بھنور قسط نمبر 8

 
 
بھنور
قسط نمبر 8
وہ بچہ مجھے بازار کے عقب میں لے جارہا تھا جہاں کچی جھونپڑیاں اور غربت کے مارے لوگ اپنی زندگی سے رہے تھے دو وقت کی روٹی کمانے رہے تھے
یہاں بھی ماحول عجیب یاسیت بھرا تھا مایوسی ہی مایوسی ہر چہرے پر احاطہ کئے ہوئے تھی جانے یہ لوگ کتنے برسوں سے یو نہی غمذدہ تھے اور کیوں ..!!؟؟
کئی چہروں نے مجھے حیرت سے دیکھا تھا کئی نے تعجب سے گھورا یہ اس چھوٹے گاؤں کا اندرونی حصہ تھا
بچے نے ایک ڈھلان پر رک کر مجھے ایک طرف ہاتھ کا اشارہ کیا میری نظریں اس کے اشارے کی طرف بے اختیار اٹھی اور میں حیران رہ گئی
ایک پتھریلا راستہ نیچے ڈھلان کی طرف جاتا تھا میں نے جب نیچے نظر ڈالی تو دور سے
مجھے ....!!!!
واقعی .....!!!
مجھے ایسا لگا جیسے کسی مسجد کا گنبد اور مینار ہے ...!!!
میں نے حیرت سے آنکھیں جھپکا کر دوبارہ دیکھا پھر وہ بچے کے طرف مڑی تو سر ہلا ہلا کے اشارے سے بتا رہا تھا کہ یہ وہی ایڈریس ہے جو چٹ میں لکھا ہے
میں بے خیالی اور اپنے سن ہوتے ذہن سے چونکی اور ایک نوٹ بچے کی طرف بڑھا دیا وہ بچہ خوشی سے نعرے لگاتا دوڑتا اچھلتا ایک طرف بڑھ گیا
ڈھلوان کی طرف جانے والا پرانے پتھروں سے بنا ہوا یہ راستہ حد درجہ ویران و سنسنان پڑا تھا مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہاں اس طرح مجھے مسجد مل جائے گی
ان شیطانوں کی بستی میں میرے پروردگار کا گھر دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہوئی لیکن خدشات اس خوشی پر غالب آگئے....!!!
میرے واہموں سے میرے قدم ڈگمگانے لگے خوف ودہشت کی ایک سرد لہر میرے جسم میں دوڑ گئی میں فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ کیا کروں ...!!!؟؟
میرے قدم خود بخود ہی اس کچے راستے پر چل پڑے اور میں ڈھلان میں اترنے لگی جلد ہی میں مسجد کے سامنے کھڑی تھی سبز رنگ کے مینار کے سامنے ......!!!!
لکڑی کا دروازہ ادھ کھلا تھا جس میں کے برآمدہ نظر آرہا تھا باؤنڈری پر تعمیر کی گئی پتھروں کی چھوٹی چھوٹی دیواروں سے بھی مسجد کے اندر کا منظر صاف نظر آرہا تھا
جالیوں والے ہال میں کوئی بھی نہیں تھا جہاں نماز پڑھنے کے لئے چادریں بچی تھی میں ڈرتے ڈرتے دروازے سے داخل ہوئی ایک طرف وضو خانہ بنا تھا
میں وضو بنا کر جالیوں والے ہال کے سامنے آگئی جالی کے دروازے پر کنڈی لگی تھی جسے میں نے بآسانی کھول لیا اور اندر داخل ہوئی نیم تاریکی ذدہ ہال پر خاموشی کا راج تھا
ہر سو سناٹا چھایا ہوا تھا میں نے قبلہ رو ہوکر نماز ادا کی اور خوب گڑگڑا کر اپنے رب سے دعائیں مانگی میرے دل کو پھر بھی سکون نہ ملا
جانے کتنا وقت ہوا تھا مجھے آکر باہر دھوپ چمک رہی تھی میں نے مایوسی اور یاسیت سے آہ بھری جانے مجھے کب عبادت کا دوسرا موقع ملے گا
باہر آکر میں کافی حد تک سنبھل چکی تھی پچھلے برآمدے کی طرف جہاں ایک درخت ہلکی ہلکی ہوا میں ڈول رہا تھا میں اس طرف نکل گئیں
اس پیڑ کے جڑوں میں پکی دیواروں سے گول دائرے نما کٹا بنایا گیا تھا جیسا کہ اکثر لوگ درختوں کے نیچے بیٹھنے اور لیٹنے کے لئے بناتے ہیں پاس ایک صراحی رکھی تھی
میں تھوڑا اور آگے گئی تو وہاں سفید لباس میں کوئی موجود تھا میں سرتاپا لرز گئی جن حالات سے میں گزر رہی تھی ان حالات میں کسی انسان کی غیر معمولی حرکت سے بھی میں لرزنے لگے تھی
یہاں تو کوئی سفید لباس میں جس کی پشت میری طرف تھی بیٹھا ہوا تھا جانے اب یہ کیا تھا میرا وہم یا حقیقت ....!!!
انسان ...!!!
یا مافوق الفطرت....!!!
ایک پل میں نے سوچا یہاں سے بھاگ چلو لیکن جانے وہ کونسی امید تھی جس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے ننھی منی بچی کی طرح اس سفید پوش کی طرف لے جانے لگی
اچھائی کی امید......!!!
ذندہ رہنے کی امید....!!!
اس اندھیرے سے نکلنے کی امید.....!!!
اور میں لرزتے کانپتے اپنے بکھرتے وجود کو لے کر اس سفید پوش کے اتنے نزدیک آگئی کہ اسے دیکھ سکوں .....!!!
مجھ پر سکتہ سہ طاری ہوگیا ....!!!
میں بس چہرے کو کیسے بھول سکتی تھی ...!!!
میں اس شخصیت کو پہچان کیسے نہیں سکتی تھی...!!!
بلکل ....!!!
بلاشبہ...!!!!
وہ وہی تھے ...!!!
" تاج الدین بابا....!!" میرا سکتہ ٹوٹا میرا یقین واپس آگیا میں زور سے چیخی اور ان کے قدموں سے لپٹ گئ
میں بے تحاشہ رو رہی تھی میرے آنسو خشک ہی نہیں ہورہے تھے بابا ہولے ہولے میرا سر تھپک رہے تھے اور دعائیں پڑھ پڑھ کر دم کررہے تھے پھر مجھے دم شدہ پانی پلایا
پانی پیتے ہی میری سسکیاں بند ہوگئی میرے آنسو رک گۓ میرے دل کو صبر آگیا اور سکون اترنے لگا میں نے گہری سانس لی
تاج الدین بابا کو اس وقت وہاں دیکھ کر مجھے جو خوشی ہوئی تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتی
ڈوبتے کو تنکے سہارا ...!!!
میں جن اندھیروں میں کھوتے جارہی تھی تاج الدین بابا روشنی کی کرن کی طرح میری زندگی میں داخل ہوگئے تھے
میری مایوسی کو نئی آس.....!!!
میری نا امیدوں کونئی امید.....!!!
میری بے راہ زندگی کو منزل ....!!!
میرے خدشات کو سکون ....!!!
میرے واہموں کو اختتام....!!!!
میرے خوف کو پیار بھری تسلی ....!!
میری وحشتوں کو نرم سہارا...!!!
مل گیا تھا ...!!!
"بابا...!!آپ نہیں جانتے میں کن مصیبتوں میں گرفتار ہوں ...!!"میں نے ہولے سے تاج الدین بابا کو کہا تو وہ مسکرا پڑے
"میں نے اپنا پیغام تو تمہیں بہت پہلے پہنچایا تھا ....!!!تم نے آنے میں تاخیر کردی ...!!؟"بابا نے محبت و شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا
"آپ کو پتہ نہیں بابا میرے ساتھ کیا ہورہا ہے ...!!" میری آنکھیں پھر نم ہوگئی بابا نے شفقت سے مسکرا کر دیکھا
"میں جانتا ہوں گڑیا ....!!!اس لیے ہی میں یہاں تم سے پہلے آگیا تھا .....!!" بابا نے کہا تو میں حیرت سے دیکھنے لگی میں نے خود کوئی سوالات نہیں کئے
تاج الدین بابا نے اپنے پاس سلیقے سے رکھی صراحی سے ایک مٹی کے پیالے میں پانی نکالا اس کو اپنے سامنے رکھ کر باآواز بلند چاروں قل اور اور آیت الکرسی اور دوسری قرآنی آیت پڑھ کر مجھ پر اور پانی پر دم کیا
"لو بیٹی ....!!!اسے بسمہ اللہ کہہ کر پی لو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا دل سے خوف وسوسے اور خدشات ختم ہوجائیں گے ...."
تاج الدین بابا نے پیالہ مجھے تھما دیا میں دھیرے دھیرے میٹھا پانی پینے لگی اور میرے دل کو بہت سکون ملا ذہن سے خوف و دہشت کے سائے چھٹنے لگے
تاج الدین بابا میرے لئے زندگی کی نئی نوید لے کر آئے تھے .....!!
ورنہ تو نجانے میں ان تپتی صحراؤں میں کب تک بھٹکتی رہتی .....!!
کڑی دھوپ میں ٹھنڈے چھاؤں بن کے ....!!
خدشات میں تڑپتی میری روح کے لئے ٹھنڈے پھوار بن کے ....!!!
انوپے سہارا حالات میں میرے لیے نیک سہارا بن کے آئے تھے
جانے مجھے ان بھول بھلیوں سے نجات ملے گی بھی کہ نہیں ....!!!
میں تاج الدین بابا کے ملنے پر خوش تھی تو ان کی پراسرار خاموشی پر فکر مند بھی تھی
وہ یہاں کیسے آئے.....!!؟
اور انھیں کیا پتہ ہے ...!!!؟؟؟
"بابا کچھ تو وضاحت کریں ...!!؟"میں نے گہری سانس لے کر بابا کو دیکھا جو وظیفہ میں مشغول تھے میرے کہنے پر سر ہلانے لگے
" ساری باتیں بتانے کا وقت تو نہیں ہے میرے پاس بس کچھ باتیں کہہ کر تمہیں مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا…...!!" کچھ دیر بعد باب نے اپنی تسبیح سفید کرتے کے جیب میں ڈالی اور میرے طرف رخ کیا
میں وہی ٹھنڈے زمین پر بیٹھی تھی تاج الدین بابا کی طرف متوجہ ہوئی
"اس کہانی کا سلسلہ تو بہت طویل ہے تمہاری پیدائش سے بہت سال پہلے سے شاید ....!!! لیکن جتنا میرے علم میں آیا وہ تمہارے چہرے کے نشانوں سے مجھے اندازہ ہوا .....!!
بسکی میں جو جان لیوا حملہ تم پر کیا گیا تھا وہ حادثہ نہیں سوچے سمجھے اسکین کی تحت کیا گیا تھا ...!!
اللہ کے مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہے سکتا پھر تو یہ بہت بڑی بات تھی تم وہاں سے صحیح سلامت بچ نکلی ....!!!
اور جب تمہاری شادی کی بات طے ہوئی میں کمال کی اصلیت جان چکا تھا جیسے اب تم نے اپنی آنکھوں سے تصدیق کرلی ہے کہ وہ کیسا بہروپیا ہے ...!!؟"
بابا سانس لینے کو رکے وہ شاید تانا بانا بنا رہے تھے کہ مجھے کس طرح سے ساری باتیں سمجھا دیں
"آپ ابو سے اس بات سے ناراض ہیں بابا ....!!؟؟"میں نے دھیرے سے کہا
"نہیں میری گڑیا.....!! میں ناراض نہیں ...!!!میں تو اس وقت بھی ناراض نہیں تھا ...!! ڈر گیا تھا ...!!ان شیطانی طاقتوں کو دیکھ کر ڈر گیا تھا ...!!"بابا نے تاسف سے کہا تو میں نے تعجب سے دیکھا
"مجھے تمہارے ابو سے کوئی شکایت نہیں ہے میرے دوست کو حقیقت کا علم ہی کہاں تھا اور مجھے بھی کوئی خاص علم نہیں تھا ....!!!
اور نہ ہی میں کھل کر ساری باتیں سمجھا پایا اور بتاتا تو بھی کون بھروسہ کرتے یہ جال ایسے ہی بنا گیا ہے ....!!!
میں نے ان شیطانی قوتوں کی طاقت کا اندازہ لگایا تو میرے دوست سے منگنی توڑنے کو کہا تھا لیکن جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ...!!!!
لیکن میں نے تمہارا نکاح ہونے نہیں دیا کمال سے ...!!!!شاید تمہیں یاد ہو ...!!"بابا نے میری طرف دیکھا تو مجھے واضح طور پر نکاح کے وقت اپنے منہ پر رکھا ہوا بابا کا ہاتھ یاد آیا
"اگر نکاح ہوجاتا تو جانے کیا غضب ہوجاتا میں شاید تمہاری کوئی مدد نہیں کرپاتا......!!!
خیر وہ وقت گزرگیا ..!!! مجھے اپنے علم سے معلوم ہوا کہ تمہیں یہاں لایا جائے گا میں اسے لے یہاں تمہارا انتظار کر رہا تھا...!!
اس شری مخلوق نے پورن ماشی کے دن کالے علم سے تمہیں ان جیسا بنانے کی تیاری کر رکھی ہے ....!!!
اگر وہ اپنے عمل میں کامیاب ہوگئے تو تم تاقیامت نحوستوں کے منجدھار میں پھنسی رہو گی ....!!؟
بس میں جیسا کہتے ہوں اس پر عمل کرتی رہو ....!! اس بنگلے میں بھی طہارت اور نماز کی پابندی کرو ایک دن ہی بچا ہے .....!!!؟
میں ساری باتیں تمہیں ایک ساتھ نہیں بتا سکتا اتنا وقت ہے اور نہ ہی موقع ہے ....!!! بس میری ہدایات پر عمل کرنا انشاءاللہ ضرور کامیابی ہوگی ....!!!
انجام اللہ کے ہاتھ اللہ کے فضل وکرم سے تمہارے حق میں ہوگا اور اچھا ہوگا ....!!!
وہ تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں بس ایک رات کی ہی بات ہے پھر سب ٹھیک ہوجائے گا بیٹے"....!!!"
بابا کے آخری جملوں پر مجھے خوف نے گھیر لیا اب جب کے تاج الدین بابا مجھے مل گئے تھے تو میں کسی بھی قیمت پر واپس بنگلہ پر جانا نہیں چاہتی تھی
"بابا میں وہاں نہیں جانا چاہتی مجھے آپ یہاں سے لے چلیں بس ...!!" میری آنکھیں ڈبڈبا گئی بابا نے ملول ہوکر سر پر ہاتھ رکھا
"وہ تمہیں ڈھونڈ لیں گے اس شری مخلوق سے روبرو لڑنا ہوگا اس کے علاوہ ہمارے پاس بیچ کا راستہ نہیں ہے ....!!!
اللہ ہر مشکل کا مشکل کشا ہے بس بیٹی تم مجھ پر بھروسہ رکھو اور جو میں نے ہدایتیں دی ہے ان پر عمل کرو ....!!
اور جس راستے سے یہاں آئی ہو واپس اسی راستے پر چلے جانا .....!!! ڈرنا نہیں اللہ کی مدد ہر وقت تمہارے ساتھ ہے ...!!!" بابا شفقت سے بولے تو میں ہمت مجتمع کرکے اٹھ کھڑی ہوگئی
"بابا میں ہر طرح سے تعاون کے لئے تیار ہوں ....!! میں چاہتی ہوں اس بھنور سے میں نکلنا چاہتی ہوں بابا....!!! " میں نے عاجزی سے کہا
"اللہ نے چاہا تو ضرور...!!! انسان بہت سے باتوں سے لاعلم ہے اور وہی قدرت اپنا کھیل دکھاتی ہے مجھے افسوس ہے کہ تمہیں اپنے پر خلوص اور سچائی کے باوجود یہ دکھ اٹھانے پڑے ...!!!
مگر یہ دکھ وقتی ہوں گے ...!!! تم اس مشکل زندگی سے نجات پاکر آئندہ ایک خوشگوار پاکیزہ زندگی گزار سکیں گی .....!!! انشاءاللہ...!!"بابا نے محبت سے کہا
مجھے بابا کو چھوڑ کر جانا بلکل اچھا نہیں لگتا تھا لیکن مجھے اس بھنور سے نکلنا بھی تھا یہ کیا ہورہا‌تھا مجھے معلوم نہ تھا
مسجد کے باہری دروازے تک بابا میرے ساتھ آئے مجھے ہدایتیں دی جن پر سختی سے عمل کرنے کو کہا جب تک میں چڑھائی چڑھ کر نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی وہ وہی مسجد کے دروازے میں کھڑے رہے تھے
جیسے ہی میں نے ٹیڑھی میڑھی گلیاں عبور کرنا شروع کی کمال مجھے سامنے ہی نظر آئے
"کہاں گئی تھی تم میں کب سے پریشان ہورہا ہوں...!!"وہ قریب آتا ہوا بولا میں کمال کو یوں اچانک سامنے پاکر ڈر تو گئی تھی لیکن قابو پاتے ہوئے چہرے سے ظاہر نہ کیا
"میں راستہ بھٹک گئی تھی ...!!!مجھے واپسی کا راستہ نہیں مل رہا...!!"میرے لہجے میں عجیب سی یاسیت آن ٹھری تھی اور مجھے واقعی ہی لگ رہا تھا کہ میں بھٹک گئی ہوں
"ٹھیک ہے چلو ...!!اب بنگلے سے باہر نہیں نکلنا ...!!!؟" کمال نے نرمی سے کہا اور مجھے آگے چلنے کا اشارہ کیا میں نپے تلے قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی
مجھے تو یہی لگ رہا تھا جیسے میں اپنی موت کے قریب جارہی ہوں اور کمال میری موت بن کے میرے پیچھے چل رہا تھا
بابا سے مل کر حوصلہ تو ملا تھا لیکن کل کی رات کا تنہا خوف مجھے گھیرے میں لے رہا تھا جانے میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا اور کون کون کیا کیا جال بن رہا تھا میرے خلاف.....!!!
ٹیڑھی میڑھی چھوٹی اونچی گلیوں کے جال سے سیدھے ہم بنگلے والے راستے پر نکل آئے گیٹ پر ہی جنگل کتا ہانپ رہا تھا ہم دونوں کو دیکھ کر کھڑا ہوا دم ہلائی اور اندر کے طرف دوڑ گیا
شاید اپنی مالکن کو اطلاع دینے گیا تھا میں کمال کے ساتھی ہی بنگلے میں داخل ہوئی کمال مجھے سیدھے بیڈروم میں لےگیا
"تم یہی آرام کرو باہر نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ...!!"کمال کا لہجہ ناگوار سہ تھا کمال نے دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگادی
میں نے دروازہ کھینچ کر چیک کیا تھا میں نے وضو کیا اور اپنے ہی ڈوپٹ کو کمرے کی ایک سائیڈ صاف کرکے بچھایا اور نماز پڑھ کرکے وہ دعائیں پڑھنے لگے جو مائی اور تاج الدین بابا نے مجھے یاد کروائی تھی
کمال نے رات کا کھانا بھی کمرے میں پہنچا دیا تھا ابیں اس بنگلے میں ایک قیدی کی حثیثت سے رہ رہی تھی کھانا کھاکر میں بستر پر لیٹ گئی
میرے لبوں پر مسلسل دعائیں اور آہیں بھری تھی میں اپنے پروردگار کو تڑپ تڑپ کر مدد کے لئے بلا رہی تھی اس کے سوا میرا کوئی مددگار بھی نہیں تھا
امی ابو کی بھی رہ رہ کر یاد ستانے لگی تھی ان کی ہر بات یاد آرہی تھی ان سے ملنے کو دل بہت تڑپنے لگا تھا ان کے ایک آواز سننے کو مین ترس گئی تھی
مجھے ڈھاکہ آئے ہوئے بیس پچیس دن تو ہوگئے تھے اور ان عجیب وغریب واقعات اور انکشافات نے ان دنوں کو صدیوں پر محیط کردیا تھا
کل شاید میری زندگی کا آخری دن ہوگا تو میں آخری بار اپنے امی ابو کو دیکھنا چاہتی تھی ...!!!
جانے کب انھی بےبسی سوچوں میں مجھے نیند آگئی اور میں پرسکون سے سوگئی کمال پھر کمرے میں نہیں آئے دوسرے دن ناشتہ لے کر آئے تھے میں ابھی بھی باوضو آیتیں پڑھ رہی تھی
کمال طور ہی ڈور سے مجھے دیکھتے باہر کی طرف بڑھ گیا
"موہنی ...!!تم مجھے تکلیف دے رہی ہو ...!!"وہ جب اندر آئے تو بیڈ پر بیٹھ کر مجھ سے شکوہ کیا
"آج اتنی سہانے رات ائی ہے ہم دونوں کے زندگی میں اتنا خوبصورت دن نکل آیا ہے ...!!!ہرر دوری مٹ جائے گی۔.....!!!!پھر تم یہ سب کیوں کر رہی ہو ...!!!خود کو مجھ سے جدا کیوں کر رہی ہو ...!!!"
کمال نے نرمی سے مجھے بہلانے کی کوشش کی
"مجھے امی ابو کی فکر ستارہی ہے کتنے دن ہوئے ہیں ان سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہوا ہے ....!!!دل گھبرا رہا تھا تو میں پڑھنے لگی تھی ...!!!" کمال ہم مسلمان ہیں ...!! نا...!؟؟"میں نے بھی نرمی سے بات کا رخ موڑا
میں کما ل کو موقٹ نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ کھل کر سامنے آجائے اگر اسے یہ بھنک بھی لگ جاتی کہ میں سارے حقائق جان گئی ہوں تو کمال مجھ پر حملہ بھی کر سکتا تھا
میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی مجھ میں اتنی قوت نہیں تھی کہ میں کسی ایسی مخلوق کا سامنا کر سکوں اور تاج الدین بابا کی ہدایت بھی یہی تھی
"اچھا...!!! ذیادہ اداس نہ ہو موہنی آج دوپہر کو ہی مندر والی پہاڑی پر چلنا ہے کل صبح ہم یہاں سے روانہ ہوجائیں گے ...!!" کمال نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہنے لگا
"اس پہاڑی پر اب نہیں جانا مجھے خوف آرہا ہے ...!!"میں نے کہا کمال کی واپسی کی بات پر شاید میں بہت خوش ہوتی گر مجھے حقیقت کا سارا علم نہیں ہوتا
لیکن میری ساری خوشیاں تو روٹھ گئی تھی سارے سکھ کہی کھو گئے تھے دکھوں کے سائے میری زندگی میں ایسے چپک گئے تھے کہ سکھ کی دھوپ بھی ڈھلنے لگی تھی
"آخری بار موہنی ...!!کل ہمیں واپس جانا ہے نہ تم تیار رہنا اوکے....!!!" کمال نے پیار بھرے لہجے میں کہا میں بس کمال کو جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گئی
کمال مجھے میری موت کی تیاری کرنے کو کہہ رہے تھے جانے رات کو کیا ہونے والا تھا کونسا نیا حادثہ میری زندگی بچائے گا یا مجھے ذندگی سے محروم کر دے گا
"میں کچھ دیر سوؤں کا مجھے مت جگانا ...!!!! میں خود ہی جاگ جاؤں گا ...!!!" ظہر کے بعد کمال کمرے میں ائے اور کپڑوں سمیت بستر پر دراز ہوگئے اپنی عادت کے مطابق ان کے جلد ہی پھنکار جیسے خراٹے شروع ہوگئے
حیرت انگیز طور پر ہی وہ اسطرح آکر سویا تھا شاید اللہ کو اس کی قید منظور تھی اسی لیے سارے راستے کھل رہے تھے ورنہ میں تن تنہا تو کمال کو کمرے میں بند نہیں کر سکتی تھی
کمال بے خبر پڑا سورہا تھا تاج الدین بابا نے بعد نماز ظہر مجھے ملنے کے لئے بلایا تھا میں نے بنگلہ کے چاروں کونے کی مٹی اٹھائی اور پچھلے لان کی طرف چل پڑی
تاج الدین بابا نے کہا تھا کہ وہ مکان کے پیچھے برگد کے پیڑ کے بڑے چبوترے پر آجائیں گے میں ان کے طرف ہی تیزی سے بڑھ رہی تھی
مجھے دور سے ہی برگد کے پیڑ والا چبوترا اور بابا نظر اگئے تھے میں پہلی دفعہ ہی اس طرف آئی تھی خوف اور دہشت سے میرا جسم کانپنے لگا تھا
چبوترے تک کا مختصر سہ راستہ بھی مجھے حد درجہ طویل لگ رہا تھا میں جلد از جلد بابا کے پاس پہنچنا چاہتی تھی
"بابا یہ رہی مٹی ..!!!؟" میں نے اپنے دوپٹہ میں بندھی مٹی بابا کی طرف بڑھائی برگد کا پیڑ اور چبوترا بنگلے کے حدود سے باہر تھے
"وہ ساری پراسرار قوتیں مندر میں گئی ہیں رات کی تیاری کرنے تم کمال کے کمرے کا دروازہ باہر سے لگاؤ میں حفاظتی حصار کھینچ کر ابھی آیا ...!!!؟؟"
تاج الدین بابا نے مزید ہدایات دی میں جیسے آئی تھی ویسے ہی اندر کی طرف بڑھ گئی کہی کمال جاگ نہ گئے ہوں یا کمرے سے نہ نکل گئے ہوں
میں ڈرتی ، دوڑتی گرتی پڑتی تیزی سے دالان میں آئی اور کھڑکی سے جھانک کر دیکھا کمال ابھی بھی بے خبر سورہا تھا
میں بےآواز دروازے کے سامنے آئی اور باہر سے دروازہ بند کردیا میں پسینے میں شرابور ہوچکی تھی اور کپکپاہٹ سی مجھ پر طاری تھی
تاج الدین بابا نے اس مٹی پر دم کرکے حصار باندھ لیا تھا تاکہ نہ کمال باہر جاسکے نہ اسکی آواز......!!!
اور نہ ہی کمال کی آواز سن کے کوئی پراسرار قوت کمال کی مدد کو نہ پہنچ جائے ...!!!؟
"بیٹا یہ تمہیں طرح طرح کے چھلاوے دکھائیں گے بلکل یقین مت کرنا بس میرے پاس یہی بیٹھی رہنا میں پڑھتا رہوں گا تم بھی ہولے ہولے دوہراتی رہنا ...!!!
یہ شری مخلوق ہے پل میں دھوکا دیتی ہے ...!!!تم ہر گز کسی بھی فریب کو سچ نہ سمجھنا ....!!" تاج الدین بابا نے اپنی چادر عین کمرے کے سامنے بچھائی
ہم دونوں ہی آگے پیچھے بیٹھ گئے بابا نے پڑھنا شروع کیا وہ قرأت سے قرآن پڑھ رہے تھے میں بھی ان کا سن کر دوہرانے کی کوشش کر رہی تھی
تاج الدین بابا دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر انہماک اور خشوع و خضوع سے آیات کا ورد کر رہے تھے بابا کی آنکھیں بند تھیں
اس سناٹے بھرے وحشت ذدہ ماحول میں تاج الدین بابا کی آواز بہت دور تک جارہی تھی کچھ دیر بعد مجھے کمال کی بند کمرے سے کھانسنے کی آواز آئی
شاید کمال جاگ گیا تھا اور بری طرح کھانس رہا تھا پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی
"کون ہے ...!!!کون ہے باہر ....!!"اب باقاعدہ طور پر دروازہ زور زور سے پیٹا جارہا تھا دروازہ مضبوطی سے بند تھا اور بابا برابر پڑھائی کرتے جارہے تھے
"بند کرو ....!!!یہ پڑھنا بند کرو ....!!!" کمال بری طرح چیخنے لگا تھا
"موہنی ....!!موہنی ...!!! دروازہ کھولو ....!!!موہنی ....!! پڑھنے والے کو روک دو موہنی ...!!!"کمال بری طرح سے تلملاتے ہوئے مجھے پکار رہے تھے کمال کے آواز میں تکلیف کی شدت تھی
"میمونہ ...!!!میری موہنی ...!! دروازہ کھولو...!!"کمال التجا کرنے لگا
"آخری پورن ماشی ہے موہنی ....!!!میرے پچاس سالوں کی تپسیا ہے ....!!! پھر ہم ابدی زندگی گزاریں گے ...!!!میرے دیوتا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے موہنی ....!!!
بس ایک دفعہ اپنا سر میرے دیوتا کے آگے جھکالو....!!! وہ تمہیں امر کردیں گے ....!! موہنی ہم دونوں ابدی زندگی ساتھ جئے گے....!!!!
بس ایک سجدہ کرلو ...!!!ابھی کرلو ....!!! وہ تمہیں معاف کر دیں گے ...!!! موہنی موت کی تکلیف سے بچ جاؤ گی ...!!!موہنی...!!! موہنی ....!!
کمال زور زور سے چلانے لگا جب میری طرف کوئی جواب نہ ملا تو کمال گالی گلوچ پر اتر آیاکمال بار بار تکلیف سے کراہ بھی رہا تھا
شدت تکلیف سے وہ بری طرح تڑپ تڑپ کر چیخ رہا تھا کمال کی وحشتناک چیخوں سے میرا دل لرزنے لگا
"بند کرو پڑھنا ...!!!بند کرو پڑھنا...!!!میں باہر نکل کر تمہیں مار ڈالوں گا .....!!" کمبل نے زور سے دروازے کو پیٹا اور پیروں سے ٹھوکریں ماری
ایک پل تومجھے لگا دروازہ ٹوٹ جائے گا اور کمال باہر نکل آئے گا میں بری طرح کانپ رہی تھی تاج الدین بابا منمہاک سے پڑھ رہے تھے ان پر کمال کی چیخوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا
تاج الدین بابا کے چہرے پر سکون ہی سکون بکھرا تھا بابا کی آواز کا نور ہم دونوں کو گھیرے ہوئے تھا نور سے بابا کا چہرے پر تمازت سے ابھری تھی
"میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے .....!!!مجھے جانے دے میں مالا مال کردوں گا ....!!!بتا۔...؟؟؟ بتا......!!!!کیا چاہیے تجھے ....!!!"کمال کی پر طیش آواز ابھر رہی تھی دروازہ پیٹا جارہا تھا
بابا کو دیکھ کر میں نے بے چینی سے پہلو بلا کمال کی تکلیف دہ آوازیں میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی
اب ایسا لگ رہا تھا کہ کمال پورے کمرے سے ابھرتے پھر رہے ہیں ساری چیزوں کے توڑ پھوڑ کی آوازیں واضح آرہی تھی اور کمال کی آواز میں بھی عجیب سہ بھاری پن آگیا تھا
اگر میں خود دروازہ بند نہ کرتے تو مجھے ضرور کمال کی بدلی ہوئی بھاری آوازوں سے گمان گزرتا کہ کمرے میں کمال نہیں کوئی اور ہے
کمال بےبسی سے منت سماجت پر اتر آیا تھا
وہ گڑ گڑانے لگا تھا آواز بدلی ہوئی تھی جانے کیوں میں نے کمال کو بھی اس شخص میں بدلے ہوئے محسوس کیا جس کی پرچھائی میں نے آئینہ میں دیکھی ت
"مجھ پر ترس کھاؤ...!!! میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا ...!!!موہنی میری پیاری موہنی ....!!! مجھ پر ترس کھاؤ....!!! یہ آواز بند کروادو .....!!! مجھے باہر آنے دو ....!!!
ہم ابدی زندگی گزاریں گے موہنی...!!! خوبصورت اور حسین ...!!پرتعیش و آرام دہ زندگی ...!!موہنی ....!! مجھے باہر آنے دو.....!!
مجھ سے یہ آگ برداشت نہیں ہورہی ....!!!! مجھے تکلیف ہورہی ہے موہنی...!!"کمال کی دلخراش چیخیں میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا
مجھے لگا کہی میں اپنے واہموں میں گھر کر کسی زندہ ا‌سان کو تکلیف تو نہیں دے رہی اور وہ انسان کو ئی اور نہیں میرا شوہر ہے
انہیں سوچوں میں گھری میں بے اختیار اٹھی کہ کمال کو آزاد کردوں ....!!!
مجھے جیسے کمال کی آواز نے قابو کر رکھا تھا وہ پکار رہا تھا میں اسکی تڑپتی آواز کے سحر میں مبتلا ہوچکی تھی اور میں کھڑی ہوگئی اس سے پہلے کہ میں چادر سے باہر قدم رکھتی ....!!!
بابا نے ہاتھ تھاما اور مجھے جھٹکا سہ لگا میں جیسے گہری نیند سے جاگی تھی بوکھلا کر بابا کی طرف دیکھا
بابا کی آنکھیں بند تھی لیکن انھیں میرے اٹھنے اور بہکنے کا فوراً علم ہوگیا انہوں نے آنکھیں کھولیں تھی اور ہاتھ تھامتے ہی میرا سحر ٹوٹ گیا
بابا نے پر جلالی آنکھوں سے مجھے اس طرح دیکھا کہ میں سہم گئی میرے پاؤں رک گئے چادر سے باہر نکلتے قدم کو روک لگ گئی میں وہی بیٹھی گئی
کمرے سے ایسی آوازیں آرہی تھی کہ دو آدمی ایک ساتھ چیخ رہے ہوں اتنی خوفناک آوازیں انسان کی نہیں ہوسکتی تھی یہ کوئی اور ہی مخلوق تھی
کمال اپنی ہر کوشش کر کے جیسے خاموش ہوگیا تھا کمرے سے آوازیں آنے بند ہوگئی تھی کمال بلکل خاموش تھے
اس سنسان ویران بنگلے میں اچانک خاموشی چھاگئی تھی صرف بابا کی پر نور قرائت کی آوازیں گونج رہی تھی
آوازیں ...!!!
مجھے تو ایسا ہی لگ رہا تھا کہ بابا کے قرآن پڑھنے کے ساتھ کئی اور بھی لوگ پڑھ رہے ہیں یا بنگلے کے خاموشی میں آواز گونجنے سے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی
اس لئے کہ اس وقت ہم تینوں کے علاوہ اس بنگلے میں کوئی نہیں تھا اور نہ ہی مجھے نظر آیا تھا
کمرے میں مکمل خاموشی تھی پھر بابا نے اپنی آواز آہستہ کی اور دعائیں مانگی چہرے پر ہاتھ پھیرا دروازے پر دم کیا
عصر کا وقت ہورہا تھا سورج اپنی شعاعیں سمیٹ رہا تھا بنگلے میں ہر سو سرخی چھائی ہوئی تھی
"ایک مرحلہ تو اللہ کے فضل سے صحیح طریقے سے طے ہوگیا ...!!"بابا مجھے سے تو مخاطب نہیں تھے سامنے دیکھ رہے تھے جہاں کوئی نہیں تھا
"نماز عصر ادا کرلیں پھر پہاڑی پر چلیں گے اس بچی کو مکمل طور پر اس بھنور سے آزاد کرانا بھی ضروری ہوگیا ہے ...!!!"بابا کی آواز پھر سے آئی ایسا جیسے دو لوگ باہمی مشورہ کر رہے ہوں اور میں بس ایک کو ہی سن اور دیکھ پارہی تھی
بابا نے مجھے دیکھا شفقت سے مسکرائے بے شک میرے چہرے کا رنگ خوف سے متغیر ہورہا ہوگا اور آنکھیں وحشت ذدہ .....
"تم چھ قدم پیچھے ہو کر نماز کی نیت کرلینا ...!!"بابا نے کہا میں کھڑی ہوگئی اور قدم بڑھانے لگی جیسے جیسے میرے قدم بڑھتے ویسے ویسے چادر کی وسعت بڑھتے جانے لگی
اب مجھے لگتا کہ چادر ختم ....!!!
ایک .....!!
دو......!!
تین......!!!
لیکن چھٹے قدم تک چادر بڑھتی ہی رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ مسجد کی طرح صفیں درست ہوگئی ہیں
یہ سب مجھے خواب ہی لگ رہا تھا میں نے بابا کے پیچھے نماز ادا کی میری وحشت اور خوف کچھ کم ہوگیا تھا دل میں سکون اترنے لگا
تاج الدین بابا کچھ پڑھتے ہوئے اٹھے اور کمرے کا دروازہ کھول دیا
میں نے دیکھا کالا دھواں کمرے سے چیختا ہوا باہر نکل گیا اس میں کئی چہرے بھی نظر آئے جو بری طرح چیختے ہوئے باہر نکل کر ہوا میں تحلیل ہوگیا
میری ہمت نہ ہوئی کے بابا کے پیچھے جاؤں ایسا منظر دیکھنے کے بعد مجھ پر پھر سے کپکپکی طاری ہوگئی تھی میں پسینہ میں شرابور ہوگئی تھی
تاج الدین بابا واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑے ناگ کو اس کے پھن سے پکڑے باہر آئے جو بری طرح مچل مچل کر بابا کے ہاتھ سے لپٹ رہا تھا
"یہ کمال کا سب سے کمزور روپ ہے ..!!!"بابا نے کہا تو میں نے دیکھا یہ وہی ناگ تھا
بلکل ....!!
بلاشبہ...!!!
میری آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی تھی زبان گنگ سی رہ گئی
"بابا یہ تو ...!!!؟"میں ہکلا کر رہ گئی
"ہاں بیٹے یہ وہی ہے بسکی کے قبرستان والے کنویں کا ناگ ....!!!" تاج الدین بابا نے کہا تو میں اب اپنی پھٹی آنکھوں سے انھیں دیکھنے لگی
"یہ تمہیں مارنے کے ہی نیت سے آیا تھا اور تم پر فدا ہوگیا ...!!!"بابا نے کہا میں ہونقوں کی طرح بابا کو دیکھنے لگی
"بیٹھو میں پوری بات بتاتا ہوں ...!!" بابا نے کمال کو کپڑے کے جھولے میں ڈالا اور لپیٹ کر ایک طرف رکھدیا
اب ناگ ذیادہ تلملا نہیں رہا تھا سکون سے بیٹھا رہا میں بابا بھی ایک جگہ بیٹھ گئے
"یہ بڑی انہونی باتیں ناقابل یقین ....!!! عام انسان ایسی باتوں پر کبھی یقین نہیں کرتا ....!!!
میں بھی یقین نہیں کرتا تھا ایسی بہت سی باتوں کے علم کے لئے میں نے دنیا جہاں کا چکر کاٹا ....!!
مذہب ، سائنس ، علم ہئیت ، نفسیات ، فلسفہ ، منطق ، علم نجوم ، علم الاعداد ، علم جفر ، علم رمل ، جادو ، ٹونا ، سحر ، کالا علم ، کالی مخلوق ، ان سب پر میں نے تحقیقات کی
ان سب علم کا تجزیہ کیا تحقیق کی بڑے بڑے عالموں کی خدمات کی ان عالموں کی جنھوں نے دنیاوی زندگی سے الگ اپنی دنیا بسائی تھی
کمال کے آباؤ اجداد جس ناگ سوامی کی پوجا کرکے شیطانی قوتیں حاصل کرتے ہیں ان کے گرو نے انھیں بتایا تھا کہ تمہارے ابو کی نسل کا وارث ان کی نسل کا خاتم کرے گا ...!!!"
تاج الدین بابا سانس لینے رکے مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے میں حیرت و تعجب سے بابا کو دیکھ رہی تھی
"لیکن بابا کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ شیطان پیشن گوئی کرسکیں ...!!!غیب کا علم تو صرف خدا کے پاس ہے ...!؟" میں نے متعجب ہوکر پوچھا
"ابلیس لعین کا آدم علیہ السلام کے وقت آسمانوں میں ہونا اور آدم علیہ السلام و حوا علیہ السلام کو دھوکہ میں مبتلا کرنے والی آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے
کہ آدم علیہ السلام کے زمین پر نزول سے پہلے کے واقعات ہیں اس وقت تک جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں پر منموع نہیں تھا
نزول آدم علیہ السلام اور اخراج شیطان کے بعد سے یہ داخلہ ممنوع ہوگیا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تک شیاطین آسمانوں کی خبریں فرشتوں کی باہمی گفتگو سے سن لیا کرتے تھے
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیاطین آسمانوں میں داخل ہو کر سنتے ہیں
"مقعد منھا مقاعد "
(آیات سورہ جن )
ان الفاظ سے بھی یہ مفہوم ہوتا ہے چوروں کی طرح آسمانی فضا میں جہاں بادل ہوتے ہیں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سن لیا کرتے تھے
ان الفاظ سے خود بھی یہی مترشح ہوتا ہے قبل بعثت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہی تھا
لیکن فضاء آسمانی تک پہونچ کر چوری چھپے کچھ سن لیا کرتے تھے
اسی طرح اس شری مخلوق نے بھی اپنی تباہی کی کچھ باتیں آسمان سے چھپ کر سن لی تھی اور ان کے بڑے نجومی کی پیشن گوئی کے حصاب سے تمہارے ابو کی نسل کے وارث سے ان کی نسل کا خاتم ہوگا
اس لیے تمہاری امی کو کوئی حمل نہ رکتا تھا اس وقت میں نیا نیا اسلام کی تحقیقات کر رہا تھا میں نے اپنے بزرگوار استاد محترم سے بات کی
انھوں نے مجھے اسی وقت کہا تھا لیکن میں اپنی کم علمی اور بے فکری بے یقینی سے ان کے باتوں پر بھروسہ کر نہ سکا
جس کا پچھتاوا مجھے آج بھی ہے جب تم نے اس دنیا میں کروٹ لی تب بھی مجھے میرے استاد محترم نے تمہارے لئے حفاظتی دعائیں دے کر بھیجا تھا
پھر یوں ہوا کہ ہندؤں کے عقائد کے مطابق نسل کا وارث تو لڑکا ہوتا ہے جب تم پیدا ہوئی تھی لیکن غور طلب بات تو یہ تھی کہ تم لڑکی ہوتے ہوئے بھی اپنے ابو کی اکلوتی وارث تھی
اس لیے اس مخلوق نے بسکی سے تمہار پیچھا کیا تھا تم انہیں وہاں اتفاقاً مل گئی تھی بسکی میں گنگا ندی کے کنارے ناگ باسو سوامی کا مندر اصل میں ان کے ناگ سوامی کا ہی مندر ہے
یہ وہی ناگ سوامی ہے جس نے پیشن گوئی کی تھی اور اس مخلوق کو بتایا کہ سیاروں کی نحوست اور نسل کی حفاظت کے لئے تمہیں چودھویں کے دن بلی دے دی جائے گی
اور بھی بہت سی باتیں تھیں جو انھوں نے مجھے بتائی تھی تمہاری منگنی کے بعد جب میں گھر آیا تو بہت ہی زبردست قسم کی شیطانی قوتوں کا احساس ہوا
میں بزدل تو نہیں لیکن ....!!!
سچ بات بتاتا ہوں میں ڈر گیا تھا ان قوتوں سے اور پھر میں دوبارہ گھر آنے کی ہمت نہ کرسکا تمہارے ابو کو آفس میں مل کر سختی سے شادی توڑنے کے لیے کہا تھا
پھر ...!!!
یہ صرف تمہارا تو امتحان نہیں تھا میرے ایمان کا بھی امتحان تھا کہ شیطانی قوتیں کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو ان کا مالک بھی اللہ ہی ہے
میرا ایمان پختہ نہیں تھا میں ڈگمگا گیا میں اپنے استاد کی رہنمائی میں اپنے پروردگار سے معافی مانگتا رہا اور میرے مالک نے مجھے معاف ہی نہیں کیا بلکہ مجھ حقیر پر اپنے انعامات کی بارش کردی"....!!
تاج الدین بابا کہہ کر رونے لگے میری آنکھیں بھی بھر آئیں
"الحمدللہ...!!آدھا کام تو ہوگیا ہے میں چاہتا تو کمال کو اس وقت اللہ کے حکم سے ختم کردیتا اور یہ اسی قابل ہے برسوں سے انسانی خون کے پیاسی یہ مخلوق ....!!
جانے کتنے معصوموں کا قتل کرکے اپنے شیطان کو خوش کیا ہے اس میں سے وہ معصوم بچی سندری اور اس کے ساتھ دوبندوں کا بھی قتل کمال کے سر ہے
شیطانی قوتوں کو حاصل کرنے خدا کو ناراض کرکے یہ شیطان سے طاقت حاصل کرتے ہیں اور شیطان کو خوش کرنے ہر گرا ہوا عمل کرنے تیار ہوتے ہیں
کمال کا اصل چہرہ تو وہی تھا جو تم نے اس دن آئیںے میں دیکھا تھا اور اس شری مخلوق کو بھی سانپ بنننا پسند ہے اسی لئے تو کہا ہے
"قتل موذی قبل اذا....!!!؟"
یہ بہروپیا مخلوق کسی کا بھی روپ لے کر انسانوں کو دھوکا دیتی ہے کمال کی زندگی تمہیں بے گناہ ثابت کردے گی ...!!!"
بابا نے سنجیدگی سے مکمل گفتگو کی انکے آخری جملے پر میں الجھ گئی تھی تبھی ایک بھیانک دھماکہ ہوا اور میں بوکھلا کر کھڑی ہوگئی بابا بھی حیران ہوئے
"موہنی بیٹا وہ لوگوں کو علم ہوگیا ہے کہ میں نے کمال کو پکڑ لیا ہے انھوں نے حفاظتی گھیرا توڑ دیا ہے .....!!!
تم اسی چادر پر بیٹھی رہنا یہ مٹی کا گھیرا تمہاری حفاظت کرے گا کچھ بھی ہوجائے باہر مت نکلنا ورنہ لمحوں میں وہ تمہیں ختم کردیں گے ....!!"
تاج الدین بابا نے لان سے مٹی اٹھا کر میرے گرد آیت الکرسی کا گھیرا بنایا اور ساتھ ہی مجھے ہدایات دینے لگے میں بری طرح لرز رہی تھی
"آیت الکرسی کا ورد کرو اور بھروسہ رکھو اللہ کی ذات کے سوا کوئی ہمیں اس مصیبت سے نہیں بچا سکتا اللہ کو مدد کے لئے بلاؤ
موہنی بیٹا رو نہیں تمہاری دعائیں میرے لیے ہتھیار کا کام کریں گی ....!!!!"تاج الدین بابا نے مجھے پیار سے تسلی دی
میں اپنے خوف پر قابو نہ پاکر رو رہی تھی بابا کے کہنے پر میں نے آیت الکرسی کا ورد شروع کیا
مغرب کو ابھی وقت تھا ابھی تو عصر ہوئی تھی لیکن اچانک اتنے گہرے بادل امڈ آئے کہ ہر سو اندھیرا چھا گیا اس نئی افتاد پر میں گھبرا گئ
بابا کے سفید لباس کی ہلکی سی شباہت پر ہی مجھے محسوس ہورہا تھا کہ تاج الدین بابا کس طرف ہیں ...
..........................
......................... 
......................... 
......................... 
 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں