جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط 3

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط 3
لیکن اسے یاد نہ آیا کہ یہ آواز اسنےکہاں سنی تھی .......؟ البتہ وہ الفاظ اب بھی اس کے کانوں میں ابھر رہے تھے۔
وہ بدحواس سے کھڑی ہوگئی اور پھر اس کے منہ سے آواز نکلی۔
کون ہے....؟‘‘
لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ البتہ اسے وہ چاپ اور سایہ یاد آ گیا۔ ایک بار پھر وہ بوکھلا گئی ۔ اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں چاروں طرف دیکھا۔ چلچلاتی دھوپ اور لو کے تپھیڑوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ . پھر اس کی نگاه درخت کی طرف اٹھ گئی۔ ممکن ہے کوئی اور درخت پر چھپا ہوا ہو اور اسے پریشان کر رہا ہو۔ لیکن اوپر بھی کسی کا وجود نہیں تھا۔ درخت بالکل صاف پڑا ہوا تھا۔ ایک دم اسے کچھ خوف کا احساس ہونے لگا اور وہ چارپائی سے دور
ہٹ گئی۔ وہ پتھر اب بھی اس کے پاس موجود تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ تاحد نظر کسی کا وجود نہیں تھا۔ ۔وہ تیز تیز قدموں سے صدر دروازے کی جانب چل پڑی اور پھر دوبارہ اپنے کمرے میں آگئی۔
اس کا سینہ پھول رہا تھا۔ سانس بہت تیز ہوگیا تھا۔ بات ہی اتنی عجیب تھی۔ اسے اپنے کانوں پر پورا بھروسہ تھا اور اس نے صاف طور پر شکریہ۔۔۔ اور اس کے بعد کے الفاظ سنے تھے۔ کافی دیر تک وہ اسی طرح کھڑی حیرت سے کانپتی رہی۔ پھر اس کی نگاه گھڑی کی جانب اٹھ گئی ۔ چار بجنے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔ وہ سب کچھ بھول کر خود کو باورچی خانے کے لئے تیار کرنے گی۔بدن پر اب بھی ہلکی ہلکی کپکپاہٹ طاری تھی ۔ مٹھی میں دبے ہوئے پتھر کو اس نے مسہری کے سائیڈ ریک میں رکھ دیا اور باتھ روم میں چلی گئی۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹوں نے چہرے کی تمتماہٹ کو بڑا سکون دیا۔ وہ کافی دیر تک چہرے اور آنکھوں کو پانی سے نم کرتی رہی۔ پھر تازہ دم ہو کر باہر نکل آئی۔
پورے چار بچے تھے۔ کمرے سے نکل کر وہ باورچی خانے میں پہنچ گئی۔ باورچی خانے میں داخل ہو کر اس نے اپنے ذہن سے کچھ دیر پہلے کا واقعہ محو کر دیا اور اپنے ذہن میں شام کی چائے کے لئے فرمائشات کی اس فہرست کو ٹٹولا جو گھر کے حاکموں نے اسے دی تھی۔ سب کی فرمائشیں پوری کرنا لازمی تھا۔ چنانچہ وہ جلدی جلدی تیاریاں کرنے لگی اور ٹھیک پانچ بجے وہ خوب صورت ٹرالی کو انواع و اقسام کے لوازمات سے سجائے ہوئے مشیرہ بیگم کے بڑے کمرے میں پہنچ گئی۔ باہر کا موسم ابھی تک گرم تھا اس لئے ان پر چائے پینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا اور پھر یوں بھی گرمیوں میں تو پانچ بچے بھی دوپہر ہوتی ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈے کمرے میں سب لوگ صوفوں پر بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ جوں ہی وہ اندر داخل ہوئی، قہقہے ایک لمحے کے لئے رک گئے اور پھر جاری ہوگئے ۔ جیسے اسے یہ احساس دلایا جا رہا ہو کہ اس کی یہاں آمد سے کسی کے مشغلوں پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ ان تمام باتوں کی عادی تھی۔ اس لئے اس نے اور کسی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ یہ تو روز کا معمول تھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی اور اس نے سلیقے سے سینٹر ٹیبل درست کی۔ چائے اور دوسری چیزیں سرو کر دیں۔ باورچی خانے کی گرمی میں اس کا چہرہ تمتما کر الگ ہو گیا تھا۔ خشک ہونٹ اور بھبوکا چہره اور اپنی اس ادا میں بھی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
. اس گرمی میں بھی تمہیں میک اپ کی فرصت مل جاتی ہے؟ نظم نے طنزیہ انداز میں کہا۔
میک اپ...؟"
اس نے حیرت سے نظم کو دیکھا۔ اس نے تو زندگی میں کبھی میک آپ نہیں کیا تھا۔
”اونہہ! میرا رنگ ہی ایسا ہے۔" اجی....! ایک بات ہے۔ تم لوگ سونے کے نوالے بھی کھاؤ تو ایسا رنگ نہ نکال سکو۔ اللہ میاں بھی بعض اوقات خوب مذاق کرتا ہے ۔“
مشیرہ بیگم نے فوراؑ ہی ٹکڑا لگایا لیکن ان کی اس بات میں بھی نظم اور نثر نے اپنی تفحیک محسوس کی تھی۔
آپ جب بھی بولیں گی۔ کفن پھاڑ کر ہی بولیں گی مشیرہ خالہ نظم نے نے منہ بنا کر کہا۔
ایں.............! میں نے کیا بات کہہ دی ؟
'' ہونہہ.................؟
وہ دونوں منہ بنا کر خاموش ہوگئیں۔
وہ باہر نکل آئی۔ ابھی بہت سے کام تھے۔ سورج اب بھی قہر برسا رہا تھا۔ لیکن وہ گرمی سے بے خبر کاموں میں مصروف ہوگئی ۔ شام ہوئی اور پھر رات ہو گئی۔ اس دوران اپنی شدید ترین مصروفیات کی بناء پر وہ سب کچھ بھول گئی تھی۔
درخت کے نیچے ملنے والا پھر
شکریہ کے وہ الفاظ................
کوئی بات اسے یاد نہ رہی تھی۔ گیارہ بجے کے قریب جب سب کے سب اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تب اسے فرصت ملی اور وہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ دن بھر
کی تپش کے بعد کمرہ اب بالکل ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ وہ خاموشی سے مسہری پر بیٹھ گئی۔ آئینہ سامنے موجود تھا۔ اس نے فخریہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اس کا ہمدم
اور مونس اس کا آئینہ ہی تو تھا جو اس کو بھی کبھی اس کی اہمیت کا احساس دلا دیتا اور وہ سوچنے لگتی تھی کہ کچھ بھی ہو، وہ اب بھی ان سب سے اچھی سب سے باوقارلگتی ہے۔ شاید ان کی ضرورت سے زیادہ جلن کی یہی وجہ ہو۔ دادی اماں کے انتقال کے بعد خاص طور سے اس کے لئے سادہ اور معمولی کپڑے کے لباس بنتے تھے جیسے دوسری نوکرانیوں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ یہ بات اس نے فوراؑ ہی محسوس کر لی تھی لیکن مزاج ایسا تھا کہ کسی بھی سلسلے میں اعتراض نہیں کر سکتی تھی۔ ہاں! اس کی مرحوم ماں کے چند جوڑے اب بھی موجود تھے ۔ قیمتی
جوڑے جو نہ جانے کیوں اس سے نہیں لئے گئے تھے۔ اس سے پہلے اسے کبھی اس طرح کے جوڑے پہننے کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج نہ جانے کیوں اس کا دل چاہا کہ کوئی اچھا لباس پہنے؟ اور یہ خواہش اتنی شدید ہوئی
کہ وہ اس سے باز نہ رہ سکی۔ اس نے الماری کھول کر ایک خوب صورت جوڑا نکالا اور غسل خانے میں جا کر اسے پہننے چلی گئی۔ زرکار جوڑے نے اسے سحرانگیز بنا دیا۔ اس نے باہر نکل کر آئینے میں اپنی شکل دیکھی اور خود ہی شرما گئی۔ کاش............ اس وقت اسے دیکھنے والا کوئی ہوتا اور ایمانداری سے اس کے بارے میں کچھ کہہ سکتا۔ اس نے سوچا اور دفعتاؑ اسی وقت ایک آواز اس کے کانوں میں گونج اٹھی۔
چشم بددور
😍
وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ یہ آواز بالکل صاف شفاف آئی تھی۔ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں دروازے کی طرف دیکھا۔ لیکن دروازه تو اندر سے بند تھا۔ اس نے مسہري اور پھر کمرے کے دوسرے کونوں میں دیکھا لیکن کوئی نہیں تھا۔
یہ میرے کان کیوں بجھنے لگے ہیں آخر.....؟ اس وقت شکریہ کی آواز اور ا۔
اس تصور کے ساتھ اچانک ہی ایک اور انکشاف بھی ہوا۔ شکر یہ والی آواز اس آواز سے مختلف نہیں تھی اور اس سے بھی پہلے اس نے یہ آواز سنی تھی اور اب پہلی بار اس پر غور کیا تھا۔
"آه............! یہ نرم نرم انداز ...........‘‘
یہ آواز اس سے پہلے بھی اس نے سنی تھی۔ وہاں جب ایک دوہتھڑ اس کے جسم پر پڑا تھا اور وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ کسی نے اسے اپنے بازو میں تھام لیا تھا۔مگر کون.....؟ کون تھا وہ .......؟ کیا صرف وہم ........؟ آه...!
کیا وہ صرف وہم تھا....؟
لیکن اس وقت تو اس نے اس کا لمس بھی محسوس کیا تھا اور آواز جس میں اسے نصیحت کی گئی تھی کہ وہ یہاں نہ آئے ۔ کون ہے وہ ۔۔۔! نہیں ۔۔۔! بالکل نہیں! میں کچھ پاگل ہوگئی ہوں ۔ شاید۔۔۔۔۔ شاید مجھے کوئی عجیب سا احساس ہونے لگا ہے۔ اس نے پھر دل کوتسلی دی اور آئینے کے سامنے سے ہٹ آئی۔ رات اپنی تھی۔ اب کسی کے بلانے کے امکانات نہیں تھے چونکہ سب خواب گاہوں میں جا چکے تھے، وہ انہی کپڑوں میں بستر پر لیٹی اور تکیہ اونچا کر
کے دراز ہوگئی۔ لیٹے لیٹے اسے اچانک ہی اس خوب صورت پتھر کا خیال آگیا۔ اس نے جلدی سے مسہری کے برابر کی دراز کھولی اور پتھر نکال لیا۔ اس بار اس نے بالکل اجنبی نگاہوں سے اس پتھر کو دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ کیا
پیارا پتھر ہے؟ پھر اسے چمکانے کے لئے اس نے اسے اپنے لباس سے رگڑا۔ پتھر درحقیقت ایک دم سے بھڑ ک سا اٹھا۔ لیکن اس کے ساتھ کمرے کے اوپر روشن دان سے کوئی پرنده اندر گھس آیا۔ وہ حیرانی سے اس پرندے کو دیکھنے
لگی۔ پرنده فضاء میں کئی چکر لگا کر اسی روشن دان سے باہر نکل گیا۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں تھی۔ اس کے بعد اچانک اور دو تین پرندے اندر گھس آئے اور وہ سکتے کے
عالم میں انہیں دیکھتی رہ گئی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ چمگادڑیں تھیں۔ ان میں سے تین چمگادڑیں نیچے اتر آ ئیں اور اچانک ان کی جسامت بڑھنے لگی ۔ عشیرہ کا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔ وہ انتہائی خوفزدہ ہو گئی تھی اور اس کی آنکھوں ںسے دہشت جھانکنے لگی تھی۔ اس نے بغور دیکھا کہ یہ چمگادڑیں انسانی ہیت اختیار کرتی جا رہی ہیں ۔ عجیب سی شکلیں تھیں ان کی ۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی لیکن اس کی آواز بھی دہشت کی وجہ سے نہ نکل سکی۔ خوف سے اس کے پورے جسم کے رونگٹے
کھڑے ہو گئے تھے۔ اس وقت ایک چمگادڑ نے گردن خم کر کے کہا۔
ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے عشیرہ....! ہم تمہارے اپنے ہیں ۔ ہم کسی بھی حالت میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ تمہارے ایک اشارے پر بڑے سے بڑا کام کر دیں گے۔ ہم سے بالکل خوف نہ کھاؤ۔ کاش
ہم کسی خوب صورت شکل میں تمہارے سامنے آتے اور تم ہم سے خوفزدہ نہ ہوتیں۔
عشیرہ یہ تمام باتیں سن رہی تھی، بڑے صاف شفاف الفاظ تھے اور وہ دیکھ رہی تھی کہ یہ الفاظ ان چمگادڑوں کے منہ سے ہی نکل رہے ہیں۔ ان کے انداز میں یقیناؑ احترام تھا۔
اس نے سوچا کہ کیا وہ پاگل ہوگئی ہے؟ کیا یہ خواب ہے؟ وہ آنکھیں ملنے لگی۔ لیکن وہ خواب نہیں تھا۔ درحقیقت عجیب و غریب مخلوق اس کے سامنے تھی۔ ان کی شکلیں بے شک بھیانک تھیں لیکن الفاظ اور لہجہ بے حد نزم
عشیرہ کو اچانک ہی یوں لگا جیسے اس کے اندر ہمت کی ایک لہر بیدار ہوتی جا رہی ہو۔ وہ ہمت کر کے بولی۔
"تت تم تم کون ہو؟اب تمہارے خادم... تمہارے غلام ہمیں حکم دو ہم۔۔۔ ہم کیا کریں؟ ہم تمہارے لئے سب کچھ کر سکتے ہیں عشیرہ ! ہمیں حکم دو ...........
مگرتم تو تم تو پرندے ہو۔“
وہ معصومیت سے بولی۔
ہم کیا ہیں؟ اس کا اندازہ تمہیں ابھی نہیں ہو سکے گا عشیره ........!
ہمیں ہمارے مالک نے بھیجا ہے۔
مالک..............؟ وہ کون .............؟
افسوسں ہمیں یہ بتانے کی اجازت نہیں ہے۔“
جواب ملا۔
م... مگر میری بات تو سنو............! م... میں. ... میں ........
ہمیں حکم دیں عشیره ...! ہم آپ کے لئے کیا کریں؟
دیکھو میں ڈر رہی ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے
بدن نے پسینے چھوڑ دیا ہے۔ میں بے ہوش ہو جاؤں گی ۔
نہیں ........! آپ ہم سے بالکل خوف نہ کھائیں۔... غلاموں سے
خوف نہیں کھایا جاتا ‘‘
مگر تم میرے غلام کہاں سے ہو گئے ؟
یہ بتانے کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔ وقت آنے پر آپ کو سب کچھ
معلوم ہو جائے گا۔“
اور وہ وقت کب آئے گا...............؟بہت جلد...! بہت جلد....! جب ہمارے آقا کا حکم ہوگا۔
م............. میری میری بات سنو.............! میری بات تو سنو!‘‘
عشیره ...! آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ برا سلوک کریں۔“
میں صرف ایک بات جاننا چاہتی ہوں۔ میں نہ بی بے وقوف ہوں نہ خوابوں میں رہنے والی یہ سب کچھ جو میں سن رہی ہوں جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں.... خواب ہے کہ حقیقت؟
حقیقت ہے۔ آپ کے برے دن گزر گئے۔ اب کوئی آپ کوآنکھ
نہیں دکھا سکے گا۔ ہم آپ کے خدمت گار ہیں۔ ہم آپ کی خدمت کے لئے ہر لیے حاضر ہیں۔‘
عشیره خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔ ،
عجیب و غریب پرندے ایک کارنس پر بیٹھ گئے تھے اور اس طرح گردن جھکائے ہوئے تھے جیسے واقعی وہ اس کے غلام ہوں۔ کبھی کبھی عشیرہ کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ چمک اٹھتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ اگر یہ کوئی خواب ہے تو واقعی اس سے انوکھا خواب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ خواب ناک آنکھوں سے انہیں دیکھتی رہی اور پرندے اسی طرح بیٹھے رہے۔ پھر ان میں سے ایک پرندے نے کہا۔
ہمیں کوئی کام بتایئے! آپ کا کوئی بھی کام کر کے ہمیں خوشی ہوگی‘
عشیرہ ہنسنے گی۔ پھر اس نے کہا۔
"بھلا میں تمہیں کیا کام بتاؤں؟ تم کیا کام کر سکتے ہو...؟وہ سارے کام جن کی آپ کو ضرورت ہو۔ آپ بے دھڑک ہمیں
اپنے کام بتا دیا کریں۔ تم ننھے ننھے سے پرندے ۔۔۔۔۔بے شک تمہاری شکلیں انسانوں جیسی ہیں، لیکن تمہارے ہاتھ پاؤں تو انسانوں جیسے نہیں ہیں ۔ ان ننھے ننھے ہاتھ پیروں سے بھلا تم کیا کر سکو گے۔
وہ سب کچھ جس کا علم آپ ہمیں دیں گی؟
"چلو ٹھیک ہے۔ جب مجھے کوئی کام ہوگا تو میں تمہیں بتا دوں گی۔
اب تم جاؤ .....!؟
عشیرہ نہ جانے کیوں کچھ بے خوف سی ہو گئی تھی ؟ شاید اب اسے یقین ہوگیا ہوگا کہ وہ کوئی بہت ہی دلچسپ خواب دیکھ رہی ہے۔ ایک ایسا خواب جو جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ان پرندوں کو دیکھتی رہی
اور پرندے اپنی جگہیں تبدیل کرتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا۔
" ہم حاضر ہوتے رہیں گے۔ اگر آپ ہم سے خوف کھاتی رہیں تو آپ کو تکلیف ہوگی۔ آپ دل سے خون نکال دیں۔ ہمارے جانے کے بعد آپ کو نیند نہیں آئے گی اور آپ یقینا ہمارے بارے میں سوچتی رہیں گی۔ اس لئے آپ یہ شربت پی لیں۔ آپ کو پرسکون نیند آجائے گی۔“
ان میں نے ایک نے ہاتھ بڑھایا اور عشیرہ نے اس کے ہاتھ میں ایک خوب صورت بلوری گلاس دیکھا جس میں ہلکے گلابی رنگ کا کوئی شربت تھا۔ عشیرہ حیران ضرورتھی لیکن نہ جانے کیوں اس کا ہاتھ گلاس کی جانب بڑھ
گیا۔ دودھ جیسے گاڑھے شربت سے نفیس خوشبو اٹھ رہی تھی۔ جاری ہے۔

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں