جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط - 6

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط - 6
معظم علی صاحب نے فراخ دلی سے کہا اور اس نے گردن خم کر دی۔
کب سے کام پر آؤ گئے............
جب سے جناب حکم دیں گے....؟
وہ نرم اور شیریں لہجے میں بولا۔
میرے خیال میں پھر آج سے ہی شروع کر دو۔ وہ جو کہتے ہیں نا کل کرے سو آج کر اور آج کرے سواب....؟“
معظم علی صاحب خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
ایک ہے جناب ...........! جو آپ کا علم ..؟
اس نے گردن خم کر کے جواب دیا۔
معظم علی صاحب اس کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس نے ایک باربھی عشیرہ کی طرف نگاہیں اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔
لیکن عشیرہ جیسے پتھرا گئی تھی۔ اس کے دل کی دنیا بری طرح ڈانواں ڈول ہوگئی تھی۔ اس نوجوان کے چہرے میں نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کے دل میں کسک سی پیدا ہوگئی۔
وہ بہت معصوم صفت تھی۔ زندگی کی بہت سی ضروریات سے ناواقف ۔۔ چھوٹی سی دنیا تھی اسکی اور وہ اسی دنیا میں مگن رہی تھی۔ ادھر ادھر کے بارے میں اس نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن اس نوجوان کو دیکھ کر نہ جانے اس کے ہاتھوں میں کیوں اینٹھن سی پیدا ہوئی تھی۔
معظم علی صاحب نے اپنے ملازم کو بلا کر کہا کہ ڈرائیورز والا کوارٹر اس لڑکے کو دے دیا جائے اور اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جائے اور خانساماں کو ہدایت کر دو وقت پر کھانا اور دوسری تمام چیزیں اسے بغیر مانگے دی جائیں ۔ ٹھیک ہے...! شاه نم...! تم جاؤ...........؟
نوجوان نے گردن خم کی اور ایک پروقار انداز میں چلتا ہوا ملازم کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گیا۔ ایک عجیب سا وقار، ایک عجیب سی تمکنت تھی اس کے اندر جو معظم على صاحب محسوس کر رہے تھے۔ وہ خود بھی ذرا مختلف
مزاج کے انسان تھے۔ بہت زیادہ گہرائیوں میں نہیں جاتے تھے۔ ابھی نو جوان باہر گیا ہی تھا کہ طاہرہ بیگم آندھی طوفان کی طرح اندر داخل ہوئیں اور عشیرہ کی طرف رخ کر کے بولیں۔
عشیره ...........! تم جاؤ مجھے بات کرنی ہے۔
عشیرہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔
طاہرہ بیگم کے سامنے معظم علی صاحب کے ساتھ صوفے پر بیٹھنا ہی بڑی بات تھی۔ لیکن خود انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھایا تھا۔ ورنہ وہ یہ جرأت کہاں سے کر سکتی تھی؟
اور وہ جانتی تھی کہ اب معظم علی صاحب کی خود بھی خیر نہیں ہے۔ طاہرہ بیگم اس بات کا بھی ان سے حساب لیں گی۔ اس نے ایک بار پھر معظم علی صاحب کی طرف دیکھا اور ان کے چہرے پرکشمکش کے آثار پا کر وہاں سے اٹھ گئی۔
یوں بھی اس وقت اس کا چلے جانا ہی بہتر تھا۔ نہ جانے طبیعت کیسی ہورہی تھی ۔ نہ جانے بدن کی یہ کیفیت کیوں ہوئی تھی؟ نہ جانے دل اس سے کیا کہہ رہا تھا............؟
ایک عجیب کی کہانی ۔
ایک عجیب سا احساس............
وہ باہر نکلی اور اس نے دور سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔
ایک معمولی سا ڈرائیور ............
معمولی سا ڈرائیور.........
لیکن کیا وہ واقعی کوئی معمولی شخصیت ہے....؟
عشیرہ کا دل تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بہت ہی اچھے گھرانے کا چشم و چراغ ہو۔ نہ جانے کیوں اس کا دل اسے ڈرائیور تسلیم کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ایسی حسین صورت والا ایک عام ڈرائیور نہیں ہوسکتا..........
اونہہ...کیا ہو رہا ہے مجھے کیسے دن گزر رہے ہیں یہ؟ انوکھی باتیں ہورہی ہیں ایسی باتیں جو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچیں عشیرہ نے اپنے بارے میں سوچا اور سیدھی باورچی خانے کی طرف چل پڑی۔ ابھی وہ باورچی خانے میں داخل ہوئی تھی کہ ایک بار پھر حیرت کا
ایک جھڑکا اسے لگا۔ چولہوں پر دیگچیاں چڑھی ہوئی تھیں ۔ کھانا تقریبا تیار تھا۔ ان سے خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔ حالانکہ ابھی صرف پونے گیارہ بچے تھے۔ اس نے
تمام ہانڈیاں کھول کر دیکھیں۔ ایک سے ایک شاندار کھانا جس سے ایسی خوشبو اٹھ رہی تھی کہ آج تک کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی۔ ابھی تک وہ جن حالات سے گزری تھی اس کی وجہ سے ناشتہ کرنا بھی بھول گئی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ اسے بھوک لگ رہی ہے۔ وہ بچے کچے ناشتے کی طرف بڑھ گئی۔ روز کا معمول تھا۔ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان لوگوں کے سامنے سے ناشتہ واپس آتا تو عشیرہ کو کھانے کے لئے ملتا۔ اس سے پہلے اس کی مجال نہیں تھی کہ ناشتہ اپنے لئے نکال لیتی۔
اس نے ڈھکی ہوئی پلیٹیں کھولیں اور ایک بار پھر اس کے حلق سے ایک گہری سانس نکل گئی۔ ناشتہ بالکل تازہ اور گرم تھا۔ جبکہ اب تک اسے خراب ہو جانا چاہئے تھا۔
وہی بات جو آج کل ہو رہی تھی۔ نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا....؟ کبھی کبھی تو اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک بہت ہی طویل خواب دیکھ رہی ہے ورنہ ایسا سب کچھ تو ممکن نہیں ہوتا۔ بہرحال بھوک لگ رہی تھی۔ اس لئے ناشتہ شروع کر دیا اور اب بھی اسے حیران ہونا پڑا کیونکہ اس سے پہلے اتنالذیذ تاشتہ نہیں کیا تھا۔
یا الله...! کس قدر عنایتیں کر رہے ہو تم مجھ پر؟ کیا ہو رہا ہے یہ سب کچھ؟ میں اس قدر عنایتیں کیسے برداشت کر سکوں گی۔؟ جب میری آنکھ اس حسین خواب سے کھلے گی تو میرا کیا حشر ہوگا ؟ یہ خواب ہے بھی یا نہیں....؟ سارے کام تو مجھے اپنے ہاتھوں سے کرنے پڑ رہے ہیں.... سب
کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں... اس کے باوجود میں اسے کیسے خواب سمجھوں ............؟
آہ۔۔۔ ہلیہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے....؟
وہ سوچنے لگی اور ایک بار پھر اس کے ذہن کے چور دروازے سے شاه تم داخل ہوگیا۔
ہائے .......... نام بھی کیا ہے...........! ایسے نام عام طور سے سنے کو کہاں ملتے ہیں ...........؟ اور پھر دوسری بات یہ کہ اس طرح کے جدید اور حسین نام عام لوگ تو نہیں رکھتے۔ اگر یہ نام شاہ نم کے ماں باپ نے بھی رکھا ہے تو اس کا
مطلب ہے، وہ معمولی لوگ نہیں ہیں ۔ اس کا دل چاہا کہ شاہ نم سے معلوم کرے کہ تمہارے بقیہ ساتھی کہاں ہیں ............؟ ماں کہاں ہے؟ باپ کہاں ہے ؟ پھر ایک دم اسے جھر جھری سی آگئی۔
میں پاگل تو نہیں ہوئی کیا؟
اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
بھلا میں کیوں اس کے بارے میں اتنی زیادہ سوچ رہی
ہوں ......؟ اکثر اس خاندان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہاں بھی آتے رہتے تھے اور اس سے پہلے جبکہ امی ابو زندہ تھے تو خاندان کے بہت سے لوگوں سے ملی تھی۔ باہر کے لوگوں سے بھی ملی تھی۔ بڑے بڑے حسین نوجوان اس نے
دیکھے تھے بلکہ ان دنوں جب نثر اور نظم کے رشتے آرہے تھے، بہت سے حسین نوجوان یہاں آئے تھے۔ خاص طور سے وہ لڑکا جس نے یا جس کے اہل خانہ نے عشیرہ کو دیکھ کر نظم اور نثر کا رشتہ مسترد کر دیا تھا، وہ بھی کافی حسین تھا۔ رشتے دکھانے والی اس دوران اور بھی کئی رشتے دکھا چکی تھی۔ لیکن اب صورت حال بالکل مختلف تھی۔ آنے والوں سے عشیرہ کو اتنا دور رکھا جاتا تھا کہ اس کا سایہ بھی ان پر نہ پڑ سکے۔ گھر کے تمام لوگ عشیرہ کے حسن سے خوف زدہ تھے۔ سب جانتے تھے کہ اس کے سامنے نظم یا نثر کی دال گلنا مشکل ہے۔ بہر حال یہ سب کچھ تھا۔ کئی لڑکوں کی وجاہت عشیرہ کو بھی پسند آئی تھی
لیکن اپنے لئے نہیں، نظم یا نثر کے لئے۔ خود اس کے دل میں آج تک اس طرح کی کوئی تحریک نہیں پیدا ہوئی تھی۔
لیکن شاہ نم ..............
اس کی نیلی آنکھیں کتنی پرکشش ہیں۔
نہ جانے بیچاره کن حالات کا شکار ہے؟
اچانک ہی وہ چونک پڑی۔
پتہ نہیں شاہ نم نے ناشتہ کیا بھی ہے یانہیں ؟
اس احمقانہ سوچ پر وہ خود ہی شرما گئی۔
بھلا میرا اس سے کیا رشتہ ہے جو اس کے بارے میں اس
طرح سوچوں؟ گھر کا ڈرائیور ہے۔ گھر میں تو اور بھی بہت سے ملازم ہیں ۔
يا الله........... مجھے سنبھال مجھے کیا ہو رہا ہے؟ اس قسم کی بے وقوفی تو میں نے پہلے کبھی نہیں کی۔ پھر اس نے اپنے ذہن کو دوسری طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور
بمشکل تمام شاہ نم کے خیال کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ گھر کی فضاء خراب تھی ۔ معظم علی صاحب بھی آفس نہیں گئے تھے۔ طاہرہ بیگم سے ان کی کافی کھٹ پٹ ہوئی تھی۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا تھا کہ کھانا سب نے اپنے اپنے کمرے میں کھایا تھا اور پھر دروازے بند کر
کے لیٹ گئے تھے۔ وہ بھی تمام معمولات سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔
دوپہر معمول کے مطابق گرم ہو چکی تھی اور باہر وہی گرمی پڑ رہی تھیی وہ اپنی مسہری پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی اور اس نے ایک دیوار پر نگاہیں جمالیں پھر اچانک ہی اس کی نگاہ وہاں سے ہٹ کر اس جگہ پہنچ گئی جہاں وہ
پتھر رکھا ہوا تھا۔ اس وقت بالکل اتفاقی طور پر اس نے اس پتھر کے بارے میں سوچا تھا۔ حالانکہ یہ سوچنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ گئی اور اس نے بڑی چاہت سے اس پتھر کو اٹھایا اور بغور دیکھنے گی ۔ کیا پیارا پتھر ہے! میں اس کا کیا کروں ؟ اگر میں تایا ابو سے کہوں کہ یہ پتھر مجھے ایک لاکٹ میں لگا کر دے دیں تو کیا وہ حیران نہیں ہوں گے ؟ اور پوچھیں گے نہیں مجھ سے کہ یہ پھر میرے پاس کہاں سے آیا۔۔۔۔؟
اسکا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ یہ پتھر لاکٹ میں جڑوا کر گلے میں ڈال لے اور ہر وقت پہنے رہے ۔ لیکن یہ کسی بھی طور مکن نہیں تھا۔ اگر اسے پہنتی تو گھر والے اس کی بوٹیاں نوچ ڈالتے اور پھر اس سے سوالات بھی کئے جاتے
کہ آخر یہ پتھر یا لاکٹ کہاں سے آیا؟ کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جو اس پتھر کو لاکٹ میں جڑوا کر اپنے گلے میں پہن لے۔ پھر وہ ایک دم اپنی بے وقوفی کی سوچ پر خود مسکرا دی اور واپس پلٹ کر مسہری پر دراز ہوگئی۔ اس وقت بڑی بحرانی کیفیت طاری تھی۔ اپنے آپ کو ہر طریقے سے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے سکون کا اب ان کی زندگی میں نہ رہا ہو۔
ایک عجیب سی تنہائی کا احساس ہو رہا تھا۔ بے اختیار دل چاہا کہ املی کے درخت کے نیچے جا کر بیٹھ جائے۔
وی ٹھنڈی چھاؤں وہی خوب صورت فضاء لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ہلکا سا خوف بھی اس کے ذہن میں ابھر آیا
پتہ نہیں وہاں کیا ہو۔۔۔۔۔۔ ؟
اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ تو بڑا ہی عجیب تھا۔ اگر کسی کو یہ کہانی سنائے گی تو اس کے سر پر جوتے لگائے جائیں گے کہ دماغ میں خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن سچائیاں تو سچائیاں ہوتی ہیں۔
نہ جانے وہ سب کچھ کیا تھا ؟ وہ پرندے جو انسانی شکل رکھتے تھے اور اس کے بعد وہ ساری باتیں جوانہونی طور پر ہورہی تھیں ۔ حالانکہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ وہ پراسرار پرندے جو انسانی شکلوں میں تھے اور بات
چیت بھی کرتے تھے، اس کے بہت ہی ہمدرد بنے ہوئے تھے اور ہر نازک لمحے میں نہ صرف اس کی مدد کر رہے تھے بلکہ اسے برا کہنے والوں کا دماغ بھی درست کر رہے تھے۔
مشیرہ بیگم کے سر پر گرنے والا گلدان بلاوجہ ہی نہیں گرا تھا۔ ایک چڑیا روشن دان سے آئی تھی اور گلدان پھینک کر چلی گئی تھی اور پھر طاہرہ بیگم جو اسے مارنے کے لئے دوڑی تھیں، ان کے پاؤں الجھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی لیکن وہ جس قوت سے گری تھیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ کسی نے ان کے پاؤں پکڑ کر انہیں کھینچ لیا تھا۔
بظاہر تو سب کچھ اس کے حق میں ہی ہو رہا تھا۔ نہ جانے یہ پراسرار ہمدرد اسے کہاں سے مل گئے تھے ... لیکن تھے وہ ہمدرد........... اس میں کوئی شک نہیں تھا۔ اس بے خیالی کے عالم میں اسے احساس بھی نہ ہوا کہ وہ کب اپنی جگہ
سے اٹھی اور کب دروازہ کھول کر اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔ حسب معمول باہر چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ اتنی تیز ، اتنی شدید که ہر چیز جھلس جائے ۔ ابھی وہ دو قدم می آگے بڑھی تھی کہ اچانک ہی اس نے اپنے اوپر ایک سایہ سا دیکھا اور اس کی نگاہیں اوپر کی طرف اٹھ گئیں۔
سائے کا اسے بس ایک احساس سا ہوا تھا۔ کوئی ایسی چیز اوپرنہیں تھی جسے سایہ دار چیز کہا جا سکے۔ مگر ایک لمحے کے اندر اندر اس کے چہرے پر پڑنے والی دھوپ کی تپش ختم ہوگئی تھی اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہوا ہے...؟ اب تو ہر ایسی انوکھی بات جو اس کے علم میں آتی، اسے دو ان پراسرار ہمدردوں سے منسوب کر دیتی۔ وہ اس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اس پر دھوپ تک نہ پڑنے دیتے تھے۔ دل ہی دل میں وہ ان خیالی ہمدردوں کی ممنون ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور اس وقت وہ اس سائے سے بھی خوفزدہ نہ ہوئی جو اس کے ساتھ ساتھ چل رہا
تھا۔ جبکہ اوپر کوئی چیز نہیں تھی۔ یہاں تک کہ وہ املی کے درخت کے پاس پہنچ گئی۔ مالی کی چار پائی اسی طرح بچھی ہوئی تھی اور مالی اپنے کوارٹر میں گھسا ہوا تھا
اس وقت لو کے تھپیڑے کسی سے بھی برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کی نظر درخت کے دوسری طرف پڑی۔ کسی کے بازو نظر آ رہے تھے۔ کوئی درخت سے پشت
لگائے ، منہ دوسری طرف کئے بیٹھا ہوا تھا۔
شاید مالی ہے ..؟
اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
پتہ نہیں مالی بابا آج کیسے درخت کے نیچے بیٹھا ہے؟ ورنہ اس چلچلاتی دھوپ میں تو گھر کے سارے ہی ملازم اپنے اپنے کوارٹر میں ہوا کرتے تھے۔ بے شک درخت کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں ہے اور بہت خوش گوار لگ رہی ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی میری طرح تو نہیں ہوسکتا جس کے ساتھ بات چیت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوچا کہ تھوڑی سی مالی باباسےباتیں کی جائیں۔ چنانچہ اس نے بڑے نرم لہجے میں پکارا۔
مالی بابا.................
دوسری طرف بیٹھا ہوا آدی جلدی سے اٹھ کر اس کے سامنے آ گیا اور عشیرہ کا دل زور سے دھڑک اٹھا۔
یہ مالی بابا نہیں بلکہ شاہ نم تھا۔
’’آپ..............؟
اس کے منہ سے سرسراتی ہوئی آواز نکلی۔
"جی بالکل! معافی چاہتا ہوں.... م.میں یہاں چھاؤں میں۔۔۔
اس نے معذرت آمیز لہجے میں کہا۔ اس کی آنکھیں عشیرہ پر جمی ہوئی تھیں اور ان نیلی آنکھوں سے محبت کے سوتے چھوٹ رہے تھے۔ اجنبی مردوں سے ہم کلام ہونے کا عشیرہ کو شاز و نادر ہی اتفاق ہوا تھا۔ اس لئے اس کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔۔۔
(جاری ہے)۔۔

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 7 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں