رات کی ڈیوٹی - خوفناک کہانی ۔ دوسرا حصہ

 

رات کی ڈیوٹی - خوفناک کہانی

دوسرا حصہ: تحریر دیمی ولف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب ملازمت شوکت کو لے کر خلیل کے پاس پہنچا تو اس وقت خلیل فوزیہ کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا ۔ تبھی ملازم نے خلیل سے کہا سر یہ شوکت صاحب آگئے ہیں آپ نے کہا تھا کہ یہ جیسے ہی آئیں تو میرے پاس لے آنا ۔ خلیل نے شوکت کی طرف دیکھا تو شوکت نے سلام کیا تو خلیل نے شوکت کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا ارے شوکت بھائی آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں یہاں میرے پاس آکر بیٹھیں اور ناشتہ کریں شوکت نے کہا خلیل بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ دراصل میں ناشتہ کر کے ہی آپ کے پاس آیا ہوں ۔

خلیل نے کہا اچھا ٹھیک ہے پر یہاں آکر میرے ساتھ آکر تو بیٹھو ۔؟ شوکت نے کہا جی جی یہ کہتے ہوئے شوکت خلیل کے ساتھ بیٹھ گیا پھر خلیل نے فوزیہ سے کہا شوکت بھائی کو چائے دو فوزیہ نے فوراً شوکت کے سامنے چائے رکھ دی شوکت شرماتے ہوئے خلیل کی طرف دیکھنے لگا تو خلیل نے مسکراتے ہوئے کہا ارے شوکت بھائی شرما کیوں رہے ہیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے آپ نے کہا کہ آپ ناشتہ کر کے آئے ہیں تو کم سے کم آپ میرے ساتھ چائے تو پی ہی سکتے ہیں ۔ شوکت نے کہا جی جی کیوں نہیں یہ کہتے ہوئے شوکت نے چائے کا کپ پکڑ لیا ۔ پھر خلیل نے شوکت کے باقی بچوں اور ان کی پڑھائی کے بارے میں شوکت سے گپ شپ کی اور چائے پینے کے بعد خلیل نے کہا شوکت بھائی آپ بیٹھیں میں بس میں کچھ دیر میں تیار ہو کر آتا ہوں اور آپ کو لے کر چلتا ہوں یہ کہتے ہوئے خلیل اپنے کمرے میں چلا گیا اور شوکت ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر صوفے پر جا کر بیٹھ گیا ۔ پھر کچھ ہی دیر میں خلیل تیار ہو کر آیا اور شوکت کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر اپنے نئے آفس کی طرف نکل پڑا۔

راستے میں شوکت نے خلیل سے پوچھا خلیل بھائی آپ کا آفس کس جگہ پر ہے خلیل نے کہا زیادہ دور نہیں ہے کوئی نئی سکیم بن رہی ہے جو کہ یہاں سے 14 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں مین سڑک کے پاس ہی ہے لوکیشن اچھی تھی اس وجہ سے میں نے وہ جگہ خرید کر وہاں آفس بنا لیا ویسے میرا پہلا والا آفس بھی اسی راستے سے ہوتا ہوا 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے میں وہاں ہی جا رہا ہوں لیکن پہلے تمہیں نیا آفس دیکھاؤں گا جہاں تم نے نوکری کرنی ہے۔ شوکت نے کہا جی جی ٹھیک ہے یہ کہتے ہوئے شوکت ذرا سا پریشان تھا ۔ خلیل نے کہا کیا ہوا شوکت تم پریشان کیوں لگ رہے ہو ؟ شوکت نے کہا نہیں خلیل بھائی کوئی خاص پریشانی نہیں ہے میں بس بھٹے کے مالک کے بارے میں سوچ رہا تھا کیونکہ میں نے ان کو بتایا نہیں ہے کہ میں کام چھوڑ رہا ہوں وہ میرا انتظار کرتے ہوں گے ۔ خلیل ہنسنے ہوئے بولا لو یار بس اتنی سی بات ۔۔

 ارے شوکت بھائی تم اس کے بارے میں مت سوچو تم مجھے اس بھٹے کے مالک کا نمبر دو میں ابھی اس کو فون کر کے بتا دیتا ہوں کہ آج کے بعد تم اس کے پاس کام نہیں کرو گے ٹھیک ہے ؟؟ شوکت نے کہا جی میں ابھی نمبر دیتا ہوں یہ کہتے ہوئے شوکت نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی اور اس میں ایک صفحہ تھا جو کے مڑا ہوا تھا شوکت نے وہ صفحہ خلیل کو دکھاتے ہوئے کہا خلیل بھائی یہ جو کاغذ مڑا ہوا ہے اسی پر کہیں میاں عمران (یعنی بھٹے کے مالک) نام اور ٹیلی فون نمبر لکھا ہو گا ۔

خلیل نے وہ ڈائری پکڑی تو وہ فولڈ ہوئے پیج پر ہی میاں عمران لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں اس کا موبائل نمبر بھی تھا ۔ خلیل نے مسکراتے ہوئے ہوئے شوکت سے کہا ارے واہ شوکت بھائی آپ تو کہتے ہیں آپ کو لکھنا نہیں آتا پھر یہ کس نے لکھا ہے ؟؟ شوکت نے کہا جی مجھے واقعی میں پڑھنا لکھنا نہیں آتا یہ نمبر مجھے میاں عمران نے ہی لکھ کر دیا تھا کہ اگر کبھی کوئی دیر سویر ہو جائے تو مجھے ٹیلی فون کر لینا اور یہ کہہ کر اس نے یہ چھوٹی سی کاپی مجھے دے دی تھی لیکن جب میں گھر آیا تو مجھے پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ اس کا نام اور ٹیلی فون نمبر کہاں لکھا ہے وہ تو میری بیٹی ناظمہ نے مجھے اس کاپی میں سے اس کا نمبر نکال کر دیا اور پھر اس کاغذ کو مڑوڑ کر نشانی لگائی تھی کہ جب کبھی کوئی مسلہ تو میں یہ کاپی کسی کو دکھا کر اس سے ٹیلی فون کرا لوں گا لیکن آج تک مجھے کوئی ایسا مسلہ ہی پیش نہیں آیا ۔ شوکت کی یہ بات سن کر خلیل زور زور سے ہنسنے لگا شوکت بھی خلیل کی طرف مسکرانے لگا پھر ہنستے ہوئے خلیل نے کہا یار شوکت تم بہت ہی سیدھے سادے آدمی ہو ۔ ویسے تم نے اپنی بیٹی کو پڑھا کر اچھا کام کیا ہے۔

شوکت نے کہا جی خلیل بھائی میں نے اسے پانچویں جماعت تک پڑھایا ہے اس کے بعد سکول چھڑا لیا تھا ۔ خلیل نے کہا ارے آگے کیوں نہیں پڑھایا کم سے میٹرک تو کروا لیتے ۔ شوکت نے کہا کیا پتا جی میٹرک کس چیز کا نام ہے بس میں نے اس کو پانچ جماعت تک پڑھایا ہے اور باقی اب وہ اپنی ماں کے ساتھ گھر گھرستی کا کام کرتی ہے ۔ خلیل نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا ٹھیک ہے اور پھر میاں عمران کو فون کرنے لگا اور پھر جب میاں عمران نے فون اٹھایا تو خلیل نے اسے اپنا تعارف کرایا جس پر میاں عمران خلیل کو سر سر کہہ کر خلیل سے بات کرنے لگا پھر خلیل نے اسے شوکت کے بارے میں بتایا تو میاں عمران نے کہا سر کوئی بات نہیں اگر آپ کہیں تو میں اور لوگوں کو بھی آپ کی خدمت میں بھیج دیتا ہوں خلیل نے کہا ارے نہیں نہیں بہت شکریہ اللّٰہ حافظ اور یہ کہہ کر خلیل نے فون کاٹ دیا پھر خلیل نے کہا لو جی شوکت بھائی آپ کا کام ہو گیا اب آپ میرے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں ۔ شوکت نے مسکرا کر کہا جی سر جی ۔

خلیل نے کہا ارے مجھے سر ور مت بولو تم میرے بھائی ہو اور مجھے بھائی ہی بولا کرو ۔ شوکت نے کہا جی خلیل بھائی اتنے میں خلیل نے گاڑی ایک طرف موڑ لی جہاں کچھ کچھ گھر بنے ہوئے تھے اور کچھ زیر تعمیر تھے باقی سب علاقہ میدان کی طرح لگ رہا تھا جس میں کافی ساری جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے درخت لگے ہوئے تھے تبھی خلیل نے ایک خوبصورت سی عمارت کے سامنے گاڑی روک لی جہاں اور بھی گاڑیاں اور بائیکیں کھڑی ہوئی تھیں اور پھر خلیل نے شوکت کی طرف دیکھتے ہوئے بولا لو جی شوکت بھائی یہ ہے ہمارا نیا آفس چلیں اندر چلتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے خلیل گاڑی سے اترا اس کے پیچھے شوکت نے گاڑی سے اترنے کی کوشش کی تو شوکت سے گاڑی کا دروازا نہیں کھل رہا تھا پھر خلیل نے مسکراتے ہوئے باہر سے ہی گاڑی کا دروازا کھولا تو شوکت نے کہا معافی چاہتا ہوں خلیل بھائی آج سے پہلے میں کبھی ایسی گاڑی میں نہیں بیٹھا اس لیئے مجھے اس کا دروازا کھولنا نہیں آتا ہے خلیل نے کہا ارے کوئی بات نہیں شوکت بھائی آجائے گا یہ کہتے ہوئے خلیل شوکت کو ساتھ لے کر اس خوبصورت آفس میں چلا گیا جہاں بہت سارے لوگ اپنے سامنے کمپیوٹر رکھ کر کام کر رہے تھے اور انہوں نے خلیل کو دیکھتے ہی اپنی سیٹ سے اٹھ کر سلام کیا اور خلیل ان سب کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے روم میں چلا گیا جو کہ پورے کا پورا شیشے کا بنا ہوا تھا شوکت صوفے پر بیٹھ کر حیرانگی سے اس آفس کو دیکھ رہا تھا۔

پھر کچھ دیر کے بعد خلیل نے شوکت کو پورے آفس کا معائنہ کروایا اور سب سے آخر میں شوکت کو کچن دکھایا جو کہ کافی بڑا تھا اور اس میں کافی سارے بہترین قسم کے برتن وغیرہ شیشے کی الماریوں میں پڑے تھے اور جدید قسم کے الیکٹرک چولہے اور آون پڑے ہوئے تھے اس کے ساتھ ہی ایک بڑی ساری فریج بھی پڑی تھی جو کہ کھانے پینے کی چیزوں اور پھلوں سے بھری ہوئی تھی خلیل نے شوکت سے کہا شوکت بھائی یہ کچن میں ہر چیز موجود ہے آپ جب چاہیں اسے استعمال کر سکتے ہیں شوکت پورے کچن کو حیرت سے دیکھ رہا تھا پھر شوکت کی نظر الیکٹرک چولہے پر پڑی تو شوکت نے الیکٹرک چولہے کو دیکھتے ہوئے خلیل سے کہا خلیل بھائی یہ کیا چیز ہے خلیل نے مسکراتے ہوئے کہا شوکت بھائی کے چولہا ہے۔

شوکت نے کہا یہ کیسا چولہا ہے میں نے کبھی ایسا چولہا نہیں دیکھا پتا نہیں اسے کیسے جلاتے ہیں ۔ خلیل نے کہا دیکھو شوکت بھائی اسے ایسے چلاتے ہیں پھر خلیل نے شوکت کو چولہا جلا کر اور بند کر کے دکھایا اور شوکت کو اس کے بارے میں بتایا اور باقی چیزوں کے بارے میں بتایا ۔ تو شوکت نے کہا آپ کا بہت شکریہ خلیل بھائی میں تو بس چائے ہی پیتا ہوں اور یہ آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ نے مجھے اس چولہے کو چلانے کے بارے میں بتایا ورنہ میں تو اسے کوئی ڈیکوریشن پیس سمجھ رہا تھا اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ اتنا بڑا باورچی خانہ ہے پر یہاں کوئی چولہا نہیں ہے تو میں رات میں چائے کیسے بناؤں گا ۔

شوکت کی یہ بات سن کر خلیل کھلکھلا کر ہنسنے لگا اور پھر شوکت کی طرف دیکھتے ہوئے بولا شوکت بھائی آپ یہاں رہ کر سب کچھ سیکھ جائیں گے اس دوران شوکت نے ڈر ڈر کے چولہا جلایا اور پھر جلدی سے بند کر کے اسے غور سے دیکھنے لگا یہ دیکھ کر خلیل پھر سے ہنسنے لگا اور شوکت نے خلیل کی طرف شرما کر دیکھتے ہوئے کہا خلیل بھائی یہ میں نے سہی سے کیا نا ؟؟ خلیل نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور شوکت کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی بغل میں لیئے کچن سے باہر لے آیا اور پھر کچھ دیر آفس میں گپ شپ کرنے کے بعد خلیل نے شوکت سے کہا اچھا شوکت اب تم سب سمجھ گئے ہو نا کہ تمہیں اس آفس میں پوری رات ڈیوٹی کرنی ہے شوکت نے کہا جی جی میں سمجھ گیا ہوں خلیل نے کہا ویری گڈ بس ایک بات کا خیال رکھنا تمہیں کسی چیز کی بھی ضرورت پڑے تو تم مجھ سے بلا جھجک کہہ دینا مجھے اچھا لگے گا ۔ شوکت نے کہا جی ضرور خلیل بھائی۔ پھر خلیل نے سیکیورٹی گارڈ سے شوکت کا تعارف کروایا اور شوکت کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گارڈ سے کہا یہ میرے عزیز ہیں اور یہ یہاں رات میں ڈیوٹی دیا کریں گے اور جب صبح تم آجایا کرو گے تو یہ اپنے گھر چلے جایا کریں گے ۔

گارڈ نے خلیل سے کہا جی سر میں سمجھ گیا اس کے بعد خلیل شوکت کو لے کر اپنے پرانے آفس میں گیا اور وہاں سے کچھ دیر میں کام نمٹا کر واپس شوکت کو گھر لے کر آگیا ۔ اور پھر خلیل نے شوکت سے کہا لو جی شوکت بھائی آج رات آٹھ بجے میں آپ کو آفس چھوڑ آؤں گا تب تک آپ کچھ دیر آرام کر لیں اور ہاں ایک بات کیا آپ موٹر سائیکل چلا لیتے ہیں ؟؟ شوکت نے کہا جی خلیل بھائی پہلے میرے پاس تھی لیکن جب گھر کے حالات تھوڑے خراب ہوئے تھے تو بیچ دی تھی ۔ خلیل نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں آپ کے لیئے ایک بائیک کا انتظام کر دونگا تاکہ آپ خود ہی آفس چلے جایا کرنا اور وہاں سے واپس بھی آسانی سے آجایا کرنا ۔ شوکت نے خلیل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا خلیل بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ خلیل نے کہا ارے اس میں شکریہ والی کوئی بات نہیں ہے اب آپ جائیں اور آرام کریں ۔

اس کے بعد شوکت گھر چلا گیا اور گھر والوں آفس کے بارے میں بتایا اور پھر کچھ دیر کے لیئے سو گیا اور رات ساڑھے سات بجے اٹھا تو صدیقہ نے شوکت سے کہا آپ کر تو لیں گے نا رات کی ڈیوٹی ؟؟ شوکت نے کہا ارے ہاں بس مجھے جاگنا ہی ہے اور کونسا میں نے کوئی بھاری بھرکم کام کرنا ہے وہاں بلکہ میں تو بہت خوش ہوں کہ خلیل بھائی جیسے اتنے اچھے انسان کے پاس کام کرنے لگا ہوں یہ کہہ کر شوکت نے رات کا کھانا کھایا اور پھر خلیل شوکت کو آفس میں چھوڑنے چلا گیا۔ اور وہاں جا کر خلیل نے شوکت سے کہا اچھا شوکت بھائی جیسے ہی یہ سب لوگ جائیں گے تو آپ گیٹ بند کر لینا اور آپکی ڈیوٹی شروع ہو چکی ہے اب میں صبح آؤں گا تو آپ کے لیئے ایک موٹر سائیکل کا انتظام کر کے آؤں تاکہ آپ اپنی مرضی سے آتے جاتے رہنا ۔ اس کے بعد خلیل نے گارڈ سے کہا شوکت بھائی کو آفس کے ایک بار پھر سے بتا دینا اور جب تم جاؤ گے تو خلیل بھائی گیٹ بند کر لیں کیونکہ پھر ان کی ڈیوٹی شروع ہو جائے گی ۔ گارڈ نے کہا جی سر آپ بے فکر رہیں۔
خلیل نے اس کے بعد شوکت سے سلام کیا اور وہاں سے چلا گیا پھر کچھ دیر میں باقی لوگ بھی چلے گئے اور گارڈ بھی شوکت کو سارا کچھ سمجھا کر چلا گیا گارڈ کے جاتے ہی شوکت نے گیٹ بند کیا اور ایک کرسی پر بیٹھ کر پرانے گانے گنگنانے لگا اور کچھ دیر میں شوکت اٹھ کر کچن میں گیا اور فریج کھول کر اس میں پڑی کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھنے لگا

پھر شوکت نے ایک سیب پکڑا اور اسے دھو کر کچن سے باہر لا کر کھانے لگا اتنے میں باہر گیٹ پر دستک ہوئی شوکت نے سیب کرسی پر رکھا اور گیٹ کے پاس جا کر بولا کون ہے لیکن باہر سے کوئی آواز نہیں آئی شوکت نے سمجھا کہ شاید کسی نے غلطی سے کھٹکا دیا ہو گا یہ سوچ کر شوکت واپس کرسی کے طرف بڑھا ہی تھا کہ دوبارہ گیٹ پر دستک ہوئی شوکت نے وہیں سے کہا کون ہے یار ۔ یہ کہتے ہوئے شوکت گیٹ کی طرف بڑھا اور شوکت نے کہا کون ہے باہر لیکن پھر سے کوئی جواب نہیں آیا شوکت اب گیٹ کے پاس ہی کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا اگر اب کسی نے گیٹ پر دستک دی تو فوراً گیٹ کھول کر اس کو پکڑ لوں گا ابھی شوکت یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ہی گیٹ پر ایک زور دار دستک ہوئی شوکت نے بنا پوچھے ہی فوراً گیٹ کھولا اور گیٹ سے باہر چلا گیا لیکن باہر کوئی نہیں تھا شوکت غصے سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر غصے میں بڑبڑاتا ہوا واپس گیٹ سے اندر آیا اور گیٹ بند کر لیا اور پھر گیٹ کی طرف دیکھنے لگا لیکن دوبارہ گیٹ پر کوئی دستک نہیں ہوئی شوکت نے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تم جو بھی ہو باز آجاؤ ورنہ اگر دوبارہ تم نے شرارت کی تو میں تمہارا سر توڑ دوں گا ۔ کیونکہ میں مذاق کرنے کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی مذاق برداشت کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے شوکت واپس کرسی کے پاس آیا اور سیب اٹھا کر کھانے لگا تو شوکت نے دیکھا کہ جہاں سے شوکت نے سیب کھایا ہوا تھا وہاں بہت سارا خون لگا ہوا تھا شوکت نے سوچا کہ شاید یہ میرے کمزور دانتوں کی وجہ سے ہوا ہے اس وجہ سے شوکت نے وہ سیب آفس کی دیوار کے اوپر سے باہر پھینک دیا اور کچن سے ایک اور سیب لا کر کھانے لگا اور کھاتے ہوئے ہی پھر سے گنگنانے لگا کہ اچانک شوکت کو اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کے گنگنانے کی آواز بھی سنائی دینے لگی ۔

شوکت نے اچانک گنگنانا بند کر دیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا تبھی اچانک سے کوئی گیند جیسی چیز آکر شوکت سر پر لگی اور سائیڈ پر گر گئی شوکت نے جلدی سے اٹھ کر اس گیند کی طرف دیکھا تو وہ وہی سیب تھا جو کہ شوکت نے خون آلود ہونے کی وجہ سے باہر پھینک دیا تھا لیکن یہ آدھا سیب تھا اور اس پر کوئی خون نہیں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے خون والی جگہ سے کسی اس سیب کو کھا لیا ہو شوکت حیرانی سے اس سیب کو دیکھ رہا تھا اور پھر شوکت اس دیوار کی طرف دیکھنے لگا جہاں سے شوکت نے یہ سیب پھینکا تھا اور دیکھنے کے بعد شوکت نے وہی سیب اٹھا کر دوبارہ باہر پھینک دیا اور جس طرف سیب پھینکا اسی طرف دیکھنے لگا اور ادھر ہی دیکھتے ہوئے شوکت واپس بیٹھ کر اپنا سیب کھانے لگا تبھی شوکت کو گندی سی بدبو آنے اور شوکت کو لگا جیسے اس کے منہ کا ذائقہ بدل گیا ہے شوکت نے فوراً منہ سے سیب کو باہر اگل دیا تب شوکت نے دیکھا کہ جو سیب شوکت نے اگلا تھا وہ بلکل کالے رنگ کا تھا اسے دیکھتے ہی شوکت نے ہاتھ میں پکڑے سیب کی طرف دیکھا تو وہ بلکل گلاسڑا ہوا تھا اور اس میں سے بدبو آرہی تھی

شوکت نے جلدی سے وہ سیب بھی باہر پھینک دیا اور کلی کرنے کے لیئے کچن میں گیا اور نلکہ کھول کر کلی کرنے لگا لیکن جیسے ہی شوکت کلی کرتا تو بہت سارا کالے رنگ کا پانی اس کے منہ سے باہر آتا ایسا لگ رہا تھا جیسے شوکت نے کوئلہ کھا لیا ہو کافی دیر کلی کرنے کے بعد جب شوکت کے منہ سے صاف پانی باہر آیا تو شوکت نے یہ دیکھ کر ایک لمبی سانس لی اور پھر فریج کھول کر اس میں سے دودھ نکال کر چائے بنانے لگا اتنے میں باہر سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چلتا ہوا کچن کی جانب آرہا ہے ۔

شوکت نے کچن کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے چولہے کی آنچ ہلکی کی اور کچن سے باہر جا کر دیکھنے لگا کہ کون ہے لیکن باہر کوئی نہیں تھا تبھی شوکت کو کسی کرسی کے سرکنے کی آواز سنائی دی شوکت جلدی سے وہاں گیا جہاں شوکت نے کرسی رکھی ہوئی اور جیسے ہی شوکت کرسی والی جگہ پر پہنچا تو شوکت اک دم سے حیران رہ گیا کیونکہ جس جگہ شوکت کرسی چھوڑ کر گیا تھا کرسی وہاں نہیں تھی بلکہ ایک دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی کرسی پر چڑھ کر دیوار پھلانگ کر باہر گیا ہو ۔ یہ دیکھ کر شوکت حیران پریشان ہو گیا اور شوکت کو لگا کہ کہیں کوئی چور تو نہیں تھا جو کہ کچھ چوری کر کے دیوار کے راستے پھلانگ کر باہر چلا گیا ہے ۔ شوکت سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا آخر وہ کیا چوری کر کے لے گیا ہو گا ۔

یہ سوچتے ہوئے اچانک شوکت کو یاد آیا کہ میں تو کچن میں چائے چولہے پر رکھ کر آیا ہوں اور شوکت جلدی سے کچن کی طرف بھاگا اور جیسے ہی شوکت کچن میں گیا تو پھر سے حیران رہ گیا کیونکہ شوکت کی ساری چائے ابل کر چولہے پر گری ہوئی تھی اور چولہے کی آنچ فل تیز ہو گئی تھی اس کے ساتھ فریج کا دروازا بھی کھلا ہوا تھا جس میں کافی چیزیں زمین پر گری ہوئیں تھی لیکن ان میں سے ایسی بدبو آرہی تھی جیسے کہ وہ بھی سیب کی طرح خراب ہو گئی ہوں اور گل سڑ گئی ہوں شوکت نے جلدی سے جا کر چولہا بند کیا اور پھر زمین سے گری ہوئی چیزیں اٹھانے لگا اتنے میں پھر سے چولہے کی آواز سنائی دی شوکت نے چونک کر چولہے کی طرف دیکھا تو چولہا پھر سے تیز آنچ پر جل رہا تھا شوکت نے پھر سے چولہا بند کر دیا اور جیسے ہی شوکت فریج کی طرف بڑا تو چولہا پھر سے چلنے لگا شوکت نے غصے سے چولہا بند کرتے ہوئے کہا بند ہو جا میرے باپ تو اتنے میں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی شوکت نے چونک کر کہا کون ہے ؟؟ یہ کون ہنس رہا ہے سامنے آؤ ؟ لیکن شوکت کو کوئی نظر نہیں آیا شوکت نے باہر جا کر ادھر اُدھر دیکھا باہر بھی کوئی نہیں تھا پھر شوکت نے غصے میں ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے دو چار گالیاں نکالی اور واپس کچن میں آیا تو فریج کا دروازا بند تھا یہ دیکھ کر شوکت نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑا اور زمین پر بیٹھ گیا اور خود سے کہنے لگا یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے کہیں یہ رات کی ڈیوٹی کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا کیونکہ اس وقت تو میں سویا ہوتا ہوں شاید یہ نیند کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔

یہ کہتے ہوئے شوکت پھر سے اٹھا اور چائے کا برتن دھو کر دوبارہ چائے بنانے کے لیئے چولہا جلایا اور فریج سے دودھ نکال کر چولہے پر رکھے برتن میں دودھ ڈالنے لگا تو چولہا پھر سے خود ہی بند ہو گیا شوکت نے کہا کیا مصیبت ہے پہلے خود ہی جل رہا تھا اب خود ہی بند ہو رہا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے شوکت نے دوبارہ چولہا جلایا تو تھوڑی دیر کے بعد پھر سے چولہا بند ہوگیا شوکت اب پوری طرح غصے میں آچکا تھا اور شوکت نے چولہے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھاڑ میں جا یہ کہتے ہوئے شوکت باہر جانے لگا تو اچانک سے چولہا پھر سے تیز آنچ میں جلنے لگا شوکت نے جلدی سے پلٹ کر اس کی آنچ ہلکی کی اور چائے بنانے لگا اور کچھ ہی دیر میں چائے تیار ہو گئی شوکت نے جلدی سے چائے مگ میں ڈالی اور خوشی سے چائے کا مگ پکڑ کر چولہا بند کیا اور باہر جانے لگا تو چولہا پھر سے تیز آنچ پر جلنے لگا جیسے دیکھ کر شوکت نے کہا اب تو بھاڑ میں جا یہ کہتے ہوئے شوکت کچن سے باہر آگیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر چائے پینے لگا اور خود سے کہنے لگا اب ساری تھکاوٹ دور ہو جائے گی اور اب میں اس چور کے بچے کو دیکھو گا یہ کہتے ہوئے شوکت مزے سے چائے پینے لگا اور پھر سے گنگنانے لگا کہ اچانک شوکت کی کسی چیز دھمک سنائی دی شوکت ایک دم سے چونک کر اٹھا اور چائے کا مگ ایک سائیڈ پر رکھ کر ایک لکڑی سے بنا ہوا صفائی والا برش اٹھا کر جہاں سے دھمک سنائی دہی تھی اس طرف آہستہ آہستہ سے بڑھنے لگا اور جیسے ہی شوکت اس جگہ پر پہنچا تو شوکت نے دیکھا کہ کوئی عجیب سی چیز شوکت سے کچھ دوری پر زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن شوکت اس کو سہی سے دیکھ نہیں پارہا تھا کیونکہ وہ جس جگہ بیٹھی ہوئی تھی اس جگہ پر بہت اندھیرا تھا شاید وہاں کی لائٹ خراب تھی یاں وہاں کوئی لائٹ تھی ہی نہیں۔

چوہدری اور شیطانی چال

شوکت اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور اس کو غور سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن شوکت کو صرف ایسا ہی دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی بڑے بڑے بالوں والا کوئی ریچھ کا کوئی اور جانور ہے لیکن وہ ہل جل نہیں رہا تھا بس اس کے عجیب وغریب سانس لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی اب شوکت تھوڑا گھبرا گیا تھا کہ اگر یہ کوئی جنگلی جانور ہے تو اس کو ڈنڈے سے نہیں روکا جا سکتا ابھی شوکت یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ چیز اچانک سے کھڑی ہو گئی اور جیسے ہی وہ کھڑی ہوئی تو اسے دیکھ کر شوکت کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ وہ چیز قد میں شوکت سے کافی اونچی لگ رہی تھی شوکت نے دل میں سوچا کہ یہ تو واقعی میں کوئی ریچھ ہے اور شوکت آہستہ آہستہ وہاں سے پیچھے ہٹا اور جیسے ہی شوکت اور اس کے درمیان فاصلہ بڑھا تو شوکت وہاں سے بھاگ کر کچن میں گیا اور وہاں سے ایک بڑی سی چھری ہاتھ میں لے کر آہستہ آہستہ سے کچن سے باہر نکلا اور اسی چیز کی طرف واپس جانے لگا اور جیسے ہی شوکت اس جگہ پر واپس گیا تو وہاں کوئی نہیں تھا

نادان لڑکی کی خوفناک داستان - پہلا حصہ

شوکت گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا اس وقت شوکت پوری طرح سے کانپ رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری بھی اس کے ہاتھ کے ساتھ کانپ رہی تھی تبھی اچانک شوکت کی نظر دیوار کے اوپر پڑی تو شوکت اک دم سے ڈر گیا اور اسی بکھلاہٹ میں اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری چھوٹ کر زمین پر گر گئی کیونکہ کہ شوکت نے دیکھا کہ وہی چیز دیوار پر بیٹھی آنکھیں پھاڑے شوکت کی طرف دیکھ رہی تھی اس کے بال بہت ہی لمبے تھے اور اس کے ہاتھ پاؤں جانوروں کی طرح تھے اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں رات میں کسی ٹارچ لائٹ کی طرح چمک رہیں تھیں یہ دیکھ کر شوکت کے پاؤں تلے زمین ہی نکل گئی نے اس کی طرف دیکھنے کے بعد اپنی کانپتی ہوئی گردن سے نیچے گری ہوئی چھری کی طرف دیکھا تو شوکت کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ وہ زمین سے چھری اٹھا لے شوکت نے اپنے کانپتے ہوئے قدم پیچھے لینے شروع کئ تو شوکت کو لگ رہا تھا جیسے کہ اس کے قدم ہی اس کا ساتھ نہیں دے رہے ۔۔۔

.............................
قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے کلک کریں
............................ 
............................   


Urdu Stories Keywords
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں