سستا گھر اور شیطانی طاقت ۔ تیسرا حصہ
اتنے میں کیبل والے نے باہر سے کام ختم کر لیا تھا اور کاشف اسے گھر کے اندر لے آیا صحن میں لگے چار بلبوں میں ایک ہی بلب تھا جو کہ جل رہا تھا باقی کے تین بلب خراب ہو چکے تھے جسکی وجہ سے صحن کے کچھ حصے میں انھیرا تھا اتنے میں کیبل والے نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بھائی وہاں کا بلب بھی جلا دو کاشف نے کہا بھائی وہاں کا بلب خراب ہے ہم کل ہی تبدیل کر لیں گے کیونکہ آج تو سارا دن ہم سامان اٹھاتے ہوئے تھک گئے ہیں اس وجہ سے ان بلبوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی کیبل والے نے کہا چلیں کوئی بات نہیں میں اپنے موبائل سے ہی کام چلا لوں گا ۔ یہ کہہ کر کیبل والے نے صحن کے انھیرے حصے میں سیڑھی لگائی اور بیگ میں سے کچھ گٹیاں اور ہتھوڑی لے کر سیڑھی پر چڑھ گیا اور تار کو جگہ جگہ سے گٹیاں لگا کر دیوار پر فٹ کرنے لگا اور کاشف بھی اپنے موبائل کی لائٹ جلائے اس کے پاس کھڑا ہوا تھا اتنے میں آصف نے کاشف کو آواز دی اور کاشف نے کیبل والے کو کہا بھائی میں ابھی آتا ہوں کیبل والے نے کہا ہاں ہاں جائیں میں کر لوں گا کام اور کاشف آصف کی بات سننے کمرے میں گیا اور جب کاشف آصف کی بات سن کر واپس صحن میں آیا تو جیسے ہی کاشف نے کیبل والے کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے موبائل کی لائٹ جلا کر کیبل والے کی طرف دیکھا تو اچانک کاشف کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ کیبل والا سیڑھی پر چڑھا اپنے کام میں مصروف ہے اس کی سیڑھی کے پاس ایک بھیانک سی شکل والی کوئی عورت کھڑی تھی اور وہ کیبل والے کو دیکھ رہی تھی اس عورت کی شکل آدھی جانور جیسی لگ رہی تھی اور اس کے بال زمین پر لگ رہے تھے جیسے اس خوفناک عورت نے اپنا ہاتھ سیڑھی پر رکھا تو اس کے ہاتھ کو دیکھ کر کاشف کا پیشاب نکل گیا کیونکہ اس کے ہاتھ کی آٹھ انگلیاں تھیں اور بہت ہی لمبی اور تیڑھی میڑھی تھیں جس میں چیڑپھاڑ کرنے والے ناخن تھے اس عورت نے کاشف کی طرف دیکھا تو کاشف کی شلوار پوری طرح سے گیلی ہو چکی تھی لیکن اس کو دیکھ کر کاشف اسی جگہ کھڑا بری طرح کانپ رہا تھا یہاں تک کہ کاشف کے ہاتھ میں جو موبائل کی لائٹ بھی جل رہی تھی وہ بھی پوری طرح سے ہل رہی تھی لیکن کیبل والا پوری طرح سے ہر چیز سے بے خبر اپنا کام کر رہا تھا ۔۔
کاشف نے اپنے قدموں کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن نا تو کاشف سے آگے بڑا جا رہا تھا اور نہ پیچھے کی طرف جایا جا رہا تھا کاشف نے کیبل والے کو آواز دینی چاہی پر اس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس عورت نے کاشف کے جسم کو اپنے قابو میں کر لیا تھا کیونکہ وہ عورت مسلسل اپنا منہ کاشف کی طرف کر کے اپنی سرخ چمکتی ہوئی خوفناک آنکھوں سے کاشف کی طرف دیکھ رہی تھی اور کاشف بھی ایک جگہ جام ہوا اسے دیکھ کر کانپے جا رہا تھا جیسے ہی اس عورت نے کیبل والے کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی ٹانگ پکڑنے کے لیئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کاشف نے پوری طاقت سے کیبل والے کو کہا بھائی بچو ۔۔۔۔۔۔ کاشف کی آواز سنتے ہی کیبل والے نے کاشف کی طرف دیکھا تو اتنے میں اس عورت نے کیبل والے کی ٹانگ پکڑ کر اسے کھینچ کر جھٹکے سے نیچے گرا دیا اور جیسے ہی کیبل والا نیچے گرا اسی وقت پر آصف اور توصیف بھی بھاگ کر کاشف کے پاس آگئے اور وہ بھیانک عورت اسی وقت غائب ہو گئ آصف نے کہا کیا ہوا کاشف تم یہ کس پر چلائے ہو ؟؟ اتنے میں توصیف نے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آصف بھائی یہ دیکھو یہ تو بری طرح کانپ رہا ہے آصف نے جلدی سے کاشف کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کاشف کیا بات ہے بتاؤ جلدی ؟ کاشف نے بنا بولے ہی اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے کیبل والے کی طرف اشارہ کیا آصف نے کیبل والے کی طرف دیکھا تو وہ زمین پر لیٹا ہوا اپنی ایک ٹانگ کو پکڑ کر تڑپ رہا تھا آصف دوڑ کر کیبل والے کے پاس پہنچا اور اسے سہارا دے کر اٹھایا لیکن کیبل والے سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا وہ کہہ رہا تھا بھائی مجھے کہیں بیٹھا دو میری ٹانگ میں بہت درد ہو رہا ہے آصف نے پر بھائی یہ ہوا کیسے کیبل والے نے مشکل سے بولتے ہوئے کہا بھائی پتا نہیں میں تو اپنا کام کر رہا تھا اتنے میں کاشف بھائی نے چیخ کی کہا بچو اور اسی وقت کسی نے مجھے ٹانگ سے کھینچ کر گرا دیا لیکن جب میں گرا تو میرے آس پاس کوئی نہیں تھا ۔ آصف نے کہا بھائی ہمت رکھو کچھ نہیں ہوگا تمہیں تم چلو میرے ساتھ اور پھر آصف نے توصیف کو آواز دیتے ہوئے کہا توصیف کاشف کو بھی اندر لے کر چلو اس کے بعد سب کمرے میں چلے گئے اور آصف نے جلدی سے کیبل والے کی ٹانگ سے اس کی شلوار کا پاؤنچا اوپر اٹھاتے ہوئے اس کی ٹانگ کو دیکھا تو اس کی ٹخنے پر چوٹ لگی ہوئی تھی جو کہ سوجا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے ٹخنے کے پاس سے گوشت (ماس ) اندر سے پھٹ گیا تھا اور اس کے ٹخنے سے تھوڑا سا اوپر اس کی ٹانگ پر انگلیوں کے نشان تھے جیسے کسی نے اس کی ٹانگ کو دبا کر پکڑا ہو۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف یہ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اتنے میں توصیف نے کہا آصف بھائی یہ کاشف کو دیکھو اس کو اچانک بہت بخار چڑھ گیا ہے ۔ آصف نے جیسے ہی کاشف کی طرف دیکھا تو وہ بھی صوفے پر لیٹا ہوا تھا اور اس کی ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں اور جوتے پہننے ہوئے تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بیٹھے ہوئے ہی لیٹ گیا ہو آصف کیبل والے کے پاس سے اٹھا اور کاشف کو جا کر دیکھنے لگا کاشف کی آنکھیں بند ہو چکی تھی آصف نے فوراً کاشف کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس کا ماتھا پوری طرح سے تپ رہا تھا اور کاشف لیٹے ہوئے ہی کانپ رہا تھا آصف نے کہا کاشف کیا ہو رہا ہے سردی لگ رہی ہے کیا ؟؟ تو کاشف نے کانپتی ہوئی گردن ہلکے سے ہاں میں ہلا دی۔ اتنے میں آصف کاشف کے جوتے اتارنے لگا تو اس کی نظر اس کی گیلی شلوار پر پڑی تو آصف نے توصیف کو کہا یار ایسا لگ رہا ہے جیسے اس کا پیشاب بیچ میں ہی نکل گیا ہے تم جلدی سے اس کے جوتے اتار کر اسے سہی سے لیٹا دو اور اس کی شلوار کو بدلو یا اس پر کوئی کمبل لا کر ڈالو اور اس کی گیلی شلوار اتار کر دھونے والے کپڑوں میں پھینک دو ۔
میں جلدی سے کسی ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں اور ہاں رخسانہ اور بچوں کو اس کمرے میں نا آنے دینا ۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی ۔ آصف نے جلدی سے اپنے بائیک نکالی اور ڈاکٹر کو لینے چلا گیا ۔ اس دوران توصیف نے ایک چادر لا کر کاشف پر ڈالی اور اس کی گیلی شلوار اتار کر باہر واشنگ مشین کے پاس پھینک آیا اور ایک پانی کا گلاس لا کر کیبل والے کو دیتے ہوئے کہا یہ لو بھائی پانی پی لو کیبل والے نے پانی کے دو گھونٹ پیے اور گلاس واپس توصیف کو دیتے ہوئے کہا یہ کاشف بھائی کو کیا ہوا ہے ابھی کچھ دیر پہلے تو ٹھیک تھے ؟ توصیف نے کہا ہاں اسے اچانک بخار چڑھ گیا ہے۔ تحریر دیمی ولف ۔ کیبل والے نے کہا توصیف بھائی مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی جب میں گرا تھا تو مجھے ایسے لگا تھا کہ مجھے کسی نے ٹانگ سے پکڑ کر گرایا ہے لیکن وہ تو کوئی تھا ہی نہیں یہ کیا چکر ہے ؟؟ توصیف نے کہا بھائی آپ کو واقعی میں نہیں پتا کہ آپ کو کس نے گرایا ؟؟ کیبل والے نے کہا نہیں بھائی میں نے کسی کو نہیں دیکھا شاید وہاں اندھیرا تھا جو کہ میں کسی کو دیکھ نہیں سکا لیکن جیسے کاشف بھائی نے مجھے زور دار آواز میں کہا تھا کہ بچو تو مجھے لگتا ہے کہ شاید انہوں نے کسی کو دیکھا ہو گا پر وہ کون ہو سکتا ہے جو اتنی جلدی وہاں سے چلا گیا ؟ توصیف حیرت سے کیبل والے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا بھائی کیا تم اس گھر کے بارے میں کچھ جانتے ہو ؟؟ تو کیبل والے نے کہا نہیں بھائی میں تو ابھی ڈیڑھ ماہ پہلے اس علاقے میں کام کرنے آیا ہوں اس وجہ سے میں ابھی بہت کم لوگوں کو جانتا ہوں یہاں ۔ توصیف نے کہا ہمارا بھی آج یہاں پہلا دن ہے کیبل والے کہاں ہاں بتایا تھا کاشف بھائی نے ۔ توصیف نے کہا ویسے آپ کا کتنا کام باقی تھا جب آپ گرے تھے کیبل والے نے کہا باہر سے تو میں نے کنیکشن کر دیا تھا اب بس اندر سے تار کو دیوار کے ساتھ ساتھ لگا کر آپ کے ٹی وی لانج تک لے کر جانا تھا اور پھر ٹی وی کے پیچھے تار لگا کر ٹیون کرنی تھی بس یہی کام تھا ۔ توصیف نے کہا اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم ایسے ہی تار ٹی وی کے پیچھے لگا کر ٹیون کر لیں تو کیا کیبل آرہی ہو گی اس تار میں ؟؟ کیبل والے نے کہا ہاں کنیکشن جو ہو گیا ہے اب صرف تار ہی لگنی ٹی وی کے پیچھے ۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے اس کا مطلب آج رات ہم ٹی وی پروگرام دیکھ سکتے ہیں پھر ؟ کیبل والے نے کہا ہاں ضرور ۔ ابھی توصیف نے کیبل والے کو اپنی باتوں میں لگا کر رکھا ہی ہوا تھا کہ اچانک باہر صحن سے سیڑھی گھسیٹنے کی آواز سنائی دی ۔ کیبل والے نے کہا بھائی یہ سیڑھی کو کون چھیڑ رہا ہے دیکھنا زرا توصیف نے کہا اچھا میں دیکھ کر آتا ہوں یہ کہہ کر توصیف باہر صحن میں گیا تو ہکا بکا رہ گیا کیونکہ کوئی سیڑھی کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے دوسری دیوار تک لے کر جارہا تھا کر نظر نہیں آرہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سیڑھی خود ہی سرکتی ہوئی دیوار کی طرف جا رہی ہے ۔ توصیف فوراً پلٹ کر کیبل والے کے پاس آکر بیٹھ گیا کیبل والے نے آہ نکلالتے اپنی ٹانگ کو دباتے ہوئے توصیف کی طرف دیکھا اور پوچھا بھائی کو چھیڑ رہا تھا سیڑھی کو ؟ توصیف کبھی کیبل والے کی طرف دیکھتا تو کبھی باہر صحن کی طرف دیکھتا ہوا بولا کوئی نہیں وہ بچے تھے میں نے منا کر دیا ہے اب نہیں چھیڑتے ۔ اتنے میں آصف ڈاکٹر کو لے کر گھر کے باہر آگیا آصف نے جلدی سے بائیک سے اتر کر دروازا کھولا اور ڈاکٹر کو کہا آجائیں ڈاکٹر صاحب ۔ یہ کہتے ہوئے آصف گھر میں داخل ہوا اور اس کے ساتھ ڈاکٹر بھی گھر میں داخل ہو گیا اور جیسے ہی ڈاکٹر اور آصف کمرے کی طرف جانے لگے تو تبھی آصف نے کہا ایک منٹ ڈاکٹر صاحب میں زرا بائیک بھی اندر کرلوں رات کا ٹائم ہے کو لے کر ہی نا چلا جائے ڈاکٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ہاں ہاں رسک نہیں لینا چاہیئے لے آؤ بائیک ۔ آصف نے مین گیٹ کھولا اور بائیک لے کر اندر آنے لگا تو اسی دوران ڈاکٹر صاحب کی نظر صحن میں ایک دیوار پر پڑی جہاں کوئی عورت دیوار پر بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس کا منہ باہر والی سائیڈ پر تھا اور ڈاکٹر کو اس کی کمر ہی نظر آرہی تھی آصف نے جیسے ہی بائیک اندر کی تو ڈاکٹر نے اس عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آصف سے کہا وہ لیڈی کون ہیں جو دیوار پر بیٹھی ہوئی ہیں کیا وہ نارمل نہیں ہیں جو اس وقت اتنی اونچائی پر بیٹھی ہوئی ہیں ؟؟ جیسے ہی آصف نے اس عورت کی طرف دیکھا تو آصف کے رونگٹے کھڑے ہو گئے آصف نے کہا ڈاکٹر جلدی کمرے میں چلیں ڈاکٹر نے کہا ارے انہیں اتار تو لیں وہ گر سکتیں ہیں وہاں سے آصف نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ اور اسے کمرے میں لے گیا اور کمرے میں جاتے ہی آصف نے کاشف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب پہلے میرے بھائی کو دیکھیں اس کو بہت تیز بخار ہے ڈاکٹر نے کاشف کا اچھے سے چیکپ کیا پھر کچھ دوائیاں دیتے ہوئے آصف کو کہا یہ دوائی اس کو تین ٹائم دیتے رہنا ٹھیک ہو جائے گا ۔
پھر آصف نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ کیبل والے کو بھی چیک کر لیں یہ سیڑھی سے گر گیا ہے اس کا ٹخنہ سوجا ہوا ہے ڈاکٹر نے کیبل والے کو بھی چیک کیا تبھی ڈاکٹر کی نظر اس کی ٹانگ پر لگے انگلیوں کے نشان پر پڑی تو ڈاکٹر نے کہا یہ کیسے نشان ہیں آصف نے جلدی سے کہا کچھ نہیں ڈاکٹر صاحب یہ ٹانگ کو دبا رہا تھا تو اس کی انگلیوں کے نشان ہیں ۔ تحریر دیمی ولف ۔یہ سن کر کیبل والا حیرت سے کبھی ان نشانوں کو دیکھتا تو کبھی آصف کی طرف دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر نے کہا اس کی ہڈی بچ گئی ہے بس اندرونی چوٹ ہے ابھی فلحال میں اس کو پین کلر انجیکشن لگا دیتا ہوں اور اس کے ٹخنے پر پٹی کر دیتا ہوں لیکن اس کو صبح پھر سے چیک کروانا پڑے گا یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے ایک انجیکشن کیبل والے کو لگایا اور اس کے ٹخنے پر پٹی کرتے ہوئے بولا اس کو کوئی چھڑی دے دینا کیونکہ ابھی اس پاؤں پر زیادہ وزن نہیں ڈالنا ورنہ سوج اور بڑھ جائے گی آصف نے کہا جی جی ٹھیک ہے اس کے بعد آصف نے ڈاکٹر کو فیس دی اور توصیف سے کہا تم ایسا کرو کہ کیبل والے کو بھی میرے ساتھ بائیک پر بیٹھا دو ڈاکٹر صاحب آپ بھی میرے ساتھ بیٹھ جائیں گے نا اس وقت مجبوری ہے اس وجہ سے آپ دونوں کو ایک ساتھ چھوڑنے جانا پڑ رہا ہے ڈاکٹر نے کہا ہاں ہاں تین لوگ بھی بیٹھتے ہیں بائیک پر کوئی مسلہ نہیں ہے اس کے بعد آصف اور ڈاکٹر کمرے سے باہر آئے تو ڈاکٹر نے نے اسی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے وہ لیڈی کہاں گئی آصف نے کہا ڈاکٹر صاحب اس کے بارے میں میں آپ کو پھر کبھی بتاؤں گا فلحال آپ بیٹھیں بائیک پر ڈاکٹر نے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے یہ کہہ کر ڈاکٹر بائیک پر بیٹھ گیا اور توصیف کیبل والے کو بھی سہارا دیتے ہوئے لے آیا اور اسے بھی بائیک پر بیٹھا دیا اور کیبل والے سے کہا بھائی آپ کا سامان میں صبح آپ کے آفس میں پہنچا دونگا کیبل والے نے کہا جی جی کوئی بات نہیں سامان کی خیر ہے ۔پھر آصف نے توصیف کو کہا رخسانہ اور بچوں کو بھی کاشف کے کمرے میں رکھنا اور امی کو بھی دیکھتے رہنا میں بھی ان کو چھوڑ کر آتا ہوں اور کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہی رکھنا توصیف نے کہا جی ٹھیک ہے بھائی ۔ اس کے بعد آصف ڈاکٹر اور کیبل والے کو چھوڑنے چلا گیا اور توصیف نے ٹی وی لاونج میں جا کر رخسانہ اور بچوں کو کہا چلو بھئی سب لوگ ساتھ والے کمرے میں چلو کاشف کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آصف بھائی نے کہا ہے جب تک میں نا آؤں سب لوگ کاشف کے کمرے میں رہو رخسانہ نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا ہے کاشف کو ؟؟ اور عظیم کے ابو کہاں گئے ہیں توصیف نے کہا وہ ڈاکٹر صاحب کو چھوڑنے گئے ہیں ۔ رخسانہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے حیرانی سے کہا ہم تو یہاں کیبل کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور میں یہ سمجھ رہی تھی آپ سب لوگ کیبل والے کے ساتھ کیبل لگوا رہے ہو۔ تحریر دیمی ولف ۔ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور لگ رہا ہے مجھے کچھ تو بتاؤ توصیف بھائی ؟؟ توصیف نے کہا بھابی ابھی ان باتوں کا وقت نہیں ہے ابھی آپ سب چلو کاشف اکیلا لیٹا ہوا ہے رخسانہ نے کہا پر امی تو یہاں لیٹی ہوئی ہیں توصیف نے کہا ان کو میں دیکھتا رہوں گا آپ لوگ جائیں کاشف کے پاس جلدی ۔۔ رخسانہ بچوں کو لے کر کاشف کے پاس چلی گئی اور توصیف بھی ان کے پاس آیا اور رخسانہ کو کہا بھابی آپ کاشف کے پاس ہی رہنا اور میں امی کے پاس جا رہا ہوں آپ دروازا اندر سے بند کر لیں جب تک میں یا آصف بھائی نا آئیں دروازا مت کھولنا اور یہ کھڑکی بھی بند کر لیں رخسانہ نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے ۔ اس کے بعد توصیف واپس اپنی امی کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد توصیف اٹھا اور جو کیبل کی تار زمین پر بکھری پڑی تھی وہ اٹھا کر ٹی وی لانج میں لے آیا اور تار کو دروازے کے نیچے سے گزار کر ٹی وی لانج کا دروازا بند کر لیا پھر اس تار کو کھینچ کر ٹی وی تک لے گیا اور ٹی وی پر لگا دیا اور پھر ٹی وی چلا کر ٹیون کی تو چینل آگئے پھر توصیف بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا اتنے میں کیبل کی تار ہلنے لگی جیسے کوئی تار سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے کیونکہ آدھی سے زیادہ تار ابھی زمین پر ہی گری ہوئی تھی جسے توصیف نے آرضی طور پر ٹی وی میں لگایا ہوا تھا ابھی توصیف تار کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں تار کو کوئی کمرے کے باہر سے آہستہ آہستہ سے کھینچنے لگا توصیف نے جلدی سے اٹھ کر تار کو پکڑ لیا لیکن پھر بھی کوئی تار کو مسلسل کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا توصیف نے تار نہیں چھوڑی پر اس دوران توصیف کے پسینے چھوٹ رہے تھے اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اور وہ ڈرنے لگا پھر اچانک تار اک دم سے ڈھیلی پڑ گئی جیسے کھینچنے والے نے چھوڑ دی ہو توصیف تار پکڑے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اور بری طرح کانپ رہا تھا پھر توصیف نے تار کو چھوڑ دیا اور دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ہی اپنا کانپتا ہوا ہاتھ جیب میں ڈالا اور جیب سے موبائل نکال کر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے آصف کو کال کی اور جیسے ہی آصف نے کال اٹھائی تو توصیف نے دبی ہوئی آواز میں کہا بھائی کہاں رہ گئے ہو آصف نے کہا میں بس گھر پہنچے ہی والا ہوں کیوں سب خیریت ہے نا کچھ ہوا تو نہیں ؟؟ توصیف نے کہا بھائی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے گھر میں کوئی ہے جو تنگ کر رہا ہے آصف نے کہا تم سب لوگ ایک ہی جگہ پر ہو نا ؟؟ توصیف نے کہا بھائی بھابی اور بچے کاشف کے پاس ہیں اور میں یہاں ٹی وی لانج میں ہوں امی سوئی ہوئی تھیں یہاں تو میں ان کے پاس رک گیا ۔
آصف نے کہا اچھا میں بس پہنچ ہی گیا ہوں تم فون بند کرو اور وہی بیٹھے رہو توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی ۔ یہ کہہ کر توصیف نے کال کاٹ دی اور اپنی امی کی چارپائی کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور آصف کا انتظار کرنے لگا اتنے میں ٹی وی لانج کے دروازے پر دستک ہوئی توصیف اچانک سے پھر چونک گیا اور وہیں بیٹھا ہوا دروازے کی طرف دیکھنے لگا پھر دوبارہ دستک ہوئی لیکن توصیف وہیں سمٹ کر بیٹھا رہا ۔ تبھی باہر کے گیٹ کے کھلنے کی آواز سنائی دی اور توصیف کی جان میں جان آئی توصیف جلدی سے اٹھا اور آہستہ آہستہ سے چلتا ہوا کمرے کی کھڑکی کے پاس گیا کھڑکی کو ہلکا سا کھول کر باہر صحن میں دیکھا تو آصف بائیک کھڑی کر رہا تھا توصیف نے پوری کھڑکی کھول دی اور آصف کو آواز دی آصف نے کہا وہیں رکو میں آرہا ہوں توصیف نے جلدی سے کمرے کا دروازا کھولا اور آصف اندر آگیا اور توصیف سے کہنے لگا کیا ہوا تھا توصیف ؟؟ توصیف اپنے ساتھ ہوئے واقعات سے آصف کو آگاہ کیا تو آصف نے کہا یار میں صبح ہی کسی مولوی یا پیر صاحب سے بات کروں گا اس بارے میں ۔ توصیف نے کہا بھائی ہم یہ گھر چھوڑ دیتے ہیں اور سکندر صاحب سے اپنے پیسے واپس لے لیتے ہیں ؟؟ آصف نے کہا ارے کیا بیوقوفوں والی بات کر رہے ہو اب بھلا کیا سکندر صاحب ہمارے پیسے واپس دینگے کبھی نہیں کیونکہ انہوں نے اسٹام پیپر پر سب لکھوا لیا ہے اور اس پر میں نے دستخط بھی کر دیئے ہیں اس میں صاف لکھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہمیں ہمارے پیسے واپس نہیں دینگے تم نے بھی تو اسٹام پڑھا تھا نا ؟؟ توصیف نے کہا ہاں بھائی پر کیا ہم ایک بار ان سے پوچھ نہیں سکتے ؟؟ آصف نے کہا ابھی پوچھ لیتا ہوں یہ کہہ کر آصف نے فون نکالا اور صفیان کو کال کی صفیان نے کال اٹھائی اور آصف نے کہا صفیان بھائی ہم یہ گھر واپس دینا چاہتے ہیں تو کیا کچھ پیسے کاٹ کے آپ ہمیں باقی کے پیسے دلوا سکتے ہیں صفیان نے کہا ارے آصف بھائی اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ سکندر صاحب نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو ایک بار مکان کا سودا ہو گیا تو پیسے کسی صورت میں واپس نہیں ہونگے ۔ آصف نے کہا بھائی چلیں پانچ لاکھ کم دے دینا صفیان نے کہا آصف بھائی میرے بس میں ہوتا تو میں کر لیتا لیکن سکندر صاحب نے وہ پیسوں سے اسی وقت میرے سے پلاٹ خرید لیا تھا اس وجہ سے اب ان پیسوں کو آپ بھول ہی جائیں ہاں میں دیکھتا رہوں گا اگر کسی اور نے یہ گھر خریدنا ہوا تو اسے آپ کے پاس لے آؤں گا فلحال میں اس بارے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔آصف نے کہا چلیں ٹھیک ہے پر صفیان بھائی ذہن میں رکھنا اگر کوئی شخص یہ گھر لینا چاہے تو ۔ ڈیلر نے کہا ہاں ہاں ضرور میں پوری کوشش کروں گا ۔ یہ کہہ کر ڈیلر نے فون کاٹ دیا ۔
پھر آصف نے توصیف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہو گئی تسلی ؟؟ توصیف نے کہا پر بھائی اب ہم کیا کریں گے آصف نے کہا ارے تم فکر نہیں کرو میں نے کہا نا صبح ہی کچھ کرتا ہوں ۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی ۔ اس کے بعد آصف نے کہا چلو بچوں اور کاشف کو بھی یہاں لے آتے ہیں اور آج رات ہم سب یہی سوئیں گے تاکہ کسی کو بھی ڈر نہ لگے توصیف نے کہا جی ٹھیک ہے بھائی ۔ یہ کہہ کر دونوں بھائی رخسانہ کے پاس چلے گئے اور جیسے ہی رخسانہ نے دروازا کھولا تو رخسانہ دوڑ کر آصف سے لپٹ گئی اور رونے لگی آصف نے اپنے دونوں ہاتھوں سے رخسانہ کو آہستہ سے اپنے سے دور کرتے ہوئے حیرانی سے پوچھا ارے کیا بات ہے رخسانہ تم رو کیوں رہی ہو ؟؟ توصیف بھی بولا بھابی کیا ہوا سب خیریت تو ہے یہ کہتے ہوئے توصیف بچوں کی طرف بڑھا اور بچوں کو دیکھنے لگا تو بچے سوئے ہوئے تھے اور کاشف بھی اسی جگہ سویا ہوا تھا اتنے میں آصف نے اپنے ہاتھ سے رخسانہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اچھا اب آرام سے بتاؤ آخر بات کیا ہے کیوں رو رہی ہو ؟؟ رخسانہ نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا ۔ میں جب بچوں کو سلا رہی تھی تو کوئی دروازے پر آکر خوفناک سی آوازیں نکال رہا تھا اور دروازے پر دستک دے رہا تھا میں بہت بری طرح ڈر گئی تھی اور بچے بھی سہم کر سو گئے تھے کبھی یہ بیکیارڈ کا دروازا زور زور سے ہل رہا تھا تو کبھی سامنے کے دروازے پر دستک ہو رہی تھی اس وجہ سے میں ڈر کر خاموشی سے رو رہی تھی آج کی رات تو بہت ہی تکلیف دے ہے ہم یہ کس گھر میں آگئے ہیں آصف نے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا میں صبح کسی مولوی صاحب کو لے کر آؤں گا اور وہ سب ٹھیک کر دیں گے تم بس حوصلہ رکھو۔ تحریر دیمی ولف ۔ اتنے کاشف کو ہوش آنے لگا اور اس نے بولا پانی دو بھائی ؟؟ مجھے پیاس لگی ہے رخسانہ اپنے دوپٹے سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے اٹھی اور پانی کا گلاس لے کر کاشف کو دیا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اب بخار کم لگ رہا ہے ۔ آصف نے کہا چلو پھر سب لوگ امی کے پاس چلتے ہیں رخسانہ تم بچوں کو جگا کر امی کے پاس لے چلو ہم سب وہیں سوئیں گے اور میں توصیف کے ساتھ مل کر کاشف کو لے کر جاتا ہوں اتنے توصیف نے کاشف کو جگایا اور آصف کی مدد سے کاشف کو سہارا دیتے ہوئے ٹی وی لانج میں چلے گئے اور جب ٹی وی لانج میں آگئے تو آصف نے دروازا اندر سے بند کر لیا اور سب اپنی اپنی جگہ بنا کر لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کرنے لگے بچے تو جاتے ہی سو گئے تھے اور آصف نے رخسانہ سے کہا کیا کاشف کو دوا کھلائی تھی رخسانہ نے کہا ہاں ۔ آصف نے کہا رخسانہ پتا ہے کاشف کی طبیعت بھی کسی شیطانی چیز کو دیکھ کر خراب ہوئی تھی اور وہ جو کیبل والا کیبل لگانے آیا تھا نا اس کو بھی کسی چیز نے سیڑھی سے گرا دیا تھا جس سے اس کے پاؤں میں چوٹ لگی تھی اسی لیئے میں ڈاکٹر کو لینے گیا تھا اور پھر اس کو واپس چھوڑنے گیا تھا تبھی ان چیزوں نے تمہیں ڈرایا تھا ۔ رخسانہ نے کہا ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے جو یہ ہمیں تنگ کر رہی ہیں آصف نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا پر ان سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے ۔ لیکن میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری کنجوسی اور لالچ کی وجہ سے میں نے تم سب کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور اب میں خود بھی بہت پچھتا رہا ہوں ۔ رخسانہ نے کہا تو کیا ہم یہ گھر ان کو واپس نہیں کر سکتے جن سے یہ لیا ہے ۔ آصف نے کہا نہیں کیونکہ میں یہ کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں
.............................
............................
............................
0 تبصرے