شیطانی گڑیا ۔ از نازیہ شازیہ ۔ مکمل کہانی

شیطانی گڑیا
از نازیہ شازیہ
مکمل کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے واہ یہ گھر تو بہت خوبصورت ہے،زویا نے اپنے بابا سے کہا ،مجھے خوشی ہوئی بیٹا کے آپ کو یہ گھر پسند آیا ،بلال نے اپنی بیٹی زویا سے کہا،مسٹر زید کا پورا کنبہ آج اس 10 کنال کی کوٹھی میں شفٹ ہوا تھا ،مسٹر زید کے تین بیٹے تھے مزمل سب سے بڑا اس سے چھوٹا بلال اور سب سے چھوٹا زین ان تینوں بھائیوں کی ایک ہی اکلوتی بہن ثانیہ تھی جس کی طلاق ہو گئ تھی ،طلاق ہوجانے کے بعد ثانیہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی ،تینوں بھائی شادی شدہ تھے،مزمل کی ایک بیٹی سارا تھی اور ایک بیٹا سعد،بلال کی ایک ہی بیٹی زویا تھی اور زین کا ایک بیٹا تھا فہد ،سب بچوں کی عمر میں سال دو سال کا فرق تھا ،سب سے بڑی سارا تھی جس کی عمر 14 سال تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی یہ دیکھیں مجھے کیا ملا ،زویا خوشی سے چلاتی ہوئی اپنی امی کی جانب آرہی تھی اس نے ہاتھ میں ایک گڑیا پکڑی ہوئی تھی ،دیکھنے میں وہ گڑیا کافی خوبصورت تھی ،اس کے سنہرے بال گورا رنگ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے ،بیٹا یہ آپ کو کہاں سے ملی مسز بلال تجسس آمیز لہجے میں زویا سے پوچھ رہی تھیں ،امی وہ جو سامنے بڑا سے درخت ہے نا اس کے نیچے یہ پڑی ہوئی تھی ،زویا نے جواب دیا ،بیگم صاحب مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کسی جن بھوت کی کارستانی ہے آپ اس گڑیا کو باہر پھینک دیں ،رضیہ مداخلت کرتے ہوئے بولی ،رضیہ ایسا کچھ نہیں ہوتا تم جا کہ اپنا کام کرو ،رضیہ منہ بنا کہ چلی گئ،امی کیا میں اسے رکھ لوں ،زویا نے اپنی امی سے پوچھا ،ہاں بیٹا جاؤ اپنے کمرے میں رکھ لو ،مسز بلال نے جواب دیا لیکن ان کہ چہرے پر حیرت اور تجسس کہ ملے جلے آثار واضح طور پر نظر آرہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کہ تقریباً تین بجے جب سب سو رہے تھے ،زویا کے کمرے کا دروازہ خود بخود کھل گیا ،اور سامنے شیلف پر رکھی ہوئی گڑیا کی آنکھیں چمکنے لگیں ،پھر ایک ناقابل یقین منظر سامنے آیا ،اس گڑیا میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ شیلف سے خود نیچے اتر گئ اور کمرے سے باہر کی جانب چل دی،ٹی وی لاؤنج میں آکر وہ گڑیا ایک کرسی پر بیٹھ گئ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس گڑیا کہ اندر سے ایک سایہ نکل کر کھڑا ہوگیا پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں ان سب کی شکل بہت ہیبت ناک تھی ،ایک بہت لمبے قد کی عورت تھی جس کے لمبے لمبے بالوں نے اس کو ڈھانپ رکھا تھا،ایک خوفناک عورت جس کی آنکھیں باہر لٹک رہی تھیں اور ان میں سے خون نکل رہا تھا ،ایک خوفناک عورت جس کا سر آگے کی طرف تھا اور دھڑ پیچھے کی طرف تھا ،ایک عورت جس کے ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے تھے اور ایک عورت جس کا منہ کھولآ ہوا تھا اور اس میں سے خون رواں تھا ،ان سب نے ایک اونچا قہقہ لگایا
پھر وہ سب اچانک غایب ہو گئے ،گڑیا کی آنکھوں میں ایک بار پھر روشنی پیدا ہوئی وہ کرسی سے اٹھی اور ثانیہ کے کمرے کی جانب چل دی ،ثانیہ خوابوں کی دنیا کا سفر کر رہی تھی کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئ ،اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے کمبل میں کوئی اور بھی ہے وہ فورا بیڈ سے اتر گئ ،پھر وہ ہمت کر کے آگے بڑھی اور کمبل کو بیڈ سے کھینچ کر نیچے گرا دیا پر بیڈ پر کوئی نا تھا ،یکدم ثانیہ کو بیڈ کے نیچے سے رونے کی آواز آنے لگی،ثانیہ کانپنے لگی اور کمرے سے باہر کی جانب دوڑ لگا دی پر کمرے کا دروازہ بند تھا اس نے بہت کوشش کی پر دروازہ نا کھلا ،رونے کی آواز مسلسل بڑھتی جا رہی تھی ،ثانیہ بہت چیخی چلائی بہت دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ ویسے کا ویسے ہی جام رہا ،کمرے کا بلب اب بند ہوگیا ،پھر چل گیا ،پھر بند ہوگیا ایسا مسلسل ہونے لگا ،ثانیہ کا کلیجہ منہ کو آگیا ،بلب اب مکمل طور پر بند ہوگیا جب کہ رونے کی آواز بہت تیز ہوگئی ثانیہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اس کے کانوں کا پردہ پھٹ جاۓ گا ،اچانک رونے کی آواز بند ہوگئی ،تھوڑی دیر بعد بلب بھی چل گیا ،ثانیہ نے چاروں اطراف نظر گھما کر دیکھا پر اسے کچھ بھی نظر نہیں آیا ،پھر ثانیہ نے ہمت کی اور بیڈ کی جانب چل دی ،بیڈ کے قریب پہنچ کر ثانیہ بیڈ کہ نیچے جھکی پر نیچے تو کچھ بھی نہیں تھا ،جیسے ہی ثانیہ اوپر اٹھی تو اس نے ایک دل دہلا دینے والا منظر دیکھا ،ایک عورت جس کے لمبے لمبے بالوں نے اسکو ڈھانپ رکھا تھا بیڈ پر بیٹھی تھی اس نے اپنے ہاتھوں میں وہی گڑیا پکڑی ہوئی تھی ،وہ عورت اونچی اونچی رونے لگی جبکہ وہ گڑیا اونچی اونچی گانا گانے لگی ،ثانیہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے اور رونے لگی ،پھر ثانیہ بیہوش ہوگئی ،سورج کی کرنیں جب ثانیہ کی آنکھوں پر پڑی تو اسکی آنکھیں کھل گئیں ،صبح ہوگئی تھی اور ثانیہ فرش پر پڑی تھی ،ثانیہ کہ دماغ میں رات والا واقعہ گردش کرنے لگا ،ثانیہ فورا اٹھی اور باہر کی جانب بھاگی اور زویا کے کمرے میں پہنچ گئ زویا اپنی اسی گڑیا سے بیٹھی کھیل رہی تھی ،ثانیہ نے زویا کے ہاتھوں سے وہ گڑیا کھینچی ،پھپھو یہ کیا کر رہی ہیں چھوڑیں میری گڑیا کو ،زویا اونچی اونچی رونے لگی ،مسز بلال کو زویا کے رونے کی آواز آئ ،یہ زویا کو کیا ہوا ،پارسا زویا کے کمرے کی طرف بھاگی ،کیا ہوا کیا ہوا زویا ،پارسا کمرے میں داخل ہوتے ہی بولی ،امی یہ دیکھیں پھپھو میری گڑیا کھینچ رہی ہیں ،نہیں پارسا بھابھی یہ گڑیا ٹھیک نہیں ہے آپ اسکو باہر پھینک دیں ،ارے چل تو تو ہے ہی صدا کی پاگل دفع ہو یہاں سے پارسا چلائی ،نہیں بھابھی میری بات سنیں ،اس سے پہلے ثانیہ کچھ بولتی پارسا نے ثانیہ کے منہ پر ایک زوردار تماچہ لگایا ،ثانیہ منہ کے بل فرش پر گر گئ ،بلال بلال ،پارسا چلائی ،کیا ہوا شور سن کر بلال آگیا ،دیکھو تمہاری بہن نے میری بیٹی کو مارا ہے اور مجھ پر بھی ہاتھ اٹھایا ہے ،نہیں نہیں بھائی بھابھی جھوٹ بول ۔۔۔۔۔۔،اس سے پہلے ثانیہ کچھ بولتی بلال نے ثانیہ کو پکڑا اور فرش پر گھسیٹتا ہوا اسے اسکے کمرے میں لے گیا ،اور اسے کمرے میں لاک کردیا ،بھائی بھائی میری بات سنیں وہ گڑیا اچھی نہیں ہے اسکو پھینک دیں مگر ثانیہ کی کسی نے نا سنی،ثانیہ کی ماں تو پہلے ہی مر چکی تھی،باپ عیاش قسم کا آدمی تھا ،بھائی اپنی بیویوں کے غلام تھے ،بیچاری ثانیہ کو سارا دن کمرے میں لاک کر دیا جاتا ،بعض اوقات تو اسکو دو وقت کی روٹی بھی نا ملتی ،ثانیہ دروازہ بجاتی رہی روتی رہی مگر کسی نے دروازہ نا کھولا ،صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بھی نا دیا گیا ،بھوک کے مارے ثانیہ بیہوش ہوگئی ،رات کو جب ثانیہ کی آنکھ کھلی تو وہ گڑیا ثانیہ کے سامنے کھڑی تھی
ثانیہ نے جب آنکھ کھولی تو وہ گڑیا سامنے کھڑی تھی ،کیا چاہتی ہو تم ،تمھیں چاہیے کیا ؟؟ ثانیہ چلائی ،وہ گڑیا چپ چاپ کھڑی ثانیہ کو تکے جارہی تھی ،پھر ثانیہ نے جو منظر دیکھا اس نے اس کا دل دہلا کر رکھ دیا ،اس گڑیا نے چھلانگ لگائی اور دیوار پر چڑھ گئ ،پھر اس نے ایک چاقو پکڑا اور اپنے پیٹ میں مارا اس کے پیٹ سے خون رسنے لگا ،یہ دیکھ کر ثانیہ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور رونے لگی ،کچھ دیر بعد ثانیہ کو چکر آۓ اور وہ بیہوش ہو گئ ،اس کی آنکھیں کھلی تو کھانا اس کے پاس پڑا ہوا تھا ،وہ کسی بھوکی بلی کی طرح کھانے پر جھپٹی اور کھانا کھانے لگی پیٹ بھرنے کے بعد ثانیہ کہ ذہن میں گڑیا والا واقع ایک مرتبہ پھر گردش کرنے لگا ،اسے گھر والوں کی بہت فکر تھی ،اس کے ذہن میں کسی عامل سے رجوع کرنے کا خیال آیا ،لیکن اس کے پاس کسی عامل کا نمبر بھی تو نہیں تھا ،نا ہی اس کے پاس موبائل تھا ،پھر اس کہ ذہن میں خیال آیا کہ وہ living room میں رکھے ہوئے لیپ ٹاپ میں کسی عامل کو تلاش کر سکتی ہے ،اس نے دروازہ دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا،اس نے ہاتھ میں کاپی پکڑی اور لیونگ روم کی جانب چل دی ،لیپ ٹاپ میں سے اسے 2 سے 3 عامل کا نمبر مل گیا تھا ،لیپ ٹاپ کے پاس ہی کسی کا موبائل پڑا ہوا تھا جو ثانیہ اٹھا کر اپنے ساتھ کمرے میں لے گئ ،لیونگ روم سے نکلتے ہوئے ثانیہ کو مسز مزمل نے دیکھ لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تقریباً ایک بج رہے تھے پارسا بھابھی کو پیاس لگی ،لیکن پاس رکھے ہوئے جگ میں میں پانی نہیں تھا لہٰذا وہ پانی پینے کے لئے باورچی خانے کی طرف چل دیں ،پانی پی کر جیسے ہی پارسا واپس مڑی تو زویا کی گڑیا سامنے شیلف پر بیٹھی ہوئی تھی ،زویا نے اپنی گڑیا کہاں رکھ دی ،پارسا بولی ،ابھی وہ گڑیا کو اٹھانے ہی لگی تھی کہ گڑیا خود بخود ہنسنے لگی ،پارسا نے جب غور کیا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ اپنی پلکیں بھی جھپکا رہی تھی ، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟؟ پارسا حیران ہوتے ہوئے بولی ،اچانک اس گڑیا کے آنکھوں سے خون نکلنے لگا ،یہ دیکھ کر پارسا کانپنے لگی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا،گڑیا اب گانے لگی ،گڑیا کے گانے کی آواز تیز ہوتی گئ ،پارسا نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے ،اور ہمت کر کے باہر کی جانب بھاگی مگر کچن کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا ،پارسا کو اپنے کندھے پر کچھ محسوس ہوا پیچھے مڑ کر دیکھنے سے پتا چلا کے وہ کوئی اور نہیں زویا کی گڑیا تھا ،گڑیا نے چاقو نکالا اور پارسا کے گلے پر دے مارا پارسا لرزتے ہوئے نیچے گر گئ اور تڑپنے لگی پھر گڑیا نے پارسا کے گلے سے چاقو نکال دیا تو پارسا کے گلے سے خون کا فوارہ پھوٹ گیا ،پھر گڑیا نے اپنا منہ پارسا کے گلے کو لگا لیا اور اس کا خون پینے لگی جب پارسا کا جسم خون سے اچھی طرح نچڑ گیا تو گڑیا نے گلے کی اس جگہ پر جہاں چاقو مارا تھا وہاں چاقو کی نوک رکھی اور چاقو کو دھکیلتے ہوئے پارسا کا پورا جسم چیر دیا ،پورا گوشت نکل کر باہر لٹکنے لگا،گڑیا پارسا کا گوشت کھانے لگی ،پارسا تو کب کی اس دارفانی سے کوچ کر گئ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کمرے میں آئ بیڈ پر بیٹھی اور ایک کے بعد دوسرے عامل کا نمبر ملایا دونوں ہی نے فون نا اٹھایا ،خوش قسمتی سے تیسرے عامل کا نمبر مل گیا ،دعا سلام کے بعد ثانیہ نے عامل صاحب کو پوری کہانی سنائی،واضح ہے وہ گڑیا سب کی جان لینا چاہتی ہے ،لیکن ایک حیرانی کی بات ہے وہ تمھیں کچھ کہہ نہیں رہی بس ذہنی اذیت پہنچا رہی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے ک وہ تمہاری خیر خواہ تو نہیں پر وہ تمھیں نقصان بھی نہیں پہنچا رہی جس کہ پیچھے کوئی بہت بڑی وجه ہے ،دوسرا یہ کہ تمہارے گھر والوں کو اس سے زیادہ خطرہ ہے ،تم نماز کی پابندی کرو میں جلد تمہارے گھر آنے کی کوشش کرتا ہوں یہ کہہ کر عامل صاحب نے فون بند کردیا،کچھ دیر بعد ثانیہ کے کمرے میں مسز مزمل داخل ہوئی ،کیا چرا کر بھاگی تھی؟؟؟،پاکیزہ بھابھی نے ثانیہ سے سوال کیا ،نہیں بھابھی کچھ نہیں میں وہ بس ،چوری کر رہی تھی تجھے میں بتاتی ہوں ،یہ کہہ کر پاکیزہ بھابھی نے کمرے کا دروازہ بند کردیا ،بھابھی نے پاس رکھا ڈنڈا اٹھایا اور ثانیہ کو مارنے لگی ثانیہ بیچاری مسلسل رحم کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن بھابھی نے ایک نا سنی۔
ثانیہ کو مارنے کے بعد پاکیزہ بھابھی کمرے سے چلی گئ اور ثانیہ بیچاری درد کہ مارے اٹھ بھی نہیں پا رہی تھی اور فرش پر لیٹی کراہ رہی تھی ،تقریباً دو گھنٹے بعد رضیہ ثانیہ کے لئے کھانا لے کر آئ تو ثانیہ کو فرش پر لیٹے دیکھا ،ثانیہ کی آنکھیں بند تھیں ،بی بی جی کھانا لے آئ ہوں کھانا کھالیں ،رضیہ بولی مگر ثانیہ نے کوئی جواب نا دیا ،بی بی جی ،بی بی جی ، کیا ہوا ہے آپ کو ؟؟رضیہ نے ثانیہ کہ منہ پر پانی کہ چھینٹے مارے تو ثانیہ نے اپنی آنکھیں کھول دی ،بی بی جی کیا ہوا تھا آپ کو؟؟ وہ ذرا چکر آگۓ تھے ،بی بی جی میں جانتی ہوں پاکیزہ بی بی نے آپ کو مارا تھا میں نے انکو آپ کہ کمرے سے نکلتے دیکھا تھا،رضیہ ان باتوں کو چھوڑو تم نے زویا که پاس وہ گڑیا دیکھی؟ جی میں نے دیکھی پر مجھے وہ گڑیا کوئی عام گڑیا نہیں لگتی،رضیه نے جواب دیا ،رضیہ تم نے سہی بولا وہ کوئی عام گڑیا نہیں وہ شیطانی گڑیا ہے جو گھر میں موجود سب لوگوں کو مارنا چاہتی ہے پر کوئی بھی میری بات پر یقین نہیں کرتا ،مجھے آپ کی بات پر پورا یقین ہے ،اب آپ روٹی کھا لیں میں چلتی ہوں ،یہ که کر رضیہ کمرے سے باہر چلے گئ اور ثانیہ کھانا کھانے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 9 بجے گھر کی گھنٹی بجی ،ایک عامل صاحب تشریف لاۓ ،جی کون ؟؟ میں احمد ہوں مجھے ثانیہ بیٹی نے بلایا ہے غالباً آپ کے گھر میں شیطانی طاقتوں کا راج ہے ،احمد صاحب مزمل سے مخاطب تھے ،رکیں ذرا ،گارڈ ادھر آؤ ،مزمل چلایا ،اسے دهکے دے کر گھر سے نکالو ،اسکو اندر کیوں اندر آنے دیا ،صاحب میری بات سنیں، آپ بہت بڑی مشکل میں ہیں ،ارے چل چل بہت دیکھیں ہیں تجھ جیسے،مزمل نے سخت لہجے میں کہا ، گارڈ نے احمد کو دهکے دے کر نکال دیا،رضیہ ثانیہ کو بلاؤ ،مزمل چیخا ،جی صاحب بلاتی ہوں ،رضیہ بھاگی گئی اور ثانیہ کو لے آئ،سب گھر والے جمع ہو گئے تھے سواۓ پارسا که ،بدکار کون تھا وہ، احمد وہ بحروپیا تیرا یار ہے نا ،مزمل چلایا ،مزمل میں نے بھی ثانیہ کو کسی سے بات کرتے سنا تھا شاید کوئی احمد نامی آدمی تھا ،یہ سنتے ہی احمد نے ثانیہ که منہ پر تماچہ رسید کیا، نہیں بھائی وہ عامل صاحب ہیں وہ ان کو میں نے ہی بلایا تھا کیوں کیوں که ھمارے گھر میں نا گڑیا ہے ایک وہ وہ ،ثانیہ سے بولا نہیں جارہا تھا،کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ؟؟ سیدھی بات بتا اس مرتبہ زین چلایا ،بھائی ھمارے گھر میں ایک گڑیا ہے اس پر شیطانی طاقتوں کا سایہ ہے آپ کو یقین نہیں تو رضیه سے پوچھ لیں ،ثانیہ نے روتے ہوئے جواب دیا ،صنم (زین کی بیوی) نے رضیہ کو بلوایا ،اب پوچھو اس سے جو پوچھنا ہے صنم بولی ،رضیہ بتاؤ انکو وہ گڑیا شیطانی ہے،ثانیہ نے کہا ،نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ،رضیه نے جواب دیا ،ثانیہ نے رضیہ کی طرف حیرت سے دیکھا ،سن لیا اب ،پاکیزہ بولی ،یہ سن کر مزمل نے بیچاری ثانیہ کو خوب پیٹا ،جبکه پاکیزہ اور صنم پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھیں ،بیچاری ثانیہ کسی لاچار جانور کی طرح مار کھاتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکیزہ آنٹی آپ نے ماما کو کہیں دیکھا ،زویا روتے ہوئے بولی ،نہیں بیٹا میں نے نہیں دیکھا ،پاکیزہ نے جواب دیا ،ماما مجھے نہیں مل رہی ،زویا بولی ،اچھا بیٹا میں دیکھتی ہوں آپ رؤ نہیں ،گھنٹے تک پاکیزہ ،صنم اور سب گھر که نوکر ڈھونڈتے رہے مگر پارسا نہیں ملی ،بلال بھی گھر آگیا تھا ،اچانک چیخ کی آواز آئ ،یہ تو زویا کی آواز ہے ،بلال بولا ،سب نے زویا کے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی ،زویا اندر کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی ،کیا ہوا بچے بلال نے زویا سے سوال کیا ،زویا نے بیڈ کے نیچے اشارہ کیا ،بلال نے جب بیڈ کے نیچے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں پارسا تھی ،عامر نے اسکو باہر نکالا ،ایسا لگ رہا تھا جیسے پارسا کو کسی جانور نے چیر پھاڑ دیا ہو ،پارسا کی بہت بری حالت تھی ،بلال تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا ،ہو نا ہو یہ کام اسی بدکار ثانیہ کا ہے ،صنم بولی ،یہ سنتے ہی بلال ثانیہ که کمرے کی جانب بھاگا ،میری بیوی کو کیوں مارا تو نے بتا ؟؟ بلال نے ثانیہ کے بال کھنچتے ہوئے بولا نہیں بھائی بھابھی کو میں کیوں ماروں گی ،مجھے پتا تھا یہ نہیں مانے گئ بلال بھائی آپ پولیس کو بلاۓ ،پاکیزہ بولی ،نہیں نہیں پولیس کو مت بلانا میں نے نہیں مارا بھابھی کو ،ثانیہ بلال kکے پاؤں میں پڑ گئ ،بلال نے فون کر که پولیس کو بلا لیا اور کچھ ہی دیر میں پولیس آ بھی گئ ،مجھے بچا لیں بھائی ،مجھے بچا لو بھابھی ثانیہ باری باری سب که آگے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی رہی ،میں آپ لوگوں کی باندی بن کر رہوں گی مجھے بچا لیں ،ثانیہ روتے ہوئے بول رہی تھی ،مزمل پولیس کو اندر لے آیا ،یہ ہے قاتل ،مزمل نے ثانیہ کی طرف اشارہ کیا ،چلو لگاؤ اس کو ہتھکڑیاں ،inspector شاہد نے کہا ،پولیس نے ثانیہ کو ہتھکڑیاں لگائی ،میں نہیں جاؤں گئ میں قاتل نہیں مجھے بچا لیں ،ثانیہ روتے ہوئے بول رہی تھی ،مگر کسی نے بیچاری کی ایک نا سنی ،پولیس ثانیہ کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زویا کی گڑیا کو ایک خوفناک عورت نے جس که منہ سے خون ٹپک رہا تھا اپنی گود میں رکھا تھا گڑیا کی آنکھوں سے خون نکل رہا تھا ،جس کرسی پر وہ گڑیا بیٹھی تھی وہ تیز تیز ہلنے لگی ،tv lounge میں لگا فانوس نیچے گر گیا ،فہد جو کمرے میں لیٹا تھا اس که منہ سے خون جاری ہوگیا
ابھی سب کھڑے ثانیہ کا تماشہ دیکھ رہے تھے که tv lounge میں لگا فانوس اپنے آپ ہلنے لگا اور دھڑام سے فرش پر گر گیا سب اچانک پیچھے ہو گۓ ،فانوس کے نیچے سے خون خود بخود نکلنے لگا ،یہ دیکھ کر سب حیران و پریشان ہو گۓ ،کہیں ثانیہ سچ تو نہیں که رہ تھی کے گھر میں شیطانی قوتوں کا ڈیرہ ہے ،پاکیزہ نے سوچا ،نہیں وہ تو تھی ہی جھوٹی،یہ سوچ کر پاکیزہ نے اپنے خیال کو جھٹلا دیا ،مزمل کے فون پر گھنٹی بجی ،جی اسلام علیکم ،فون پر کسی اجنبی کی آواز تھی ،آپ مسٹر زید کے بیٹے بول رہے ہیں ؟؟ جی بول رہا ہوں ،مزمل نے جواب دیا ،کار ایکسیڈنٹ کے با عث مسٹر زید انتقال کر گئے ہیں،کیا ؟ مزمل کے منہ سے یک دم نکلا ،کیا ہوا مزمل ؟؟ پاکیزہ نے پوچھا ،ابو نہیں رہے ،مزمل نے روتے ہوئے جواب دیا ،صنم کو فہد کے رونے کی آواز آنے لگی ،صنم کمرے کی جانب بھاگی ،جب صنم نے دروازہ کھولا تو دل دہلا دینے والا منظر اس کا منتظر تھا ،فہد کے منہ سے خون نکل رہا تھا جس سے پورا بستر تر تھا ،فہد میرے بچے کیا ہوا ،صنم چیخی ،صنم نے فہد کے قریب آکر دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں ،صنم نے فہد کے ناک کے قریب اپنا ہاتھ کر که اس کی سانس کو دیکھا تو فہد کو سانس بھی نہیں آرہی تھی ،زین زین صنم چلائی ،سب صنم کے کمرے کی جانب بھاگے ،کیا ہوا ؟؟ زین نے پوچھا ،صنم نے فہد کی طرف اشارہ کیا ،زین فہد کے قریب گیا اور اس کا معائنہ کیا ؟؟ زین فرش پر بیٹھ گیا اور رونے لگا ،گڑیا کی کرسی تیز تیز ہل رہی تھی اس کی آنکھوں سے خون کے دھارے رواں تھے ،اس کے چہرے پر غصّہ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا ،مسٹر زید کے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا ،ایک ساتھ تین تین جنازے اس گھر سے نکلے بلال، مزمل، صنم اور زین کی حالت بہت بری تھی ،پاکیزہ مسلسل سوچ رہی تھی کے کہیں ثانیہ سچ تو نہیں بول رہی تھی کہیں اسکی بددعا تو نہیں لگ گئی لیکن ہر بار وہ یہ سوچ کر اپنے خیالات کو جھٹلا دیتی کے ثانیہ تو تھی ہی بدکار ،جھوٹی اور مکار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ثانیہ بیچاری رو رو کر دہائیاں دیتی رہی کے اس نے بھابھی کا قتل نہیں کیا ،انسپکٹر ثمینه بولی دیکھ لڑکی ہم تجھ سے سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ،سچ سچ بتا دے ورنہ ہمارے پاس سچ اگلوانے کے اور بھی طریقے ہیں ،مگر ثانیہ ٹس سے مس نا ہوئی ،چلو یہ ایسے نہیں مانے گی اس کی ذرا خاطر تواضع کرو ،انسپکٹر چلائی ،انسپکٹر شاہد ایک جانب کھڑا ثانیہ کو گھور رہا تھا ،لہٰذا ثانیہ کو خوب پیٹا گیا ،ڈنڈوں سے جوتوں سے یہاں تک کے بیچاری کے کوڑے بھی مارے گئے ،ثانیہ روتی جاتی اور اپنی بےگناہی کا ڈھنڈھورا پیٹتی جاتی مگر کسی نے ایک نا سنی ،ہاں بھئی مانی کے نہیں یہ ؟؟ انسپکٹر ثمینه نے سوال کیا مگر جواب نفی میں آیا ،اس کو زندان میں ڈال دو ،دو تین دن وہاں رہے گی خود ہی عقل ٹھکانے آجاۓ گی ،انسپکٹر ثمینه نے حکم دیا اور ثانیہ کو زندان میں ڈال دیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہو چکی تھی گھر میں سناٹے کا راج تھا ،ہر کوئی اپنے کمرے میں بند تھا ،پاکیزہ سعد اور سارا کو کھانا دینے گئی تو کمرے میں صرف سعد تھا سارا نہیں ،بیٹا سعد سارا کہاں ہے ؟؟ پاکیزہ نے پوچھا ،سعد نے کوئی جواب نا دیا اور وہیں بیہوش ہو گیا ،مزمل مزمل پاکیزہ چیخی ،کیا ہوگیا ؟؟ مزمل نے جھنجھلا کر بولا ،دیکھیں سعد کو کیا ہوگیا پاکیزہ نے روتے ہوئے جواب دیا ،اچانک پاکیزہ کے ذہن میں ثانیہ کی باتیں آگئی وہ زویا کے کمرے کی جانب بھاگی ،جیسے ہی پاکیزہ نے زویا کے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا کے زویا اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی اور پیچھے کرسی پر بیٹھی گڑیا کھڑی قہقہے لگا رہی تھی ،پورا کمرہ خون سے بھرا تھا اور جگہ جگہ گوشت کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تقریباً ایک بجے زندان کا دروازہ کھلا اور ایک سپاہی اندر آیا ،چلو ثانیہ بی بی تمھیں انسپکٹر شاہد بلا رہے ہیں ،سپاہی بولا ،ثانیہ نے اپنے زخمی ہاتھوں سے سر پر دوپٹہ اوڑھا اور سپاہی کے پیچھے چل دی ایک کمرے میں ثانیہ کو لے جایا گیا جہاں انسپکٹر شاہد کھڑا تھا ،دیکھو دیکھو کون آیا ہے زھے نصیب زھے نصیب ،شاہد بولا ثانیہ نے اپنا سر نیچے جھکا لیا ،ارے ڈرو مت ہم بھی تمہارے اپنے ہیں ،شاہد ثانیہ کی جانب بڑھا ،دیکھیں دور رہیں مجھ سے میں ایک پاکیزہ عورت ہوں ،ثانیہ کانپتے ہوئے بولی ،انسپکٹر شاہد مسلسل ثانیہ کی جانب بڑھ رہا تھا ،ثانیہ دروازے کی جانب بھاگی مگر دروازہ بند تھا ،دیکھو میری عزت کا خیال کرو تمہارے گھر میں بھی عورتیں ہوں گی ،ثانیہ روتے ہوئے بولی ،ارے جس کے گھر والوں نے اسکی عزت کا خیال نا کیا تو باہر والے خاک خیال کریں گے ،شاہد کا لہجہ بہت کرخت تھا ،وہ جانور ثانیہ کی جانب بڑھا اور اس کا دوپٹہ کھینچ کر نیچے گرا دیا
پاکیزہ نے دیکھا کے زویا کھڑکی میں کھڑی ہے اور تھوڑی پیچھے گڑیا اونچی اونچی قہقہ لگا رہی تھی ،پورا کمرہ گوشت کے ٹکڑوں اور خون سے بھرا ہوا تھا ،پاکیزہ تھوڑا آگے بڑھی تو دیکھا کے ایک ہیبت ناک عورت جس کی آنکھیں باہر لٹک رہی تھی ،اس نے شیشے کا ایک ٹکڑا پکڑا ہوا تھا اور پاکیزہ کی بیٹی سارا کے جسم کے ٹکڑوں کو کاٹ کاٹ کر ان میں سے گوشت نکال کر کھا رہی تھی اور اس کا خون پی رہی تھی ،پاکیزہ لرزتے ہوئے پیچھے ہٹی تو کسی چیز سے ٹکڑا کر نیچے گر گئی ،جب پاکیزہ نے غور کیا تو وہ بلال کا کٹا ہوا سر تھا ، یہ دیکھ کر پاکیزہ کے پسینے چھوٹ گئے ،زویا نے پاکیزہ کی طرف منہ کیا تو پاکیزہ کا کلیجہ منہ کو آگیا ،زویا کے چہرہ بری طرح سے کٹا پھٹا تھا اور گوشت کے لوتھڑے باہر لٹک رہے تھے جن میں سے خون رواں تھا ،یہ دیکھ کر پاکیزہ چیخیں مارتی ہوئی باہر کی جانب بھاگی،اس کو خود پر یقین نہیں ہو رہا تھا ،وہ صنم کے کمرے کی جانب بھاگی ،جیسے ہی صنم کے کمرے کا دروازہ پاکیزہ نے کھولا تو وہاں بھی گوشت کے ٹکڑے اور خون پھیلا ہوا تھا وہ پاگلوں کی مانند چیخ رہی تھی ثانیہ سچی تھی ثانیہ سچی تھی ،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے پھر اس نے سوچا کے مزمل اور سعد کو لے کر وہ یہاں سے بھاگ جاۓ گی ،پھر وہ اس کمرے کی جانب بھاگی جہاں مزمل اور سعد تھے مگر وہاں بھی گوشت کے ٹکڑے اور خون پھیلا ہوا تھا اسے یقین ہوگیا تھا کے کوئی نہیں بچا ،پھر وہ اکیلی گھر سے باہر کی جانب بھاگی لیکن main دروازہ تو جام ہو چکا تھا اس نے بہت زور لگایا لیکن وہ نا کھلا اتفاق سے آج تمام ملازمین کو بھی چھٹی دے دی گئی تھی،پاکیزہ کو کسی کے چیخنے کی آواز آئ ،جیسے ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خوفناک عورت جس کے منہ سے خون رس رہا تھا اور اس کے بڑے اور لمبے نوکیلے دانت تھے ،وہ پاکیزہ کے پیچھے کھڑی تھی اس نے اپنے دانت پاکیزہ کی گردن میں گاڑ دئیے،اور اس کا خون پینے لگی آخر کار پاکیزہ بھی دم توڑ گئی ،پورے زید ہاؤس میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وحشی درندہ ثانیہ کی جانب بڑھا ، ثانیہ اونچی اونچی چلانے لگی بچاؤ مجھے بچاؤ ،یہاں کیا ہو رہا ہے اندر ،انسپکٹر ثمینه چلائی ،انسپکٹر ثمینه نے دروازہ کھولا تو دیکھا کے ثانیہ کا دوپٹہ ایک جانب پڑا ہے اور شاہد کھڑا اپنے ہاتھوں کو مل رہا تھا ،ثمینه آگے بڑھی اور ایک زور دار تماچہ شاہد کے منہ پر مارا ،ثمینه نے ثانیہ کو اس کا دوپٹہ اوڑھایا اور اس کو باہر لی گئی ،شکر ہے انسپکٹر آپ وقت پر پہنچ گئی ورنہ میرا پتہ نہیں کیا ہوتا ،ثانیہ روتے ہوئے بولی ،جس کی حفاظت کا ذمہ اللّه نے لے لیا ہو تو اس کو کوئی کچھ نہیں کہ سکتا ،ثمینه نے ثانیہ کو تسلی دی اور اس کو زندان میں بھیج دیا ،انسپکٹر میں نے کچھ نہیں کیا یہ لڑکی خود آئ تھی میں تو بس۔۔۔۔۔۔،شاہد اپنی صفائی دینے لگا ،ایک اور لفظ نہیں مجھے اصغر نے سب بتا دیا کے کس طرح تم نے اس کو پیسے دئیے تھے کے مجھے کسی کام سے باہر لے جاۓ تاکہ تم ثانیہ کی عزت بے آبرو کر سکو وہ تو شکر ہے کہ اصغر کے دل میں رحم آگیا اور اس نے مجھے سب سچ سچ بتا دیا ،تمھارے خلاف تو میں رپورٹ درج کرتی ہوں ،اصغر اس درندہ صفت انسان کو گرفتار کرو اور جیل میں ڈال کر آؤ ،انسپکٹر ثمینه نے حکم دیا ،اصغر نے شاہد کو ہتھکڑیاں لگائی ،شاہد نے اصغر کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ،اصغر نے منہ نیچے کرلیا اور شاہد کو گرفتار کر کہ جیل میں ڈال آیا ،بیچاری ثانیہ زندان میں بیٹھی دعا کر رہی تھی ،یا اللّه مجھ بےقصور کو بچا لے میری مدد فرما ،میرے گھر والوں کی حفاظت فرما ،بیچاری کو اب بھی اپنے گھر والوں کی فکر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شام کو ثمینه زندان میں آئ، مبارک ہو ثانیہ ،کیا ہوا انسپکٹر؟؟ ثانیہ نے حیرت سے پوچھا ،تمہاری بھابھی پارسا کا پوسٹمارٹم کیا گیا تھا اور اس کے جسم پر ملنے والے finger prints تمہارے نہیں ہیں ،جس سے واضح ہوتا ہے کے قاتل تم نہیں ہو ،تمھیں قتل کے الزام سے با عزت بری کیا جاتا ہے ،ثانیہ کو یقین نا آیا ،وہ رونے لگی اور اس نے ثمینه کو گلے لگا لیا ،ثمینه نے ثانیہ کو خدا حافظ کہا اور ثانیہ جب تھانے سے باہر نکلی تو اسکو عامل صاحب اور اس کا شوہر عادل کھڑے نظر آۓ ،عادل آپ یہاں کیوں آۓ ہیں اب میں آپ کے لئے اور آپ میرے لئے نامحرم ہیں ،ثانیہ کا لہجہ بہت غصّیلہ تھا ،کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں ؟؟ عامل صاحب نے کہا ،جس پر ثانیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ،عامل صاحب اور عادل ثانیہ کو پارک میں لے آۓ آپ دونوں باتیں کریں میں آتا ہوں اور عامل صاحب وہاں سے چلے گۓ ،ثانیہ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ،ثانیہ میں نے تمھیں طلاق نہیں دی یہ سب پاکیزہ باجی کا کیا دھرا ہے ،(پاکیزہ عادل کی کزن تھی)کیا مطلب ،ثانیہ نے حیرانی سے کہا،مطلب یہ کہ ثانیہ تم پاکیزہ آپی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ،انہوں نے مجھے شروع میں بھی بولا کہ میں تمھیں طلاق دے دوں مگر میں نا مانا پھر جب میں چھ ماہ کے لئے امریکہ گیا تو انہوں نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلاق کے جعلی کاغذات تیار کرواۓ ،اور شور مچا دیا کے ہماری طلاق ہوگئی ہے اور اوپر سے تم نے بھی یقین کر لیا ،عادل نے اپنی صفائی دی ،میں آپ کا یقین کیسے کر لوں؟؟ثانیہ نے سوال کیا ،تم ان وکیل سے بات کرلو جنہوں نے یہ کاغذات تیار کیے تھے ،ثانیہ کی عادل نے وکیل صاحب سے بات کروائی اور سب کچھ واضح ہوگیا،ثانیہ یہ تم نے اپنی کیا حالت کر لی ہے،عادل ثانیہ کی حالت دیکھ کر دکھی ہوگیا ، عامل صاحب واپس آگئے ،ہاں بھئی الجھی ہوئی گرہیں سلجھ گئی ،عامل صاحب عادل سے مخاطب تھے جس کے جواب میں عادل نے اثبات میں سر ہلایا ،اچھا عادل مجھے گھر لے چلیں مجھے ابو سے اور بھائیوں سے ملنا ہے ،عادل نے عامل صاحب کی طرف دیکھا ،عامل صاحب ثانیہ سے بولے ،ثانیہ وہ گڑیا ایک شیطان تھا جس پر پانچ شیطانی طاقتوں کا قبضہ تھا ،کیوں کہ تم ایک نیک دل لڑکی تھی لہٰذا وہ شیطان تم پر قبضہ کر کہ تم سے شیطانی کام کروانا چاہتے تھے،لیکن اللّه کی مہربانی دیکھو وہ تمھیں شیطان کے چنگل سے نکال لایا جانتا ہوں کے تمھیں کچھ دن زندان میں اذیت کاٹنا پڑی لیکن اس کے پیچھے بھی اللّه کی بہتری تھی ،بیشک اللّه سب سے بہترین چال چلنے والا ہے ،عامل صاحب بولے ،ثانیہ بہت غور سے عامل صاحب کی باتیں سن رہی تھی ،میرے علم کے مطابق ،یہ بہت پرانی بات ہے ایک جادوگرنی اس گڑیا کو جادو کے لئے استمال کیا کرتی تھی ایک روز جب وہ جادو کر رہی تھی تو اس سے انجانے میں ایک غلطی ہوگئی اور ان شیطانی قوتوں نے مل کر اس جادوگرنی کو مار دیا اور اس گڑیا پر قابض ہوگئی اور اس گڑیا نے نا جانے کتنے قتل کیے ہیں اور بہت افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کے تمہارے گھر والوں کو بھی اس نے مار دیا اور زویا گڑیا کے ساتھ نا جانے کہاں غائب ہوگئی ،یہ سننا تھا کہ ثانیہ بیہوش ہوگئی ،جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی اور عادل اس کہ قریب بیٹھا سوگیا تھا ،ثانیہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں جن میں سے آنسو رواں تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تین سال بعد)
ثانیہ اور عادل نے دوبارہ اپنا گھر بسا لیا اور اب ان کے پاس اللّه کی نعمت بھی ہے اور رحمت یعنی ایک بیٹا اور ایک بیٹی ،ایسا نہیں کہ ثانیہ اپنے گھر والوں کو بھول گئی وہ اکثر ان کو یاد کر کے رویا کرتی تھی حالاں کے اس کے گھر والوں نے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے لیکن اس نرم دل لڑکی نے کبھی بھی اپنے دل میں اپنے گھر والوں کے لئے نفرت کو جگہ نا دی ،ثانیہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی اس کی آنکھیں نم ہوگئی جب اس نے یہ آیت پڑھی
انا اللّه مع الصبرین

بیشک اللّه صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

ثانیہ نے قرآن مجید کو چوم لیا اور زارو قطار رونے لگی ،عادل پیچھے کھڑا ثانیہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زید ہاؤس کو ثانیہ نے بیچ دیا ،ایک نیا خاندان اس گھر میں آگیا ،گڑیا درخت کے نیچے بیٹھی مسکرا رہی تھی ،اسی نۓ خاندان کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بچی آمنہ نے آکر اس شیطانی گڑیا کو اٹھا لیا ،امی دیکھیں مجھے کیا ملا ہے ،آمنہ چلائی، آمنہ گڑیا کو اندر لے گئی گڑیا کو نہیں شیطان کو
(ختم شد)
(تو کیسا لگا آپ کو ناول اپنی راۓ سے آگاہ کریں)
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں