قارون حضرت موسی ؑ کا کارشتہ دار تھا - اک دلچسپ واقعہ


قارون حضرت موسی ؑ کا کارشتہ دار تھا اور بظاہر اس نے آپ کا دین بھی قبول کر لیا تھا ! نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا لیکن ریاکار اورکمزور عقیدہ کا انسان تھا مکمل ایمان نہ رکھتا تھا ۔چاہتا تھا کہ لوگ اس سے خوش فہمی رکھیں تاکہ انہیں فریب دے سکے قارون فصلوں کو پیشگی سستاخرید لیتا اور بعد میں انہیں مہنگے داموں پر فروخت کرتا تھا معاملات میں کم تولتا دھوکا اور بے انصافی کرتا سود کھاتا اور جتنا ہو سکتا تھا لوگوں پر ظلم کیا کرتا

اسی قسم کے کاموں سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کرلی تھی اور اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلکہ دولت پرست تھا اپنی دولت عش وعشرت میں خرچ کرتا تھا بہت عمدہ محل بنایا اور ان کے در و دیوار کو سونے اور مختلف قسم کے جواہرات سے مزین کیا حتی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اورکنیزیں تھیں اور ان کے ساتھ براسلوک کرتا اور انہیں مجبور کرتا کہ اس کے سامنے زمین پر گر پڑیں اور اس کے پاؤں کو بوسہ دیں ۔بعض عقلمند مومن اسے نصیحت کرتے اور کہتے کہ اے قارون یہ تمام باغ اور ثروت کس لیے یہ سب دولت اور مال کس لیے ذخیرہ کررکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خداکو کیا جواب دو گے؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتا ہے؟ غریبوں اورناداروں کی کیوں مدد نہيں کرتا؟ نیک کاموں میں کیوں قدم نہیں بڑھاتا؟ قارون غرور و تکبر میں جواب دیتا کہ کسی کو ان باتوں کا حق نہيں پہنچتا میں اپنی دولت خرچ کرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ کرتے اور کہتے کہ اتنی بڑی دولت حلال سے اکٹھی نہيں ہوتی اگر تونے نا انصافی نہ کی ہوتی اور سودنہ کھایا ہوتا تواتنا بڑا سرمایہ نہ رکھتا بلکہ تو بھی دوسروں کی طرح ہوتا اور ان سے کوئی خاص فرق نہ رکھتا “قارون جواب میں کہتا نہیں !

میں دوسروں کی طرح نہیں! میں چالاک اور محنتی ہوں میں نے کام کیا ہے اور دولت مند ہواہوں دوسرے بھی جائیں کام کریں زحمت اٹھائیں تاکہ وہ بھی دولت مند ہوجائیں میں کس لیے غریبوں کی مدد کروں لیکن مومن اس کی راہنمائی کے لیے پھربھی کہتے ! کہ تم لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے جب ہی اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں کا حق ادا کرتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے اور وہ اتنے فقیر اور خالی ہاتھ نہ ہوتے اب بھی اگر چاہتے ہو کہ سعادت مند اور عاقبت بخیر ہوجاؤ تو اپنی دولت کو مخلوق خدا کی آسائش اور ترقی میں خرچ کرو دولت کا انبار لگالینا اچھا نہیں دولت کو ان راستوں میں کہ جسے خدا پسند کرتا ہے خرچ کرو لیکن قارون مومنین کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائی سے انہیں کہتا کہ بے فائدہ مجھے نصیحت نہ کرو میں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زیادہ ایمان رکھتا ہوں جاؤ اپنا کام کرور اوراپنی فکر کرو۔ !ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ باہر آئے لوگ قارون کے عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لیے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے اور جواہرات کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے بعض نادان اس کے سامنے جھکتے اور زمین پرگر پڑتے اور کہتے کتناخوش نصیب ہے قارون ! کتنی ثروت کا مالک اور کتنی سعادت رکھتا ہے ! خوش حال قارون ! کتنی اچھی زندگی گزارتا ہے کتنا سعادت مند اور خوش بخت ہے کاش !! ہم بھی قارون کی طرح ہوتے؟لیکن سمجھدار مومنین کا دل ان لوگوں کی حالت پر جلتا وہ انہیں سمجھاتے اور کہتے کہ سعادت اور خوش بختی زیادہ دولت میں نہیں ہوا کرتی کیوں اس کے سامنے زمین پر گرپڑتے ہو؟

ایک ظالم انسان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو وہ احترام کے لائق نہيں : اس نے یہ ساری دولت گراں فروشی اور بے انصافی سے کمائی ہے وہ سعادتمند نہيں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہواور اللہ کی مخلوق کی مدد کرتا ہو اور وہ لوگوں کے حقوق سے تجاوز نہ کرتا ہو ایک دن اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکوٰۃ دیں ۔حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کا حکم دولت مندوں کو سنایا اور قارون کو بھی اطلاع دی کہ دوسروں کی طرح اپنے مال کی زکوٰۃ دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے میں حضرت موسی علیہ السلام سے کہا زکوٰۃ کیا ہے کس دلیل سے اپنی دولت دوسروں کو دوں وہ بھی جائیں اور کام کریں اور محنت کریں تاکہ دولت کمالیں ۔حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ یعنی اتنی بڑی دولت کا ایک حصہ غریبوں اورناداروں کو دے تاکہ وہ بھی زندگی گذارسکیں چونکہ تم شہر میں رہتے ہو اور معاشرے کے فرد ہو اور ان کی مدد سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی ہے اگر وہ تیری مددنہ کرتے تو تو ہرگز اتنی دولت نہیں کما سکتا تھا مثلا اگر تو بیابان کے وسط میں تنہا زندگی بسر کرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سکتا اور باغ آباد نہ کر سکتا یہ دولت جوتونے حاصل کی ہے ان لوگوں کی مدد سے حاصل کی ہے پس تیر ی دولت کا کچھ حصہ بھی انہیں نہیں دے رہا بلکہ ان کے اپنے حق اور مال کو زکوۃ کے نام سے انہیں واپس کر رہاہے ۔لیکن قانون نے حضرت موسی علیہ السلام کی دلیل کی طرف توجہ نہ دی اور کہا اے موسی (علیہ السلام) یہ کیسی بات ہے کہ تم کہہ رہے ہو ! زکوٰۃ کیا ہے ہم نے برا کام کیا کہ تم پرا یمان لے آئے ہیں کیا ہم نے گناہ کیا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں اور اب آپ کو خراج بھی دیں ۔

حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کی تند روی کو برداشت کیا اور نرمی سے اسے کہا کہ اے قارون زکوٰۃ کوئی میں اپنے لیے تو لے نہیں رہا ہوں بلکہ اجتماعی خدمات اور غریبوں کی مدد کے لیے چاہتا ہوں یہ اللہ کا حکم ہے کہ مالدار غریبوں اور ناداروں کا حق اداکریں یعنی زکوۃ دیں تاکہ وہ بھی محتاج اور فقیر نہ رہیں اگر تو واقعی خدا پر ایمان رکھتا اور مجھے خدا کا پیغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اگر نماز پڑھتا ہے تو زکوۃ بھی دے کیونکہ نماز بغیر زکوۃ کے فائدہ مند نہیں ہے تورات کا پڑھنا سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے ہے لیکن قارون حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت اور موعظہ کی کوئی پروا نہ کی بلکہ اس کے علاوہ مومنین کو اذیت بھی پہنچانے لگا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا ۔ حضرت موسیٰ ؑ سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے اس نے یہ گھناؤنی چال چلی کہ ایک عورت کو بہت زیادہ مال و دولت دے کر آمادہ کر لیا کہ وہ آپ پر بدکاری کا الزام لگائے۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ حضرت موسیٰ ؑ وعظ فرما رہے تھے۔قارون نے آپ کو ٹوکا کہ فلاں عورت سے آپ نے بدکاری کی ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کو میرے سامنے لاؤ۔ چنانچہ وہ عورت بلائی گئی۔ تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اے عورت! اس اللہ کی قسم! جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور عافیت و سلامتی کے ساتھ دریا کے پار کرا کر فرعون سے نجات دی سچ سچ کہدے کہ واقعہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے جلال سے عورت سہم کر کانپنے لگی اور ان نے مجمع عام میں صاف صاف کہہ دیا کہ اے اللہ کے نبی! مجھ کو قارون نے کثیر دولت دے کر آپ پر بہتان لگانے کے لئے آمادہ کیا ہے۔ اس وقت حضرت موسیٰ ؑ آبدیدہ ہو کر سجدہ شکر میں گر پڑے، اور بحالت سجدہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! قارون پر اپنا قہر وغضب نازل فرما دے۔

پھر آپ نے مجمع سے فرمایا کہ جو قارون کا ساتھی ہو وہ قارو ن کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ قارون سے جدا ہو جائے چنانچہ دو خبیثوں کے سوا تمام بنی اسرائیل قارون سے الگ ہوگئے۔ھر حضرت موسیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! تو اس کو پکڑ لے۔ تو قارون ایک دم گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا پھر آپ نے دوبارہ زمین سے بھی فرمایا تو وہ کمر تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر قارون رونے اور بلبلانے لگا اور قرابت ورشتہ داری کا واسطہ دینے لگا۔ مگر آپ نے کوئی التفات نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل زمیں میں دھنس گیا۔ دو منحوس آدمی جو قارون کے ساتھی ہوئے تھے لوگوں سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ ؑنے قارون کو اس لئے دھنسا دیا ہے کہ تاکہ قارون کے مکان اور اس کے خزانوں پر خود قبضہ کرلیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ قارون کا مکان اور خزانہ بھی زمین میں دھنس جائے۔ چنانچہ قارون کا مکان جو سونے کا تھا اس کا سارا خزانہ سبھی زمین میں دھنس گئے۔قارون کے خزانے کو قرآن کی زبان سے سنئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم نے قارون کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان خزانوں کی کنجیاں ایک مضبوط اور طاقتور جماعت بہ مشکل اٹھا سکتی تھی قرآن میں ہے۔ترجمہ:بے شک قارون حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سے تھا۔ پھر اس نے ان پر ظلم کیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے جن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت پر بھاری تھیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نےقارون کو جو نصیحت فرمائی وہ یہ ہے جس کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے۔ اسی خیر خواہی والی نصیحت کو سن کر قارون حضرت موسیٰ ؑ کا دشمن ہوگیا۔ غور کیجئے کہ کتنی مخلصانہ؟ اور کس قدر پیاری نصیحت ہے؟ جو حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ساتھ ساری قوم قارون کو سناتی رہی۔ترجمہ: “جب قارون سے اس کی قوم نے کہا کہ اترا کر مت چل۔ بیشک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اور جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول،

اور احسان کر جیسا کہ اللہ نے تجھ پر احسان فرمایا ہے اور زمین میں فساد مت تلاش کر!۔قارون نے اپنے مال کے گھمنڈ میں اس مخلصانہ نصیحت کو ٹھکرا دیا۔ اور خوب بن سنور کر تکبر غرور سے اتراتا ہوا قوم کے سامنے آیا اور حضرت موسیٰ کی بدگوئی اور ایذار سانی کرنے لگا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کو قرآن کی زبان سے سنئے اور خدا اس قاہرانہ گرفت پر خوف الٰہی سے تھراتے رہے۔قارون زمین میں دھنس گیا، اللہ رب العزت ار شاد فر ما تے ہیں کہ” ہم نے اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی اللہ کے عذاب سے بچانے میں اس اور وہ کوئی بدلہ نہ لے سکا۔” بے شک اللہ رب العزت غرور کر نے والے کو دنیا میں بھی نشان عبرت بنا دیتے ہے۔قا رون کی مثا ل ہما رے سامنے ہے ۔نبی اکرم ﷺ نےارشاد فر ما یا جس کا مفہوم ہے ” وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر میں تکبر ہوگا”۔۔۔۔۔اسی طرح ریا ء کاری کر نے والے کو بھی سخت عذا ب دیا جا ئے گا قیامت کے دن ایک شہید کو لا یا جا ئے گا اور اس سے سوال کیا جا ئے گا کہ “تم اللہ نے اپنی جان اللہ کے راستے میں کیوں پیش کی ” وہ عرض کر ے گا “یا اللہ تیری رضا کی خا طر ” اللہ ر ب العزت ارشاد فر ما تے ہے کہ “تو جھوٹ بولتا ہے “تو اس لیے شہید ہوا کہ لوگ تجھے بہادر کہے” اسی طرح ایک غنی کو لایا جا ئے گا اور اس سے سوال کیا جا ئے گا کہ “کہ تو نے مال اللہ رب العزت کے راستے میں کیوں خرچ کیا وہ عرض کر ے گا “یا اللہ تیری رضا کی خاطر ” اللہ رب العزت ارشاد فر مائے گا ” تو جھوٹ بولتا ہے ” تو نے مال اس لیے خرچ کیا کہ “لوگ تجھے سخی کہے ” اسی طرح ایک تیسرے شخص عالم کو لا یا جا ئے گا اور اس سے سوال کیا جا ئے گا کہ ” تو نے علم حا صل کیوں کیا ” وہ عرض کر ے گا ” یا اللہ تیری رضا کی خا طر ” اللہ رب العزت ارشاد فر ما ئے گا کہ ” تو نے علم حا صل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہے اور تیری تعر یف کر ے ” اس کے بعد اللہ رب العزر ارشاد فر مائے گا کہ تینوں کو گھیسٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے ” کتنی سخت وعید ہے غرور وتکبر کر نے والوں اور ریاء کاری کرنے والوں کیلیے”اللہ رب العزت ہمیں بھی غرور وتکبر اور ریا ء کاری سے محفوظ رکھے ۔۔۔آمین ثم آمین ۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں