محبت تم سے پیا ۔ مکمل ناول

 
 
جب سے مناہل پیدا ہوئی تھی عامر کا یہ معمول بن گیا تھا کہ وہ دن میں کئی بار آفس سے کال ضرور کرتااور عالیہ سے مناہل کے بارے میں پوچھتا اور کہتا کہ میری بیٹی کیا کر رہی ہے عالیہ اسے اکیلا نہیں چھورا کرو مناہل کا بہت خیال رکھا کرو،دوسری طرف عالیہ بھی بہت پیار سے جواب دیتی آپ سے زیادہ مجھے اس کی فکر ہے میں اپنی جان سے زیادہ اس کا خیال رکھتی ہوں آپ فکر نہ کریں ، کیوں نہ کرو فکر عامر بات کاٹتے ہوئے کہتا مجھے علم ہے کہ تم ماں اور ہوشاید مجھ سے زیادہ خیال بھی رکھتی ہو مگر یہ میری زندگی ہے,عالیہ مسکرا کر جواب دیتی یہ ہماری زندگی ہے ، عامر جب بھی آفس سے گھر آتا تو سیدھا مناہل کے پاس جاتا اور اسے گود میں لے کر گھنٹوں اس سے باتیں کرتا ،عالیہ کہتی کہ آفس تھک کر آئیں ہیں فریش ہوجائیں کپڑے تبدیل کر لیں پھر لے کر بیٹھ جائے گا اپنی زندگی کو ،اس پرعامر کہتا تم باپ بیٹی کے درمیان میں نہ آوہمیں اسی طرح رہنے دو، عامراورعالیہ اکثر ویک اینڈ پر گھر سے باہر جاتے تومناہل ہی ان کی گفتگو کا موضوع ہو تی ، اور دونوں اس کامستقبل کے بارے میں باتیں کرتے۔ 
 
دن اسی طرح گزرتے رہے، عامر روز صبح آفس جاتے ہوئے عالیہ سے مناہل کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے آفس کے لئے روانہ ہوجاتا عامر کے جانے بعد عالیہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی اور ساتھ ہی مناہل کا بھی خیال رکھتی ، ویسے تو عالیہ بہت خوش لباس تھی اور ہمیشہ ہی اچھے ڈریس پہنتی لیکن پھر بھی ایک دن اس نے عامر کو سرپرائز دینے کے بارے میں سوچا ،وہ گھر کے کام سے فارغ ہوکر ایک خوبصورت سا ڈریس اور جیولری پہن کر اچھا سا میک اپ تیار ہو گئی اور عامر کا انتظار کرنے لگی ۔دروازے پر دستک کی آوازکے ساتھ ہی عالیہ بہت خوشی سے دروازہ کھولا توعامر نے سرسری سی نظر عالیہ پر ڈالی اور کہا ۔۔۔
 
خیریت کہاں کی تیاری ہے اور اپنے کمرے میں لیٹی ہو مناہل کو کود میں لے کر اسے باتیں کرنے لگا اس پر عالیہ نے کہا میں اتنی وقت لگا کر تیار ہوئی ہوں اور آپ نے نہ میری طرف دیکھا اور نہ ہی تعریف کی اس پر عامر نے کہا اتنا وقت لگا کر تیار ہونے کے لئے کس نے کہا تھا، ویسے اچھی لگ رہی ہو مگر میری بیٹی سے زیادہ نہیں عالیہ اس بات پر مسکراکر کچھ سوچنے لگ گئی، اس کے بعد عالیہ گھر کے کام کے ساتھ عالیہ تو خیال رکھتی مگر اب اپنے آپ توجہ نہیں دیتی،عامر ہر بار کی طرح روزانہ کال کرتا مگر وہ کام کا بہانہ بنا کر بات نہیں کرتی اسے پتا تھا کہ عامر اس سے زیادہ مناہل کے بارے میں بات کرے گا ۔۔۔
 
دن اسی طرح گزرتے رہے عا لیہ اب آہستہ آہستہ گھر کے کام کاج سے بھی دور ہوتی جارہی تھی ،ایک دن عامر نے عالیہ سے بہت پیار سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا لگتا ہے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، تو اس نے جواب دیا کہ نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بس کچھ تھکن ہے ٹھیک ہو جائی گی،عامر اس کے جواب سے مطمئین نہیں ہو اور اور اس نے اپنی والدہ کو کال کر کے گھر آنے کو کہا ،عامر کی والدہ سکینہ بیگم نہایت نفیس خاتون تھی انہوں اکر گھر کا سارا کام سمبھال لیا اپنی بہو کابھی خیال رکھنا شروع کردیا اور عامر سے کہنے لگی تم میری بہو کا بلکل خیال نہیں رکھتے تو اس کا کیا حال ہو گیا ہے اس پر عامر نے کہا کہ میں سارا دن آفس میں ہو تا ہو ں لیکن جہان تک ممکن ہو تا ہے میں خیال رکھتا ہوں اسے بھی چاہئے کہ اپنا خیال رکھے اور مناہل کا بھی،سکینہ بیگم کے آنے پر عالیہ کی طبعیت کچھ بہل گئی اور وہ دوبارہ نارمل زندگی کی طرف آنے لگی ،اسے دیکھ عامر کی والدہ نے کہا اب میری بہو ٹھیک ہو گئی ہے تم اس کا خیال رکھنا ،اور وہ کچھ دن کے بعد اپنے گھر واپس چلی گئی، لیکن ئن کے جانے کے بعد عالیہ دوبارہ اپنی پہلے والی کیفیت میں آگئی ،مگر اس عامر نے اپنی والدہ کو نہیں بلایا ، لیکن اب عامر آفس جاتے ہوئے گھر کی چابیاں ساتھ لے جاتا تا کہ دووازہ کھولنے کے لئے عالیہ کو پریشان نہ ہونا پڑے۔
 
دن اسی طرح گزرتے رہے ، اب مناہل چھ ماہ کی ہو گئی تھی اور اسی لحاظ سے اس کی غذاکا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا مگر عا لیہ کی توجہ آہستہ آہستہ اب مناہل سے بھی دور ہوتی جارہی تھی ۔اور کچھ دنوں بعد مناہل بیمار ہو گئی ڈاکٹرکو دیکھانے پر پتا چلا کہ مناہل کو غذا کی کمی ہو گئی ہے عامر نے عالیہ سے کہا تم اسے وقت کھانا نہیں کھلاتی ،عالیہ نے کہا میں وقت پر ہی کھانا دیتی ہوں تو عامر نے قدرے سخت لہجے میں کہا تو پھر غذا کی کمی کیسے ہو گئی دیکھو عالیہ تمھارے ساتھ جو بھی مسئلہ مجھے بتا دو ،نہ تم اپنا خیال رکھتی ہو اور نہ ہی مناہل کا اتنے میں مناہل رو نے لگ گئی تو عامر نے کہا اس کا کھانا لا کر دو میں خود کھلاؤں گا ،عامر کو مناہل کاکھانا دے کرعالیہ ایک طرف بیٹھ گئی۔ پھر ایک دن عجیب وقعہ پیش آیا ،عامر کے پاس گھر کی چابیاں تو موجود ہوتی تھی۔
 
ایک دن وہ آ فس سے جلد ی گھر آگیا اور دروازہ کھول کر اندر آیا تو دیکھا عالیہ مناہل کو اٹھا کر زمین پر پھینک رہی تھی تو عامرنے چیخ کر کہا! عالیہ یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے تم ایسا کیوں کر رہی ہو دیکھو یہ کتنی معصوم ہے ابھی چند ماہ کی ہے تمھیں تو ماں بننے کی بہت خواہش تھی اب اللہ نے تمھیں اپنی اتنی پیاری رحمت سے نوازا ہے تو تم کیوں ایسا کیوں کر رہی ہو، تم ایسی تو نہیں تھی ،عالیہ فوراً عامر کے سامنے ہاتھ جوڑ کرکہا ،مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتا کیا ہوگیا تھا اب میں اس کا خیال رکھو گی بس تم مجھ سے ناراض نہ ہوا کرو عامر نے ننھی مناہل کو عالیہ کی گود میں دیتے ہوئے کہا ۔مجھے لگتا ہے اسے نیند آرہی ہے اسے سلادو عالیہ نے مناہل کو گود میں لیتے ہی پیار کرنا شروع کر دیا اسی دوران عامر کا موبائل بجنا شروع ہو گیا ،عامر نے کمرہ سے باہر آکر کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا دوست اور آفس کو لیگ حمزہ بات کرہا تھا،ہیلو عامرکیا حال ہے، تم نے میل چیک کی کاباس نے تمھیں صبح رپورٹ دینے کو کہا ہے تم نے بنا لی ہے، عامر کے حواس جو ابھی مکمل بحال نہیں ہوئے تھے، 
 
اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا آج میں نے میل نہیں چیک کی ،حمزہ نے عامر سے کہا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہو مناہل تو ٹھیک ہے عامر نے کہا مناہل ٹھیک ہے مگر عالیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے نا جانے کیا ہوگیاہے آج وہ مناہل کو مارنا چاہ رہی تھی میں وقت پر آگیا ورنہ نا جانے کیا ہوجاتا ایک بار پہلے بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا اسے میں نے اپنا وہم سمجھا کیوں کہ اس وقت وہ خود ہی صفائی دینے لگ گئی تھی یہ گر رہی تھی میں دیکھ لیا ۔مگر آج تو حد ہو گئی مجھے نہیں سمجھ آرہا یہ کیا ہو رہا ہے ا س پرحمزہ نے کہا کوئی بات ضرور ہے ایک ماں کبھی اپنی اولاد کی دشمن نہیں بن سکتی تم پیار سےبھابھی سے پوچھو، اور مناہل کے پاس ہی رہو باقی کل آفس میں بات کرتے ہیں اللہ حافظ.

فون بند کرکے عامر نے اپنی امی کو کال کرکے گھر آنے کو کہا اور پھر کمرے میں مناہل جو اب تک سو چکی تھی اس کے قریب آکر لیٹ کر گیاعالیہ کے بارے میں سوچنے لگا۔وہ شوخ وچنچل عالیہ کہاں کھو گئی ۔ اور اس کی آنکھوں کے سامنے پچھلے چار سال کسی فلم کی طرح صورت گزنے لگے اسے یاد آرہا تھا کہ عالیہ سے اس کی پہلی ملاقات کس طرح ہوئی تھی عالیہ او ر عامر ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ہوا کچھ یوں تھا عالیہ سے Orientation کی Date مس ہو گئی تھی Orientation کے دوسرے دن سے کلاسز شروع ہوگئی تھی اور عالیہ ایک ہفتے بعدیونیورسٹی آئی تھی جب عالیہ یونیورسٹی پہنچی تو کلاس شروع ہو چکی تھی اس لئے اسے سب سے پیچھے جاناپڑا عامر کا بیگ سیٹ پر رکھا ہوا تھا اس نے اپنا بیگ اٹھا کر عالیہ کو بیٹھنے کو کہا عالیہ نے عامر کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گئی ۔
کلاس ختم ہو نے کے عالیہ نے CRسے کہا وہ یونی ایک ہفتے بعد آئی ہے اسے پچھلے لیکچر چا ہئے وہ کس طرح ملے گے ، اس پر CR نے کہا میں آپ کو کلاس کے whatsapp group میں add کرلیتی ہوں وہاں پر لیکچر کے لئے میسج کر دیں کسی سے بھی آپ کو مل جائیں گے۔عالیہ نے میسج کر دیا تو عامر نے Reply کیا،اور کہا کلاسز ختم ہو نے پر لائبریری میں مل لیں ،دونوں کی باقائدہ پہلی ملاقا ت وہی ہو ئی عامر نے عالیہ کو نہ صرف تمام نوٹس دئیے بلکہ یہ بھی آفر کی جو سمجھ نا آئے وہ مجھ سے پوچھ سکتی ہیں ،اس کے بعد عالیہ اور عامر کے درمیان اچھی ہم آہنگی ہو گئی اوروہ دونوں ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ عامر اورعالیہ دونوں ہی کا تعلق اچھے گھرانے سے تھاعالیہ کی بڑی بہن شادی شدہ تھی اور امریکہ میں مقیم تھی, جبکہ عالیہ کے والدایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتے تھے ۔عامر کے والدین اور تایا تائی ساتھ رہتے تھے تایا کی کوئی اولا نہیں تھی جبکہ عامر کا ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ 

نکاح سے پہلے ہمبستری

عامر کے والد بزنس مین تھے۔ پڑھائی کے دو سال کیسے ختم ہو گئے بتا ہی نہیں چلا پہلے پہل ان دونوں کے درمیان صرف اچھی دوستی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دوستی محبت میں بدل گئی ۔دونوں پڑھائی کے دوران بھی اکثر لنچ یا ڈنر باہر کرتے تھے ۔پڑھائی کے دوران عامر اپنے والد کے بزس کو بھی ٹائم دیتا تھا اور ساتھ ساتھ MBA بھی کررہا تھا۔لیکن MBA کرنے کے بعد اس نے جاب کرنے کا ارداہ کیا اور جلد ہی اسے اچھی جاب مل گئی 

کچی عمرکے پیارکا انجام

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں