ناگ گھر ۔ مکمل کہانی ۔ مصنف شان باجوہ

مکمل کہانی
ناگ گھر
مصنف شان باجوہ
ٹرین اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی یہ ٹرین کراچی جا رہی تھی اس ٹرین میں دو دوست شکیل اور آفتاب بھی سوار تھے ۔۔
یہ دونوں دوست کراچی سے سیر سپاٹے کرنے جا رہے تھے کراچی میں ان کا دوست روف رہتا تھا رؤف کے والد بھی بزنس مین تھے۔
ان کا کراچی میں ٹیکسٹائل کا بزنس تھا وہ پہلے لاہور میں رہتے تھے لیکن تین سال قبل وہ بزنس کے سلسلے میں کراچی شفٹ ہو گئے تھے ۔
اور اب انہیں کراچی میں رہتے ہوئے دو سال ہوگئے تھے ان دو سال میں تینوں دوستوں کے سوائے فون پر بات چیت کے علاوہ ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔
رؤف نے انہیں کئی مرتبہ کہا تھا کہ وہ ان کے پاس کراچی آئے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اس کے پاس کراچی ضرور آئیں گے
شکیل اور آفتاب فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے شکیل کے والد کی لاہور میں بک شاپ تھی جب کہ آفتاب کے والد جنرل سٹور تھا ۔
کیونکہ ان دنوں انہیں گرمیوں کی چھٹیاں تھی اس لئے دونوں دوست نے رؤف کے پاس کراچی جانے کا پروگرام بنا لیا دونوں نے اپنے اپنے گھر سے کراچی جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے انہیں اجازت دے دی چنانچہ دونوں دوستوں نے کراچی کے لیے ٹکٹ بک کروانے کے لیے رؤف کو بھی اطلاع کردی ۔۔۔
اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے ٹرین روشن گڑھ کے علاقے سے گزر رہی تھی روشن گڑھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ویران اور خوفناک علاقہ ہیں۔ ۔
یہاں کھنڈرات اور ویران عمارتیں تھیں اس علاقے میں جنات اور بد روحیں رہتی تھی کنڈرات اور ویران عمارتوں میں جو شخص بھی گیا ہے وہ زندہ واپس نہیں آیا ۔۔
اور نہ ہی اس کے بارے میں یہ معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے ۔
ٹرین میں ہلکی پاور کے بلب جل رہے تھے جو تاریکی کو دور کرنے کی نا کام کوشش کر رہے تھے ۔
شکیل اور آفتاب کی سیٹیں کھڑکیوں کے پاس آمنے سامنے تھیں ۔
اور وہ دونوں اس وقت سر کرسیوں سے ٹکائے ہو رہے تھے ۔ٹرین میں بہت سے مسافر سو رہے تھے لیکن چند مسافر جاگ رہے تھے ۔۔
اچانک ٹرین کو ایک ہلکا سا جھٹکا لگا اور اس کی رفتار آہستہ ہونے لگی جو مسافر جاگ رہے تھے وہ ٹرین کی رفتار آہستہ ہونے پر چونک پڑے تھے ۔۔
اور ایک دوسرے سے ٹرین کے رکنے کی وجہ معلوم کر رہے تھے لیکن ظاہر ہے کسی کو کیا معلوم تھا کہ شکیل اور آفتاب بھی جاگ گئے تھے ؟اور وہ بھی حیرانی سے کھڑکی کے باہر دیکھ رہے تھے 
باہر گہری تاریکی اور سنسان پھیلی ہوئی تھی قرب و جوار میں گھنے درخت اور قد آدم جاڑیا پھیلی ہوئی تھی تھوڑی دیر کے بعد ٹرین ایک جھٹکے سے رک گئی ۔۔
لگتا ہے ٹرین کے انجن میں کوئی خرابی ہو گئی ہے شکیل نے آفتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں شاید ایسا ہی ہے آفتاب نے اثبات میں سر ہلا دیا ٹرین کے رکنے کی وجہ سے سوئے ہوئے مسافر بھی جاگ گئے ۔۔۔اور وہ سب اٹھ کر بیٹھ گئے تھے ۔انہوں نے دیکھا کہ مرد مسافر ٹرین سے اتر رہے تھے جب کہ خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔
خواتین کے ساتھ بچے بھی تھے جو سو رہے تھے ۔۔
؛؛آو۔ آفتاب _ہم بھی نیچے اتر کر معلوم کریں کہ ٹرین کیوں رک گئی ہے /؟؟؟
شکیل نے آفتاب سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر وہ دونوں ٹرین سے نیچے اتر آئے باہر گہری تاریکی پھیلی ہوئی تھی جن لوگوں کے پاس ٹارچ والے موبائل فون تھے انہوں نے ٹارچ روشن کر لی تھی ۔۔
شکیل اور آفتاب نے بھی اپنے اپنے موبائل آن کرکے ٹارچ روشن کر لی تھی تھوڑی دیر کے بعد ٹرین کا ایک ڈرائیور ان کے پاس آ گیا اس نے بتایا کہ ٹرین کے انجن میں کوئی خرابی ہو گئی ہے ۔۔اور نیا انجن پہنچنے میں دس گھنٹے لگ جائیں گے ۔۔
اس لئے سب پریشان نہ ہوں۔ڈرائیور نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی ٹرین سے دور نہ جائے ۔
ڈرائیور کی بات سن کر سب کے چہروں پر مایوسی کے تاثرات ابھر آِے ۔
اوہ۔ ۔//انجن کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا آفتاب نے منھ بناتے ہوئے کہا ؟؟
مشینری ہے کسی بھی وقت خراب ہو سکتی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ دس گھنٹے کیسے گزاریں گے شکیل نے کہا اس کے چہرے پر بیزاری جھلک رہی تھی ۔۔کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائیں گے اور ادھر درخت کے نیچے بیٹھتے ہیں ۔
آفتاب نے کہا اور پھر وہ دونوں ٹارچوں کی روشنی میں انتہائی احتیاط کے ساتھ پٹری سے تھوڑی دور درختوں کی طرف بڑھ گئے ۔
بہت سے مسافر پہلے ہی درختوں کے قریب پہنچ کر بیٹھ گئے تھے ۔شکیل اور آفتاب نے ایک درخت کا انتخاب کیا اور اس کے نیچے گھاس پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس کی وجہ سے ان پر غنودگی طاری ہوتی جا رہی تھی ۔
اور پھر انہیں معلوم ہی نہ ہوا کہ وہ کب سو گئے تھے ۔۔سب سے پہلے شکیل کی آنکھ کھلی تو وہ چند لمحے لیٹا رہا اور پھر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا _
ارے میں کہا ہو شکیل نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اس نے بے اختیار چوک آفتاب کی طرف دیکھا تو وہ بھی سو رہا تھا ۔۔
شکیل نے گردن موڑ کر ٹرین کی طرف دیکھا تو دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے تاثرات ابھر آے۔ ۔
کیوں کہ ٹرین پٹری پر موجود نہیں تھی اور نہ ہی کوئی اردگرد کوئی مسافر دکھائی دے رہا تھا ۔۔اس وقت وہاں صرف شکیل اور آفتاب موجود تھے 
اوہ!؛؛اوہ! ؛؛ کیا ٹرین چلی گئی ہے شکیل نے پریشانی کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے کہا حیرت کی بات یہ تھی کہ جب ٹرین وہاں سے روانہ ہوئی تھیں تو انہیں ٹرین کے وصل بجانے کی آواز سنائی نہیں دی تھی شکیل آفتاب کو جگانے لگا آفتاب؛؛ آفتاب؛؛ اٹھو آفتاب اٹھو
ٹرین چلی گئی ہے آفتاب شکیل آفتاب کو جگاتے ہوئے بولا تو چند لمحوں کے بعد آفتاب کی آنکھ کھل گئی وہ ہر بڑا کر اٹھ کربیٹھا اور آنکھیں ملنے لگا ۔۔
کیا بات ہے شکیل کیوں نیند خراب کر رہے ہو کیا کراچی آ گیا ہے ۔۔آفتاب نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا وہ سمجھا تھا کہ شاید وہ ٹرین میں سوار ہے اور وہ اپنی کرسی پر سو رہا ہیں ۔۔
کراچی تو نہیں آیا لیکن ٹرین کب کی کراچی روانہ ہوچکی ہے شکیل نے جواب دیا تو اس کی بات سن کر آفتاب کی آنکھیں پوری طرح کھل گئی اور وہ پریشان نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔
کک؛ ؛کک۔ کیا کہہ رہے ہو شکیل یہ کیسے ہو سکتا ہے ٹرین کب روانہ ہوئی ہے اور کسی نے ہمیں جگایا کیوں نہیں آفتاب نے استفہامیہ لہجے میں کہا ۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ ٹرین کب روانہ ہوئی تھی ہو سکتا ہے ہم کسی کو نظر ہی نہ آئے ہوں گے اس لیے کسی نے ہمیں نہیں جگایا ہی نا ہو شکیل نے جواب دیا ۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے شکیل ہم کو یہ اتنی دور تو نہیں تھے کہ کسی کو دکھائی ہی نہ دیئے آفتاب نے کہا ۔۔۔۔
اب یہ سوچوں کہ ہم کیا کریں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا شکیل نے کہا ۔
کسی اور ٹرین کے یہاں سے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں جیسے ہی کوئی ٹرین اس طرف آئے گی تو ہم اسے روکنے کی کوشش کریں گے آفتاب نے کہا ؟؟
میرا خیال ہے میں رؤف کو فون کرتا ہوں شاید وہ ہماری مدد کرسکے شکیل نے کہا ۔۔
ہاں یہ ٹھیک ہے تم رؤف کو فون کرو اور اسے بتاؤ کہ ہمارے ساتھ کیا مسئلہ پیش آیا ہے ۔۔
آفتاب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا پھر شکیل نے اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا سیل فون نکالنا چاہا تو دوسرے ہی لمحے وہ ٹھٹک گیا اس کی جیب میں اس کا سیل فون نہیں تھا شکیل اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ ۔
کیا ہوا آفتاب نے اسے پریشان دیکھا تو پوچھا میرا سیل فون میری جیب میں نہیں ہے تم دیکھو کیا تمہارا سیل فون تمہاری جیب میں موجود ہے شکیل نے جواب دیا تو آفتاب نے اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا سیل فون بھی اس کی جیب میں نہیں تھا پھر وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی جیبیں دیکھنے لگا لیکن اس میں اس کا سیل فون نہیں تھا ۔۔
اوہ؛ ؛اوہ؛؛؛میرا سیل فون بھی میری جیب میں نہیں ہے ۔۔
آفتاب نے ہذیانی انداز میں کہا ؟؟
اوہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔میرا خیال ہے ہمارے سیل فون کیسی نے نکال لیے ہیں یہ جو ہم اتنی دیر سوئے رہے ہیں یقینا کسی نے ہمیں بے ہوش کر دیا تھا اور ہماری بےحوشی کا فائدہ اٹھایا ہمارے سیل فون نکال لیے شکیل نے اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے کہا ۔۔
لیکن میری جیب میں تو پیسے موجود ہیں اگر کسی نے سیل فون چوری کیا ہے تو وہ ہمارے پیسے کیوں نہیں لے گیا تم چیک کرو تمہاری جیب میں پیسے موجود ہیں آفتاب نے شکیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو شکیل نے بھی ایک بار بھی اپنی جیب میں چیک کی تو اس کی جیب میں اس کے پیسے موجود تھے۔۔
ہاں میری جیب میں بھی میرے پیسے موجود ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ چور ہمارے صرف سیل فون کیوں لے گیا ہے وہ پیسے بھی تو لے جاتا شکیل نے حیرت بھرے لہجے میں کہا ہاں شاید اسے ہمارے پیسے نہیں ملے ہوں گے یا اسے پیسے نکالنے کے لئے وقت نہیں ملا ہو گا ۔۔
آفتاب نے جواب دیا تو شکیل نے اثبات میں سر ہلادیا ٹائم کیا ہو رہا ہے شکیل نے کہا تو آفتاب نے اپنی دائیں کلائ طرف دیکھا تو وہ بے اختیار چونک پڑا اس کی کلائی پر اس کی گھڑی بھی موجود نہیں تھی میری گھڑی بھی نہیں ہے آفتاب نے حیرت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔
اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔میری گھڑی بھی نہیں ہے لگتا ہے چور ہم دونوں کی گھڑیا بھی لے گیا ہے اب کیا کریں اور کہا جائے پتا نہیں یہ رات کا کون سا پھر ہے اور صبح ہونے میں کتنی دیر ہے ۔۔
آفتاب نے پریشان لہجے میں کہا اور ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا تا حد نگاہ گھٹا ٹوپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور اردگرد موجود درخت کے سائے عفریتوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے دونوں دوست سے خوفزادہ ہو رہے تھے کہ اب وہ کہاں جائیں ۔۔
مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے آفتاب نے خوف بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔
ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ اب ہم کہاں جائیں ہو سکتا ہے اس جنگل میں درندے بھی پائے جاتے ہوں اگر ہم یہاں بیٹھے رہے تو کوئی درندہ ہم پر حملہ بھی کر سکتا ہے شکیل نے کہا ؟
دور دور تک کسی آبادی کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے کہ وہاں جا کر کسی سے مدد لیتے آفتاب نے کہا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ۔۔
پھر ایک طرف دیکھتے ہیں اس کے چہرے پر چمک ابھرآئ شکیل؛؛؛ادھر دیکھو شاید اس طرف آبادی ہے آفتاب نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شکیل نے چونک کر اس طرف دیکھا تو اسے دور ایک نقطہ ٹٹماتا ہوا دکھائی دے رہا تھا ۔۔
ہاں شاید اس طرف آبادی ہے ٹھیک ہے چلو جو ہوگا دیکھا جائے گا شکیل نے کہا اور پھر وہ دونوں اس طرف بڑھ گئے جس طرف سے روشنی کا نقطہ دکھائی دے رہا تھا درختوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا تھا جس کی وجہ سے چاند کی روشنی نہیں نظر آ رہی تھی ۔۔۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔۔
اور وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے تھے ۔قرب و جوار میں جھینگروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔۔جس کی وجہ سے ان دونوں کے دل تیزی سے دھڑک رہے تھے۔جب انہیں کسی جانور کی چنگاڑ سنائ دیتی تو ان کے دل بری طرح سے دہل جاتے تھے۔۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اچانک انہیں ایک بیانک چیخ سنائی دیں ۔
تو وہ دونوں یو رک گے جیسے ان کے قدم زمین کے ساتھ چپک گئے ہو ۔۔وہ خوف بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے اسی لمحے انہیں ایک بار پھر چیخ سنائی دی ۔۔
چیخ انسانی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی کسی اذیت میں مبتلا ہو ۔۔لیکن انہیں چیخنے والا کہیں بھی دکھائی نہیں دیا ۔۔
یہ؛؛؛یہ۔۔کس کی چیخ ہے آفتاب نے لرزیدہ لہجے میں کہا ؟؟؟
پپ/ پپ پتا؛؛نن؛؛ نہیں _؟شکیل نے بھی گھبراہٹ بھرے لہجے مم۔۔مم۔ ۔ میرا خیال ہے یہ چیز کسی چڑیل کی ہے ہمیں واپس مڑ جانا چاہیے کہیں ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔آفتاب نے بدستور اسی طرح خوف زدہ لہجے میں کہا ۔۔۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو ان ویران جنگلوں میں چڑیلوں کا بسیرا ہوتا ہے ۔۔آؤ واپس چلیں شکیل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔اور پھر وہ واپس پلٹ گئے مگر دوسرے ہی لمحے وہ دونوں بے اختیار ٹھٹک گئے۔ ۔۔۔
ان کے سامنے ایک ٹھوس دیوار موجود تھی جو بہت بڑی اور کافی اونچی تھی ۔۔
حلانکہ کے چند لمحے پہلے وہاں گھنے درخت تھے شکیل اور آفتاب گھبرا گئے ۔۔۔یہ؛؛؛؛یہ کیا اسرار ہے یہ دیوار کہاں سے آگئی۔ابھی تو یہاں درخت تھے شکیل نے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا
آفتاب کے منہ سے بھی خوف کے مارے آواز نہیں نکل رہی تھی اس سے پہلے کہ آفتاب کوئی جواب دے پاتا اچانک ان دونوں کو جھٹکے لگے ۔اور ان کے قدم خود بخود آگے کی طرف بڑھنے لگے ۔۔
ان کے چلنے کی رفتار خاصی تیز تھی ۔۔
شش؛؛؛؛شش۔ ۔شکیل۔ یہ۔ یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔آفتاب نے خوف بھرے لہجے میں کہا ۔۔
پپ۔ ۔پتا نہیں مم۔ ۔میں قدم روکنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میرے قدم روک ہی نہیں رہے شکیل نے جواب دیا اس نے اپنے پیروں کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا اختیار اپنے پیروں پر نہ ہو ۔۔
اچانک اس نے دائیں طرف دیکھا تو وہ بے اختیار چونک پڑا اسے اپنی دائیں طرف ایک سایہ دکھائی دیا جو ان کے ساتھ ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔۔
سایہ دیکھ کر شکیل خوفزدہ ہوگیا درخت بھی ان سے کافی فاصلے پر تھے ورنہ وہ درختوں سے ہی چمٹ جاتے ۔
جنگل کافی وسیع وعریض تھا۔
وہ تھوڑی دیر سے اسی انداز میں جنگل میں چلتے وہ آگے بڑھتے رہے پھر جیسے ہی وہ جنگل کے اختتام پر پہنچے تو انہیں ایک عمارت دکھائی دیں ۔۔
جو گنے درختوں میں گھری ہوئی تھی ۔
اس عمارت کی دیوار پر ایک بہت بڑا ناگ بنا ہوا تھا جو کنڈلی مارے بیٹھا تھا شکیل اور آفتاب کا رخ اسی عمارت کی طرف تھا وہ دونوں حیرت اور خوف بری نظروں سے اس عمارت کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
یہ عمارت کس کی ہے شکیل نے سرسراتی آواز میں کہا ۔۔
مجھے کیا پتا آفتاب نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔۔
عمارت کے قریب پہنچتے ہی شکیل اور آفتاب کے قدم خود بخود رک گئے عمارت کا دروازہ بند تھا اور قرب و جوار میں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔
شکیل نے مڑ کر دائیں طرف دیکھا تو اسے سایہ دکھائی نہ دیا ۔
شالوگ آقا میں تمہارے حکم پر دو لڑکوں کو لے آیا ہوں اچانک انھیں انسانی آواز سنائی دی تو وہ دونوں چونک پڑے اور آواز کسی بوڑھی کی تھی۔۔
وہ حیران ہو رہے تھے کہ وہاں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا پھر یہ آواز کس کی تھی ۔۔
شکیل تم نے آواز سنی آفتاب نے کہا ہاں لیکن بولنے والا تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔۔
شکیل نے جواب دیا پھر اس سے پہلے کہ آفتاب کوئی بات کرتا اچانک عمارت کا دروازہ کھلا
اور ایک بوڑھا باہر نکل آیا ۔۔
اس بوڑھے کی داڑھی اور سر کے بال برف کی طرح سفید تھے ۔
اور بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے ۔
اس کا سر چھوٹا تھا اور اس کے چہرے پر شیطانیت برس رہی تھی ؟ 
اس نے سیاہ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا
اس بوڑھے کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی ؟!_! بوڑھے کو دیکھ کر دونوں دوست گھبراگئے ان کی آنکھوں میں خوف بھر آیا ۔شاید یہی بوڑھا شاہ لوگ تھا
جسے کسی نے پکارا تھا ۔بوڑھا شاہ لوگ چند لمحے ان دونوں کو گہری نظروں سے دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر مکروہ اور شیطانی مسکراہٹ اور ابرآئی ۔۔
ٹھیک ہے تم جاؤ بوڑھے شاہ لوگ نے کہا تو اچانک شکیل اور آفتاب کو ایک سایہ دکھائی دیا جو فضا میں لہراتا ہوا درختوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ درختوں کے پیچھے غائب ہو گیا ۔آو لڑکوں کو بھوڑے شالوگ کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔تو وہ دونوں ٹھٹک کر بوڑھے شالوگ کو دیکھنے لگے ۔
بوڑھا شالوگ مڑا اور دوبارہ عمارت میں داخل ہوگیا ۔دونوں دوست نہ چاہتے ہوئے بھی اس بوڑھے کے پیچھے چلتے ہوئے عمارت میں داخل ہوگئے ۔۔
ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ روبوٹ ہو ۔دونوں دوستوں نے پلٹنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ پلٹ سکے ۔اور اس عمارت میں داخل ہوگئے ۔
عمارت میں روشنی موجود تھی لیکن انہیں کہیں بھی کوئی بلب دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔
وہ دونوں بوڑھے شالوگ کے پیچھے چلتے جا رہے تھے ۔وہ دونوں حیران بھی تھے کیونکہ عمارت میں انہیں کسی کمرے کا دروازہ یا روشن دان تک دکھائی نہ دے رہا تھا ۔بوڑھا شالوگ ایک دیوار کے پاس جا کر رک گیا ۔اس نے اپنا ہاتھ دیوار پر رکھا تو یکلخت ایک جھماکہ ہو اور وہاں دروازہ نمودار ہو کیا ۔
بھوڑے شالوگ نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا تو شکیل اور آفتاب بھی اس کے پیچھے چلتے ہوئے اندر داخل ہوگئے
۔۔۔۔۔انہوں نے کمرے میں نظریں دوڑائیں تو دونوں کے دل خوف سے دہل گئے ۔
اور ان کے دل دھونکی کی مانند دھڑکنے لگے ۔۔کمرے میں دیواروں پر انسانی کھوپڑیاں لٹکی ہوئی
اس کمرے میں بھی روشنی پھیلی ہوئی تھی لیکن وہاں بھی کوئی بلب یا ٹیوپ لائٹ موجود نہیں تھی ۔۔
بب۔ بب۔ بابا جی آپ۔آپ۔ کون ہے ۔اور ہمیں کہاں لے آئے ہیں شکیل نہیں ہکلاتے ہوئے پوچھا ۔۔
میں کالے ناگ کا پوجاری شالوگ ہو اور تم دونوں اس وقت ناگ گھر میں موجود ہو ۔بوڑھے نے جواب دیا تو دونوں بے اختیار چونک پڑے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے ۔۔
کک۔ ۔کک۔ کالا ناگ نن۔ نن۔ ناگ۔ ناگ۔ ۔۔ گھر ۔۔
کک۔ کک۔ کیا مطلب آفتاب نے سراسیمہ لہجے میں کہا ۔۔
لیکن آپ ہمیں یہاں کیوں لے آئے ہیں شکیل نے ہمت کر کے پوچھا ۔۔تم دونوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ تمہیں ناگ گھر میں کیوں لایا گیا ہے ۔
بوڑھے شالوگ میں مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو وہ پلٹ کر دروازے کی طرف بڑھا ۔
وہ دونوں بھی اس کے پیچھے لپکے لیکن ان کے قد میں یکلخت رک گئے ۔
انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نادیدہ قوت نے ان کے قدم جکڑ لئے ہو ۔_۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے پاؤں زمین کے ساتھ چپک گئے ہو بوڑھے کے جاتے ہی دروازہ بند ہوگیا جیسے ہی دروازہ بند ہوا تو ان کے قدموں میں جان آگئی اور وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکے اسی وقت ایک جھماکہ ہوا اور دروازہ غائب ہو گیا اور دونوں دیوار کے ساتھ جا لگے۔ ۔
یہ ہم کہاں پھنس گئے ہیں اور بوڑھا کون ہے شکیل لزیدہ لہجے میں کہاں۔
میرا خیال ہے یہ بوڑھا جادوگر ہے اور ہمیں کسی مقصد کے لیے لایا ہے آفتاب نے جواب دیا۔
مقصد کیسا مقصد شکیل نے چونک کر اس کی طرف دیکھتے۔ ہوئے کہا۔
یہ میرا قیاس ہے ہوسکتا ہے میرا قیاس غلط ہو آفتاب نے جواب دیا۔۔
بوڑھے شالوگ نے بتایا ہے کہ یہ ۔اگ گھر ہے کیا یہاں ناگ رہتے ہوں گے۔۔
شکیل نے کہا شاید آفتاب نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بوڑھا بھی ناگ ہوں اور انسانی شکل میں آگیا ہوں۔۔
شکیل نے کہا شاید لیکن میں ان باتوں کو نہیں مانتا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ناگ انسانی روپ دھار لے؟؟
یہ سب تو فلموں کی کہانیاں ہوتی ہیں آفتاب نے جواب دیا ان کھوپڑیوں کو دیکھا ہے؟
ایسا لگتا ہے سب ہمیں ہی دیکھ رہی ہیں۔شکیل نے کھوپڑیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔مجھے تو کھوپڑیوں وجہ سے خوف آ رہا ہے میں نے ایسی کھوپڑیاں ہارر فلموں میں دیکھی ہیں۔
یا ان کے بارے میں کہانیوں میں پڑھا ہے آفتاب نے کہا تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اب کیا کریں ہم اس کمرے سے باہر کیسے نکلے شکیل نے ۔
جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا ۔لیکن آفتاب نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ظاہر ہے آفتاب کیا کرسکتا تھا وہ تو خود خوفزدہ ہو رہا تھا چند لمحوں کے بعد وہ دونوں ایک دیوار کے کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئے
شکیل اور آفتاب کو اس پر اسرار کمرے میں بند ہوئے کافی دیر گزر گئی تھی۔لیکن بوڑھا شالوگ دوبارہ اس کمرے میں نہیں آیا تھا ۔وہ دونوں کمرے کے کونے میں بدستور دبکے بیٹھے تھے ۔
خوف ان کے چہروں سے عیاں تھا ۔انہیں وقت کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا ۔
شکیل اس پراسرار کمرے سے باہر نکلنے کے بارے میں کچھ سوچوں ؟؟
آفتاب نے شکیل سے مخاطب ہو کر کہا کیا سوچو مجھے تو خود سمجھ نہیں آرہا کہ اس مصیبت سے کیسے ہماری جان چھوٹے گی شکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔
پتا نہیں منہوس بوڑھا کہاں چلا گیا ہے وہی ہمیں اس کمرے سے نکال سکتا ہے ۔آفتاب نے بوڑھے کو کوستے ہوئے کہا ۔پھر وہ دونوں خاموش ہو گئے اچانک کمرے میں ایک جھماکا ہوا ۔اور دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوگیا ۔
دونوں دوستوں نے بے اختیار چونک کر دیکھا ۔اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو گئے چند لمحوں کے بعد دروازہ کھلا ۔
اور بوڑھا شالوگ اندر داخل ہوا۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑا پیالہ تھا جو خون سے لبا لب بھرا ہوا تھا پیالے میں خون دیکھ کر شکیل اور آفتاب گھبرا گئے ۔۔۔
اس پیالے میں ایک ناگ کا خون ہے ۔یہ لو اور دونوں ۔باری باری اسے پی لو ؟؟بوڑھے شالوگ نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
کک کک۔۔۔کیا مطلب نن۔ نن۔ نہیں ہم یہ خون نہیں پئے گے۔_۔ آفتاب نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا ؟
تم دونوں کو یہ خون پینا ہوگا ۔بوڑھے نے غضب ناک لہجے میں کہا 
نہیں ہم یہ خون نہیں پئے گے ہمیں مرنے کا شوق نہیں ہے اگر تمہیں مرنے کا شوق نہیں ہے تو یہ خون پی لو اس بار شکیل نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو بوڑھے شالوگ نے خوف ناک نظروں سے اسے دیکھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔۔۔
تمہیں یہ خون پینا ہوگا اگر تم نے شرافت سے ہوئی خون نہ پیا تو مجھے زبردستی کرنی پڑے گی ۔۔
میں تم سے آخری بار کہہ رہا ہوں یہ لو پیالہ اور باری باری تم دونوں یہ خون بھی لو ۔۔
تم دونوں بے فکر رہو یہ خون پینے سے تم نہیں مرو گے ۔بوڑھے شالوگ نے کہا ۔
ہم مریں یا نہ مریں مگر ہم یہ نہیں پیے گے۔
شکیل نے جواب دیا تو بوڑھے شالوگ کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھر آئے ۔اور وہ خونخوار نظروں سے ان دونوں کو گھورنے لگا ۔۔
یہ خون کس کا ہے اور اس کے پینے سے کیا ہوگا آفتاب نے لرزیدہ لہجے میں پوچھا ۔
میرا خیال ہے میں تمہیں تفصیل بتا ہی دو سنو لڑکوں ۔۔
کالے ناگ کو انسانی روپ بےحد پسند تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ وہ ساری زندگی انسان ہی رہے ۔
آج سے بیس سال پہلے کالا ناگ انسان کے روپ میں آیا تھا ۔اسے انسانی روپ میں آنے کے لیے اپنے ناگ دیوتا سے خاص طاقت حاصل کرنا پڑی تھی ۔۔
ناگ دیوتا نے کالے ناگ سے کہا تھا کہ اگر وہ کسی بد روح کا خون ساتھ انسانوں کو پلا کر
پھر ان انسانوں کا خون پی لے تو وہ سات مہینوں کے بعد وہ انسانی روپ میں آجائے گا ۔۔
چنانچہ ناگ دیوتا کے حکم پر میں نے ویران کھنڈروں اور جنگلوں میں جا کر بدروح کو تلاش کیا تو مجھے ایک بدروح مل گئی ۔
میں نے اسے ہلاک کر کے اس کا سارا خون نکال کر ایک پیالے میں جمع کر لیا ۔
میں ناگ دیوتا کا خاص پجاری ہوں ۔اور اس نے مجھے کالے ناگ کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ بھیج دیا تھا ۔ناگ دیوتا نے مجھے جادوئی طاقت بھی دی ہیں ۔
بد روح کا خون پینے سے تم دونوں بی بدروح بن جاؤ گے اور پھر تم دونوں کو کالے ناگ کے حوالے کیا جائے گا ۔
جو تم دونوں کا خون باری باری پئے گا ۔کیونکہ کالے ناگ نے سات ایسے انسانوں کا خون سات ماہ تک پینا ہے ۔۔
جو بدروحوں کا خون پی کر بد روح بن جاتی ہیں اور تم دونوں کالے ناگ کے آخری شکاری ہوں۔
اس لیے تم دونوں کا خون پیتے ہیں کالا ناگ انسانی روپ دھار لے گا ۔۔
یہ ناگ گھر ہیں جہاں تم موجود ہوں یہ ناگ دیوتا کا ہے اور یہاں ناگ ہی ناگ رہتے ہیں اس لیے تم یہاں سے نکل کر کہیں نہیں جا سکتے ۔۔
اگر تم بھاگنے کی کوشش کرو گے تو ناگ تمہارا راستہ روک لیں گے بوڑھے شالوگ نے مکروہ لہجے میں کہا تو شکیل اور آفتاب ؟؟؟
دونوں کے دل دہل گئے اور وہ درزیدہ نظروں سے بوڑھے شالوگ کی طرف دیکھنے لگے ۔۔
لو یہ خون پی لو انہیں بوڑھے شالوگ کی آواز سنائی دی ۔
نن۔ نن۔ نہیں ہم یہ خون نہیں پیے گے اور نہ ہی ہم کالے ناگ کی خوراک بنیں گے ۔۔
شکیل اور آفتاب نے بیک وقت کہا تو بوڑھے شاہ لوگ کے چہرے پر ایک بار پھر غصے کے تاثرات ابھر آئے۔ ۔
ٹھیک ہے لگتا ہے تم شرافت سے نہیں مانو گے بوڑھے شاہ لوگ نے غضبناک ناک لہجے میں کہا پھر اس نے اپنا بایاں ہاتھ فضا میں جھٹکا تو اسی لمحے جھماکہ ہوا ۔
اور شکیل اور آفتاب کے عقب میں ایک ڈھانچہ نمودار ہوگیا ۔۔
دونوں دوست چونک پڑے بوڑھے شالوگ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
اس لیے انہیں ڈھانچے کے نمودار ہونے کا علم ہی نہ ہو سکا؟ ؟
اس لڑکے کو پکڑ لو ؛؛؛بوڑھے شالوگ نے آفتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ڈھانچے سے کہا تو شکیل اور آفتاب نے بے اختیار چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا ۔؟
تو خوف کے مارے ان دونوں کی چیخیں نکل گئی ۔ڈھانچا آفتاب کے بالکل قریب کھڑا تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا ڈھانچے نے آفتاب کے دونوں بازو پکڑ لیے ۔
آفتاب نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن ڈھانچے کی گرفت بہت سخت تھی اور آفتاب خود کو اس کی گرفت سے نہ چھوڑ سکا۔
شکیل کی حالت بھی دیدنی تھی ۔خوف کی وجہ سے اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی تھی ۔
وہ گنگ ہوکر آفتاب اور ڈھانچے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اس نے بوڑھے شالوگ کی طرف دیکھا ۔تو وہ آہستہ آہستہ آفتاب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ابھری ہوئی تھی ۔اب دیکھتا ہوں تم یہ خون کیسے نہیں دیتے ۔بوڑھے نے آفتاب کے قریب پہنچ کر شیطانی لہجے میں کہا ۔۔
نن؛؛؛؛نن؛؛؛نہیں میں یہ خون ہرگز نہیں پیوں گا !!
آفتاب نے ایک بار پھر ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے کہا ۔
بوڑھے شالوگ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔اس نے بائیں ہاتھ سے آفتاب کے سر کے بال پکڑ کر ایک جھٹکے سے اس کا سر نیچے کیا ۔۔
تو تکلیف کی شدت سے آفتاب کا منہ کھل گیا۔۔ بوڑھے شالوگ نے پیالہ اس کے منہ کے قریب لے گیا۔
'''''''خون پیو
بوڑھے شالوگ نے آفتاب سے کہا لیکن آفتاب اپنا منہ پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا اسی لمحے شکیل نے حرکت کی اس نے آگے بڑھ کر بوڑھے کو زوردار انداز سے دھکا دے دیا ۔۔
تو بوڑھا شالوگ اچھل کر پہلو کے بل زمین پر جا گرا اور اس کے ہاتھ میں موجود پیالہ بھی اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔
اور اس میں موجود خون فرش پر پھیل گیا بوڑھا شاہ لوگ اچھل کر کھڑا ہو گیا اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھر آئے اور اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔۔
یہ تم نے کیا کر دیا یہ تم نے کیا کر دیا اوہ اوہ بوڑھے شالوگ نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے کہا ۔
ڈھانچے نے بدستور آفتاب کے بازو پکڑے ہوئے تھے کیونکہ ڈھانچے کی توجہ بوڑھے شالوگ کی طرف تھی اس لیے شکیل نے اس کے منہ پر گھونسا مار دیا ڈھانچہ بھی بوکھلا گیا اور اس نے آفتاب کے بازو چھوڑ دیے
آفتاب نے ڈھانچے کو بھی دھکا دے دیا تو ڈھانچہ بھی اچھل کر پشت کے بل زمین پر گر گیا آو شکیل یہاں سے نکل چلے آفتاب نے چیخ کر شکیل سے کہا۔۔
اور پھر وہ دونوں تیزی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے ان دونوں کو پکڑ لو یہ بھاگنے نہ پائیں ورنہ کالا ناگ ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا بوڑھے نے جب شکیل اور آفتاب سب کو دروازے کی طرف بڑھا دیکھا تو اس نے چیخ کر ڈھانچے سے کہا ڈھانچا اپنی ہڈیاں کڑکڑاتا ہوا اٹھا اور وہ شکیل آفتاب دونوں کی طرف لپکا شکیل اور آفتاب کمرے سے باہر نکل گئے تھے
راہداری کافی طویل تھی اور وہاں سے پر اسرار روشنی پھیلی ہوئی تھی اس راہداری کے
دونوں اطراف میں کمرے بنے ہوئے تھے جن کے دروازے بند تھے اس لمحے ڈھانچہ بھی کمرے سے باہر نکل آیا
اور اس نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور ان دونوں کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا شکیل اور آفتاب ایک دم رک گئے
اور متوحش نظروں سے ڈھانچے کو دیکھنے لگے۔۔
میں تمہیں نہیں جانے دوں گا ڈھانچے نے کڑکڑاتی آواز میں کہا اور پھر اس نے شکیل اور آفتاب کو بازو میں پکڑ ا ۔۔
اور انہیں گھسیٹتے ہوئے اسی کمرے کی طرف لے جانے لگا ۔
جس میں بوڑھا شالوگ موجود تھا ۔
وہ دونوں اس کمرے میں دوبارہ نہیں جانا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بوڑھا شالوگ انہیں قید کر دے گا۔
اس لئے وہ ڈھانچے کی گرفت سے نکلنے کی سخت جدوجہد کر رہے تھے اسی لمحے بوڑھا شالوگ بھی کمرے سے باہر نکل آیا اس کے چہرے پر غضبناکی کی پھیلی ہوئی تھی۔۔
اور وہ خونخوار نظروں سے شکیل اور آفتاب کو دیکھ رہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گا لے آؤ انہیں اب بوڑھے نے ڈھانچے سے مخاطب ہو کر کہا۔۔
اچانک شکیل کو آیت الکرسی کا خیال آگیا اور اس نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دوسرے ہی لمحے اس نے آیت الکرسی پڑھنے کے بعد ڈھانچے پر پھونک مار دیں تو بھک کی آواز کے ساتھ ڈھانچے کو آگ لگ گئی۔۔
اور اس نے شکیل اور آفتاب کو چھوڑ دیا ڈھانچےکی حلق سے دلخراش چیخیں نکل رہی تھیں۔
ڈھانچہ یو آگ میں جل رہا تھا جیسے سوکھی لکڑی جلتی ہیں بوڑھے شالوگ نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ پلٹ کر کمرے میں گیا۔
اور دروازہ غائب ہوگیا شکیل آفتاب آگ میں جلتے ہوئے ڈھانچے کو دیکھ رہے تھے جو آنا فانا جل کر راکھ میں تبدیل ہوگیا تھا
بوڑھا شالوگ بھی غائب ہو گیا آفتاب نے شکیل سے کہا جہنم میں جائے بوڑھا اگر مجھے ایک لمحے کی بھی دیر ہوجاتی تو اس نے تمہیں بدروح کا خون پلا دینا تھا شکیل نے منھ بناتے ہوئے کہا تمہارا شکریہ۔۔
کہ تم نے بروقت میری مدد کی آفتاب نے تحسین بھری نظروں سے شکیل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں وہ دوست ہی کیا جو مصیبت کے وقت اپنے دوست کی مدد نہ کرے۔۔
آو اس ناگ گھر سے نکلنے کی کوشش کریں شکیل نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر وہ دونوں آگے بڑھنے لگے جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے جارہے تھے حیرت انگیز طور پر راہداری طویل ترین ہوتی جا رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے راہداری ختم ہی نہ ہو رہی تھی۔۔
تاحدنگاہ راہداری پھیلی ہوئی تھی یہ راہداری تو شیطانیت کی طرح بڑی ہے ختم نہیں ہونے کا نام نہیں لے رہی آفتاب نے کہا تو شکیل نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ دونوں الجھن کا شکار ہوگئے تھے۔۔
اچانک وہ دونوں ٹھٹک کر رک گئے کیونکہ ان کے سامنے ایک ناگ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اس کی رنگت زرد اور کالی تھی اس کی موٹائی چار فٹ اور لمبائی دس فٹ کے لگ بھگ تھی ناگ کو دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوگئے ناگ نے ایک زور دار پھنکاری ماری تو ان دونوں کے دل دہل گئے اور ان پر لرزہ طاری ہو گیا اگر وہ دونوں آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ناگ انہیں ڈس بھی سکتا تھا شکیل اب کیا کریں آفتاب نے خوف بھرے لہجے میں کہا اس ناگ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے راستے سے ہٹ جائے اور ہمیں جانے دے۔۔
شکیل نے جواب دیا تو آفتاب نے اس کی شکل دیکھی لگتا ہے خوف سے تمہارا دماغ چکرا گیا ہے آفتاب نے کہا اور پھر وہ ایک کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
شکیل بھی اس کے پیچھے تھا آفتاب نے دروازہ کھولا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے کمرے میں داخل ہوتے ہیں ان دونوں کی چیخیں نکل گئی ۔۔۔
کمرے میں درجنوں ناگ ادھر ادھر پھر رہے تھے جبکہ کچھ ناگ کنڈلی مارے بیٹھے تھے دونوں کے چہروں پر زردی پھیل گئی تھی ۔
دونوں اس کمرے سے باہر نکل آئے انہوں نے دیکھا کہ ناگ بدستور راہداری میں موجود تھا۔۔ناگ نے انہیں دیکھتے ہی ایک بار پھر زور سے پھنکار ماری۔۔اور ان کی طرف رینگتے ہوئے بڑھنے لگا ۔وہ دونوں چیخ پڑے اور پلٹ کر بھاگنے لگے ۔ناگ بھی کے پیچھے ہی آ رہا تھا ۔وہ بھاگتے ہوئے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچ گئے ۔
شکیل نے دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہوگیا آفتاب بھی اس کے پیچھے تھا ۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہیں ان دونوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک بار پھر ان کی چیخیں نکل گئی ۔۔
اس کمرے میں بھی درجنوں ناگن موجود تھے لیکن انہوں نے شکیل اور آفتاب کو کچھ نہیں کہا اوہ۔ ۔۔اس کمرے میں بھی ناگ ہے اب ہم کہاں جائیں ۔اگر ہم باہر نکلے تو وہ ناگ میں مار ڈالے گا شکیل نے تیز لہجے میں کہا ۔۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اب ہم کہاں جائیں یہاں بھی تو ناگ موجود ہیں آفتاب نے رو دینے والے لہجے میں کہا کہ وہ دونوں بے حد ہرسہ دکھائی دے رہے تھے ۔۔
پھر اس سے پہلے کہ ان کے درمیان مزید کوئی بات ہوتی اسی لمحے دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور بوڑھا شالوگ اندر داخل ہوا ۔اس کے چہرے پر شیطانی اور مسکراہٹ رقص کر رہی تھی بوڑھے کو دیکھ کر وہ دونوں بوکھلا گئے ۔۔
تت۔ ۔تت۔ ۔تم شکیل نہیں کھلاتے ہوئے کہا ۔
ہاہاہاہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکوں میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ تم لاکھ کوشش کے باوجود ناگ گھر سے نہیں نکل سکو گے۔
یہاں تم جس کمرے میں بھی جاؤ گے تو تمہیں وہاں ناگ ہی ناگ دکھائی دیں گے ۔
یہ سب ناگ کالے ناگ کے غلام ہیں اور کالے ناگ کے اشارے پر تمہیں ہلاک بھی کر سکتے ہیں بوڑھے نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو آفتاب اور شکیل لرزنے لگے ۔۔
خخ۔ خخ۔ خدا کے لئے ہمیں ناگ گھر سے باہر نکال دو ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں ہمارے والدین ہمارے ہمارے کراچی نہ پہنچنے پر بے حد پریشان ہوں گے ۔
آفتاب نے منت بھرے لہجے میں کہا تو بوڑھے شالوگ نے مکروہ انداز میں ایک بار پھر کہکا لگایا۔۔
لڑکوں تم ناگ گھر سے جانے کا خیال دل سے نکال دو ایک بار جو ناگ گھر میں آ جاتا ہے پھر وہ کبھی بھی واپس نہیں جا سکتا چلو بوڑھے شالوگ نے جواب دیا ۔اور پھر وہ مڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔
اچانک شکیل اور آفتاب کے پیروں نے حرکت کی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کمرے سے باہر نکل کر بوڑھے کے پیچھے چلنے لگے ۔
ایسا لگتا تھا جیسے کوئی غیر مرئی قوت انہیں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔
انہوں نے خود کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ رک سکے اور بوڑھے کے پیچھے چلتے رہے
بوڑھا شالوگ ان دونوں کو اسی کمرے میں بند کر کے چلا گیا جہاں سے وہ فرار ہوئے تھے شکیل اور آفتاب کمرے کے کونے میں دبکے بیٹھے تھے ان کے چہروں پر پریشانی اور خوف کے تاثرات ابھرے ہوئے تھے۔۔۔
انہوں نے اپنی طرف سے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے تھے لگتا ہے ہم نا گھر میں کبھی نہیں نکل سکیں گے اور کالے ناگ کی خوراک بن جائیں گے
شکیل کی مایوسی بھرے لہجے میں کہا شکیل مایوس نہ ہو مایوسی گناہ ہے اللہ کوئی نہ کوئی سبب بنا دے گا کہ ہم نا گھر سے نکل جائیں گے آفتاب نے شکیل کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ شکیل ایک بہادر اور باہمت لڑکا تھا۔۔۔
لیکن اب وہ مایوس ہو رہا تھا تم نے ناگ دیکھا تھا جس نے ہمارا راستہ روک لیا تھا کتنا خوفناک تھا وہ شکیل نے کہا ناگ تو ہوتے ہی خوفناک ہے شکر ہے کہ اس نے ہم میں سے کسی کو ڈسا نہیں تھا۔۔
کہتے ہیں نا کا سانپ کا ڈسا پانی نہیں مانگتا آفتاب نے جواب دیا ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ہمیں یہاں سے نکلنے کے لیے کوئی ترکیب کرنی پڑے گی ورنہ بوڑھا شالوگ ہمیں کالے ناگ کی خوراک بنا کر ہی رہے گا شکیل نے کہا لیکن میری سمجھ تو کچھ نہیں آرہا یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب ہوسکتی ہے۔
آفتاب نے منہ بناتے ہوئے کہا ایک ترکیب ہے شکیل نے کہا تو آفتاب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کیا ترکیب ہے بتاؤ آفتاب میرا خیال ہے جب تک ہم بوڑھے شالوگ قابو نہیں کریں گے اور نا ہی ناگ گھر سے کبھی نہیں نکل سکیں گے شکیل نے جواب دیا تو آفتاب کی پیشانی پر سوچ کی گہری لکیرے یا ابھر آئ ۔۔۔
کیا مطلب میں تمہاری بات سمجھا نہیں ہم بوڑھے شالوگ کو کیسے قابو کریں گے وہ تو پراسرار قوتوں کا مالک ہے آفتاب نے کہا ہاں اگر ہم بوڑھے کے منہ پر کپڑا باندھے تو وہ ہم پر جادوئی عمل نہیں کر سکے گا اور اس طرح ہم اسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ناگ گھر سے نکال دے۔۔
ورنہ ہم اسے ہلاک کر دیں گے میرا خیال ہے اس طرح بوڑھا شالوگ اپنی جان بچانے کے لیے مان جائے گا شکیل نے جواب دیا تو آفتاب کی آنکھوں میں چمک اور ابھرآئ تمہاری ترکیب تو اچھی ہے کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس رومال ہے آفتاب نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں میرے پاس رومال ہے شکیل نے جواب دیا پھر وہ بوڑھے شالوگ کا انتظار کرنے لگے وقت گزرتا جا رہا تھا ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی 
تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد اچانک ایک جھماکہ ہوا اور دائیں طرف والی دیوار کا کچھ حصہ غائب ہو گیا اور وہاں ایک دروازہ نمودار ہو گیا چند لمحوں کے بعد بوڑھا شالوگ کے اندر داخل ہوا اسے دیکھ کر دونوں دوست بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔۔
چلو میرے ساتھ بوڑھے شالوگ نے تحکمانہ لہجے میں کہا تم ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہو شکیل نے پوچھا کالے ناگ کے پاس بوڑھے نے جواب دیا تو وہ دونوں گھبرا گئے ۔۔
کک ۔۔۔۔کک ۔۔۔کالے نہ کے پاس کک۔۔۔ کک۔۔ کیوں شکیل نے خوب بھرے لہجے میں کہا
آفتاب کے چہرے پر بھی پریشانی اور خوف کے ملے جلے تاثرات ابھر آئے ناگ دیوتا نے کالے نا کو حکم دیا ہے کہ وہ تم دونوں کو زندہ سلامت رکھا جائے..
اس لیے کالے ناگ نے مجھے حکم دیا ہے تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچا دو چلو اب بوڑھے شالوگ نے جواب دیا تو ان دونوں کے جسم میں سرد لہر سی دوڑ گئی وہ تھر تھر کانپنے لگے ان کے چہرے بھی سرد پڑ گئے تھے ۔۔
لیکن ہم کالے ناگ کے پاس نہیں جانا چاہتے آفتاب نے لرزیدہ لہجے میں کہا کالے ناگ کے پاس تمہیں جانا ہی ہوگا اگر تم نہ گئے تو میں تمہیں زبردستی لے جاؤں گا چلو آؤ میرے ساتھ بوڑھے نے کہا نہیں ہم نہیں جائیں گے ہمیں مت لے جاؤ تمہیں خدا کا واسطہ ہے??
شکیل نے خوف بھرے لہجے میں کہا تو بوڑھے نے ایک زور دار انداز میں قہقہہ لگایا ٹھیک ہے میں تمہیں زبردستی لے جاتا ہوں بھوڑے شالوگ نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا ...
شکیل اور آفتاب سمجھ گئے کہ بوڑھا شالوگ کوئ منتر پڑھ رہا ہے تاکہ وہ انہیں پراسرار طریقے سے اپنے ساتھ لے جائے اسی لمحے شکیل اور آفتاب نے بوڑھے پر حملہ کردیا ۔۔۔۔۔
بوڑھے شالوگ کو شاید توقع نہیں تھی کہ وہ دونوں اس پر ہم اچانک حملہ کر دیں گے اس لیے بوڑھا شالوگ ان کے حملے سے اچھل کر فرش پر پشت کے بل جاگرا اور اس کی حلق سے چیخ نکل گئی۔۔
اس کا منتر بھی ادھورا رہ گیا تھا وہ فرش سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ شکیل اور آفتاب اس کے سر پر پہنچ گئے۔۔
اور انہوں نے اسے قابو کر لیا شکیل اس کا منہ باندھو آفتاب نے چیخ کر شکیل سے کہا تو شکیل نے تیزی سے اپنی جیب سے رومال نکال کر بوڑھے شالوگ کے منہ پر باندھ دیا...
اب بوڑھے کی حلق سے خرخراہٹیں نکل رہی تھی وہ خود کو دونوں کی گرفت سے چھڑانے کی تگ و دو کر رہا تھا لیکن دونوں دوستوں نے اسے مضبوطی کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔۔
اور بوڑھا شالوگ بھی خاصا طاقتور تھا اس نے دونوں دوستوں کو زور سے دھکا دیا تو وہ دونوں اچھل کر پشت کے بل فرش پر گر گئے اور ان کے منہ سے بھی چیخے نکل گئی ۔۔۔
بوڑھا شالوگ اچھل کر پھرتی کے ساتھ کھڑا ہوا اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھی اس نے اپنے منہ سے رومال اتار کر زمین پر پھینک دیا۔۔۔
اگر تم کالے ناگ کے شکار نہ ہوتے تو میں ابھی تم دونوں کو یہی بھسم کر دیتا ۔۔۔بوڑھے شالوگ نے غراتے ہوئے کہا ۔۔۔
پھر اس نے اپنا ہاتھ دایاں ہاتھ ان دونوں کی طرف کیا ہی تھا کہ شکیل نے فرش پر لیٹے لیٹے ہی بوڑھے شالوگ کی دائیں ٹانگ پر اپنی ٹانگ رسید کر دی بوڑھا یکدم لڑکھڑا گیا جیسے ہی وہ لڑکھڑا یا تو اس کے ہاتھ میں بھی بے اختیار اوپر کی طرف ہو گیا تھا اور اس کے ہاتھ کی انگلیوں سے نکلنے والی چنگاریاں دیوار پر پڑی تو ایک دھماکہ ہوا اور دیوار غائب ہوگئی۔۔
دوسری طرف گہرا اندھیرا صاف دکھائی دے رہا تھا بوڑھا غصے سے شکیل اور آفتاب کی طرف دیکھا تو شکیل اور آفتاب نے بیک وقت اس کی ٹانگوں پر لات رسید کر دیں۔۔_
بوڑھا شالوگ دہڑام سے منہ کے بل گرا اور اس کی حلق سے دردناک چیخ نکل گئی اس کی ناک سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اس سے پہلے کہ بوڑھا اٹھ پاتا شکیل اور آفتاب اس پر پل پڑے ۔۔
گھونسوں اور مکو۔ سے اس کی دھنائی کرنے لگائے بوڑھا شالوگ مسلسل چیخ رہا تھا کہ وہ دونوں اس وقت تک اس کو مارتے رہے جب تک وہ بے ہوش نہ ہو گیا ۔۔
دونوں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہانپنے لگے آؤ وقت ضائع کئے بغیر ہمیں ناگ گھر سے نکل جانا چاہئے آفتاب نے تیز لہجے میں شکیل سے مخاطب ہو کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔
پھر وہ دونوں دیوار کے غائب حصے کی طرف بڑھے جیسے ہی وہ دیوار کے غائب حصے کے قریب پہنچے تو اسی وقت ایک ناگ نمودار ہو گیا ۔۔۔
ناگ کا رنگ زرد تھا اور وہ خاصا بڑا تھا اسے دیکھ کر دونوں دوست گھبرا گے اور پلٹ کر ایک طرف دوڑتے چلے گئے ناک دیوار پر رینگتا ہوا اندر آ گیا مگر وہ ان دونوں کے پیچھے نہیں گیا وہیں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا اور ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا دونوں دوست مسلسل دوڑ رہے تھے
لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جائیں کیونکہ راہداری میں نہ تو کسی کمرے کا کوئی دروازہ دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی رہداری ختم ہونے کا نام لے رہی تھی دوڑتے دوڑتے ان دونوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ بے اختیار چونک پڑے اور دونوں فرش پر بے ہوش پڑے تھے وہاں البتہ ناگ وہاں موجود نہیں تھا۔۔
ارے یہ ناگ کہا گیا آفتاب نے حیرت بھرے لہجے میں کہا شاید واپس چلا گیا ہوں شکیل نے جواب دیا اتنی جلدی وہ کیسے جاسکتا ہے آفتاب نے حیرت بھرے لہجے میں کہا ناگ کے دوڑنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اس لیے ہم اسے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکے شکیل نے بتایا تو آفتاب نے اثبات میں سر ہلا دیا اب کیا کریں۔۔
میں تو پاگل ہو جاؤں گا آفتاب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا او دیکھتے ہیں شکیل نے کہا اور پھر وہ دونوں دیوار کے اسی غائب حصے کی طرف بڑھنے لگے جہاں سے ناگ اندر آیا تھا دیوار کے قریب پہنچ کر وہ دونوں جھانک کر دیکھنے لگے لیکن دوسری طرف گہرا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اس طرف تو اندھیرا ہے آفتاب نے کہا ہو سکتا ہے یہ جنگل کا حصہ ہوں ۔۔
رسک تو لینا ہی پڑے گا شکیل نے کہا وہی ناگ پھر نہ آ جائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ناگ اس طرف موجود ہو ہمارے پاس کوئی ایسا ہتھیار بھی نہیں ہے جس سے ہم ناگ کو ہلاک کر سکیں آفتاب نے کہا ٹھہرو میں کسی سے مدد مانگتا ہوں ہو سکتا ہے !!!___
اس طرف کوئی موجود ہو کوئی ہے جو ہماری مدد کرے کوئی ہے شکیل نے پہلے آفتاب سے کہا اور پھر اونچی آواز میں کسی کو پکارنے لگا دوسرے لمحے اس کی آواز دوسری طرف گونج کر رہ گئی ایسا لگتا تھا ۔۔۔
جیسے وہ بند کمرے میں ہوں ارے باپ رے یہ تو کمرہ ہے شکیل نے آفتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کمرے میں چلتے ہیں ہو سکتا ہے اس کمرے کا دروازہ جنگل میں کھولتا ہوں۔۔
آفتاب نے شکیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لیکن اس کمرے میں اندھیرا ہے ایسا نہ ہو کہ اس کمرے میں بھی ناگ ہو اور ہم مرغ مسلم""
کی طرح ان کی خوراک بن جائیں؟؟؟!
شکیل نے جواب دیا تو آفتاب یو سرہلانے لگا جیسے شکیل کی بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو پھر اس سے پہلے کہ آفتاب اس کی بات کا کوئی جواب دیتا اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی تو وہ دونوں ڈر کر ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ ۔۔
پھر دونوں نے ڈرتے ڈرتے کمرے میں دیکھا تو دوسرے ہی لمحے ان کے چہروں پر خوف کے تاثرات ابھرآئے اور ان کے جسموں میں سر دی لہریں دوڑتی چلی گئی ان کی آنکھیں بھی پھٹ نے لگی اس کمرے میں سینکڑوں کی تعداد میں ناگ موجود تھے ۔۔۔
جو کمرے میں رینگتے پھر رہے تھے اوہو اوہو اس کمرے میں بھی ناگ ہے شکر ہے ہم اس کمرے میں نہیں گئے ورنہ ہم اب تک ہم اوپر پہنچ چکے ہوتے آفتاب نے کپکپاتے لہجے میں کہا اف میرے خدایا ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔۔
ہمیں کوئی راستہ نہیں مل رہا ہم کیا کریں شکیل نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا اچانک ایک زوردار پھنکار سنائی دی ...
تو وہ دونوں چونک کر مڑے ان سے کچھ فاصلے پر ایک ناگ موجود تھا اس کا رنگ کالا تھا اس کی لمبائی 20فٹ اور موٹائی تین فٹ کے لگ بھگ تھی ۔۔
شکیل اور آفتاب اسے دیکھ کر ششدررہ گئے۔
اور سہم کر پچھلی دیوار کے ساتھ لگ گئے کالے ناگ کی سرخ آنکھیں ان دونوں پر جمی ہوئی تھی۔۔۔۔
پھر وہ آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے لگا دونوں کے رنگ زرد پڑ گئے تھے اور وہ خوف سے کانپ رہے تھے کالا ناگ ان کے قریب پہنچ کر رک گیا ۔۔
اور اس کی طرف دیکھنے لگا پھر اس نے اپنا پھاڑ جیسا منہ کھولا اور ایک زور دار پھنکاری ماری تو دونوں دوستوں کی چیخیں نکل گئی۔۔
وہ تھر تھر کانپنے لگے ان دونوں نے فلموں میں تو ایسا ناگ دیکھا تھا لیکن حقیقی زندگی میں وہ پہلی بار اتنا بڑا اور خوفناک ناگ دیکھ رہے تھے دوسرے ہی لمحے ناگ نے شکیل پر جھپٹا مارا ۔۔۔۔۔
لیکن شکیل بجلی کی سی تیزی سے زمین پر بیٹھ گیا ۔۔جس کی وجہ سے ناگ کا پھن زور سے دیوار پر پڑا ۔۔اور دیوار ٹوٹ گئی ۔۔اور وہاں خلاء نمودار ہوگیا ۔خلاء اتنا بڑا تھا کہ ایک انسان آسانی سے وہاں سے نکل سکتا تھا ۔۔
کالے ناگ نے اپنا پھن پیچھے کر کے دوبارہ شکیل پر جھپٹا مارا تو اس بار بھی شکیل زمین پر بیٹھے بیٹھے ہیں قلابازی کھا گیا ۔۔
جس کی وجہ سے وہ ایک بار پھر ناگ کا شکار ہونے سے بچ گیا۔۔پھر دونوں اٹھ کے کمرے کی طرف بھاگنے لگے کالا ناگ بھی بجلی کی سی تیزی سے پلٹا ۔۔
وہ دونوں دروازہ کھول کر اس کمرے میں پہنچے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے ۔۔اس کمرے میں بھی درجنوں ناگ ادھر ادھر رینگتے پھر رہے تھے ۔۔
ان ناگوں نے جب تشکیل اور آفتاب کو دیکھا تو پھنکارنے لگے ۔۔اس کمرے میں بھی ناگ موجود ہیں ۔۔آفتاب نے خوف بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔
شاید اسی لیے اس عمارت کو ناگ گھر کہتے ہیں۔ کہ یہاں ناگ بسیرا کیے ہوئے ہیں شکیل نے جواب دیا تو آفتاب نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔حیرت کی بات ہے کہ اتنے ناگ کہاں سے آگئے ہیں ۔۔ایسا لگتا ہے جیسے پورے ملک کے جنگلوں کے ناگ یہاں آ گئے ہیں ۔۔
میرے پاس پٹرول اور ماچس ہوتی تو میں ان سب ناگوں کو آگ لگا دیتا ۔آفتاب نے کہا اس سے پہلے کے شکیل اس کی بات کا کوئی جواب دے پاتا ۔ ۔
اچانک دروازے کے اوپر والے حصے پر زوردار ٹھوکر لگی اور اوپر کے حصے سے ایک لکڑی دھماکے سے ٹوٹ کر اندر آ گری ۔۔
اور کالے ناگ کا پھن اندر داخل ہوا تو ان دونوں کی چیخیں نکل گئی ۔۔یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ دروازے کے ایک سائیڈ پر کھڑے تھے ۔۔
جس کی وجہ سے ان دونوں میں سے ایک کالے ناگ کا شکار بننے سے بچ گیا تھا۔کالے ناگ نے ان دونوں کی طرف دیکھا ۔۔
اور پھر وہ ان کی طرف بڑھنے لگا اچانک شکیل ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرش پر پڑی ہوئی لکڑی اٹھائی اور اس نے لکڑی کالے ناگ کی آنکھ پر ماردی ۔کالے ناگ کی حلق سے خوفناک پھنکار نکلی اور وہ پھنکارتا ہوا پیچھے ہٹ گیا چند لمحوں کے بعد کالے ناگ کا پھن دوبارہ اندر داخل ہوا تو شکیل نے ایک بار پھر لکڑی اس کے پھن پر مار دی کالے ناگ کے حلق سے ایک بار پھر خوفناک پھنکار نکلی اور وہ پیچھے ہٹ گیا شکیل کمرے میں موجود ناگ ہماری طرف آ رہے ہیں ۔اچانک آفتاب نے چیخ کر کہا تو شکیل نے بے اختیار چونک کر کمرے میں نظر دوڑائیں تو وہ بھی شسشدہ رہ گیا ۔کمرے میں موجود ناگ تیزی سے رینگتے ہوئے ان کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے ۔کالا ناگ دوبارہ اندرا نہیں آیا تھا ۔نکل چلو اس کمرے سے شکیل نے چیخ کر آفتاب سے کہا ۔۔
آفتاب نے دروازہ کھولا اور پھر وہ دونوں باہر نکل آئے باہر رہداری میں کالا ناگ بدستور موجود تھا ۔اس نے جب شکیل آفتاب کو دیکھا تو وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا ۔اس نے شکیل پر حملہ کیا تو شکیل نے لکڑی اس کے پھن پر مار دی لیکن کالے ناگ نے اس کی لکڑی اپنے منہ میں دبوچ لی اور دوسرے ہی لمحے اس نے ایک جھٹکے سے لکڑی سمیت شکیل کو اٹھا کر ایک دیوار پر پھینک دیا ۔شکیل اڑتا ہوا دیوار سے ٹکرایا اور دب کی آواز کے ساتھ زمین پر آ گرا ۔
اس کے حلق سے دردناک چیخ نکل گئی لکڑی کالے ناگ کے منہ میں تھی جسے اس نے فرش پر پھینک دیا اور پھر وہ شکیل کی طرف بڑھنے لگا ۔۔شکیل شکیل کالا ناگ تمہاری طرف آ رہا ہے ۔شکیل خود کو بچاؤ اسی لمحے آفتاب نے چیخ کر کہا ۔شکیل اٹھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن کالا ناگ اس کے قریب پہنچ گیا ۔۔کالا ناگ ایک بار پھر اپنا پہاڑ جیسا منہ کھول کر شکیل کو کھانے لگا تھا کہ اسی لمحے آفتاب نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔فرش پر پڑی لکڑی اٹھائی اور اس نے دوڑ کر کالے ناگ کے پھن پر مار دی کالے ناگ نے پھنکارتے ہوئے آفتاب کی طرف دیکھا اور پھر وہ اس کی طرف بڑھا ۔۔
اس دوران شکیل بھی اٹھنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن اس کے سر میں شدید ٹیسیس اٹھ رہی تھی کیونکہ وہ سر کے بل فرش پر گرا تھا ۔آفتاب دوڑتا پھر رہا تھا کالے ناگ نے اسے پکڑنا چاہا تو آفتاب نے ایک بار پھر لکڑی اس کے پھن پر مار دی لکڑی کالے ناگ کی آنکھ پر لگی اور اس کے حلق سے زور زور سے پھنکاریں نکلنے لگی ۔۔
اور وہ بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہو گیا اسی لمحے اس کمرے سے جس کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا درجنوں چھوٹے بڑے ناگ نکل آئے ۔آفتاب ان ناگوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا ۔شکیل آو نکل چلے جلدی کرو آفتاب نے ایک بار چیخ کر شکیل سے کہا ۔شکیل کو تو جیسے ہوش آ گیا پھر وہ دونوں تیزی سے دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے کی طرف بڑھے ۔گو دیوار کا حصہ تھوڑا سا ٹوٹا ہوا تھا لیکن اس وقت مسئلہ انہیں اپنی جان بچانے کا تھا ۔اس لیے وہ فوری طور پر یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے ۔بوڑھا شالوگ بھی بدستور بے ہوشی کے عالم میں پڑا ہوا تھا ۔سب سے پہلے شکیل ٹوٹے ہوئے حصے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔اس کے بعد آفتاب نکلنے لگا کالا ناگ اور اس کے غلام ناگ بھی تیزی سے پھنکارتے ہوئے آفتاب کی طرف بڑھ رہے تھے ۔اور پھر اس سے پہلے کہ وہ آفتاب تک پہنچ پاتے آفتاب باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔خوف کے مارے وہ پسینے سے شرابور تھے ۔دونوں نے تیزی سے ایک طرف دوڑنا شروع کر دیا ۔
وہ ناگ گھر کا عقبی حصہ تھا ۔
جس کے قریب گنیں اور قد آدم جاڑیا پھیلی ہوئی تھی ۔کیونکہ رات کا وقت تھا اور چاروں طرف گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا اس لیے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔کہ وہ کس طرف جائیں اسی لمحے درجنوں کی تعداد میں ناگ بھی دیوار کے ٹوٹے ہوئے ہیں سے برآمد ہوئے ۔
اور جھاڑیوں میں اترنے لگے تو شکیل اور آفتاب انہیں دیکھ کر گھبرا گئے ۔شکیل ناگ باہر آگئے ہیں آفتاب نے خوف بھرے لہجے میں کہا ۔ہاں لیکن ہم کہاں جائیں ہمیں تو واضح طور پر دکھائی بھی نہیں دے رہا ۔
شکیل نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا اس طرف چلتے ہیں آفتاب نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔اور پھر وہ شکیل کا بازو پکڑے اسے دائیں طرف لے کر چلنے لگا ۔
دونوں تیز قدم اٹھا رہے تھے وہ جلد سے جلد نا گھر سے دور جانا چاہتے تھے ۔لیکن اندھیرے میں انہیں یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ جس طرف جا رہے ہیں وہ راستہ کس طرف جاتا ہے ۔۔
بس ان کی کوشش تھی کہ وہ ناگ گھر سے دور چلے جائیں۔انہیں اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کالا ناگ اور اس کے غلام ناگ ان کے پیچھے نہ آجائیں ۔لکڑی بدستور آفتاب کے ہاتھ میں تھی ۔تاکہ اگر کوئی ناگ یا کوئی درندہ سامنے آجائے تو وہ اپنا بچاؤ کر سکے ۔۔وہ دونوں کافی دیر تک اندھیرے میں چلتے رہے اب وہ نا گھر سے کافی دور آ گئے تھے ۔
اور اندھیرے میں انہیں ناگ گھر دکھائی نہیں دے رہا تھا اب وہ جنگل کے اس حصے میں آ گئے تھے جہاں درخت کھلی جگہوں پر تھے اور وہاں چاند کی روشنی بھی زمین پر پڑھ رہی تھی ۔دونوں دوست ابھی تک خوفزدہ تھے اور ایک بار مڑ کر اس طرف دیکھ لیتے تھے جدھر ناگ گھر تھا ۔
اب کس طرف جائیں شکیل نے آفتاب سے پوچھا ۔
مجھے تو خود سمجھ نہیں آرہا آو اس طرف چلتے ہیں شاید اس طرف کوئی آبادی ہو ۔ آفتاب نے جواب دیا تو شکیل نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
پھر وہ اس سمت بڑھ گئے جس طرف آفتاب نے اشارہ کیا تھا ۔
لیکن کافی دور آنے کے بعد بھی انہیں کسی آبادی کے آثار دکھائی نہیں دیے ۔۔۔تو وہ جھنجلا گئے ۔مسلسل چلنے سے وہ بے حد تک گئے تھے ۔۔
اس لئے وہ دونوں نرم نرم گھاس پر لیٹ گئے ۔چند لمحے لیٹے رہنے کے بعد وہ دونوں اٹھ کر بیٹھ گئے ۔ان دونوں کے چہروں پر تعزیت کے تاثرات ابھرے ہوئے تھے ۔۔ ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم ناگ گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔۔
ورنہ کالے ناگ نے باری باری ہمیں زندہ ہی نگل جانا تھا شکیل نے متشکرانہ لہجے میں کہا ۔ ۔ ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو کتنا خوفناک کالا ناگ تھا ۔اف اس بارے میں سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔_۔ آفتاب نے خوف سے ایک جھرجھری لیتے ہوئے کہا ۔۔
آفتاب مجھے تو پیاس لگ رہی ہے پیاس سے میرا حلق خشک ہو رہا ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر مجھے مزید تھوڑی دیر پانی نہ ملا تو میں بے ہوش ہو جاؤں گا ۔۔شکیل نے کہا ۔۔
خود پر کنٹرول رکھو شکیل ابھی ہم ناگ گھر سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ایسا نہ ہو کہ تم میں ہوش جاؤ اور تمہیں بے ہوش دیکھ کر میں بھی بے ہوش نہ ہو جاؤ ۔۔اور کالا ناگ آکر بڑے مزے سے ہمیں کھا جائے ۔ہمت سے کام لو آفتاب نے شکیل کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔
میں کوشش کر رہا ہوں میں بے ہوش نہ ہو شکیل نے کہا ۔۔
چلو آفتاب نے کہا اور پھر وہ دونوں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ایک طرف بڑھنے لگے ۔انہیں وقت کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا تھوڑی دور آنے کے بعد اچانک آفتاب کو ایک ٹھوکر لگی ۔۔۔
اور وہ گرتے گرتے بچا ۔اس نے غور سے ٹکرانے والی چیز کو دیکھا ۔تو اس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات ابھر آئے ۔وہ ٹھوس چیز ناریل تھا ۔جو شاید درخت سے ٹوٹ کر زمین پر گر گیا تھا ۔شکیل بھی رک گیا تھا ۔
یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے شکیل نے آفتاب سے پوچھا ۔۔ناریال آفتاب نے جواب دیا ۔۔
اوہ۔ ۔اس کا مطلب ہے یہ ناریل کا درخت ہے شکیل نے کہا ۔۔
ہاں ٹھہرو میں اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ ہم ناریل کے پانی سے اپنی پیاس بجھا سکیں ۔۔آفتاب نے کہا اور پھر وہ ناریل کو درخت پر مار کر توڑنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔اور بالآخر اس نے ناریل توڑ ہی لیا تھا ۔
اس کے بعد ان دونوں نے باری باری ناریل کا پانی پیا ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں ناریل مل گیا ایسا لگتا ہے کہ میرے جسم میں توانائی بھر دی گئی ہو ورنہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے میں مر بھی سکتا تھا ۔۔شکیل نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ۔۔تم کچھ زیادہ ہی مایوس نہیں ہو جاتے ۔۔تم سے کئی بار کہا ہے کہ مایوس نہ ہوا کرو ۔۔مایوسی گناہ ہے اللہ سے ہر وقت اچھائی کی توقع رکھا کرو ۔۔آفتاب نے ایک بار پھر شکیل کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔
آئندہ کبھی بھی مایوسی کی باتیں نہیں کروں گا ۔شکیل نے جواب دیا تو آفتاب نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ایک بار پھر وہ آگے بڑھنے لگے ۔وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جا رہا تھا ۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اچانک انہیں ۔۔
سرسراہٹوں کی آوازیں سنائی دیں تو وہ دونوں بےاختیار چونک کرک گئے اور متواہش نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے ۔البتہ سرسراہٹوں کی آوازیں بدستور انہیں سنائی دے رہی تھی ۔وہ یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے تھے کہ کونسی عفریت وہاں موجود ہے ۔اچانک ان کے عقب میں جھاڑیوں میں زور دار ؟؟؟سرسراہٹ پیدا ہوئی اور ان دونوں نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں خوف سے پھیلتی چلی گئیں ۔۔ان کے سامنے جھاڑیوں کے اوپر کالا ناگ موجود تھا ۔۔
جس کی انگارا آنکھیں ان دونوں پر جمی ہوئی تھیں ۔کالے ناگ کو دیکھتے ہیں وہ دونوں دوست الٹے قدموں پیچھے ہٹتے چلے گئے ۔تم کہیں بھی بھاگ کر نہیں جاسکتے اچانک کالے ناگ نے انسانی آواز میں کہا ۔تو وہ ٹھٹھک گئے ۔اوہ۔ ۔۔۔کک۔ ۔۔کک۔ ۔کیا تم انسانی زبان بول سکتے ہو شکیل نے گھبراہٹ آمیز لہجے میں پوچھا
ہاں ناگ دیوتا نے مجھے اپنی طاقت دی ہے کہ میں انسانی زبان بول سکتا ہیں اور سمجھ سکتا ہوں ۔۔تم میری خوراک اور میں تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا کالے ناگ نے جواب دیا تو وہ تھر تھر کانپنے لگے ۔۔_۔ دیکھو کالے ناگ ہمیں جانے دو ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم ہمیں کھانا چاہتے ہو آفتاب نے اس بار کالے ناگ سے مخاطب ہو کر کہا۔۔
تمہیں شالوگ نے بتایا نہیں تھا کہ مجھے انسانی شکل میں آنے کے لیے 7 انسانوں کو بدروح بنا کر کھانا ہوگا ۔پانچ انسان کو تو میں بدروح بنا کر کھا چکا ہوں۔لیکن دو انسان کھانے باقی تھے ۔
اب تم میری خوراک ہو اس لیے میں تمہیں یہاں سے بھاگنے نہیں دوں گا ۔۔تم نے بدروح کے خون سے بڑا پیالہ گرا دیا تھا لیکن کوئی بات نہیں ۔۔مجھے ناگ دیوتا نے اجازت دے دی ہے کہ میں زندہ انسان کو بھی کھا سکتا ہوں۔۔کالے ناگ نے جواب دیا تو دونوں دوستوں کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی ۔۔۔
تمہیں تمہارے دیوتا کا واسطہ ہے ہمیں جانے دو کالے ناگ نے پھنکارتے ہوئے کہا دونوں دوست سمجھ گئے کہ کالا ناگ انہیں کسی سورت چھوڑنے والا نہیں ۔اس لیے انہوں نے وہاں سے بھاگنے کی ٹھانی ۔چنانچہ دونوں دوست نے ایک طرف دوڑ لگا دی ۔_۔ انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ جس راستے پر جا رہے ہیں وہ راستہ کس طرف جاتا
کالا ناگ بھی جاڑیوں کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کے پیچھے لپکا دونوں دوست زور زور سے چیخیں مار رہے تھے ۔کالے ناگ کے رینگتے کی رفتار ان دونوں سے زیادہ تیز تھی اس لئے وہ جلد ہی ان دونوں کے قریب پہنچ گیا ان کے قریب پہنچتے ہی کالے ناگ نے پھاڑ جیسا منہ کھول۔آفتاب پر جھپٹا مارنا چاہا لیکن آفتاب بجلی کی سی تیزی سے غوطہ کھا گیا ۔اور یو کالے ناگ کا وار ناکام گیا ۔۔
کالے ناگ نے پھنکارتے ہوئے اپنارخ ان کی طرف کیا ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔
اور ایک بار پھر وہ ان دونوں پر جھپٹا لیکن دونوں دوست یکدم دائیں طرف مڑ گئے تھے اور نتیجے میں کالا ناگ ایک درخت سے ٹکرا گیا تھا اچانک شکیل۔۔
اور آفتاب لڑکھڑا کر زمین پر گر گئے وہ جس جگہ گرے تھے وہ کچی زمین تھی وہاں مٹی پڑی ہوئی تھی اچانک انہیں اپنے سروں پر کالے ناگ کی پھنکار سنائی دی تو وہ دونوں بجلی کی سی تیزی سے سیدھے ہوں گے کالا ناگ ان کے سروں پر موجود تھا۔۔
دونوں کے خوف کے مارے چیخیں نکل گئی۔۔ اور وہ ایڑیا زمین پر رگڑتے ہوئے پیچھے کی طرف پلٹنے لگے ۔تم مجھ سے بچ کر نہیں جاسکتے کالے ناگ نے پھنکارتے ہوے کہا ۔۔
پھر اس سے پہلے کالا ناگ ان پر جھپٹتا اچانک شکیل نے مٹی مٹھی میں بھر کر کالے ناگ کی آنکھوں پر پھینک دیں ۔
مٹی کالے ناگ کی آنکھوں میں پڑی اور وہ پھنکارتے ہوئے پیچھے ہٹ کر ادھر ادھر ڈولنے لگا شکیل اور آفتاب تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا اور انہوں نے آگے دوڑنا شروع کر دیا ۔۔
تھوڑی دور جانے کے بعد ہی شکیل اور آفتاب کو دریا دکھائی دیا تو وہ پریشان ہو کر رک گئے دریا کی دوسری طرف گھنے درخت دکھائی دے رہے تھے۔۔
جو کسی عفریت کی طرح پھیلے ہوئے تھے انہوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو انہیں کالا ناگ دکھائی دیا جو تیزی سے رینتگا ہوا ان کے پیچھے آ رہا تھا اب کیا کریں کالا ناگ پھر ہمارے پیچھے آرہا ہے شکیل نے سرسراتی آواز میں کہا ۔۔
میرا خیال ہے ہم دریا میں تیر کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں ۔۔ہو سکتا ہے اس طرف کوئی آبادی ہو اور ہم کسی سے مدد مانگ سکے ۔آفتاب نے جواب دیا
اس کے سوا ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تو آو شکیل نے کہا اور پھر ان دونوں نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور پھر تیزی سے تیرتے ہوئے دریا کے دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگے ۔کیونکہ وہ دونوں اچھے تیراک بھی تھے اس لیے انہیں دریا میں ڈوبنے کا خدشہ نہیں تھا ۔۔
کالا ناگ بھی دریا کے پانی میں آ گیا تھا اور وہ بھی ان کے پیچھے آ رہا تھا ۔وہ لمحہ بہ لمحہ ان کے قریب پہنچتا جا رہا تھا ۔جبکہ وہ دونوں بھی دریا کے کنارے پہنچنے کی سخت جدوجہد کر رہے تھے ۔تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ دونوں دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔دونوں دریا سے باہر نکل کر جنگل کی طرف دوڑنے لگے ۔جب تک کال ناگ کنارے تک پہنچتا ہے وہ دونوں جنگل میں داخل ہوکر جھاڑیوں میں دبک گئے ۔کالا ناگ بھی دریا سے باہر نکلا اور اسی طرح بڑھ گیا ۔جس طرف شکیل اور آفتاب گئے تھے ۔شکیل اور آفتاب جن جھاڑیوں دبکے بیٹھے تھے ۔کالا ناگ وہاں پہنچ کر رک گیا ۔
اور ادھر ادھر دیکھنے لگا دونوں دوست اپنے سانس روکے ہوئے تھے ۔
البتہ انہیں سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی کالا ناگ چند لمحے وہاں رکا ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا ۔۔جب شکیل اور آفتاب کو یقین ہو گیا کہ کالا ناگ وہاں سے چلا گیا ہے ۔تو انہوں نے کوئی آواز پیدا کیے بغیر تھوڑی سی جھاڑیاں ہٹا کر دیکھا ۔۔تو واقعی کالا ناگ وہاں سے جا چکا تھا ۔۔خدا کا شکر ہے کہ کالا ناگ چلا گیا ہے ۔شکیل نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا ۔وہ گیا نہیں ہمیں تلاش کر رہا ہے آفتاب نے جواب دیا ۔۔ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو آپ کو ہم یہاں سے نکلے ایسا نہ ہو کہ کم بخت پھر اس طرف آ جائے ۔
شکیل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا پھر وہ دونوں جھاڑیوں سے نکل کر دریا کی طرف دوڑتے ہوئے بڑھنے لگے ۔۔جنگل سے نکل کر وہ جیسے ہی دریا کے کنارے کے قریب پہنچے تو اچانک ایک جھماکا کا ہوا اور ان کے سامنے بوڑھا شالوگ نمودار ہو گیا دونوں یکدم ٹھٹک کر رک گئے ۔
اور بوڑھے کو دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھیلتی چلی گئی بوڑھے شالوگ کہ چہرے پر گھناؤنی اور مکرو مسکراہٹ ابھری ہوئی تھی ۔۔
تت۔ ۔تت۔ ۔تم ابھی زندہ ہو خبیث بھوڑے دونوں نے بیک وقت کہا لیکن بوڑھے نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔اس نے اپنا سر اٹھایا اور گردن موڑ کر دائیں طرف دیکھنے لگا ۔کالی بدروح جا کر کالے ناگ کو بتاؤ کہ میں نے ان دونوں لڑکوں کو پکڑ لیا ہے ۔بوڑھے شالوگ نے تحکمانہ لہجے میں کسی سے مخاطب ہو کر کہا ۔ٹھیک ہے شالوگ آقا ۔۔شکیل اور آفتاب کو ایک آواز سنائی دی ۔اور پھر انہیں ایک جھماکہ سنائی دیا اس کے بعد بوڑھا شالوگ ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا ۔
لڑکوں تم ناگ گھر سے نکلنے میں تو کامیاب ہوگئے ہو۔مگر اب تم کہیں بھی نہیں جاسکتے بوڑھے شالوگ نے مکر و انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ۔۔لیکن ان دونوں میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔وہ دونوں لرزہ بر انداز تھے کہ بوڑھا یہاں کیسے پہنچ گیا ہے ۔۔
اور وہ اب اس سے کیسے بچ کر بھاگے ۔
اس نے اپنے غلام طاقت کو بھی کالے ناگ کو پیغام پہنچانے کے لیے بھیج دیا تھا ۔۔
اور کالا ناگ کسی بھی وقت وہاں پہنچ سکتا تھا ۔۔کچھ سوچو شکیل اس بوڑھے سے کیسے نپٹیں آفتاب نے شکیل کی طرف تھوڑا سا سر جھکاتے ہوئے کہا ۔دونوں ہی اس پر پل پڑتے ہیں ۔۔شکیل نے بھی سرگوشی کی ۔چلو پھر تیار ہو جاؤ ۔آفتاب نے کہا بوڑھا شالوگ انہیں غور سے دیکھ رہا تھا ۔لیکن انہیں ان کی سرگوشی سنائی دی تھی ۔
تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو بتاؤ بوڑھے شالوگ نے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔لیکن دونوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے اچانک بوڑھے پر حملہ کر دیا ۔بوڑھے کو شاید ان کے حملے کی توقع تھی ۔اس لیے جیسے ہی ان دونوں نے اس پر حملہ کیا تو اسے کچھ بھی نہ ہوا اور وہ دونوں بوڑھے سے ٹکرا کر زمین پر گر گئے ۔۔لیکن بوڑھا اپنی جگہ پر کھڑا رہا ۔ایسا لگتا تھا جیسے اس کے پیر زمین کے ساتھ چپکے ہوئے تھے ۔بوڑھے کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ہوئی تھی ۔دونوں اٹھ کر کھڑے ہو گئے ۔پہلے میں بے خیالی میں تم سے مار کھا گیا تھا لڑکو اب تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں ۔ایک بار پھر مجھ پر حملہ کر کے دیکھ لو ۔بوڑھے نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا ۔
دونوں دزدیدہ نظروں سے بوڑھے کو دیکھتے رہے ۔دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایک بار پھر بوڑھے پر حملہ کردیا ۔انہوں نے اس بار اس کے چہرے پر گھونسے رسید کیے ۔لیکن بوڑھے کو اس بار بھی کچھ نہیں ہوا تھا ۔البتہ ان دونوں کو ایسا محسوس ہوا تھا جیسے انھوں نے گھونسے سے کسی ٹھوس چیز پر مارے ہو ۔
اس لئے ان کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے ۔بوڑھے کے چہرے پر بدستور مکروہ مسکراہٹ موجود تھی ۔
اچانک شکیل کو ایک خیال آیا تو دوسرے ہی لمحے اس نے زمین پر پڑی مٹی مٹھی میں بھر کر بوڑھے شالوگ کی آنکھوں پر پھینک دیں مٹی بوڑھے شالوگ کی آنکھوں پر پڑی اور اس کے حلق سے چیخ نکل گئی ۔اس نے اپنے دونوں۔ ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر مسلنا شروع کر دیے ۔خبیث لڑکوں یہ تم نے کیا کر دیا مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔
بوڑھے نے چیختے ہوئے کہا اسی لمحے شکیل اور آفتاب کو شیر کی دھاڑ سنائی دی ۔تو وہ دونوں گھبرا گئے شیر کی دھاڑ سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہیں کہیں موجود ہے ۔۔۔
شکیل اس طرف بھاگ چلو اچانک آفتاب نے چیخ کر کہا اور پھر وہ دونوں درختوں کی طرف بھاگتے چلے گئے ۔۔مجھے ایسے ہی وہاں سے بھاگ گئے تو اسی لمحے بوڑھے کے قریب ہی ایک درخت کے عقب میں ایک شیر نکل آیا ۔۔شیر نے باہر نکل کر بوڑھے پر حملہ کردیا ۔۔
بوڑھا اپنی آنکھیں مسلنے میں مگن تھا ۔اس لیے وہ شیر کو نہ دیکھ سکا ۔۔شیر اسے لیے زمین پر گر گیا ۔اور اس نے بوڑھے کا بازو چبا ڈالا ۔
بوڑھے کے حلق سے دردناک چیخ نکل گئی ۔جس سے جنگل کی فضاء گونج اٹھی ۔شکیل اور آفتاب خوف بھری نظروں سے شیر کی طرف دیکھ رہے تھے ۔جس نے چند ہی لمحوں میں بوڑھے کو ہلاک کر دیا تھا ۔۔اور پھر اس کی ٹانگ پکڑ کر جنگل کی طرف گھسیٹ کر لے جانے لگا ۔۔شکیل اور آفتاب اس وقت درخت کے عقب میں چھپے رہے ۔جب تک شیر بوڑھے کو لے کر جنگل میں نہ چلا گیا وہ دونوں بے حد خوش تھے ۔۔کہ بوڑھے سے ان کی جان چھوٹ گئی تھی ورنہ وہ انہیں دوبارہ بھی اپنے ساتھ نہ گھر میں لے جا سکتا تھا ۔۔
اوہ میں یہاں سے فورا نکل جانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کوئی دوسرا شیر ہمیں کھانے کے لئے یہاں آجائے ۔شکیل نے آفتاب سے مخاطب ہو کر کہا ۔اور پھر وہ دونوں جنگل سے نکل کر ایک طرف بڑھتے چلے گئے ۔مسلسل چل کر وہ دونوں بے حد تک گئے تھے لیکن وہ روکے نہیں تھے۔
کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ کہیں کالا ناگ ان کے تعاقب میں نا آئے ۔اس لیے وہ کافی دور نکل آئے تھے ۔صبح ہو چکی تھی اور چاروں طرف ہلکا ہلکا اجالا پھیل رہا تھا ۔میرا خیال ہے ہمیں تھوڑی دیر آرام کر لینا چاہیے ۔آفتاب نے شکیل سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو آو وہاں آرام کرتے ہیں ۔شکیل نے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر وہ دونوں اس درخت کی طرف بڑھ گئے ۔درختوں کے سائے میں جاکر وہ دونوں لیٹ گئے ۔۔تمہارا کیا خیال ہے کالا ناگ واپس چلا گیا ہوگا شکیل نے آفتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
شاید یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی تک ہمارے تعاقب میں ہوں ۔آفتاب نے جواب دیا ۔یار ڈراو تو نہیں دعا کرو وہ واپس چلا گیا ہوں۔اور ہم صحیح سلامت اپنے گھر میں پہنچ جائیں ۔شکیل نے کہا تو آفتاب ہنس پڑا ۔
تم ہنس کیوں رہے ہو شکیل نے بڑا سا منہ بنا کر کہا ۔میں اس لیے ہنس رہا ہوں کہ ہم کئی بار کالے ناگ کا شکار ہوتے ہوتے بچے ہیں ۔اور اب جب کہ ہم بہت دور نکل آئے ہیں تم ڈر رہے ہو ۔آفتاب نے جواب دیا تو شکیل بھی ہنس پڑا ۔وہ یونہی باتیں کرتے رہے اور انہیں خبر نہ ہو سکی کہ کالا ناگ وہاں پہنچ گیا ہے ۔انہیں اس وقت ہوش آیا جب انہیں جھاڑیوں میں سرسراہٹ سنائی دی اور اسی وقت کالا ناگ جھاڑیوں کے اوپر سے برآمد ہوا ۔۔
کک۔ کک۔ کالا ناگ آفتاب کے منہ سے نکلا آخر تم دونوں کو ڈھونڈ ہی لیا ہے میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میں یہاں تک کیسے پہنچا ہوں تو سنو میں تم دونوں کی خوشبو سونگھتا ہوں ادھر آیا ہوں ۔۔
وہ تو خوف سے کام رہے تھے اور ان کا خیال غلط ثابت ہوا تھا ۔کہ کالا ناگ واپس گھر چلا گیا ہوگا
بھاگو اچانک شکیل نے چیخ کر آفتاب سے کہا تو دوسرے ہی لمحے وہ دونوں مڑے اور انہوں نے ایک تیزی سے دوڑ لگا دی۔کالا ناگ بھی جھاڑیوں کے اوپر سے ہوتا ہوا زمین پر آیا اور وہ بھی ان کے پیچھے بڑھنے لگا ۔اچانک شکیل اور آفتاب کو ایک بیل گاڑی دکھائی دیں ۔جس پر چار نوجوان سوار تھے نوجوانوں کو دیکھ کر شکیل اور آفتاب کی جان میں جان آئی ۔اور وہ دونوں اس بیل گاڑی کی طرف دوڑنے لگے ۔اپنی مدد کے لیے وہ چیخ بھی رہے تھے ۔بیل گاڑی رک گئی تھی اس لیے جلد ہی وہ دونوں بیل گاڑی کے قریب پہنچ گئے ۔خدا کے لیے ہماری مدد کرو شکیل نے چیخ کر کہا ۔کیا بات ہے لڑکوں تم کون ہو اور اس ویران جنگل میں کیا کر رہے ہو ایک نوجوان نے پوچھا ۔۔
کک۔ کک۔ کالا ناگ کالا ناگ ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے اور ہمیں کھانا چاہتا ہے آفتاب نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا ۔کالا ناگ کہا ہے کالا ناگ دوسرے نوجوان نے چونک کر پوچھا ۔میں یہاں ہوں اچانک انہیں ایک آواز سنائی دی ۔تو چاروں نوجوان نے چونک کر اس طرف دیکھا جدھر کالا ناگ موجود تھا ۔ان چاروں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔شاید انہوں نے بھی اپنی زندگی میں اتنا بڑا ناگ پہلی بار دیکھا تھا ۔اتنا بڑا ناگ ایک اور نوجوان نے تحیر آمیز لہجے میں کہا ۔۔
اچانک چار نوجوان کلہاڑیاں سنبھالے بیل گاڑی سے اترے ۔اور کالے ناگ کی طرف بڑھنے لگے پھر چار نوجوان کالے ناگ کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے تھے ۔میں نے دو انسانوں کو کھانا ہے لیکن تم چار ہو _۔ کالے ناگ نے کہا تو اسے انسانی آواز میں بولتا دیکھ کر چار نوجوان انگشت بدنداں رہ گئے ۔۔
ارے یہ تو انسانی آواز میں بھی بولتا ہے یہ پہلا ناگ ہے جو انسانی آواز میں بول رہا ہے ایک نوجوان نے حیرت بھرے لہجے میں کہا شکیل اور آفتاب بیل گاڑی کے پاس کھڑے تھے ۔اچانک کالی ناگ نے ایک زور دار پھنکار ماری ۔اور پھر وہ ان چاروں نوجوانوں کی طرف بڑھنے لگا ۔پھر وہ جیسے ہی ان کے قریب پہنچا تو چاروں نے کلہاڑیوں سے بیک وقت کالے ناگ پر حملہ کردیا ۔لیکن کالا ناگ بجلی کی سی تیزی سے فضا میں بلند ہو گیا تھا ۔جس کی وجہ سے چار نوجوانوں کے وار ناکام گئے تھے ۔
کالا ناگ ایک نوجوان پر جھپٹا اور اس نے اپنا پہاڑ جیسا منہ کھول کر ایک نوجوان کو پکڑ لیا ۔اور دوسرے ہی لمحے وہ نوجوان کالے ناگ کے پیٹ میں چلا گیا ۔۔
باقی تینوں نوجوان ششسدہ سے کالے ناگ کو دیکھ رہے تھے کالا ناگ ایک اور نوجوان کی طرف بڑھا اور ایک نوجوان نے کالے ناگ کو کلہاڑی مار دی ۔ ۔ کلہاڑی کالے ناگ کے ان پر پڑی اور اس کے پھن سے خون فوارے کی طرح نکلنے لگا ۔کالا ناگ زور زور سے پھنکارنے نہیں لگا ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے غصے کا اظہار کر رہا ہوں ۔۔تینوں نوجوانوں نے ایک بار پھر کالے ناگ پر کلہاڑی مارنے کی کوشش کی لیکن اسی لمحے کالے ناگ نے اپنی دم زور سے ان تینوں پر مار دی تو وہ تینوں اچھل کر ادھر ادھر جا گرے ۔۔گرنے سے ان کے ہاتھوں سے کلہاڑی بھی نکل کر ادھر ادھر جا گری تھی کالا ناگ ان تینوں کی طرف بڑھا مگر اس دوران ایک نوجوان نے کلہاڑی اٹھالیں جیسے ہی کالا ناگ ان کے قریب پہنچا اور اس نوجوان پر جھپٹنا چاہا لیکن اس نوجوان نے کلہاڑی اس کے پھن پر مار دی ۔
کالے ناگ نے بچنے کی بے حد کوشش کی تھی لیکن کلہاڑی اس کے پھن پر پڑی اور وہاں سے خون فوارے کی مانند باہر ابلنے لگا کالے ناگ کے حلق سے دردناک پھکار نکل گئی ۔اس دوران دوسرے نوجوان نے بھی اپنے کلہاڑے اٹھا لیے تھے اور انہوں نے کالے ناگ کے عقب میں پہنچ کر اس پر کلہاڑی برسانے شروع کر دیے ۔۔کالا ناگ زخمی ہو گیا تھا اور اس کے زخموں سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا ۔کالے ناگ نے اپنی دم کو ایک بار پھر حرکت دی اور جیسے ہی اس کی دم دونوں نوجوانوں کو لگی تو وہ دونوں اچھل کر ادھر ادھر جا گرے ۔۔
لیکن زمین پر گرتے ہیں وہ اچھل کر کھڑے ہوئے اور کلہاڑی سنبھالے ہوئے کالے ناگ کی طرف بڑھے ۔۔ان کا تیسرا ساتھی کالے ناگ پر بڑھ چڑھ کر حملہ کر رہا تھا ۔اور اس نے کالے ناگ کو زخمی کردیا تھا ۔اچانک کالے ناگ نے اپنے عقب میں کھڑے ایک نوجوان کے گرد اپنی دم لپیٹی اور پھر اسے پھرکی کی مانند گھماتا ہوا فضا میں بلند کیا ۔اور ایک طرف اسے اچھال دیا ۔وہ نوجوان اڑتا ہوا ایک درخت سے ٹکرایا ۔اور دھڑام سے زمین پر آ گرا ۔۔اور بے ہوش ہو گیا ۔اس نے دوسرے نوجوان کے ساتھ یہی کچھ کرنا چاہا لیکن اس نوجوان نے اپنا کلہاڑا زور سے کالے ناگ کی دم پر مارا ۔۔تو کلہاڑا کالے ناگ کی دم سمیت زمین میں گڑ گیا ۔اچانک کالے ناگ نے اپنا پہاڑ جیسا منہ کھول کر ایک زوردار پھنکار ماری تو اسی لمحے ان کا ساتھ نوجوان باہر زمین پر آ گرا ۔۔وہ مر چکا تھا اور اس کا جسم پانی پانی ہو رہا تھا ۔پھر کالا ناگ جنگل کی طرف بڑھنے لگا شاید وہ وہاں سے فرار ہو رہا تھا ۔۔کیونکہ وہ شدید زخمی ہو گیا تھا لیکن اسی لمحے دونوں نوجوانوں نے کلہاڑیوں سے اس پر حملہ کردیا ۔۔۔انہوں نے اس زور سے کلہاڑے کالے ناگ کو مارے کے کالے ناگ کا جسم دو حصے میں بٹ گیا ۔کالے ناگ کی حلق سے دردناک چیخ نکلی تھی ۔اور دونوں نوجوانوں نے ہمت نہ ہاری کالے ناگ پر پے در پے کلہاڑوں کے وار کرنے شروع کر دیے ۔۔کالا ناگ کہیں ٹکڑوں میں بٹ کر بری طرح تڑپ رہا تھا ۔۔اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ ساکت پڑگیا ۔اف بہت ہی سخت جان ناگ تھا ایک نوجوان نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا ۔۔
آؤ ارشد کو دیکھیں پہلے نوجوان نے کہا اور پھر وہ دونوں اپنے تیسرے ساتھی کی طرف بڑھے ۔جو ابھی تک بے ہوش کے عالم میں پڑا ہوا تھا انہوں نے اپنے ساتھی کو اٹھایا اور آکر بیل گاڑی پر لٹا دیا ۔پھر ایک نوجوان نے اپنی جیب سے پانی کی بوتل نکال لیں اور اپنے ساتھی کے چہرے پر پانی پھینکنے لگے ۔۔
جیسے ہی پانی کے چھینٹے اس نوجوان کے چہرے پر پڑے تو وہ ہوش میں آ گیا ۔۔اوہ۔ اوہ۔ میں کہاں ہوں وہ کالا ناگ کہاں ہے نوجوان نے جس کا نام ارشد تھا حیرت بھرے لہجے میں کہا کالے ناگ کو ہم نے ہلاک کر دیا ہے
لیکن حیات مر گیا ہے ۔۔
ایک نوجوان نے جواب دیا تو ارشد کے چہرے پر غمگین تاثرات ابھر آئے ۔ہمیں افسوس ہے کہ ہماری وجہ سے آپ کا ساتھی ہلاک ہو گیا ہے ۔شکیل نے افسوس برے لہجے میں کہا ۔
شاید اللہ کو یہی منظور تھا لیکن تم بتا۔ؤ تم کون ہو اور اس جنگل میں کیسے پہنچے ۔ہم تو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے آرہے تھے کہ تم دونوں مل گئے ایک نوجوان نے کہا تو شکیل نے شروع سے لے کر یہاں تک پہنچنے تک کی تفصیل بتا دیں ۔۔
تو تینوں نوجوان حیران رہ گئے ۔اوہ۔ واقعی دریا کے دوسری طرف ایک عمارت ہے لیکن وہ تو شکاریوں کے لئے بنائی گئی تھی ۔تیسرے نوجوان نے کہا بوڑھا یقینا جادوگر تھا جس نے اس عمارت پر جادو کے ذریعے قبضہ کر لیا ہوگا ۔اور یوں ناگوں نے وہاں بسیرا کر لیا ہوگا ۔
پہلے نوجوان نے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔پھر انہوں نے اپنے ساتھی کی لاش اٹھا کر بیل گاڑی پر لادی اور وہ سب اس پر سوار ہو کر اپنی بستی کی طرف بڑھ گئے ۔وہ جب بستی میں پہنچے تو بستی کے لوگ
انہیں دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد کالے ناگ کے بارے میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا شکیل نے اپنے دوست کو فون کرکے ساری صورت حال بتا دیں ۔تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ انہیں لینے آ رہا تھا پھر چھ گھنٹوں کے بعد روف اپنے والد کے ساتھ کار میں بستی میں پہنچ گیا ۔اور پھر وہ سب کار میں سوار ہو کر کراچی کی طرف بڑھ گئے ۔۔
ختم شد
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں