جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط - 5

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط - 5
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ نظم اور نثر کمرے میں آگئیں۔ عشیرہ نے ایک لمحے کے اندر اندر ان کے اندر بھی ہلکی سی تبدیلی محسوں کی تھی۔ انہوں نے کرسیاں گھسیٹیں اور ان پربیٹھتی ہوئی بولی۔ تمہیں تو پتہ ہے عشیره که خاله مشیرہ سنکی ہیں۔ چائے میں ذرا سا نمک ڈال دیتیں تو سب پر یہ مصیبت نہ آتی۔ ہمارا ناشتہ بھی خراب کر دیا۔ پڑی ہائے ہائے کر کے بور کر رہی ہیں۔
بس غلطی ہوگئی لیکن زیادہ وقت بھی تو نہیں گزرا تھا۔ ایک سیکنڈ میں نمک ڈالا جاسکتا تھا۔“ . عشیرہ نے شرمندگی سے کہا۔ تم نے ناشتہ کر لیا‘‘ نظم نے پوچھا۔
یہ سوال بھی پہلی بار ہی کیا گیا تھا۔ ابھی نہیں کر لوں گی“۔۔
وہ اہستہ سے بولی۔ کیونکہ وہ ناشتہ باورچی خانے میں کیا کرتی تھی۔ آج تک کسی نے اسے قابل نہیں سمجھا تھا کہ اسے اپنے ساتھ ہی ناشتہ کرالے۔
”آجاؤ ......... بیٹھ جاؤ تم بھی .............
نظم نے کہا اور وہ حیرت سے نظم کو دیکھنے لگی۔
پتہ نہیں اسے کرسی پر بیٹھا کر نظم کیا کرنا چاہتی تھی؟ وہ ہمت نہ کرسکی نظم اور نثر ناشتے میں مصروف ہوگئی تھیں۔ انہوں نے دوبارہ اس سے بیٹھنے کے لئے نہ کہا لیکن وہ بہت دیر تک ان تصورات میں گم رہی۔ جب ان دونوں نے ناشتہ کر لیا تو وہ برتن سمیٹ کر ٹرالی پر رکھنے لگی اور پھر باورچی خانے کی طرف چل پڑی۔
یہاں پہنچ کر کچھ اور حیرتیں اس کی منتظر تھیں۔ رات کے جھوٹے برتن جو اسے صاف کرنے ہوتے تھے، دھلے دھلائے الماری میں سجے ہوئے تھے۔ باورچی خانے کے باقی کام بھی مکمل ہو چکے تھے۔ وہ حیرت سے منہ پھاڑے کھڑی یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔
آه...! میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آ رہا کون ہو تم ؟ کیا ہو تم مجھے بتا تو دو.... میرے نادیدہ ہمدردو...! آخر تم ہو کون...؟ اور پھر تم چھپ کیوں جاتے ہو؟ میری تو بڑی مدد کر ڈالی ہے تم نے نہ جانے یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟“ گھر کا ملازم ابھی کھانا پکانے کی چیزیں نہیں لایا تھا۔ اسے اور کوئی کام بھی نہیں تھا۔ اس لئے وہ ناشتے کے برتن صاف کرنے لگی۔ لیکن اچانک ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی غیر مرئی قوت نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مدہم کی منمناہٹ گونجی۔ یہ سب کام اب آپ کے کرنے کے نہیں ہیں۔ آپ براہ کرم یہ سب کچھ کر کے ہمیں شرمندہ نہ کیا کریں۔ وہ پھر خوفزدہ ہوگئی ۔ اس کے ہاتھوں سے وہ لمس ہٹ گیا تھا۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے برتنوں کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھیں حیرت سے ایل
پڑھیں۔ تمام برتن پلک جھپکتے میں صاف ہو گئے تھے۔
میرے خدا...! یہ کیا اسرار ہے....؟
اس کے منہ سے بڑ بڑانے کے سے انداز میں نکلا۔
کئی منٹ تک وہ سوچ میں ڈوبی رہی اور پھر ایک گہری سانس لے کر باہر نکل آئی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے؟ کہاں ۔ جائے ...؟ برتن وغیرہ دھونے کا کام تو ساڑھے نو بجے تک ہوتا تھا۔ اس کے
بعد ملازم کھانا پکانے کا سامان لے کر آجاتا تھا اور وہ اس میں مصروف رہ جاتی۔ لیکن برتن دھل چکے تھے اور کھانے کا وقت ابھی نہیں ہوا تھا۔ بہت دیر تک وہ واپس آ کر اپنے کمرے میں بیٹھی رہی۔ پھر ایک دم سے اچھل پڑی۔ اگر کسی نے اسے اس طرح اس کے کمرے میں بیٹھے دیکھ لیا تو سوچے سمجھے بغیر اسے برا بھلا کہنا شروع کر دے گا اور اس کے علاوہ اس نے مشیره خالہ کو بھی نہیں دیکھا تھا۔
مشیرہ بیگم کی نہ جانے کیا کیفیت تھی.....؟ کوئی بات پتہ نہیں چل سکی تھی۔ اسے طاہرہ بیگم کے الفاظ بھی آباد تھے کہ اگر یہ بچی نہ ہوتی تو چھپکلی پتہ نہیں میرا کیا حال کرتی ؟ بہرحال وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور مشیر ہ خالہ کی طرف چل پڑی۔ گھر کے دوسرے لوگ اب بھی اسی کمرے میں تھے۔ یہاں تک کے معظم علی صاحب بھی گھر سے باہر نہیں گئے تھے۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔
ڈاکٹر نے مشیره خالہ کے چہرے پر کوئی مرہم لگایا تھا جس سے ان کا پورا چہرہ چکنا ہو رہا تھا۔ البتہ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ انہوں نے نفرت بھر نظروں سے اسے دیکھا اور کراہتے ہوئے بولیں۔ اب جلے پر نمک چھڑکنے آئی ہے ؟ کیوں اپنی منحوس شکل دکھا رہی ہے مجھے...؟ سب کچھ تیری وجہ سے ہوا ہے ناشگنی‘‘
"خاله...! مجھے افسوس ہے............؟
اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"آپ خود ہی کچھ زیادہ غصے میں آگئی تھیں مشیره باجی...! نمک بعد میں ڈالا جا سکتا تھا اور پھر میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ چائے میں نمک نہ پیا کریں۔ سخت مضر ہوتا ہے۔معظم علی صاحب نے کہا۔
ٹھیک ہے...........! ٹھیک ہے....! جو کچھ بھی ہوا میرے ہی سر ڈال دو...! ساری غلطی مجھ پر ٹھوک دو ٹھیک کہتی
ہے دنیا گوشت سے ناخن جدا نہیں ہوتے .... وہ تمہاری بھتیجی ہے۔ میرا تم سے کون سا خون کا رشتہ ہے............؟ ارے! میں کون ہوں ............؟ تمہاری بیوی کی بہن ....!تمہارےٹکڑوں پر پلنے والی مگر کیا کروں؟ اللہ نے وقت ہی
بگاڑ دیا۔ ہائے ایک وہ دور تھا کہ میرے آگے پیچھے بھی نوکر بھاگتے تھے اور اتنے نخرے اٹھائے جاتے تھے میرے............ الله.............! مرحوم کو کروٹ کروٹ . جنت نصیب کرے.... میری شکل دیکھ کر جیتے تھے کہتے تھے مشیرہ ....! اگر
میں نہ رہا تو تمہیں پتہ چلے گا...........
ہائے! پتہ چل رہا ہے مجھے چل رہا ہے مجھے پتہ
ارے...! د یکھلو دنیا کیا کہہ دیتی ہے منہ کھول کر
آپ تو بلا وجہ بات کا بتنگڑ بنا دیتی ہیں مشيره باجی....؟
معظم علی گھبرا کر بولے۔
"ایسی ہی ناگوار گزر رہی ہیں تو ہاتھ پکڑ کر نکال دیجئے گھر سے ان لا ڈلی سے کچھ نہیں کہا جاتا۔۔۔۔۔ جب وہ چاۓ میں نمک پتی ہیں تو آخر کیوں نہیں یادرکھاجاتا ............؟‘‘
طاہرہ بیگم پر پٹ پڑیں۔چھیکلی وائے واقعے سے دل میں ذرا سی نرمی پیدا ہوئی تھی ۔ وہ مشیره بیگم کے آنسوؤں میں بہہ گئی تھی اور وہ ان کی حمایت میں بولے بغیر نہیں رہ سکیں۔
خدا سے ڈر یں بیگم! میں نے بھلا کیا کہا ہے؟
معظم علی صاحب نے کہا۔
کلیجہ نوچ لیتے ہو اور کہتے ہو کچھ نہیں کہا " ارے میں
اس کم بخت کی وجہ سے نہیں جلی تو اور۔۔۔۔۔۔
ابھی مشیرہ بیگم نے جملہ پورا بھی نہیں کیا تھا کہ روشن دان سے ایک چڑیا اڑتی ہوئی اندر آئی اور پیتل کے اس گلدان کے اوپر بیٹھ گئی جو مشیرہ بیگم کے سر کے عین اوپر رکھا تھا۔ چڑیا بیٹھتے ہی پھر اڑی اور گلدان مشیرہ بیگم کے سر پر آپڑا۔
”ارے...! مرگئی.....! ارے...! مرگئی رے...! مرگئی .......؟
مشیرہ بیگم دھاڑیں مارنے لگیں اور سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہو گئے ۔ ،گلدان خاصا وزنی تھا۔ مشیرہ بیگم کے سر سے خون بہہ نکلا اور ایک بار پھر لے دے مچ گئی۔
نکل جا مردود ...! یہاں سے کیا میری بہن کی جان لے کر دم
لے گی ............؟ طاہرہ بیگم غصے میں آپے سے باہر ہوگئیں اور جوش غضب سے اس کی طرف بڑھیں۔
وہ شاید اسے دھکے دے کر نکالنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن دو ہی قدم ،آگے بڑھائے تھے کہ ان کے اوندھے منہ گرنے کا دھماکہ بہت زور سے سنائی دیا۔ نہ جانے ان کے پاؤں کہاں پھنس گئے ؟ ان کی دونوں کلائیوں کی چوڑیاں ٹوٹ گئیں اور کڑے ان کی کلائیوں میں گھس گئے۔
”ہائے امی ..............!‘‘
نظم اور نثر مشیرہ بیگم کو چھوڑ کر طاہرہ بیگم کی جانب لپکیں۔ معظم على البته سیدھے کھڑے تھے اور آج ان کے چہرے کے تاثرات عام دنوں سے مختلف تھے۔ وہ سرد لہجے میں بولے۔ اب بھی عبرت حاصل کرو طاہرہ بیگم............! بے زبان کا نگہبان خدا ہوتا ہے۔ مشیرہ بیگم نے دو مرتبہ اس پر الزام تراشے۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں دونوں بارسزا ملی ۔ اگر اب بھی آپ نہ سنبھلی تو انجام جو ہوگا ، اس کی ذمے داری صرف آپ پر ہوگی » معظم علی کا لہجہ انتہائی سخت تھا۔ اس وقت ایک ملازم اندر آ گیا۔ صاحب ایک شخص آیا ہے، کہہ رہا ہے کہ ڈرائیور کے بارے میں جو اشتہار چھپا ہے وہ پڑھ کر آیا ہے۔ ملازمت کا خواہش مند ہے۔
ہوں۔۔۔۔۔ آجاؤعشیرہ... تم آجاؤ ...
معظم علی نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھے۔ اسی وقت طاہرہ بیگم چیخیں۔
"ارے خدا تمہیں سمجھے ۔۔۔کیسے بے حس ہوگئے ہو تم ؟
ارے ! میری بہن بے ہوش ہوگئی ہے۔ ڈاکڑ کو تو بلاؤ ....! مین
بہت محبت آرہی ہے بھتیجی پے ۔"
طاہرہ بیگم بری طرح چیخ پکار کر رہی تھیں ۔ انہوں نے بڑے کرب سے مشیرہ کو دیکھا جن کے سر سے خون بہ کر پیشانی اور گالوں تک لڑھک آیا تھا۔ ڈاکٹر ہمارا ملازم نہیں ہے جو بار بار دوڑا آئے گا۔ کسی ملازم کو بھیج کر دوسرے ڈاکٹر کو بلوا لیں۔ معظم علی نے بے زخی سے کہا اور دروازے سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے بدستور عشیرہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ یہ سب انوکھے واقعات ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے معظم علی کی بھی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ طاہرہ بیگم کے سامنے عشیرہ سے محبت کا اظہار کر سکیں۔
لیکن آج تو دنیا ہی بدل گئی تھی۔ طاہرہ بیگم کو ان کی اس جرأت پر سخت حیرت ہورہی تھی۔ وہ تو ہمیشہ ہی بھیگی بلی بنے رہنے کے عادی تھے۔ اس وقت وہ شیر کیسے بن گئے ؟“
بہرحال وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم میں پہنچے اور پھر برائی ہوئی . آواز میں بولے۔
عشیره می... میری آنکھیں بند نہیں ہیں۔ میں تمہارے ساتھ ان لوگوں کا رویہ دیکھتا ہوں ۔ لیکن بعض حالات کچھ ایسے ہیں کہ مجھے خاموش ہونا پڑتا ہے۔ بہرحال میں تم سے بہت سی باتیں کروں گا۔ ذرا اس شخص کو نمٹا دوں جو ڈرائیوری کے لئے آیا ہے۔ پھر انہوں نے ملازم کو آواز دی اور جب ملازم آیا تو انہوں نے کہا۔ جاؤ ! جو کوئی آیا ہے اسے بلا کر لے آؤ ملازم یہ سن کر باہر نکل گیا تھا۔
معظم علی صاحب نے اسے اپنے برابر صوفے پر بٹھا لیا۔
آج ان کی محبت امڑی تھی تو اس طرح کہ خود عشیرہ دنگ رہ گئی تھی۔ اس کا دل بھر آیا تھا۔ بہت عرصہ گزر گیا تھا کسی نے اس سے اس محبت بھرے لہجے میں بات نہیں کی تھی اور پھر خاص طور سے معظم علی جو اس کوٹھی میں اس کا واحد خون تھے، اس کے تایا ابو جو اس کے باپ کی زندگی میں اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے تھے۔ بہت کم ایسی باتیں تھیں جو عشیرہ کے لئے پادگار حیثیت رکھتی تھیں معظم علی صاحب کا رویہ اپنی بھاوج یعنی عشیرہ کی امی کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا۔ اکثر وہ ان کے پاس جاتے اور بڑے پیار سے کہتے۔ بھئی چھوٹی ۔۔۔! چائے پلاؤ ! تمہارے ہاتھ کی چائے پی کر تو یوں لگتا ہے جیسے"
عام طور سے معظم علی صاحب کو کوئی جملہ نہیں ملتا تھا اور پھر جب ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور دادی اماں بھی دنیا میں نہ رہیں تو معظم صاحب اس طرح روڑ ہو گئے جیسے انکا کبھی تعلق ہی عشیزہ سے نہ رہائی ہو۔لیکن یہ بات عشیره جانتی تھی کہ معظم علی صاحب دل کے اتنے برے نہیں ہیں۔ البتہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی بیگمات سے بہت ڈرتے ہیں۔ معظم علی صاحب کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ طاہرہ بیگم کے سامنے کچھ
بول سکیں۔ آج تو کمال ہی ہوگیا تھا۔
عشیره انہی سوچوں میں گم تھی کہ ایک شخص ملازم کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ عشیرہ کی نگاہیں بے اختیار اس کی جانب اٹھ گئی تھیں۔دودھ جیسا رنگ، سنہرے بال، گہری نیلی آنکھیں، دبلا پتلا جسم، معمولی قسم کی پتلون اور قمیض پہنے ہوئے تھا۔ چہرے سے شرافت اور وقار ٹپکتا تھا۔
آنے والے نے ادب سے سلام کیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔
معظم علی صاحب نے سر سے پاؤں تک اسے گھورا اور پھر گردن ہلا کر بولے۔
بیٹھو .........!“
”وہ جناب ! میرا نام شاہ نم ہے............
ٹھیک ہے........... بیٹھو............‘‘
معافی چاہتا ہوں۔ یہ گستاخی ہوگی ۔ آپ مجھے ملازمت دیں یا نه دیں۔ وہ الگ بات ہے۔ لیکن میں آپ کے سامنے بیٹے نہیں سکتا۔
”اوہو بھئی.....! اچھا چلو ٹھیک ہے؟ کیا نام بتایا تم نے؟“
"شاه نم.............
پڑھے لکھے ہو کچھ
جی تھوڑا سا لکھ پڑھ لیتا ہوں ۔۔۔۔
ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے ؟“
جی ہاں...؟
اس نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر سامنے رکھ دیا اور معظم علی کاغذ دیکھنے لگے۔
ٹھیک ہے۔۔۔ کتنی تنخواہ لو گے شاه نم...........؟ اس کے علاوہ دو تین باتیں میں تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ تمہیں یہیں کوٹھی میں رہنا ہوگا۔ ایمانداری سے اپنا کام کرو گے اور کسی بھی ذاتی مسلئے میں بھی مداخلت نہیں کرو گے۔ جو کچھ تم سے
کہا جائے گا تم پر فرض ہے کہ وہی سب کچھ کرو گے۔“
جی جناب مجھے منظور ہے۔ میں بھی سر چھپانے کی جگہ چاہتا ہوں تنخواہ جو بھی مل جائے۔ میرے اخراجات زیادہ نہیں ہیں۔
ٹھیک ہے اور یہاں تمہیں بلازموں کے کوارٹر میں رہنے کی جگہ مل جائے گی۔ ہم پانچ ہزار روپے ماہوار دیں گے تمہیں۔ اس کے علاوہ کھانا پینا جس کا ذکر ہی غیر مناسب ہے، ظاہر ہے ہمارے ساتھ رہو گے تو کہیں اور سے
تو نہیں کھاؤ گے۔ لباسن وغیرہ یعنی وردی ہماری ذمے داری ہوگی۔ باقی اپنے اہل خانہ کے لئے جو کپڑے وغیرہ بناؤ گے، وہ تمہاری اپنی جیب سے ہونگے ۔ کون کون ہے تمہارے ساتھ.........؟
کوئی نہیں جناب! تنہا ہوں ۔
"اچھا اچھا . ! ٹھیک ہے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا ۔ ورنہ تم سے شناختی کارڈ وغیرہ طلب کرتا۔ لیکن کوئی بات نہیں ہے۔ نہ تمہیں میری ذات سے کبھی کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ میں جانتا ہوں کہ تم مجھے نقصان پہنچانے کی
کوشش کرو گے . . . . . . .
" جی جناب ! بہت بہتر »
اور کوئی ایسی بات جوتم کہنا چاہو...؟
نہیں جناب ! آپ میری ٹرائی لے لیجیئے
تمہارا ڈرائیونگ لائسنس ہے شک بہت پرانا نہیں ہے۔ لیکن تم مجھے کافی ایکٹو معلوم ہوتے ہو۔ اس لئے میں ٹرائی وغیرہ نہیں لے رہا۔ بس خود ہی احتیاط رکھنا۔ ظاہر ہے گورنمنٹ نے تمہیں لائسنس دیا ہے تو گاڑی چلانا جانتے ہی ہو گے۔۔
(جاری ہے)

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 6 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں