سستا گھر اور شیطانی طاقت پارٹ نمبر 2
لیکن جب مجھے صفیان نے بتایا کہ آپ لوگ وہ گھر لینے کا رسک لے رہے ہو تو میں نے اس وجہ سے تمہیں یہاں بلایا ہے کہ آپ لوگوں سے دو ٹوک بات کر سکوں کیونکہ اگر آپ لوگ وہ گھر خرید لیتے ہو تو اس کے بعد آپ لوگ اپنے نفع نقصان کے زمعدار خود ہی ہو گے اور آپ لوگ کسی بھی وجہ سے دوبارہ مجھے وہ گھر واپس نہیں کر سکو گے تو میں بھی صفیان کی طرح آپ لوگوں سے آخری بار پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگ واقعی میں وہ گھر خریدنا چاہتے ہیں ؟؟ آصف نے کہا جی ہاں بلکل ہم وہ گھر لینا چاہتے ہیں پر آپ اس کی مناسب قیمت لگائیں ۔ سکندر صاحب نے کہا دیکھو میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ اس گھر پر لگایا ہوا تمام پیسہ میرے لیئے برباد ہے اور ایسے میں اگر آپ لوگ اس گھر کو خریدنے ائے ہو تو یہ میرے لیئے بہت خوشی کی خبر ہے اب میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ اس گھر کو کتنے میں خرید سکتے ہیں ؟؟ کیونکہ نہ تو میں آپ سے کوئی پرافٹ کی بات کر رہا ہوں اور نا ہی میں اس پر لگائے ہوئے پیسے کی وصولی کی بات کر رہا ہوں تحریر دیمی ولف۔ تو اس وجہ سے آپ لوگ مجھے خود ہی بتا دیں کہ اس گھر کے آپ مجھے کتنے پیسے دو گے ؟؟ آصف نے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا جی ہم اس گھر کے آپ کو چالیس لاکھ روپے تک دے سکتے ہیں اس کے اعلاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ۔ آصف کی یہ بات سن کر توصیف اور کاشف تھوڑا غصے میں آصف کی طرف دیکھنے لگے کیونکہ توصیف اور کاشف کے حساب سے آصف نے بہت ہی کم قیمت لگا دی تھی اور ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اب سکندر صاحب آصف کو کھری کھری سنائیں گے اور یہ گھر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا گا ۔ لیکن سکندر صاحب نے آصف کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولے بس اتنا ہی ؟؟ آصف نے کہا جی سکندر صاحب اس دوران توصیف نے آصف کے بازو پر چٹکی کاٹتے ہوئے سرگوشی میں کہا بھائی پیسے بڑھاؤ آصف نے توصیف کو کوہنی مارتے ہوئے کہا ہلکے سے کہا تم چپ رہو۔
اس دوران سکندر صاحب بھی آصف اور اس کے بھائیوں کے بیچ چلتی اس تکرار پر غور کر رہے تھے آصف اپنے دانت کو دبائے ہوئے اپنے بھائیوں سے غصے میں کہہ رہا تھا جب میں بات کر رہا ہوں تو تم بیچ میں اپنی ٹانگیں کیوں اڑا رہے ہو۔ اتنے میں سکندر صاحب نے کہا اب تم لوگ آپ میں لڑنا بند کرو اور میری بات سنو میں پچاس لاکھ میں تمہیں وہ گھر دے دیتا ہوں بولو کیا کہتے ہو ۔
آصف نے عجیب سا منہ بنا کر کہا سکندر صاحب آپ ماشااللہ سمجھدار انسان ہیں آپ کو یہ کیوں نہیں لگ رہا کہ ہم وہ گھر چالیس لاکھ میں آپ سے لے کر آپ کی مدد ہی کر رہے ہیں ورنہ تو آپ کے پیسے ڈوبے ہی ہوئے ہیں اور کون ایسا ہے جو کہ چالیس لاکھ بھی خرچے گا اور موت کے سائے میں میں بھی رہے گا اس وجہ سے چالیس لاکھ بھی بہت زیادہ ہیں اس گھر کے لیئے ۔ آصف کی یہ باتیں سن کر توصیف اور کاشف بڑی حیرانی سے آصف کی طرف دیکھ رہے تھے اور جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر آصف بھائی ایسا کیوں کہہ رہے ہیں وہ کبھی آصف کی طرف دیکھتے اور کبھی سکندر صاحب کی طرف دیکھتے پھر سکندر صاحب نے کہا اچھا تو چلو پینتالیس لاکھ کر لیتے ہیں جاؤ تم بھی کیا یاد کرو گے ۔ آصف ہنسے لگا اور بولا سکندر صاحب میرا فیصلہ اٹل ہے چالیس لاکھ سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہیں دونگا میں اگر سمجھ میں آتا ہے تو بتا دیں ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے آپ کا گھر ہے آپ چاہے جس کو مرضی بیچیں۔ تحریر دیمی ولف ۔ یہ کہہ کر آصف نے اپنے بھائیوں کو کہا چلو بھائیوں چلیں تو توصیف نے آصف کی طرف غصے سے دیکھا اور بولا بھائی ہم دونوں نے آپ کو تیس لاکھ دیئے ہیں تو آپ بھی تو اپنے پندرہ لاکھ ڈال کر وہ گھر لے لو کیونکہ بنی بنائی بات کو بگاڑ کر جا رہے ہو ؟؟ آصف نے کہا میں جو کر رہا ہوں سہی کر رہا ہوں اب تم لوگ چلو یہاں سے ۔ آصف کی یہ بات سن کر توصیف اور کاشف غصے سے باہر چلے گئے اور جیسے ہی ان کے پیچھے آصف جانے لگا تو سکندر صاحب نے کہا رکو آصف تو آصف اسی وقت رک گیا اور سکندر صاحب کی طرف دیکھنے لگا تبھی سکندر صاحب نے صفیان کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ اشارا سے پوچھا تو صفیان نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا پھر سکندر صاحب نے آصف کو کہا ٹھیک ہے آصف ہم تمہیں چالیس لاکھ میں وہ گھر بیچ رہے ہیں لیکن اس گھر کو لینے کے بعد تم کبھی ہماری طرف کسی بھی قسم کی کوئی شکایت لے کر نہیں آؤ گے اور ایک بات یاد رکھنا جیسے ہی وہ گھر تمہارا ہو جائے گا تو تمہیں تمہارے پیسے کسی صورت میں واپس نہیں ہونگے پھر چاہے کچھ بھی ہو تمہارے ساتھ ۔ آصف نے کہا جی مجھے منظور ہے ۔
پھر سکندر صاحب اپنے کمرے میں گئے اور اس گھر کی رجسٹری لے کر آئے اور آصف کو دیکھاتے ہوئے بولے یہ دیکھ لو بھائی اصلی رجسٹری ہے اب تم پیسے لے آؤ اور اس گھر کی رجسٹری اپنے نام کروا لو ۔آصف نے کہا جی جی میں پیسے لے کر آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر آصف وہاں سے باہر آیا اور اس نے اپنے بھائیوں کو وہ سب بتایا جو سکندر صاحب اور آصف کے بیچ میں مکان کے سودے کے بارے میں بات چیت ہوئی ۔ تو توصیف اور کاشف بہت خوش ہوئے اور وہ آصف کے ساتھ بنک سے پیسے لینے چلے گئے ۔اور کچھ ہی دیر میں آصف وغیرہ پیسے کے کر سکندر صاحب کے پاس آگئے پھر وہ پیسے سکندر صاحب کو دے کر رجسٹری اور اسٹام پیپر پر کچھ دستخط وغیرہ کر کے گھر کی چابی لے کر سب وہاں سے خوشی خوشی ایک مٹھائی کا ڈبہ لے کر اپنے گھر آگئے اور پھر آصف نے رخسانہ کو مھٹائی کھلاتے ہوئے کہا بیگم مبارک ہو اب ہم سب لوگ ایک بڑے گھر کے مالک بن گئے ہیں اب ہم سب کے پاس الگ الگ کمرے ہونگے اور ہمیں کسی کو کرایا بھی نہیں دینا پڑے گا رخسانہ نے کہا یہ تو واقعی میں آپ لوگوں نے کمال کر دیا ایک ہی دن میں گھر خرید لیا پر وہ گھر آپ سب کو پسند بھی آیا ہے کہ نہیں ؟؟ اتنے توصیف نے ایک اور مٹھائی کا ٹکڑا لے کر رخسانہ کو کھلاتے ہوئے کہا ارے بھابی وہ گھر نہیں بلکہ محل ہے محل اور جب آپ بھی اس کو دیکھو گی تو خوشی سے پاگل ہو جاؤ گی اتنا پیارا بنا ہوا ہے اتنے میں آصف نے کہا میں یہ خوشخبری امی کو بھی سنا کر آتا ہوں وہ جاگ رہیں ہیں کیا ؟
رخسانہ نے کہا ہاں ابھی دوائی کھلائی ہے انھیں اب آرام کر رہی ہیں اس کے بعد آصف اپنی والدہ کے پاس چلا گیا اور توصیف اور کاشف آپس میں گلے ملنے لگے رخسانہ نے مسکراتے ہوئے کہا توصیف بھائی ویسے کتنے میں لیا ہے گھر ؟؟ توصیف نے کہا ارے بھابی آج تو آصف بھائی نے کمال ہی کر دیا ستر لاکھ کا گھر بھائی نے چالیس لاکھ میں لے لیا ۔ رخسانہ نے حیرانی سے کہا کیا ؟؟؟ ستر لاکھ کا گھر تھا ؟ کاشف نے ہنستے ہوئے کہا جی بھابی آج تو بھائی کی کنجوسی کام کر گئی اور ستر لاکھ کا گھر چالیس لاکھ میں لے لیا۔ تحریر دیمی ولف۔ ابھی کاشف یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے آصف بھی آگیا اور بولا ہاں ہاں تم لوگ مجھے کنجوس کہتے تھے نا تو دیکھو اج کیسا سودا کیا میں نے توصیف نے کہا جی جی بھائی آج تو آپ کے لیئے تالیاں ہونی چاہئیں ۔ ہہ کہہ کر کاشف اور توصیف تالیاں مارنے لگے تبھی آصف نے کہا ارے یہ سب چھوڑو اب جلدی سے اس گھر میں شفٹ ہونے کے بارے میں سوچو ورنہ ہمیں اگلے مہینے کا کرایہ بھی پڑ جائے گا ویسے بھی سات دن کے بعد اگلا مہینے کا کرایہ ادا کرنا ہے اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے گھر میں شفٹ ہو جائیں ۔ توصیف نے کہا بھائی میں تو کہتا ہوں کہ ہمیں کل ہی سارا سامان سمیٹ کر اس گھر میں چلے جانا چاہیئے کاشف نے کہا ہاں بھائی ہم دونوں کل کی ایک اور چھٹی کر لیتے ہیں اور سارا سامان اٹھا لیتے ہیں آصف نے رخسانہ کی طرف دیکھا تو رخسانہ نے بھی کہا ہاں ہاں کاشف سہی کہہ رہا ہے اب جانا جو ہے تو کل ہی چلے جاتے ہیں ویسے بھی وہاں جا کر بہت کام ہوگا اتنا بڑا گھر ہے تو اس کی صفائی ستھرائی بھی کرنی پڑے گی اس لیئے جلد سے جلد ہی ہمیں وہاں جانا چاہیے ۔
آصف نے کہا تو ٹھیک ہے پھر ہم سب کل ہی وہاں شفٹ ہو جائیں گے ۔ میں آج مالک مکان کو کہہ دیتا ہوں کہ ہم اسی مہینے میں گھر خالی کر دیں گے تب تک تم لوگ آج جتنا ہو سکے سامان کو سمیٹنا شروع کر دو تاکہ ہم کل صبح ہی جلدی سے جلدی یہاں سے روانہ ہو جائیں ۔ یہ کہہ کر آصف مالک مکان کی طرف چلا گیا اور باقی لوگ نے اپنے اپنے سامان کی پیکنگ شروع کر دی اور پھر رات کے وقت بھی آصف اپنی فیملی ساتھ سامان کی پیکنگ کرواتا رہا ۔ اگلے دن صبح جب سب سامان پیک ہو گیا تو کاشف جلدی سے جا کر ایک ٹرک لے آیا اور کچھ لوگ بھی ساتھ میں لے آیا اس کے بعد سب نے مل کر ٹرک میں سامان چڑھایا اور وہاں سے نئے گھر کی طرف چلنے لگے تو آصف نے اپنے بھائیوں سے کہا یار تم سب لوگ چلو اور میں مالک مکان کو اس گھر کی چابی دے کر آتا ہوں اس کے بعد توصیف نے رخسانہ کو اپنی بائیک پر بٹھایا اور اپنی امی کو آصف کے دونو بیٹوں کو کاشف کے ساتھ ٹرک میں بیٹھا دیا اور سب وہاں سے چل پڑے اور کافی دیر کے بعد آصف بھی ان سے راستے میں جا ملا اور سب نئے گھر پہنچ گئے۔ رخسانہ نے گھر دیکھتے ہی کہا واہ کیا گھر ہے مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ یہ گھر ہمارا ہے اتنے میں آصف نے کہا کیوں کیسا ہے رخسانہ نے کہا بہت ہی خوبصورت ہے اتنے میں ٹرک والوں نے آصف سے کہا بھائی جان زرا جلدی کر لیں ہمیں سامان اتار کر واپس دوسری جگہ بھی جانا ہے آصف نے جلدی میں کہا ہاں ہاں۔
یہ کہتے ہوئے آصف نے گھر کے گیٹ کو کھول دیا اور سب لوگ سامان ٹرک سے اتار کر گھر کے آنگن میں رکھنے لگے اس دوران رخسانہ اور بچے گھر میں چہل قدمی کرتے ہوئے گھر کا معائنہ کرنے لگے اور کچھ ہی دیر میں سب سامان اتر گیا اور ٹرک والے لوگ اپنے پیسے لے کر چلے گئے اب آصف توصیف اور کاشف ایک ایک کر کے سامان کمروں میں رکھنے لگے اتنے میں رخسانہ نے جھاڑو پکڑی اور ایک کمرے میں جا کر وہاں کی صفائی شروع کر دی تبھی رخسانہ کو لگا کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے رخسانہ نے فوراً پلٹ کر پیچھے دیکھا تو اسے کوئی بھی نظر نہیں آیا رخسانہ نے سوچا شاید یہ اس کا وہم تھا اس کے بعد رخسانہ پھر سے جھاڑو دینے لگی اور جھاڑو دیتے وقت اچانک اس کی نظر ایک جگہ پر پڑی جہاں پاؤں کے نشانات بنے ہوئے تھے جیسے کہ کوئی ابھی ابھی وہاں سے ننگے پاؤں چل کر گیا ہو جبکہ اس جگہ سے رخسانہ جھاڑو مار چکی تھی رخسانہ نے فوراً جھاڑو چھوڑ دی اور گھبرا کر اپنے چارو طرف دیکھنے لگی کیونکہ اس وہ وقت میں سوائے رخسانہ کے اور کوئی نہیں تھا وہ یہ سوچنے لگی کہ یہ پاؤں کے نشانات کس کے ہیں اتنے میں آصف کمرے میں آیا اور رخسانہ سے کہنے لگا یار اگر صفائی ہو گئی ہے تو بتا دو تاکہ کچھ سامان اس کمرے میں بھی رکھ دیں تو رخسانہ نے سہمے ہوئے انداز میں آصف کو زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا عظیم کے ابو یہ دیکھو یہ پاؤں کے نشان کیسے ہیں میں نے ابھی یہاں سے جھاڑو پھیری ہے لیکن یہ تو نشان تازہ ہیں جیسے ابھی کوئی یہاں سے گزر کر گیا ہو۔
آصف نیچے بیٹھ کر پاؤں کے نشانات کا جائزہ لینے لگا اور پھر اپنا سر کجھاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر کبھی رخسانہ کے پاؤں کی اور کبھی نشانات کی طرف دیکھنے لگا۔ رخسانہ نے کہا کیا دیکھ رہے ہیں آصف نے کہا میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم نے تو جوتی پہنی ہوئی ہے اور تمہارے پاؤں کا سائز بھی ان نشانوں سے چھوٹا ہے اور یہ نشان تو تمہارے پاؤں سے کافی بڑے ہیں اس کا مطلب ہے یہ نشان تمہارے پاؤں کے نشان نہیں ہیں اور تمہارے اعلاوہ اس کمرے میں کوئی آیا بھی نہیں تھا یہ کہتے ہوئے آصف نشانوں کے پیچھے چلتا ہوا کمرے کی دیوار کے پاس جا کر رک گیا اور بولا پر یہ نشان تو اس دیوار کے پاس آکر ختم ہوئے ہیں اس سے تو لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی اس دیوار کی طرف آیا ہے پر اس سے آگے وہ کہاں گیا باقی طرف تو کوئی نشان نہیں ہیں
۔ رخسانہ نے کہا پر وہ آیا کہاں سے ہو گا کیونکہ دروازے کی طرف سے تو کوئی اس طرف نہیں آیا ورنہ دروازے کے پاس بھی نشان ہوتے پر یہ نشان تو کمرے کے بیچوں بیچ ہی ہیں آصف نے کہا ہاں میں بھی یہی دیکھ کر حیران ہوں یا پھر کوئی دیوار کو دیکھتا ہوا الٹا پیچھے کی طرف آیا ہے اور وہی رک گیا پر آخر کار وہ گیا کس طرف ۔ اتنے میں کاشف بھی آصف کو آواز دیتے ہوئے کمرے میں آیا اور کہنے لگا ارے بھائی جلدی کر لو سامان اٹھوا لو پھر کچھ کھانے پینے کا بندوست بھی کرو بہت بھوک لگی ہوئی ہے دوپہر ہو گئی ہے اور بہت سے کام باقی ہیں ابھی ۔ آصف نے کہا ہاں ہاں چلو پہلے سامان اٹھائیں پھر کھانے کا بھی کر لیتے ہیں کچھ ۔ یہ کہہ کر آصف باہر چلا گیا اور رخسانہ پھر سے ان قدموں کے نشانوں کو دیکھنے لگی اتنے میں رخسانہ کو کسی نے دھیمی سی آواز میں کہا مجھے ڈھونڈ رہی ہو تو رخسانہ اچانک چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی اور پھر جلدی سے کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اتنے میں توصیف رخسانہ کے پاس آیا اور بولا بھابی سب کام چھوڑ کر پہلے کھانا بنا لو قسم سے بہت بھوک لگی ہے رخسانہ نے کہا ارے ابھی کیسے کھانا بنے گا ابھی تو کچن میں سامان بھی نہیں لگایا پہلے چولہا وغیرہ تو فٹ کر دو کچن میں ؟؟ توصیف نے کہا ارے بھابی وہ سب ہم نے کر دیا ہے کیونکہ میں تب سے اسی کام میں لگا ہوا تھا اور ہم نے فریج بھی کچن میں ہی رکھ دی ہے کیونکہ کچن میں کافی جگہ تھی رخسانہ نے کہا ارے بھائی یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا کیا ورنہ بار بار مجھے کچن سے نکل کر کمرے میں جانا پڑنا تھا اتنے میں آصف تھکے ہوئے انداز میں آیا اور بولا ارے میری تو ہمت جواب دے گئی ہے اب باقی کا سامان کھانے کے بعد ہی رکھیں گے
رخسانہ نے کہا ابھی اتنی جلدی تو کھانا نہیں بن سکتا آپ ایسا کریں کہ دوپہر کا کھانا باہر سے ہی منگوا لیں باقی رات کا کھانا میں گھر میں ہی تیار کر لوں گی آصف نے کہا ٹھیک ہے توصیف ایسا کرو یہ کچھ پیسے لے جاؤ اور تمام گھر والوں کے لیئے کچھ کھانا لے آؤ اور رات کے پکانے کے لیئے بڑا گوشت اور سبزی والی دوکان سے آلو ہری مرچیں دھنیا وغیرہ بھی لیتے آنا ۔ توصیف نے پیسے لیئے کھانا اور باقی سامان لینے کے لیئے باہر چلا گیا اتنے میں رخسانہ نے آصف سے کہا عظیم کے ابو پتا ہے جہاں وہ پیروں کے نشان پڑے تھے وہاں سے مجھے کوئی آواز بھی سنائی دی تھی ۔ آصف نے اچانک حیرت سے رخسانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ کون سی آواز کیسی آواز ؟ رخسانہ نے کہا جب آپ کاشف کے ساتھ کمرے سے باہر گئے تھے تو میں ان نشانوں کی طرف دیکھ رہی تھی تو مجھے کسی نے کہا کہ (مجھے ڈھونڈ رہی ہو ) آصف نے کہا تو یہ کس نے کہا تھا کون تھا وہ ؟؟ رخسانہ نے کہا وہ جو بھی تھا پر نظر نہیں آیا اس وجہ سے میں ڈر کر کمرے سے باہر آگئ تھی ۔ آصف نے کہا اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھتے ہوئے خود سے ہلکی سی آواز میں کہا آخر یہ ہے کیا چیزیں یہاں کسی کو رہنے ہی نہیں دیتی تبھی رخسانہ نے حیرانی سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا مطلب آپ کن چیزوں کی بات کر رہے ہیں ؟؟ تو آصف نے چونک کر کہا نہیں کچھ نہیں میں تو بس ایسے ہی کچھ سوچنے لگ گیا تھا۔
رخسانہ نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا عظیم کے ابو مجھے تو لگتا ہے کہ اس گھر میں کچھ گڑبڑ ہے تبھی تو ان لوگوں نے اتنا بڑا اور خوبصورت گھر صرف چالیس لاکھ میں دے دیا ہے آصف نے پھر سے بات کو گول کرتے ہوئے کہا ارے ایسا کچھ نہیں ہے یہ گھر جس جگہ پر ہے یہاں زمین کی قیمت بھی بہت کم ہے دیکھا نہیں کہ یہاں ابھی بھی بہت سے گھر زیر تعمیر ہیں اور ہمارے گھر کے پیچھے والے مکان کو ہی دیکھ لو ایک سائیڈ کی دیوار ہے بس باقی طرف سے ابھی کچھ بنا ہی نہیں ہے یہاں لوگ جگہ لے کر چھوڑ دیتے ہیں یہ ہماری قسمت کہ ہمیں بنا ہوا خوبصورت گھر مل گیا ہے تم بھی نا ایسے ہی کچھ بھی سوچنے لگ جاتی ہو اب چلو جب تک توصیف کھانا لے کر آتا ہے تب تک گھر کے باقی کام کر لیتے ہیں کیونکہ میں تو آج گھر میں ہی پھنس کر رہ گیا ہوں اس وجہ سے میں روز روز دوکان بند نہیں کرونگا جو بھی کام ہیں آج ہی کرنے ہیں ۔ رخسانہ نے کہا ٹھیک پر آپ تھکے ہوئے ہیں آپ آرام کریں باقی میں دیکھ لیتی ہوں اتنے میں اچانک دوسری منزل سے بچوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ آصف اور رخسانہ دوڑ کر بچوں کے پاس گئے تو عظیم اور وسیم دونوں ایک کمرے کے کونے میں سہم کر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک کھڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے اور جیسے ہی بچوں کی نظریں آصف اور رخسانہ پر پڑیں تو وہ دونوں بھاگ کر آصف سے لپٹ گئے رخسانہ نے گھبراہٹ میں پوچھا کیا ہوا بچو تم لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہو تو عظیم نے بنا بولے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں کوئی تھا ۔ آصف نے عظیم کے طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا کون تھا وہاں ؟ یہ کہتے ہوئے آصف کھڑکی طرف گیا اور کھڑکی سے باہر ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر واپس عظیم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا یہاں تو کوئی نہیں ہے بیٹا عظیم نے کہا ابو وہاں پر واقعی میں کوئی تھا پھر عظیم نے وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیوں وسیم وہاں تھا نا کوئی ؟؟ وسیم نے رخسانہ کے پیچھے چھپتے ہوئے بنا بولے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ آصف نے عظیم سے کہا پر وہ تھا کون ؟؟ عظیم نے کہا کوئی ڈراؤنی سی عورت تھی وہ اس کھڑکی سے باہر چلی گئی ہے۔ تحریر دیمی ولف ۔ رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا نا آپ سے اس گھر میں کچھ ہے پر آپ ماننے کو تیار نہیں ؟؟ آصف نے کہا یار کیا ہو گیا ہے ہو سکتا ہے کوئی چورنی ہو جو وہاں سے بھاگ گئی ہے رخسانہ نے کہا بات تو آپ عجیب کر رہے ہیں بھلا کوئی عورت اتنی اوپر سے نیچے کیسے چھلانگ لگا سکتی ہے آصف نے کہا اچھا اب یہ باتیں بند کرو پہلے ہی بچے بہت ڈرے ہوئے ہیں اور چلو یہاں سے اتنے میں نیچے سے توصیف کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا کہ سب لوگ آجاؤ میں کھانا لے کر آگیا ہوں رخسانہ نے دونوں بچوں کے ماتھے پر چوما اور انہیں لے کر نیچے چلی گئی اور رخسانہ کے نیچے جاتے ہی آصف ایک بار پھر سے کھڑکی کی طرف گیا اور کھڑکی سے باہر جھانک کر پھر سے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر کھڑکی بند کر کے نیچے چلا آیا ۔ اور پھر سب نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اس دوران آصف کی نظر توصیف پر پڑی تو وہ کھانے کا نوالہ ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہا تھا آصف نے توصیف کو کہا ارے بھئی تم کہاں کھوئے ہوئے ہو کھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟؟ توصیف نے آصف کی بات پر غور نہیں کیا اور ویسے ہی سوچ میں ڈوبا رہا پھر آصف نے اپنے ہاتھ کو توصیف کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا کیا او بھائی کہاں گم ہے سن رہے ہو ؟؟؟ تو آصف نے ایک دم سے چونک کر کہا جی بھائی کیا ہوا ؟ کچھ کہا آپ نے ؟ آصف نے کہا یار کہاں کھوئے ہوئے ہو جو تمہیں میری آواز ہی سنائی دے رہی توصیف نے پہلے سب کے چہروں کی طرف دیکھا اور پھر کہا نہیں بھائی کوئی بات نہیں ہے رخسانہ نے کہا توصیف گوشت وغیرہ لے آئے تھے ؟ توصیف نے کہا جی بھابی فریج میں رکھ دیا ہے یہ کہتے ہوئے توصیف نے اپنی جیب کو ہاتھ لگایا اور جیب میں کچھ تلاش کرنے لگا اور پھر رخسانہ سے کہنے لگا آہ سوری بھابی وہ سامان کے ساتھ میں بقایا پیسے بھی غلطی سے فریج میں رکھ آیا ہوں وہ بھی نکال لینا فریج سے۔ توصیف کی یہ بات سن سب ہنسنے لگے رخسانہ نے کہا توصیف بھائی وہ فریج تھا کہ تجوری ؟؟ توصیف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا بھابی وہ پیسے اور سامان کے شاپنگ بیگ میں نے ایک ہی ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اس وجہ سے شاپنگ بیگ کے ساتھ پیسے بھی میں فریج میں رکھ دیئے انجانے میں رخسانہ نے ہنستے ہوئے کہا اچھا اچھا چلو کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے ۔ اور پھر توصیف کھانا کھانے لگا ۔ پھر آصف نے اپنی گردن کو نا میں گھماتے ہوئے کہا عجیب آدمی ہے پھر کھانا کھانے لگا اور پھر کھانا کھانے کے بعد سب سامان کی سیٹنگ میں لگ گئے اور پھر شام تک ساری سیٹنگ ہو گئی اس کے بعد رخسانہ کچن میں رات کے لیئے کھانا تیار کرنے چلی گئی اور باقی لوگ ٹی وی لاونج میں بیٹھ گئے اتنے میں توصیف نے آصف سے کہا بھائی مجھے آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے آصف نے کہا ہاں ہاں کرو کیا بات ہے توصیف نے کہا بھائی ہم باہر صحن میں جا کر بات کرتے ہیں آصف نے کہا ارے ایسی بھی کیا بات ہے جو تم باہر جا کر کرنا چاہتے ہو توصیف نے کہا بھائی یہاں بچے ہم باہر چل کر بات کرتے ہیں آصف نے اٹھتے ہوئے کہا اچھا چلو جب دونوں باہر آگئے تو توصیف نے کہا بھائی دراصل جب میں کھانا لینے کے لیئے باہر گیا تو ایک پرچوں کی دوکان والے نے مجھے آواز دی جو کہ ہمارے گھر سے کچھ ہی دوری پر ہے ۔ میں جب اس دوکان دار کے پاس گیا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ لوگ یہاں اس بھوتیا گھر میں رہنے آئے ہو ؟؟تو میں اس کی بات سن کر ہنسنے لگا اور پھر میں نے کہا ارے بھائی تم ہمارے خوبصورت گھر کو بھوتیا کیوں بول رہے ہو کیا میں تمہیں بھوت لگتا ہوں کیا ؟؟ تو وہ دوکان دار نے کہا ارے جتنا جلد ہو سکے اس گھر سے چلے جاؤ ورنہ بہت نقصان اٹھاؤ گے کیونکہ اس گھر میں شیطانی چیزوں کا راج ہے اور تم لوگوں سے پہلے بہت سے لوگوں نے اس گھر میں رہنے کی کوشش کی لیکن وہ یہاں سے بھاگ گئے کیونکہ ان میں سے کوئی نا کوئی مر گیا تھا اس گھر میں رہنے سے کیونکہ وہ شیطانی چیزیں کسی کو یہاں بسنے نہیں دیتیں۔
آخری وقت میں کوئی سکندر نامی شخص اپنی فیملی کو لے کر اس گھر میں رہنے آیا تھا لیکن وہ سب بھی راتو رات بھاگ گئے تھے ورنہ انہیں بھی کسی شیطانی چیز نے مار دینا تھا اور ایک بات تمہارے گھر کے پیچھے جو گھر بن رہا ہے وہ میرا ہے لیکن میں ابھی تک اس کی ایک ہی دیوار بنا سکا ہوں کیونکہ جب بھی میں اس مکان کو بنانے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے مزدوروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی خوفناک حادثہ ہو جاتا ہے کبھی کسی مزدور کو کوئی چیز نظر آتی ہے اور کبھی کسی مزدور کو کوئی دھکا دے کر گرا دیتا ہے اور مزدور کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اسی وجہ سے میں اپنا گھر بھی تعمیر نہیں کر پا رہا اور اسے ایسے ہی بیچ رہا ہوں لیکن کوئی اسے خریدتا ہی نہیں ہے کیونکہ یہاں کافی لوگ اس گھر کے بارے میں جانتے ہیں اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو کسی اور سے پوچھ لیں لیکن وہاں رہنا خود کو موت کے حوالے کرنا ہے اب جاؤ اور میری باتوں کے بارے میں غور سے سوچنا ۔ توصیف نے کہا بھائی اس دوکان والے کی باتیں سن کر میں ڈر سا گیا ہوں کہیں وہ سچ تو نہیں کہہ رہا اسی وجہ سے میں کھانا کھاتے ہوئے بھی اس کی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کیونکہ وہ جس سکندر کا زکر کر رہا تھا وہ سکندر صاحب تو وہی ہیں نہ جن سے ہم نے یہ گھر خریدا ہے ؟ آصف نے توصیف کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور نظریں چرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ توصیف نے کہا بھائی میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں ؟؟ تو آصف نے اکتا کر کہا ہاں یار اس گھر کو لے کر یہاں کے لوگ باتیں کرتے ہیں لیکن ہمیں اس گھر میں رہنا ہے اور ہم دیکھ لیں گے ہر شیطانی چیز کو اور ویسے بھی توصیف تم یہ بتاؤ کہ جتنے پیسوں میں یہ گھر خریدا ہے تو کیا اتنے میں ہمیں کسی نے اتنا خوبصورت اور گھر دینا تھا کیا ؟؟ توصیف نے کہا نہیں بھائی پر وہ دوکان دار کہہ رہا تھا کہ اس گھر میں بہت لوگ مرے ہیں ۔ آصف نے کہا یار مرنا تو ایک دن سب نے ہے زرا سوچو اگر ہم پرانے گھر میں ہوتے تو اگر اللہ نہ کرے کوئی مر جاتا تو کیا تم تب بھی یہی کہتے کہ اس کو شیطانی چیزوں نے مارا ہے ؟؟ توصیف نے کہا نہیں بھائی ۔ آصف نے کہا تو پھر موت تو ہر جگہ آسکتی ہے پھر چاہے ہم کہیں بھی رہیں توصیف نے کہا جی بھائی۔ پھر آصف نے توصیف کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میرے بھائی ایسے ہی لوگوں کی فضول باتوں میں نہیں آیا کرتے اور ایسے سستے گھر ہمیں روز روز نہیں ملیں گے دیکھو تو زرا اس گھر کو کتنا خوبصورت ہے اتنا بڑا صحن ہے بڑے بڑے کمرے ہیں پیچھے خوبصورت بیکیارڈ ہے اور ہمیں کیا چاہیے اور اگر اس گھر میں کوئی شیطانی چیزیں ہوئی بھی تو اب ہم یہاں رہیں گے تو وہ خودبخود یہاں سے چلے جائیں گی کیونکہ ان چیزوں کو تنہائی پسند ہوتی ہے چہل پہل نہیں ۔ توصیف نے کہا بھائی میں نے چھت پر بھی کچھ دیکھا تھا آصف نے کہا کیا دیکھا تھا ؟؟ توصیف نے کہا آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو دیکھاتا ہوں آصف نے کہا چلو پھر اوپر چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں بھائی چھت پر چلے گئے اور جیسے ہی آصف چھت پر پہنچا تو آصف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ ان کی چھت پر جانوروں کے سر اور کچھ آلائشیں پڑی تھیں جنہے دیکھ کر آصف ہکا بکا رہ گیا اور بولا یہ سب یہاں کیسے آگیا توصیف نے کہا بھائی آج جب میں دوپہر میں چھت پر آیا تھا تو یہ سب میں نے دیکھا اور پھر میں نیچے چلا گیا تھا آصف نے کہا یہ کوئی بلی تو یہاں نہیں لے آئی کیا ؟؟؟ توصیف نے کہا بھائی یہ کسی بلی کا کام نہیں ہے کیونکہ بلی اتنے بھاری بھرکم جانوروں کے جسم کے حصوں کو یہاں چوتھی منزل پر نہیں لا سکتی اتنے میں آصف ان جانوروں کے آلائشوں کی طرف گیا تو دیکھا کہ یہ تو واقعی میں وہی جانوروں کے جسم کے عضلات ہیں جن کے باقی حصے ایک دن پہلے اسی گھر کے پیچھے والی سائیڈ پر پڑے ملے تھے جہاں ایک شخص بیٹھا رو رہا تھا ۔
آصف پریشان ہو کر توصیف کی طرف دیکھنے لگا پھر اس نے توصیف سے کہا چلو نیچے چلتے ہیں توصیف نے کہا بھائی ان جانوروں کے عضلات کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں پہلے ہی ان میں سے بہت بدبو آرہی ہے آصف نے کہا ابھی نہیں ابھی تو شام ڈھل رہی ھے اور آس پاس لوگ بھی چھتوں پر نظر آرہے ہیں اور وہ دیکھو سب ہماری طرف عجیب طریقے سے دیکھ رہے ہیں ایسا کرتے ہیں ان کو رات میں پھینک دیں گے ابھی پھینکا تو لوگ دیکھ لیں گے اور پھر فضول کی بحث چھڑ جائے گی۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی چلیں پھر چلتے ہیں ابھی دونوں بھائی نیچے جا ہی رہے تھے کہ اچانک سے کچن سے رخسانہ کے چیخنے کی آواز سنائی دی آصف اور توصیف بھاگ کر کچن میں گئے تو رخسانہ ڈری ہوئی فریج کے سامنے کھڑی کانپ رہی تھی اور فریج کا سارا سامان بکھرا ہوا نیچے گرا پڑا تھا آصف نے رخسانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا رخسانہ تم ڈری ہوئی کیوں ہو اور یہ سامان کیوں گرایا ہوا ہے زمین پر رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابھی یہاں کوئی تھا آصف نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب کون تھا یہاں رخسانہ نے کانپتے ہوئے کہا میں گوشت دھو کر فریج میں رکھا تھا اور میں چولہے پر مصالحہ بھون رہی تھی کہ اتنے مجھے فریج کے کھلنے کی آواز آئی جب میں نے فریج کی طرف دیکھا تو کوئی خوفناک سایہ مجھے فریج کے پاس کھڑا ہوا نظر آیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے فریج کھولا اور سارا سامان نیچے گرانے لگا اور پھر گوشت نکال کر کھانے لگا تبھی میری چیخ نکل گئی اور وہ اچانک سے کہیں غائب ہو گیا ۔ رخسانہ کی یہ بات سن کر آصف اور توصیف ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر آصف نے کہا ان کا کچھ کرنا پڑے گا ورنہ یہ جو بھی ہیں یہ ہمیں ایسے ہی تنگ کرتے رہیں گے لیکن تم سب لوگ ایک بات ذہن میں رکھ لو چاہے یہ ہمیں جتنا بھی تنگ کر لیں ہم ان سے ڈر کر یہ گھر نہیں چھوڑیں گے ۔ رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا مطلب یہ کونسی چیزیں ہیں آپ کیا جانتے ہیں اس بارے میں کچھ ؟؟ آصف شرمندہ سا ہو کر توصیف کی دیکھنے لگا تو پھر توصیف نے بات کو پلٹتے ہوئے رخسانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے کچھ نہیں بھابی یہ بس چھوٹی موٹی چھلاوہ ٹائپ چیزیں ہیں جو کہ اکثر کھالی گھروں میں ہوتی ہیں لیکن جب گھر میں کوئی رہنے لگے تو یہ خود ہی گھر چھوڑ کر چلی جاتیں ہیں یہ کہتے ہوئے توصیف نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ماری اور بولا کیوں آصف بھائی سہی کہا نا میں نے ؟؟ تو آصف نے اچانک ہڑبڑا کر کہا ہاں ہاں یہ کچھ نہیں ہے تم تو ایسے ہی ڈر گئی ہو دیکھو اس چیز نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا نا ؟؟ یہ خود ہی بھاگ جاتیں ہیں صرف آج کے دن ہی تنگی ہو سکتی ہے کل تک سب ٹھیک ہو جائے گا تم اب فکر نہیں کرو اور کسی اور سے اس بارے میں بات نہ کرنا ورنہ بچے ایسے ہی ڈر جائیں گے۔ تحریر دیمی ولف۔ رخسانہ نے کہا مگر وہ سارا گوشت کھا گیا اب میں پکاؤں گی کیا ؟؟ آصف نے کہا اب شام ہو گئی ہے اس وقت تو پتا نہیں گوشت ملے گا بھی کہ نہیں تم ایسا کرو کہ آج صرف آلو ہی پکا لو گوشت ہم کل پکا لیں گے رخسانہ نے کہا ٹھیک ہے پر آپ میرے پاس ہی کھڑے رہیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آصف نے کہا اچھا بابا ٹھیک ہے ۔ توصیف نے کہا بھائی میں بچوں کے پاس جا رہا ہوں پتا نہیں کاشف ان کے پاس بیٹھا ہوا ہے کہ نہیں ۔ آصف نے کہا ہاں ہاں جاؤ ۔ توصیف کمرے میں چلا گیا اور آصف رخسانہ کے ساتھ کچن کے کام میں رخسانہ کا ہاتھ بٹانے لگا اور کچھ دیر میں رات شروع ہونے لگی اور رخسانہ نے کھانا تیار کر لیا اور پھر رخسانہ آصف کی ہمرہ کھانا لے کر کمرے میں گئی تو وہاں سب موجود تھے سوائے کاشف کے آصف نے توصیف سے پوچھا کاشف کہاں ہے اسے بلا لو کھانا تیار ہو گیا توصیف نے کہا بھائی کاشف تو کیبل والے کو لینے گیا ہوا ہے ابھی تک تو آجانا چاہیے تھا اسے آصف نے کہا یار اتنی کیا جلدی تھی کیبل صبح نہیں لگ سکتی تھی کیا ؟؟ توصیف نے ہنستے ہوئے کہا بھائی آپ کو تو پتا ہے نا کاشف رات دیر تک موبائل اور ٹی وی میں گھسا رہتا ہے ۔ آصف نے کہا ہاں ان کے بنا تو اس کو کھانا بھی ہضم نہیں ہونا تھا اتنے میں باہر گیٹ پر دستک ہوئی توصیف نے کہا میں دیکھ کر آتا ہوں کاشف آگیا ہو گا یہ کہہ کر توصیف نے باہر جا کر دروازا کھولا تو دیکھا کہ کاشف اپنے ساتھ کیبل والے کو لے کر آگیا تھا جس کے کاندھے پر ایک بیگ اور تار کا رول تھا اور دوسرے کاندھے پر ایک لکڑی کی سیڑھی تھی توصیف نے کاشف کو کہا یار اتنی دیر لگا دی ہے آصف بھائی کھانے پر انتظار کر رہے ہیں ۔ کاشف نے کہا جی بھائی میں کب سے کیبل والے کے آفس اور یہ بھائی کسی جگہ کیبل لگانے گیا ہوا تھا اب یہ آفس میں آیا تھا تو میں اس کو ساتھ لے آیا ہوں اتنے میں کیبل والے نے کہا ٹھیک ہے کاشف بھائی آپ لوگ کھانا کھائیں تب تک میں باہر سے تار کا کنیکشن کر کے آتا ہوں ۔ توصیف نے کیبل والے کو کہا ارے بھائی آپ بھی آجاؤ پہلے کھانا کھا لو ؟؟ کیبل والے نے کہا بھائی میں کچھ دیر پہلے کھانا کھا کر آیا ہوں آپ کا بہت بہت شکریہ آپ لوگ کھائیں اور تب تک میں باہر سے اپنا کام کر لیتا ہوں ۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی آپ کریں کام تب تک ہم کھانا کھا لیں کیبل والے نے بیگ گیٹ کے پاس رکھا اور سیڑھی پکڑ کر کہیں لگانے لگا اور کاشف توصیف کے ساتھ کھانا کھانے چلا گیا اور کچھ دیر میں سب نے کھانا کھایا اور کاشف کیبل والے کو دیکھنے باہر گیٹ کے پاس چلا گیا ۔۔
.............................
............................
............................
0 تبصرے