دسمبر کی وہ سرد رات ۔ پہلا حصہ

 
 
جب ہم اس علاقے میں شفٹ ہو گئے تھے تو اس علاقے میں ابھی بہت زیادہ گھر نہیں بنے تھے اور کچھ گھر تو مکمل ہو چکے تھے اور ان گھروں میں فیملیز نھی شفٹ ہو چکی تھیں اور کچھ گھر جو تھے تو وہ ابھی زیر تعمیر تھے۔ باقی کچھ سڑکیں بنی تھی اور کچھ ابھی بننا باقی تھیں اور سڑکوں کے دونوں اطراف میں کچھ پھلوں کے پرانے درخت جن میں زیادہ تر ۔ بیر۔ امرود ۔ جامن اور مسمی کے درخت تھے ۔ اور عجیب سے جھاڑیوں نما پودے لگے ہوئے تھے اور ایک بہت ہی پرانا کنواں بھی موجود تھا جو بہت بڑا اور گہرا تھا لیکن اس میں پانی نہیں تھا بلکہ بہت سارا کوڑا کرکٹ وغیرہ اس بھرا ہوا تھا۔ اور کچھ پرانے لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ آبادی کی جگہ پہلے بہت پرانا باغ ہوا کرتا تھا ۔ لیکن پھر کسی نے یہ ساری جگہ خرید کر باغ کو ختم کر کے اس جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا ڈالی۔ اور بہت سے درختوں کو کاٹ دیا لیکن اب بھی کافی پھلوں کے درخت بچ گئے تھے۔ خیر سڑکوں کے ساتھ ساتھ بجلی کے کھمبے بھی لگے ہوئے تھے اور کچھ کھمبوں پر لائٹیں بھی لگی تھی لیکن زیادہ تر لائٹیں خراب تھی اس وجہ سے رات کے وقت اس جگہ سے گزرنا بھی بڑا خطرناک ہوا کرتا تھا کیونکہ یہاں نئ آبادی بن رہی تھی تو اکثر چور ڈاکو بھی کئی بار اس علاقے میں وارداتیں کیا کرتے تھے کیونکہ اس علاقے کو جو پولیس سٹیشن لگتا بھی تھا تو وہ بہت دور تھا لیکن کبھی کبھی پولیس چکر لگا لیا کرتی تھی ۔ اور چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی زیادہ خطرہ اس علاقے میں رات کے وقت گھومتے جانوروں سے ہوتا تھا کیونکہ اس علاقے میں ایک بار کسی جانور نے کسی کا ایک بچہ بھی چیڑ پھاڑ کر مار دیا تھا اور جو اس علاقے میں رہتے تھے ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ وہ جو جانور ہیں وہ جانور نہیں بلکہ ہوائی چیزیں ہیں جو اکثر رات کے وقت جانور کی شکل میں اس علاقے میں گھومتی ہیں اور کسی بھی انسان کو دیکھ کر اس پر حملہ کرتی ہیں اور بہت نقصان پہنچاتی ہیں اور ایک فیملی کے فرد کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ایک بار وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کسی شادی کی تقریب سے واپس آرہے تھے تو جس جگہ پر پھلوں کے درخت ہیں وہاں سے کچھ قدم کے فاصلے پر جو کنواں ہے ۔
 
 اس کنویں کے قریب دو بہت ہی خوفناک قسم کے کافی بڑے کتے دیکھے جو کسی اچھی خاصی صحت مند گائے کو گرا کر اس کی ٹانگوں کو اپنے منہ میں لیے عجیب سی آواز میں غراتے ہوئے بہت تیزی سے کنویں کی طرف گھسیٹ رہے تھے جبکہ گائے پوری طاقت سے ان سے اپنے آپ کو چھوڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ تو میں نے ہلکی سی سرگوشی سے اپنی بیوی اور بیٹی سے کہا دیکھو کسی قسم کی کوئی آواز نہ کرنا اور خاموشی سے چلتے رہنا اور دیکھو یہ کتے نہیں ہیں بلکہ ہوائی چیزیں ہیں کیونکہ دو کتوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ ایک اچھی تگڑی گائے کو گرا کر اتنی تیزی سے گھسیٹ سکیں۔ تو اس بیوی اور بیٹی نے بھی سرگوشی میں ہاں میں سر ہلایا اور ہم تینوں خاموش سے وہاں سے دور نکل آئے تو ابھی ہم لوگ بس گھر سے کچھ گز کے فاصلے پر ہی تھے تو اتنے میں تیزی سے ہمارے طرف بڑھتے ہوئے کسی کے قدموں آواز سنائی دینے لگی ۔اور جب ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہم سب پر خوف تاری ہو گیا۔ کیونکہ یہ وہی دو ہوائی چیزیں تھیں جن کو ہم نے راستے میں گائے کو گھسیٹتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اس بار ان کی شکلیں اور بھی زیادہ خوفناک تھی کیونکہ ان کی شکلیں عجیب سی لگ رہی تھیں جیسے کوئی بگڑی ہوئی انسانی شکل میں ہو لیکن بھاگ جانور کی طرح رہا ہو ۔ تو میں نے فوراً سے اپنی بیوی اور بیٹی سے کہا جلدی گھر کی طرف بھاگو اور اتنے میں ایک گلی سے کوئی گاڑی نکلی اور اس کی لائٹیں ہم پہ پڑی اور گاڑی نے اچانک سے بریک لگالی اور اس میں سے فوراً کوئی بولا رکو رکو اور پھر ہم نے دیکھا کہ تین چار لوگ فوراً گاڑی سے باہر نکل آئے یہ پولیس والے تھے ۔ اور اس دن جیسے پہلی بار ہم لوگ پولیس کو دیکھ کر سکون کی سانس لے رہے تھے ۔ 
 
خیر ایک پولیس والے نے بولا آپ لوگ کون ہو اور اتنی رات کو ایسے کیوں بھاگ رہے ہو جیسے کوئی واردات کرکے بھاگ رہے ہو ۔ تو میں نے ہانپتے ہوئے جواب دیا کہ جناب ہمارے پیچھے ہوائی چیزیں پڑ گئی تھی اور اس وجہ سے ہم بھاگ رہے تھے اور وہ سامنے ہمارا گھر ہے اور جناب ہم کوئی چور ڈاکو نہیں ہیں اور یہ میری بیٹی ہے اور اس کے ساتھ میری بیوی ہے ۔ تو ایک پولیس والا بولا کیا پڑا تھا تمہارے پیچھے؟؟ ذرا دوبارہ بتانا ؟ تو میں نے ماصومیت سے کہا جناب ہوائی چیزیں۔تو سبھی پولیس والے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور اک دم سے زور زور سے ہنسنے لگے اور ہنستے ہوئے پھر ایک نے پوچھا کیا پڑا تھا تمہارے پیچھے ؟؟! تو اس بار میں چپ رہا تو پولیس والے پھر سے میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے ۔ میں نے اپنی بیوی اور بیٹی کی طرف دیکھا تو وہ بہت افسوس بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہیں تھیں ۔۔
 
اس کے بعد پولیس نے کہا اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ اور میں نے فوراً اپنا شناختی کارڈ نکالا اور ایک پولیس والے کو پکڑا دیا اس نے شناختی کارڈ دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا اور شناختی کارڈ مجھے واپس کرتے ہوئے بولا چلو اب اپنے گھر جاؤ اور اتنی رات کو غیر ضروری کام کے لیے گھر سے کم نکلا کرو ۔ ویسے بھی اس جگہ پر بہت سی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اس وجہ سے جتنا ہو سکے آپ لوگوں کو خود ہی احتیاط کرنی ہوگی۔تو میں نے فوراً کہا جی جی سر آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اس کے بعد پولیس والے واپس گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہاں سے چلنے لگے اور ہم تینوں جلدی سے اپنے گھر میں چلے گئے ورنہ وہ ہوائی چیزیں ہمارے ساتھ پتا نہیں کیا کرتیں لیکن اللہ کا شکر ہے ہم کسی بھی نقصان سے محفوظ رہے ۔ تو یہ سب تو تھی یہاں ایک گھر رہنے والے ایک فیملی ممبر کی داستان جو ہمیں اس علاقے میں رات کے وقت گھومتے ہوئے جانوروں کے بارے میں بتا رہا تھا اب اس بات میں کتنا سچ تھا یہ تو وہی جانتا تھا۔ لیکن ہم پہلے ہی اپنے اس بیسمنٹ والے واقعے سے ابھی پوری طرح ابھر نہیں پائے تھے کہ اب اس علاقے میں بھی کچھ ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا ۔ خیر ہماری فیملی کے لیے یہ کچھ نیا نہیں تھا بس فکر تھی تو ہمارے ان فیملی ممبران کی جو اکثر رات کو دیر سے آتے تھے جیسے کہ میرے دونوں بڑے بھائی۔ کیونکہ وہ جاب سے تقریباً سپہر 4 بجے تک گھر واپس آتے اور کھانا وغیرہ کھا کر پھر باہر اپنے دوستوں سے ملنے چلے جایا کرتے تھے اور ان کے زیادہ تر دوست ہمارے پرانے محلے یعنی دادا کے گھر والی سائیڈ پر تھے کیونکہ ہمارا بچپن دادا کے گھر میں ہی گزرا تھا اور بچپن کے اور سکول کالج کے دوست بھی اسی جگہ پر تھے اور اسی وجہ سے بھائی زیادہ تر وقت ہمارے پرانے محلے میں ہی گزارا کرتے تھے اور اکثر اوقات رات کو دیر سے آتے تھے ۔ اور بابا نے بھی بہت بار ان سے کہنا کہ جلدی گھر آجایا کرو یہ علاقہ ابھی پوری طرح سے محفوظ نہیں ہے تو کوشش کیا کرو کے رات ہونے سے پہلے ہی گھر آجایا کرو بیٹا ۔ 
 
تو بھائیوں نے کہنا جی جی بابا ہم ایسا ہی کریں گے آپ بے فکر رہا کریں ہماری طرف سے اور ویسے بھی ہم اب کافی بڑے ہو چکے ہیں تو آپ کو ہماری طرف سے بے فکر رہنا چاہیے آپ بس کھایا پیا کریں اور ارام کیا کریں ۔ تو بابا نے بولا میرے بیٹوں ابھی آپ لوگوں کی عمر 26 ۔24 سال کی ہیں لیکن اگر آپ لوگوں کی عمریں انشاء اللہ 100 سال کی بھی ہو جائیں گی تب بھی آپ لوگ میرے لئے بجے ہی رہوں گے اس وجہ سے کہتا ہوں کہ احتیاط کیا کرو ۔خیر دو چار دن بھائی ٹائم سے گھر آجایا کرتے تھے اور پھر سے کچھ دن بعد وہی رات کو دیر سے آنے والی اپنی روایت کو جاری رکھتے ۔ پھر ایک رات کو جب میں بابا اور امی tv دیکھ رہے تھے کہ اچانک سے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی اس کے ساتھ ہی امی نے بولا یااللہ خیر اور بابا جلدی سے اٹھے اور دروازے کی طرف گئے اور میں اور امی بھی ان کے پیچھے دروازے کی طرف گئے اور بابا نے دروازہ کھولا تو دیکھا میرے دونو بھائی ایک موٹر سائیکل پر سوار اور دوسرا اس کے ساتھ کھڑا تھا اور دونوں بہت ہی گھبرائے ہوئے گھر کے دروازے پر کھڑے پیچھے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ کہ جیسے ان کے پیچھے کوئی اور بھی آرہا ہو۔ تو بابا نے کہا کیا ہوا خیر تو ہے ادھر کیا دیکھ رہے ہو ۔تو دونوں بھائیوں نے بابا کی بات کا جواب نہیں دیا جیسے انھوں نے بابا کی بات سنی ہی نا ہو بلکہ وہ دونوں ابھی بھی اسی طرف دیکھ رہے تھے تو بابا دروازے سے باہر نکل کر دیکھنا چاہا کہ آخر یہ دونوں دیکھ کیا رہے ہیں تبھی اچانک سے میرے بھائی نے بابا کی طرف دیکھا اور موٹر سائیکل سے اترے ہوئے کہا چلو چلو بابا اندر چلو اور دونوں بھائیوں نے بابا کو گھر کے اندر دھکیلا اور جلدی سے بائیک گھر کے اندر کی اندر آتے ہی جلدی سے دروازہ بند کر دیا جیسے کے وہ کسی چیز سے خوفزدہ ہو گئے ہوں ۔تو بابا نے بڑی حیرت سے ان دونوں سے پوچھا اخر بات کیا ہے ؟ کیا ہوا ہے ۔ تو بڑے بھائی نے بابا سے بولا بابا کچھ نہیں آپ چلیں کمرے میں بتاتا ہوں اور پھر ہم سب کمرے میں آگئے اور دونوں بھائیوں کو دیکھا تو ان کے پسینے چھوٹ رہے تھے جبکہ سردیوں کا موسم تھا ۔تو اتنے میں ایک بھائی نے جدی سے پانی کی بوتل پکڑی اور جلدی جلدی پینے لگا۔ 
 
تو بابا نے کہا ارام سے بیٹا ارام سے پانی پیو ۔اس کے بعد اس پانی کی بوتل دوسرے بھائی کو دی تو اس نے بوتل پکڑی ہی نہیں بس وہ چپ اور سہما ہوا بیٹھا ہوا تھا ۔ تو بڑے بھائی نے اس کو ہاتھ سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا یہ لو پانی پیو تو اس نے بوتل پکڑی اور تھوڑا سا پانی پی کر بوتل سائیڈ پر رکھ دی اور بڑے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔ اخر وہ تھی کیا چیز ؟۔ تو بڑے بھائی نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا مجھے نہیں پتہ ۔ہم سبھی ان دونوں کی طرف ماصومیت سے دیکھ رہے تھے تو اتنے میں بابا بولے اب مجھے کوئی کچھ بتائے گا کیا ؟ اخر ہوا کیا ہے اور تم کس چیز کی بات کر رہے ہو ؟ اور تم دونوں باہر کیا دیکھ رہے تھے ۔ تو بڑے بھائی نے بابا کی طرف دیکھا اور ایک لمبی سانس لی اور بولا بابا اصل میں جب ہم دونوں واپس گھر آرہے تھے تو گھر سے کچھ ہی دوری پر ہم نے ایک سفید رنگ کا بکری کا بچہ دیکھا وہ بھاگتے ہوئے ہماری بائیک سے ٹکرا کر گر گیا میں نے فوراً بائیک روکی اور اس کو دیکھنا چاہا کیونکہ ہم نے سوچا شاید اس کو چوٹ لگ گئی ہے تو میں نے عاصم (یعنی میرا بڑے سے چھوٹا والا بھائی) سے یار ذرا دیکھو اسے۔ اس کی کوئی ٹانگ تو نہیں ٹوٹ گئی کیونکہ وہ کھڑا نہیں ہو پارہا تھا تو عاصم نے اس کو پکڑ کر اٹھانا چاہا پر وہ پھر سے گر پڑا پھر عاصم نے کہا چلو اس کو گھر لے چلتے ہیں اب پتا نہیں یہ کس گھر سے آیا ہے گھر لے جاتے ہیں اور اس کی مرہم پٹی کرتے ہیں اور پھر صبح محلے میں پوچھ لیں گے اس کے بارے میں اور جس کا ہو گا اس کے حوالے کر دینگے۔تو میں نے کہا چل ٹھیک ہے اٹھا اس کو اور بیٹھ جا پیچھے میں نے بائیک سٹارٹ کی تو بائیک بھی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی تو میں نے عاصم سے کہا کہ اب بائیک کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے سٹارٹ نہیں ہو رہی تو عاصم نے کہا چلو بھائی تھوڑی دور تو گھر ہے ہم پیدل ہی چلتے ہیں ویسے بھی اس جگہ پر بائیک سٹارٹ کرنے میں ٹائم ضائع کرنا رکنا مناسب نہیں یہ جگہ تو ہی بہت سنسان ہے کوئی چور ڈاکو ہی نا آ جائے ۔
 
تو ہم پیدل چل رہے تھے میں نے بائیک پکڑی ہوئی تھی اور عاصم اس بکری کے بچے کو اپنے کاندھے پر اٹھائے میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔لیکن جب ہم گھر سے کچھ ہی دوری پر تھے تو ہمیں پیچھے سے عجیب طرح سے کسی عورت کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اور ہم نے فوراً پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا اور ابھی ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ اچانک پیچھے ایک بہت ہی خوفناک چیخ کی آواز سنائی دی ۔ہم چونک پیچھے دیکھا تو پھر کوئی نہیں تھا تو ہم بہت زیادہ ڈر گئے تھے اتنے میں عاصم نے کہا بھائی یہ بکری کے بچے کا وزن اک دم سے زیادہ ہو گیا ہے تو میں نے جب عاصم کی طرف دیکھا تو میرے جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی کیونکہ عاصم کے کندھے پر بکری کا بچہ نہیں بلکہ کوئی بہت ہی خوفناک شکل والی کوئی عورت تھی جس کے بازوں عاصم پکڑے ہوئے اسے اپنے کندھے پر لے کر چل رہا تھا میں نے فوراً ہمت کر کے پتا نہیں کیسے عاصم سے کہا پھینک اس کو اور جب عاصم نے اپنے کندھے کی طرف دیکھا تو اس نے چینخ مار کر اس کو پھینکا اور میرے آگے آگے بھاگنا شروع کردیا اور بائیک لے کر اس کے پیچھے بھاگا اور میں نے بھاگتے ہوئے آیات الکرسی پڑھی اور بائیک کو گئیر میں ڈالا تو بائیک فوراً سے سٹارٹ ہو گئ اور میں جلدی سے بائیک پر بیٹھا اور تیزی سے عاصم کے پاس جا کر بائیک سلو کر کے عاصم کو چلتی بائیک پر سوار کرایا اور ہم اپنے گھر کے دروازے پر آگئے اور عاصم نے فوراً اتر کر دروازے پر زور زور سے دستک دے دی ۔ تو بابا نے کہا کہ کیا وہ تمہارے پیچھے گھر تک آ رہی تھی تو بڑے بھائی نے کہا پتا نہیں بابا پر ہم بہت ڈر گئے تھے ۔لیکن بابا اس کے ساتھ ساتھ مجھے عاصم پے بہت غصہ آرہا تھا ۔تو بابا نے کہا اس میں عاصم کا کیا قصور ہے۔تو بھائی بولا جب میں بائیک سٹارٹ کر کے اس کے قریب آ کر اس کو بیٹھنے کا کہ رہا تھا تو یہ بیٹھ ہی نہیں رہا تھا بلکہ بائیک کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا اورمیری بات ہی نہیں سن رہا تھا اگر یہ بیٹھنے میں تھوڑی اور دیر لگا دیتا تو شاید ہم دونوں گھر نہ پہنچ پاتے ۔۔۔
 
نہ ہی ہم آپ کے سامنے یوں سہی سلامت کھڑے ہوئے ہوتے ۔تو بابا نے کہا کہ اب چھوڑو اس قصوروار ٹھہرانا ۔ وہ ڈرا ہوا تھا تو اسے تمھاری آواز نہیں سنی ہو گی۔لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم دونوں سہی سلامت ہو۔ اگر اس کی جگہ تمنے اسے کاندھے پر اٹھایا ہوتا تو تمھاری حالت بھی ایسی ہی ہوتی۔ دیکھا نہیں وہ ابھی تک ڈرا ہوا ہے ۔ خیر چھوڑو جو ہوا سو ہوا میں بس اسی وجہ سے تم لوگوں کو جلدی گھر آنے کا کہتا ہوں اتنے میں امی عاصم بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی بیٹا تمھارے بابا ہمیشہ تمھارے بھلے کی بات کرتے ہیں اور دیکھو آج تمھارے ساتھ کیا ہوا وہ تو خدا کا پاک کلام ہے جسکی وجہ سے تم لوگ کسی نقصان سے محفوظ رہے ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا ۔ تو بابا بولے چلو اب بس بھی کرو یہ میرے بہادر اور فرمانبردار بیٹے ہیں یہ اب دوبارہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اس واقعے کے بعد مجھے بہت رنج بھی ہوا تھا ۔لیکن مجھے خوشی اس بات ہے کہ ان بھائیوں نے اتنی خوفناک گھڑی میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان کا اکٹھا رہنا ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے اگر یہ اسی طرح اکٹھے رہے تو انشاء اللہ یہ ہوائی چیزیں کیا۔ یہ کسی بھی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں اور بس میری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ یہ سب ہمیشہ اک جان رہیں اور ہر مشکل میں ایک دوسرے کو تنہا نہ چھوڑیں ۔تو اتنے میں بڑے بھائی نے بابا کو گلے لگاتے ہوئے بولا ۔ بابا آپ فکر نہ کریں میں کبھی بھی کسی بھی حالت میں اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا انشاء اللہ۔ یہ بات سن کر بابا کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے اور بھائی نے بابا سے کہا بابا آپ رو کیوں رہے ہیں تو بابا نے کہا نہیں بیٹا یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔ تو بھائی نے دوبارہ بابا کو گلے لگا لیا اور بابا نے امی کی طرف دیکھا اور کہا تھا دیکھا میں نہ کہتا تھا میرے بیٹے اب بڑے ہو گئے ہیں اور اب مجھے واقعی میں لگ رہا ہے کہ یہ اب اپنا اچھا برا بخوبی جاننے لگ گئے ہیں اور پھر ہم سب بھائیوں نے ایک ساتھ بابا کو گلے لگا لیا۔
 
 اور پھر جب ہم نے امی کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں بھی انسو تھے۔ تو بابا نے مسکراتے ہوئے امی سے بولا اب آپ شروع ہو گئی ہیں یہ کسی فلم کا دکھی سین چل رہا ہے جو آپ نے بھی رونا شروع کر دیا؟ ۔ تو امی بھی انسو اپنے دوپٹے سے پوچتے مسکرا کر بولی نہیں نہیں میں نہیں رو رہی۔تو بابا نے امی کو بولا چلیں اب جلدی سے کھانا لگا لیں ویسے بھی ان شیر بچوں نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا اور ہمیں بھی بہت انتظار کروایا ہے اب تو بس پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ۔ خیر اس کے بعد سب نے کھانا کھایا اور سب tv دیکھنے لگ گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد بابا نے بولا مجھے تو نیند آرہی ہے لو بچوں تم لوگ دیکھو tv میں تو سونے جارہا ہوں اج تو بہت ہی تھک گیا ہوں ۔اس کے کچھ دیر بعد بڑے بھائی اور امی بھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اب میں اور عاصم بھائی tv دیکھ رہے تھے ٹائم کوئی رات 12:40 یا 12:45 کا ہو گیا ہوگا کہ اتنے میں باہر سے بہت سے کتوں کے ایک ساتھ بھونکنے کی آوازیں سنائی دینے لگی اور آوازیں اتنی تیز تھیں کہ tv کی آواز بھی ان کے آگے کم لگ رہی تھی...
 
 ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کتے ہمارے گھر میں آ کر بھونک رہے ہوں ۔میں چونکا اور جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر عاصم کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور عاصم بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔ کیا ہوا ڈر گئے ہو تو میں نے کہا جی بھائی ایسا لگ رہا ہے کتے ہمارے گھر میں داخل ہو رہے ہیں تو عاصم بھائی نے کہا نہیں میرے چھوٹے شیر ایسا کچھ نہیں ہے بس تم ڈر گئے ہو ۔اس کے بعد میں دیکھ تو tv رہا تھا پر میرا دماغ باہر صحن کی طرف لگا ہوا تھا کیونکہ مجھے یہی لگ رہا تھا کہ کتے باہر صحنِ میں گیٹ کے پاس کھڑے ہیں اور پھر اچانک سے بلی کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی وہ اس طرح رو رہی تھی جیسے کوئی بچہ رو رہا ہو تو میں نے عاصم بھائی کا بازو کس کے پکڑ ہوا تھا تو عاصم بھائی نے کہا اوے چھوٹو تم اتنا کیونکہ ڈر رہے ہو ۔تو میں نے کہا بھائی مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ باہر صحن میں کچھ ہے تو عاصم بھائی نے بولا نہیں یار کوئی نہیں ہے تم بس ڈر رہے ہو۔ یہ کہ کر عاصم بھائی پھر سے tv میں کھو گئے ۔ اتنے میں ایک بہت ہی بھیانک قسم کی چیخ کی آواز سنائی دی اور اس کے فوراً بعد ہی اک دم سے بھاری دھمک کی بھی آواز آئی جو کہ باہر صحن سے آئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے 10 فٹ کی دیوار سے صحنِ میں چھلانگ لگائی ہو۔ اس بار عاصم بھائی بھی چونک گئے اور عاصم بھائی نے فوراً سے tv کی آواز بند کر دی۔ اب عاصم فوراً سے اپنے منہ انگلی لگا کر مجھے چپ رہنے کا اعشارہ کیا اور میں نے ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اب اتنی خاموشی ہو گئی تھی کہ ہمیں اپنی سانسوں کی بھی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اور بھائی نے بہت ہی غور سے صحن کی طرف کان لگا کر کچھ سننا چاہا تو صحنِ سے ایسی آواز آنے لگی جیسے کوئی بھاری آواز میں لمبے لمبے سانس لے رہا ہو پھر ساتھ ہی ایک ایسی آواز سنائی دینے لگی جیسے کوئی ہڈیاں چبا رہا ہو ۔ اور ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز اتنی صاف سنائی دے رہی تھی کہ جیسے کوئی بلکل ہمارے tv لانج کے باہر ہی بیٹھ کر ہڈیوں کو چبا رہا ہے ۔ تو میں نے بھائی ہاتھ اپنے کانپتے ہاتھوں سے ایسے پکڑا ہوا تھا جیسے کہ اگر یہ ہاتھ چھوڑا تو میں مر جاؤں گا عاصم بھائی نے پہلے میرے کانپتے ہاتھ کو دیکھا اور ساتھ ہی میری طرف دیکھا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے عشارہ کرتے ہوئے مجھے بڑے بھائی کو بلا کر لانے کو کہا میں نے نہ میں سر ہلایا اور بھائی کا ہاتھ کھینچ کر اس کو بھی ساتھ آ نے کو بولا تو بھائی نے رکنے کا اعشارہ کیا اور پھر اپنے منہ پر انگلی رکھ کر مجھے اعشارے سے چپ رہنے کو کہا اور ہاتھ کے اعشارے سے ہی دھیرے دھیرے سے ایک ساتھ پیچھے ہٹنے کو کہا اور میں نے فوراً سے کانپتا ہوا سر ہاں میں ہلایا اور پھر ہم دھیرے دھیرے پیچھے یعنی بڑے بھائی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے کیونکہ بڑے بھائی کا کمرہ ٹی وی لانج سے کچھ ہی دوری تھا ۔ تو ہم ابھی کچھ ہی قدم پیچھے کی طرف گئے تھے کہ اچانک سے ہمیں صحن سے ہی بھارے بھارے سے قدموں سے چلتے ہوئے کسی کے ٹی وی لانج کی طرف انے کی آواز سنائی دینے لگی ایسا لگ رہا تھا کے کوئی بہت ہی بھاری قسم کی چیز ٹی وی کی طرف آرہی ہے کیونکہ ک ٹی وی چل رہا تھا اور ٹی کی روشنی کھڑکی سے باہر بھی جاہی تھی ۔ اس پل تو لگ رہا تھا کہ شاید آج ہمارہ آخری دن ہے لیکن میرے بھائی کی ہمت تھی کہ وہ مجھے بڑے بھائی کے کمرے کے دروازے پر لے گیا کیونکہ کہ اسی دن ہی کچھ گھنٹوں پہلے دونوں بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا اور اب یہ دوبارہ وہ بھی ہمارے گھر میں ہو رہا تھا ۔خیر میں اور عاصم بھائی بڑے بھائی کے دروازے پر پہنچے پر دروازہ لاک تو نہیں مگر دروازہ کچھ خراب تھا تو ذرا دھکا لگا کر بند ہوتا تھا اور کھلتا بھی ذور لگا کر تھا۔
 
 اور عاصم بھائی نے آرام سے دروازے کو دھکا مارا تو دروازہ نہ کھلا اور پھر سے عاصم بھائی نے تھوڑا زور سے دھکا مارا تو دروازہ کھل گیا لیکن ساتھ ہی ایک اور بھیانک سی آواز آئی اور ہم نے جلدی سے بڑے بھائی کے کمرے میں آگئے اور دروازہ بند کر دیا اور بھائی کو جگایا اور اس کو اس کے بارے میں بتایا تو بڑے بھائی نے جلدی سے آ یت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور ہم سے کہا چلو اوپر بابا کے کو جگاتے ہیں اور ہم تینوں بھائی بابا اور امی کے کمرے میں آگئے اور بابا کو بھی جگا دیا اور ان کو صحن کے بارے میں بتایا تو وہ بھی چونک گئے اور ایت الکرسی پڑھنے لگ گئے اور بابا نے بولا چلو دیکھتے ہیں آخر یہ سب کیا ہے ۔ اور جیسے ہی ہم واپس نیچے آۓ اور صحن کی لائٹ جلائی تو ہماری آنکھیں جیسے پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ کیونکہ کے وہ کیا چیز تھی کسی کو نظر نہیں آئی لیکن صحن میں 2 کتے مرے پڑے تھے جن صرف آدھے کھائے ہوئے سر پڑے تھے اور باقی دھڑ کی کچھ انتڑیاں پڑی تھیں اور پورے صحن میں خون ہی خون تھا جیسے کسی نے کو بڑی گائے ذبح کی ہو اور اس کا سارا خون جگہ جگہ زمین پر پڑا ہو ۔اب ان کتوں کے ساتھ کسی نے کیا کیا تھا اور وہ کیا چیز تھی جو ان کو یہاں اٹھا کر لائی تھی اور شاید ان کو کھا رہی تھی ۔۔۔
.............................
............................ 
............................  

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں