بھنور قسط نمبر 6

 
 
بھنور
قسط نمبر 6
: "جب میں تمہارے ساتھ ہوں تو ڈرنے کی کیا بات ہے موہنی ...!!؟" کمال کے لہجے میں محبت کی مٹھاس تھی
کمال کا جسم عام طور پر بھی ٹھنڈا ہی رہتا تھا موسم کی گرمی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی آج تو چاند کی روشنی میں کمال کچھ ذیادہ ہی ٹھنڈے ہورہے تھے
" بس کچھ اور دن رہ گئے ہیں موہنی ....!!! پھر نکشتر (زائچہ ) میں شنی (بروج ) کا واس (سفر ) شروع ہوگا تو سب ٹھیک ہوجائے گا تمہیں مجھ سے کوئی جدا نہیں کر سکے گا ...!!" کمال بہت خوش تھے جانے کیا بول رہے تھے میں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا
"اب کون آپ کو مجھ سے جدا کرنا چاہتا ہے ...!!؟" میں بےاختیار سوال کر گئی
"کوئی نہیں ...!!! کوئی کر ہی نہیں سکتا ...!!! بس یہ تو وقتی دوری ہے پھر سب ٹھیک ہوجائے گا ...!!تم بس میرا ساتھ دینا ...!!!میرے ساتھ رہنا ...!!!" میرے سوال پر کمال میرے طرف پوری طرح پلٹ کر سامنے آئے اور میرے چہرے پر آتی لٹوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محبت سے بولے
میں خاموشی سے سر ہلا کر رہ گئی تھی کچھ کہہ نہ سکی کچھ دیر ٹہلنے کے بعد ہم واپس آگئے تھے اور میں عشاء کی نماز کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی واپس آئی تو کمال کے پھنکار سے مشابہ خراٹے روم میں گرج رہے تھے
فرقان ولاء میں ایک بات بڑی غور طلب اور افسوسناک تھی کہ اس گھر میں قرآن پاک کا کوئی نسخۂ نہیں تھا مذہب کے نام پر ہی سہی ایسا کچھ نہ تھا کہ لگتا یہ مسلمان کا گھر ہے
جب تک فرقان صاحب ہمارے ساتھ رہتے تھے میں نے انھیں کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا اور نہ آج تک کمال کو نماز پڑھتے دیکھا تھا مذہب سے اس قدر دوری اور اتنی بےحسی.....!!!
میں شروع سے ہی نماز قرآن پڑھنے کی عادی تھی امی ابو نے مجھے بہت سختی سے اس پر پابند رکھا تھا اور وہی سلسلہ یہاں بھی جاری تھا
کمال کے نماز نہ پڑھنے کا مجھے دکھ تو بہت تھا شروع شروع میں تو میں نے اس سلسلے میں کمال سے بات کرنا مناسب نہ سمجھا
ایک دن کمال خوش گوار موڈ میں تھے تو میں نے بات چھیڑ دی
"کمال آپ نماز پڑھا کریں نماز کی پابندی فرض ہے ...!" میں نے بات شروع ہی کی تھی کہ کمال کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئی میں سہم کر چپ ہوگئی
" تم تو پڑھتی ہو نہ ...!!؟؟ میں نے تمہیں تو نہیں روکا نہ....!!؟؟آئندہ مذہب کے بارے میں کچھ نہ کہنا ...!!! میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہوں ...!!؟؟مجھے نصیحتیں مت کرنا ....!!؟"
تھوڑی دیر کے بعد کمال نے کہا تو اس کے لہجے میں دبی دبی غراہٹ نمایاں تھی میں سہم کر خاموش ہوگئی مجھے ہرگز کمال سے یہ امید نہیں تھی اور اتنی سخت ناراضگی کی وجہ بھی سمجھ نہ سکی
میں نے کوئی انوکھی یا نئی بات تو نہیں کی تھی مجھے بہت دکھ ہوا تھا اس بات کا ذیادہ دکھ تھا کہ دین کی بات کو اس قدر سختی سے منع کردیا کمال کی ناراض ہونے کا مجھے دکھ نہیں تھا
دنیا کی دلچسپی والی باتوں پر کمال اسطرح ناراض ہوتے تو شاید مجھے برا نہ لگتا لیکن نماز والی بات پر مجھ سے ناراضگی کا اظہار کیا اس بات سے ذیادہ تکلیف ہوئی تھی
اس کے بعد میں نے کبھی کمال ‌کو نماز یا دوسری دینی باتوں کے لئےکچھ نہیں کہا ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کا خود ذمہ دار ہے
اور کمال نے بھی نماز شروع نہیں کی تھی مجھے لگتا تھا کہ میری بات بری لگی تو ناراض بھی ہوئے تھے نماز نے کیا کیا تھا وہ تو شروع کردیتے
وہ میرے شوہر تھے ان کا اگر مجھ پر حق تھا تو میرا بھی کمال پر اتنا ہی حق حاصل تھا اور میں ان کا نصف ایمان تھی لیکن بات صرف دین سے دوری تک ہی محدود نہیں تھی یہاں معاملہ کچھ اور ہی تھا
" موہنی ...!!!پیکینگ کر لو ہم گھومنے جارہے ہیں ...!!؟" کمال نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا تو میں چونک سیدھی ہو بیٹھی جو نیم دراز میگزین پڑھ رہی تھی
"ہم کہاں جارہے ہیں ...!!؟؟" میں نے حیرت سے پوچھا
"ہم بنگلہ دیش ڈھاکہ ٹور پر جارہے ہیں ....!! شام کی فلائیٹ ہے تم پیکینگ کر لو دہلی پہنچنا ہے جلدی ...!!!" وہ قریب آکر خوشی سے میرے دونوں گالوں کو چھوتا ہوا بولا
" اوہ اچھا....!!"میں سر ہلا کر رہ گئی اور امی کو فون پر ساری بات بتادی
"بنگلہ دیش میں کیا ہے....!!؟" نئے جوڑے تو یورپ امریکہ جانا پسند کرتے ہیں ....!! یہ ڈھاکہ کیا گھومنے کی جگہ ہے ....!!!امی نے پریشانی میں کہا
"میرا ارادہ تو امی ...!!! عمرہ کا ہی تھا لیکن کمال کا دین کی طرف جھکاؤ بہت کم ہے اس لیے میں خاموش رہی ہوں ...!!!"میں نے تاسف سے کہا
یہ حیرانی تو مجھے بھی تھی کہ ہم بنگلہ دیش کیوں جارہے ہیں اور میں نے کمال سے پوچھا بھی اس نے کچھ یوں جواب دیا
"ہم وہی کے خاص رہنے والے ہیں موہنی...!!!؟شادی کو ایک ماہ ہونے آیا ہے کیا تم میرے رشتہ داروں سے ملاقات نہیں کرنا چاہتی....!!؟؟
میں تو برسوں سے تمہاری تلاش میں بھٹک رہا تھا تو اپنے گھر واپس بھی جا نہ سکا اب جب سب میرے پلان کے مطابق ہورہا ہے تو میں چاہتا ہوں تم بھی سب سے مل لو ....!!؟"
کمال کی باتیں الجھانے والی تھی امی ابو کے مطابق تو فرقان صاحب کے جو رشتہ دار تھے وہ سب یہی تھے یو پی میں تو کمال کن رشتہ داروں کی بات کر رہا ہے
میں وقتی طور پر کچھ بھی سمجھ نہیں پائی تھی بس کمال کو دیکھ کر رہ گئی
"بابا (فرقان صاحب)بھی ساتھ آئیں گے...!!؟"میں نے الجھتے ہوئے پوچھا
"نہیں بابا کو ڈسٹرب نہیں کرنا ویسے بھی میری غیر موجودگی میں ان پر ہی آفس کا سارا لوڈ ہوگا نہ...!!"کمال نے ناگواری سے کہا تو میں ایکدم خاموش ہو گئی
"بی بی جی ....!!!؟کہی جارہی ہیں ...!!"میں باہر آئی تو مالی بابا وہ برآمے میں بیٹھے تھے
"جی مالی بابا...!!"میں نے مختصر بتا کر گھر کے لئے ہدایات دی وہ بس سر ہلا کر ہوں ہاں کرتے رہے
"اپنا خیال رکھنا بی بی جی...!!! اور صاحب جی کو پہچان لینا ٹھیک بارہ کے بعد وہ کیا ہوتے ہیں ....!؟"یہ عجیب سی بات کہہ کر مالی بابا تیزی سے پچھلے لان کی طرف دوڑ گئے
کہتے وقت جو خوف وہ ہراساں آن کی بوڈھی گدلی گدلی آنکھوں میں تھا وہ میں کبھی بھول نہیں سکتی تھی وہ کیا کہہ رہے تھے اور کیوں ...!!!؟؟
بارہ بجے کے بعد کیا ہوتا ہے کمال کو....!!؟
میری الجھنوں کا کوئی حل نہیں تھا میں الجھتی رہی سوچتی رہی ۔جھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا
کمال نے خود ہی اپنی پیکینگ کر رکھی تھی تو میں نے بھی چند جوڑے ضروری سامان لیا اور تیار ہوگئی میری تیاری مکمل کرنے تک امی ابو بھی آگئے
جب امی سے رخصت ہونے لگی تو امی بہت جذباتی ہورہی تھی میرے گلے لگ کر بہت روئی تھی
"پتہ نہیں موہنی....!!مجھے ہول آرہے ہیں...!!تم اس سے پہلے کبھی یوں ایک ماہ کے لئے جدا نہیں ہوئیں اور سسرال بھی گئی تو شہر میں ہی تھی مجھے اطمینان رہتا تھا
فون آتا رہتا تھا تم جب چاہو آسکتی تھی میں ابو کو لے کر آسکتی تھی دل کو تسلی رہتی....!!؟
ا اچا‌نک اتنے دور جارہی ہو تو دل بے چین ہو رہا ہے "ا۔ی آنسو صاف کرتی بولیں تو میں پھر گلے سے لگا گئی
"بچوں کو ہنسی خوشی وداع کرو یہ رونا دھونا کیا ہے ...!؟"ابو نے ڈپٹ کر سمجھایا میں امی کو تسلی دیتی رہی لیکن مجھے بھی بھی امی ابو کو چھوڑ کر رخصت ہوتے ہوئے بہت دکھ ہورہاتھا اور میں پہلی بار ہی ان سے ایسے جدا ہورہی تھی
"امی آپ بے فکر رہیں میں اپنا خیال رکھوں گی وہاں سے فون بھی کرتی رہوں گی اور امی آپ کے لئے کٹھل بھی لے آؤں گی . ...!!!آپ فکر نہ کریں ...!!بس دعا کرتی رہیں ..!!" میں پیار سےامی کو سمجھانے لگی
ابو بھی سر پر ہاتھ رکھے شفقت برساتے رہے دعائیں کرتے رہے یوں میں اپنے امی ابو کی دعائیں لے کر نکلی ابو امی پہلے نکلے پھر ہم لوگ سامان لے کر نکلے
یہ میری زندگی کی پہلی فلائٹ تھی اس وقت ہوائی سفر اتنا عام بھی نہیں تھا چونکہ ابو کے کئی سرکاری افسران سے تعلقات بہت اچھے تھے ان کے کہنے پر میرا اور امی کا پاسپورٹ انھوں نے پہلے ہی نکالا ہوا تھا
ہم دہلی ٹرین کے ذریعے آئے اور ائیر پورٹ پر ہمیں دو گھنٹے مزید کاروائی کے لیے رکنا پڑا تھا جب ہم سب جہاز میں سوار ہوئے تو ایک عجیب واقعہ ہوا
ایسے تو میری زندگی ہی عجیب واقعات سے بھری پڑی ہے
تو ہم سب ہوائی جہاز میں بیٹھ چکی تھے انجن اسٹارٹ تھا ابھی جہاز رن وے پر دو ڑنے ہی والا تھا کہ اچانک جہاز کے انجن بند کر دئیے گئے
مسافروں میں بے چینی پھیل گئی ائیر ہوسٹس سے سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ
"کسی مسافر نے ایک بڑا چوہا جہاز میں گھومتے دیکھا ہے اور اس مسافر نے اس کا ذکر اسٹیورٹ سے سے کیا اور اسٹیورٹ نے کپتان کو بتایا اب جہاز تب تک اڑ نہیں سکتا جب تک وہ چوہا نہ مل جائے ...!!
دوسری صورت یہ تھی کہ سارے مسافر جہاز سے اتارے جائیں اور خالی جہاز میں اس چوہے کی تلاش بسیار کرکے " ٹھکانے " لگایا جائے
مجھے ایسے بھی چوہے سے بہت ڈر لگتا تھا میں نے غیر اراد‌ی طور پر اپنے پیروں کو اوپر کرکے سیٹ پر دبک کر بیٹھ گئی کمال میری حرکت پر زور سے ہنس پڑے
"یہ کیا بات ہوئی بھلا ...!!چوہے سے بھی کوئی ڈرنے کی بات ہے ...!!!"شوخی سے مجھے دیکھا
"اس چوہے کی اتنی مجال کہ میری موہنی کو ڈرائے اسے سزائے موت دی جاتی ہے ...!!!؟" کمال نے شرارت سے کہا تو میں بھی مسکرا پڑی کمال اپنی سیٹ سے اٹھے اور کاک پٹ کی طرف گئے
پھر کمال نے کپتان سے بات کی اور کاک پٹ سے مڑ کر جہاز کے پچھلے حصے کی طرف چلے گئے میں یونہی بیٹھی کمال کے آنے کا انتظار کرنے لگی
کمال کچھ ہی دیر میں ایک بڑے اور موٹے مردہ چوہے کو دم سے پکڑ کر لٹکائے ہوئے واپس آئے سب لوگوں نے یہ دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجائیں
مجھے حد درجہ حیرت ہوئی کہ کمال نے اپنے جلدی چوہے کو ڈھونڈا کیسے پکڑا کیسے اور مارا بھی ....!!!؟؟
بہرحال میں الجھتی رہی حیران ہوتی رہی کمال نے اس چوہے کو جواز کے باہر کسی کے حوالے کیا اور جہاز نے پرواز بھری
"آپ کو چوہا اتنے جلدی کیسے مل گیا جبکہ آپ نے اسے ادھر ادھر بھی تلاش نہ کیا کوئی بھاگ دوڑ نہ کی سیدھا جہاز کے عقب سے پکڑ لائے کیا آپ نے اسے وہاں جاتے دیکھا تھا ...!!؟"
کمال جب میرے پاس آکر بیٹھ گئے تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے تعجب سے پوچھا کمال مجھے دیکھ کر شوخی سے مسکرایے
"وہ وہی ہاتھ باندھے میرے ا‌نتظار میں کھڑا تھا میں نے اسے سزائے موت دی تھی میری موہنی کو ڈرانے کے جرم میں تو اسے مرنا تھا ....!!"
کمال کی بات سے میں اور حیران ہوگئی مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کمال کیا کہنا چاہتے ہیں ان کے جواب نے مجھے لاجواب سہ کر دیا تھا
سارے راستے سفر کے دوران جہاز کے مسافر کمال کو دلچسپی سے دیکھتے رہے اور کچھ مشکور بھی تھے کہ وہ مسافر جہاز میں سفر ہی اتنا روپیہ خرچ کرکے وقت بچانے کے لیے ہی تو کرتے ہیں
اور ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھنٹوں تک انہیں رکنا پڑے تو پھر کیا فائدہ ہوائی جہاز سے سفر کا ...!!!
کچھ مسافروں کو تعجب بھی ہورہا تھا کہ اتنے جلدی اور آسانی سے کمال نے چوہا کیسے پکڑ لیا اور کمال کی وجہ سے ایک مشکل سے بچ گئے ورنہ جانے کتنی تاخیر ہوجاتی ...!!!!
جلد ہی ہمارا سفر ختم ہوا ہم ڈھاکہ ائیر پورٹ پر اترے ڈھاکہ میں ہم ایک کانٹیننٹل لاج میں ٹھرے تھے ڈھاکہ میں فرقان صاحب نے کمال کے لئے کچھ کاروباری کام بھی ان کے ذمہ سوپنا تھا
اس سلسلے میں کمال کو ڈھاکہ کے مشہور موتی جھیل کے علاقے میں جانا تھا جہاں ذیادہ تر سرکاری اور کاروباری دفتر واقع تھے
ایک دفعہ مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے کمال کام کرتے رہے اور میں اکیلی حد درجہ اکتا گئی تھی اس علاقے میں میرے دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہیں تھی اور لاج میں اکیلے بیٹھی بھی میں اور ہوگئی تھی
صبح جب کمال تیار ہوکر موتی جھیل جانے لگے تو میں نے کہا
"آپ مجھے مارکیٹ چھوڑ دیں میں کچھ شوپنگ کر لوں گی ...!"
"اور واپسی ...!!"کمال نے میرے آنکھوں میں دیکھا ان کی آنکھیں کچھ سرخ سی تھی جیسے نیند پوری نہیں ہوئی تھی اور مجھے اچانک مالی بابا کی بات یاد آئی
"صاحب جی کو رات بارہ کے بعد دیکھنا وہ کیا بنتے ہیں ....!!"
"میں کچھ سوتی ساڑھیاں خریدوں گی اور رکشہ یا ٹیکسی سے دوپہر تک آجاؤں گی ....!!" میں نے سر جھٹک کر نارمل انداز میں کہا
کمال راضی ہوگئے مجھے ہدایات دی اور مارکیٹ ائیریا میں ٹیکسی سے چھوڑ کر خود اسی ٹیکسی سے موتی جھیل چلے گئے
پہلے شاپنگ سینٹر پڑتا تھا میں پہلی دفعہ ہی ایسے اکیلی شوپنگ کر رہی تھی کچھ عجیب بھی لگ رہا تھا میں ابھی بازار میں گھوم ہی رہی تھی میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص میرا پیچھا کر رہا ہے
اس احساس سے ہی میں پریشان ہوگئی کہ یں تو کسی کو جانتی بھی نہیں ہوں تو کوئی میرا پیچھا کیوں کرے گا
پہلے تو میں اسے اپنا شک ہی سمجھی لیکن میں نے اس شخص کو ہر جگہ اپنے پیچھے پایا تو مجھے تشویش ہوئی ایسا لگتا تھا کہ میں نے اسے پہلے بھی کہی دیکھا ہے
پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ جب ہم ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے تو یہ بندہ کاؤنٹر پر کھڑا تھا اور جب تک ہم وہاں کھڑے رہے ٹیکسی کے لئے وہ ہمارے ساتھ ہی رکا ہوا تھا
افف میرے اللہ وہ ہوٹل سے ہی میرے پیچھے لگا ہے میں اندر سے ڈر گئی تھی لیکن میں نے اپنا خوف ظاہر ہونے نہیں دیا اور خود کو تسلیاں دینے لگی
میں اس شخص کے ارادے سمجھ نہیں پائی تھی وہ آخر چاہتاکیا تھا چہرے مہرے اور لباس سے تو مہذب بندہ لگ رہا تھا اگر تھا تو یوں پیچھے کیوں لگ گیا ماجرا کیا ہے....!!!؟؟؟
میں ایک دم رک گئی اور ہمت کرکے اس شخص کے پاس پہنچی وہ مجھے رکتا دیکھ کر خود بھی رک کر ایک دکان کے شوکیس پر بے چین نظریں ڈالنے لگا میں اس کے قریب آئی دکان پر رش تھا اور اس پاس بھی لوگ تھے جس سے میری ہمت بڑھ گئی
"بھائی صاحب....؟؟؟کیا بات ہے آپ میرا پیچھا کیوں کر رہے ہیں ....!!!؟؟ کیا چاہئیے آپ کو .....!!؟!" میں نے اپنا لہجہ سخت رکھا اور قدرے زور سے بولی کہ کچھ لوگ تو متوجہ رہیں
اس نے کرتا جاکیت اور پتلون کے ساتھ سر پر ٹوپی بھی پہنی تھی عمر سے ادھیڑ عمر کا سلجھا ہوا شخص لگ رہا تھا اس شخص سے ایسی توقع تو کوئی نہیں کرے گا جیسے وہ میرا پیچھا ہوٹل سے یہاں تک کر رہا تھا
پہلے تو وہ مجھے اپنے پاس اچانک پاکر ہی چونکا تھا شاید اسے ہر گز توقع نہیں تھی کہ میں اسے براہ راست بات بھی کروں گی
"بہن جی آپ ناراض نہ ہوں آپ میری اوننی ( چھوٹی بہن ) ہو میں کوئی برا آدمی نہیں ہوں ...!!!؟"اس نے کچھ توقف کے بعد نرمی سے اپنے بنگالی لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کی مجھے تو اردو ہی لگی تھی وہ ہندی بھی بول سکتا تھا
ہندی اور اردو میں ذیادہ فرق بھی نہیں تھا بس لکھائی مکمل طور پر الگ تھی لیکن ہندی زبان بول چال میں اردو سے قدرے ملتی جلتی سی ہے
"میں اس آدمی کے پیچھے تھا جو آپ کے ساتھ تھا وہ آپ کا کون ہے اور آپ اس کو کب سے جانتا ہے.....!!!!؟"اس نے مدھم لہجے میں کہا
"آپ اس آدمی کا پیچھا کیوں اور کب سے کر رہے ہو ...!!؟"میں نے حیرت کو چھپاتے ہوئے الٹا اسے سے سوال کیا
"مجھے اس آدمی کی تلاش کئی برسوں سے ہے ...!!"اگر آپ برا نہ مانیں تو ...!!"اس آدمی نے مجھے فٹ پاتھ پر بنے ہوٹل جن کی ٹیبل کرسیاں باہر بھی رکھی تھی اس طرف اشارہ کیا اور عاجزی سے بولا
"آپ اگر اپنا تھوڑا سہ وقت دیں تو ...!!؟"
میں ایک لمحہ سوچنے کے بعد سامنے لگے کرسیوں پر سے ایک پر جابیٹھی وہ بنگالی چائے کا آرڈر دے کر میرے سامنے بیٹھ گیا میں اسے منع کرتی رہی پرواز نے سنے نہیں
جانے وہ کیا کہنے والا تھا اس طرح کسی اجنبی کے ساتھ بیٹھنا مجھے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا لیکن میں پریشان بھی ہوگئی تھی کہ یہ ہمارا پیچھا کیوں کر رہاہے
میں ایک سرکاری آفیسر ہوں اور ڈھاکہ کا میں چپہ چپہ جانتا ہوں اب ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں میری زندگی کا ایک عجیب کیس بھی تھا جس میں یہ بندہ جڑا ہوا تھا اور حیرت ہے یہ پچیس سال پہلے بھی ایسا ہی تھا جیسا اب ہے ...!!" بنگالی نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر تعجب سے کہا
"میں اسے غلط فہمی کم نظری یا آنکھوں کا دھوکہ نہیں کہہ سکتا میرے پاس ثبوت ہے....!!! ان دنوں میں شروع شروع ڈیوٹی پر لگا تھا اور یہ میرا پہلا یا دوسرا کیس ہوگا ....!!"
بنگالی نے اپنے جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے کچھ تصویریں دکھائیں جس میں بنگال کپڑوں اور رہن سہن میں کمال ہی تھے تصویریں واقعی ہی بہت پرانی تھی بلیک اینڈ وائٹ کلر کی جس کا پیپر بھی ختم ہوگیا تھا
کمال کی تصویریں جیل کے لباس میں لی گئی تھیں اور قیدی نمبر بھی لکھا گیا تھا چہرے کی ہر طرف سے تصویریں تھی کسی شک کی گنجائش نہیں تھی
میں نے حیرت سے بنگالی کو دیکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے اس نے کاغذات بھی بتائے اور کیس کی فائل بھی بتانے کا کہا
"وہ ہو بہو ویسا ہی ہے جیسا اب ہے اس لیے میں اس شخص کے پیچھے لگ گیا میں سادے ڈریس میں ہوں اس لیے آپ پہچان نہ سکی میں خود ہی آپ سے بات کرنے کے موقع ڈھونڈ رہا تھا "آفیسر نے اپنی بات مکمل کی
میری حالت غیر ہونے لگی یہ سب کیا تھا کیا حقیقت تھی اور کیا فریب میں سمجھ نہیں سکی تھی یا میں سمجھنا نہیں چاہتی تھی اس بیچ چائے آگئی اور میں زہر مار کر پینے لگی
"آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں..!؟"میں نے پوچھا
"بس آپ اپنا خیال رکھیں اور کوئی بھی خطرہ ہوتو مجھ سے رابطہ کریں ...!!!اگر آپ مجھے قابل اعتماد سمجھتے ہیں تو یہ بتا سکتی ہیں کہ وہ آپ کا کون ہے ...!؟" بنگالی نے پوچھا تو وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی خالی پیالی رکھ کر میں کھڑی ہوگئی
"آپ کا بہت شکریہ ....!!؟"میں نے پل ٹیبل پر رکھا وہ منع کرتا رہا لیکن میں آگے بڑھ گئی
: وہ شخص جھوٹ کیوں بو لے گا اس میں اس کا فائدہ کیا تھا میں یوں ہی خالی ذہن مارکیٹ میں دوپہر تک گھومتے رہی میرا ذہن اس قدر منتشر تھا کہ میں نظروں کے سامنے کی چیز بھی ٹھیک سے دیکھ نہیں پارہی تھی
ظاہر ہے یہ بات میں امی ابو کو بتا نہیں سکتی تھی اور نہ ہی کمال کو پوچھ سکتی تھی کہ وہ شخص کون تھا اور کیوں کمال کے بارے میں ایسا کہہ رہا ہے عجیب کشمکش میں پھنس گئی تھی ...!!!
ڈھاکہ کے اگلے تین دن کمال نے مجھے خوب سیر سپاٹا کروایا دھان منڈی جو ڈھاکہ کا ایک اعلی اور بہت پوش ائیریا تھا وہاں بھی لے گئے
وہاں فرقان صاحب کے بہت پرانے دوست رہتے تھے شاید کمال کے پیدائش سے پہلے کی دوستی تھی کمال مجھے ان سے ملوانے بھی لے گئے تھے کچھ حد تک میرا ذہن بھی تازہ دم ہوگیا تھا اس آفیسر کی باتوں کی بدگمانی کمال کے ساتھ رہتے ہوئے زائل ہوگئی تھی
فرقان صاحب کے دوست ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے ہماری بہت خاطر مدارت کی تھی ان گھر بھی جدید طرز سے فرنیشڈ تھا پچھلے سال ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا انھوں نے اسکی تصویر بھی بتائی وہ بہت خلوص سے باتیں کر رہے تھے
"بیٹا کمال ...!!!تم نے اپنی پیدائش سے اپنے والدین کو کتنی خوشی دی ہوگی یہ صرف تمہارے والدین ہی جانتے ہوں گے وہ جب تک ڈھاکہ میں رہے تھے ڈاکٹروں نے فرقان کو بہت مایوس کیا تھا "ان کا لہجہ نرم اور محبت واضح تھی
ان دنوں فرقان اور بھابھی کو اولاد کی بڑی خواہش تھی کسی در کو انھوں نے نہیں چھوڑا تھا اپنی مراد پانے کےلئے بہت منتیں کی تھی
ڈاکٹری علاج تو تب ذیادہ نہیں تھا لیکن فرقان بھابھی کو بلاناغہ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا تھا ڈاکٹروں نے تمہارے والدین کو بہت مایوس کیا تھا بلکہ ڈاکٹرز تو نے ناممکن قرار دے دیا تھا...!!"
وہ تفصیل سے بتانے لگے میں بے خیالی میں سن رہی تھی کمال بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے میں ان کی ناگواری اور بے چینی نہیں سمجھ سکی تھی
جیسے کمال کے حالات تھے ویسے ہی میرے بھی تھے میں بھی منتوں مرادوں سے ہی دعاؤں سے اکلوتی اولاد ہوئی تھی اور جب کوئی ایسی بات کرتا تو مجھے خوشی ہوتی تھی
کمال کی ناگواری بےچینی سے پہلو بدلنا اور بات ا بدلنا مجھے سمجھ نہیں آیا شاید وہ نہیں چاہتے تھا کہ میں اس کے ماضی کی کوئی بھی بات جان سکوں
کمال نے جلدی ہی موضوع بدل دیا اور کاروباری باتیں کرنے لگے میں جلد ہی اکتا گئی لیکن خاموش بیٹھی رہی کہ کمال برا نہ مانیں
ڈھاکہ کے بعد ہم لوگ کاکس بازار ، چٹا گانگ ، کھلنا ، وغیرہ گھومتے رہے تھے یہاں کی مچھلی کمال کو بہت پسند آئی وہ کھانے کے بالکل شوقین نہیں لگتے تھے لیکن یہاں کی لذیذ خوش ذائقہ ، خوش رنگ مچھلی کمال نے بہت شوق سے کھائی
مجھے یہاں کے پان بہت پسند آئے ایک سے ایک خوش ذائقہ اور خوبصورتی سے چاندی کے ورق میں لپٹے پان ....!!؛
اس دن کمال موتی جھیل گئے تھے تو میں بھی ٹہلتے ہوئے باہر نکلی سامنے وہی سرکاری آفیسر کھڑا تھا میں ٹھٹکی
"سلام اوننی ( چھوٹی بہن ) کیسی ہیں آپ...!؟"اس آفیسر نے پوچھا
"خیریت...؛؛!؟"میں نے ذرا سختی سے پوچھا تو وہ مجھے ہوٹل کے لاؤنج کی طرف جھک کر اشارہ کر گیا مجھے بہت برا لگا تھا پچیس سال پہلے واقعہ جو ناممکن تھا اسے دوہرا کر یہ بندہ میرا آج خراب کرنے پر کیوں تلا تھا
کمال جیسا بھی تھا اب میرا شوہر تھا ابو نے ساری تحقیات کرکے سوچ سمجھ کر ہی اسے میرے لیے چنا تھا اور وہ ہر صورت مجھے قبول تھا
"لگتا ہے آپ کمال کا پیچھا نہیں چھوڑنے والے ...!!"میں نے طنزاً بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ الجھ گیا
"میں بس آپ کو خبردار کرنے آیا ہوں یہ ہماری شاید آخری ملاقات ہو ...!!؟"اس کا لہجہ ہی نہیں وہ خود بھی پریشان تھا میں نے چونک کر اسے دیکھا
"جب سے آپ سے ملا ہوں مجھے عجیب وسوسے آرہے ہیں ...!!مجھے میری بیوی بچوں کے قتل کھلی آنکھوں سے نظر آرہے ہیں ....!!؟؟
میرے عزیزوں کو تکلیف دئیں گے یہ کہہ کر مجھے ڈرایا جا رہا ہے شایدنہیں چاہتے کہ میں آپ کو کچھ بھی بتاؤں...!!!"اس نے عجیب سے لہجے میں کہا وہ آفیسر بہت الجھا ہوا تھا
"میں نے کمال کے بارے میں جو بتایا وہ سچ تھا ...!!! پچیس سال پہلے یہ سندر بن کا پہاڑی لڑکا اجۓ تھا جس نے تین قتل کئے تھے اور کوئی ثبوت نہیں تھا کہ یہ قتل اس نے کئے ہیں ....!!!؟
اجئے اچانک ہی سندر بن کے قریب بسے ایک غریب قصبے میں کسی کا بھانجہ کہہ کر نمودار ہوا تھا اس نے ایک سولہ سالہ لڑکی اور اس کے باپ کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے منہ بولے ماما کو بھی مار دیا تھا ..!!!
اس وقت اجئے میرے پاس نیم پاگل حالت میں لایا گیا تھا اور اسے کچھ یاد نہیں تھا اس نے اپنی محبوبہ اور ان دو مردوں کو کیوں قتل کیا
کوئی ثبوت ، گواہ ، چشم دید نہ تھا اور وہ بری الزمہ ہوکر چلا گیا یہ کیس مجھے اس لیے بھی یاد تھا کہ اجئے کے ساتھ کچھ تو پراسرار تھا جو میں سمجھ نہیں پایا کہ کیا تھا
اور وہی مافوق الفطرت میرے پیچھے پڑی ہے میں اپنی زندگی کے آخری دن سکون سے گزارنا چاہتا ہوں اس لئے اپنے آبائی گاؤں واپس جارہا ہوں.....!!"
اس آفیسر نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کچھ بھی کہنے اور پوچھنے سے روک دیا تھا اور اپنی پوری بات مکمل کر کے میری طرف ایک پرچیاں بڑھائی وہ گھبرایا بھی ہوا تھا
"آپ کو ساری معلومات اس پتہ پر مل جائے گی بس اپنا خیال رکھیں ...!!!"وہ اٹھا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی ہوٹل سے نکل گیا وہ جو ایڈریس والی پرچیاں دے گیا تھا اس پر سندر بن کے وہ قصبے کا پتہ درج تھا
میں نے وہ پتہ آنے پرس میں رکھا اور الٹے قدموں سے کمرے میں واپس آگئی تھی آج تو میں بھی ڈر گئی تھی یہ کیا کہہ رہا تھا یہ آفیسر ....!!!؟؟؟
اب مجھے کمال سے خوف آنے لگا حالانکہ کمال نے ابھی تک مجھ سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی لیکن یہ کیسا انکشاف تھا جو وہ آفیسر کر گیا تھا
میرا سکون اور چین جیسے غارت ہوگیا انڈیا کال کرکے میں کافی دیر تک امی سے بھی بات کرتی رہی تھی لیکن میرا دل بہل نہ سکا جیسے جیسے شام ہونے لگی میرا دل ہولنے لگا
مجھے عجیب خیال آنے لگے کمال جب واپس آئے تب بھی میں پریشان سی کمال کا چہرہ تکتی رہی تھی مجھ میں کچھ کہنے یا پوچھنے کی ہمت باقی نہیں تھی
"کیا بات ہے ...!!آج بہت اکتا گئی ہو ...!!؟ کہی باہر نہیں گئیں ...!!؟" کمال نے میری خاموشی نوٹ کرتے ہوئے کہا اور ٹائی کو ڈھیلا کیا اور صوفے پر دراز ہوگئے
"نہیں ...!!!نہیں تو...!!بس طبیعت بوجھل تھی ...!!؟"میں نے اپنا لہجہ نارمل رکھنا چاہا تھا لیکن مجھے خود بھی اپنی آواز کی کپکپاہٹ واضح محسوس ہوئی کمال نے چونک کر دیکھا کہا کچھ نہیں
"مجھے یہ جگہ بہت اچھی لگی ہے ...!!!میں سوچتا ہوں بابا سے بات کروں اور اپنا کاروبار یہاں بھی شروع کروں یہاں اسکی ڈیمانڈ بھی بہت ہے اپنا ایک دفتر موتی جھیل پر بنالوں ...!!!"
رات کے کھانے سے فارغ ہوکر میں گیلری میں کھڑی شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے لطف لے رہی تھی تبھی کمال بھی پاس آکر کھڑے ہوئے تھے اور سنجیدگی سے کہنے لگے میں چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ سکی بس دیکھ کر رہ گئی
"تم نے یہاں کے سندر بن کا نام سنا ہے ....!!!" کمال نے کہا تو میں پوری طرح لرز اٹھی اور حیرت سے کمال کو دیکھ کر نفی میں سر ہلا دیا
"وہی تو باقی فیملی رہتی ہے نہ ...!!بابا کے کام آج ہی تو سارے نپٹے ہیں اور دو دن میں بلکل فری ہوجاؤں گا پھر ہم چلیں گے ....!!!"کمال نے مسکرا کر مجھے دیکھا میں نے گھبرا کر نظریں ہٹا لیں اور نیچے دیکھنے ے لگی تاکہ کمال میرے چہرے رنگ اور گہبراہٹ محسوس نہ کر سکیں
جبکہ میں نے آہستہ سے اپنے ماتھے پر آئے پسینہ کو صاف کردیا تھا مجھے شدت سے احساس تھا کمال بغور مجھے ہی دیکھ رہے ہیں ان کی نظریں میرے جسم کے آر پار ہوتی محسوس ہورہی تھی
"سندر بن...!!!ڈھاکہ کا مشہور جنگل ہے بہت ہی بڑا اور گھنا جنگل ہے بہت خوبصورت اور حسین بھی ہے قدرت کا شاہکار ....!!!
شکار سے بھرا ہوا ہر طرح کے جانور بھی پائے جاتے ہیں موسم بھی بہت دلفریب ہوتا ہے بندہ ایک دفعہ جو ادھر جائے واپسی کا نام ہی نہ لے ....!!!" کمال نے اپنے نرم لہجے میں مٹھاس بھرتے ہوئے میرا ہاتھ تھام کر پرجوش انداز میں کہا
میں سر ہلا کر رہ گئی کہنے کو میرے پاس تھا بھی کیا ذہن ماؤف ہوا جارہا تھا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آفیسر پر بھروسہ کروں یا کمال پر ....!!!؟
پھر ایک خیال میرے ذہن میں گزرا جب سندر بن جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس جگہ جاکر تحقیق ہی کر لو یہ بہت ہی مشکل امر تھا لیکن ساری زندگی خدشات میں گزارنے سے اچھا تھا میں سندر بن جاتی
مجھے جنگلات اور شکار میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے جنگل کی آب و ہوا راس آتی تھی
دو دن بعد ہم ٹرین کے ذریعے سندر بن روانہ ہوئے جنگل کی حد جہاں سے شروع ہوئی تھی وہاں بس ایک ہی بنگلہ تھا وہاں ہم ایک شکستہ گاڑی کی مدد سے بمشکل پہنچے
اس علاقے میں ہندو اور بدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد ذیادہ تھی دور سے ہی مندروں کے مینارے نظر آرہے تھے اور ایک پہاڑی کا مندر تو صاف نظر آرہا تھا
جہاں ہم رکے تھے وہ بنگلہ حد درجہ ویران اور پرانا تھا رنگ تو جانے کب کا اڑ چکا تھا دیواریں بھی اکھڑی ہوئی تھیں
میں حیران تھی کہ رہنے کے لئے کمال نے یہ اجاڑ بنگلہ کیوں لیا ہے کبھی کبھی کمال کی سوچ میری سمجھ میں نہیں آتی تھی یا کمال مختلف سوچ رکھتے تھے اور ایسے موقعوں پر میں ذیادہ بحث بھی نہیں کرتی تھی
بنگلہ بہت پرانا تھا گیٹ سے لان تک اور باؤنڈری پر بھی درخت لگے تھے اتنے ہرے بھرے جنگل اور اتنی موسمی بارش کے بعد بھی وہ عجیب پھٹ پھٹ سے درخت مایوسی سے کھڑے تھے لان میں جگہ جگہ جنگلی گھاس اگی تھی
بڑے بڑے دالان دھول مٹی سے اٹے پڑے تھے عجیب سے ویرانیت اور یاسیت پھیلی تھی بڑے بڑے کمروں کے بڑے بڑے بوسیدہ لکڑی کے دیمک زدہ مٹی سے اٹے ہوئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار دروازے کھلتے ہوئے بستے تو لگتا کئی عورتیں ایک ساتھ بین کرکے رو رہی ہوں
کمروں کے اندر جالے تنے تھے سردی کی بساند پھیلی تھی جگہ جگہ چھت سے سندر بن کی موسلادھار بارشوں کا پانی ٹپک ٹپک کر چھٹے چھوٹے تالاب بنا رہا تھا
مجھے عجیب وحشت نے گھیر لیا جبکہ کمال بہت خوش لگ رہے تھے ان کا گلابی چہرا کھل کھل اٹھا تھا مسکراہٹ لبوں سے جیسے چپک گئی تھی آنکھیں بے پناہ روشن تھی
اس بنگلے کے اجاڑ یا خوفناک ہونے کا رتی بھر اثر نہیں ہورہا تھا وہ مجھ سے پہلے ہی بنگلے کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے جیسے کوئی بہت پرانی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو
"میاؤں ....!! میاؤں...!!"میں اسی آواز پر بری طرح دہل کر اچھلی تھی یہ آواز بلکل میرے قریب سے آئی تھی
ایک کالی سیاہ پیلے آنکھوں والی بلی میرے پیروں کے پاس کھڑی تھی اس کی جسامت عام بلیوں کے مقابلے دوگنی ہوگی اس کے چمکدار کالے بال دھوپ کی تمازت سے چمک رہے تھے
میں نے ابھی ابھی ہی پورے لان پر نظر ڈالی تھی بلکہ اپنے آس پاس ہی دیکھ رہی تھی تب تو اس بلی کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا یہ اچانک کہاں سے نمودار ہوئی
میں گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہٹی میری آواز خوف سے حلق میں ہی دب گئی میں کمال کو پکارنا چاہتی تھی وہ بلی اپنی خوفناک آنکھیں مجھ پر گاڑھے ہوئے بیٹھی تھی اور شاید یہ صرف میرا وہم ہی تھا کہ وہ مجھے خوفذدہ دیکھ کر محفوظ ہوئی تھی
ورنہ کیا کسی جانور سے ایسے چہرے کے تاثرات کی امید کی جاسکتی تھی بھلا
بلی نے دو تین دفعہ آسمان کے طرف منہ کر کے دردناک آوازیں نکالی اور مجھے دیکھتے ہوئے ایک چکر لگایا جیسے میرا جائزہ لے رہے ہو میں دہشت سے پسینہ پسینہ ہوئی جارہی تھی
"موہنی ...!!ڈرو نہیں ...!!یہ کچھ نہیں کرے گی ...!!پالتو بلی ہے ...!!" کمال کی آواز پر جیسے میں ہوش میں آئی دوڑ کر کمال کے پیچھے چھپ گئی
"آپ کہاں چلے گئے تھے ...!!"اور ساتھ ہی خفگی سے کہہ رہی تھی جبکہ کمال بلی کی طرف بڑھے اور اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے
مجھے عجیب لگا وہ بلی اپنی "میاؤں میاؤں" کر کر کے کمال سے باتیں کرنے لگی کمال کے گرد محبت سے پھرنے لگی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے پاس اگی جھاڑیوں میں غائب ہوگئی
"پالتو ہے ڈرنے کی بات نہیں ہے ...!!" کمال نے مجھے تسلی دی یقیناً میرے چہرے کا رنگ سفید ہوگیا ہوگا میری حالت کچھ دیر میں اعتدال پر آئی
"ہم اس بھوتیاں بنگلے میں کیسے رہیں گے ...!!!"میں نے کانپتی آواز کو قابو میں کرتے ہوئے کہا تو کمال ہنس پڑا مجھے میرے کانوں پر یقین نہیں آیا صرف کمال نہیں ہنسے تھے بلکہ دو تین مزید لوگوں کی ہنسی کی آوازیں میں نے صاف سنی تھی جو مجھے اپنے آس پاس سے ہی آئی تھی
"جیسے یہ کبوتر اور بلی رہ رہی ہیں ...!!"کمال نے ہنستے ہوئے کہا
"فکر نہ کرو موہنی میں صفائی کروادیتا ہوں ...!!!بس کچھ دنوں کی بات ہے پھر تمہیں سب بتادوں گا تم سب سمجھ جاؤ گی ...!" کمال نے اپنا بازو میرے گرد لپٹاتے ہوئے لاڈ سے کہا اور ایک اچھی حالت والے کمرے میں لے گئے
"میں ابھی آیا ...!!یہی بیٹھی رہو باہر مت نکلنا ...!"کمال مجھے ایک کرسی کی دھول جھٹک کر بٹھاتے ہوئے بولے اور باہر نکل گئے
میں وہی بیٹھی کمرے کا جائزہ لینے لگی یہ بڑا کمرہ تھا جگہ جگہ کمانوں سے بندھے پرانے دھول میں اٹے پردے خراب ہوکر لٹک رہے تھے اس کمرے میں ڈبل بیڈ اور صوفہ بھی تھا جو بہت پرانے طرز کا لکڑی سے بنا ہوا تھا
جس پرکئے گئے نقش کہی کہی ابھی بھی واضح لگ رہے تھے دو بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں اور بیڈ کے قریب ہی قد آدم بڑا سہ سنگار دان رکھا ہوا تھا اور اس کے قریب ہی آتش دان تھا
کچھ ہی دیر بعد کمال نے ایک مریل سےغریب بنگالی کو اٹھا لائے اور صفائی کی ہدایتیں کرنے لگے
"جب تک یہ صفائی کر لے ہم گھوم کر آتے ہیں اور شام کے کھانے کا انتظام بھی کر لیں ...!!؟" کمال نے آخر میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا تو میں بغیر سوال کے ان کے ساتھ نکل پڑی
وہاں جنگل کے علاوہ کھونے اور تفریح کی کوئی جگہ نہیں تھی ایک طرف پہاڑی کے اوپر مندر تھا دوسری طرف ایک چھوٹا سہ گاؤں ....!!!
اس گاؤں میں ذیادہ تر ایسے لوگ اسے تھے جو لکڑی کا کام جانتے تھے جن کی روزی جنگل سے وابستہ تھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا انھیں مشینوں کے ذریعے تراش کر ان کی مختلف اشیاء بناتے تھے
یہاں لکڑی سے بنی کافی چیزیں بازار میں رکھی ہوئی تھی وہ لوگ بھی بسے تھے جو شکاریوں کو جنگل میں لانے لیجانے کا کام بھی کرتے تھے اور اچھا خاصا معاوضہ بھی لیتے تھے
ہم چھوٹے سے بازار سے گزر رہے تھے کافی الگ الگ چیزیں دیکھی میں نے...!! ہندو اور بدھ مذہب کی عجیب عجیب سی مورتیاں جو لکڑی کو تراش کر بنائی گئی تھی چھوٹی چھوٹی یہ مورتیاں بڑی پیاری بھی لگ رہی تھیں
یہاں کی بستی میں چکما قبائل کے لوگ ذیادہ تھے یہ برما اور آسام کی نسلیں ہیں جو کاروباری سلسلے میں ادھر آکر بس گئی تھی ان قبائلی لوگوں کے چہرے عام بنگالیوں کے چہروں سے مختلف ہوتے ہیں
جن سے ان کی پہچان فورا ہی واضح ہوجاتی ہے وہاں جتنے بھی لوگ بازار میں تھے گھوم رہے تھے خرید رہے تھے بیچ رہے تھے ہمیں حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے
کچھ دیر جانے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ وہ میرے حجاب سے مڑ مڑ کر دیکھا رہے تھے یہاں ساری آبادی غیر مسلم تھی اور مسلمان شاید اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتے ہونگے
اس لیے وہ سارے لوگ حیران تھے کہ اس جوڑے کو کیا افتاد آن پڑی ہ وہ اس طرف نکل پڑے اب تو مجھے بھی عجیب لگ رہا تھا کہ ہم خواہ مخواہ ہی اس طرف آگئے
جب ہم بنگلے پر واپس پہنچے تو تاریکی نے آسمان کو گھیر لیا اور گیٹ پر ہی وہ سیاہ بلی اپنی چمکتی آنکھوں کے ساتھ شاید ہماری ہی منتظر تھی تبھی ہمارے آتے ہی گیٹ سے اتر کر گھانس میں غائب ہوگئی
بلی کو دیکھ کر مجھ پر دہشت سی طاری ہوگئی تھی میرے پیر کانپنے لگے ایک تو اندھیرا اور یہ ویران ب‌گلہ دوسری یہ پلی مجھے کوئی مخلوق لگ رہی تھی
کانپتے لرزتے میں کمال کے پیچھے ہی گیٹ سے داخل ہوئی تو وہ میل بنگالی وہی کھڑا تھا اس کی نظروں میں بھی عجیب سی وحشت تھی اس نے چابی کمال کے طرف بڑھائی
کمال نے اس کو اسکے کام کی اجرت دی اور وہ دوڑتا ہوا ایک طرف دوڑ پڑا میں بھی سہمی ہوئی کمال کے پیچھے چلنے لگی ایک چھوٹا سہ بلب روشن تھا جو اس بڑے برآمدے کو روشنی دینے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا
اس بنگالی نے بس وہی بیڈ روم ہمارے لئے صاف ستھرا کیا تھا بیڈ پر صاف ستھری چادر ڈال دی تھی دھول بھی کافی حد تک صاف کر چکا تھا کمرہ اب کافی بہتر اور اچھا لگ رہا تھا
یہاں بھی بہت ہی مدھم روشنی کے دو بلب ر شں تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میری بینائی ہی کم ہوگئی ہے کوئی چیز واضح طور پر نظر نہیں آرہی تھی
کمال نے آتے وقت ہی کھانے کا انتظام کر لیا تھا تو میں نے کھانا کھایا کیونکہ کمال نے منع کردیا تھا اس لیے میں نے جیسے تیسے وہ کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ گئی دن بھر کے تھکانے والے سفر اور ذہنی ڈپریشن سے میں جلد ہی نیند کی وادیوں میں پہنچ گئی
آوازوں کی بھنبھناہٹ ہی تھی جس سے میں جاگی تھی اور اٹھ کر بیٹھ گئی کمرے میں کمال نہیں تھے اور مسلسل کئی لوگوں کی خوش گپیوں کی آوازیں آرہی تھی
یہاں اس ویرانے میں کون آئے گا ک۔ال کہاں ہے میں انہیں خیالوں میں بستر سے اتر کر باہر آئی کمرے کے سامنے والی راہداری کے آخری کمرے سے ہی آوازیں آرہی تھی خواتین کی بھی آوازیں تھی میں ان کی باتیں سمجھ نہیں پارہی تھی جانے ہنسی زبان تھی جو وہ بول رہے تھے
میں نپے تلے قدموں سے بڑھتی رہی تھی اندر سی روشنی آرہی تھی فانوس جگمگا رہے تھے ہر چیز جیسے نکھری نئی اور صاف ستھری سلیقے سے رکھی تھی ایک طرف کھانے کا ٹیبل سجا تھا جو ادھ کھلے دروازہ سےمیں نے دیکھا
ایک طرف لائین سے دائرے کی شکل میں شاندار صوفے اور ٹیبل پر سجی چائے دانی رکھی تھی کمرہ بھی اتنا صاف ستھرا تھا جیسا نیا نیا رنگ روغن کرکے ڈیکوریٹ کیا گیا ہے
اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ آوازیں آرہی تھی نظر کوئی نہیں آرہا تھا میں نے جھانک کر تقریبا سارا کمرہ
جیسے ہی میں نے آگے قدم بڑھا کر کمرے کا دروازہ تھاما اچانک لائٹ بند ہوگی اور گھپ اندھیرا ہوگیا ایک پل لگا میری بینائی چلی گئی ہو
"موہنی .....!!"تبھی کسی نے میرے پیچھے سے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور میں بری طرح اچھل کر پوری قوت سے چیخی
آرام سے....!!! آرام سے ....!!"کمال نے مجھے کندھوں سے تھاما میں بیڈ پر بیٹھی تھی یہ کیسے ممکن تھا
"کوئی ڈراونا خواب دیکھا...!!!!سب ٹھیک ہے آرام کرو ...!!کمال کہہ رہا تھا کمرے میں وہی دو ملگجے سے بلب روشن تھے کمال اپنی سائیڈ پر بیٹھے مجھے سونے کی تلقین کر رہے تھے سارا ماحول ویسا ہی تھا
بس مجھے یقین نہیں تھا تو یہ کہ میں بستر پر تھی کیونکہ میں تو باہر گئی تھی اور میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر ابھی تھے بوسیدہ دیمک زدہ دروازے کا برادہ لگا ہوا تھا
بس پلک جھپکتے ہی منظر غائب ہوگیا تھا بلکہ میں بھی ....!!! کمال کی آنکھیں نیند سے بوجھل تو نہیں لگ رہی تھی پر وہ شاید میری تسلی کے لیے بنا رہے تھے میں بھی سر ہلاتی حیرت ذدہ بستر پر لیٹ گئی
نیند تو جیسے میری آنکھوں سے روٹھ گئی تھی اس سانچہ کے بعد میں پھر سو نہ سکی مالی بابا کی بات پھر میرے کانوں میں گونج رہی تھی اور یہ بارہ کے بعد کا وقت تھا
صبح سب سے پہلے میں اس خوبصورت کمرے کو دیکھنا چاہتی تھی جہاں رات کو میں نے آوازیں سنی تھی
لیکن میں مزید حیران اور دہشت زدہ رہ گئی تھی کہ....!!!
رات کو جہاں میں نے کمرہ دیکھا وہاں کچھ نہیں تھا راہداری سیدھی نکلتی ہوئی لان سے جا ملی تھی
میں نے خوف سے جھر جھری لی یہ کیسے ممکن تھا وہ خواب نہیں تھا میں نے حقیقت میں دیکھا تھا میں خود کو ہی یقین نہیں دلا پارہی تھی اس عجیب وغریب بات کا کون یقین کرے گا
کمال کو کہتی تو شاید وہ مجھے ذہنی مریضہ سمجھ لیتے ابھی میں اپنی ہی سوچوں میں غلطاں پریشان کھڑی تھی کہ
"میاؤں میاؤں...!!"اس آواز پر بری طرح اچھل پڑی وہ بلی بلکل میرے سامنے راہداری کے اسی کونے پر کھڑی تھی جہاں رات کو میں نے کمرہ دیکھا تھا
میں نے اپنی آنکھیں مل کے دیکھا
آپ مجھے پاگل نہ کہیں .....!!!؟؟
بلکل مجھے یقین تھا یہ میرا واہمہ نہیں تھا
یا میں خواب میں تھی .....!!!
نہیں ہر گز نہیں....!!!
بلکل میں نے دیکھا تھا اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے میں نے دیکھا ....!!!؟؟
وہ بلی مجھے دیکھ کر مسکرائی اور ایک ادا سے چلتی ہوئی میرے آنکھوں کے سامنے غائب ہو گئی بلکل ایسے ہوا میں تحلیل ہوگئی جیسے کبھی وہاں تھی ہی نہیں ....!!!
"موہنی ...!!تم ٹھیک ہو ..!! کیا ہوا موہنی کانپ کیوں رہی ہو ...!! اتنا گھبرا کیوں گئی ہو ...!!کیا ہوا موہنی ...!!"کمال میرے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے محبت سے پوچھ رہے تھے
میری حالت بہت غیر ہورہی تھی میں کانپتے پیروں سے دو قدم اٹھا کر لان کی سیڑھی پر بیٹھ گئی
"مجھے کچھ بتاؤ گی...!!!" کمال نے کچھ دیر بعد پوچھا میری حالت بھی کافی بہتر تھی اور گھبراہٹ بھی کم ہوگئی تھی اور ۔یں سرے سے حالات پر غور کر رہی تھی سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز ہم واپس گھر چلتے ہیں ...!!! بہت گھوم لیا ..!"میں نے بے بسی سے کمال کو دیکھا
"ڈر ،.....!!! کس چیز سے ڈر لگ رہا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں موہنی کوئی تمہیں نقصان پہنچا نہیں سکتا ...!!!" کمال نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا
"چلو ‌ ناشتہ کر لو ابھی ہمیں پہاڑی پر جانا ہے ہمارے بزرگوں کا آشیرواد بھی لینا ہے یہ آخری پورن ماشی ہے موہنی پھر ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا ...!!!
پورن ماشی کو بس چار ہی دن رہ گئے ہیں تم پریشان نہ ہو پھر ہم واپس چلے جائیں گے بس چار دنوں کی ہی بات ہے ....!!!
ماں نے ہمارے لیے بہت انتظام کر رکھا ہے وہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے اور اب پورن ماشی کو وہ بھی ہونگے جب تم بھی میری طرح امر ہوجاؤ گی.....!!؟"
کمال جانے اور کیا کیا کہہ رہے تھے میں منہ کھولے کمال کی باتیں سمجھنے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی میرے تو ایک لفظ سمجھ نہیں آیا تھا
میں جس اذیت وکرب سے گزر رہی تھی شاید ہی کمال اس کا اندازہ لگا سکتے تھے میں ذہنی طور پر بکھر چکی تھی خوف و دہشت سے میرے اعصاب جواب دینے لگے تھے
میں یہاں کسی کو مدد کے لئے بلا سکتی تھی نہ کسی کو پہچانتی تھی اور نہ ہی امی ابو کو اطلاع کر سکتے تھے اور کمال میری بات سمجھنے تیار نہیں تھا
کمال کی عجیب و غریب باتیں میرے سمجھ سے بالاتر تھی حالات نے عجیب انداز میں پلٹا کھایا تھا میں نے جیسے تیسے ناشتہ کرکے چائے پی اور کمال کے ساتھ پہاڑی پر جانے کے لئے نکل پڑی
میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا تھا کہ میں جنگل یا یہاں کی خاموش اور ویران جگہ کو دیکھوں لیکن میں کمال کے بغیر اس بنگلے میں رکنا بھی نہیں چاہتی تھی
پہاڑی پر جانے کے لئے اس بستی سے گزر کر بازار کے راستے ہی اوپر جانے کا راستہ تھا ہم بازار کے راستے سے گزر کر اب چڑھائی والے راستے پر چل رہے تھے
یہ چڑھائی بس پہاڑی کی طرف جارہی تھی جس پر مندر یا پگوڈا بنا ہوا تھا یہ ٹیڑھی میڑھی سی پگڈنڈی تھی اور اس پاس گھنا جنگل......!!!
جنگل میں سورج کی نرم نرم روشنی چھن چھن کر آرہی تھی اور دور سے کچھ ایسے تاریک گوشے بھی دکھائی دے رہے تھے جہاں تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ رہی تھی
ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی یہ سناٹا اس قدر خاموش تھا کہ میرا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہونے لگا جیسے وقت رک گیا ہے اور کسی شئے کی آواز نہیں آرہی ہے
جنگل میں پرندوں کی چہچہاہٹ پتوں کی سر سراہٹ جانوروں کی آہٹیں اور کیڑے مکوڑے کی آوازیں آتی ہیں لیکن یہاں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا
ٹیڑھے میڑھے راستے سے جیسے جیسے ہم اوپر چڑھ رہے تھے مندر واضح ہورہا تھا کسی کی سرسراہٹ پر میں چونکی تھی جیسے کوئی سایا چھپ چھپ کے جھاڑیوں کی باڑ کے اس پار چل رہا ہے
میں نے دیکھا بھی پر کچھ کہا نہیں جانے یہ میرا وہم تھا یا حقیقت....!!!
میں اپنے آپ سے بھی پریشان تھی کہ مجھے کچھ بھی غیر معمولی کیوں نظر آرہا ہے میں نے کبھی ایسی باتوں پر یقین نہیں کیا تھا اور نہ ہی امی مجھے ایسے قصے وغیرہ سننے دیتی تھی
میرا ذہن بلکل صاف تھا میری سوچ پختہ تھی میں باہمت لڑکی تھی اور حقیقت پسندانہ زندگی گزارنا چاہتی تھی میرے ساتھ کیا ہورہا تھا یہ مجھے پتہ نہیں تھا اس لیے میں ذیادہ پریشان تھی
ہم وہاں کھڑے تھے جہاں سے منظر کو سیدھا راستہ گیا تھا پتھروں کی سیڑھیاں بنا کر اسے سیدھا مندر تک پہنچایا گیا تھا
سیڑھیوں کے دونوں جانب پتھروں کی مورتیاں تراش کر عجیب وغریب جانوروں اور درندوں کی مورتیاں بنائی گئی تھی بہت خوفناک درندوں کی مورتیاں تھیں کئی مورتیوں کے گلے میں انسانی کھوپڑیوں کے ہار لٹکے ہوئے بتائے گئے تھے...
 
.........................
.........................
......................... 
.........................
 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں