پسینے میں شرابور عبدالغفور نے پرانا عمارتی سامان بیچنے والی دکان پر سائیکل کو بریک لگائے؛ اس کی اکھڑی ہوئی سانس سے اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ وہ طویل مسافت طے کر کے آیا ہے؛ سائیکل سے اُترتے ہی اس نے دکاندار کو تیس روپے دیتے ہوئے دس پرانی اینٹیں طلب کیں؛ دکاندار اپنے ملازم سے اینٹیں دینے کا کہہ کر خود اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
عبدالغفور نے اینٹیں احتیاط سے کیرئیر کے ساتھ باندھیں اور سائیکل کو گھسیٹتا ہوا پیدل ہی روانہ ہوگیا۔
دکاندار اچانک کسی خیال سے چونکا اور اخبار ایک طرف رکھ کر عبدالغفور کو جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ شخص جو ایک عرصہ سے ہر دوسرے تیسرے دن دس اینٹیں خرید کر لے جاتا ہے ان کا کیا کرتا ہوگا؟
اتفاق سے اگلے ہی دن عبدالغفور اس کی دکان پر دس اینٹیں خریدنے کیلئے آ گیا؛ دکاندار کے تجسس نے اس سے سوال کرنے پر مجبور کر دیا؛ اس نے عبدالغفور کو بیٹھنے کیلئے اور ملازم لڑکے کو چائے لانے کیلئے کہا؛ عبدالغفور اس عزت افزائی پر حیران ہوتے ہوئے قریب ہی پڑے موہڑے پر بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے دکاندار کو دیکھنے لگا؛ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دکان دار نے گفتگو کا آغاز کیا:
”اگر برا نہ مانو تو میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو تم ہر دوسرے تیسرے دن دس اینٹیں لے جاتے ہو ان کا کیا کرتے ہو؟“
عبدالغفور نے ذرا سے توقف کے بعد جھجکتے ہوئے جواب دیا:
”مجھے دراصل پندرہ سو اینٹوں کی ضرورت ہے جو میں اکٹھی خریدنے کے قابل نہیں ہوں؛ دیہاڑی دار مزدور ہوں، کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں، جس دن کام مل جاتا ہے اس دن میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کچھ اینٹیں خرید کر جمع کر لوں۔
“
”پندرہ سو اینٹیں کس مقصد کیلئے اکٹھی کر رہے ہو؟“
”گھر کے صحن کی دیواریں اونچی کر کے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر عمل کرنے کیلئے۔“
”وہ مبارک نصیحت کیا ہے؟“
”ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اس کا اچھا بھلا کاروبار کچھ عرصے سے انتہائی مندے کا شکار ہو گیا ہے؛ تنگدستی کی وجہ سے دو وقت کی روٹی پوری کرنے کیلئے اُدھار کی نوبت آگئی ہے؛ نبی پاک نے اس شخص کی باتیں ہمدردی کے ساتھ سننے کے بعد مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن کی دیواریں اونچی کر لے، سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ؛ وہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید کوئی سوال کیے بغیر رخصت ہو گیا؛ کچھ ہی دن بعد اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر انتہائی مسرت بھرے لہجے میں بتایا کہ اس کا کاروبار چمک اٹھا ہے اور الحمدللہ قرض بھی اُتارنے کے قابل ہو گیا ہے؛ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ صحن کی دیواروں کا رزق میں تنگی سے کیا تعلق تھا؛ نبی اکرم نے مسکراتے ہوئے اُسے سمجھایا کہ اُس کی گلی سے ایک یہودی گھوڑے پر سوار ہو کر گزرتا تھا؛ دیواریں چھوٹی ہونے کی وجہ سے صحن میں کام کاج کرتی اس کی بیوی پر یہودی کی نظریں پڑتی تھیں؛ اسی بے پردگی کی وجہ سے رزق میں تنگی آ رہی تھی؛ دیواریں اونچی ہونے سے بے پردگی ختم ہوگئی اور رزق میں برکت آ گئی۔
“
سبحان اللہ!!! دکاندار کے منہ سے بے ساختہ نکلا
”قصبے کے آخر میں برگد والی گلی میں میری ایک چھوٹی سی کھولی ہے۔ عبدالغفور نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ جہاں میں اپنی آٹھ اور سات سالہ دو بیٹیوں کے ساتھ رہتا ہوں؛ صحن کی دیواریں نہ ہونے کے برابر ہیں؛ میری کوشش ہے کہ اس سے پہلے کہ بیٹیاں بڑی ہوں صحن کی دیواریں مکمل کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کر لوں تاکہ بے پردگی کی نحوست سے بچا رہوں بہت نیک جزبہ ہے؛ کتنی اینٹیں حمع کر چکے ہو اب تک؟
عبدالغفور نے اُنگلیوں پر حساب لگا کر بتایاکہ تین سو سے کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہیں۔
چائے آ گئی تھی؛ دکاندار نے چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے سرگوشی کی: ”تم فکر نہ کرو؛ تمہارے صحن کی دیواریں مَیں مکمل کروا دوں گا۔“
”جی آپ؟“
”مجھے امید ہے کہ تم مجھے اس نیک کام سے نہیں روکو گے؛ اور میری یہ بھی خواہش ہے کہ تم میری دکان پر مستقل ملازم کی حیثیت سے کام کرو۔“ عبدالغفور کی آنکھوں میں نمی تیر گئی؛ وہ غیر ارادی طور پر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ..
رب تعالیٰ کتنا کریم ہے کہ نیک کام کے ارادے پر ہی اپنے بندے پر عنایات کے دروازے کھول دیتا ہے۔“
0 تبصرے