جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط - 4

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط - 4
نہ جانے وہ کیا تھا....؟ اس نے ان تینوں کو دیکھا اور گلاس ان کے ہاتھ سے لے کر منہ سے لگا لیا۔ پھر گلاس اسی وقت ہٹا جب شربت ختم ہوگیا۔ اتنا خوش ذائقہ شربت اس سے قبل اس نے بھی نہیں پیا تھا۔ ایک لمحے میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا جسم پھول کی طرح ہلکا ہو گیا ہو۔ پورے بدن میں ایک خوش گواری کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اور پھر اچانک اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ وہ آنکھوں کو کھینچ کر سر جھٹکنے لگی لیکن نیند اس طرح ٹوٹی کہ فوراؑ ہی تکیے پر سر رکھ کر گہری نیند سو گئی۔
اور پھرصبح کو جب اس کی آنکھ کھلی تو دھوپ کا ایک دھبہ اس کی مسہری کے سامنے دیوار پر موجود تھا۔ یہ دھبہ ٹھیک پونے آٹھ بجے یہاں تک پہنچا تھا۔ اچانک ہی اس کے ذہن پر ایک ضرب سی لگئی۔ پونے آٹھ بج گئے؟ آگئی موت »
اس نے بدحواسی سے سوچا۔ ٹھیک آٹھ بجے گھر کے تمام افراد ناشتے کی میز پر ہوتے تھے اور انہیں ناشتہ دے دینا اس کی ذمے داری ہوتی تھی۔ گویا صرف پندرہ منٹ باقی ہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
"آج ضرور موت آجائے گی۔ انہیں ناشتہ نہیں ملا تو وہ سب کے سب اسے کھا جائیں گے۔ صرف ایک لمحہ یہ سوچ اسکے ذہن پر رہی اور اس کے بعد وہ بجلی کی طرح مسہری سے اٹھ گئی ۔ اس کے جسم پر وہی کپڑے تھے جو اس نے رات کو تبدیل کئے تھے۔ اس وقت یہ کپڑے بھی اس کے لئے وبال جان بن گئے۔ انہیں اتارنے میں بھی دو تین منٹ خرچ ہو جائیں گے ۔ اور اگر انہوں نے اسے ان کپڑوں میں دیکھ لیا تو مزید مصیبت ۔۔۔۔
میرے الله...........! مشکل آسان کر.............
اس کے حلق سے رندھی ہوئی آواز نکلی ۔ کپڑے بدلنا ضروری تھا ورنہ ہزاروں سوال کئے جاتے۔ پوچھا جاتا کہ بی بی رات کو تیار ہو کر کہاں گئی تھیں؟ خاص طور سے مشیرہ بیگم جو اس کے لئے بہت بڑا عذاب تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے ان کی ڈیوٹی صرف اسی پر لگی ہو۔ ایک ایک بات پر نکتہ چینی، کپڑے بدلنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
اس نے بڑی پھرتی سے کپڑے بدلے، منہ پر الٹے سیدھے چھینٹے مارے، بالوں کو بھی نہیں سنوارا اور باورچی خانے کی طرف چوروں کی طرح دوڑی کہ کوئی اسے راستے میں دیکھ نہ لے۔
مشيرة خالہ کی لعن طعن اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ گھوڑی ہو رہی ہے، دیوانی ہوگئی ہے۔ کیسی مست نیند سوتی ہے، کم بخت سوئی ہوگی ۔ ذرا دیکھو طابره...! اس کا کوئی حل نکالو یہ ہاتھوں سے
نکلی جاتی ہے۔ اسی طرح کی بے شمار باتیں، ہانپتے کانپتے دل سے وہ باورچی خانے میں داخل ہوگئی۔ اسے تو کوئی بہانہ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کیونکہ جھوٹ بولنے کی
عادت نہیں تھی۔
دروازے سے اندر قدم رکھا تو اچانک ہی دل پر ایک گھونسہ سا پڑا۔ پاؤں اپنی جگہ جم کر رہ گئے۔ ہاتھ پاؤں کچھ اور پھول گئے ۔ نہ جانے ناشتہ کس نے تیار کیا تھا۔ تمام ناشتہ تیار تھا۔ چائے کا پانی کیتلی میں کھول رہا تھا۔ ہر چیز
قرینے سے گئی تھی۔
یا خدا! کیا گھر والوں نے اسے سوتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔؟
کسی اور نے ناشتہ تیار کیا ہے؟ اگر یہ بات ہے تو پھر تو آج سارے بال نوچ لئے جائیں گے۔
آه...! سب کچھ کس نے کر ڈالا...؟ ویسے گھر میں نظم اور نثر کو تو سلیقہ نہیں تھا کہ اتنی نفاست سے پورا باورچی خانہ سنبھال دیں۔ انہیں تو اگر یہ کام سونپا جاتا تو پورا دن لگا کر بھی وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔
کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ کس نے کیا؟
اب پیچھے سے کوئی آئے گا۔ اس کی چوٹی پڑی جائے گی اور اسے لات مار کر باورچی خانے سے نکال دیا جائے گا۔
"جب نیند ہی تجھ پر ٹوٹ پڑی ہے تو پھر یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بھول جا اس بات کو کہ تو ہی ہمیں کھانے پینے کو دے گی.....اس سے پہلے بھی اور کچھ کیا جا سکتا ہے ؟
پھر وہ نوکروں کے بارے میں سوچنے لگی ۔ کوئی نوکرانی اتنی باسلیقی نہیں تھی کہ یہ سارے کام کر ڈالتی۔
”آہ۔۔آ پھر کسی نے یہ سب کچھ کیا ہے؟ بہرحال اب جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا۔
اس نے بھاری بھاری قدم أٹھائے اور چائے کا پانی اتار لیا۔ اب
دوسری کیتلی میں ڈال کر پتی ڈالی اور سر پوش ڈھک دیا۔ پھر تمام چزیں اس نے ٹرالی پر سجائیں۔ دل میں ہول اٹھ رہا تھا کہ اب اس کی طرف کوئی آیا اور اس پر ہم
پڑا۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ وہ دبے سہے قدموں سے ٹرالی دھکیلتی ہوئی باورچی خانے سے نکل آئی اور ناشتے کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ اس کا انداز ایسا ہی تھا جیسے مجرم پھانسی کے تختے کی جانب لے جایا جاتا ہے۔ ناشتے کے کمرے میں حسب معمول سب موجود تھے۔ وہ نظریں
أٹھائے کانپتے ہوئے دل کے ساتھ میز کے قریب پہنچی۔ سب خاموش تھے جیسے کوئی بہت ہی اہم بات ہوگئی ہو۔
اس نے ناشتہ میز پر لگایا۔ بدن تھا کہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو رہا تھا۔ آخر کار اپنے ہاتھوں سے اس نے ناشتہ سرو کر دیا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا اور ناشتے میں مصروف ہو گئے ۔ اب اس کے اندر حیرت جاگ رہی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر ان سب کے چہروں کو دیکھا۔
: کیا وہ سب پاگل ہو گئے ہیں؟ اگر نہیں تو انہوں نے اس ناشتے کے بارے میں اس سے کچھ پوچھا کیوں نہیں .......؟ اسے برا بھلا کیوں نہیںکہا............؟
لیکن ان میں سے کسی کے چہرے پر ایسے آثار نہیں تھے۔
ياخدا...! یا خدا............! یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا ان لوگوں میں سے کسی نے ناشتہ تیار نہیں کیا....؟
اچانک ہی مشیره خالہ نے پیالی آگے بڑھائی۔
میرے لئے چائے ڈال دے...........‘
وہ کسی مستعد بیرے کی طرح آگے بڑھی۔ اس نے مشیره خالہ کی پیالی میں چائے بنائی اور پیچھے ہٹ گیا۔
پھر بھول گئی ............ اللہ تو به .............! اری دیده چال.
اچھال... روزانہ کہتی ہوں میری چائے میں نمک ڈال دیا کر. مگر شہزادیوں
کو بھلا غلاموں کی باتیں کہاں یاد رہ سکتی ہیں؟
عشیره خالہ کو آخر کار موقع مل ہی گیا۔
اس نے جلدی سے اپنی غلطی محسوس کر لی اور نمک دان سے تھوڑا سا
نمک نکال لیا۔ لیکن مشیری خالہ کو جلن نکالنے کا بہترین موقع ملا تھا۔ وہ اس موقع
کو ہاتھ سے کیسے جانے دیتیں؟ انہوں نے لپک کر اس کے ہاتھ سے نمک
دانی چھین لی۔
بس بس ..! احسان مت کر میرے اوپر ... اب تو میں بھی ڈال
سکتی ہوں۔ تیرے زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
وہ نمک دانی لے کر کری پر بمینیں ۔ لیکن نہ جانے کری کیسے پیچھے
کھسک گئی.....؟ مشیره خاله بری طرح نہ گریں۔ گرتے گرتے انہوں نے میز
کی ٹاپ پکڑنے کی کوشش کی لیکن چائے کی پیالی ہاتھ میں آگئی۔ نتیجے میں وہ
نگر میں اور چائے ان کے اوپر۔
شیره خالہ کی چیزوں نے زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔ چائے کھولتی
ہوئی تھی اور ان کے چہرے اور سینے پر پڑی تھی۔ وہ زنا کئے ہوئے بکرے کی
طرح ڈکارتے اور کبوتر کی طرح پھڑ پھڑاتی ہوئی لوٹیں لگانے لگیں اور سب لوگ
اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر ان پر دوڑ پڑے۔
طاہرہ بیگم ہانپتی ہوئی بولیں۔43
ارے! یہ ناشنی جو کچھ نہ کرا دے کم ہے۔ ارے! خدا
کے لئے میری بہن کو بچاؤ ............ ارے خدا کے لئے ...........؟
ہمشیرہ بیگم پر جھک گئیں ۔ مشیرہ بیگم کے حلق سے صرف ایک ہی
آواز نکل رہی تھی۔
ہائے ....! میں مرگئی ....! ہائے مار ڈالا... ہائے ...! میں
مرگئی....
.............! ہائے ..............! مار ڈالا .................!‘‘
بہرحال دوسرے لوگ بھی مشیرہ بیگم کی جانب متوجہ تھے۔ اس لئے عشیرہ کو ڈانٹے ڈ پٹنے کا موقع نہیں ملا تھا انہیں۔ سب سے پہلے مشیرہ بیگم کے لئے کچھ کرنا تھا۔ تمام گھر والے ناشتہ وغیرہ تو بھول گئے ۔ مشیرہ بیگم کی دیکھ
بھال ہونے لگی ۔ تایا ابو ڈاکٹر کو فون کرنے کے لئے دوڑ گئے ۔ دوسرے لوگ مشیره خالہ کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے جانے لگے۔ ایک عجیب ہنگامہ برپا ہوگیا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اب ان تمام باتوں میں اس کا کیا قصور ہے............؟
مشیره خالہ کو تو ایسے موقعوں کی تلاش ہی رہا کرتی تھی۔ انہوں نے نمک ہی کو بہانہ بنا لیا۔ اول تو جہالت کی بات نہ تھی کہ چائے میں چینی کے ساتھ نمک بھی ڈالا جائے، لیکن بہرحال وہ جو کچھ نہ کرتیں کم تھا، ان کی حرکتیں اسی طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ مگر اس وقت انہیں واقعی زبردست سزا ملی تھی۔ انہوں نے خود ہی اٹھ کر نمک دانی چھیننے کی کوشش کی تھی ۔ کرسی یقیناؑ ان کے پاؤں سے پیچھے کھسک گئی ہوگی اور وہ اسے دوبارہ برابر کرنا بھول گئی تھیں ۔ حالانکہ سے مشیرہ
خالہ کے اوپر گرنے والی چائے سے پیدا ہونے والے اثرات کا بخوبی اندازہ تھا ایک دو بار چائے سے اسکا ہاتھ بھی جلا تھا اور وہ جانتی تھی کہ جلن کیا ہوتی ہے۔ چنانچہ اسے افسوس بھی تھا۔ لیکن مشیره خالہ نے جس طرح چیخ دھاڑ مچائی تھی، اس پر اسے ایک دم ہنسی آگئی۔ شکر تھا کہ اس وقت سارے لوگ کمرے سے باہر نکل گئے تھے ورنہ
ہنسی بھی اس کے لئے عذاب جان بن جاتی۔ البتہ دل میں اس نے سوچا غصے کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ کر بیٹی ہی تھی کہ اسں کے کان قریب مکھی جیسی بھنبھناہٹ ابھری۔ آپ کے ساتھ برا سلوک کرنے والوں کا یہی انجام ہوگا عشیرہ...جو بھی آپ کے ساتھ برا سلوک کرے گا، ہم اس کا برا حشر کر دیں گے۔“
بڑے صاف ستھرے الفاظ تھے۔ آواز باریک سی تھی لیکن الفاظ پورہ طرح سمجھ میں آرہے تھے۔ وہ پھر خوف سے اچھل پڑی۔ یہ الفاظ ساعت کا وہم نہیں تھے ا
انہیں اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اسے وہ خوف ناک لمبے دانتوں والی چمگادڑ نما مخلوق یاد آ گئی اور اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں چاروں طرف دیکھا۔
وہ معصوم اور سیدھی سادی ضرورتھی لیکن پے در پے واقعات کو نظرانداز نہیں کر سکتی تھی۔ تمام واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی پراسرار قوت اس کی مدد کر رہی ہے۔
لیکن کون ....؟ آخر کون...........؟
اس کا ذہن یہ گتھی حل نہیں کر پا رہا تھا۔
پتہ نہیں کیا ہورہا ہے...؟
کسی کی نظر عنایت اس پر ہوگئی ہے۔ بہت کچھ سوچتی لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔
املی کے درخت کے نیچے سے ملنے والا پتھر۔۔۔وہ پراسرار آواز .۔۔۔رات کو نظر آنے والی وہ خواب نما سچائی
شربت...
اور پھر صبح کو ناشتے کی تیاری..
یہ سب کیا ہے.................؟
اس کا دل لرز رہا تھا۔ لیکن دل ہی کے کسی گوشے میں ایک خوشی پھوٹ رہی تھی۔ ایک انجانی سی خوشی۔
وہ کون ہے جو اس کا اتنا ہمدرد ہے؟ اور وہ نگاہوں کے سامنے کیوں نہیں آتا............؟
وہ دلکش آواز جسے اس نے شاہ غازی کے مزار پر سنا تھا اور جو اس کے بعد بھی اسے سنائی دی تھی۔ وہم نہیں تھا سچائی تھی۔ بہت دیر تک وہ ناشتے کی میز کے پاس کھڑی سوچتی رہی ۔ پھر بھی چند لمحوں کے بعد طاہرہ بیگم اندر داخل ہوگئیں۔ ان کا موڈ بری طرح خراب تھا۔
اب یہاں کھڑی سوگ کیوں منا رہی ہے؟ جا خوشی سے ناچ
گا.... عیش کر تیری تو دلی مراد پوری ہوئی ہے۔ ہمیں کوئی تکلیف ہوتی تو تجھے۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ان کا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ بری طرح اچھل پڑی اور پھر مسلسل اچھلنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے "ارے....! ارے....؟“ نکل رہا تھا۔
اچھے خاصے بھاری بدن کی مالک تھیں اور اتنے وزن کے ساتھ اچھلنا ایک مشکل کام تھا۔ لیکن اس وقت وہ اس طرح اچھل رہی تھیں جیسے پیروں کے نیچے اسپرنگ لگے ہوئے ہوں۔ ساتھ ہی ان کے منہ سے "ارے............!
ارے‘‘ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ پھر انہوں نے انتہائی غصیلے لہجے میں ”اری کم بخت...! دیکھ۔۔۔۔ دیکھ تو سہی...! دیکھ تو سہی....! میری قمیص میں کیا گھس گیا ہے؟تب عشیرہ کو معلوم ہوا کہ ان کے اچھلنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے بہ مشکل تمام طاہرہ بیگم کے بدن میں پھنسی ہوئی قمیص کو اٹھایا تو اس سے ایک چھپکلی نکل کر فرش پر دوڑنے لگی۔ طاہرہ بیگم چھپکلی سے تو بے پناہ ڈرتی تھیں۔ ان کی چیخیں بھی کسی طرح مشیرہ بیگم سے کم نہیں تھیں۔ یہ تصور ان کے لئے انتہائی بھیانک تھا کہ ان کے
بدن پر چپکلی ریگتی پھر رہی تھی ۔ ان کی چیخیں بھی باہر سن لی گئیں۔
ابھی خاله مشیره ی کی تیمار داری ہورہی تھی کہ سب لوگ ان کو چھوڑ کر ناشتے کے کمرے کی طرف دوڑ پڑے جہاں سے طاہرہ بیگم کی آوازیں ابھر رہی تھیں ۔ طاہرہ بیگم اب بھی چیخے جارہی تھیں۔
ارے............! کیا ہوا؟ کیا ہوگیا............؟
معظم علی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
طاہرہ بیگم پسینے میں شرابور ہو رہی تھیں ۔ اکھڑے ہوئے سانس کےساتھ بولیں۔ بچ گئی... آج اللہ نے بچا ہی لیا چھپکلی چڑھ گئی تھی کمر پر اللہ اس بچی کو خوش رکھے جان جوکھوں میں ڈال کر چھپکلی نکال دی ورنہ نہ
جانے کیا حشر ہوتا میرا..............؟ ہائے ................؟
طاہرہ بیگم مختصر الفاظ میں ہانپتے ہوئے بولیں ۔ لیکن شاید زندگی میں پہلی بار ان کے منہ سے عشیرہ کے لئے کچھ اچھے الفاظ نکلے تھے۔ اصل میں چھپکلی کو ان کی کمر سے ہٹا دینا اور وہ بھی بغیر کسی حادثے ،کے ان کی دانست میں عشیرہ کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔
معظم علی نے ایک گہری سانس لی۔ طاہرہ بیگم کو سنبھالا اور پھر اس کمرے میں لے گئے جہاں مشیرہ بیگم بستر پر نیم مردہ پڑی ہوئی تھیں ۔ کسی نے ابھی تک عشیرہ کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ البتہ عشیرہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔ ایک لمحے کے لئے اس کا ذہن اس طرف متوجہ ہوا تھا جب یہ کہا گیا تھا کہ اس کے خلاف اب ایک بھی لفظ برداشت نہیں کیا جائے گا اور الفاظ ادا
کرنے والے کو سزا ملے گی۔ نہ جانے اسے کیوں یقین ہو رہاتھا کہ چھپکلی والا واقعہ بھی اتفاق نہیں ہے، یقینی طور پر یہ واقعہ بھی کسی انوکھے ذریعے سے ہوا ہے کیونکہ اس وقت
طاہرہ بیگم ہی اس پرلعن طعن کر رہی تھیں۔ اس نے گردن جھٹک دی۔کیا ہی عجیب بات ہے...؟ جیسے میرا دماغ خراب ہوگیا ہو.........؟ بلاوجہ الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگ گئی ہوں۔ آخر ایسا کون ہوسکتا ہے جو نظر بھی نہ
آئے؟ بات چیت بھی کرے اور اس کے لئے عمل بھی کرے۔
ہاں..... وہ بھیانک چگادڑیں جن کے منہ انسانوں جیسے تھے، اگر ایسا کر رہی ہیں تو تعجب کی بات ہے کیا پرندے بھی انسانوں جیسی شکل رکھتےہیں؟ یا اختیار کر سکتے ہیں؟ شکلیں ان کی انسانوں جیسی ہی تھیں اور بدن چگادڑوں جیسا۔“
اس نے ناشتے کی میز کی طرف دیکھا۔ مشیرہ خالہ کی مصیبت نے ناشتہ خراب کر دیا تھا۔
اب پتہ نہیں گھر کے لوگ ناشتہ کریں گے بھی یا نہیں ۔۔؟
(جاری ہے)

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 5 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں