عورت نما آدمی کا عجیب قصہ جو زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا

 

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔

کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔

یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔

کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے

بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔

سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا

نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔

جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو

سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔

نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک

پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس چر رہی تھی

اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آ گئی ہے، جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں، لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ کچھ دن بعد اک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ انہوں نے نصوح سے پانی مانگا، نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سراب کر دیا، قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پو چھا۔ نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی کا راستہ دیکھایا، نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔ نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔

آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفتہ رفتہ نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاہ تک جا پہنچے۔ بادشاہ کے دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کر کے دربار تشریف لے آہیں، جب نصوح کہ بادشاہ کا پیغام ملا تو اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں۔

بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آ سکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔ جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کر لے۔

چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے جا رہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لیے نصوح کو بادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ 

نصوح نے اپنے ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا، اس شہزادی نے نصوح سے شادی کر لی۔ 

ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی دار رسی کر رہا تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگا کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہو گئی تھی۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی۔ براہ مہربانی میری مدد فرمائیں۔

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے، آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے، نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔

وہ شخص خدا کی حکم سے کہنے لگا: اے نصوح جان لو نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے بلکہ ہم دو فرشتے ہیں اور تمہارے امتحان کے لیے آئے تھے۔ یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل اور توبہ کا نتیجہ ہے، یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو، وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہو گئے۔

 اللہ تعالٰی سب کو توبہ کرنے اور تادم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں