معزز خواتین وحضرات! تابوتِ سکینہ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اس میں تمام پیغمبروں کی شبیہیں اور گھروں کے نمونے تھے۔ حضرت آدم نے حضرت شیث سے نو رِ محمدیﷺ کی حفاظت کے لیے ایک عہد نامہ تحریر کرایا تھا۔ وہ اس میں محفوظ کیا گیا تھا، نسل در نسل ہوتا، ہوتا تابوتِ سکینہ حضرت موسیٰ تک پہنچا، اس میں تبرکات رکھے جاتے،
اس میں تورات کی تختیاں، حضرت ہارون کا عمامہ، حضرت موسیٰ کے نعلینِ مبارک اور لباس، من و سلویٰ کے دور کی بچی ہوئی ترنجین، اور چند کلمات موجود تھے جو پریشانی کے عالم میں پڑھے جاتے تھے۔ تین گز طول اور دو گز عرض پر محیط تابوتِ سکینہ کو برکت کے لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دورانِ جنگ آگے رکھتے اور فتح یاب ہوتے، حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں، یہ صندوق ان سے چھینا گیا، قوم عمالقہ کے قبضے میں تابوت آیا لیکن وہ اس کے اہل نہ تھے۔ بت خانے میں رکھا تو ان کے بت تباہ و برباد ہونے لگے۔ آدمی مرنے لگے، یکے بعد دیگرے پانچ شہر تباہ ہوئے تو خوف زدہ ہو کر بیل گاڑیوں پر لاد کر بیلوں کو ہنکا دیا گیا۔ تابوت حضرت شموئیل تک پہنچا، حضرت سلیمان نے اسے بیت القدس میں اسے نہایت حفاظت سے رکھا، بیت القدس کی تباہی کے دوران میں دوسرے ساز و سامان کے ساتھ اسے بھی لوٹ لیا گیا۔قبۃ الصخرہ، خانہ ء کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد اس زمین پر مسلمانوں کے لیے مقدس تر ین مقام ہے۔ اس چٹانی مقام سے کئی روایات وابستہ ہیں۔ایک یہ کہ ظہور حضرت آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال قبل فرشتے اس کا طواف کر چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طوفانِ نوح کے بعد آپ علیہ السلام کی کشتی یہاں آ کر ٹھہری تھی۔ بعض کے نزدیک یہ زمین کا حصہ نہیں بلکہ جنت سے بھیجی ہوئی چٹان ہے اس لیے بیت الجنت بھی کہلاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے روز صورِ اسرافیل اسی مقام سے پھونکا جائے گا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں یہودی یہاں قربانیاں دیا کرتے تھے اور آسمان سے برسنے والی آگ اسے جلا کر راکھ کر دیتی تھی، جو اسی امر کی علامت تھی کہ قربانی قبول ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں یہ بارہ ہزار ہاتھ بلند تھا صندل کی لکڑی سے بنے ہوئے اس معبد میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے لعل و زمرد اور یاقوت جڑوائے تھے جو بعد ازاں بختِ نصر کے ہاتھوں پامال ہوئے۔ حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ ایک مدت تک صخرہ ہی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ کے حکم پر انھوں نے مسجد الحرام کو اپنا قبلہ بنا لیا۔مغارۃ الارواح اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی قبر بھی ہے۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جسے بعد ازاں بند کر دیا گیا۔ مختلف انبیاء مثلاً حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کی جائے عبادت کو محرابوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔ مقام النبی وہ جگہ ہے کہ جہاں آپﷺ نے نوافل ادا کیے۔ موئے مبارکﷺ اور نقش پائے مبارکﷺ بھی یہاں محفوظ ہیں۔یہاں پر کرسی سلیمان علیہ السلام ایک بلند چٹان کی صورت میں موجود ہے۔ سلیمان علیہ السلام کا مصلیٰ وہ مقام ہے کہ جہاں تعمیر ہیکل کے دوران میں آپ فیصلے فرماتے تھے اور عبادت کیا کرتے تھے۔روضۂ سلیمان علیہ السلام، جالی دار کھڑکیوں والا وہ کمرہ جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام مدفون ہیں۔دیوار براق وہ مقام کہ جہاں معراج کی شب آپﷺ نے براق باندھا تھا۔دیوار گریہ کے متعلق یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ ہیکل سلیمانی کی باقیات میں سے ہے وہ یہاں آ کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔جنوں کے ہاتھوں تعمیر کرائے گئے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات بھی ان کی زندگی کی طرح عمومی انداز لیے ہوئے نہ تھی۔ انھوں نے نہایت فعال زندگی گزاری اور آخری سانسوں تک مصروف عمل رہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ملک الموت کی آمد کے بعد بھی آپ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہے تو کچھ غلط نہیں۔
دین اور دنیا ساتھ ساتھ اسلام اسی کا درس دیتا ہے کہ ترک دنیا یا رہبانیت اسلام میں ممنوع ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بھی تھے اور پیغمبر بھی۔ دونوں ذمہ داریاں ہمیشہ بطریق احسن پوری کیں۔ پیغام اجل آیا اس وقت بھی آپ عصا زیرِ زنخداں رکھے عبادت میں مصروف تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہیکل سلیمان کی تعمیر میں مصروف سرکش جنوں کی نگرانی بھی کر رہے تھے۔ اسی حالت میں آپ کی روح اس جسدِ خاکی سے عالم بالا کی جانب سفر کرتی ہے لیکن یوں کہ آپ کا جسم عصا کے سہارے اسی طرح موجود رہتا ہے۔ جن آپ کو مصروف عبادت محسوس کرتے ہیں اور اپنے تفویض کردہ فرائض بڑی مستعدی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔ جن غیب کا حال نہ جانتے تھے۔ حتیٰ کہ سامنے کی بات بھی ان پر واضح نہ ہو سکی۔ اگر انھیں وقت پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا علم ہو جاتا تو تعمیر رک جاتی۔ وہ بھاگ اٹھتے کیونکہ اپنی تمام تر سرکشی کے باوجود وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہ کرتے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے جن انھیں آنکھ بھر کر دیکھ نہ سکتے تھے۔ پھر باہر سے وہ اپنے عصا کے سہارے جمے ہوئے عبادت میں مشغول دکھائی دیتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر سال بھر تک کام میں مصروف رہے۔ بیت المقدس کی تعمیر کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے گھن کے کیڑے کو عصا پر مسلط کر لیا۔ دابۃ الارض یعنی اس دیمک نے لکڑی کو کھوکھلا کر دیا۔ عصا گری تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد خاکی بھی زمین پر آ رہا۔ یوں وہ جنات جو غیب کا علم جاننے کا دعویٰ کرتے تھے۔ سال بھر تک مشقت میں پڑے رہے۔
موت کی مدت معلوم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک لکڑی پر دیمک چھوڑی گئی ایک دن اور رات میں دیمک نے جتنی لکڑی کو کھا لیا اس سے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ پوری عصا کو کھوکھلا کرنے میں انھیں ایک سال لگا ہو گا۔اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں ملک الموت نے آ کر اطلاع دی کہ بس یہی چند ساعتیں باقی رہ گئی ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی خیال سے کہ جن اس تعمیر کو نامکمل حالت میں نہ چھوڑ دیں اور پھر نہ جانے کون کب اسے مکمل کرائے۔ آپ نے جنوں کو شیشے کا ایک کمرہ بنانے کا حکم دیا۔ اور خود اس بے در کے کمرے میں بند ہو کر اپنی عصا کے سہارے کھڑے ہو کر عبادت میں مشغول ہو گئے اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ تقریباً ایک سال تک آپ یونہی کھڑے رہے۔ جن انھیں مصروف عبادت سمجھ کر مصروف کار رہے۔ ادھر تعمیر مکمل ہوئی۔ ادھر عصا کو دیمک نے چاٹ کر خاک کر دیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ تب جنوں کو ہوش آیا کہ وہ تو عرصہ ہوا انتقال کر چکے تھے پھر خواہ مخواہ اتنی صعوبت اٹھائی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ اکثر سال دو سال کے لیے بیت المقدس میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ بھی آپ بیت المقدس میں عبادت میں مصروف تھے۔ روزانہ صبح ایک درخت اگتا۔ آپ اس سے اسی کا نام اور فوائد دریافت فرماتے۔ وہ اپنے خصائص اور نام بتایا کرتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی سے کام لیتے۔ ایک روز ایک درخت نمودار ہوا جس نے اپنا نام خروبہ بتایا اور کام یہ بتایا کہ مسجد کی ویرانی میرا مقصد ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے جیتے جی تو یہ مسجد ویران نہ ہو گی۔
آپ نے اسے ایک ویرانے میں لگا دیا۔ صحن مسجد میں خود عصا کے سہارے عبادت میں مشغول ہو گئے اور دعا مانگی کہ خدایا میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسانوں کو یقین ہو جائے کہ جنوں کا علم غیب جاننے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے انسانوں نے جان لیا کہ جن غیب کا علم نہیں جانتے ورنہ وہ اتنی مشقت کیوں سہتے۔اور یہ بھی معجزہ ہی ہے کہ آپ کی وفات کے ایک سال بعد تک جن اس خیال سے کہ آپ ان کی نگرانی کر رہے ہیں، تعمیر میں مصروف رہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ ظاہر ہے عمارت بڑی تھی، عظیم الشان تھی۔ اصل تعمیر مکمل ہونے کے بعد بھی عرصہ تک کوئی نہ کوئی کام نکل آتا ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی وفات کے ایک برس بعد تک جن انھیں کس قدر نامکمل کاموں کو مکمل کرتے رہے ہوں گے۔امام نسائی ؒ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان تعمیر سے فارغ ہوئے تو خدا کی بارگاہ میں جو دعائیں کیں وہ مقبول ہوئیں۔’’بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہونے پر سلیمان علیہ السلام نے بطور شکرانہ کے بارہ ہزار گائیں، بیل اور بیس ہزار بکریوں کی قربانی کر کے لوگوں کو دعوتِ عام دی اور اس دن کی خوشی منائی اور صخرۂ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگیں۔ ’’یا اللہ آپ نے ہی مجھے یہ قوت اور وسائل عطا فرمائے جن سے تعمیر بیت المقدس مکمل ہوئی تو یا اللہ مجھے اس کی بھی توفیق دیجیے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں اور مجھے اپنے دین پر وفات دیجیے اور ہدایت کے بعد میرے دل میں کجی نہ ڈالیے، جو شخص اس مسجد میں داخل ہو میں اس کے لیے پانچ چیزیں مانگتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ جو گنہگار توبہ کرنے کے لیے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کی توبہ قبول فرمائیں …..
خوف و خطر سے بچنے کے لیے داخل ہو آپ اس کو امن دے دیں ….. جو بیمار ہو اس کی شفا عطا فرمائیں …..جو فقیر داخل ہو اس کو غنی کر دیں ….. جو اس میں داخل ہو آپ اپنی نظر عنایت اس پر رکھیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے خدا کے عطا کردہ علم و حکمت، بادشاہت نبوت کی بنا پر قوم یہود کی کایا پلٹ دی اور ان کے تدبر سے ایک عظیم الشان معجزاتی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمرانی میں بلاشبہ یہودیوں کا یہ عہد، عہدِ زریں کہلایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہودی سلطنت کی وسعت، استحکام و پائداری اور عظمت عروج پر تھی۔ اسی عہد میں ’’ہیکل‘‘ تعمیر کیا گیا جو فنِ تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں صرف فولاد ہی نہیں دیگر دھاتوں کی صنعتوں نے بھی بہت ترقی کی۔ چنانچہ ایلا میں تانبا پگھلانے کا ایک بہت بڑا کارخانہ قائم ہوا۔چالیس سال کی حکومت کے بعد ۹۷۵ قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد آپ کا بیٹا رجعام تخت نشین ہوا، اس نے سترہ سال حکومت کی۔ اسرائیلی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ آپس کی چپقلش، خود غرضیوں اور عاقبت نا اندیشیوں نے قوم یہود کو منتشر کر کے رکھ دیا۔وفات کے وقت آپ علیہ السلام کی عمر ۵۳سال سے کچھ اوپر تھی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات اور آپﷺ کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سات سو یا ایک ہزار چار سو سال کا فاصلہ ہے۔آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں کی فراوانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ خدا کے شکر گزار بندوں میں سے تھے۔ ترجمہ: ’’اے مرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کیں اور اس بات کی توفیق دے کہ میں ایسے اچھے اعمال کروں جو تیری رضا کا باعث ہوں اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر دے۔ ‘‘اس عظیم الشان سلطنت شاہانہ کروفر اور نبوت کے اعجاز کے بے شمار انعامات و کرامات سے مالامال ہونے کے باوجود اور اس اجازت کے با وصف اس دولت کے صرف کرنے کے سلسلے میں آپ علیہ السلام سے کوئی پُرسش نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی عبادت و ریاضت اور شکر گزاری کے سبب ’’ نعم العبد ‘‘ یعنی بہت خوب بندہ کا لقب عطا کیا۔ اللہ رب العزت ہمیں بھی اپنی شکر گزاری والی زندگی نصیب فرما ئے ۔۔۔آمین ثم آمین ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔
0 تبصرے