میری پہلی محبت ۔ پہلا حصہ

 
 
 میری پہلی محبت ۔ پہلا حصہ 
تحریر: حنا سحر

وہ اپنے ہی ٹیچر سے پیار کر بیٹھی تھی اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب  وہ کیا کرے۔ سب سے پہلے اس نے اپنی اک کلاس فیلو سے اپنی فیلنگ کا اظہار کیا تو وہ کلاس فیلو ہنس ہنس کر پاگل ہو گئی کہ کوئی اپنے ٹیچر سے بھی پیار کرتا ہے کیا؟  وہ شرمندہ سی ہو کر اس کے پاس سے اٹھ گئی، لیکن وہ جان چکی تھی کہ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ جو روگ وہ دل کہ لگا بیٹھی تھی اس کا ایک ہی حل تھا اور وہ تھا اس کا اپنا ٹیچر۔لیکن وہ اک کم گو لڑکی یہ بات اپنے ٹیچر سے کبھی بھی کہ نہیں سکتی تھی۔بس خود ہی اندر ہی اندر جل رہی تھی۔کیونکہ یہ محبت یک طرفہ تھی۔اسکی شخصیت کا ایک سحر تھا جو ہر پل اس پہ طاری رہتا تھا۔اس کی آواز جیسے کانوں میں رس گھول دیتی تھی۔چہرے پر بات کرتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کیا سجاتا تھا دل میں ہی اتر جاتا تھا۔

حریم کا آج کالج میں پہلا دن تھا اور وہ کافی نروس ہو رہی تھی۔نیا کالج، نئے لوگ، نئی کلاس فیلوز اور ہر طرف شوخی اور شرارتوں سے بھرے چہرے اس کو مزید نروس کر رہے تھے۔پہلے لیکچر میں میڈم ارسا نے کلاس کو خوش آمدید کہا اور تمام کلاس کو اپنا تعارف کر وا کر لیکچر کا آغاز کر دیا۔حریم پڑھائی میں بہت اچھی تھی اس لیے شروع سے ہی اس نے اپنی اسٹڈی پر فوکس کرنا شروع کر دیا۔بریک میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جو اس کی کلاس فیلو تھی۔ اس کا نام عمارہ تھا۔وہ ایک خوش اخلاق اور بہت ہنس مکھ لڑکی تھی۔ حریم کی اس سے دوستی ہو گئی دونوں نے کنٹین سے کچھ کھانے کا سوچا اور پہلے دن صرف کولڈ ڈرنک پر ہی گزارہ کیا۔عمارہ کے والد بیرون ملک اپنا ذاتی کاروبار کرتے تھے،پہلے اپنی فیملی ساتھ پاکستان سے باہر سیٹل ہونے کی غرض سے گئے لیکن کچھ کاروباری مخالفین کی وجہ سے بیوی اور بیٹی کوواپس پاکستان بھیج دیا۔عمارہ چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے اس کا لائف اسٹائل بہت نفیس تھا۔

کچھ دن ایسے ہی نارمل روٹین کے مطابق گزر گئے۔آج پہلے لیکچر کے بعد عمارہ نے بتایا کہ انگلش کی کلاس آج سرفراز  صاحب لیں گے، لگتا ہے میڈم صوبیا  لمبی چھٹی پہ جانا چاہ رہی ہے۔
 
”میڈم بھی بہت اچھا پڑھا رہی ہیں پھر شاید کسی ضروری کام سے چھٹی لی ہو گی “ حریم کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
عمارہ اسے بک شاپ پے لے کے جانا چاہتی تھی کچھ نوٹس کاپی کروانے تھے اور ساتھ ساتھ کچھ کھانے کو بھی دل چاہ رہا تھا۔لیکن حریم خود انگلش کے نوٹس لکھ رہی تھی اس لیے ساتھ نہ جا سکی اور کلاس میں بیٹھی اپنا کلاس ورک کرنے لگی۔ابھی لیکچر میں بیس منٹ باقی تھے اس لیے حریم بھی کلاس میں بوریت محسوس کرنے لگی اور عمارہ کی طرف چل دی۔بک شاپ جانے کے لیے حریم جیسے ہی  راہ داری میں مڑی اچانک سامنے سے ایک خوبرو نوجوان سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ لیکن اس نوجوان کے ہاتھ سے کچھ کتابیں اور پیپرز گر  کر بکھر گئے۔
کچھ دیر کے لیے تو وہ بت بنی کھڑی رہی اور اس نوجوان کو بکھرے پیپرز اکٹھے کرتے دیکھنے لگی ۔اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔پھر کسی خیال کے آتے ہی جلدی جلدی وہاں سے بک شاپ کی طرف بڑھ گئی۔اس کا جسم ہلکا سا کانپ رہا تھا۔
” آئیے محترمہ! لگتا ہے کلاس میں آپ کا اکیلے دل نہیں لگا“ عمارہ نے شرارتی لہجے میں کہا
” نہیں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔بس کام مکمل کیا تو سوچا کہ آپ کے پاس چلی جاؤں۔تم بھی تو میرے بغیر اداس ہو جاتی ہو نا“ حریم کی اس بات پر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
ہلکی سی ریفرشمنٹ کے بعد دونوں کلاس میں تھیں۔انگلش کے نئے ٹیچر کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔سب اس بات پہ متفق تھے کہ میڈم صوبیہ جیسی انگلش کوئی بھی نہیں پڑھا سکتا۔لیکن کچھ لڑکیاں اس بات پر بہت خوش نظر آرہی تھی کہ اب انگلش کے لیے جو ٹیچر آئے ہیں وہ میل ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ بہت سمارٹ اور کیوٹ بھی ہیں۔لڑکیوں کے ایسے رویے سے حریم کو بہت کوفت ہونے لگی کہ اپنے ٹیچر کے بارے میں ایسے خیا لات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اچانک دروازے میں نمودار ہونے والے اس میل ٹیچر کی آمد سے پوری کلاس ایک دم پرسکون ہو گئی اور کچھ دیر پہلے ہونے والی چہ مگوئیاں دم ٹوڑ گئیں۔دروازے میں کھڑے اس صاحب نے پوری کلاس کو  ایک نظر بھر کے دیکھا تو تمام لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔اس کی آتشی نگاہوں کے تاب نہ لاتے ہوئے سب ہی اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔حریم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ اس نوجوان سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی لیکن اس کی وجہ اس کے ہاتھ سے کتابیں اور پیپرز ضرور گر گئے تھے۔حریم خود کو کلاس کی باقی لڑکیوں کے پیچھے چھپانے کے ناکام کوشش کر رہی تھی۔
وہ نوجوان آگے بڑھا اور دل فریب مسکراہٹ سے کلاس سے مخاطب ہوا ”السلام و علیکم! ہوپ یو آل ول بی فائین۔ میرا نام سرفراز ہے ۔ایم فل ان انگلش اور آج سے میڈم صوبیہ کا لیکچر میں پڑھایا کروں گا۔جتنی میڈم نے آپ کی کلاس کی تعریف کی ہے ، آپکی کلاس اس سے بڑھ کر ویل ڈی سپلن لگ رہی ہے

وہ بولتا جا رہا تھا اور اس کے جادوئی الفاظ سامنے بیٹھی لڑکیوں کے دل میں اتر رہے تھے۔بات کرنے کا انداز، رعب دار آواز، چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ، کھبی سنجیدگی کبھی شوخی،  پتا ہی نہ چلا کہ لیکچر مکمل بھی ہو گیا۔سر کے چلے جانے کے بعد ہر طرف تعریفوں کے پل بندھ گے۔وہی لڑکیاں جو کچھ ٹائم پہلے میڈم صوبیہ کا راگ الاپ رہی تھیں اب ہر طرف مسٹر سرفراز گونج رہا تھا۔حریم نے مکمل لیکچر بہت توجہ سے سنا اور کچھ ضروری باتیں اپنی نوٹ بک میں نوٹ بھی کر لیں۔ساتھ ساتھ وہ خود کو سر کی نظروں سے بھی بچا رہی تھی۔

”ارے حریم ڈارلنگ ۔۔ پورا لیکچر تم تو نوٹ بک میں گھسی رہی ہو دیکھا نہیں کیسا انداز تھا ان کا، ہمیں تو آج پتا چلا کہ انگلش ایسی بھی ہوتی ہے۔آج پہلا لیکچر تھا ان کا پتا نہیں آگے کیا کچھ پڑھائیں گے؟ “ عمارہ نے اپنی عادت کے مطابق حریم کہ آج کے لیکچر کے باری میں اطلاعاً بتایا۔

لیکن شاید عمارہ کو معلوم نہیں تھا کہ حریم کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ ہر بات کو بہت توجہ سے سنتی تھی۔اس لیے پورا لیکچر اچھے سے تیار بھی کر لیا تھا۔بنا دیکھے وہ لیکچر ایسے سن رہی تھی جیسے وہ اکیلی کلاس میں ہے اور سر صرف اسے ہی پڑھا رہے ہیں۔وہ دن ایسے ہی خوش گپیوں میں گزر گیا۔چھٹی کے بعد حریم گھر چلی گئی۔

کہتے ہیں کہ پیار محبت ان دیکھے جذبے ہیں ان کو محسوس کرنا ہر کسی کا بس میں نہیں ہوتا۔دل میں اٹھنے والی ہر دھڑکن سے خون کا جسم کے انگ انگ میں ڈورنا اور جسم کے ذرے ذرے میں محبت بھر دینا ،بلاوجہ نہیں ہے۔کوئی تو مقصد ہے اس جذبے کا۔جو بھی اسے اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے ایک بار تو اس کا انگ انگ ہواؤں میں گھومنےلگتا ہے۔لیکن  محبت کا زہر انسان کو مارتا نہیں بلکہ جینے نہیں دیتا۔
.............................
............................ 
............................  

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں