہوئے تھے وہ اچانک سے درخت سے نیچے اترے اور وہ کچھ ہی دوری پر ایک کنواں تھا وہ سارے بچے اس کنویں میں چلے گئے میں نے جب یہ منظر دیکھا تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی اور میں تیزی سے دوڑنے لگا اور گھر کی طرف جانے لگا۔
 
اور کچھ ہی دیر میں میں گھر پہنچ گیا میں نے دروازے پر دستک دی۔میری سانس پھولی ہوئی تھی اور اتنے میں امی نے دروازہ کھولا میں نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ امی کو سلام کیا۔ امی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا خیر تو ہے اج تم سکول گئے بھی دیر سے تھے اور آ بھی جلدی گئے ہو اور تمھاری سانس کیوں پھولی ہوئی ہے؟ کیا بھاگتے ہوئے آئے ہو ۔ میں نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے امی سے بولا جی امی ۔ میری طبیعت خراب ہو گئ تھی تو میں نے ٹیچر سے آج جلدی چھٹی لے لی ۔
 
 امی نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا دیکھوں تو ۔ میرا ماتھا آگ کی طرح تپ رہا تھا اور مجھے اچانک سے تیز بخار ہو گیا تھا امی بولی تمھے تو واقعی میں بہت تیز بخار ہے اس کے بعد امی نے میرا سکول بیگ اتارتے ہوئے بولا چلو چلو جلدی سے اپنے کمرے میں چلو اور میں امی کے ساتھ اپنے کمرے میں آگیا اور میں سکول یونیفارم میں ہی شوز سمیت اپنے بیڈ پر لیٹ گیا ۔ امی نے میرے شوز اتارے ۔ میں نے امی سے کہا مجھے بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے امی نے جلدی سے میرے اوپر کمبل ڈال دیا اور مجھسے کہا کہ تم آرام کرو میں تمہارے لیے دودھ ڈبل روٹی اور بخار کی گولی لاتی ہوں اور جب تمہارے بابا آجائیں گے تو ہم میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے یہ کہ کر امی وہاں سے چلی گئیں۔ میں بخار اور ڈر سے کانپتا ہوا کمبل میں لیٹا رہا اور مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ جب بھی میں اپنی آنکھیں بند کرتا تھا میرے سامنے وہی بچوں والا واقع نمودار ہو جاتا میں یہی سوچتا رہا کہ آخر کار وہ بچے کون تھے اور وہ اچانک سے کنویں میں کیوں چلے گئے اور وہ آدمی کیوں بھاگا ۔ کہیں میں ان ہوائی چیزوں کے پاس کھڑا تھا جو کہ اکثر یہاں کے لوگ ان پرانے درختوں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ مجھے طرح طرح کے خیال آنے لگے اتنے میں امی دودھ اور ڈبل روٹی لائیں اور اس کے ساتھ پیرا سیٹا مول کی گولی بھی لائیں اور یہ سب لا کر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر مجھے سہارا دےکر اٹھا کر بیٹھایا اور بولیں چلو بیٹا اب کچھ کھا لو اس کے بعد میں تمہیں یہ بخار کی گولی کھلاؤں گی ۔
 
پھر میں نے امی سے کہا۔امی میرا دل نہیں کر رہا کچھ کھانے کو تو امی نے کہا بیٹا میں جانتی ہوں بخار میں کچھ بھی کھانے پینے کو دل نہیں کرتا لیکن دوائی کھانے سے پہلے تمھے کچھ تھوڑا بہت تو کھانا ہی ہوگا اور ویسے بھی میں نے تمھارا ٹفن کھول کر دیکھا تھا اس میں ناشتہ ویسے ہی پڑا تھا جیسے تم لے کر گئے تھے ۔ اس کا مطلب ہے تم نے صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں ہے ۔اب چلو میرا بیٹا جلدی سے یہ بریڈ کھاؤ میں کھلاتی ہوں ۔پھر امی نے مجھے بریڈ کے کچھ پیس کھلائے اور میں نے کہا امی بس اب اور نہیں کھایا جارہا تو امی نے بولا اچھا چلو باقی بعد میں کھا لینا۔اس کے بعد امی نے مجھے بخار کی گولی بھی کھلا دی اور مجھے دوبارہ سہارا دے کر لٹا دیا اور میں نے کہا امی آپ میرے پاس ہی رہیں میرا سر بہت درد کر رہا ہے تو امی نے کہا چلو میں تمھارا سر دبا دیتی ہوں پھر امی میرا سر دباتی رہیں اور کچھ دیر بعد مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا ۔امی میرا سر کب تک دباتی رہیں مجھے نہیں معلوم پر جب میں میری انکھ کھلی تو دیکھا امی اور بابا دونوں میرے پاس بیٹھے تھے اور بابا نے مجھسے پوچھا کیوں بھئی میرے چھوٹے شیر اب کیسی طبعیت ہے ؟ میں نے کہا بابا بس ٹھنڈ لگ رہی ہے سر درد تو ٹھیک ہو گیا ہے پھر بابا نے بولا چلو اب جلدی سے اٹھو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔ پھر بابا مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ڈاکٹر نے میرا چیکپ کیا ایک انجیکشن لگایا اور کچھ دوائیاں دے دی اور ہم واپس گھر آ گئے ۔ امی نے بابا سے پوچھا ۔ جی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟ بابا بولے کچھ نہیں سب ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے موسمی بخار ہے ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ یہ دوائیاں رکھ لو اور اس کو ٹائم سے دیتے رہئے گا ۔
 
امی نے کہا جی ٹھیک ہے ۔ اس کے بعد میں بابا کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا اور واپس اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور بابا میرے پاس بیٹھ گئے پھر میں نے بابا سے کہا بابا میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں تو بابا نے کہا ہاں بیٹا بولو۔ میں نے بابا آج جب میں سکول سے واپس آرہا تھا تو وہ جگہ جہاں بہت سے درخت لگے ہوئے ہیں ادھر ایک بیر کے درخت پر کچھ بچے چھڑے ہوئے تھے اور وہ بیر توڑ رہے تھے میں نے ان سے کہا مجھے بھی کچھ بیر توڑ کر دے دو تو انہوں نے بہت عجیب سے میری طرف دیکھا اور دوبارہ بیر توڑنے لگے اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے مجھے کہا تم یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں پتا نہیں یہ پکی بیری ہے ۔اس کے بعد اس نے ان بچوں کی طرف دیکھا اور وہاں سے بھاگ گیا اور وہ بچے اک دم سے درخت سے نیچے اترے اور وہ سب کہ سب وہاں جو کنواں ہے اس میں چلے گئے اور میں وہاں سے بھاگ کر گھر آ گیا تھا تو اس وجہ سے مجھے اچانک بہت ٹھنڈ لگی اور مجھے بخار ہو گیا ۔ جب بابا نے میری یہ ساری باتیں سنی تو کچھ سوچ میں پڑ گئے پھر بابا نے بولا دیکھو بیٹا تمہیں پتا ہے نہ آج کل اس علاقے میں ہمارے ساتھ عجیب و غریب واقعات ہو رہے ہیں تو اب سے تم کبھی بھی اس راستے سے سکول نہیں جاؤ گے اور نہ ہی کبھی ان درختوں کے پاس جانا ۔ پھر میں نے فوراً بابا سے کہا پر بابا وہ بچے بھی تو وہاں اکیلے ہی گئے ہوئے تھے ۔ تو بابا نے کہا بیٹا وہ بچے ضرور تھے پر جیسا تم نے کہا وہ کنویں میں چلے گئے اس کا مطلب وہ انسانی بچے نہیں تھے اور یاد ہے نہ گزشتہ رات تمھارے بڑے بھائی وقار اور عاصم کے ساتھ بھی اسی جگہ پر ایک بکری والا واقع ہوا تھا ۔ تو میں نے کہا بابا بھائی تو رات میں وہاں سے گزرنے تھے نہ ۔ بابا نے کہا تم اتنی بحث کیوں کر رہے ہو جب میں نے کہہ دیا کہ وہاں سے نہیں گزرنا تو نہیں گزرنا ۔
 
تو میں نے کہا ٹھیک ہے بابا میں تو بس اس وجہ سے کہہ رہا تھا کہ وہاں سے سکول کا شارٹ کٹ راستہ ہے ورنہ مجھے دوسرے راستے سے گھوم کر جانا پڑتا ہے پر بابا پھر بھی آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہوا گا آئیندہ ۔پھر بابا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا شاباش بیٹا بس ایک بات یاد رکھو جب بھی ماں باپ تمہیں کسی کام سے روکیں تو وہ کام ہرگز نہیں کرنا۔ چاہیے اس کام میں تمہیں کتنا بھی فائدہ کیوں نہ ہو ۔ لیکن ماں باپ ہمیشہ تمھارے لیے اچھا ہی سوچیں گے تو میں نے کہا جی بابا میں ہمیشہ ایسا ہی کروں گا جیسا آپ چاہیں گے ۔ اتنے میں امی بھی ہاتھ میں چائے کا کپ لئے کمرے میں آگئی بابا کو چائے دیتے ہوئے بولیں ۔کیا باتیں ہو رہی ہیں باپ بیٹے میں ۔بابا نے کہا کچھ نہیں میں بس اپنے شیر کو کچھ ماں باپ کی فرمانبرداری کے کچھ طور طریقے سکھا رہا تھا امی نے کہا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے ۔پھر کچھ دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی بابا اٹھنے ہی والے تھے کہ امی نے کہا آپ اپنی چائے پیجیئے میں دیکھ کر آتی ہوں اور یہ کہہ کر امی کمرے سے چلی گئیں پھر کچھ دیر بعد واپس آئیں تو میں نے دیکھا میرے دونوں بھائی بھی امی کے ساتھ کمرے میں آگئے دونوں بھائیوں نے بابا اور مجھے سلام کیا بابا نے اور میں نے سلام کا جواب دیا پھر دونوں بھائیوں نے مجھے میری صحت کے بارے پوچھا میں نے کہا اللہ کا شکر ہے اب طبعیت کافی بہتر ہے اس کے بعد دونوں بھائیوں نے باری باری میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا آرام کرو انشاء اللہ جلدی ہی ٹھیک ہو جاؤ گے ۔
 
 یہ کہہ کر دونوں بھائی کمرے سے باہر چلے گئے پھر کچھ دیر کے بعد بابا نے بھی میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا اچھا اب تم آرام کرو اور میں ذرا صائم بھائی کی طرف جا رہا ہوں ۔ صائم انکل ہمارے ہمسائے تھے اور بابا کے دفتر کے بھی ہمسائے تھے میرا مطلب ہے بابا جس دفتر میں کام کرتے تھے رشید انکل بھی اسی جگہ ان کے ساتھ والے دفتر میں کام کرتے تھے ۔ خیر میں ایک بار پھر سے کچھ پل کے لئے سو گیا اور رات تقریباً 8 بجے اٹھ گیا اور کمرے سے باہر ٹی وی لانج میں جا کر بیٹھ گیا وہاں گھر کے سبھی لوگ سوائے بابا کے ۔امی نے پوچھا بیٹا اب کسی طبعیت ہے میں نے کہا اب ٹھیک ہے امی ۔پھر امی نے کہا ابھی تمہارے بابا آتے ہیں تو سب کھانا کھاتے ہیں اور اگر تمھیں بھوک لگی ہے تو تمھاری بریڈ پڑی ہے وہ تمھیں دودھ کے ساتھ لا دوں میں نے کہا ابھی نہیں امی میں اپ سب کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھا لوں گا اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی وکی بھائی دروازہ کھولنے چلے گئے پھر بابا اور وکی بھائی ایک ساتھ اندر آئے۔ امی نے بابا کو آ تے دیکھا تو ساتھ ہی کہنے لگیں لو تمہارے بابا آ گئے۔ میں کھانا لگانے کی تیاری کرتی ہوں ۔یہ کہہ کر امی کچن میں چلی گئیں۔بابا اور بھائی آ کر بیٹھ گئے اور بابا نے مجھسے پوچھا اب کیسی طبعیت ہے میں نے کہا جی بابا میں بلکل ٹھیک ہوں ۔بابا لمبی سانس لیتے ہوئے بولے خدا کا شکر ہے ۔ 
 
پھر وکی بھائی نے بابا سے پوچھا۔ بابا کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں تو بابا نے کہا کچھ نہیں بس آج صائم بھائی نے بلایا تھا ان کے گھر سے ہو کر آیا ہوں ۔ بھائی نے کہا تو بابا اس میں پرشانی کی کیا بات ہے صائم انکل تو آپ کے بہت اچھے دوست ہیں کیا وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟ بابا نے کہا ہاں وہ ٹھیک ہیں پر گزشتہ رات ان کے ساتھ بھی کچھ ویسا ہی ہوا ہے جیسا گزشتہ رات ہمارے ساتھ ہوا تھا اور وہ ان عالم صاحب سے ملنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہمارے بیسمنٹ سے ہوائی چیزوں کو نکالنا تھا ۔ بھائی نے حیرت سے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے فوراً پوچھا کیا واقعی میں ؟ بابا نے بنا بولے سر ہاں میں ہلایا تو بھائی نے بابا سے کہا بابا یہ کیسے ممکن ہے وہ چیز تو ہمارے گھر میں منڈلا رہی تھی تو ان کے گھر کیسے چلی گئی بابا بولے یہ سب تو مجھے نہیں معلوم پر صائم بھائی بتا رہے تھے کہ گزشتہ رات وہ ایک عجیب سی خوفناک چیخ سن کر جاگ گئے اور انہوں نے ایک کالی سی پرچھائی کو اپنے بڑے بیٹے کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو جا کر اٹھانا چاہا لیکن ان کے جانے سے پہلے ہی ان کے بیٹے کی چارپائی آہستہ آہستہ سے اوپر کی اٹھی اور چھت سے جا ٹکرائی جس سے ان کا بیٹا گھبرا کر اٹھنے لگا تو اک دم سے کسی چیز نے اس کو نیچے پھینک دیا جس سے اس کی بازوں ٹوٹ گئی اور جب ان کا بیٹا درد سے چینخ رہا تھا تو کوئی بہت ہی بھیانک شکل والی عورت اس کی چارپائی پر بیٹھ کر ہنس رہی تھی ...
 
 اس عورت کے پاؤں پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ میں کتے کا دھڑ تھا جسے وہ اپنے منہ سے نوچ کر کھا رہی تھی اور بھاری آواز میں ہنس رہی تھی ۔ اور صائم بھائی نے کہا جب میں نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو اٹھانا چاہا تو اس عورت نے دور سے ہی صائم بھائی کو پیچھے کی طرف دھکا دے دیا اور پھر سے چارپائی کے ساتھ ہی ہوا میں اوپر کی طرف اڑنے لگی صائم بھائی نے کہا کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے بس میں زمین پر لیٹا رہا ۔ وہ تو اتنے میں باہر سے بہت سارے کتوں کی آواز سنائی دی تو اس عورت نے چارپائی نیچے کی طرف پھینک دی اور الٹے پاؤں سے چلتی ہوئی بنا دروازہ کھولے دروازے سے باہر چلی گئی۔ صائم اور ان کے گھر والے ساری رات سوئے نہیں صبح فجر کی اذان کے وقت وہ اپنے بیٹے کو ہسپتال لے کر گئے اور وہاں اس کی بازوں پر پلاسٹر کروا کر واپس آئے تھے ۔اور اج جب میں اپنے آفس جا رہا تھا تو صائم بھائی اپنے افس سے چھٹی لے لے کر واپس آرہے تھے اور انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ریاض بھائی آج میری طرف ضرور چکر لگائیے گا آپ کی مدد چاہیے تو اس وجہ سے میں ان سے مل کر آرہا ہوں۔ 
.............................
............................ 
............................  

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں