جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط 2

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط 2
پھر بھی سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ اندر سب گھوڑے بچ کر سوئےہوئے تھے۔ وہ جلدی سے آ کر اپنے بستر پر بیٹھ گئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کلیجہ پکڑ لیا۔
ہائے اللہ کون تھا ؟ کوئی تھا تو نظر کیوں نہیں آیا۔
اور یہ گزرگاہ کیسی تھی؟ وہ کون تھا جو ’’چھوڑ دے ولی
..! بچا لے ولی‘‘ چلاتا ہوا گزر رہا تھا؟ رات کی اس تاریکی میں کسی کو کیا مشکل پیش آئی تھی ؟
پھر اسے وہ واقعات یاد آ گئے جو یہاں کے بارے میں کہے جاتے تھے۔ جن زدہ لڑکیوں کو یہاں علاج کے لئے لایا جاتا تھا۔ مزارات پر حاضری دیتی تھیں۔ ان کے لواحقین ساتھ آتے تھے اور پھر جب ان کی سن لی جاتی تھی تو
پھر انہیں ہدایت ہوتی تھی کہ وہ فلاں مزار سے فلاں مزار تک جائیں اور وہاں جا کر حاضری دیں۔ ان کے اوپر جو بھی سائے ہوتے تھے انہیں سرزنش کی جاتی تھی کہ وہ ان کے وجود کو چھوڑ دیں اور اگر وہ نہیں مانتے تھے تو پھر انہیں سزائیں ملتی تھیں۔
چھوڑ دے ولی...! بچا لے ولی ....... .
اسی سزا کے نتیجے کی آواز ہوسکتی تھی۔ بہرحال وہ یہ تمام باتیں سوچتی رہی ۔ اسے ایک اور واقعہ یاد آیا جب
دادی اماں حیات تھیں اور ایک مرتبہ وہ کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ وہ حویلی نما جگ تھی اور وہاں ایک بہت ہی بڑا باغ بھی تھا جو حویلی کے احاطے میں ہی تھا۔ لیکن وہاں جھاڑ جھنکاڑ کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے ایک نگاہ اس جگہ کو دیکھا تو وہ اسے اتنی ہیبت ناک لگی کہ وہ وہاں سے فوراؑ ہی بھاگ آئی۔ دادی اماں نے اس کا سرخ چہرہ دیکھا تو بولیں۔ کہاں گئی تھی پگلی؟
دادی اماں ...........! اس طرف اسی بری جگہ ہے۔ اللہ توبہ..! اللہ توبہ ...! ایسی نحوست برستی ہے کہ آپ ادھر جاؤ تو آپ کو یوں لگتا ہے جیسے جھاڑ جھنکاڑ آپ کو کھانے کو دوڑ رہے ہیں ۔." خدا تجھے سمجھے۔۔۔۔! وہ حویلی کا آسیب زدہ حصہ ہے۔ وہاں جنوں کا بسیرا ہے۔ حویلی کا کوئی بھی بندہ ادھر نہیں جاتا تبھی تو وہ جھاڑ جھنکاڑ پڑے ہوئے ہیں اور تجھے دیکھو کہ تو کھلے بالوں وہاں چلی گئی۔ ایک تو اللہ رکھے اس کالی گھٹاؤں کے شہر کو۔۔ بادل ہیں کہ طوفان کی طرح امڈ تے چلے آرہے ہیں۔
اری دیوانی........ کہتی ہوں کہ انہیں باندھ کر رکھا کر۔ کھلے بالوں ویسے بھی آسمان تلے نہیں جانا چاہئے اور پھر تیرے یہ بال۔ توبہ ...... اللہ توبہ...!کٹوانے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ بال ہیں کہ قیامت ...؟ اور یہ حقیقت تھی کہ اس کے بال اتنے زیادہ ، اتنے گھنے اور اتنے لمبے تھے کہ ہر لڑکی اور عورت اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اس سے پوچھا جاتا تھا کہ بی بی بی بال بڑھانے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرتی ہو ؟ وہ اختیار کرتی تو بتاتی۔ احمقوں کی طرح پوچھنے والے کی صورت دیکھتی رہ جاتی تھی۔
دادی اماں نے اس سے کھل کر کہا تھا کہ کسی وقت وہ اپنے انہی بالوں کا شکار ہو جائے گی۔ کوئی ہوا لگ جائے گی اسے، کوئی سایہ ہو جائے گا۔ لیکن وہ ہوا اور سایہ اس کی سمجھ میں آج تک نہیں آیا تھا۔ آج جو یہ سب کچھ ہوا تھا۔ اس نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ طرح طرح کی شکلیں آنکھوں کے سامنے آئیں تو اس نے جلدی سے لیٹ کر چادر اوڑھ لی اور جوانی کی یہی بات ہوتی ہے۔ نیند ہے کہ سر پر سوار رہتی ہے۔ کیسی ہی کوئی مشکل ، کیسی ہی کوئی بات ہو۔ بس نیند آنکھوں میں تھی اور پٹ سے آگئی ۔ وہ گہری نیند سوگئی تھی۔
دوسری صبح واپسی تھی حاضری کا دن ختم ہوگیا تھا۔ چنانچہ تیاریاں ہوئیں اور طاہرہ بیگم اپنی بیٹیوں اور ملازموں کے ساتھ واپس چل پڑیں۔ان کی کوٹھی ، بھی بہت شاندار تھی ۔ معظم علی بھائی سے محبت کرتے تھے ۔ لیکن بھائی بھاوج کی موت کے بعد بڑے آرام سے وہ پوری جائیداد اور دولت ہڑپ کر گئے ۔ بیوی کے غلام تھے اس لئے بیچاری عشیرہ بھی بس جی ہی رہی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ اس نے اپنے آپ کو یہاں کے ماحول میں ضم کر لیا تھا اور مستقبل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت بھی گھر کے تمام لوگ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں آرام کر رہے
تھے۔ باہر سخت لو چل رہی تھی جھلسا دینے والی لو۔
عشیرہ نے اداسی سے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی اور لو کا تپھیڑا جیسے اس کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ ایک زناٹے دار تپھیڑا اس کے منہ پر پڑا اور اس کا چہرہ تمتما کر رہ گیا۔ اس نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی۔ میرے خدا کتنی شدید لو چل رہی ہے۔ اس نے سوچا اور چٹخنی لگا کر واپس اپنے بستر کی طرف چل پڑی۔ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کی سوئیاں دو بجا رہی تھیں ۔ ٹھیک چار ہے اسے باورچی
خانے کی طرف چل پڑنا تھا۔ شام کی چائے کا وقت پانچ بجے کا تھا۔ گویا ابھی آرام کرنے کے لئے دو گھنٹے موجود تھے ۔ اور یہ آرام کا وقت بھی اسے شدید گرمی اور لو کی وجہ سے اسے ملگیا تھا ورنہ اگر دوسرے لوگ باہر ہوتے تو کسی نہ کسی کام میں الجھا دیتے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کام لینے میں طاہرہ بیگم بڑی خوشی محسوس کرتی تھیں۔
نظم اور نثر بھی اب اسی راستے پر چل پڑی تھیں۔ چنانچہ وہ بھی اس کے لئے کام کی تلاش میں رہتی تھیں۔ اسے اس کے حسن کی یہی سزا دی جاسکتی تھی۔ کوئی بھی کام اس وقت بھی اس کے سپرد کر دیا جاتا اور کچھ نہ سہی تو کم از کم طاہرہ بیگم کے ہاتھ پاؤں ہی دبانے ہوتے تھے۔ لیکن اس میں بھی پوری سیاست کارگر تھی لیکن اگر اس وقت اسے طاہرہ بیگم کے پاؤں دبانے پڑتے تو اسے بھی ائیر کنڈیشنڈ کے کمرے کی ٹھنڈک نصیب ہوسکتی تھی اور یہ بات کسی کو گوارہ نہیں تھی کہ وہ بھی ائیر کنڈیشنڈ کے مزے لے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور اس کی نگاہ آئینے پر جا پڑی۔ لو کے تپھیڑے سے سرخ چہرہ قوس و قزح کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سفیدی میں ایک گلابی کھلی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کی نگاہیں ہٹنے کا نام نہ لیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینے کے پاس پہنچ گئی اور آئینے نے اس کا سراپا پیش کر دیا۔ دن رات کی جھڑکیاں، بات بات میں طعنے، ہر قدم پر بے عزتی، طرح طرح کے الزمات، دن رات کی گھٹن اس کی زندگی میں یہ پورا فارمولہ موجود تھا۔ لیکن اس کا حسن شاید اس فارمولے کے لوازمات سے نکھر رہا تھا۔ ایسی بھی کیا ہے غیرت زندگی ........... ایک لمحے کا سکون میسر نہیں لیکن حسن و جوانی تھی کہ الامان الا حفیظ .... اللہ تعالی نے اس کی تمام محرومیوں کی کمی توبہ شکن حسن دے کر پوری کر دی تھی۔ لیکن کسی کام کا ہی حسن جو ہر وقت ملامت بنا رہتا تھا۔
طاہرہ بیگم کا بس نہیں تھا ورنہ زہر دے کر ہلاک کر دیتیں۔ وہ اس کے حسن و جوانی پر بھی کڑی تنقید کرتی تھیں اور یہ تنقید اس وقت اور زیادہ شدت اختیار کر گئی تھی جب نظم اور نثر کے لئے رشتہ آیا تھا اور عشیرہ کی طرف
منتقل ہو گیا تھا۔ عشیرہ پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں اس میں بہت سی ایسی باتیں تھیں جو عشیرہ کے لئے سخت تکلیف دہ تھیں۔ اس نے صابن سے منہ دھونا تک ترک
کر دیا تھا۔ لیکن اب یہ اس کے بس کی بات تو نہیں تھی کہ وہ اپنی شکل بگاڑ لیتی اور اگر شکل بھی بگاڑ لیتی تو جسم کا ایک ایک نقش چن چن کر اس کے حسن کی تشہیر
کرتا۔ نہ جانے کب تک وہ آئینے سے حسن کا خراج وصول کرتی رہی اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر آئینے کے سامنے سے ہٹ کر بستر کی طرف چل پڑی۔ ذہن بدستور کشمکش کا شکار تھا۔ کچھ عرصے پہلے کم از کم نظم اور نثر کا رویہ ہی ٹھیک تھا اور اسے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا تھوڑا سا موقع مل جاتا تھا۔ لیکن اب وہ بھی رقابت کا شکار ہوگئی تھیں ۔ عشیرہ کا معمولی لباس اس کا میک آپ سے عاری چہرہ ان کے ہزار میک آپ زدہ چہروں سے کہیں زیادہ حسین تھا۔ بات صرف وہیں تک نہیں رہی تھی بلکہ ہر آنے جانے والا عشیرہ کے حسن کی تعریف کرتا تھا اور رفتہ رفتہ عشیرہ کو پیچھے ہٹایا جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ گھر کی تقاریب سے بھی اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔ حقارت کی کون سی صورت تھی جو اس کے لئے نہیں تھی ؟ کون سا عذاب تھا جو اس پر توڑنے کے انتظامات نہیں کئے گئے تھے؟ لیکن ہر
عذاب کو خاموشی سے جھیلنا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی بہار نہیں تھی۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا....؟
بہر حال بستر پر بھی وہ انہی خیالات میں نہ جانے کب تک لیٹ رہی؟ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی نے تین بجائے اور وہ خیالات کے جھنور سے نکل آئی۔ ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے ۔ اگر لیٹ گئی تو شاید نیند آ جائے ۔ اور یہ نیند اس کے لئے قیامت ہوتی ۔ اگر ذرا بھی دیر ہو جاتی تو گھر والے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ کمرے میں تنہا بیٹھے بیٹھے دل گھبرانے لگا۔ باہر لو چل رہی تھی ورنہ باغ میں ہی چلی جاتی۔ ”اونہہ ....! لو کیا کر لے گی؟ اچھا ہے بیمار ہو جاؤں.کچھ دن تو سکون مل جائے گا۔ مر بھی جاؤں تو کیا ہے؟ کون سی قیمتی زندگی ہے جو کسی کو تکلیف ہوگی .......؟اس نے سوچا اور یہ سوچ اس قدر شدید ہوئی کہ وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازہ کھولا اور باہر نکل آئی۔ باہر قدم رکھتے ہی گرمی کی حقیقت معلوم ہوئی لیکن اب کمرے میں بھی نہیں رہا جا سکتا تھا۔
وہ گرمی کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتی رہی اور راہ داری سے نکل کر صدر دروازے پر آ گئی۔ صدر دروازے کے باہر دھوپ کا راج تھا اور یہ دھوپ بھی روایتی دھوپ نہیں تھی۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ چیل انڈہ چھوڑ دیتی ہے۔
حالانکہ اس محاورے کا مقصد مجھ میں نہیں آتا تھا۔
چیل انڈہ چھوڑ دیتی ہے۔ کیا مطلب ہوا اس بات کا؟‘‘
اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر خود ہی خود مسکراتی ہوئی صدر دروازے سے باہر نکل آئی۔ در حقیقت یہ جملہ اس وقت صرف محاورہ نہیں تھا آگ برس رہی
ہے۔ گھاس زرد ہو رہی تھی۔ البتہ املی کا وہ گھنا اور سایہ دار درخت جھوم رہا تھا جس کے نیچے مالی کی چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت مالی بھی اپنے
کوارٹر میں گیا ہوا تھا۔ تمام ملازموں کے کوارٹروں کے دروازے بند تھے۔ کچھ ملازم جو ڈیوٹی پر تھے وہ اندر تھے اور باقی اپنے کوارٹر میں آرام کر رہے تھے۔ املی کا یہ گھنا درخت اسے ہمیشہ سے پسند تھا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اس کے سائے میں دھوپ دم توڑ دیتی تھی۔ وہ تیز قدموں سے درخت کی طرف بڑھ گئی اور اس کے نیچے پہنچ گئی۔ بلاشبہ یوں لگا تھا جیسے جہنم سے نکل کر
جنت میں آ گئی ہو۔ مالی کی خالی چارپائی پر اس نے قبضہ کر لیا اور پاؤں لٹکا کربیٹھ گئی۔
درخت کے پتے لو سے ہل کر ایک دلکش نغمہ بکھیر رہے تھے۔ وہ اس نغمے میں گم ہوئی اور تھوڑی دیر کے لئے اپنے تمام غم بھول گئی ۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ ویرانی اسے اپنے مقدر کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن
املی کا یہ درخت ہمدرد تھا، وہ اسے گیت سنارہا تھا۔
اس کی نگاہیں ایک چمکدار نقطے پر جم گئیں اور ذہن نہ جانے کن کن خیالات کا مرکز بن گیا۔ نہ جانے کیا کیا سوچیں دامن گیر ہوئیں؟ ۔ اچانک اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور وہ چونک پڑی۔ اس وقت کون ہے جو اس کی طرح سر پھرا ہے۔ اور باہر نکل آیا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور اسے ایک سایہ سا متحرک محسوس ہوا۔ وہ سایہ اس کے پاس سے گزر گیا لیکن پیچھے تو کوئی نہیں تھا۔ اس نیلے دائیں اور پھر بائیں دیکھا۔
" یہ کیسا سایہ تھا.............
اور پھر اس کے کانوں نے قدموں کی چاپ بھی سنی تھی۔
”اونہہ....! و ہم بھی ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات تصور نہ جانے کیا کیا کچھ سنا اور دکھا دیتا ہے۔ ممکن ہے کوئی گلہری سوکھے پتوں سے گزر کر درخت پر چڑھ گئی ہو اور ممکن ہے وہ سایہ درخت کی کسی شاخ کے ہلنے سے بنا خاص طور سے تو اس نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو
پرسکون کرنے کی کوشش کی اور سوچنے لگی کہ اس کی طرح کوئی اور تو دیوانہ نہیں ہوسکتا جو اس شدید گرمی میں باہر نکل آئے۔ سو فیصدی اس کا وہم ہوگا۔ کچھ
ایسے ہی عجیب و غریب واقعات سے واسطہ پڑ رہا تھا۔
اس دن مزار کے سامنے کا واقعہ آج تک اس کی سمجھ میں نہیں آسکا کون تھا جس نے اسے سنبھالا تھا.....؟ اور پھر وہ آواز ........... وہ آواز تو بالکل وہم نہیں تھی۔ وہ اس آواز کو اپنے ذہن میں اس وقت بھی سن رہی تھی۔بسم اللہ...! اس طرح باہر نہ نکلا کریں۔ یہ گزرگاہ ہے اور یہاں سے گزرنے والے گزرتے رہتے ہیں۔ جائیے براہ کرم اندر جائیے۔
گزرگاہ۔۔۔۔!!
گزرنے والے۔۔۔۔!
اور وہ آواز ................!
ہی سایہ............!،
توبہ ہے...........
کن احمقانہ حرکتوں میں پڑھتی جا رہی ہوں میں بھی میرا اپنا بھی سایہ ہوسکتا ہے جو مڑنے سے پڑا ہوگا ۔“
وہ اپنے زبان سے یہ خیال جھٹکنے کی کوشش کرنے لگی اور پھر اس چمکدار نقطے کو تلاش کرنے لگی جس پر پہلے نگاہیں جمائے سوچوں میں گم تھی۔ ایسے نقطے اکثر نمودار ہو جاتے ہیں ۔ مگر یہ نقطہ جو اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک درخت کی جڑ میں تھا، چند ہی لمحوں میں وہ نقطہ اسے مل گیا ۔ لیکن اس بار وہ بے خیالی کے عالم میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ کوئی ٹھوس حقیقت تھی۔ اس نے اب اس چمکدار شئے کو غور سے دیکھا جسے وہ صرف پہلے اپنا
خیال سمجھ رہی تھی اور اس کے بارے میں اس نے ابھی تک نہیں سوچا تھا۔ اب جو غور کیا تو اسے سفید سی چکدار چیز نظر آئی اور یہ چیز صرف ایک تصورنہیں بلکہ
حقیقت تھی۔ وہ چار پائی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھ گئی اور اس نے اس دوسرے درخت کی جڑ سے وہ دودھیا رنگ کا خوب صورت پتھر اٹھا لیا جو دل کی شکل میں ترشا ہوا تھا اور اس کے کچھ حصوں پر مٹی لگ گئی تھی۔ اس نے مٹی دوپٹے سے صاف کی اور اسے غور سے دیکھنے گی۔
کیا خوب صورت پتھر ہے۔ نہ جانے کہاں سے آیا؟ قیمتی بھی
لگ رہا ہے۔ ممکن ہے کسی زیور سے نکل گیا ہو لیکن اس درخت کے نچے کہاں سے پہنچ گیا؟ اور پھر اس کی تراش بھی ایسی نہیں تھی کہ کسی زیور سے آزاد ا ہوا معلوم ہوا۔ اس کے علاوہ کافی پرانہ بھی معلوم ہوتا ہے۔“
وہ پتھر ہتھیلی پر رکھ کر حیرت سے دیکھنے لگی اور اس نے دل ہی دل میں تسلیم کیا کہ وہ بے حد حسین اور جاذب نگاه پتھر ہے۔ اسے یہ پتھر بے حد پسند آیا اور اس نے سوچا کہ اب اس کی تاریخ تو اسے پتہ نہیں چل سکتی تھی کہ
کہاں سے آیا اور کہاں سے یہاں تک پہنچا ؟ لیکن اس قابل ہے کہ اسے اپنے پاس محفوظ رکھا جائے ۔ ہاں اگر کسی نے یہ کہا کہ اس کے کسی زیور کا کوئی پتھر گم ہوگیا ہے تو
پھر اسے واپس کر دیا جائے گا۔ کوٹھی میں مہمان آتے رہتے تھے۔ باغ کی سیر بھی کی جاتی تھی۔ ان میں بڑے آدمیوں کی بیٹیاں بھی ہوتی تھیں ۔ بیگمات بھی ہوتی تھیں ۔ معظم علی صاحب کے ملنے جلنے والوں کی تعداد بہت ذیادہ تھی۔ اگر اسے کہیں سے پتہ چلا کہ کوئی کسی قیمتی پتھر کی تلاش میں ہے تو وہ اسے واپس کر دے گی۔ اس خیال کے تحت اس نے اسے مٹھی میں دبایا اور واپس چارپائی پرآ
بیٹھی ۔ لیکن بیٹھنے کے بعد بھی وہ کافی دیر تک پتھر کو ہتھیلی پر رکھ کر دیکھتی رہی تھی۔
"بلكل دل کی شکل کا ہے۔ نہ جانے کون سے پتھر سے تراشا گیا ہے۔ ممکن ہے پلاسٹک کا ہی ہو۔ لیکن پلاسٹک کا ہوتا تو اتنا وزنی نہ ہوتا ۔ کچھ بھی ہو اب تو وہ اس کا اپنا ہے اور اس نے اسے رکھ لیا۔ اسی وقت اس کے کانوں میں ایک مردانہ آواز ابھری۔
شکریہ ............! یہ آپ ہی کے لئے ہے....؟
وہ پھر اچھل پڑی۔
اس بار اس کے کانوں نے دھوکہ نہیں کھایا تھا۔ یہ مردانہ آواز ایک لمحے کے اندر جانی پہچانی محسوس ہوئی تھی ۔ جاری ہے۔

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں