جن زاده از قلم : ایم آے راحت ۔ آخری قسط

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط
آخرکار وہ واپس اپنی قیام گاہ میں پہنچ گئے ۔ ان کے چہرے پر کچھ الجھن کے آثار تھے۔ معظم علی نے سوال کر ہی ڈالا۔
اعلی حضور! کچھ مضطرب نظر آتے ہیں۔
حضرت صاحب نے گردن اٹھا کر معظم علی کو دیکھا پھر بولے۔ کچھ الگ الگ نظر آ رہا ہے ہمیں معظم علی! کھلے الفاظ میں کیا کہیں تم سے؟ پچھلی بار جب ہم آئے تھے تو یہ کوٹھی پوری کی صاف شفاف تھی ۔ لیکن اس بار اس میں کچھ آلودگی محسوس ہورہی ہے۔
سمجھا نہیں حضور کیسی آلودگی ...........؟
کہنا تو نہیں چاہئے لیکن تم سے ہمارا رشتہ کچھ ایسا ہے کہ چھپا بھی نہیں سکتے۔ ہمیں یہاں جن کا سایہ محسوس ہوا ہے۔
جن کا سایہ..............؟
ہاں میاں...! کچھ ہے یہاں پر ویسے تو ہم دو دن یہاں قیام
کے لئے آئے تھے، پرسوں ہمیں روانہ ہو جانا تھا۔ لیکن مجبوری میں تین دن رکنا پڑے گا۔ چلہ کریں گے اور تمہیں حقیقت بتائیں گے۔ ہم نے چلہ گاہ بھی منتخب کر لی ہے۔ سامنے وہاں املی کا ایک درخت ہے۔ اس درخت کے نیچے
بیٹھ کر ہم چلہ کریں گے۔
جی بہت بہتر ...!؟
معظم علی نے عقیدت سے کہا۔
بہرحال حضرت صاحب کی برکتوں کو وہ دل سے تسلیم کرتے تھے۔
چلے کا پہلا دن تھا۔ تیاری کر لی گئی تھی کہ چلہ کشی کے دوران کوئی ان کے قریب نہ آئے ۔ لیکن جب حضرت صاحب وظیفے کے درمیان تھے تو انہیں کچھ آہٹیں محسوس ہوئیں اور وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگے ۔ لیکن انہیں درخت کی اوپری بی شاخ سے آ رہی تھیں۔
حضرت صاحب نے اوپر دیکھا تو انہیں چھ آنکھیں روشن نظر آئیں اور حضرت صاحب تیزی سے وظیفے کا علم دہرانے لگے ۔ تبھی ایک بھرائی ہوئی سی آواز سنائی دی۔
توقف فرمایئے اعلی حضرت.....! ایک درخواست کرنی ہے آپ
سے۔ آپ نے جو محسوس کیا ہے اور جو آپ کے خیال میں یہاں ہو رہا ہے اسے جاری رہنے دیئے۔ آپ سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ گھر کے کسی فرد کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔
حضرت صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بولے۔ گویا ہمارا خیال درست تھا؟ کون لوگ ہیں میان آپ؟ ہم سے تعارف ہی کرا دیں۔ اصل میں ہم روشنی چاہتے ہیں ۔‘
"حضور سے وعدہ کیا گیا ہے کہ گھر کے کسی پرندے تک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بہتر ہے اندھیرا ہی رہنے دیں۔“
ممکن نہیں ہے....! روشنی میں آجاؤ تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
مگر کام خراب ہو جائے گا عالی جناب ‘‘
مجبوری ہے..............؟
اعلی حضرت نے کہا اور وظیفہ پڑھنے میں مصروف ہوئے۔
دوسری رات انہیں پھر وہی آہٹیں سنائی دیں اور بڑی منت سماجت کی گئی۔
حضور انور نہ کیجیئے یہ سب کچھی آپ جس شخصیت کو روشنی میں لانا چاہتے ہیں۔ اسے روشنی میں آ کر نقصان ہوگا اور آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سب کچھ سیغئہ راز میں ہی رہنے دیئے۔ یہ بڑا ضروری ہے۔“
مجبوری ہے ہماری۔“
بات تیسرے دن کی آگئی۔ رات کا وقت تھا۔ حضرت صاحب چلہ کشی کر رہے تھے کہ اچانک ہی انہیں اپنے اردگرد کچھ سائے سے محسوس ہوئے۔ پھر ان سایوں نے ان کی
بغلوں میں ہاتھ ڈالا اور اس کے بعد انہیں لے کر فضاء میں بلند ہو گئے۔
حضرت صاحب کے منہ سے ’’ارے............! ارے‘‘ کی آواز میں نکل رہی تھیں اور وہ فضاء میں بلند ہوتے چلے جارہے تھے۔
مشیرہ بیگم اور طاہرہ بیگم آج بھی نگرانی پر تھیں۔ پہلے دو دن بھی انہوں نے نگرانی کی تھی۔ اصل میں وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ املی کے درخت کے نیچے
کی ملاقا تیں تو بند ہوگئیں۔ اب کیا ہوتا ہے؟
لیکن انہیں صرف حضرت صاحب نظر آئے تھے۔ باقی انہوں نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ یقینا شاہنم نے بحالت مجبوری ان دنوں عشیرہ سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تیسری رات بھی مشیرہ بیگم اور طاہرہ بیگم تاک میں تھیں اور انہوں نے حضرت صاحب کو فضاء میں بلند ہوتے ہوئے دیکھا اور پھر وہ واپس نہ آئے۔
دونوں ہی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی تھیں۔ حضرت صاحب سے ان کا عقیدہ کچھ اور بڑھ گیا تھا۔
صبح کو حضرت صاحب کی تلاش ہوئی تو مشیرہ بیگم اور طاہرہ بیگم نے زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔
اے الله کی قسم جو کچھ ہماری ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا، ہم تو ساری رات سو ہی نہیں سکے۔ معظم علی....! آپ یقین کرو ۔ بڑی بلند و بالا شخصیت تھی ان کی ۔ ارے پالتی بیٹھے بیٹھے فضاء میں اوپر اٹھنے لگے اور اس
کے بعد آسمان کی بلندیوں میں غائب ہو گئے کہ بزرگوں کا مقام ہی یہ ہوتا
******
آپ لوگ پتہ نہیں کیا فضول باتیں کر رہی ہیں؟ ان کا سامان
بھی یہیں رکھا ہوا ہے۔ اگر انہیں ہم سے روپوشی بی اختیار کرنی تھی تو پھر بھلا
سامان چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اپنے سامان کے ساتھ چلےجاتے............ جوتے تک تو موجود ہیں ان کے۔“
اب یہ تو اللہ جانے ..!‘‘
سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں ؟
حضرت صاحب ایسے گم ہوئے کہ واپس نہیں آئے ۔ سب سے زیادہ خوشی طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم کوتھی ۔ مشیرہ بیگم نے کہا۔ ”اے خس کم جہاں پاک... ہمارا کام رک گیا تھا۔ ذرا دیکھنا ہے کہ ان دونوں کا کیا ہو رہا ہے؟ اب تو نہ دوپہر کو وہ املی کے پیڑ کے نچے نظر آتے ہیں۔ رات کی تو خیر گنجائش ہی نہیں تھی۔ اب کرنا کیا چاہئیے ....؟
حضرت صاحب چلے گئے ہیں ۔ جگہ خالی ہوگئی ہے۔ آج دیکھیں کیا ہوتا ہے...........؟
اور اس رات جب وہ اپنی مخصوص جگہ پر پہنچیں تو انہوں نے عشیرہ اور شاہ تم کو املی کے درخت کے نیچے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ عشیرہ کی گردن جھکی ہوئی تھی اور شاہ نم اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
اچانک ہی طاہرہ بیگم نے کہا۔
”اے مشیرہ باجی! اس سے اچھا موقع اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ ذرا یہاں رکیں۔ میں معظم علی کو بلا کر لاتی ہوں ۔“
"سوچ لو...! ہمت ہے یا نہیں ؟
" آپ رکیں یہاں...؟
طاہرہ بیگم نے کہا اور تقریبا دوڑتی ہوئی معظم علی کے کمرے کی جانب چل پڑیں۔ معظم علی صاحب ابھی جاگ ہی رہے تھے۔ غالبا ان کے ذہن میں حضرت صاحب کا مسئلہ الجھا ہوا تھا۔ طاہرہ بیگم کو آندھی طوفان کی طرح اندر
داخل ہوتے دیکھ کر بولے۔ خیریت ؟ کیا مصیبت نازل ہوئی آپ پر؟
اٹھ جائیں ۔۔۔۔۔قسم اللہ کی ۔۔۔جوتے پہن لیں؟
"کیا مطلب ہے آپ کا؟ کہاں جانا ہے۔؟“
ارے۔ میرے سینے میں طوفان آ رہا ہے اور آپ پوچھ رہے
ہیں کہاں جانا ہے؟ آیئے ذرا... میرا بھی آپ پر کوئی حق ہے۔“
سارے حقوق آپ کے ہی ہیں ۔ مگر ذرا بتائیے تو سہی ...........! قصہ کیا۔ ہے................؟“
معظم علی صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔
بہت عرصے سے برداشت کر رہی ہوں معظم علی ....! بہت عرصے سے برداشت کر رہی ہوں۔ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لو... سب پتہ چل جائے گا۔
اور پھر طاہرہ بیگم معظم علی کو لے کر اس جگہ آ گئیں جہاں سے وہ املی کے درخت کے نیچے جھانکا کرتی تھیں۔
اتفاق کی بات یہ کہ چاندنی کھلی ہوئی تھی اور عشیرہ اور شاہنم کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ معظم علی صاحب نے حیرت سے یہ منظر دیکھا اور بولے۔
یہ کیا قصہ ہے؟‘‘
میں بتاتی ہوں معظم علی بھائی .... دیکھیں انسان جہاں روٹی کھانا ہے وہاں کی وفاداری بھی اس پر فرض ہے۔ میں نے ہی پہلے یہ منظر دیکھا تھا اور یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نہ دکھائے جو کچھ دیکھ چکی ہوں۔ بہت دن سے
یہ چکر چلا ہوا ہے۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تمہیں لا کر دکھا دیا جائے تا کہ یہ نہ سمجھو کہ ہم دونوں بہنیں مل کر تمہیں بھتیجی کے خلاف بھڑکا رہی ہیں۔ مگر ہمت نہیں
پڑتی تھی۔ ارے....! ہم تو بہت دن سے یہ کھیل دیکھ رہے ہیں ۔ پھر حضرت صاحب آگئے تو ارادہ ملتوی کر دیا۔ اب اللہ جانے وہ کہاں چلے گئے؟ تین دن سے امن امان تھا۔ لیکن آج پھر دو دل دھڑکتے ہوئے املی کے اس پیڑ کے پاس
پہنچ گئے ۔‘‘
یہ ڈرائیور شاہ نم مجھے تو یہ بہت زیادہ شریف زادہ معلوم ہوا تھا ۔۔
بس معظم علی.........! کیا زبان کھولی جائے ....؟ سبھی شریف زادے ہوتے ہیں پر ایک بات سوچی ہے ہم دونوں بہنوں نے مل کر “
کیا................؟
معظم علی نے سوال کیا۔؟
عزت کے ساتھ دونوں کا نکاح پڑھوا دیا جائے اور بجائے اس کے کہ تم شور شرابا کرو۔
دیکھومعظم علی ..! اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہوگی جو تم سے کہی جارہی ہے۔ نکاح کر کے انہیں اس گھر سے رخصت کر دو۔ بس اسے سزا سمجھ لو یا پھر عزت بچانے کی کوشش۔۔
معظم علی پر خیال انداز میں گردن ہلانے لگے۔ پھر وہ کسی سے کچھ کہے بغیر واپس چل پڑے تھے اور مشیر اور طاہرہ ایک دوسرے کی صورت دیکھتی رہی تھیں۔
ادھر املی کے درخت کے نیچے شاہ نم عشیرہ سے کہہ رہا تھا۔
اسی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھی رہو۔ ادھر دیکھنے کی کوشش مت کرنا اور میں تمہیں مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔ آج سارا کھیل مکمل ہوگیا ہے۔ اب ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت انشاء اللہ! ہمارے حق میں فیصلہ کرے گا‘‘.
عشیره سسکیاں بھرنے لگی تھی۔ شاہ نم بہت دیر تک اسے تسلیاں دیتا رہا۔
عشیرہ کو اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ ناصرف طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم اسے دیکھ رہی ہیں بلکہ تایا ابوبھی آگئے ہیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اول تو ماں باپ کی موت کے بعد کوئی حیثیت ہی نہیں رہی تھی۔ پہلے طاہرہ بیگم اور اس کے بعد مشیرہ بیگم، دونوں ہی اس کے خلاف ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتی رہتی تھیں۔ اسے ذلیل کرنے کے لئے طرح طرح کے جتن کئے جاتے تھے اور آج طابوت میں آخری کیل بھی ٹھک گئی تھی۔
شاه نم بے شک اسے تسلیاں دیتا رہا تھا۔ لیکن اپنے کمرے میں آنے کے بعد بھی اس کی حالت بے پناہ خراب رہی اور اس وقت تو وہ زمین پر ہی گرنے لگی۔ جب نظم اس کے کمرے میں مسکراتی ہوئی پہنچی۔
ابو بلا رہے ہیں..............؟
اس نے کہا اور ایک دم ہنس پڑی۔ پھر اس کی کمر میں گدگدی کر کےبولی۔
ایک بات کہوں؟ جو بات ماننے کی ہے، وہ یہ ہے کہ تم ہم
دونوں سے زیادہ خوش نصیب ہو عشیرہ....! دولت تو آنی جانی چیز ہے۔ اس کی کیا پرواہ ....؟ اپنے انتخاب پر میری طرف سے مبارک باد قبول کرو اور یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ زندگی کا ساتھی اگر اس قدر خوب صورت ہو تو زندگی کا مزہ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔
سچ مچ شاه نم لاکھوں میں ایک ہے اور میں تو یہ کہتی ہوں کہ جنہیں سچی محبت مل جائے وہ روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔
آؤ چلو ...........! ابو انتظار کر رہے ہیں۔“
مشکل تمام اس کے منہ سے لرزتی ہوئی آواز نکلی۔
مجھے ایک بات بتاؤگی نظم ‘‘
ہاں...........! پوچھو............!‘‘
كيا اا ابو بہت شدید غصے میں ہیں.............؟
یقین کرو مجھے اس کا اندازہ نہیں ہے۔“
نظم نے نرم لہجے میں کہا۔
بہر حال وہ زرد چہرہ لئے معظم علی صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ جب وہ کمرے کے دروازے پر پہنچی تو اس نے کمرے کے دروازے
سے شاہ نم کو نکلتے ہوئے دیکھا۔ شاہ نم اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا اور وہ بالکل مطمن تھا۔
اندر داخل ہو کر اس نے دہشت زدہ نظروں سے معظم علی کو دیکھا۔ وہ پرسکون نظر آئے تھے۔ پھر ان کی آواز ابھری۔
دروازہ بند کر دو................!‘‘
عشیرہ کے پورے جسم میں تھرتھری دوڑ رہی تھی۔ تاہم اس نے دروازہ بند کر دیا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی واپس مڑی تو معظم علی کی آواز پھر ابھری۔
بیٹھ جاؤ ...........؟ -
اس کے پیروں کی جان تو پہلے ہی نکلی ہوئی تھی۔ وہ جلدی سے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔
معظم علی کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے پھر انہوں نے کہا۔
عشیرہ ! تم میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہو۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ اس گھر میں بہت برا سلوک ہوتا ہے۔ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور اس کمزوری کی وجہ سے میں تمہارے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں نہیں روک سکا۔ لیکن تم یقین کرو عشیره...! کہ میں نے ہمیشہ تمہارے لئے دعائیں کی ہیں۔ میری دلی آرزو تھی کہ تمہاری تمام محرومیاں سسرال جا کر اور اچھا شوہر پا کر دور ہو جائیں اور میں اس کے لئے تگ و دو بھی کر رہا تھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے اپنے لئے شاہ نم کا انتخاب کر لیا ہے۔ بے شک جہاں تک میں
نے شاہ نم کا جائزہ لیا ہے، وہ بہت اچھا نوجوان ہے ۔ خوش شکل بھی ہے اور خوش مزاج بھی۔
لیکن بیٹے ! تم جانتی ہو وہ ایک معمولی ڈرائیور ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ اگر تم اس کے ساتھ خوش رہ سکتی ہو تو ٹھیک ہے۔ لیکن بیٹے اس کے بعد میں اسے یہاں نہ رکھ سکوں گا۔ تمہیں اس کا اندازہ ہے۔۔۔؟
عشیرہ کے کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔ اس کی زبان تالو سے چپکی ہوئی تھی ۔ معظم علی چند لمحات کے بعد پھر بولے۔
تم اگر شاہ نم کے ساتھ خوش رہ سکتی ہو تو صرف گردن ہلا دو۔ یہ تمہاری رضا مندی کے لئے کافی ہوگا۔۔
نہ جانے کس وقت عشیرہ کی گردن ہل گئی تھی۔
معظم علی صاحب نے کہا۔
ٹھیک ہے میری پچی....! اللہ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر دے-
دوسرے دن معظم علی نے شاہ نم کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ شاہ نم کے انداز میں کوئی خوف نہیں تھا۔
میں کسی تمہید میں وقت نہیں ضائع کروں گا۔ مجھے بتاو ....! کیا تم عشیرہ سے شادی کرنا چاہتے ہو.....؟
جی۔۔۔۔اس نے بے جھجک کہا۔
معظم علی نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکھا۔ پھر بولے۔
اس جرات پر میں تمہارے خلاف بھی کوئی قدم اٹھا سکتا ہوں۔ تمہیں ضرور علم ہوگیا ہوگا کہ وہ میرے معصوم بھائی کی اولاد ہے اور کسی بھی طرح نظم اور نثر سے کم نہیں ہے۔
"جی! مجھے علم ہے۔
شاہ نم نے سادگی سے کہا۔
معظم علی کو محسوس ہوا جیسے وہ طنز کر رہا ہو۔ وہ ایک دم شرمندہ ہو گئے۔ کچھ لمحے خاموش رہے پھر بولے۔
اور یہ بھی سوچ لینا۔ اسے اس گھر سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ اس خاندان کی لڑکی ہے اور اپنے ساتھ بھاری جہیز لائے گی ، تم اس کی طرف متوجہ ہوئے ہو تو اپنی یہ غلط فہمی دور کر لو“
اس کے علاوہ تمہیں بہ نوکری بھی چھوڑنی ہوگی۔ کیونکہ اس کے بعد میں تہیں ملازم نہیں رکھ سکتا۔
جی۔۔۔۔
ہر بات میں جی، جی؟ کہاں رکھوگے اسے ،
"آپ مطمئن رہیں۔ ہم جہاں بھی رہیں گے، خوش رہیں گے۔
ٹھیک ہے ! میں انتظام کر کے ایک دو دن میں تمہارے نکاح کا بندوبست کئے دیتا ہوں ۔ اس دوران تم اپنے لئے رہائش کا بندوبست کر لو“
بہت بہتر ....!
تم جا سکتے ہو...........‘‘
معظم علی نے کہا۔
اور پھر وہ شاہ نم کے جانے کے بعد دیر تک سوچ میں ڈوبے رہے تھے۔ اس کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں مشیرہ بیگم اور طاہرہ بیگم سر جوڑے بیٹھی تھیں ۔ معظم علی کو دیکھ کر وہ سنبھل گئیں۔
آپ دونوں کا مشورہ ہے کہ میں عشیرہ کا نکاح شاہ نم کے ساتھ کر دوں..؟
فیصلہ تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ سب کچھ آپ کے علم میں آ چکا ہے۔“
"آپ اسے جہیز میں کیا دیں گی ؟
پھوٹی کوڑی بھی نہیں ............ میری آگے دو دو بچیاں ہیں ۔ آپ خود سوچیں .............!؟
مگر دولت اور جائیداد میں تو اس کا بھی حصہ ہے۔
دیکھیں معظم على ....... اپنی اور آپ کی جان ایک کر دوں گی۔ اس نے جوگل کھلائے ہیں ۔ بس اللہ نہ کرے میری بچیاں متاثر ہوں۔ ان کا نکاح پڑھائیں اور رفو چکر کریں دونوں کو ‘‘ طاہرہ بیگم نے غرا کر کہا۔
پرسوں ان کا نکاح کئے دیتے ہیں۔ ایک آدھ دن میں شاہ نم اپنی رہائش کا بندوبست کر لے گا۔ پھر دونوں یہاں سے چلے جائیں گے ۔
یہی ان دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ طاہرہ بیگم نے کہا۔
تیسرے دن شام کو قاضی صاحب آئے۔ بڑی سادگی سے عشیرہ اور شاہ نم کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا گیا۔
حجلۂ عروسی عشیرہ کا کمرہ ہی تھا۔ سب سے زیادہ دلچسپی نظم اور نثر نے ہی لی تھی۔ دونوں بہت دیر تک عشیرہ کے ساتھ رہیں ۔ اس کے بعد شاہ نم کے
قدموں کی آہٹ ابھری اور وہ عشیرہ کے قریب پہنچ گیا۔
اس نے جذبات سے کانپتے ہاتھوں سے عشیرہ کا گھونگھٹ اٹھایا اور پھر ایک حسین لاکٹ عشیرہ کے گلے میں ڈال دیا۔ لیکن عشیرہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہ وہی خوب صورت پتھر تھا جو عشیرہ کو درخت کے جڑ سے ملا تھا۔
عشیرہ نے لاکٹ دیکھا پھر شاہ نم کو دیکھا ۔ شاہ نم بولا۔
یہ پتھر ہی تو ہماری محبت کی کامیابی کا ضامن ہے عشیرہ ....! آؤ یہ ہمارا حجلہ عروسی نہیں ہے... آؤ...! اپنی ساس اور سسر کو سلام کرنے نہیں چلو گی ؟
"کہاں .............؟
" باہر سواری کھڑی ہے۔
شاہ نم نے عشیرہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے کوٹھی کے دوسرے حھے سے باہر لایا۔
باہر ایک انتہائی خوب صورت سفید گھوڑوں والی بگھی کھڑی ہوئی تھی۔ جس میں چاروں طرف زر نگاه پردے پڑے ہوئے تھے۔ شاہ نم نے عشیرہ کو اس میں سوار کر دیا اور بگھی چل پڑی۔
عشیرہ کو یوں لگ رہا تھ جیسی فضاء میں سفر کر رہی ہو۔ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز ہی نہیں سنائی دے رہی تھی۔
پھر بگھی رک گئی اور شاہ نم نے اسے سہارا دے کر اتارا
۔ عشیرہ نے
وحشت زدہ نظروں سے باہر دیکھا تو خود کو ایک ایسی دنیا میں دیکھا جو اس کے ۔ وہم و گمان سے باہرتھی۔
وہ سنگ مرمر کا ایک عالی شان محل تھا۔ چاروں طرف قیمتی زر و جواہر جڑے ہوئے تھے۔ دو طرفہ حسین و جمیل عورتیں پھول نچھاور کرنے کے لئے کھڑی تھیں اور سامنے ایک تخت پر دو معمر افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں ایک
خاتون اور دوسرا مرد تھا۔
میرے ماں باپ۔۔۔
شاہ نم نے سرگوشی کی۔
"خوش آمدید دلہن.....! ہمیشہ خوش رہو .
دونوں نے دعائیں دیں اور زر و جواہر اس پر نثار کئے جانے لگے۔ اسے سر سے پاؤں تک جواہرات میں لاد دیا گیا۔ عشیرہ خواب کی سی کیفیت کا شکار تھی۔ رات کو تین بجے اس محل کے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔
عشیرہ پاگلوں کی طرح اس کمرے کو دیکھ رہی تھی جسے بیروں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔ کمرے کی دیواروں میں بھی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ جن سے قوس و قزح منتشر ہورہی تھی۔ سامنے ہی سونے کا چھپرکھت موجود تھا۔
عشیرہ نے بے قراری سے پوچھا۔
"شاہ نم...! یہ سب کیا ہے؟
تمہارا گھر ہے عشیرہ۔۔۔
یہ سب کچھ تمہارا ہے تو تم وہ معمولی سی نوکری کیوں کر
رہے تھے ..؟
تمہارے لئے عشیره! اس رات میں نے تمہیں شاہ غازی کے
مزار مبارک پر دیکھا تھا۔ بس میں نے خود کو تمہارے لئے وقف کر دیا اور پھر جو کچھ بھی کیا وہ تمہارے علم میں ہے۔ میرے والدین نے مجھے خوشی سے اجازت دے دی کہ اگر تم اعتراض نہ کرو تو ۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔ مگر نہ جانے کیا کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ بہت سی ایسی باتیں جو میری سمجھ میں آج تک نہیں آئیں وہ نہ جانے کون تھا جو میرے سارے کام کر دیتا تھا............؟ عشیره بولی۔
آہستہ آہستہ سب سمجھ میں آجائے گا ملکہ عالیہ
شاہ نم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں