ہیلتھ کلب اور ویران گراؤنڈ

ہیلتھ کلب اور ویران گراؤنڈ

1997 کی بات ہے سردیوں کا موسم تھا رات کے ساڑھے سات بجے کا وقت ہوگا میں اور میرے دوست عرفان، بلو، اور توقیر گلی میں کھڑے باتیں کر رہے تھے دھند بہت تھی اتنے میں ہمارا ایک دوست ناصر ہمارے پاس آیا اس نے ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا ہاتھ میں ایک پانی کی بوتل اور ایک چھوٹا سا بیگ اپنے کاندھے پر رکھا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کھیل کے لیئے جا رہا تھا ہم نے اس سے پوچھا خیر تو ہے اس وقت اتنی سردی میں کیا کھیلنے جا رہا ہے ناصر نے کہا ارے نہیں یار میں کوئی کھیل نہیں کھیلنے جا رہا بلکہ جم (ہیلتھ کلب) جا رہا ہوں صدر کینٹ میں اور آج میرا پہلا دن ہے اور پتا ہے میرا کزن بوبی وہاں کا کوچ ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ تم روزانہ کلب آؤ گے تو تمہاری باڈی بہت اچھی بن جائے گی یہ بڑے بڑے ڈولے شولے اور بڑی سی چھاتی ہو گی۔ 
 
ہم سب دوست بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہم اس کی باتوں پر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا بھی رہے تھے کیونکہ ناصر جیسے ہمیں یہ سب بتا رہا تھا اس سے وہ بہت ہی زیادہ ایکسائٹڈ لگ رہا تھا لیکن اس کی باڈی کو دیکھ کر ایسا بلکل نہیں لگ رہا تھا کہ اس کی باڈی اتنی جلدی ایسی بن جائے گی جیسے وہ بتا رہا تھا میں نے ناصر سے کہا اچھا تو تمہارا کزن بوبی وہاں کا کوچ ہے پھر تو وہ ہماری بھی اس جم انٹری کرا سکتا ہے ناصر نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں وہ تو مجھے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ دوستوں کو بھی ساتھ لے آیا کرنا اسی لیئے تو میں تمہارے پاس آیا ہوں۔ ناصر کی یہ بات سن کر میں نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیوں بھئی کیا خیال ہے چلیں پھر آج سے جم ویسے بھی ہم لوگ اس وقت فارغ ہی ہوتے ہیں دوستوں نے ہاں یہ ٹھیک ہے ایسے میں ہم تھوڑا گھوم بھی لیا کریں گے رات میں ۔ ناصر نے کہا ٹھیک ہے پر ہمیں وہاں بائیک نہیں جانا ہم پیدل واک کرتے ہوئے جائیں گے تاکہ ہمیں جم میں وارم اپ کی ضرورت نہ پڑے ۔
 
 میں نے کہا یار وہ کلب بہت دور ہے ہم بائیک پر ہی چلتے ہیں ناصر نے کہا ارے نہیں نہیں مجھے ایک شارٹ کٹ راستہ معلوم ہے وہاں سے ہم آسانی سے آدھے سے بھی کم وقت میں جم پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا وہ کون سا راستہ ہے جو ہمیں نہیں پتا ؟ ناصر نے کہا تمہیں پتا ہوگا یار پر تم وہاں سے گزرے نہیں ہو گے کبھی ۔ اتنے میں میرا دوست بلو بولا یار ناصر کہیں تم دھوبی گھاٹ والے راستے کی بات تو نہیں کر رہے ؟؟ ناصر نے کہا ہاں دیکھا نا تم لوگوں کو پتا ہے ۔ میں نے بلو کو کہا یار پر وہ راستہ تو بہت سنسان ہے اور وہاں دھوبی گھاٹ کے ساتھ ہی ایک گراؤنڈ بھی ہے جس میں انگریزوں کے دور کی قبریں بھی ہیں جہاں کامی ( یعنی میرا دوست کامران) کو ایک عجیب سی چیز بھی نظر آئی تھی جس کے بعد وہ بہت بیمار ہو گیا تھا۔
 ناصر نے کہا کیا یار وہ تب کی بات تھی اور اس وقت وہ سالا اکیلا جو گزرا تھا وہاں سے پر آج وقت بدل گیا ہے اور ویسے بھی ہم اتنے سارے ہیں اور اوپر سے پوری رنگبازوں کی ٹیم سے کسی چیز نے پنگا لے کر مرنا ہے کیا ۔ میں نے کہا یار پھر بھی ایک بار سوچ لو ہم کسی اور راستے سے چلتے ہیں۔ دوستوں نے کیا یار دیمی تم لوگوں کے گھر میں بھی تو بہت بار جن شیطانی چیزیں تھیں نا تو کیا تم نے ان کے ڈر سے گھر چھوڑ دیا تھا کیا میں نے کہا یار وہ بات اور تھی تم لوگ سمجھ نہیں رہے وہاں پرانا قبرستان ہے وہ بھی انگریزوں کا اور ویسے بھی وہاں کے لوگ بھی رات میں وہاں نہیں جاتے ناصر نے کہا یار دیمی سیدھے سیدھے بول کہ تو ڈر گیا ہے ۔ناصر کی یہ بات سن کر میں تھوڑا غصے میں آگیا اور میں نے کہا تم لوگوں کو پتا ہے میں کسی شیطانی چیز کے باپ سے بھی نہیں ڈرتا لیکن جان بوجھ کر ان چیزوں سے پنگا لینا مجھے تھوڑا عجیب سا لگ رہا ہے اتنے میں بلو نے کہا یار اب چلو بھی ویسے بھی وہ چیزیں کونسا وہاں سردی میں بیٹھ کر اگ سیک رہی ہیں عامر نے بلو کی بات کا مذاق بناتے ہوئے کہا ارے نہیں وہ تو وہاں یخنی اور گرم انڈے لگا کر بیٹھی ہونگی ان دونوں کی باتیں سن کر ہم سب ہنس پڑے ناصر نے کہا اب چلنا ہے کہ نہیں ؟؟ میں نے کہا چلو یار پھر اب جو ہوگا دیکھا جائے گا اس کے بعد ہم سب لوگ جم کی طرف چلنے لگے اور کچھ دیر چلنے کے بعد ہم دھوبی گھاٹ کے پاس پہنچ گئے اب وہاں سے ہمیں شارٹ کٹ لینا تھا اور وہ بھی اس کھلے سے میدان میں جہاں انگریزوں کا پرانہ قبرستان تھا جو کہ بہت دور تک پھیلا ہوا تھا ایسا لگتا تھا کہ یاں تو گراؤنڈ قبرستان میں شامل ہو گئی تھی یا پھر قبرستان گراؤنڈ تک پھیل گیا تھا پر ہم کسی بھی خطرے سے بے خبر اس کی طرف بڑھنے لگے رات کے وقت تو اس جگہ پر بہت زیادہ اندھیرا تھا صرف دھوبی گھاٹ تک سڑیٹ لائٹس لگی ہوئی تھیں اور دھند بھی بہت زیادہ تھی اس جگہ پر کیوں کی ہر طرف میدان ہی تھا اور کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر طرف صرف دھواں سا ہی دکھائی دے رہا تھا ہم باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزر رہا تھا وہ ہمیں دیکھ کر رک گیا اور بولا ارے لڑکوں رکو تم کہاں جارہے ہو میری بات سنو یہ کہہ کر وہ ہم سے بہت دور ہو کر کھڑا ہو گیا ۔ ہم نے اس کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں بولا رہا تھا لیکن وہ ہم سے دور ہوتا جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ کسی چیز سے ڈرا ہوا ہو۔ بلو نے اس آدمی کو کہا کیا ہوا چاچو ؟؟ کیا مسلہ ہے ؟ وہ آدمی بولا پہلے آپ سب وہاں سے یہاں آجاؤ پھر بتاتا ہوں ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر میں نے کہا چلو یار اس کی بھی سن لیتے ہیں پتا نہیں کیا چکر ہے ۔ یہ بول کر ہم سب اس کی طرف چلنے لگے ایک دوست عرفان نے کہا یار مجھے تو یہ کوئی چور ڈاکو لگ رہا ہے زرا چکنے رہنا میں نے کہا ارے نہیں چور ڈاکو اتنے پاگل نہیں ہوتے کی اکیلے ہی پانچ بندوں سے پنگا لیں اور وہ بھی رنگبازوں سے اور جب ہم اس آدمی کے پاس گئے تو اس نے پھر سے ہمیں کہا تم لوگ کہاں سے آئے ہو اور اس گراؤنڈ کی طرف کیوں جارہے ہو ؟ ناصر نے کہا ہم لوگ دھرم پورہ سے آئے ہیں اور ہم اس گراؤنڈ سے شارٹ کٹ راستے سے ہوتے ہوئے صدر ہیلتھ کلب جاریے ہیں وہ آدمی فوراً سے بولا نہیں نہیں وہاں سے مت جاؤ تم لوگ پاگل تو نہیں ہو ۔
 آدمی کی یہ بات سن کر ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر اچانک سے زور زور سے ہنسنے لگے ۔ تبھی بلو نے آدمی سے کہا او چاچو کیا کوئی نشہ تو نہیں کیا ہوا یاں نشہ لینے جارہے ہو ؟ آدمی نے کہا ارے تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے میں یہاں پاس میں ہی رہتا ہوں اور اس گراؤنڈ میں آئے زور کوئی نہ کوئی خوفناک واقع ہو جاتا ہے اسی وجہ سے بہت سے لوگ تو یہاں دن میں بھی نہیں گزرتے اور تم لوگ رات کے وقت اس گراؤنڈ میں جاریے ہو ۔ مجھے اس آدمی کی بات میں تھوڑا وزن لگا میں نے دوستوں کو کہا یار مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس کی بات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ مجھے بھی تھوڑا عجیب سا لگ رہا ہے ۔ میرے دوستوں نے کہا کیا یار دیمی تو بھی کی باتوں میں آرہا ہے یار 10منٹ کی بات ہے ہم نے جلدی سے گراؤنڈ پار کر لینا ہے ۔ وہ آدمی جلدی سے بولا ارے تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے میں نے ابھی اس جگہ پر کسی چیز کو دیکھا ہے اس وجہ سے میں جلدی سے ادھر آگیا ہوں ۔ ناصر نے بولا یار سب چپ کرو ایک منٹ اس کے بعد ناصر نے اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا او چاچو اب تو بتا ذرا پھر ہمیں تونے کیا چیز دیکھی ہے ؟ وہ ادمی نے کہا وہ کوئی دلہن کے لباس میں عورت تھی جو کہ پہلے تو کسی جانور کی طرح چلتی ہوئی میرے قریب آ رہی تھی میں نے اس آیک نظر دیکھا اور میں اپنے راست چلنے لگا پھر اچانک سے اس نے مجھے میرے نام سے آواز دی اور میں تبھی سمجھ گیا کہ یہ کوئی عورت نہیں بلکہ کوئی ہوائی چیز ہے اس کے میرے قریب آنے پر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے میں جلدی سے آئیت الکرسی پڑھتے ہوئے ادھر تک آگیا اور آگے دیکھا تو تم لوگ آرہے تھے ۔ ناصر اس آدمی کی بات سن کر زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا واہ چاچو تونے تو لکی چانس مس کر دیا ارے رک کر دیکھتا تو سہی تمہیں اتنی رات کو ایک بیوٹی آفر دے رہی تھی اور تم ڈرپوکوں کی طرح وہاں سے نکل لیئے کہ وہ ایک ہوائی چیز تھی ارے اتنا ہی ڈر تھا تو کسی حکیم سے اعلاج ہی کروالیتے بیوٹی کے سامنے بے عزتی نہ ہوتی ارے چاچو اس کا دلہا بننے کی بجائے تم ہم رنگبازوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہو اگر تم کچھ نہیں کر سکتے تھے اس دیمی رنگباز کو ہی بلا لیتے تمہیں اس نے خود ہی بتا دینا تھا دلہا کیسے بنا جاتا ہے ۔ ناصر کی یہ بات سن کر ہم سب ہنسنے لگے اتنے میں وہ ادمی غصے میں آگیا اور بولا بکواس بند کرو بدتمیزوں میں تمہیں خطرے سے آگاہ کر رہا تھا میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم سب ۔ بلو نے کہا او چاچا آرام سے زیادہ فنکاری لگانے کی کوشش مت کر چل اب نکل نیوے نیوے ہو کر ورنہ تجھے نہیں معلوم ہم تو خود بہت بڑی ہوائی چیزیں ہیں کہیں یہ نہ ہو تجھے اٹھا کر پٹخ دیں اور وسیے بھی اس عمر میں تمہارے سپئیر پارٹس نہیں ملیں گے ۔ میں نے آگے بڑھ کر بلو کو اپنی طرف کھینچا اور کہا یار چھوڑو اس کو تم اس بیچارے کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو وہ تو صرف ہمیں سمجھا ہی رہا تھا ۔ ناصر نے کہا یار چھوڑو سب باتیں ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں چلو اب چلتے ہیں ۔ میں نے کہا یار اوپر کے راستے سے چلیں ؟؟ ناصر نے کہا یہ لو اب یہ رنگباز بھی ڈر گیا ۔ ناصر کی یہ بات سن کر مجھے غصہ آگیا میں نے ناصر سے کہا ابے او ڈرپوک ہو گا تیرا پھوپھا میں نہیں ڈرتا اب چلو دیکھ لیتے ہیں اس دلہن کو بھی ۔ بلو نے کہا ارے ہاں ہاں پتا ہے تیرا اب لڑکی کی بات آئی ہے تو اب تو تجھے اٹلی بھی جانا پڑے گا تو وہاں بھی تو آرام چلا جائے گا ۔ اس بات پر سب مجھ پر ہنسنے لگے میں بھی مسکرانے لگا ۔ 

سہاگ کی پہلی رات

 ہم باتیں کرتے ہوئے گراؤنڈ کی طرف بڑھنے لگے دھند کی وجہ سے ہمیں مشکل سے ہی دس قدم آگے تک نظر آرہا تھا اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے ٹھنڈ بھی بڑھتی جارہی تھی بلو اور ناصر ہم سے تھوڑا آگے چل رہے تھے عرفان اور توقیر میرے ساتھ چل رہے تھے تبھی اچانک سے بلی کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی جو کہ عجیب سے طریقے سے بھاری سی آواز میں رو رہی تھی بلو اور ناصر چونک گئے اور دوڑ کر ہمارے ساتھ چلنے لگے میں نے ہنستے ہوئے کہا ابے کیا ہوا دو پہلوان تو بلی کی آواز سے ہی ڈر گئے ہیں ناصر نے کہا نہیں یار ہم نے سوچا تمہارے ساتھ ہی چلتے ہیں اتنے میں عرفان نے کہا یار مجھے ایک نمبر آیا ہے بلو نے کہا تو کیا ہوا پینٹ کی زپ کھول اور چلتے ہوئے ہی کر لے عرفان نے کہا نہیں یار مجھے کیا اپنے جیسا سمجھا ہوا ہے رکو ایک سائیڈ پر میں ابھی کر کے آتا ہوں یہ کہہ کر عرفان ایک سائیڈ پر چلا گیا توقیر نے مجھ سے کہا یار اسے دیکھو وہ تو قبروں والی سائیڈ پر چلا گیا ہے۔ ناصر نے کہا اچھا ہی ہے نہ اتنی سردی میں کسی انگریز کو گرم پانی سے نہلانے گیا ہے ویسے بھی وہ جب زندہ ہوتے ہیں تو کب نہاتے ہیں چلو آج اپنا دوست ان کو نہلا کر ہی آئے گا وہ گرما گرم پانی کے ساتھ اتنے میں بلو نے کہا یار ایسی بات ہے تو مجھے بھی سسو آیا ہے میں بھی ایک انگریز کو نہلا کر آتا ہوں یہ کہہ کر بلو بھی عرفان کے پیچھے چلا گیا میں نے اسے آواز دی ابے سالو باز آجاؤ کوئی نیا چاند نہ روشن کر دینا اس ویرانے میں پر بلو نے میری بات سن کر ان سنی کردی اور چلا گیا۔ اس کے بعد ناصر توقیر اور میں ہم لوگ ایک سائیڈ پر کھڑے باتیں کر رہے تھے اتنے میں وہی بلی کے رونے کی آواز سنائی دی اور عرفان بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا اس کی سانس پھولی رہی تھی اور وہ ڈر سے کانپ رہا تھا ۔ ہم بھی اس کی طرف دیکھ کر چونک گئے وہ تیزی سے سانس لیتے ہوئے جس طرف سے وہ آیا تھا اس طرف ہاتھ کر کے کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا پر اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی میں نے کہا فانی کیا ہوا کیا ہے وہاں ؟؟ وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا پر اس کی آواز اس کے منہ سے باہر ہی نہیں آرہی تھی اتنے میں ناصر نے ایک سائیڈ سے میرے بازو کو پکڑ لیا اور کانپنے لگا میں نے ناصر کی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑا تلخ انداز میں ناصر سے کہا ابے سالے تو مجھے تو چھوڑ تو کس بات سے ڈر رہا ہے پہلے تیرے اس باپ سے پوچھنے تو دے آخر ہوا کیا ہے پھر میں نے فانی سے پوچھا یار آرام سے ریلیکس ہو جا کچھ نہیں ہوگا تو بس آرام سے کھڑا ہو جا پہلے ۔ توقیر نے فانی کی کمر پر ہاتھ سے ملنا شروع کر دیا اور پھر تھوڑی دیر میں بلو بھی آگیا اس نے جب توقیر کو عرفان کی کمر ملتے ہوئے دیکھا تو عرفان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ارے اب اسے کیا ہوا ؟؟ میں نے کہا پتا نہیں یار یہ بھاگتا ہوا آیا ہے کہیں سے اور بہت ڈر گیا ہے بلو نے عرفان کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے اسے ہلایا اور پوچھا فانی بتا کیا ہوا ہے کیوں ڈر رہا ہے تو دیکھ ہم سب ہیں یہاں بتا کیا ہوا ہے ؟ عرفان نے کانپتا ہوا ہاتھ پھر سے اس سائیڈ پر کرتے ہوئے بہت ہی دھیمے انداز میں کہا وہاں قبر پر کوئی لمبی سی لڑکی لیٹی ہوئی ہے میں جب ایک نمبر کر رہا تھا تو اچانک سے میری نظر سامنے والی قبروں پر پڑی وہاں ایک لڑکی لیٹی ہوئی تھی جو کہ اتنی لمبی تھی کہ اس کا سر پہلی قبر پر تھا اور اس کے پاؤں تیسری قبر سے نیچے لٹک رہے تھے میں جلدی سے ادھر بھاگ کر آگیا تھا ۔ بلو نے کہا ابے ڈھکن تجھے کہیں اس پاگل آدمی کی باتوں نے تو نہیں پریشان کر دیا جو ہمیں دھوبی گھاٹ کے پاس ملا تھا ؟؟ فانی نے کہا نہیں یار میں سچ کہ رہا ہوں وہ لڑکی واقعی میں ہے اور اس نے دلہن کا سوٹ بھی پہنا ہوا تھا۔ میں نے عرفان سے پوچھا تو نے اس کا چہرہ دیکھا کیا ؟ عرفان نے کہا نہیں اس کا چہرہ بالوں سے ڈھکا ہوا تھا اس وجہ سے میں دیکھ نہیں سکا پر اس نے میری طرف منہ کیا اور بس میں وہاں سے بھاگ کر آگیا تھا ناصر نے عرفان سے پوچھا کیا وہ لڑکی اب بھی وہیں پر ہے عرفان نے کہا پتا نہیں یار پر مجھے لگتا ہے شاید وہ وہیں ہوگی۔ بلو نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا چل بھئی رنگباز اب آگے تیرا کام ہے چل کر دیکھ لڑکی کیا کر رہی ہے اس ویران گراؤنڈ میں ۔ میں نے کہا یار تیرا دماغ تو خراب نہیں ہے سالے یہ جس لڑکی کی بات کر رہا ہے وہ اس کے بتائے گئے حساب سے پندرہ سولہ فٹ اونچی ہے اور اگر واقعی میں ایسا ہے تو وہ لڑکی نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے ۔ بلو نے کہا سیدھے سے بول نہ تو ڈر گیا ہے میں نے کہا تجھے کتنی بار بولوں سالے میں تیرے باپ سے بھی نہیں ڈرتا لیکن جان بوجھ کر ایسی شیطانی چیز سے پنگا لینا مہنگا بھی پڑھ سکتا ہے ہمیں ۔ توقیر نے کہا ہاں ہاں دیمی سہی کہہ رہا ہے ۔ بلو نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے رنگباز زرا سوچ اگر وہ ہوائی چیز نہ ہوئی اور واقعی میں لڑکی ہوئی اور خوبصورت بھی ہوئی تو ؟؟ بلو کی یہ بات سن کر میں تھوڑا سا لالچی سا ہو گیا کیونکہ مجھے بہت سی لڑکیوں سے دوستی رکھنا بہت پسند تھا بس یہی سوچ کر میرا دماغ کچھ دیر کے لیئے خراب ہونا شروع ہو گیا اور میں نے بلو کی بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ اگر واقعی میں وہ ایک لڑکی ہو اور اپنی شادی سے بھاگ کر آئی ہو تو ایسا موقع دوبارہ نہیں ملنے والا مجھے لگتا ہے مجھے اس کو گرل فرینڈ بنا ہی لینا چاہیے اس طرح میری نو گرلز فرینڈز ہو جائیں گی۔
 
 میں ابھی اپنے دماغ میں ایسے وسوسے پیدا کر ہی رہا تھا کہ بلو نے کہا کیا ہوا رنگباز ابھی سے ہی شادی کے خواب تو نہیں دیکھنے لگ گیا ۔ میں نے کہا ارے نہیں نہیں میں تو کچھ اور سوچ رہا تھا بلو نے کہا مجھے پتا ہے سالے تیرے دماغ میں سوائے لڑکی کے اور کوئی خیال نہیں آتا ۔ میں نے کہا عرفان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا یار فانی تو نے واقعی میں دیکھا تھا کہ وہ لڑکی ہی تھی عرفان نے کہا ہاں دیمی بابا وہاں لڑکی ہی تھی پر وہ بہت لمبی تھی ۔ میں نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا یار ٹھیک ہے پھر چلتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کون ہے وہ شہزادی لیکن اگر کوئی پنگا ہوا نہ تو بہت برا ہونے والا ہے سالو تم مجھے مرواؤ گے کسی دن بلو جلدی سے مسکراتے ہوئے بولا ارے نہیں تجھے کچھ نہیں ہونے والا تو تو خود ہی بہت بڑی ہوائی چیز ہے جو صرف لڑکیوں پر ہی عاشق ہوتی ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا چپ کر سالے ۔ یہ کہہ کر میں اس طرف جانے لگا جس طرف عرفان کو لڑکی نظر آئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے میں اپنے دوستوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ان قبروں کی طرف دیکھنے لگا پر مجھے وہاں کوئی لڑکی نظر نہیں آرہی تھی میں نے اسی جگہ کھڑے ہو کر اپنے دوستوں کی طرف منہ کر کے آواز لگائی ابے سالو یہاں تو کوئی لڑکی نہیں ہے میرے دوست دھند کی وجہ سے مجھے نظر تو نہیں آرہے تھے پر ان کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ مجھے دور سے ہی کہہ رہے تھے زرا سہی طرح ادھر اُدھر دیکھ لڑکی وہیں ہوگی۔ میں ڈر تو رہا تھا اور میرے رونگٹے بھی کھڑے ہو گئے تھے پر اپنے دوستوں کے سامنے ہیرو بننے کا شوق چڑھا تھا مجھے اس لیئے میں نے تھوڑا اور آگے جانے کا فیصلہ کیا اور قبروں کے بیچ سے ہوتا ہوا تھوڑا اور آگے چلا گیا اتنے میں عجیب سی آواز آئی جیسے کوئی بلی رو رہی ہو میرے پورے جسم میں جیسے اک دم سے ڈر کی لہر دوڑ گئی میں اچانک چونک سا گیا اور ایک کپکپی طاری ہو گئی کیونکہ میں نے سنا تھا کہ جب بھی رات میں ہم اکیلے گھر سے باہر یا کسی سنسان جگہ پر سے گزر رہے ہوں اور اچانک سے رونگٹے کھڑے ہونے لگیں اور جسم میں اچانک سے ایک سنسناہٹ سی ہونے لگے تو سمجھ لو کہ تم کسی شیطانی چیز کے آس پاس ہی ہو جیسے کہ تم بلکل اس کی حد میں آگئے ہو۔ تو یہ سوچ کر مجھے اب ڈر لگنے لگا تھا اور اوپر سے وہ بلی کے رونے کی آواز بھی خوفناک لگ رہی تھی میں نے بہت زیادہ ہمت کر کے آرام آرام سے اپنی کانپتی ہوئی گردن اپنے دائیں جانب اور پھر بائیں جانب گھما کر دیکھا دور دور تک سوائے قبروں کے کوئی نظر نہیں آرہا تھا پھر اچانک سے سب کچھ ایک دم سے خاموش سا ہو گیا تھا اور بلی کی بھی بند ہو گئی اور اتنی زیادہ خاموشی ہو گئی کہ مجھے اپنی کانپتی ہوئی سانسوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی تبھی اچانک سے مجھے بھاری سی دھم کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اونچی سے جگہ سے زمین پر چھلانگ لگائی ہو میں نے جلدی سے چونک کر اس طرف دیکھا جس طرف سے آواز آئی تھی پر وہاں مجھے کوئی نظر نہیں آیا اور جیسے ہی میں نے واپس مڑ کر قبروں کی طرف دیکھا تو اچانک سے مجھے اپنے سامنے چند قدم کے فاصلے پر ایک لڑکی نظر آئی جو کے ایک لاش کو سامنے رکھ کر اس کے پاس ایک قبر پر بیٹھی ہوئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لاش پر جھک کر رو ہی تھی جس کا چہرہ بالوں سے ڈھکا ہوا تھا پر جیسے ہی میں نے اس پر غور کیا تو وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ اس لاش کا گوشت اپنے ہاتھوں سے نوچ کر کھا رہی تھی جو کہ اس کے سامنے پڑی تھی لیکن یہ لڑکی بلکل ویسی نہیں تھی جیسا کہ عرفان نے بتایا تھا کیونکہ نہ تو اس کا قد اتنا لمبا تھا اور نہ ہی یہ کسی دلہن کے لباس میں ملبوس تھی بلکہ یہ ایک سفید سے لباس میں ملبوس تھی اور تھوڑی ہی دیر میں مجھے کسی کے غرانے کی آواز سنائی دی میں نے جلدی سے ادھر اُدھر دیکھا پر کوئی نہ تھا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ آواز اس لڑکی کی طرف سے ہی آرہی تھی وہ جانوروں کی طرح اس لاش کا گوشت کھاتے ہوئے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہی تھی میں پوری طرح سے اتنا ڈر گیا تھا کہ میں اپنی جگہ سے ہل ی نہیں پا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرا پورا جسم بے جان ہو چکا تھا اور دل و دماغ کام نہیں کر رہا تھا اتنے میں مجھے کسی پیچھے سے آواز دی میں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو مجھے دھند میں ہلکی سی پرچھائی دکھائی دی پر وہ کون تھا یہ پتا نہیں چل رہا تھا کیونکہ وہ مجھے تھوڑا دور کھڑا ہوا تھا 
 
تبھی بھاری سی آواز میں کسی کے ہنسنے کی آواز مجھے اس لڑکی کی طرف سے آئی میں نے فوراً لڑکی کی طرف دیکھا تو وہ بھی وہاں نہیں تھی اور نہ ہی وہ لاش تھی جسے وہ کھا رہی تھی یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا جیسے کہ میں جاگتے ہوئے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں لیکن ہنسنے کی آواز وقفے وقفے سے میرے اس پاس سے آرہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میرے ساتھ کوئی کھیل رہا ہے جو کہ میرے قریب آکے ہنستا ہے اور جیسے ہی میں اس کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ کہیں چھپ جاتا ہے میں نے سوچا یہ شاید مجھے صرف تنگ ہی کرنا چاہ رہا میں قبروں کے بیچ سے ہوتا ہوا واپس جانے لگا تو تبھی اچانک سے کسی نے پیچھے سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا میری تو جیسے جان ہی نکل گئی میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہی لڑکی میرے پیچھے کھڑی تھی اس بار میں اس کو دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا کیونکہ اس کا چہرہ پوری طرح سے جلا ہوا تھا اور اس کے بازوں عام انسانوں سے زیادہ لمبے تھے میں ابھی اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کان کے پاس آکر کہا چلے جاؤ یہاں سے ورنہ مرو گے آج میں نے جلدی سے پیچھے کی طرف دیکھا پر کوئی نظر نہیں آیا اور جیسے ہی میں نے واپس لڑکی کی طرف منہ کیا تو اس لڑکی نے ایک زور دار تھپڑ میرے منہ پر مارا جس کی وجہ سے میرا سر چکرا گیا اور وہ لڑکی زور زور سے ہنسنے لگی اس کی شکل پوری طرح سے ڈراؤنی ہو چکی تھی اور اس کے پورے منہ پر آنکھیں ہی آنکھیں تھیں ایسی ڈراؤنی چیز میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی میں اپنے چہرے کو ملتا ہوا پیچھے ہٹ رہا تھا کیونکہ اب میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کوئی شیطانی چیز ہے اور آج یہ مجھے نہیں چھوڑنے والی میں آہستہ آہستہ اس لڑکی کی طرف دیکھتے پیچھے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک سے کسی نے میرے پاوں کو پکڑ لیا میں نے اپنے پاؤں کی طرف نظر ماری پر مجھے کوئی نظر نہ آیا پر ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی میری ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان سے لپٹا ہوا ہے پر وہ نظر نہیں آرہا تھا تبھی وہ لڑکی میری طرف بڑھنے لگی میں پوری طرح سے خود کو چھوڑانے کی کوشش کر رہا تھا پر میری ساری کوشش بیکار جارہی تھی کیونکہ کسی نے بہت مظبوطی سے میرے دونوں پاؤں ایک جگہ ساکت کر دیئے تھے میں نے اپنے دوستوں کو آواز دینے کی کوشش بھی کی لیکن ڈر کے مارے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اور وہ لڑکی اپنی انگلیوں کو چاٹتی ہوئی میری طرف بہت ہی آرام سے آرہی تھی اس کی شکل تو پوری طرح منہوس ہو گئی تھی جس کو تو میں کبھی خواب میں بھی دوبارہ نہ دیکھوں اس وقت صرف مجھے یہی لگ رہا تھا کہ آج تو میرا کام تمام ہونے ہی والا ہے میں اس کی شکل کو نہیں دیکھنا چا رہا تھا اس وجہ سے میں نے نظریں نیچے کی اور میں نے جلدی سے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اتنے میں میری نظر اپنے پاؤں کی طرف پڑی تو مجھے اپنی ٹانگوں کے پاس ایک سر نظر آیا ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے پاوں میں کوئی بیٹا ہوا ہے اور اسی نے میری ٹانگوں کو پکڑ ہوا تھا جبکہ پہلے اپنے پاؤں چھڑاتے ہوئے مجھے کوئی دیکھائی نہیں دے رہا تھا میں نے ہمت کر کے اس کے بال پوری طاقت سے نوچ ڈالے اور جیسے ہی میں نے اس کے بال نوچے اس نے خوفناک سی چیخ ماری اور فوراً میرے پاؤں کو چھوڑ دیا پھر کیا تھا میں نے کوئی قبر نہیں دیکھی اور نہ اونچا نیچا راستہ دیکھا اور قبروں کے اوپر پاؤں رکھتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا میں اس قدر اندھا دھن بھاگ رہا تھا کہ بھاگتے ہوئے میں عرفان سے جا ٹکرایا اور ہم دونوں زمین پر گر گئے میں پھر جلدی سے اٹھا اور بھاگنے لگا بلو نے جلدی سے مجھے پکڑ لیا اور پوچھا ابے کہا بھاگنے لگا ہے میں نے بنا دیکھے ہی اپنے آپ کو چھڑوانے کے چکر میں بلو کے منہ پر دو تین مکے مار دیئے جس سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا اتنے میں توقیر اور عرفان نے جلدی سے مجھے پکڑ کر جھنجوڑا تبھی مجھے پتا چلا او یہ تو میرے دوست ہیں میں پاگلوں کی طرح ان کے چہروں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور بار ان کے نام لینے لگا انھوں نے مجھے کہا ارے کیا ہوا ہے تجھے اور تو نے بلو کو کیوں مارا سالے اندھا ہو گیا تھا کیا میں نے بلو کی طرف دیکھا تو بلو اپنی شرٹ سے اپنی ناک کو صاف کرتے ہوئے ڈرے ہوئے انداز میں میری طرف دیکھ رہا تھا میں بلو کے پاس گیا تو بلو ڈر کے پیچھے ہٹ رہا تھا میں نے کہا یار سوری دیکھ مجھے پتا نہیں تھا تو ہے میں تو بس اپنے آپ کو چھڑا رہا تھا تو افراتفری میں بس مجھ سے غلطی ہو گئی یار چل ایسا کر تو بھی مار لے مجھے ۔ بلو نے کہا نہیں میں تیری طرح پاگل نہیں ہوں کہ پہلے پنچ مار کر تھوبڑا سجا دوں بعد میں سوری بول دوں پر سالے تو یہ بتا دے کہ یہ اندھوں کی طرح تو جا کدھر رہا تھا میں نے کہا یار عرفان کی بات سچ تھی وہ واقعی میں کوئی ڈراؤنی چیز ہے اور ایسا لگتا ہے وہ ایک نئی بلکہ دو چیزیں ہیں بلو نے کہا اچھا اس کا مطلب تو ان سے ڈر کے بھاگ رہا تھا ؟ میں نے کہا ہاں یار اس نے تو آج مجھے مار ہی دینا تھا وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ میں نے فوراً آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور اس سے جان چھڑا لی ورنہ آج شاید تمہیں میں زندہ نظر نہ آتا ۔
 
 بلو نے کہا اس کا مطلب ہمیں اب جلدی سے ادھر سے نکل جانا چاہیے ورنہ یہ نہ ہو کہ وہ چیزیں تیرے پیچھے یہاں بھی آجائیں ۔ بلو کی یہ بات سن کر عرفان ناصر اور توقیر بھی پوری طرح ڈر گئے ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ کسی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کوئی ہماری طرف بھاگتے ہوئے آرہا ہے۔ ناصر نے کہا یار تمہیں ایسا نہیں لگ رہا کہ جیسے کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے میں نے کہا یار آواز تو آرہی ہے اتنے میں توقیر نے ایک سائیڈ پر دیکھتے ہوئے کہا یار وہ کھمبا پہلے تو یہاں نہیں تھا جب ہم سب نے توقیر کی بتائی گئی سائیڈ پر دیکھا تو وہاں واقعی میں ایک برا سا کھمبا سا دکھائی دیا جو کہ پہلے نہیں تھا ہم سب دوستوں کی نظریں اس کھمبے پر ٹکی ہوئی تھیں میں اس کھمبے کو دیکھتا ہوا تھوڑا آگے چلا گیا تو ایسا لگا کہ وہ کھمبا نہیں بلکہ کو بنا شاخوں کے کوئی درخت جیسا لگ رہا تھا جو کہ ہم سے کچھ ہی فاصلے پر تھا پر دھند کی وجہ سے وہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا اور میرے دوست بھی دور کھڑے اس کھمبے کی طرف دیکھ ہی رہے تھے میں اپنے دوستوں کی طرف آتے ہوئے ان کو اس درخت کے بارے میں بتانے ہی والا تھا کہ میری نظر اپنے دوستوں کی تعداد پر پڑی تو مجھے کچھ عجیب لگا میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے دوبارہ دیکھا تو مجھے ناصر عرفان بلو اور توقیر کے ساتھ کوئی اور بھی کھڑا ہوا دکھائی دیا جو کہ بلکل ان سے ایک قدم پیچھے کھڑا اس کھمبے کی طرف دیکھ رہا تھا میں یہ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ پانچواں بندا کون ہے جو ان کہ ساتھ کھڑا ہوا ہے کیونکہ دھند میں دور سے چہرے پہچانے نہیں جا رہے تھے میں نے وہی سے کھڑے ہو کر اپنے دوستوں کو آواز دی ابے یہ تمہارے ساتھ کون ہے جب میرے دوستوں نے اس بندے کی طرف دیکھا تو ان کے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ وہ کوئی نہیں تھا بلکہ میری شکل میں ہی ان کے ساتھ کھڑا ہوا تھا میں جلدی سے اپنے دوستوں کی طرف بڑھا اتنے میں اس پانچوے بندے نے ناصر کو گلے سے پکڑ لیا اور ایسے اوپر اٹھا لیا کہ جیسے ناصر کا کوئی وزن ہی نہ ہو میں نے بھاگتے ہوئے اس کو دھکا مارا جس سے وہ پانچواں بندہ گر گیا اور ناصر بھی اس کی پکڑ سے چھوٹ گیا توقیر نے جلدی سے ناصر کو اٹھا کر کھڑا کیا اتنے میں اس پانچوے بندے نے عرفان کو پکڑنا چاہا بلو نے آگے بڑھ کر اس بندے کے منہ پر تھپڑ مارنے کی کوشش کی تو اس نے بلو کو پکڑ لیا اور اس کو زمین پر لٹا کر اس کا گلا دبانے لگا توقیر نے بھی ہمت کر کے اس بندے کا ہاتھ پکڑ کر بلو کی گردن سے ہٹانا چاہا پر وہ بلو کو چھوڑ ہی نہیں رہا تھا میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس بندے کے منہ پر لات ماری تو اس نے بلو کو چھوڑ دیا اور میری طرف اٹھا کر آیا میں آرام سے پیچھے ہٹنے لگا وہ میری طرف غراتا ہوا بڑھ رہا تھا میں نے توقیر کو کہا ابے ادھر آؤ سالو یہ تمہارا باپ میرے پیچھے پڑھ گیا ہے بلو نے پتا نہیں کہاں سے اینٹ اٹھائی اور بھاگ کر اس کے سر پر دے ماری اور جیسے ہی اینٹ اس کے سر پر لگی تو اس نے اتنی خوفناک آواز نکالی کہ ہم سب میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا اتنے میں عرفان نے واپس دھوبی گھاٹ کی طرف بھاگتے ہوئے کہا وہ دیکھو وہ کیا ہے ہم نے جب اس کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف دیکھا تو وہ جسے ہم کھمبا یا درخت سمجھ رہے تھے وہ کوئی اور ہی چیز تھی جو ہماری طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی آرہی تھی اب ہم بے بس ہو چکے تھے کیونکہ اس پانچوے بندے سے لڑتے ہوئے ہمیں زرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا کیونکہ وہ ہماری طرح ہی نظر آرہا تھا اور وہ ایک رنگباز کے اعلاوہ ہمیں کچھ نہیں لگ رہا تھا لیکن وہ لمبی سی بلا کیا تھی اور وہ ہمیں کیا کر دیتی ہمیں نہیں پتا تھا ہماری تو اس کو دیکھتے ہی جان نکل رہی تھی جبکہ وہ ہمیں صاف دکھائی بھی نہیں دے رہی تھی بس ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی کھمبے نے بڑا سا کالے رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے اور وہ ہماری طرف آرہا ہے عرفان ڈرپوک ضرور تھا پر اس نے بھاگتے ہوئے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ اب کھڑے رہے تو مر جائیں گے اس وجہ سے ہم اس رات کلمے پڑھتے ہوئے ایسے وہاں سے بھاگے کہ اپنے گھر میں بھی بھاگ کر داخل ہوئے اور جیسے ہی ہم گھر پہنچے تو ہمیں ایسا بخار چڑھا کہ پانچ دن تک ہم میں سے کچھ لوگوں کو سہی سے ہوش بھی نہیں آرہا تھا جن میں سے میں بلو اور ناصر سرفہرست تھے باقی تو جلدی ہی ٹھیک ہو گئے تھے چھٹے دن جا کر ہماری طبیعت ٹھیک ہوئی اور ساتویں دن جب ہم لوگ اکٹھے ہوئے تو بلو نے کہا سنا بھئی رنگباز اب کیسا محسوس ہو رہا ہے میں نے کہا یار سب کچھ ٹھیک ہے پر میرے گال پر تھوڑی تھوڑی جلن سی ہو رہی ہے بلو نے کہا ابے تجھے تو اس پاگل کے بچے نے مارا ہی نہیں تھا تو پھر تیرے گال پر کیا ہوا ہے میں نے کہا یار مجھے اس رنگباز نے نہیں مارا بلکہ اس چنگڑ کی بچی نے تھپڑ مارا تھا جس کو میں شہزادی سمجھ کر ملنے گیا تھا ناصر نے کہا تو پھر وہ شہزادی کیسی تھی یہ تو بتایا نہیں تھا تونے ۔ میں نے اپنے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ابے کمینے اب تجھے میں کیا بتاؤں وہ شہزادی کم اور پہلوان زیادہ تھی سالی کا ہاتھ بہت بھاری تھا مجھے تو رات میں سورج نظر آنے لگا تھا توقیر نے کہا چل کوئی بات نہیں تو اس کے تھپڑ کو پیار کی نشانی ہی سمجھ لے ۔ توقیر کی یہ بات سن کر ہم سب خوب ہنسے اتنے میں عرفان نے کہا یار کاش ہم اس آدمی کی بات مان لیتے بلو نے کہا ہاں یار وہ بیچارہ سہی کہہ رہا تھا اور ہم اس کو ہی ٹھوکنے کے چکر میں پڑے ہوئے تھے ۔ توقیر نے کہا یار یہ بہت بڑا سبق ہے ہمارے لیئے کہ جب بھی کوئی بڑا کسی قسم کا کوئی رسک لینے سے منا کر تو ہمیں اس کی بات مان لینی چاہیے کیونکہ وہ ہمارے لیئے بہتر ہی سوچ رہا ہوتا ہے ۔ بلو نے کہا یار بات سو فیصد درست ہے لیکن زرا سوچو اگر ہم وہاں نہیں جاتے تو ہمارے اس دیمی رنگباز کو اس شہزادی کے پیار کی نشانی کیسے ملتی یہ کہتے ہوئے بلو اپنے گال پر ہاتھ لگا کر میری طرف دیکھ رہا تھا ۔ بلو کی بات پر ہم سب پھر سے زور زور سے ہنسنے لگے ... ختم شد
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں