وہ ایک رات - مکمل کہانی



حسن ایک افسر تھا سرکار نے اس کو جنگل میں ایک گھر دے رکھا تھا اس کا گھر اس جگہ سے بہت دور تھا تب ہی کام کے سلسلے میں اس کو زیادہ تر یہاں ہی رہنا پڑتا تھا جس وجہ سے وہ اپنی بیوی ردا اور بچے کے لئے اداس سا ہو جاتا تھا شادی سے پہلے الگ بات تھی مگر جب سے اس کی شادی ہوئی تھی اس جگہ اکیلے اس کا دل نہ لگتا تھا اس نے کئی بار اپنی بیوی سے کہا تھا مگر وہ وہاں آ کر رہنے کے لئے تیار نہ ہوئی تھی کیوں کہ وہاں بچے کو سمبهالنے میں اس کو اپنی ماں کا سپورٹ تھا اور دوسری بات اس کو جنگل کے بیچ و بیچ اکیلے رہنے سے ڈر لگتا تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا یہ فیصلہ اس کا کتنا بڑا نقصان دینے والا ہے ۔

حسن کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے اس کا ایک دو سال کا پیارا سا بیٹا تھا ارحم اور وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا ۔ پہلے تو وہ ہفتے بعد گھر چکر لگا لیتا تھا مگر کام زیادہ تھا جس کی وجہ سے 20 20 دن گزر جاتے وہ بیوی اور بیٹے کی صورت تک نہ دیکھ سکتا تھا اور اس دفعہ تو پورا مہینہ ہونے کو تھا اس کی زندگی میں گھر کا سکون جیسے رہا ہی نہ تھا بس کام ہی کام اس کی آنکھوں میں تھکاوٹ دکھنے لگی تھی مگر ردا اس کی تکلیف سمجھ نہ پا رہی تھی

آج وہ کسی کام سے شہر گیا تھا اور جب وہ شہر سے واپس جنگل کی طرف آ رہا تھا تو اسے کافی دیر ہو گئی تھی رات کے کوئی دو بجے کا وقت ہو گا گہرا سنا ٹا دور دور تک پھیلا تھا آج چاند نہیں تھا اندھیرا بہت گہرا تھا اس کی گا ڑی کی لائٹس کے علاوه دور دور تک کوئی روشنی نہ تھی حسن آرام سے اپنا سفر طے کر رہا تھا اور اپنی ہی کسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک اس کی گاڑی بند ہو گئی وہ گاڑی سے اترا تو یخ ہواؤں کے جھونکے اسے چھو چھو کر گزرنے لگے ٹھنڈ کافی بڑھ گئی تھی راستہ اب بھی کافی باقی تھا وہ گاڑی میں ہوئی خرابی چیک کرنے لگا تو اچانک ہی کسی نے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک دو شیزہ کھڑی تھی

دودھیا رنگت دراز قد بھر پور جسم لمبے سیاہ بال وہ بہت زیادہ خوب صورت تھی اور سب سے زیادہ خوب صورت اس کی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں تھیں ان میں ایک خمار سا تھا لڑکی کے ہونٹ کے نیچے ایک کالا تل تھا جو اس کے حسن کو مزید نكهار رہا تھا اس کے بال کھلے تھے ۔۔مگر حسن ان مردوں میں سے نہ تھا جن کو حسن پگھلا دے دل ہی دل میں اس کے حسن کا قائل ضرور ہوا مگر اسے اپنی بیوی ہی سب سے حسین لگتی تھی یہ اس کی وفا اور محبت تھی ۔

جی ؟

وہ بولا

جس پر وہ کچھ نہ بولی بس بڑی بڑی آنکھوں سے اسے تکتی رہی

آپ رات کے اس وقت یہاں کیا کر رہی ہیں اکیلی ؟

حسن نے اس کی مدد کرنی چاہی

میں گھر چھوڑ کر آ ی ہوں ؟؟ کوئی ٹھکا نہ نہیں ہے میرا وہ بولی اس کی آواز سحر انگیز تھی ۔۔

کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں ؟؟

کیسی مدد ؟

ایک رات مجھے پنا ہ دے دن کل میں کوئی ٹھکا نہ ڈھونڈ لوں گی ۔حسن نے اس پل یہی سوچا کہ اس ویران جگہ جوان لڑکی کو اکیلا چھوڑنا غلط ہو گا تب ہی وہ بنا اس پر نگاہ ڈالے بولا ٹھیک ہے گاڑی میں بیٹھ جائیں اور گاڑی ٹھیک کرنے لگا وہ چلتے ہوۓ گاڑی میں جا بیٹھی اس نے پایل پہن رکھی تھی جو کہ حسن کی پسند تھی اس نے کئی بار ردا سے کہا اور اس کو تحفہ میں پایل دی بھی مگر ردا کو پسند نہ تھا حسن نے نظر انداز کیا اور اپنے کام میں مگن رہا آسمان کو کالے بادلوں نے گھیر رکھا تھا اور پھر وہی ہوا جس کا حسن کو ڈر تھا تیز بارش شروع ہو گئی سردی کی بارش تھی اور علا قہ بھی پہاڑی تھا ایسے علاقوں میں ٹھنڈ ٹکا کر پڑتی ہے حسن کو اپنا خون جمتا ہوا محسوس ہونے لگا گاڑی اب تک ٹھیک نہ ہوئی تھی وہ چارو نہ چار واپس گاڑی میں جا بیٹھا ۔

وہ پوری طرح بھیگ چکا تھا اب تو لگتا ہے رات یہی گزار نی ہو گی صبح ہی کوئی مکینک مل سکتا ہے وہ بولا اہ ہ !!

وہ لڑکی نرمی سے بولی حسن نے آس پاس نظر دوڑای تو اسے ایک جھونپڑی قسم کا کمرہ نظر آیا دراصل وہ اکیلا ہوتا تو گاڑی میں بھی سو جاتا مگر ایک عورت اس کے ساتھ تھی جس کا اسے خیال کرنا تھا

آئیں میرے ساتھ یہ جیکٹ آپ پہن لیں وہاں بیٹھ جاتے ہیں گاڑی میں ٹھنڈ بہت بڑھ جاۓ گی وہاں جگہ خشک ہے آگ جلانے کا کچھ بندو بست ہو جاۓ گا ۔کچھ ہی دیر میں وہ لوگ اس جگہ موجود تھے حسن نے کچھ خشک لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلا لی تھی اس دوران اس لڑکی نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا کہ اس کا بھائی کسی کا قتل کر چکا تھا اور خود سزا سے بچنے کے لئے مجھے بھی قتل کر دینا چاہتا تھا تا کہ اس قتل کو غیرت کے نام پر کیا جانے والا قتل کا رنگ دے سکے میں بڑی مشکل سے وہاں سے بھاگ کر ای ہوں ماں باپ نہیں ہیں ۔حسن سنجیدگی سے اسے سنتا رہا پھر اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر ھونٹوں کے بیچ رکھی ۔۔

تو اسے اندازہ ہوا سگریٹ تو بهیگ چکی ہے اس نے غصے سے سگریٹ زمین پر پھینکی اور پیر کے نیچے مسل دی اسے شدت سے طلب ہو رہی تھی مگر اب صبر کے علاوه کوئی چارہ بھی نہ تھا ۔کافی دیر خاموشی چھائی رہی بادل گرجتے تو یوں لگتا جیسے چھت پر گرج رہے ہوں بجلی کی چمک پل میں رات کو دن میں بدل دیتی تھی اور موسلادھار بارش یوں جاری تھی جیسے کبھی تھمے گی ہی نہیں ۔ وہ بھیگ کر اور بھی حسین ہو گئی تھی ایسے میں حسن کو اس لڑکی کی طرف بے جا کشش محسوس ہونے لگی اس کا دل بری طرح اس کی طرف کھنچنے لگا اور پھر اس کا نفس اس کے قابو میں نہ رہا ۔۔۔۔

صبح ہو چکی تھی وہ دونوں حسن کے فارم ہاؤس کے لیے نکل چکے تھے سڑک پر دهند پھیلی ہوئی تھی جنگل اپنا حسن دکھا رہا تھا منظر بہت دلکش تھا اور موسم بھی بہت پیارا رات کا طوفان تھم چکا تھا مگر حسن کے اندر ایک طوفان بر پا تھا اسے اپنے وجود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی اور رہ رہ کر ردا کے ساتھ بے وفائی کا احساس ہو رہا تھا مگر وہ بظاہر خاموش تھا

کچھ دن اس لڑکی کو اپنے گھر پر رکھا حسن خود کو اس لڑکی کا بھی قصور وار سمجھتا تھا اس دوران اس نے لڑکی سے کوئی غیر ضروری بات نہ کی اور نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا وہ بھی چپ چپ سی رہتی اس کا نام حیا تھا

اب مزید ایک لڑکی کو بنا کسی رشتے کے حسن نہ رکھ سکتا تھا ویسے بھی ردا سے مزید بے وفائی ہوتی جا رہی تھی مگر جب بھی وہ جانے کا کہتا حیا کچھ دن اور رہنے کے لیے منت کرنے لگتی اور وہ مجبور ہو کر رہ جاتا

آج بلآخر حیا جا رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جاۓ گی مگر اسے جانا تھا کیوں کہ حسن اب اسے صاف الفاظ میں بول چکا تھا ۔جانے سے کچھ دیر پہلے وہ حسن کے لئے چائے بنا لائی اور اس کے برابر میں بیٹھ گئی حسن کے سر میں شدید درد تھا اسے اس وقت چائے ہی کی طلب ہو رہی تھی

شکریہ ۔۔

وہ بولا اور چائے پینے لگا وہ بغور حسن کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔

پریشان کیوں ہیں ؟؟؟

اس کی بات پر حسن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا وہ ایسی ہی تھی ہمیشہ بنا کہے حسن کی تکلیف اس کی طلب سمجھ جاتی تھی اور حسن ہر بار ہی حیران رہ جاتا تھا ۔۔

میں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گی آپ فکر نہ کریں

میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا مگر ۔۔۔۔

میں سمجھتی ہوں اور ویسے بھی وہ غلطی صرف آپ کی نہیں تھی میں بھی اس میں اتنی ہی شریک تھی وہ نظر جھکا کر بولی اس کی آنکھیں نم تھیں ۔۔آپ خود پر بوجھ نہ ڈالیں آپ نے کچھ غلط نہیں کیا اور ویسے بھی میں بہت اکیلی تھی زندگی میں اب مجھے سہا را مل جاۓ گا کوئی ایسا جو میرا اپنا ہو گا وہ کھوئی ہوئی سی بولی

مطلب ؟؟ حسن سمجھا نہیں

مطلب میں امید سے ہوں وہ گردن جھکا کر بولی آنسو اس کی خوب صورت آنکھوں کو بھگونے لگےاس پل وہ مزید حسین لگنے لگی تھی یہ سنتے ہی حسن کا دماغ چکرا کر رہ گیا اس کے بعد دونوں کے بیچ کوئی بات نہ ہوئی حسن اسے چھوڑنے سٹیشن جارہا تھا گاڑی وہ بہت تیز چلا رہا تھا بہت سی سوچوں کا انبار اس کے دماغ میں تھا پریشانی سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اس کو رہ رہ کر ردا کی یاد آ رہی تھی اچانک اس نے بریک لگائی ۔۔حیا حیرت سے اسے دیکھنے لگی وہ کچھ در چپ رہا پھر بنا اس کی طرف دیکھے ہی بولا

شادی کرو گی مجھ سے ؟؟؟!

وہ نہیں جانتا تھا اس کے بولے جملے نے حیا کو جیسے جینے کا مقصد دے دیا ہو وہ تو پہلی ملاقات ہی سے حسن سے محبت کرنے لگی تھی مگر شرم نے کبھی اظہار نہ کرنے دیا تھا ۔وہ سمجھ نہ سکی کیا بولے الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہوں جیسے

بولو حیا ؟؟؟ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟؟؟

وہ اب حیا کی آنکھوں میں آنکھیں دال کر نرمی سے بولا تھا

میں اپنی اولاد کو یوں رلنے کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا

حیا جو اک پل کو یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ شاید حسن بھی وہی سب محسوس کر رہا ہے جو وہ کر رہی اگلے ہی پل اس کا یہ بهرم خاک میں مل چکا تھا خیر صرف شادی بھی اس کے لئے بہت بڑی بات تھی وہ اثبات میں گردن ہلا گئی جذبات ایسے امڈ کے آے کہ وہ خود کو روک نہ سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

وہ حسن کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتی تھی وہ تو یہ بھی نہ جانتی تھی کہ وہ شادی شدہ اور اک بچے کا باپ ہے حسن نکاح کر کے اس کو واپس گھر لے آیا اسے اس نے فارم ہاؤس رکھنے کا ہی فیصلہ کیا تھا درد سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا وہ بیڈ پر دراز تھا اور حیا سامنے چپ چاپ بیٹھی تھی اس کے دل میں امنگوں اور خوابوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔اسے وہ مل گیا جو اس کی تمنا بنا اور ویسے بھی یہ تو ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ ایک خوب رو محبت کرنے اور عزت دینے والا سچا انسان اس کا جیون ساتھی بنے حیا کے چہرے پر اداسی کی جگہ اک چمک نے لے لی تھی

حسن نے فیصلہ کیا کہ وہ حیا کو سچ بتا دے ابھی اور اس نے جیسے ہی فون اٹھایا دوسری طرف سے حیا کی کال خود آ گئی ۔۔سلام دعا کے بعد اس سے پہلے حسن اسے سب بتاتا وہ بول پڑی اس نے حسن کو خوش خبری دی کہ آپ ایک بار پھر سے بابا بننے والے ہیں وہ تو خوشی سے چہک رہی تھی ۔۔اب جلدی میرے پاس آ جائیں مجھے آپ کی ضرورت ہے ۔۔۔حسن تو گنگ ہو کر رہ گیا اس میں ہمت ہو نہ بن پڑی کچھ بھی بولنے کی

ہیلو آپ سن رہے ہیں نہ ردا بولیآ ہ ہاں ضرور بس جلدی آ ؤں گا یہ کہہ کر حسن نے فون بند کر دیا حیا جو کچھ دیر پہلے اپنی اور حسن کی آنے والی زندگی کو لے کر طرح طرح کے خواب سجا رہی تھی پل میں سب چکنہ چور ہو گیا وہ سمجهدار تھی حقیقت سمجھ گئی مگر اس نے کوئی سوال نہ کیا

آپ کی طبیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی میں آپ کے لئے چائے اور دوا لے کر ۔۔۔۔

وہ بولتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور جانے لگی کہ حسن نے اس کا ہاتھ پکڑا

حیا ۔۔۔

بیٹھو میری بات سنو وہ بیحد محبت اور نرمی سے بولا اور حیا کو اپنے پاس بٹھا لیا حسن نے اس کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا جس پر اس نے مسکرا کر حسن کو تسلی دی کہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا آپ فکر نہ کریں میں خود ردا کو یقین دلاؤں گی کہ یہ شادی ایک سمجھوتہ ہے اور کچھ نہیں اور سچ یہی ہے حسن کہ آپ ردا ہی سے محبت کرتے ہیں میں نے ابھی ابھی آپ کی آنکھوں میں دیکھا ہے میرے لئے تو آپ محسن ہیں کہ مجھے اپنایا آپ نے میرے لئے یہی کافی ہے آپ کے نام کے ساتھ میرا نام جڑ گیا اور میرے بچے کو اس کے باپ کا نام مل گیا میں وعدہ کرتی ہوں کبھی آپ دونوں کے بیچ نہیں آؤں گی آپ انہی کے ساتھ رہیں میرے پیار میں کوئی کمی نہیں آ ے گی ۔۔یہ سب بول کر تو جیسے حیا نے حسن کا آ دها بوجھ ہلکا کر دیا تھا ۔




کچھ دن بعد حسن نے ردا کو ساری بات بتا دی ردا کو دھچکا لگا وہ تو غصے سے جیسے پاگل ہو گئی اس نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا بہت روئی بہت تڑپی حسن نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی دونوں روتے رہے تھے مگر ردا کے بس میں نہ تھا اتنی بڑی تکلیف کو یوں بھول جانا ایک تو اس رات کی غلطی اور پھر حسن نے اسے بیوی بھی بنا لیا اور ساری زندگی ساتھ رکھنے والا تھا یہ ردا برداشت نہ کر سکی اور گھر چھوڑ کر چلی گئی ۔حسن اجڑا اجڑا سا رہنے لگا ذہنی دباو بہت تھا وہ بس کام میں مگن رہتا اپنے بیٹے اور ردا کی یاد اسے تڑپا تی رہتی تھی اور اپنی غلطی کا بوجھ اس نے حیا سے بات تک کرنا ترک کر دیا تھا ۔۔دن یوں ہی گزرتے رہے وہ کئی بار ردا کے گھر جا چکا تھا ہر طرح اس سے معافی مانگننے کی کوش ش کی مگر ردا کے لیے آسان نہ تھا ۔۔ایک شام حسن کی گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی ایکسیڈنٹ اتنا برا تھا کہ اس کی جان مشکل سے بچی مگر وہ بستر پر پڑ گیا

ردا کو جب پتہ چلا وہ تکلیف سے تڑپ اٹھی اور فورا اسپتال جانے کا فیصلہ کیا مگر اگلے ہی پل اسے حسن کی بے وفائی یاد آ گئی اس کے قدم وہی رک گئے تھے ۔۔۔حسن گھر آ چکا تھا جتنے دن اسپتال میں رہا حیا جی جان سے اس کی خدمت میں جتی رہی دن رات روتے روتے اس کی صحت کے لئے دعا مانگتی رہی ۔گھر آجانے کے بعد وہ اور زیادہ خدمت کرنے لگی حسن اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ رہا تھا کھانا بھی خود نہ کھا سکتا تھا ۔ڈاکٹرز نے مشورہ دیا تھا 24 گھنٹے ڈیوٹی پر نرس رکھنے کا مگر حیا نے سارا ذمہ اپنے سر لے رکھا تھا واش روم لے جانا کھانا کھلانا نهلانا یہاں تک کے داڑھی بنانا ہر ایک کام میں وہ اس کا سہارا بنی اور اس نے کبھی ایک بار بھی حسن کو احساس نہ ہونے دیا کہ وہ محتاج ہے اس نے خود کو حسن کے وجود کا دوسرا حصہ بنا لیا ۔۔۔وقت یوں ہی گزرتا گیا مگر حسن کی صحت پر خاص اثر نہ پڑا

جس کی وجہ سے اس کے ایک دوست نے اس کو دم کروانے کا بھی مشورہ دیا اور کچھ ہی دن بعد

وہ دوست اپنے ساتھ ایک بزرگ کو لے آیا ان بزرگ کو حسن کے کمرے میں بٹھایا گیا تھا اور حیا کھانا بنا رہی تھی وہ بزرگ کچھ دیر حسن کے پاس بیٹھے قرانی آیات پڑھ کر دم کیا اور کچھ دیر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ان کے چہرے پر پسینہ دکھنے لگا ۔۔

تمہاری دوسری بیوی کا تعلق جنات میں سے ہے وہ انسان نہیں ہے جنات کے قبیلے کی ہے وہ جو تم سے عشق کر بیٹھی اور تمہاری زندگی میں شامل ہو گئی ۔۔بزرگ بولے حسن حیران رہ گیا اسے تو یقین ہی نہ ہو رہا تھا تب ہی اس کو یقین دلانے کی خاطر بزرگ بولے کبھی بہانے سے اپنی بیوی کو آگ سے جلا کر دیکھنا اس پر آگ اثر نہیں کرے گی کیوں کہ وہ نا ری مخلوق ہے ۔۔یہ بول کر بزرگ اٹھ کر چل دیے ان کے ذکر کا وقت ہو چلا تھا

اور ان کے جانے کے بعد حسن بہت دیر سوچتا رہا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا پھر اس نے فیصلہ کیا کہ حیا کو موم بتی سے جلا کر اپنی تسلی کر لے گا اس کا دل تو بلکل نہیں مان رہا تھا حیا کو یوں تکلیف دینے کا مگر ایک بہت بڑی حقیقت تھی جس سے پرده اٹھانا بھی ضروری تھا پھر اس نے یہی کیا جب حیا اس کو کھانا کھلا رہی تھی اس نے اپنے لائٹر کی مدد سے بہانے سے اس کا ہاتھ جلا دیا مگر اس کو آنچ تک نہ آ ی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔۔۔

حسن کے اوسان خطا ہو گئے

سنو حیا ۔۔۔

وہ بولا جس پر حیا نے اس کی طرف دیکھا جیسے جانتی ہو وہ کیا سوال کرے گا

کیا تم ہم انسانوں میں سے نہیں ؟؟؟؟ وہ دو ٹوک بولا جس پر حیا اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی جو لان میں کھلتی تھی

نہیں ۔۔۔۔

میں جانتی ہوں کہ میری غلطی ہے میں نے آپ کو دھوکے میں رکھا مگر آپ کو کھونے سے ڈرتی ہوں ۔۔۔اس کے بعد دونوں کے بیچ کوئی بات نہ ہوئی

وقت گزرتا رہا زندگی کے کچھ دن اور یوں ہی گزر گئے حسن کے دوست اسد کو بزرگ نے بتایا کہ وہ کسی کو کوئی نقصان نہیں دے گی خاص کر حسن یا اس کے گھر والوں کو تو بلکل نہیں اسد نے بزرگ سے کہا کہ اس کا قصہ ختم کر ڈالیں مگر بزرگ نے اس معاملے سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا یہ معاملہ اللّه کے ہاتھ میں اب ۔۔۔

اسد نے ردا کو اس کے گھر جا کر تمام صورت حال سے آگاہ کر دیا وہ ششدر رہ گئی اس کو اپنے کانوں پر یقین نہ ہو رہا تھا یہ کیا ہو گیا اسد یہ میں نے کیا ا ا کر دیا حسن کو اس مشکل میں اکیلا چھوڑ دیا وہ میرے حسن کو لے جاۓ گی اس نے میرے حسن کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے وہ ہم سب کو بھی مار ڈالے گی یہ سب کیسے ممکن ہے میں تو س سوچ بھی نہیں س سکتی تھی ی ۔۔۔ردا خوف سے کانپ اٹھی اور اپنے بچے کو سینے سے لگا لیا فکر نہ کریں بھابھی ہم اپنے حسن کو اس کے چنگل سے نکال لائیں گے

اسد نے جلد ہی کسی پیر سے بات کر کے اس کو معاملہ بتا دیا اس پیر نے مدد کرنے کا وعدہ کیا اور بھاری فیس وصول کی اس نے چاند کی چودہ تاریخ دے دی کہ اس رات اپنے دوست کو میرے آستانے لے کر آنا اس سے پہلے ہم کچھ ضروری عمل کریں گے جس کا اثر تمہارے دوست پر ہو گا مگر تم گھبرانا مت یہ سب اسی کی بھلای کے لیے ہو گا کچھ دن بعد اسد حسن کے پاس آیا حسن اس دن ان بزرگ نے جو کہا اس کے بعد بھی تو اس چڑیل کے ساتھ کیسے ؟؟؟؟

یار میری بات مان چھوڑ دے اس کو تو نے اس کی وجہ سے بھابھی اور احمر کو چھوڑ دیا

میں نے اسے نہیں وہ مجھے چھوڑ گئی ہے یار کتنی بار اس کے گھر کے چکر لگا چکا ہوں اب تو اس کے والدین نے مجھے بے عزت کر کے گھر سے جانے کو کہہ دیا میں اس سے زیادہ اور زلیل نہیں ہو سکتا تھا کیا کروں ہر کوشش کر لی اس کو منانے کی مگر ۔۔۔

تو نہیں جانتا اسد میں ردا سے کتنی محبت کرتا ہوں حیا مجبوری میں لیا گیا ایک فیصلہ ہے اور ردا میری محبت ہے مگر افسوس وہ یہ سمجھ نہ سکی

میں نے بھابھی کو منا لیا ہے وہ مان گئی ہیں اسد نے خوش خبری سنائی مگر حسن خاموش بیٹھا رہا ۔۔اچھی بات ہے بس اتنا ہی بول پایا اس کے دل میں ردا سے شکوه بیٹھ چکا تھا کہ جب میں زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا تھا اور محتاج ہو کر بستر پر پڑ گیا تب بھی اس نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا مگر یہ بول کر وہ ردا کی تعضیم کم نہ کرنا چاہتا تھا وہ چپ ہی رہا ۔۔

سن ن ن ۔۔۔۔تجھ پر کالا سایہ ہہو گیا ہے

جانتا ہے ان سب کی وجہ حیا ہے مجھے ان بزرگ نے بتا دیا ہے اور ۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتا

حسن بول پڑا

اسد یار مجھے میرے حال پر چھوڑ دے اور حیا کا نام مت لے وہ میری بیوی ہے اور رہے گی اب مجھ سے اس موصوع پر بات مت کرنا

کچھ دن اور گزر گئے چوده تاریخ قریب ہوتی جا رہی تھی اور حسن کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی اس کا رنگ زرد پڑچکا تھا آنکھیں سرخ بولنا چھوڑ دیا تھا اس نے یہ سب اس عمل کی وجہ سے ہو رہا تھا جو وہ پیر حیا کو قابو کرنے کی خاطر کر رہا تھا پھر چودہ تاریخ بھی آ گئی اب پیر نے اسد کو کہا اپنے دوست کو لے کر اؤ مگر حسن کی حالت ایسی تھی ہی نہ کہ وہ کہیں جا سکتا اس دوران ردا اس سے ملنے کئی بار آ چکی تھی مگر حسن کی حالت دیکھ کر بہت روئی حسن اب اس قابل ہی نہ رہا تھا کہ بات کر سکتا جب کہ حیا اس کا بہت خیال رکھ رہی تھی دن رات اس سے باتیں کرتی رہتی کہ کسی طرح سے حسن کچھ بول لے مگر سب بے کار ۔۔

خیر حسن کی حالات دیکھتے ہوئے پیر خود ہی اس کے گھر آ گیا تھا ابھی اس نے عمل شروع نہ کیا تھا کہ حیا کو بچے کی ولادت کا درد شروع ہو گیا وہ بری طرح چیخنے تڑپنے لگی وہ دوسرے کمرے میں تھی اور حسن دوسرے حسن کے کانوں میں اس کی آواز پڑی بہت درد سے چلا رہی تھی وہ مگر حسن اٹھ نہ پا رہا تھا وہ لاکھ کوشش کرتا رہا مگر سب بے کار دوسری طرف پیر نے حیا کے خلاف عمل شروع کر دیا

وہ جو پہلے ہی تکلیف سے تڑپ رہی تھی اب اس کی چیخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں رات کا وقت تھا چودھوں کا چاند آسمان پر چمک رہا تھا وہ پیر بابا اپنے کام میں مشغول رہا اسد بیٹھا سب دیکھ رہا تھا اور اپنے دوست کی صحت کے لئے دعا گو تھا ۔۔پیر بابا کے عمل سے حیا اس کے حصار میں آگئی وہ اسی کمرے میں پڑی تڑپ رہی تھی اس کا بدن جگہ جگہ سے جلنے لگا حسن مسلسل اس کی آواز سن رہا تھا وہ اپنی پوری قوت جمع کر کے اٹھا اور لڑکھڑا تا ہوا گرتا پڑتا اس کے پاس جا پہنچا حیا ۔۔۔

وہ بے چینی سے حیا کے پاس آیا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھا اس کو دیکھ کر اس تکلیف کے با وجود بھی حیا کے چہرے پر عجیب سا اطمینان آ گیا تھا وہ خود کو محفوظ محسوس کرنے لگی حسن کی موجودگی سے حسن نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے کچھ ہی دیر بعد حیا نے ایک خوب صورت بیٹے کو جنم دیا ایک حسن کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے اپنے بیٹے کو بانہوں میں اٹھا لیا اور دوسرے ہاتھ سے حیا کو تھام رکھا تھا

حیا کچھ بولنے لگی جو ایسی زبان تھی جس کو سمجهنے سے حسن قاصر تھا وہ سوالیہ انداز سے اسے دیکھنے لگا

میں جا رہی ہوں حسن مگر اپنی محبت کی یہ نشانی ہمیشہ کے لئے چھوڑے جا رہی ہوں میں سر کش ہوئی جس کی مجھے سزا ملی مگر میری غلطی کی سزا میرے بچے کو نہ ملنے دینا یہ بولتے ہوۓ اس نے بچے کو چوما اس کا بہت خیال رکھنا یہ حیا کے آخری الفاظ تھے پھر وہ جهلس کر ہوا میں تحلیل ہو گئی

حسن کافی دیر ساکت بیٹھا رہا اسد دوڑ کر اس کے پاس آیا اور اسے گلے لگا لیا ۔۔

اور اسے اپنے ساتھ اس کے شہر والے گھر لے گیا حسن اب بھی ڈھیلا تھا ۔اگلے ہی دن حسن کے ایک اور بیٹا اس دنیا میں آ گیا وہ بھی بہت خوب صورت تھا ۔حسن کی طبیت نہ ساز ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے اسپتال گیا تھا اس نے اپنے بیٹے کو گود میں لیا اور پیار کیا ردا لیٹی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔حسن سے زیادہ دیر کھڑا نہ رہا گیا وہ صوفے پر بیٹھ گیا

کیسے ہیں ؟؟؟

وہ روہانسی ہو کر بولی تمہیں فرق پڑتا ہے ؟؟؟وہ بولا حسن کی آواز میں درد تھا

کیا ہم سب کچھ بھلا کر ایک نئی شروعا ت نہیں کر سکتے ؟؟؟ وہ روتے ہوئے بولی اس کی طبیت بھی ٹھیک نہ تھی تب ہی حسن نے اسے پریشان نہ کرنا چاہا وہ کچھ دیر تو خاموش بیٹھا زمین گھورتا رہا پھر اٹھ کر ردا کے پہلو میں آ بیٹھا اور نرمی سے ردا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ٹھیک ہے مگر کیا تم میرا ایک مان رکھو گی ؟؟؟ میرے اس بیٹے کو بھی اپنے سگے بیٹوں کی طرح پالو گی ؟؟ اس کی ماں بنو گی ؟؟؟ جس پر ردا سسک کر رو پڑی اور حامی بھرتے ہوئے حسن کے گلے لگ گئی حسن نے بھی اس کو سینے سے لگا لیا

ختم شد
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں