جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط - 8

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط - 8
توبہ ہے پتہ نہیں کیا دکھانا چاہتی ہیں مجھے....؟
اور پھر مشیرہ بیگم انہیں اس دیوار کے پاس لے آئی تھیں جہاں سے املی کے درخت کے نیچے جھانکا جا سکتا تھا اور انتظار کرتی رہی تھیں۔ مگر انہیں کیا معلوم کہ ان کی اس چوری کو پکڑ لیا گیا ہے۔ عشیرہ کی ہمت تو نہیں ہوئی تھی کہ شاہ نم کے ساتھ طاہرہ بیگم کے کمرے تک جائے اور ان کی بات سنے ۔ اس نے کہا
شاه نم...! مجھے جانے دو...! میرے ہاتھ پاؤں پھول رہے۔
ہیں ۔ ویسے بھی مجھے بخار ہے۔“
کوئی بخار نہیں ہے۔ ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی لو..... سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔
تم جاؤ ...........تمہیں خدا کا واسطہ....! تم جاؤ ....!؟
ٹھیک ہے...........! ٹھیک ہے...........! میں جا رہا ہوں۔ تم زیادہ پریشان نہ ہو۔ شاہ نم نے کہا۔۔۔
مشیرہ بیگم بہت دیر تک انتظار کرتی رہی تھیں۔ مگر
وقت گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ طاہرہ بیگم بھی جھنجلا گئیں۔
مشیره باجی....! پلنگ لے آتے ہیں۔۔۔۔ یہاں ڈال کر بیٹھ جاتے
ہیں۔ آپ پتہ نہیں کیا دیکھنا چاہتی ہیں .....؟
”آؤ بی بی ............ آؤ............ میں نے اسی لئے کہا تھا نا کہ تقدیر کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ بات زبان سے نکلی پرائی ہوئی۔ آجاؤ....! آجاؤ چھوڑو....!
اللہ مالک ہے............! آج نہیں تو کل سہی .............‘‘
وہ طاہرہ بیگم کے کمرے میں آگئیں۔ ان کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ ہانپتی کانپتی پلنگ پر بیٹھ گئیں۔
طاہرہ بیگم ! پتھر کی سل رکھی ہوئی ہے کل سے میں نے سینے پر کھایا پیا تک نہیں جا رہا... ارے! اللہ کا غضب..!گھر کی عزت اس طرح خاک میں مل رہی ہے۔ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
ارے....! طاہرہ بیگم پہلے ہی کہتی تھی حسن و جمال ایسے
ہی نہیں بڑھ رہا۔ اس کے پیچھے کچھ ہے۔ غضب خدا کا... یہ تو ناک کاٹ کر ہاتھ میں رکھنے والی بات ہوئی ۔
” کہے جایئے کہے جائیے کیا ہو گیا ہے آخر؟ کیا نظم .
اور نثر نے کوئی غلط قدم اٹھایا ہے؟
”ارے! تو به............. ان نیک بچیوں کا نام کیوں لے رہی ہو............؟
گھر میں ہے نا... ایک سب کی کسر پوری کرنے کے لئے؟
کون...؟ کیا عشیره...........؟
"ہاں بی بی ہاں............ انہی کی بات کر رہی ہوں۔
مگر کل تو به...! تو به ............‘‘
کوئی بہت بڑی غلطی فہمی ہوگئی ہے آپ کو مشیرہ باجی .......؟
بی بی تقدیر اچھی ہے کم بخت کی کل سے برداشت کر رہی
تھی کہ آنکھوں دیکھی بات ٹھیک ہوتی ہے۔ پر آج وہ نہیں ہوا جوکل میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
خدا کے لئے مشیره باجی ............! کیوں میرا بلڈ پریشر بڑھا رہی ہیں ............؟ بتا تو دیجئیےے کیا دیکھا آپ نے کیا ہوا............؟ کیا کیا عشیره نے......؟
"بی بی عشق کر رہی ہیں.... عشق۔۔۔۔ اللہ کسی کو نہ دکھائے۔
ماں باپ ہوتے تو شرم سے زمین میں گڑ جاتے۔ جو منظر میں نے دیکھا ہے تمہیں بتاؤں تو نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے....؟‘‘
کس سے عشق کر رہی ہے ؟ یہاں کوٹھی میں؟ یہ تو باہر کہیں بھی نہیں جاتی ‘‘
یہی تو مزے کی بات ہے۔ میں تو حیران ہوں طاہرہ....! شکل
سے کتنی معصوم لگتی ہے مگر دو پہری میں ڈرائیور کے ساتھ ... توبہ توبہ..............! تو به ................
"مشیرہ باجی ............؟
"ارے بس....! خیر کوئی بات نہیں۔ آج نہ سہی کل سہی... جگہ بڑی اچھی منتخب کی ہے۔ بڑی ہمت کی بات ہے بی بی...! کھلے عام... ایسا لگ رہا ہے جیسے زمانے کو اپنے بارے میں بتانا چاہتی ہوں ۔ ڈرائیور کے سینے پر سر رکھے بیٹھی ہوئی تھیں۔ درد دل، درد جگر سب کچھ سامنے اٹھا کر رکھ دیا
"مشیرہ باجی ...! بہت بڑی بات کر رہی ہیں۔ ایک بات میں آپ کو بتاؤں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معظم علی اپنے بھائی بھاوج سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ تو آپ یوں کہے کہ میں نے بڑے جتن کر کے ان کا دل خراب کیا ورنہ وہ تو جان دینے والوں میں سے تھے۔ اگر ایسی بات ان کے کانوں تک پہنچ گئی اور اس میں ذرا بھی کوئی وہم کی بات ہوئی تو آپ یہ سمجھ لیجئیے۔ بڑا کام خراب ہو جائے گا۔ ہوسکتا ہے معظم علی ہتھے سے ہی اکھڑ جائیں۔ اگر میں ان سے یہ کہوں گی کہ مشیره باجی نے یہ
الفاظ کہے ہیں اور اگر ان کو کوئی ثبوت نمل سکا تو......
بی بیٹھیک ہے۔۔۔۔۔ جو آنکھوں دیکھی ہے وہی کہہ رہی ہوں۔
ایک دفعہ انہیں بھی دکھا دو۔ بس! اس کے بعد سارا کام ہو جائے گا۔۔۔۔
صرف دو پہر کو ملاقات ہوتی ہے ان کی یا رات کو بھی .....؟“
کل بتاؤں گی.... کیا سمجھیں ؟
ٹھیک ہے.............
پتہ نہیں شاہ نم کا کیا منصوبہ تھا۔ بے شک ایک معمولی سا ڈرائیور تھا وہ اس کوٹھی میں اور یہ بات دنیا سوچ سکتی تھی کہ اگر معظم علی کو اس بارے میں
پتہ چل گیا تو بہرحال بھیجی کا خیال تو کریں گے اور پھر گھر کی بدنامی بھی نہیں ہونے دیں گے۔ سولی پر چڑھوا دیں گے شاہ نم کو۔
نہ جانے کیا سوچا تھا اس نے؟ ویسے بڑے دل گردے کا آدمی
معلوم ہوتا تھا۔ رات کو املی کے درخت کے نیچے پہنچ گیا اور مزے کی بات یہ کہ مشیرہ بیگم، طاہرہ بیگم کو اٹھا کر لے گئی تھیں۔ شاید پہلے نگاہ مار کر آئی تھیں۔ وہ ایک جگہ چپھی ہوئی ادھر دیکھ رہی تھیں ۔ طاہرہ بیگم نے بھی دیکھ لیا کہ عشیره املی کے درخت کے نیچے پہنچ گئی ہے
اور وہیں پر شاہ نم بھی آ گیا ہے۔ دونوں دنیا سے بے خبر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
شاہنم نے کہا۔
تمہارا بخار نہیں اترا ؟
میں کیا بتاؤں شاہ نم .! کہ میرا کیا حال ہے؟
اور میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ ایسا کون سا ذریہ ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں آنے والے بہترین وقت کے لئے اطمینان دلا سکوں ۔ ۔خدا کے لئے شاہ نم ...! باز آجاؤ ....! ورنہ میں مر جاؤں گی۔“ نہیں مروگی تم سمجھیں ۔۔۔تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہی ہوگا۔
میں کیا کروں ............؟ اور کیسے کروں ...........؟
اب جو کچھ بھی ہے۔ میری ایک بات سن لو! تم دوپہر کو بھی آؤ گی اور رات کو بھی۔ اگر یہ سلسلہ ٹوٹا تو بہت برا ہوگا۔ کم از کم میں یہ دنیا چھوڑ دوں گا۔ میں یہ تم سے آخری بار کہہ رہا ہوں اور بالکل بھروسے کے ساتھ
میری بات مان لو۔ میں جو کہتا ہوں وہ کر کے دکھاتا ہوں۔
عشیرہ نے بے بسی کی نگاہوں سے شاہ نم کو دیکھا اور گردن جھکا لی۔
" آؤ! میں تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ دوں ۔“
م میں ....... میں چلی جاؤں گی میں چلی جاؤں گی“
نہیں میں تمہیں کمرے تک چھوڑ کر آؤں گا۔“
شاه نم نے عشیرہ کا ہاتھ پکڑا اور پھر وہ اسے لے کرکمرے تک چھوڑنے آیا
مشیرہ بیگم، طاہرہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر دوڑ پڑی تھیں ۔ کیونکہ عشیرہ کے
کمرے تک جانے کا راستہ اسی طرف سے گزرتا تھا جہاں وہ دونوں چھپی ہوئی تھیں۔ البتہ وہ طاہرہ بیگم کو لے کر ان کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔ طاہرہ بیگم کا سانس بھی پھولا ہوا تھا۔ مشیرہ بیگم کہنے لگیں۔
”دیکھا بی بی ............... اللہ نے میری عزت رکھ لی۔ بات منہ سے نکال تو دی تھی پر ڈر رہی تھی کہ کہیں عزت نہ لٹ جائے میری........ اگر دوبارہ انہیں نہ دیکھ پاتی تو تمہیں بھی میری طرف سے غلط فہمی ہو جاتی کہ پتہ نہیں سچ کہہ رہی ہوں یا غلط ................؟
"نہیں مشیرہ باجی ! آپ بھلا غلط کیوں کہیں گی؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ اصل میں اسے ذلیل و خوار کرتا تو میرے لئے بڑی حیثیت رکھتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ معظم علی کا دل اس کی طرف سے خراب ہو جائے کہ خود معظم علی اسے دولت اور جائیداد سے بےخل
کر کے گھر سے باہر نکال دیں۔ کیونکہ بہت سی دفعہ میں نے یہ دیکھا کے معظم علی اس کے بارے میں بڑی دردمندی سے سوچنے لگتے ہیں۔ ارے۔ویسے تو الله کا دیا بہت کچھ ہے لیکن اس کم بخت کے لئے نہ جانے کیوں دل کڑھتا رہتا ہے کہ کہیں اسے کوئی بہتر جگہ نہ مل جائے ؟
مشیرہ بیگم کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ کافی دیر تک کچھ نہ بولیں تو طاہرہ بیگم نے خود ہی انہیں مخاطب کیا۔
کس سوچ میں ڈوب گئیں باجی؟
"بی بی....! اس دماغ کی داد دینی پڑے گی تمہیں.......... وہ تو یوں کہو تقدیر نے ساتھ نہیں دیا ورنہ کوئی بہت بڑا مقام مل چکا ہوتا مجھے۔“
"کیوں۔؟ کیا ہوا....؟“
ایک کام کرو طاہرہ ایسا کام کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ اس کم بخت کو اپنی صورت پر بڑا ناز ہے نا... اور ہے بھی کمبخت اچھی شکل وصورت کی۔
ارے میں کہتی ہوں کہ اسے اس ڈرائیور کے پلے ہی کیوں نہ
باندھ دو؟ ڈرائیور کے پلے بندھے گی تو مزہ آجائے گا۔ اس سے بدلہ لینے کا بی بی! اس سے اچھا طریقہ اور کوئی نہیں ہے۔ ایسا کرو اپنے میاں کو اس کے سارے کرتوت دکھا دو اور پھر کہہ دو کہ اگر عزت درکار ہے تو پھر ڈرائیور ہی
سے اس کی شادی کر دیں ورنہ یہ ناشگنی نہ جانے کیسے کیسے گل کھلائے گی؟
طاہرہ بیگم سوچ میں ڈوب گئی تھیں ۔ تھوڑی دیر تک سوچتی رہیں۔ پھر بولیں۔
دوپہر کو بھی ملتی ہے اور رات کو بھی ملتی ہے اس سے.... ارے بابا میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کبھی ایسا؟
اب سوچو...............
! اب سوچو...........؟
تو پھر کل دوپہر کو ۔۔۔۔ نہیں آیسا کرتی ہوں مشیره باجی ...! کہ کل رات کو ہمدردتایا کو لاڈلی بیٹی کے کرتوت دکھا دوں گی۔ کیا سمجھیں...؟
مزہ آجائے گا۔...........
! مزہ آجائے گا............؟
تو اب یہ بتاؤ ! کہ ایسا ہی کروں یا اس میں کوئی ترمیم کرنی..؟
میں جو کچھ کہہ رہی ہوں ........ وہی کر کے دکھاؤ............؟
دوسرے دن دوپہر کو شاہ نم املی کے درخت کے نیچے پہنچ گیا اور اس نے پرلطف لہجے میں کہا۔
چلو بھئی .....! بیچارے یہ لوگ بھی محنت کر رہے ہیں ہمارے لئےعشیرہ....! آج رات کو تمہیں ضرور آنا ہے کیونکہ آج رات کو محترم معظم علی صاحب کو ہماری زیارت کرائی جائے گی۔
میں سجھی نہیں.........؟
عشیرہ نے کہا۔
اطلاع ملی ہے کہ آج رات کو ہمیں املی کے درخت کے نیچے دیکھا جائے گا اور معظم علی بھی ساتھ ہوں گے۔
عشیرہ کے تو پیروں کی جان نکل گئی تھی۔ وہ گرنے لگی تو شاہنم نے اسے سہارا دیا۔ پھر بولا۔
عشیره! میں کیسے تمہیں سمجھاؤں کہ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری بہتری کے لئے ہورہا ہے۔ کاش...! تم مجھے اتنا حقیر نہ سمجھو۔ عشیره ...! زندگی کے ہر موڑ پر تمہارا تحفظ کروں گا۔ چاہے تمہارے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے، میرا ساتھ دو عشیرہ....
”شاه نم...! شاه نم...! میں کیا کہوں تم سے۔ خدا کی قسم
مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے جسم سے جان نکل جائے گی۔ تم ذرا سوچو تو سہی یہاں میرے دشمن ہی دشمن ہیں۔ انہیں ہمارے بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔۔
مشیرہ بیگم، طاہرہ بیگم مجھ سے صرف دشمنی کرسکتی ہیں۔ نہ جانے وہ تایا کو کیا کیا بتائیں گی ؟ تایا ابو بہت غصہ والے تو نہیں ہیں، مصلحت کوش آدمی ہیں لیکن یہ صورت حال برداشت نہیں کر سکیں گے اور میری ہی نہیں شاہنم........ تمہاری زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ وہ دوسرے انداز میں سوچیں گے
پھر بولو................ میں چلا جاؤں یہاں سے...........؟ اور میرا چلے جانا ہی بہتر ہوگا ۔ عشیره............ میں جو کچھ کرنا چاہتا ہوں اس میں کم از کم تمہاری اتنی مدد ضرور شامل ہونی چاہئے کہ تم میری ہدایات پر عمل کر لو اور اس سے زیادہ یہ کہ مجھ پر بھروسہ کر لو...! ایک طرف تو تم میرے لئے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو اور دوسری طرف مجھ پر اس قدر بے اعتمادی .............؟
عشیره ان الفاظ پر چونک پڑی۔ اس نے شاہ نم کو دیکھا۔ شاہنم کے چہرے پر بڑی اداسی تیر رہی تھی۔ پھر اس نے شاہ نم کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے شاه نم.....! زندگی تو اپنی ہی ہوتی ہے۔ بچے یا
جائے . چلو جو تم کہو گے وہی میں کروں گی۔
"شکریہ اور تم دیکھو گی کہ تمہیں نقصان پہنچانے والے بھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔
عشیره گردن جھکا کر خاموش ہوگئی تھی۔ شاہ نم نے عشیرہ سے جو کچھ کہا تھا وہ ذرا بھی غلط نہیں تھا۔ پتہ نہیں اس کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا۔ لیکن جو بھی
معلومات اس کی تھیں، وہ بالکل ٹھیک تھیں۔
وقت اپنے طور پر فیصلے کرتا ہے۔
مشیرہ بیگم اور طاہرہ بیگم نے طے کرلیا تھا کہ سب سے پہلے معظم علی کو یہ ساری صورت حال بتائیں گی اور پھر اس کا ثبوت بھی دیں گی۔ لیکن اس کے بعد معظم علی سے یہی کہا جائے گا کہ گھر کی عزت کو خاک میں ملانے سے بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کا نکاح کر کے انہیں گھر سے نکال دیا جائے۔ لیکن تبدیلی کیوں ہوئی کہ ایک دن صبح ساڑھے دس بجے گھر میں کچھ مہمانوں کی آمد ہوئی ۔ عجیب ہلڑ باز مہمان تھے۔ ایک بزرگ جو کالی کملی پہنے ہوئے سر پر سفید پگڑی باندھے ہوئے چند عقیدت مندوں کے ساتھ کوٹھی میں داخل ہوئے تھے۔ اتفاق سے معظم علی صاحب کوٹھی کے بیرونی حصے میں ہی موجود تھے۔ انہوں نے ایک دم ادھر دیکھا اور چل پڑے۔
’’ارے! حضرت صاحب ....؟
ارے طاہرہ بیگم نظم..! نثر! ارے! سب لوگ باہر
آجاؤ ! حضرت صاحب کا استقبال کرو۔ دیکھو کس طرح ہمارے گھر میں ایک دم برکتیں اتر آئی ہیں۔
ان کی چیخ و پکار پر تقریبا تمام ہی لوگ جمع ہوگئے ۔ ادھر کالی کملی پہنے ہوئے حضرت صاحب جو اچھے خاصے عمر رسیدہ تھے، لیکن انتہائی شاندار صحت کے مالک تھے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھے چلے آرہے تھے اور مریدین تھے کہ ان
کے قدموں میں بچھے جا رہے تھے۔ آخر حضرت صاحب تھوڑے فاصلے پررک گئے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر بولے۔
میرے بچو! تم مجھے جس عزت اور احترام کے ساتھ یہاں تک لائے ہو اس کے لئے میں تمہیں برکتوں کی دعائیں دے سکتا ہوں۔ یہ گھر میرے بچوں کا گھر ہے اور یہاں میں ان لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔ بہتر یہ ہوگا کہ اب تم لوگ واپس جاؤ۔ میں کچھ وقت یہاں قیام کروں گا اور اس کے بعد تم سے رابطہ کروں گا۔ کیونکہ اس کے بعد مجھے یہاں
سے آگے جانا ہے۔ میں تم سے معذرت چاہتا ہوں۔“
ساتھ آنے والوں نے حضرت صاحب کے لباس کو چوما اور الٹے قدموں گیٹ سے باہر نکل گئے ۔
ادھر معظم علی صاحب حضرت صاحب کے حضور پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے ان کی کملی کو بوسہ دیا
۔ طاہرہ بیگم ،مشیرہ بیگم بھی پہنچ گئی تھیں۔ نظم اور نثر بھی تھیں۔ البته عشیره دور ہی سے اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔
یہ حضرت صاحب جو تھے، ایک بزرگ تھے۔ عموما دورے پر رہا کرتے تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں گھومتے پھرتے تھے؟ یہاں بھی اکثر آتے رہتے تھے ۔ معظم علی صاحب بھی ان کے مرید اور عقیدت مند تھے۔ انہیں بڑے احترام سے کوٹھی کے ایک حصے میں ٹھہرایا جاتا اور کوٹھی کا ایک ایک فرد ان کی خدمت کرنے پر مامور ہو جاتا۔
معظم علی صاحب ان دنوں اپنی تمام تر کارروائیاں ترک کر دیتے تھے اور یہ بھی حضرت صاحب کی خوبی تھی کہ وہ ہمیشہ بغیر کسی اطلاع کے نازل ہو جایا کرتے تھے اور اپنے آنے کی خبرنہیں دیتے تھے۔ اس وقت بھی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آجائیں گے۔ لیکن ناک منہ چڑھائے بغیر ان کا معمول کے مطابق
استقبال کیا گیا تھا اور پھر انہیں معظم علی صاحب ہی کے کمرے میں لے جایا گیا تھا۔ کیونکہ دوسرا کمرہ فوری طور پر تیار نہیں تھا۔ معظم علی صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم نے بھی ان سے بہت محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ ملازموں کو حضرت صاحب کے کمرے کی تیاری کا حکم دے دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد مشیرہ اور طاہرہ بیگم بھی باہر نکل آئیں ۔ انہیں حضرت صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ لیکن مشیرہ بیگم نے کہا۔
ہمارا تو منصوبہ کچھ اور تھا۔ اب دیکھو کتنے دن رہتے ہیں....؟
کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دو دن میں بھی چلے جائیں اور دو ہفتے بھی نکال لیں ۔سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ وہ لوگ تو من مانی کرتے رہیں گے ،
تو کرنے دیے۔ مشیرہ باجی ! جب ہم نے ایک فیصلہ کر لیا ہے
اور وہ فیصلہ ہمارے لئے فائدہ مند رہا ہے تو پھر جو اللہ کی مرضی ۔طاہرہ بیگم نے بیچارگی سے کہا اور مشیرہ بیگم خاموش ہوگئیں۔
بہرحال حضرت صاحب کا کمرہ تیار کیا گیا اور وہ کمرے میں منتقل ہو گئے ۔ پورا گھر ان کا عقیدت مند تھا اور ان کی آمد پر خوشیاں ہی منائی جاتی تھیں۔
حضرت صاحب ایک پراسرار شخصیت کے مالک تھے۔ آج تک انہوں نے کبھی معظم علی صاحب سے کوئی فرمائش نہیں کی تھی۔ کچھ نہیں لیتے دیتے تھے۔ بس آتے، اپنی مرضی کے مطابق قیام کرتے ، دعائے خیر کرتے اور چلے جاتے۔ ان کی یہ بات بھی ایک پروقار حیثیت رکھتی تھی اور اس سے بھی
لوگ بے حد متاثر تھے۔
علم کہاں تک تھا؟ یہ بات صیغہ راز میں ہی تھی۔ جب بھی آتے، دوسرے دن گھر کے ایک ایک فرد کو ان کی خدمت میں حاضر ہونا ہوتا۔ مالک اور ملازم بھی ان کے ہاتھ چومتے اور وہ انہیں برکتوں کی دعا دیتے۔ بس یہی ان کا کام تھا۔ برسوں سے انکا اس طرح آنا جانا ہورہا تھا۔
قیام کے دوسرے دن شام کو پانچ بچے کوٹھی کے لان پر حضرت صاحب نے محفل سجا لی۔ معظم علی صاحب آج پورا دن گھر پر رہے تھے اور حضرت صاحب کی خبر گیری کرتے رہے تھے۔1
. طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم بھی حسب عادت گھر کے کام سنبھالے ہوئے تھیں۔
عشیرہ پر کچھ اور ذمے داریاں بڑھ گئی تھیں جبکہ حضرت صاحب کا کوئی خاص کام یہاں نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال ایک ایک فرد کوٹھی کے لان میں پہنچ گیا۔ حضرت صاحب کی
قدم بوسی کی جانے لگی۔ جو کوئی ان کا ہاتھ چومتا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعائیں دیتے۔ ملازمین بھی سب عقیدت سے ان کے سامنے خاضر ہوئے تھے۔
البته شاه نم وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ کسی کام سے باہر نکل گیا تھا۔ کسی کو اس کی یاد بھی نہیں آئی ۔ کوئی اتنا اہم مسئلہ بھی نہیں تھا۔ حضرت صاحب سب کو
دعائیں وغیرہ دے کر اٹھ گئے تو نظم اور نثر کو ہی شاہ نم کا خیال آیا تھا۔
”ارے! وہ ڈرائیور نہیں ہے...؟ گاڑی بھی کھڑی ہوئی
ہے۔ وہ کہاں چلا گیا ............؟
پتہ نہیں کسی کام سے گیا ہوگا ۔
"حضرت صاحب کی قدم بوسی بھی نہیں کی اس نے؟‘‘
بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن رات کو بارہ بجنے میں دس منٹ تھے جب حضرت صاحب معمول کے مطابق کوٹھی کے گشت پر نکلے۔ یہ بھی ایک معمول تھا۔ وہ ایک رات بارہ بجے سے پہلے کوٹھی کے تمام علاقوں کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ معظم علی ان کے ساتھ تھے اور ان سے دو قدم پیچھے چل رہے تھے۔ انہوں نے آج ایک خاص بات جو کی وہ یہ کہ حضرت صاحب چار چار قدم چلنے کے بعد رک جاتے تھے اور کچھ الجھن کا شکار ہو جاتے تھے۔۔۔۔
(جاری ہے)۔

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
آخری قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں