بازی ۔ ایک بہت ہی دلچسپ مکمل اردو کہانی

"بازی "پنجاب کے علاقے میں واقع یہ گاؤں بے حد سر سبز و شاداب تھا-دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کے سلسلے آنکھوں میں ترا وٹ سی بھر دیتے تھے-اس گاؤں پر اللہ نے اپنے زمینی خزانے دل کھول کر خرچ کے تھے-مگر یہاں بسنے والے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم زندگی گزا ر رہے تھے تعلیم کے نام پر یہاں صرف ایک پرائمری اسکول تھا جبکہ اس گاؤں تو کیا آس پاس کے علاقوں میں بھی کوئی ڈاکٹر کلینک یا اسپتال موجود نہیں تھا-بیمار مریضوں کو علاج کی غرض سے شہر جانا پڑتا تھا-کئی مریض تو را ستے میں ہی دم توڑ جاتے تھے- ارباب اختیار کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی فرصت نہیں تھی -اور یہاں کے زمینی خداؤں کو کوئی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہی اس دھرتی کی قدر تھی اور نہ ہی ان محنت کشوں کو جو اپنا خوں پسینہ اس مٹی میں ملا کر اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے تھے-
چند سال پہلے تک تو اس کا بھی اس دھرتی سے کوئی جذباتی رشتہ نہیں تھا-بلکہ وہ تو یہاں کے بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں تھی-اس کا رشتہ تو جنید ملک سے تھا -جس کا تعلق اس گاؤں سے تھا-اس کے آباؤ اجداد کی قبریں یہاں تھیں-وہ حصول تعلیم کے لیے شہر گیا تو وہیں کا ہو رہا اس نے شہر میں ہی اپنی کلاس فلو سے شادی کر لی تھی پھر زمہ داریاں بڑھتی چلی گئیں -اور گاؤں سے اس کا تعلق ٹوٹ سا گیا- لیکن دل میں کہیں چھپی مٹی کی محبت کبھی کبھی اس شدت سے جاگتی کہ وہ بے چین ہو جاتا تھا-وہ اس کے ساتھ ایک بار ہی گاؤں آئ تھی ان دنوں وہ کتنا خوش تھا-خوش کیوں نہ ہوتا اس کی جڑیں اسی گاؤں میں تھیں-
جنید کے والد اسکے بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے جبکہ ماں جب آخری سفر پر روانہ ہوئی تھیں تب وہ اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کر چکا تھا-ما ں بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنے کی آرزو دل میں لیے ہی را ہی ملک عدم ہوئی تھیں-جنید اور مریم دونوں ڈاکٹر تھے --جنید ایک سرکاری اسپتال میں جاب کرتا تھا جبکہ شام میں وہ اپنی کلینک سنبھالتا تھا اور مریم دن کے اوقات میں کلینک پر مریضوں کا علاج کرتی تھی -جنید نے میڈیکل کی تعلیم ہی اس لیے حاصل کی تھی تاکہ وہ گاؤں کے لوگوں کا علاج کر سکے وہ اپنے گاؤں کے افراد کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا-اس نے اس خواہش کا اظہار مریم سے کیا تھا تو اسے کچھ فکرلاحق ہوئی تھی-
"ہم تو وہاں زندگی گزار لیں گے مگر ہمارے بیٹے کی تعلیم کا کیا ہوگا؟"مریم نے کہا تھا-
"وہ ابھی چھوٹا ہے اور پھر ہم دونوں اپنے بچے کو خود تعلیم دیںگے-"جنید نے کہا تھا-
یوں وہ اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اکیلا ہی گاؤں روانہ ہو گیا تھا جہاں پہنچ کر اس نے اپنے آبائی مکان کو از سر نو تعمیر کیا تھا-یہ مکان کافی وسیع و عریض تھا-اس کے ایک حصے کو اس نے کلینک کی شکل دے دی تھی-ضروری اور جان بچانے والی دوائیاں وہ شہر سے اپنے ساتھ لے گیا تھا- گاؤں والوں نے جب جنید کی گاؤں میں کلینک کھولنے کی خبر سنی تھی تو وہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی-سب ہی وہاں آ کر اسے مبارکباد دے رہے تھے-اس کا بھی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا-اس کی برسوں پرانی خواہش تکمیل پا رہی تھی-ان کی شہر سے گاؤں شفٹ ہونے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں-کہ وہ حادثہ ہو گیا-
جنید اپنے خوابوں سمیت منوں مٹی تلے جا سویا تھا-ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنی جب سے ریزائن تو دے دیا تھا مگر ابھی اسے ایک ہفتہ مزید ڈیوٹی انجام دینی تھی -انہیں دنوں ایک جان لیوا وائرس کا شکار ایک مریض اس وارد میں داخل تھا جہاں جنید ڈیوٹی انجام دے رہا تھا-دیگر اسپتالوں کی طرح اس اسپتال میں بھی متعدی مرض سے بچاؤ کے لیے سہولیات کا فقدان تھا-اور اس سے ڈاکٹرز بھی محفوظ نہیں تھے-وہ مریض تو صحتیاب ہو گیا تھا مگر جنید اس خطرناک وائرس کا شکار ہو گیا تھا - اس کا بخار ٹوٹنے کا نام نہ لیتا تھا-یوں وہ صرف ایک ہفتے بیماری کی حالت میں رہ کر جان کی بازی ہار گیا تھا-
جنید کی جواں سالہ موت پر کسی کو یقین نہ اتا تھا-اور مریم پر تو گویا دکھوں اور غموں کے پہاڑ ٹوٹ گئے تھے ایک طویل عرصے تو وہ سکتے کی کیفیت میں رہی تھی-پھر لوگوں کے سمجھا نے بجھانے اور اپنے چار سالہ بیٹے کے لیے اس نے ہمت کی تھی جس کے لیے اب وہی ماں اور باپ تھی-اس کے علاوہ اسکے مرحوم شوہر کا ایک خواب بھی تو تھا-جسے اب اس نے تکمیل تک پہنچانا تھا-اب یہی اس کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا-وہ اپنی جمع پونجی سمیٹے اور اپنے چار سالہ بیٹے کاشی کا ہاتھ تھامے کی خواب آنکھوں میں بسائے گاؤں آ گئی تھی اور کلینک شروع کر دیا تھا-
یہاں کی صورت حال اس کے تصور سے زیادہ تشویش ناک تھی-گو کہ گاؤں بہت پر فضا اور سر سبز و شاداب تھا مگر صحت سے متعلق سہولیات کا کوئی تصور نہیں تھا-حفظان شت کے اصولوں سے ناواقف ہونے کے با عث یہاں بیماریاں تیزی سے پھیلتی تھیں-جس سے عورتیں اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے تھے-یہاں ایک اور تکلف دہ صورت حال کا بھی سامنا تھا-اس علاقے میں زہریلے سانپوں کی بہتات تھی آئے دن سانپ کے ڈسنے کے واقعیت ہوتے رہتے تھے جس کا علاج مقامی افراد ٹونے ٹوٹکوں سے کیا جاتا تھا-یھاں پچاس فیصد اموات سانپ کے ڈسنے سے ہوتی تھیں-مریم نے سب سے پہلے اسی سلسلے میں زہر سے بچاؤ کی ویکسین کا انتظام کیا تھا-
بھر حال حالات بہت خراب تھا جس سے نمٹنے کے لیے مریم تیار تھی-
مگر گاؤں پر حکومت کرنے والے ملک اکبر کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی-وہ اپنی شاندار حویلی میں رہائش پزیر تھا-یہ حویلی امارت اور شان و شوکت کا ا علی نمونہ تھی-لیکن کیا فائدہ تھا ان اونچی دیواروں والے محل کا جہاں کے مکین زیادہ تر دوسرے شہروں یا ملک سے باہر مقیم تھے-ان دنوں یہاں صرف ملک اکبر اور اسکا ایک جواں سال بیٹا ملک سفیان موجود تھا-اور ملازمین کی ایک فوج ظفر موج یہاں راج کر رہی تھی-
مریم نے اپنی کلینک میں نیک محمد نامی ایک شخص کو بطور کمپوڈر ملازم رخ لیا تھا جس کا تعلق اسی گاؤں سے تھا وہ کچھ ارسا پہلے شہر میں کمپوڈر رہا تھا-مریم نے گاؤں کی ایک بے سہارا اور بوڑھی خاتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھ لیا تھا جو اس کے بیٹے کا خیال رکھتی تھی-اسے کلینک شروع کیےابھی چند دن ہی ہوئے تھے-اس دن ملک اکبر نے اپنے منشی قادر بخش کو اس کے پاس بھیجا تھا یہ پیغام دے کر کہ پڑوسی گاؤں سے کوئی تعلق نہ رکھے اور نہ وہاں کے افراد کا علاج کرے-کیونکہ وہاں کے چوہدری سے ان کی ذاتی دشمنی تھی-پریشن کن صورت حال یہ تھی کہ دونوں گاؤں کے کرتا دھرتا نہ صرف سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے مخالف تھے بلکہ آپس میں بد ترین دشمن بھی تھے-وہ یہ حکم سن کر حیران رہ گئی تھی-اور اس نے قدر بخش سے کہا تھا-
"یہ کیسے ممکن ہے میں ایک ڈاکٹر ہوں اور اس جگہ بیمار افراد کے علاج کے لیے ہی آئ ہوں میں انہیں کیسے منع کر سکتی ہوں-"
"ڈاکٹرنی صاحبہ آپ اس علاقے کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں یہاں ملکوں کی حکم عدولی کی کسی میں جرات نہیں ملک صاحب کے دشمن پورے گاؤں کے دشمن ہوتے ہیں-ملک صاحب کے حکم کی پابندی آپ پر فرض ہے ورنہ آپ کا یہاں رہنا اور کلینک چلانا مشکل ہو جائے گا-"
"اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ میں خود ملک صاحب سے آ کر بات کروں گی-"
"میں نے انکا پیغام آپ تک پہنچا دیا آگے آپ کی مرضی-"کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا تھا-
دو چار دن گزرے تھے جب اس رات پڑوسی گاؤں کے چوہدری نے اسے بلوایا تھا اور اپنی شاندار گاڑی بھیجی تھی-اس کی بیوی ماں بننے والی تھی-یہ موقع ایسا تھا کہ مریم انکار نہیں کر سکتی تھی اور ضروری دوائیاں ساتھ لے کر وو ان کے ساتھ انکی حویلی چلی گئی تھی-وہاں چوہدری کی بیوی نے مریم کی مدد سے ایک صحتمند بیٹے کو جنم دیا تھا اسکی بیوی کی حالت کافی تشویش ناک تھی اگر مریم نہ ہوتی اور اسے ضروری انجکشن اور دوائیں نہ دی جاتیں تو اسکی موت یقینی تھی-
اگلے دن ملک صاحب کی حویلیسے مریم کو بلوایا گیا تھا-نہر کے ساتھ ساتھ چلتی وہ قریب سے گزرتے بچوں اور عورتوں کو مہربان مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی-کس قدر عقیدت سے وہ اسے دیکھتے اور سلام کرتے تھے-ہر گزرتے دن کے ساتھ یھاں کے افراد کے دلوں میں اس کے لیے محبت اور عزت کا اضافہ ہو رہا تھا-
گورا رنگ بڑی بڑی ذہین آنکھیں اور پیشانی سے ذرا اوپر چہرے کے گرد لپٹا سفید اسکارف اور سر سےلے کر پاؤں تک سفید چادر میں لپٹی وہ حویلی کی جانب چلی جا رہی تھی- وہ حویلی پہنچی تو ملازمہ نے اسے مہمان خانے میں پہنچا دیا تھا-اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی یہاں کی تزئین و آرائش قا بل دید تھی اونچی دیواریں قیمتی پردے،دبیز قالین ،قیمتی صوفے مکینوں کی امارت کا ثبوت تھے-دروازے کے بلکل سامنے ایک خاصی اونچی اور منقش کرسی اور اسکے سامنے منقش میز بھی رکھی تھی-وہ اس منقش کرسی پر جا کر بیٹھ گئی-اسے وہاں بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب قادر بخش اس ہال نما کمرے میں داخل ہوا تھا-
"آ گئیں آپ؟" اس نے کہا -
ملک صاحب کو بتا دیں میں آ گئی ہوں-"اس نے اعتماد سے کہا -
"بڑے ملک صاحب تو یہاں نہیں ہیں وہ دو چار دن کے لیے شہر گئے ہیں-"
قدر بخش کی اس بات نے اسے حیران کر دیا تھا-"پھر مجھے کس کے کہنے پر بلوایا گیا ہے-"
اسی لمحے اس کی نظریں سامنے سے آتے ایک شخص پر ٹک گئیں-گورا چٹا ،لمبا چوڑا خوبرو نوجوان اس کے سامنے تھا -بہت سحر انگیز اور دم بخود کر دینے والی شخصیت والے اس شخص نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا پھر اس کی پیشانی پر ناگواری کے بل پڑ گئے-ڈاکٹرنی اس کے والد کے لیے مخصوس کرسی پر بیٹھی تھی یہ دیکھ کر اسے سخت غصہ آ گیا تھا-
"یہ بابا جان کی کرسی پر کس کی اجازت سے بیٹھی-"کچھ فاصلے پر رک کر اس نے سخت لہجے میں قدر بخش سے پوچھا-قدر بخش کے چہرے کا رنگ اڑ گیا وہ شرمندگی سے نظریں چرانے لگا-
وہ خاموشی سے کرسی سے اٹھ کر قدر بخش کے قریب جا کھڑی ہوئی-جبکہ وہ نوجوان ناگوار نظروں سے اسے دیکھتا اسی کرسی پر جا بیٹھا-کافی دیر وہاں خاموشی چھائی رہی بلآخر وہ بولا-
"میں نے سنا ہے کہ کل تم ہمارے دشمنوں کے گھر گئی تھیں-"اس نے سخت اور کھردرے لہجے میں کہا -
"جی چوہدری صاحب کے گھر ایمرجینسی تھی ان کی بیوی بہت تکلیف میں تھی-انہیں میری مدد کی ضرورت تھی -میں ..............."
"دشمنوں کو تکلف دی جاتی ہے ان کی تکلف دور نہیں کی جاتیڈاکٹر ...........تم نے ہماری حکم عدولی کی ہے-اس لیے اپنا کلینک بند کرو، بوریا بسترا سمیٹو اور جہاں سے آئ ہو وہاں لوٹ جاؤ-"اس نے تحکمانہ انداز میں کہا -
"وہ ہمارا آبائی گھر ہے اور کلینک ہماری آبائی زمین پر بنی ہے-آپ وہاں سے ہمیں کیسے بے دخل کر سکتے ہیں؟وہ سر اٹھائے پر اعتماد لہجے میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہ رہی تھی-
وہ مشتعل ہوگیا-اور چیختا ہوا بولا-"او بی بی .......کسی خیال میں نہ رہنا..........یہاں ہماری مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا- اپنا سامان اٹھاؤ اور نکل جاؤ یہاں سے-ہمیں کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے- "
"آپ کو نہیں ہو گی........مگر یہاں کے غریب اور بے یار و مددگار افراد کو ہے،کچھ خبر ہے آپ کو یہاں روزانہ کتنے افراد معمولی بیماریوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں آپ کو نہ سہی مگر یہاں کے افراد کو میری ضرورت ہے-اس زمین پر رہ کر کوئی ایسا کام کر جائیں جو زمین کے اندر جانے کے بعد کام آئے-"اس نے تلخ لہجے میں کہا تو وہ بھڑک کر کرسی سے اٹھا-"اسے باہر کا راستہ دکھاؤ-"وہ غصے سے قادر بخش کی طرف دیکھ کر چلایا-
"ملک صاحب ڈاکٹرنی صاحبہ شہر سے آئ ہیں-یہاں کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں کچھ دن یہاں رہیں گی تو سب سمجھ جائیں گی-انہیں ایک موقع دے دیں-میں انہیں سمجھا دوں گا.........آئندہ ان سے یہ غلطی نہیں ہو گی-"قادر بخش لپک کر ملک سفیان کے قریب گیا تھا اور اس کے سامنے کھڑا گڑگڑا رہا تھا-
"تو پھر اسے اچھی طرح سمجھا دے قادر بخشا .........اور شکار پر جانے کا انتظام کر لیا؟"
وہ لب بھینچے سنتی رہی پھر گہری سانس لیتی باہر کی جانب پلٹی ابھی دروازے تک پہنچی تھی کہ اس بے حس اور بے رحم شخص کی آواز سنی دی-ایسی عورتوں کی زبان کاٹ کر پھینک دینی چاہیے جو مردوں کے سامنے زبان چلاتی ہیں- وہ دکھے دل کے ساتھ واپس گھر آ گئی تھی-
دو تین دن گزرے تھے-وہ کلینک میں مصروف تھی- اس نے نیک محمد سے کہا -
"نیک محمد شہر سے جو دوائیاں آئ ہیں انہیں ڈبوں میں ہی رہنے دینا ہمیں شاید یہ کلینک بند کرنی پڑے -ایکسپائر ہونے والی دوائیاں ایک طرف ڈالتے ہوئے اس نے کہا -نیک محمد بری طرح چونکا تھا-"تمھارے ملک صاحب نے حکم دیا ہے-"
"میں سمجھ گیا .......آپ اس دن چوہدری صاحب کی حویلی گئیں تھیں اسی لیے ملک صاحب ناراض ہوئے ہوں گے-"وہ مایوسی سے بولا-
"تم فکر نہ کرو کلینک یہاں نہیں رہی تو کوئی بات نہیں آس پاس کے کسی گاؤں میں ہو گی........تم چاہو تو ہمارے ساتھ آ سکتے ہو-"اس کے سرسری انداز میں کہی ہوئی بات پر اس کا رنگ فق ہوا تھا-
"آپ ان حویلی والوں کو نہیں جانتیں ڈاکٹر صاحبہ حکم عدولی کرنے والوں کے ساتھ یہ کیا سلوک کرتے ہیں-اگر اس گاؤں میں کلینک نہیں رہی تو وہ اسے کہیں آس پاس بھی نہیں رہنے دیں گے"نیک محمد کی نظر دروازے کی سمت گئی تو وہ چونکا "قادر بخش آ رہا ہے-"اس نے کہا -
"لگتا ہے اس بد دماغ نے پھر کوئی پیغام بھیجا ہے-"کرسی پر بیٹھتے ہوئے وہ زیر لب بولی تھی-
"تمہیں میں نے پہلے بھی کہا تھا کے اسلحہ لے کر یہاں نہ آیا کرو-"اس نے اسے بندوق کندھے سے لٹکائے دیکھ کر تیز لہجے میں کہا تھا-
"غلطی ہو گئی جی آئندہ احتیاط کروں گا-"قادر بخش دانت نکالتے ہوئے بولا-
"کیا پھر کوئی شکایت ہو گئی ملک صاحب کو؟"وہ طنزیہ انداز میں بولی-
"نہیں جی ...........میں تو آپ کو سمجھانے آیا تھا...........ملک سفیان زبان کے کڑوے سہی مگر دل کے برے نہیں ہیں-انہیں سمجھایا جائے تو سمجھ جاتے ہیں-لیکن کوئی ان کے سامنے اڑ جائے تو ..........."
"میں نے ان سے طریقے سے ہی بات کی تھی.........بد تہزیبی کا مظاہرہ تو انہوں نے کیا تھا- انہیں تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایک عورت سے کس طرح بات کی جاتی ہے-"وہ ناگواری سے بولی تھی-
"وہ بڑے لوگ ہیں ڈاکٹر صاحبہ انہیں صرف اپنی تعظیم کروانی آتی ہے-"نیک محمد جو خاصی دیر سے ان کی باتیں سن رہا تھا بولا-
"تو چپ کر .......جانتا نہیں ان ملکوں کو اور ان کی اولادوں کو-"قادر بخش نے اسے گھرکا-"ان کا حکم ماننے میں ہی ہم سب کی بہتری ہے-"
"تم میرا ایک پیغام انہیں پہنچا دو.........ایک ہفتے بعد کلینک یہاں نہیں ہوگا-"وہ چونکا-
"کیا آپ شہر واپس جا رہی ہیں؟"
"نہیں" وہ کچھ دیر ٹہر کر بولی- ہم پڑوسی گاؤں میں کلینک قائم کریں گے-چوہدری صاحب سے میری بات ہو گئی ہے-"وہ فیصلہ کن لہجے میں بولی-
"ڈاکٹر صاحبہ ان کے سامنے ڈٹ کر آپ خطرہ مول لے رہی ہیں -وہ پریشا ن نظر آ رہا تھا-نیک محمد تو ہی سمجھا انہیں.........ملک سفیان کے سامنے تو بڑے ملک صاحب بھی بھیگی بلی بن جاتے ہیں-"
"قادر بخش تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے-" اس کی گھبراہٹ پر مریم مسکرائی تھی-
"آپ کا یہ پیغام ان تک پہنچانے کے بعد میرا کیا حشرہوگا-"
"اچھا تم رہنے دو......میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں-خود ان سے بات کر لوں گی-"
"آپ وہاں مت جائیں........پیغام میں جا کر دے دوں گا-"قادر بخش جلدی سے بولا-
نہیں میں خود ان سے بات کروں گی-جب یہاں رہنا ہی نہیں تو ڈرو خوف کیسا -"وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ باہر نکل گیا تھا-
وہ حویلی پہنچے تو دیکھا ملازم بڑے احترم سے اس کے قدموں بیٹھا اسے جوتا پہنا رہا تھا-ملازم نے دوسرے پاؤں کا جوتا آگے بڑھایا تھا جس میں پاؤں ڈالتے اس کی نظر سامنے کی جانب اٹھی تھی جہاں قدر بخش کے ہمراہ مریم سر اٹھائے سفید چادر میں لپٹی چلی آ رہی تھی-وہ کئی لمحے اپنی نظریں اس کے حسین چہرے سے ہٹا نہیں سکا تھا-"اس طرح زمین پر چلتی ہے جیسے احسان کر رہی ہو-"اس نے سوچا تھا-
جوتا شاید ٹھیک طور سے پاؤں میں نہیں آیا تھا-اس نے ایک زوردار ٹھوکر ملازم کو رسید کی تھی-مریم کو سانپ سونگھ گیا تھا-نحیف ملازم منہ کے بل گر پڑا تھا- جوتا پہنانا نہیں آتا نکل جا یہاں سے وہ دھاڑا تھا-کالر جھٹک کر وہ کھڑا ہوا اور بگڑے تیوروں کے ساتھ اس کی سمت آیا تھا جو لب بھینچے اس وحشی کو دیکھ رہی تھی-
"یہ یہاں کیوں آئ ہے؟"اس نے قادر بخش سے پوچھا-
"میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی-"مریم نے جلدی سے کہا -
"جو کہنا ہے جلدی کہو میرے پاس ٹائم نہیں ہے.............قادر تم گاڑی نکالو-میں آ رہا ہوں-"اس نے قا در بخش کو دیکھتے ہوئے کہا -قادر بخش سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا-
"میں اپنا مکان فروخت کر کے کلینک سمیت پڑوس والے گاؤں میں شفٹ ہونا چاہتی ہوں-لیکن کوئی خریدار آپ کی مرضی کے بغیر اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے -ہم وہاں رہ کر بھی اس گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرتے رہیں گے-"
"ہم سے بغاوت کر کے تم ہمارے دشمنوں کی زمین پر بسیرا کرنا چاہتی ہو-" وہ خونخوار لہجے میں بولا-
"وہ آپ کے دشمن ہیں مگر ہمیں خوش دلی سے قبول کر رہے ہیں-"وہ تیزی سے بولی-
"ایک بات کان کھول کر سن لو اس گاؤں سے نکل کر تم جہاں جاؤ گی میں وہاں آگ لگوا دوں گا-دو ہی راستے ہیں تمھارے پاس یا تو یہ گاؤں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے شہر چلی جاؤ -یا ہمارا ہر حکم مانو -"اس کے حقارت بھرے لہجے پر مریم کے چہرے کا رنگ بدلاتھا-
"ایک تجویز اور ہے-"کچھ دیر بعد اس نے کہا تو مریم کے چہرے پر الجھن نظر آئ اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا-"اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمھاری بات ماں لوں تو........اس نے مریم کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھا پھر کہا -آج رات حویلی میں رک جاؤ پھر جو چاہو منوا لو-"اسکی گستاخانہ نگاہوں نے مریم کا چہرہ سرخ کر دیا تھا -اگلے ہی لمحے مریم کا زناٹے دار تھپڑ سفیان کے منہ پر اپنے نشان چھوڑ گیا تھا-سفیان بھونچکا رہ گیا تھا-اسے اب تک اس لڑکی کی جرات پر یقین نہیں آ رہا تھا-اس کی آنکھیں شعلے اگلنے لگیں-ابھی اس نے مریم کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ قدر بخش کمرے میں داخل ہوا-" گاڑی نکال دی ہے سرکار-"اس نے کہا -
"مجھے اچھی طرح دیکھ لے کیونکہ میرے قدموں میں بیٹھ کر تو زندگی کی بھیک مانگے گی-"
وہ خونخوار نظروں سے اسے گھورتا اور ایک جھٹکے سے قا در بخش کو پرے ہٹاتا ایک ہی جست میں دروازہ پار کر گیا-
وہ اب جلد سے جلد یہ گاؤں چھوڑ دینا چاہتی تھی-چوہدری صاحب نے اسے ہر تعاون کا یقین دلایا تھا-اسے پتا تھا کہ سفیان اپنی بے عزتی پر چپ نہیں بیٹھے گا-وہ اس سے تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا-
اگلے دن اسے گاؤں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا تھا-شام میں وہ گھر کے باہر لان میں بیٹھی تھی-گھر کے باہر یہ وسیح قطع اراضی انہیں کی ملکیت تھی جہاں جہاں خودرو جھاڑ جھنکار،جنگلی پھولوں کے پودے،اور گھنے تناور درخت تھے-جنید نے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ صاف کر کے اسے لان کی شکل دی تھی-جہاں مریم نے چند کرسیاں اور میز رکھی تھی-
وہ کرسی پر بیٹھی تھی-سورج کی الوداعی کرنیں دھرتی پر پھیلی ہوئی تھیں جو آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جا رہی تھیں -خنک اور پرسکون ہواؤں میں ابھرتی پرندوں کی چہچاهٹ سماعتوں میں رس گھول رہی تھی-جنگلی پھولوں کی مہک فضا میں رچی بسی تھی- یہ مکان چھوڑنے کے تصور سے وہ بہت دکھی تھی-چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس نے کاشی کو دیکھا جو کچھ فاصلے پر اپنے پالتو کتے ٹومی کے ساتھ اچھل کود میں مصروف تھا-ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے چائے کا کپ ہوتنوں سے لگایا تھا کہ ایک بھیانک اور تیز آواز نے ماحول کو منتشر کر دیا-یہ مین دروازہ ٹوٹنے کی آواز تھی-سہمے کھڑے کاشی کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتی وہ دروازے کی سمت بڑھی تھی-نیم تاریکی میں اس نےاسقد قد آور وجود کو کھڑے دیکھا جس کا نام سفیان تھا-اس کے دل میں پہلی بار خوف جا گا تھا-سوکھے پتوں کی چرچراہٹ نے مریم کے دل کی دھڑکنیں ساکت کر دی تھیں جو سفیان کے بھاری قدموں تلے کچلے جا رہے تھے-وہ اس کی سمت بڑھ رہا تھااور اس کا وجود سن پڑ گیا تھا-خنکی کے با وجود اس کے چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا-اس نے چیخنا چاہا مگر آواز حلق میں ہی کہیں گھٹ گئی تھی-وہ سر اٹھائے پھٹی پھٹی آنکھوں سے انتہائی قریب موجود سفیان کو دیکھ رہی تھی-اس کے دل کی دھڑکن اس وقت رک سی گئی تھی جب ایک سخت گرفت نے اسے جکڑ لیا تھا-وہ اس وقت بھی حرکت نہیں کر جب اس کا سرد ہاتھ اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوا تھا-
"تمھارے چہرے پر میں یہی خوف دیکھنا چاہتا تھا-اس کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں پر نظریں جمائے وہ سلگتے لہجے میں بولا تھا-"جو تھپڑ تم نے میرے منہ پر مرا تھا اس کا جواب میں آج یہاں تمہارے بیٹے کے سامنے بہت اچھی طرح دوں گا-"اس کا آنسوؤں سے بھگا چہرہ ہاتھوں میں جکڑے وہ مدھم آواز میں غرایا تھا-
وہ اس کے چہرے پر جھکا تھا کہ اس کی حلق سے ایک چیخ ابھری تھی اور اس نے نےپوری قوت سے اسے پیچھے دھکیلا تھا-لیکن وہ بھاگنے میں ناکام رہی تھی-ابھی اس نے دو قدم ہی طے کیے تھے کہ وہ دوبارہ اس کے وجود کو اپنے شکنجے میں جکڑ چکا تھا-مگر اگلے ہی لمحے نہ جانے کیا ہوا وہ اپنا سر پکڑے تڑپ کر پلٹا تھا-لڑکھڑا کر سنبھلتے ہوئے مریم کی نظر سامنے کھرے کشی پر سکت ہوئی تھیں جو شدید غصے سے کانپتا گھرے گھرے سانس بھرتا ایک اور پتھر اٹھا چکا تھا-اس چھوٹے سے لڑکے کے تیوروں نے سفیان کو دنگ کر دیا تھا-(ختم شد )
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں