جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط - 7

 

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط - 7
وہ بدستور مشیرہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
"آپ کو تکلیف ہورہی ہے۔ میں چلا جاؤں؟
عشیرہ کے منہ سے اب بھی کوئی آواز نہیں نکل سکی ۔ اس نے پھر کہا۔
اصل میں کوارٹر کی چھت تپ رہی تھی۔ اس لئے میں درخت کے نیچے آ گیا۔ میں جا رہا ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھیں. اس نے واپسی کے لئے قدم بڑھائے تو عشیرہ بے اختیار بول اٹھی۔
ارے نہیں سنو! میری بات سنو............. بیٹھ جاؤ ! کیا
حرج ہے؟
نہ جانے یہ الفاظ اس نے کس طرح ادا کئے تھے ؟ اسے خود اس پر حیرت ہوئی تھی کہ وہ اس طرح بے اختیار کیوں ہوگئی ..؟شکریہ مالکن۔۔۔
وہ رکا اور پھر واپس پلٹ کر اسی جگہ بیٹھ گیا۔ عشیره وحشت زده نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ پھر اچانک ہی اسے اپنی بے وقوفی پر غصہ آنے لگا۔ یہ کیا احمقانہ حرکت کر رہی ہوں میں گھر کا ملازم ہے۔ یہ بات میں اچھی طرح جانتی ہوں . پتہ نہیں میرے اندر یہ کیفیت کیوں پیداہوگئی .............؟
وہ خاموشی سے عشیرہ کو دیکھ رہا تھا۔ عشیرہ جلدی سے بولی۔
م... میں.... میں عشیرہ ہوں ............
میں جانتا ہوں ۔
اس نے بدستور محبت بھرے لہجے میں کہا۔ عشیرہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے.....؟؟
جو منہ میں آ رہا تھا الٹا سیدھا کئے جا رہی تھی۔ کہنے لگی۔
"تت تم نے کھانا کھا لیا؟‘‘
وہ مدہم سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"مجھے نہیں معلوم کہ یہاں کھانا کون دیتا ہے؟‘‘
”ارے ! اوہو! اس کا مطلب ہے کہ تم ابھی تک بھوکے ہو۔
عشیرہ کو اپنے اندر ایک ہلکی سی بے چینی کا احساس ہوا تھا۔
"میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے مالکن ! کافی عرصے سے ہے روزگار ہوں۔ اکثر دوپہر کا کھانا کم ہی ملتا ہے۔ اب چونکہ بڑے مالک نے مجھے نوکری پر رکھ لیا ہے اور کھانے اور کپڑے کی بات بھی کی ہے تنخواہ کے علاوہ اس لئے اب مجھے کھانا مل جایا کرے گا
۔“
عشیرہ کا دل ہمدردی سے دھڑک اٹھا۔ اسے اس کی یہ بات بہت درد بھری لگئی تھی۔ وہ بے اختیار بولی۔
”ن نہیں ...................... میرا مطلب ہے آؤ آؤ ..! میں
بہت شرمندہ ہوں... آؤ..! براہ کرم میرے ساتھ آؤ ‘‘
''کک کہاں ............؟وہ گھبرائے ہوئے سے لہجے میں بولا ۔
میں بہت شرمندہ ہوں آ جاؤ
"آپ کہاں تکلیف کریں گی مالکن،
میں مالکن نہیں ہوں. تم بار بار مجھے مالکن کیوں کہہ رہے
ہو میں تمہیں اپنا نام بتا چکی ہوں میرا نام عشیرہ ہے اور بس آؤ ....!
تم آتے کیوں نہیں ؟
عشیرہ کو اس کی بھوک کا شدید احساس ہو رہا تھا۔
وہ ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمدردی میں عشیرہ اس نازک صورت حال کو بھول چکی تھی کہ وہ اس سے کیا کہہ رہی ہے ؟ وہ کیوں اس کے ساتھ ہے....؟ اسے تو صرف یہ یاد رہا کہ وہ بھوکا ہے ۔بہرحال وہ اسے ساتھ لئے ہوئے کچن میں آئی۔ پھر اس نے اسے کھانا نکال کر دیا۔ باورچی خانے میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ بیٹھ سکے۔
اس لئے وہ ٹرالی لئے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔
آجاؤ ...........! میرے ساتھ آجاؤ ...........‘‘
یہ پہلا اجنبی تھا جسے وہ بے دھڑک اپنے کمرے میں لے گئی اور پھر اس نے کھانا میز پر سجایا اور پھر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے جذبات تھے۔ وہ کہنے لگا۔
میں آپ کا صرف ایک ڈرائیور ہوں عشیرہ صاحبہ! آپ مجھے
بہت عزت دے رہی ہیں ۔‘‘
اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہر شخص اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ آپ کو میرے بارے میں نہیں معلوم کہ میں یہاں کیا کرتی ہوں؟ چلئے ... براۂے کرم کھانا کھایئے
مگر کھانا تو آپ نے بھی نہیں کھایا ہے ۔
وہ بولا اور عشیرہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
ایں...! آپ کو کیسے معلوم.........؟
بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو دل سے شروع ہو کر دل پر ختم ہو جاتی ہیں ........... میرا مطلب ہے وہ ایک دم بوکھلا سا گیا۔ عشیر نے اس کی اس کیفیت پر تو غور نہیں کیا تھا۔ اتنی زیادہ ذہین نہیں تھی۔ لیکن جواب دینا ضروری سمجھا۔ اصل میں میں نے ناشتہ دیر سے کیا تھا۔“
چھوٹا منہ بڑی بات ہے مالکن...! مالک اور ملازم کا فرق سمجھتا ہوں ۔ لیکن دل میں ایک عجیب سی خواہش ہے۔ اگر آپ پوری کر دیں گی تو زندگی بھر دعائیں دیتا رہوں گا۔
"خوابش ..؟
جی...............؟
میں سمجھی نہیں.............
آپ بھی کھانا کھا لیں....؟‘‘
وہ اس قدر لجاجت سے بولا کہ عشیره موم کی طرح پھیل گئی۔ بات کچھ اس انداز میں کی گئی تھی کہ وہ اسے منع نہ کر سکی اور اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ نہ جانے وہ کون سا جذبہ تھا جس نے یک لخت اجنبیت دور کر دی تھی ورنہ وہ ایک شرمیلی لڑکی تھی۔ اس نے اس کے ساتھ کھانا کھایا اور اسے ذرا بھی جھجک کا احساس نہیں ہوا۔
تمہارا نام شاہ نم ہے نا؟
ہاں ............؟
عام طور سے ایسے لوگ میرا مطلب ہے ایسے نام نہیں ہوتے
ہیں۔ عجیب سا نام ہے مگر ہے بہت پیارا... اور کون کون ہے تمہارے گھر ۔۔۔۔۔۔۔
پورا خاندان ہے . ماں ہیں ........... بابا ہیں ............ ویسے میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں ۔
تم لوگ بہت غریب ہو نا ... ؟
ہاں۔۔
خیر غریب ہوتا کوئی بری بات نہیں ہے۔ محنت مزدوری کر کے زندگی گزارتا تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ مگر ایک بات بتاؤ ! جب تایا ابو نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہارے ساتھ کون کون رہتا ہے ؟ کیا تم اکیلے ہو...!؟
تو تم نے یہی کہا تھا کہ تم اکیلے ہو ۔
جی یہی کہا تھا میں نے انہوں نے یہ پوچھا تھا کہ اور کون
تمہارے ساتھ ہے ؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ وہاں جو کوارٹر مجھے دیا گیا ہے، اس میں کون کون میرے ساتھ رہے گا ....؟ تو میرے ماں باپ تو اپنے گھر پر ہیں ....... وہ تو یہاں میرے ساتھ نہیں رہیں گے اس لئے میں نے یہی کہا تھا کہ میں اکیلا ہوں۔
باہر کوئی کھٹکا سا سنائی دیا تو عشیرہ اس طرح چونک کر چاروں طرف دیکھنے گی جیسے اب تک اسے یہ احساس ہی نہ ہو کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے۔۔؟ کون اس کے ساتھ ہے ؟ کیا کر رہی ہے وہ ؟ ایک اجنبی نوجوان کے ساتھ اس نے کھانا کھایا ہے اور وہ نوجوان بھی وہ جو لاکھوں میں ایک
ہے۔ یہی نہیں نظم اور نثر اسے دیکھیں گی تو ان کا کیا حال ہوگا ؟اکثر وہ خوب صورت نوجوانوں کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھیں اور اچانک ہی اس کو اپنی موجودہ پوزیشن کا احساس ہوا اور اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے
"ارے بس اب تم جاؤ....! اگر کسی نے دیکھ لیا تو موت
آجائے گی ۔
جی ! مجھے اندازہ ہے مگر آپ بے فکر رہیں۔ دور دور تک کوئی نہیں ہے۔
تمہیں کیا معلوم؟ پلیز تم جاؤ ..؟
عشیره اب بالکل ہی دہشت زدہ ہوگئی تھی۔
جی ! اس کھانے کا اور آپ کی اس عزت افزائی کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
چند منٹ گزرے تو عشیره دروازے کے باہر آئی۔ اس نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔ دور دور تک کوئی نہیں تھا۔
"یہ میں کیا کر بیٹھی؟ یہ جرأت، یہ ہمت میرے اندر کہاں سے آئی اس نے سوچا اور بے سدھ ہو کر مسہری پر گر پڑی۔
یہ مجھے کیا ہو گیا ہے آخر ؟ وہ ایک اجنبی شخص ہے۔ میری تو اس سے ایک سے زیادہ ملاقاتیں بھی نہیں ہوئیں
میں نے اتنی بے تکلفی سے اسے اپنے کمرے میں کیسے بلا لیا ایک اجنبی کو۔۔۔؟ لیکن اس خیال پر دل نے پکار کر کہا کہ وہ اجنبی نہیں ہے۔ عشیرہ نے ،اپنے آپ سے سوال کیا۔
پھر بھی وہ ڈرائیور ہے صرف ڈرائیور .... نہ جانے کون
ہے؟ کہاں سے آیا ہے۔
ذہن اسی کشمکش میں مبتلا تھا لیکن اس سوچ میں ایک انوکھی لذت بھی تھی اور نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ جب ہوش آیا تو پانچ بج چکے تھے۔ ایک دم اس کا دل دھک سا گیا۔ صبح بے شک بچ گئی تھی لیکن اب شامت زیادہ دور نہیں تھی۔ بانپتی کا نپتی باورچی خانے پہنچی تو ٹرالی سجی ہوئی تھی۔ اس پر ہر چیز موجودتھی۔ چائے بالکل تیارتھی ۔ کیتلی کی ٹونٹی سے بجھانپ کی ایک لکیر اٹھ کر فضاء میں بلند ہوری تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے دیوار سے ٹک گئی۔
میرے معبود........... میرے معبود ...! یہ سب کیا ہے؟ یہ سب کیا ہے؟ میرے انوکھے خواب جنہیں میں خواب نہیں کہہ سکتی وہ کون ہے جو میرے لئے یہ سب کچھ کرتا ہے ؟ میرے اللہ! میں کس منہ سے تیرا شکر ادا کروں .............!
بار بار میری جان سولی پر سے بچ جاتی ہے۔ وہ لوگ تو مجھے زندہ دفن کر دیں۔ دشمن ہی دشمن بکھرے ہوئے ہیں چاروں طرف ۔ لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے............. یہ کیا ہے ؟ وہ ٹرالی کھینچتی ہوئی باورچی خانے سے نکل آئی۔
ناشتے کے کمرے میں سب موجود تھے ۔ مشیرہ خالہ کو بھی صبح سے کھانے کو کچھ نہیں ملا تھا۔ اس لئے وہ اپنی تکلیف کو بھول کر فوراؑ ہی ٹرالی کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ عشیرہ نے ان کے لئے چائے نکالی اور اس وقت اس میں نمک ڈالنا نہ بھولی ۔
پھر اس کی پہلی رات اب تک کی تمام راتوں سے مختلف گزری۔ اس کے ذہن میں بار بار شاہ نم کا چہرہ آجاتا تھا۔
شاه نم کے انداز میں کتنی اپنائیت تھی۔ کتنی محبت سے مجھ سے بات کر رہا تھا۔ کیا خوب صورت سا نوجوان ہے۔ بہترین جسامت کا مالک۔ کہتا ہے اس کے بھی لوگ موجود ہے۔ بچارہ اتنا غریب ہے۔ ماں باپ بھی غربت میں زندگی گزار رہے ہوں گے ۔ بہرحال آدھی رات تک وہ اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ پھر رات گزرگئی اور اس کے بعددن۔
سب لوگ شاہ نم سے بہت خوش تھے۔ بڑا ہنس مکھ نوجوان تھا۔ نظم اور نثر اسکی آنکھوں کو وہ ویکھ چکی تھی۔ جب بھی وہ سامنے آتا، وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگتیں۔ البتہ یہی شکر تھا کہ ان کا نظریہ ذرا مختلف تھا۔ وہ انسان کو صرف شکل و صورت سے ہی نہیں بلکہ اس کی حیثیت اور دولت کے ترازو میں تولتی تھیں اور اس لحاظ سے یہ ڈرائیور ان دونوں کے لئے بالکل بے مقصد چیز تھا۔
ان کے بارے میں وہ یہ ضرور کہہ سکتی تھیں کہ وہ ایک خوب صورت نوجوان ہے پتہ نہیں اس کا ماضی کیا ہے؟ یہ بات تو کتنی بار بی عشیره کے ذہن میں بھی آئی ھی لیکن اس نے بھی اس سے چھپ کر ملنے کی کوشش نہیں
کی تھی۔
بہت سے مرلے گزرتے رہے۔ عشیرہ کے نادیدہ ہمدرد اس کے ہر
مسئلے میں اس کے لئے سامنے آجاتے تھے اور ایک خاص بات یہ بھی کہ اس دوران گھر کے تمام لوگوں کو عقل آگئی تھی اور انہوں نے یہ بات خاص طور سے محسوس کر لی تھی کہ اگر عشیرہ کو برا بھلا کہا جاتا ہے تو غیبی طور پر انہیں اس کی سزا مل جاتی ہے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ گفتگو بھی ہوئی تھی۔ مشیرہ بیگم نے کہا۔ یہ ہو کیا رہا ہے آخر اس گھر میں ؟
" کیا ہوا؟ خیریت..!مشیره باجی...‘‘
میں اس لڑکی کے بارے میں سوچتی ہوں۔ پتہ نہیں مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے اس پر کسی جن کا سایہ ہوگیا ہو ۔ نکھرتی بھی جا رہی ہے۔ اس کے خلاف اگر ہم کوئی بھی کام کرتے ہیں تو ہمیں اس کی سزا مل جاتی ہے۔ معظم علی ہنسنے لگے۔چلیں! اسی طرح آپ لوگوں کے دل میں اس کے لئے نرمی توپیدا ہوئی ‘ "خاک نرمی پیدا ہوئی ؟ یہ تو صرف ڈر ہے جو ہمارے دل میں بیٹھ گیا ہے۔"طاہرہ بیگم نے کہا۔
غرضیکہ شاہ تم انتہائی بے باکی سے عشیرہ کے دل میں داخل ہوگیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ لیکن عشیرہ کی بے چین آنکھیں اس کو تلاش کرتی رہتی تھیں اور وہ طرح طرح سے عشیر کے سامنے آتا تھا۔ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے اور پھر ایک دن اس نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔
عشیره ...! ساری صورت حال میرے علم میں آ چکی ہے۔ میں بے شک ایک غریب آدمی ہوں ۔ لیکن اگر آپ میری زندگی میں شامل ہو جائیں تو شاید میں دنیا کا امیر ترین آدمی بن جاؤں۔ میں آپ سے محبت کرنے لگا ہوں عشیرہ میں آپ کو اپنی زندگی سے زیادہ چاہنے لگا ہوں ۔
عشیرہ اسے دیکھتی رہ گئی ۔ اس کے پاس اس بات کا جواب الفاظ کی شکل میں موجود نہیں تھا۔ لیکن اس کے انداز نے شاہ نم کو سمجھا دیا کہ اب اس دنیا میں شاہ نم کے سوا اس کا اور کوئی نہیں ہے۔ اس کی تنہائیاں شاہ نم کے خیال سے منور ہیں ۔ لیکن تنہائیوں میں وہ جب بھی سوچتی، بدحواس ہو جاتی۔
وہ سوچتی کہ آخر وہ شاہنم کی زندگی میں کیسے داخل ہو سکتی ہے؟
اس گھرانے میں وہ سب کی نگاہوں کا کانٹا تھی لیکن بھلا معظلم علی کیسے پسند کرتے کہ ان کے بھائی کی بیٹی ڈرائیور کے ساتھ منسوب ہو جائے۔
شاہ نم کی ہر بات کے جواب میں وہ خاموش رہی۔ آخر ایک دن اسی املی کے تاریخی درخت کے نچے شاہ نم نے اس سے سوال کر ہی لیا۔
عشیرہ ! آپ کی خاموشی مجھے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے کہ کہیں میری محبت یک طرفه تو نہیں ہے۔ خدارا! اگر ایسی بات ہے تو مجھے بتا دیں! میں معمولی انسان ہوں ۔ اپنی دنیا میں لوٹ جاؤں گا لیکن یہ الجھن مجھے پاگل کئے دے رہی ہے۔اس دن عشیرہ نے نہ جانے اپنے اندر کہاں سے آتنی ہمت پیدا کرلی..؟ وہ نرم لیکن شفاف لہجے میں بولی۔
تو بہتر کہ اپنی دنیا میں لوٹ جاؤ شاه نم ! تم نہ جانے کیا سوچ رہے ہو ؟ یہ ماحول یہ گھر انہیں قبول نہیں کرے گا۔ تم خود ہی دیکھ چکے ہو اور سمجھ چکے ہو کہ یہاں میری کوئی عزت نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ بھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں صرف آپ کی بات کر رہا ہوں عشیرہ ! مجھے صرف اپنی مرضی بتا دیئے...! باقی معاملات میں قسمت پر چھوڑ دوں گا اگر آپ کی مرضی کے بعد میں آپ کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو میں آپ سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا۔“
اور اس دن عشیرہ کی معصوم خاموشی کو زبان مل گئی۔
”میں تمہیں دل و جان سے چاہتی ہوں شاہ نم...! میں تم سے
پاگلوں کی طرح محبت کرتی ہوں۔ میرا اس دنیا میں تمہارے سوا کیا رکھا ہے؟ میں ایک بدنصیب لڑکی ہوں .......... خدا نہ کرے میری منحوسیت کا سایہ تم
پر پڑے۔ یہاں سے نوکری چھوڑ دو کہیں اور چلے جاؤ کہیں یہ ظالم لوگ تمہاری بھی زندگی خراب نہ کر دیں۔
وہ دیوانی ہوگئی اور اس نے شاہ نم کا سر اپنے سینے میں بھینچ لیا اور شاہ نم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
خدا کرے تمہاری پوری زندگی مجھے مل جائے عشیرہ تم خود کو منحوں کیوں کہتی ہو؟
وہ بڑے اعتماد سے مسکراتا ہوا بولا۔
تم ان لوگوں کو نہیں جانتے شاہ تم ! تم ان لوگوں کو نہیں
جانتے عشیره سسکیاں لیتی ہوئی بولی۔
ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ سب لوگ مجھے نہیں جانتے عشیره...!
اب تم باقی معاملات مجھ پر چھوڑ دو ....... جو کچھ کروں گا، میں کر لوں گا۔ تمہارا کام صرف اتنا ہی تھا کہ تم مجھے اپنے دل کی بات بتا دو باقی ذمے داری میری ہے۔
شاہ نم کے لہجے میں بڑا اعتماد تھا اور نہ جانے یہ اعتماد کس طرح عشیره کے دل میں بھی منتقل ہو گیا
اسے یوں لگنے لگا جیسے شاہ نم واقعی کچھ کر ہی لے
گا۔ اس احساس کے ساتھ اس کے اندر ذرا سی بے باکی پیدا ہوگئی تھی۔ دوسرے دن دوپہر کو جب املی کے درخت کے نیچے ان کی ملاقات ہوئی تو شاه نم کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ غور سے شاہ تم کو دیکھنے لگی پھر نظریں جھکا کر بولی۔ تم بہت خوش ہو شاہ نم۔۔۔۔۔۔
”ہاں عشیره میری تو زندگی کا مقصد ہی تم ہو تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے تمہارے لئے کس طرح جدو جہد کی ہے؟‘‘
عشیره نگاه اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگی پھر بولی۔
مگر اب ہوگا کیا............؟
معصوم سی لڑکی ........! یہ حقیقت ہے کہ میں نے تم سے زیادہ سیدھی سادی لڑ کی اور کوئی نہیں دیکھی ۔ تمہارے منہ سے آج تک وہ نہیں نکلا جس کی میں توقع کر رہا تھا۔
عشیرہ نے سادہ سی نگاہوں سے اسے دیکھا اور بولی۔
. کیا...............‘‘
کچھ نہیں...! یہ بعد میں بتانے والی بات ہے۔
میں پھر وہی سوال کر رہی ہوں کہ اب ہوگا کیا؟‘‘
اور میں پھر تمہیں وہی جواب دے رہا ہوں کہ یہ تمہاری نہیں، میری ذمہ داری ہے۔ وقت کی ہر شاخ ہماری طرف جھکے گی اور ہم آخر کار اپنی منزل پالیں گے۔ میں تم سے شادی کر لوں گا عشیره......... اور پھر ہم دونوں مل کر رہیں
گے۔۔
عشیرہ نے عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر بولی۔
"شاه نم ! اب تو میں تمہارے بارے میں بہت کچھ سوچنے لگی ہوں اور بعض اوقات طرح طرح کے خیالات میرے دل میں آتے ہیں ۔
"مجھے نہیں بتاؤگی عشیره .......؟ شاہ تم نے کہا۔
کیا بعد میں بھی تم یہیں اس گھر میں رہو گے؟ ان لوگوں کے ڈرائیور بن کر....؟ یہ سب اس بات سے خوش تو نہیں ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ہماری منزل ملنا ہی مشکل ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم دونوں ہماری بدترین دشمن رہیں گی اور انہی کے اثرات دوسروں پر بھی رہیں گے۔ نظم اور نثر بہت بری ہیں۔ کسی کی بے عزتی کرنے سے کبھی نہیں گھبراتی۔ میں نے تو خیر ان کے درمیان کافی وقت گزار لیا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے تمہاری بے عزتی کی تو مجھے بہت دکھ ہوگا۔ میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔“
تم کیا کہنا چاہتی ہوعشیرہ .......؟
تم کہیں اور نوکری کر لینا کسی بھی کوٹھی میں ہم دونوں مل کر وہاں کے کام کاج کریں گے۔ میں بہت خوش رہوں گی اس بات سے عشیرہ نے کہا اور اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں ابھر آئیں۔ ناک پسینے میں بھیگ گئی۔ آنکھوں سے شرم کے آثار نمودار ہو گئے ۔ شاہ نم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے عشیرہ! ہم اپنے گھر میں رہیں گے۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرا پورا کنبہ ہے، خاندان ہے، سب لوگ تمہیں خوش آمدید کہیں گے۔ یہ اچھا ہوگا اور سنو...! کسی بھی بات سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے تم اسی طرح برابرملتی رہوگی۔
ہاں! اگر تم نے اس کے خلاف کچھ کیا تو شاید میں اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکوں۔ تم یقین کرو شاه نم میں اتنی ڈرتی ہوں کہ تمہیں بتا نہیں سکتی۔
تب ہی تو میں تم سے کہہ رہا ہوں ۔ تم دیکھو تمہیں ڈرنے کی زرا بھی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی کبھی کوئی تمہارے خلاف کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اس کا تمہیں اندازہ ہے۔
عشیرہ نے معصومیت سے گردن ہلا دی تھی۔
شاہ نم نے جیب سے ایک رومال نکالا اور اس سے عشیرہ کی پیشانی اور اس سے پسینے کے قطرے صاف کرنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔
عشیرہ! میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ ہم دونوں کی بہتری کے
لئے ہے۔ کسی بھی چیز سے خوف مت کھانا۔ جیسا کہ میں نے تمہیں کہا کہ میں سارے معاملات سنبھالنے کی ہمت بھی رکھتا ہوں اور صلاحیت بھی۔ عشیرہ کا سر آہستہ سے جھکا تو شاہ نم نے آگے بڑھ کر اس کا سراپنی چوڑی چھاتی میں چھپالیا۔ عشیرہ کو بے حد سکون کا احساس ہوا تھا۔ اسے یوں لگا تھا جیسے سورج کی تپش ایک دم ٹھنڈک میں تبدیل ہوگئی ہو۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے انوکھا لمس تھا۔ شاہ نم بھی جذبات میں ڈوبا ہوا تھا۔ پھر اس نے
عشیرہ سے کہا۔
دیکھو ذرا ادھر دیکھو....‘‘
پتہ نہیں شاہ نم نے کس طرف اشارہ کیا تھا۔
عشیرہ نے آنکھیں بند کر کے گردن جھٹکی پھر بولی۔
کیا کہہ رہے ہو...؟
ادھر دیکھو عشیره .......؟
شاہ نم نے ایک طرف اشارہ کیا اور عشیرہ کی نگاہیں اس طرف آٹھ گئیں ۔ لیکن دوسرے لمحے اس کے ہاتھ پاؤں کی جان نکل گئی۔ وہ بدحواسی میں شاہ نم کے پاس سے ہٹ گئی۔ اس نے جو کچھ دیکھا تھا وہ اس کی روح جسم سے نکال لینے کے لئے کافی تھا۔ بڑے گیٹ کے پاس مشیره خالہ کھڑی ہوئی ادھر ہی دیکھ رہی تھیں۔
ان کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔
پھر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور تیزی سے واپس اندر جانے کے لئے مڑ گئیں۔
عشیره گری پڑ رہی تھی۔ یہ جو کچھ ہوا تھا وہ اس کی موت کے لئے کافی تھا۔ وہ جانتی تھی کہ بیچارہ ڈرائیور بھلا مشیرہ بیگم کے مقابلے میں کیا کر سکےگا مشیرہ بیگم سب سے پہلے طاہرہ بیگم کو سب کچھ بتائیں گی اور پھر
معظم علی کو بمشکل تمام اس کے منہ سے نکلا۔
ہائے ............... میرے مالک ...........! اب کیا ہوگا؟
عشیرہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔
شاہ تم نے اسے دیکھا پھر بولا ۔
بار بار کہتا ہوں عشیره...! کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم فکر مت کرو۔ نہ جانے کیوں تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے ؟ تم بالکل فکر مت کرو! سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہی ہوگا۔ جب تم نے معاملات مجھ پر چھوڑ دیئے ہیں تو پھرتمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھ پر اور اپنے آپ پرمکمل اعتیاد کرو۔ اصل میں تم اس قدر معصوم ہو کہ کبھی کبھی مجھے دکھ ہونے لگتا ہے کہ میں تمہیں کتنی تکلیف دے رہا ہوں۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے شاہ نما تم ان لوگوں کو نہیں جانتے۔.............
زندہ دفن کر دیں گے مجھے....؟
"خدا کے لئے ایسی باتیں مت کرو عشیره! مجھے ایسے کسی عمل پر آمادہ مت کرو کہ ان لوگوں کو میرے ہاتھوں کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ کیوں میری موت کا سامان کر رہے ہو شاہ نم؟ کیوں میریموت کا سامان کر رہے ہو...؟
عشیره سسکیاں لیتی ہوئی بولی۔
تمہاری موت کا سامان نہیں عشیره! بلکہ دونوں کی زندگی کا سامان کر رہا ہوں۔ جاؤ ............! پورے بھروسے اور اعتماد کے ساتھ واپس جاؤ ....! حالات جیسے بھی ہوں، مجھ سے ملنا بند مت کرنا۔ ورنہ میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ باقی جہاں تک ان لوگوں کا معاملہ ہے، اگر تم اتنی سادہ لوح نہ ہوتیں تو بہت کچھ تمہاری سمجھ میں آسکتا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
میں جا رہی ہوں .................؟
عشیرہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
”جاؤ...........
! پورے اعتماد کے ساتھ...! خدا حافظ .............
شاہ نم بولا اور وہ کانپتی کا نپتی اندر چل پڑی۔
یہ شاہ تم اس گھر میں ڈرائیور ہے۔ بھلا وہ لوگ بیچارے کو کیا خاطر میں لائیں گے؟ پاگل ہو رہا ہے میرے لئے ....! میرے دل میں بھی تو اب جینے کی امنگ پیدا ہوگئی ہے۔ جب اس سے ملتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی اسی وقت شروع ہوئی ہے۔
آہ ! کیا ہوگا ہم دونوں کا مشیرہ بیگم نے جو قیامت ڈھائی
ہوگی وہ آخری حد تک پہنچ گئی ہوگی۔ طاہرہ بیگم کی خونی آنکھیں مجھے دیکھیں گی اور میں پانی پانی ہو جاؤں گی۔“
لیکن کچھ نہ ہوا ۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا.... وہ پریشان ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دوسرے دن اسے شدید بخار چڑھ گیا۔ ناشتہ وغیرہ تو اب اسی طرح تیار ہو جاتا تھا کہ اسے ہاتھ بھی نہ لگانا پڑتا تھا۔ یہ سارے کام کون کرتا ہے۔؟“
کبھی اس کی نگاہوں میں نہیں آ سکا تھا۔ بس سوچتی ہی رہ جاتی تھی۔۔ کبھی بھی وہ یہ بھی سوچتی تھی کہ الله مظلوموں کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، غیب
سے ہی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا سوچا جا سکتا ہے؟
دوسری صبح وہ بخار کے عالم میں ناشتہ لے گئی ۔ لیکن مشیرہ بیگم نے کوئی غضب نہ ڈھایا تھا۔ ابھی تک کسی کے چہرے یا انداز میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی اور وہ یہ سوچتی رہی تھی کہ اگر مشیرہ بیگم نے طاہرہ بیگم ہی کو بتا دیا ہوتا تو طاہرہ بیگم اتنی گہری نہیں تھیں کہ بات کو چھیا جا تیں۔
بہر حال یہ ساری باتیں اپنی جگہ تھیں۔ لیکن دوسری دو پہر وہ املی کے درخت کے پاس نہیں جاسکی۔ جبکہ اب یہ اس کا معمول ہوگیا تھا۔ اسے اب بھی بخار تھا۔ دوپہر کا وقت تھا اور وہ بری طرح بے چین تھی کہ اچانک ہی دروازہ
کھلا اور شاہ نم اس کے کمرے میں گھس آیا۔ وہ بری طرح اچھل پڑی تھی۔
کیا کر رہے ہو شاه نم...! خدا کے لئے باز آجاؤ ............ میں مر جاؤں گی ۔۔۔اور مجھے یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ تمہیں بخار آ گیا ہے۔ چلو میرے ساتھ آؤ................!‘‘
کہاں ............ شاه نم...؟
شاہ نم اس کی کلائی پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے شاہ نم کے ساتھ چل رہی تھی۔ اچانک اس نے سامنے سے نظم اور نثر کو آتے ہوئے دیکھا۔ اس کے پاؤں بے جان ہوگئے تھے۔ نظم اور نثار اسی طرف آرہی تھیں۔ شاہ نم نے اسے سنبھالا اور بولا ۔
سنبھالو خود کو عشیره............!سنبھالو............؟“
”وہ........... وو دونوں... وہ دونوں اسی طرف آ رہی ہیں ... اسی طرف آرہی ہیں وہ دونوں............؟
نہیں آئیں گی۔ وہ تمہیں نہیں دیکھ سکتیں دیکھو وہ دوسری جانب مڑیں۔نظم اور نثر ایک طرف مڑ گئی تھیں۔ ایسا لگ رہا۔تھا جیسے ان کے اس طرف جانے میں ان کی قوت ارادی کودخل نہ ہو لگ رہا تھا جیسے وہ ادھر ہی آرہی ہوں لیکن ان کا رخ بدل گیا تھا۔ وہ حیران رہ گئی۔
"یہ کیا ہوا؟یہ تو ادھر ہی آرہی تھیں ، -
عشیره! شاہ تم پر بھروسہ کرنا سیکھ لو...! سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔چنانچہ وہ اسے ساتھ لئے ہوئے وہاں آگیا جہاں اس نے دور سے طاہرہ بیگم اور مشیرہ بیگم کو دیکھا تھا۔ دونوں اس راہ داری کی چھوٹی دیوار کے پاس ایسے چھپی ہوئی تھیں جیسے چوری کر رہی ہوں۔
وقفے وقفے سے وہ گردن اٹھا کر اس طرف جھانک لیتی تھیں جہاں املی کا درخت تھا۔ مگر وہ جگہ اب تک سنسان پڑی ہوئی تھی۔ مشیرہ اور طاہرہ بیگم کو دیکھ کر ایک بار پھر عشیره نڈھال ہونے گئی تو شاہ نم نے کہا۔
وہ لوگ ہمیں تلاش کر رہے ہیں ...... کیا سمجھیں ؟ اگر جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں ان کے کمرے میں لے چلوں ... “
تمہیں خدا کا واسطے شاہ نم تمہیں خدا کا واسطہ..... میرا دل نکل جائے گا۔ میری تو سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی مشیره خالہ نے اب تک طاہره بیگم کو کیوں نہیں بتایا ہے ؟ اور اگر بتایا ہے تو انہوں نے ابھی تک اس کا نوٹس کیوں
نہیں لیا............؟
تم بلاوجہ ڈر رہی ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں؟ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ جب بھی وہ تمہارے خلاف کچھ کرتی ہیں، ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔ میں تو اسے اللہ کا کرشمہ سمجھتی ہوں۔ اللہ کو میری بے بسی پر رحم آگیاہے۔ پتہ نہیں یہ سب کیسے ہو جاتا ہے ؟ میں تمہیں کیا بتاؤں شاہ نم ........!
میرے ساتھ بڑے عجیب وغریب واقعات پیش آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ تم پر اللہ کا کرم ہے۔“
شاہ نم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ پتہ نہیں کس طرح مشیرہ بیگم نے جو کچھ دیکھا
تھا، اسے اپنے دل میں رکھا تھا۔ حالانکہ یہ ان کی فطرت نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے صبر کیا تھا، برداشت کیا تھا۔ البتہ دوسرے دن وہ وقت پر طاہرہ بیگم کے پاس پہنچی تھیں۔
”طاہرہ بیگم۔۔۔۔ کہی بات پرائی ہوتی ہے۔ عزت دو منٹ میں جاتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ پہلے بات کو تولو پھر بولو۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی چھوٹا منہ بڑی بات ہو جاتی ہے۔
"توبه توبه! باجی...! آج تو یوں لگتا ہے جیسے آپ نے
محاوروں کی کتاب کھول لی ہے۔
ارے طاہرہ۔۔ میرا ہی جانتا ہے رات بھر میرا سینہ کھولتا رہا ہے۔ پتہ نہیں کتنی مشکل سے یہ آگ برداشت کی ہے ؟ لیکن بی بی! کچھ کہتے ہوئے ڈر ہی لگا مجھے کہیں ایسا نہ ہو آنکھوں والی ہو کر اندھی کہلاؤں....تم ذرا تیار ہو جاو تھوڑا سا وقت گزر جانے دو.... دھوپ چڑھ جانے دو پھر
میں تمہیں ایک تماشا دکھاؤں گی۔
" کیا تماشا مشیرہ باجی...........؟ کچھ اتہ پتہ تو دیں....؟
طاہرہ بیگم نے کہا۔
، بی بي ............... پہلے آنکھوں سے دیکھ لو۔ اس کے بعدعمل کرو۔۔۔مشیرہ بیگم اسی طرح پہیلیاں بجاتی رہیں۔
پھر وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے عشیرہ کو شاہ نم کے ساتھ دیکھا اور وہ طاہرہ بیگم کو لے کر چل پڑیں۔
مشیرہ باجی بات کیا ہے ؟ کچھ بتائیے تو سہی
مشیرہ نے کہا۔۔۔ابھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
(جاری ہے)۔۔

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 8 پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں