حقیقت روشن ہو گئی


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر صحابہ نے کہا”ہمیں قریش کی طرف سے آپ ﷺکے بارے میں خطرہ ہے، ہم تو ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا خاندان قریش سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔”اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

تم میری پروا نہ کرو، اللہ تعالی خود میری حفاظت فرمائیں گے۔”دوپہر کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں پہنچ گئے۔آپ مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے۔اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اب انہوں نے بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے، “اس غلام زاد کو کیا ہوا؟ “کوئی اور بولا:”محمدﷺ جو کلام لے کر آئے ہیں، یہ وہی پڑھ رہا ہے. “یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طرف دوڑ پڑےاور لگے انہیں مارنے پیٹنے۔


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چوٹیں کھاتے جاتے تھے اور قرآن پڑھتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سورۃ کا زیادہ تر حصہ تلاوت کرڈالا۔اس کے بعد وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے۔ان کا چہرہ اس وقت تک لہولہان ہوچکا تھا۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان بول اٹھے:

“ہمیں تمہاری طرف سے اسی بات کا خطرہ تھا، “حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اللہ کی قسم! اللہ کے دشمنوں کو میں نے اپنے لیے آج سے زیادہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پایا۔اگر تم لوگ کہو تو کل پھر ان کے سامنے جا کر قرآن پڑھ سکتا ہوں-“اس پر مسلمان بولے!”نہیں، وہ لوگ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں، آپ انہیں وہ کافی سنا آئے ہیں،”کفار کا یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ایسے میں ایک دن حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی کے پاس موجود تھے۔

ابوجہل آپ ﷺ کے پاس سے گزرا۔اس نے آپﷺ کو دیکھ لیا اور اپنی گندی زبان سے آپ ﷺ کو صدمہ دینےلگا ، اس نے آپ ﷺکی طرف مٹی بھی پھہنکی۔عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ منظر دیکھا۔پھر ابو جہل آپ کےپاس سے چل کر حرم میں داخل ہوا۔وہاں مشرکین جمع تھے۔

وہ ان کے سامنے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔اسی وقت آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہوئے۔یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی۔وہ اس وقت شکار سے واپس آئے تھے۔ان کی عادت تھی کہ جب شکار سے لوٹتے تو پہلے حرم جا کر طواف کرتے تھے پھر گھر جاتے تھے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن جدعان کی باندی کے پاس سے گزرے، اسنے سارا منظر خاموشی سے دیکھا .

اور سنا تھا۔اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کہا:”اے حمزہ! کچھ خبر بھی ہے، ابھی ابھی یہاں ابو حکم بن ہشام( ابو جہل)نے تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔وہ یہاں بیٹھے تھے، ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، انہیں تکالیف پہنچائیں، گندی زبان استعمال کی اور بہت بری طرح پیش آیا.

آپ کے بھتیجے نے جواب میں اسے کچھ بھی نہ کہا -“ساری بات سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا:”تم جو کچھ بیان کررہی ہو، کیا یہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے -” اس نے فوراً کہا:”ہاں! میں نے خود دیکھا ہے -” یہ سنتے ہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں آگئے – چہرہ غصے سے تمتما اٹھا – فوراً حرم میں داخل ہوئے، وہاں ابوجہل موجود تھا – وہ قریشیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، یہ سیدھے اس تک جاپہنچے –

ہاتھ میں کمان تھی، بس وہی کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری – ابوجہل کا سر پھٹ گیا – حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:”تو محمدﷺ کو تکالیف دیتا ہے، سن لے! میں بھی اس کا دین اختیار کرتا ہوں – جو کچھ وہ کہتے ہے، وہی میں بھی کہتا ہوں، اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جواب دے -”

ابوجہل ان کی منت سماجت کرتے ہوئے بولا:وہ ہمیں بےعقل بتاتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، ہمارے باپ دادا کے راستے کے خلاف چلتا ہے -”
یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بولے:”اور خود تم سے زیادہ بے عقل اور بےوقوف کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے ٹکڑوں کو پوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں -”

ان کے یہ الفاظ سن کر ابوجہل کے خاندان کے کچھ لوگ یک دم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے کہا:”اب تمہارے بارے میں بھی ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی بےدین ہوگئے ہو -” جواب میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”آؤ….کون ہے مجھے اس سے روکنے والا –

مجھ پر حقیقت روشن ہوگئی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ حق اور سچائی ہے، اللہ کی قسم! میں انہیں نہیں چھوڑوں گا – اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ -” یہ سن کر ابوجہل نے اپنے لوگوں سے کہا:”ابو عمارہ (یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو چھوڑدو، میں نے واقعی ان کے بھتیجے کے ساتھ ابھی کچھ برا سلوک کیا تھا -“وہ لوگ ہٹ گئے – حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ گھر پہنچے –

گھر آکر انہوں نے الجھن محسوس کی کہ یہ میں قریش کے سامنے کیا کہہ آیا ہوں… میں تو قریش کا سردار ہوں -لیکن پھر ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا، آخر شدید الجھن کے عالم میں انہوں نے دعا کی:”اے اللہ! اگر یہ سچا راستہ ہے تو میرے دل میں یہ بات ڈال دے .

اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے اس مشکل سے نکال دے، جس میں میں گھر گیا ہوں -“وہ رات انہوں نے اسی الجھن میں گزاری – آخر صبح ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے – آپ ﷺ سے عرض کیا:
“بھتیجے! میں ایسے معاملے میں الجھ گیا ہوں کہ مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور ایک ایسی صورت حال میں رہنا، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا، یہ سچائی ہے یا نہیں، بہت سخت معاملہ ہے -”

اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے – آپﷺ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا – ثواب کی خوش خبری سنائی، آپ ﷺکے وعظ و نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کا نور عطا فرمادیا، وہ بول اٹھے:

“اے بھتیجے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے رسولﷺ ہو – بس اب تم اپنے دین کو کھل کر پیش کرو -“حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اسی واقعے پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:ترجمہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اسے لیے ہوئے چلتا پھرتا ہے۔ (سورة الانعام)حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ خوشی ہوئی.

اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کے سگے چچا تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ قریش میں سب سے زیادہ معزز فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریش کے سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور خوددار انسان تھے۔

اور اسی بنیاد پر جب قریش نے دیکھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے تو انہوں نے آپﷺ کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بند کردیا، لیکن اپنے تمام ظلم و ستم اب وہ کمزور مسلمانوں پر ڈھانے لگے۔ کس قبیلے کا بھی کوئی شخص مسلمان ہوجاتا وہ اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے، ایسے لوگوں کو قید کردیتے، بھوکا پیاسا رکھتے تپتی ریت پر لٹاتے، یہاں تک کہ اس کا یہ حال ہوجاتا کہ سیدھے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہتا ۔

اس ظلم اور زیادتی پر سب سے زیادہ ابوجہل لوگوں کو اکساتا تھا ۔ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ کا پورا نام بلال بن رباح تھا۔ یہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلے عبداللہ بن جدعان تیمی کے غلام تھے ۔

عبداللہ بن جدعان کے سو غلام تھے، یہ ان میں سے ایک تھے۔ جب اسلام کا آغاز ہوا اور اس کا نور پھیلا تو عبداللہ بن جدعان نے اپنے ٩٩ غلاموں کو اس خوف سے مکہ سے باہر بھجوا دیا کہ کہ کہیں وہ مسلمان نہ ہوجائیں ۔ بس اس نے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ اس کی بکریاں چرایا کرتےتھے ۔ اسلام کی روشنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ تک بھی پہنچی ۔ یہ ایمان لے آئے مگر انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔

ایک روز انہوں نے کعبہ کے چاروں طرف رکھے بتوں پر گندگی ڈال دی۔ ساتھ ہی وہ ان پر تھوکتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: “جس نے تمہاری عبادت کی وہ تباہ ہوگیا”یہ بات قریش کو معلوم ہوگئی۔ وہ فورا عبداللہ بن جدعان کے پاس آئے… اور اس سے بولے:

“تم بے دین ہوگئے ہو۔”اس نے حیران ہوکر کہا: “کیا میرے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟ “اس پر وہ بولے: “تمہارے غلام بلال نے آج ایسا ایسا کیا ہے۔”
“کیا!!! “وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں