دیوانی چڑیل - مکمل اردو کہانی - ہوش اڑانے والی کہانی

مکمل اردو کہانی
دیوانی چڑیل
ہوش میں آتے ہی وہ جود کو ایک کمرے میں دیکھتا ہے اُس کمرہ میں اُسکے علاوہ ایک شیشہ ہوتا ہے اور باقی سارے کا سارا کمرا خالی ہوتا ہے وہ خود کو اُس شیشے میں دیکھتا ہے ۔ دیکھتے ہی وہ بہت حیران ہو جاتا کہ اُس نے سفید رنگ کا چوڑیدار پاجامہ اور کُڑتا پہنا ہوتا ہے اور وہ اُس میں بےحد جو صورت لگ رہا ہوتا ہے اُس کی خوبصورتی اُس کے سر پر جو ہلکے ہلکے گنگرلے بال اور آنکھوں میں سُرمے کی ایک لہر اُسے اور ب خوبصورت بنا رہی تھی۔وہ خود کو شیشے میں دیکھ رہا تھا اُسے لگ رہا تھا کہ وہ ایک شہزادہ ہے۔ وہ ابھی خود کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک آواز آتی ہے وہ آواز بہت سوریلی کہے لے یا عاشق بنا دینی والی بےحد خوبصورت آواز تھی۔ یہ آواز اُسے اُس کمرے میں سے آرہی تھی وہ اُس آواز کو اِدراُدر ڈھونڈھنے لگا پر آواز تو آرہی تھی پر کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک دم اُس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا تو وہ ڈرتا اور موڑ کر دیکھتا ہے تو ایک انتہا سے ذیادہ خوبصورت پری جیسی ایک لڑکی سامنے آتی ہے وہ اُس کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے اور اپنے قدم پیچھے کی طرف لیتا ہے وہ اُس کی طرف بڑتی ہے اور کہتی ہے حمزہ ڈرو نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہو گی۔ حمزہ ڈرتا ہے اور کہتا ہے کون ہو تم اور میں یہاں کیسے آیا مجھے کچھ یاد کیوں نہیں یے۔ حمزہ میں تمہیں یہاں لائی ہو میں تمہیں پسند کرتی ہو تمہارے بینا نہیں رہے سکتی ہوں ۔ حمزہ اُس کے آگے روتا ہے اور کہتا ہے پلیز مجھے جانے دو میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہو گے مجھے جانے دو۔ وہ حمزہ کو کہتی رہی میرے ساتھ رہو میں تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہو میں تمہیں بہت پیار کرتی ہو تم صدا خوش رہو گے میرے ساتھ میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دو گی پر حمزہ نہیں مانتا پھر وہ اُسے کہتی ہے کہ ٹھیک ہے میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دو گی پر تمہیں چھوڑ گی نہیں۔ حمزہ آنکھے بند کر کے کھلتا ہے تو وہ خود کو گھر کے سامنے دیکھتا ہے اور پھر گھر والوں سے ملتا ہے اُس کے گھر والے بہت پریشان ہو رہے تھے اُس ایک دم دیکھ کر اُس کی ماں اُسے چومتی ہے اور گلے لگا کر خوب رَو رہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہا چلے گے تھے تم حمزہ ہم تمہیں 3 دن سے تلاش کر رہے ہے پر تمہارا کوئی پتہ نہیں تھا شکر ہے اللہ پاک کا کے تم ٹھیک ہو اور ہمارے سامنے ہو۔ اُس کی ماں اُسے کہتی ہے بیٹا اب تم گھر سے باہر نہیں جاؤ گے صرف گھر پر ہی رہو گے 3 دن بعد تمہاری شادی بھی ہے
حمزہ اپنے والدین کا اکیلا اکیلا بیٹا تھا اُس کے والدین اُس سے بہت پیار کرتے تھے اُس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ حمزہ بچپن سے ہی نہایت لائک اور خوش اخلاق کا ملک تھا ۔ حمزہ کے والد کپڑے کی چھوٹی سی دوکان چلاتے تھے وہ ایک ایماندار دکاندار تھے اس لیے بہت سے لوگ انہیں اچھا مانتے تھے۔ حمزہ نے اچھی تعلیم کی اور اپنے والد کے ساتھ ان کے کام میں ہاتھ بھی بٹھاتا تھا۔ حمزہ نماز کا پابند تھا اور جب وہ کسی سے ملتا تو اُس سے بے حد خوش اخلاقی سے بات کرتا اور جو بھی اُس سے ایک بار ملتا وہ اُس سے دوسری بار ضرور ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔ حمزہ نے جس سال اپنے والد کے کاروبار سنبھالا اُسی سال اُس نے اپنی پڑھائی مکمل کی تھی۔ حمزہ کو آرٹ کا بہت شوق تھا وہ بچپن سے ہی آرٹ کی دنیا میں رہا کرتا تھا کبھی کوئی پینٹنگ بنا لی تو کبھی کوئی پینٹنگ بنا لی اب اُس نے آرٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ کہتے ہیں آرٹ کی دنیا بہت بڑی ہے جو اِس میں آکر آرٹ کو سیکھ جائیں تو وہ اُس دنیا کا بادشاہ بھی بن سکتا ہے خیر اپنی کہانی پر آتیں یے۔ حمزہ نے آرٹ کے ساتھ ساتھ درزی کا کام بھی سیکھ رکھا تھا جس میں اُس کی والدہ نے اُس کے ہاتھ میں ایک مہارت ڈال دی تھی اُس نے والد کی دوکان میں نئے نئے سوٹ کے ڈیزائن بنا کر لٹکا دئیے۔ اس سے اُس کے والد کے کاروبار میں کافی ترقی ہوئی اور وہ پہلے کی نسبت اچھا کمانے اور کھانے لگا گئیں تھے۔ حمزہ کو بہت سی کمپنیوں نے کہا کہ ان کے لیے بھی وہ ڈیزائن بنا دیں پر حمزہ نے ناں کرتے ہوئے کہا کہ میں آپکے ساتھ کام نہیں کر سکتا مجھے اپنے والد کی دوکان پر ہی کام کرنا اچھا لگتا ہے نہ کہ کسی اور کے لیے۔ یہ کام مجھے اپنے والد کے ساتھ کرنے سے خوشی ملتی ہے اور جو خوشی والد کے ساتھ کام کر کے ملتی ہے وہ کئی نہیں ملتی ہے اب ان کا کام کافی اچھا ہو گیا تھا اب اُس کے کے والدین کو اس کی شادی کی فکر ہونے لگی۔ وقت گزرتا رہا اور آخر وہ دن آ گیا جس کا حمزہ کے والدین کو انتظار تھا۔
نام ہورین دیکھنے میں پری سے کم نہیں تھی اُس کے گُلابی ہونٹ, بلی آنکھیں اور گنگرالے ہلکے براؤن بال اور وائٹ کلر مانو جو کوئی اسے ایک بار دیکھ لے وہ اُس کا دیوانہ ہو جائے ۔ حمزہ اپنے والدین کے ساتھ اُس لڑکی کے گھر جاتا ہے۔ وہاں جانے کے لئے حمزہ نے نیلے رنگ کا چوڑیدار پاجامہ اور شورٹ قمیض ڈالی ہوتی ہے اور حمزہ اُس میں فل قاتل لگا رہا تھا اتفاق سے ہورین نے بھی نیلے کلر کا پنجابی سوٹ پہنہ ہوا تھا اور ساتھ میں گولڈ کے جھمکے اور لال لپسٹک اور ہلکے سے میکپ میں ہورین بھی آفت لگ رہی ہوتی ہے۔ حمزہ اور حمزہ کے گھر والے وہاں جاتے ہیں ہورین کے گھر والوں کو حمزہ پسند آجاتا ہے اور پھر ہورین کو بلایا جاتا ہے تو ہورین ہورین چائے لے کر آتی ہے اور سب کو کپ دینے کے بعد بیٹھ جاتی ہے حمزہ ہورین کو دیکھتا ہے تو حمزہ کو پہلی نظر میں ہورین پسند آجاتی ہے اور ہورین کو بھی حمزہ پسند آجاتا ہے۔ دونوں کے گھر والے بہت خوش ہوتے ہیں اور 15 دن بعد حمزہ اور ہورین کی منگنی کر دی جاتی ہے دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے اب وہ دونوں زندگی بھر ساتھ رہنا چاہتے تھے ۔ حمزہ کا کام اچھا چل رہا ہوتا ہے کہ ایک دن حمزہ کو شہر سے باہر کام پر جاتا ہے اور جب حمزہ ہورین کو بتاتا ہے تو ہورین کے دل میں پتا نہیں کسی بات کا ڈر آتا ہے وہی ڈر جو ہر لڑکی کے دل میں کچھ ہونے سے پہلے آتا ہے وہی ڈر ہورین کے دل میں بھی آتا ہے۔ ہورین نے حمزہ کو منع کیا کہ آپ نہ جائے مجھے پتہ نہیں کیوں صحیح لگ رہا آپ کا وہاں جانا پر حمزہ کہتا ہے جانا پرے گا جناب بہت ضروری کام ہے ہورین کے بہت منع کرنے پر بھی حمزہ چلا جاتا ہے ہورین بھی دل کی اچھی ہوتی ہے اور جب سے حمزہ گیا ہوتا ہے وہ تب سے ہر روز حمزہ کے لیے دعا کرتی تھی کہ حمزہ جلد اور بلکل ٹھیک واپس آجائیں 5 دن بعد حمزہ واپس آتا ہے اور ٹھیک ہوتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ حمزہ خیریت سے واپس آگئے ہیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہے جب حمزہ وہاں گیا تھا تو 2 دن بعد اُس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اُس نے یہ بات کسی کو بتائی نہیں تھی۔ بس پھر دن گزرنے لگے حمزہ اور ہورین کی شادی کے دن رکھ دیے گے دونوں بہت خوش تھے حمزہ کی طبیعت کبھی کبھی خراب ہوتی اور خود ہی ٹھیک ہو جاتی حمزہ اسے موسم کی خرابی سمجھتہ اور ایگنور کرتا پر حمزہ کو علم نہیں ہوتا کے اُس کی طبیعت کیوں خراب ہو رہی ہے شادی کے دن پاس آتے جاتے ہیں اور حمزہ کی طبیعت اور خراب ہونے لگ جاتی ہے شادی میں ابھی 20 دن باقی رہے جاتے ہیں۔ حمزہ ایک دن ہورین سے ملنے گھر جاتا ہے تو ہورین دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے اور حمزہ سے کہتی ہے کہ جناب اپنا خیال نہیں رکھتے ہیں اور حالت ایسی بنا رکھی ہے جیسے برسوں سے منہ نہیں دھویا۔ حمزہ چھڑتے ہوئے کہتا ہے کہ اب میں خود خیال نہیں رکھو گا جو آنے والی ہے وہ رکھے گی خیال میرا پھر حمزہ شاعرانہ انداز میں کہتا ہے کہ
جب سے دیکھا ہے اُسے ہمیں خیال نہیں ہمارا
جب بھی آئینہ دیکھتے ہے اپنی جگہ وہ نظر آتے ہیں
ہورین کہتی ہے واہ واہ کسی کے عشق میں شاعر بن گے ہیں جناب اور ہمیں علم ہی نہیں۔ حمزہ منہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ کسی کےلیے کا کیا مطلب ہے
ارے جناب ہم عاشق نہیں دیوانے ہیں
اور ہم جس کے دیوانے ہے وہ تو ہمارے ہیں
چلے پھر ملے گئیں جناب
حمزہ گھر آتا ہے آتے ہی اسے اطلاع ملتی ہے کہ اُس کا دوست طلہ اُس کے شہر آرہا ہے یہ وہی دوست ہے جس سے ملنے حمزہ دوسرے شہر گیا تھا اور اب وہ آرہا ہے۔ اگلی صبح حمزہ اُسے لینے جاتا ہے وہ اپنے دوست کو گھر لے آتا ہے اور سب سے ملواتا ہے پھر طلہ تھوڑا آرام کرتا ہے اور فریش ہو کر کھانے کے ٹیبل پر آجاتا ہے۔ طلہ کو یہاں تھوڑا کام ہوتا ہے وہ جب حمزہ سے ملتا یے تو کہتا ہے کہ تم نے اپنا چیک اپ کروایا ہے یہ نہیں حمزہ ٹالتے ہوئے کہتا ہے کہ ہاں ہاں کروایا تھا طلہ اُس کا بہت اچھا دوست ہے اور حمزہ کی رگ رگ سے واقف ہیں طلہ کو حمزہ کے انداز سے لگ جاتا ہے کہ اُس نے چیک اپ نہیں کرایا ہے طلہ اپنے کام کو چھوڑ کر حمزہ کا چیک اپ کرانے لے کر جاتا ہے واہ کیا کمال کا دوست ہے جو اپنا ضروری کام چھوڑ کر دوست کا خیال رکھ رہا ہے ایسا دوست قسمت سے ہی ملتا ہے جیسے طلہ حمزہ کا خیال رکھتا ہے ویسے ہی حمزہ طلہ کا بھی خیال رکھتا ہے واہ کتنی کمال کی دوستی ہے دونوں کی اللہ کرے سب کو ایسے ہی دوست ملے۔ خیر طلہ اور حمزہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور حمزہ کا چیک اپ کرتے ہیں ڈاکٹر کچھ ٹیسٹ کرنے کا کہتا ہے وہ کرواتے ہیں اور ٹیسٹ ٹھیک آتے ہیں حمزہ کہتا ہے طلہ سے کہ دیکھا یار کچھ بھی تو نہیں ہے صحیح ہو بلکل۔ طلہ کو یقین نہیں آتا کیونکہ حمزہ کی ڈالتی صحت کچھ اور بتا رہی ہوتی ہے خیر طلہ حمزہ کی بات مان جاتا ہے اور پھر وہ گھر آجاتے ہیں طلہ کا بھی کام ہو جاتا ہے کام ہو جانے کے بعد طلہ نے واپس جانا ہوتا ہے پھر حمزہ جانے نہیں دیتا کہتا ہے شادی تک یہی رہو ہمارے ساتھ پھر طلہ روکتا نہیں ہے کہتا ہے ٹینشن نہ لے تیری شادی پہ ضرور آؤں گا اور فل ہلہ گلہ کرو گا کہ سارے دیکھے گئیں پر ابھی جانا ہے وہاں بھی بہت کام ہے جو مجھے کرنے ہیں۔ آخر کار حمزہ مان جاتا ہے طلہ کو آئیں 4 دن ہو گئے ہیں اور پانچویں دن حمزہ طلہ کو بس پر چڑھنے جاتا ہے بس اڈے پر پنچ جاتے ہیں اور وہ بس جلدی جلدی پکرنے کے چکر میں وہ ایک بزرگ سے ٹکرا جاتے ہیں وہ بزرگ انھے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹا کہاں جا رہے ہو وہ بزرگ کی بات پر توجہ کیے بغیر جواب دیتے ہیں کہ معاف کیجئے گا ہم ذرا جلدی میں ہے بزرگ کہتے ہیں بات سنو تم میری بہت ضروری بات ہے وہ دونوں منا کرتے پر بزرگ بھی کہتے تم میری بات نہیں سنو گے تو تم یہاں سے جا نہیں سکتے اُن دونوں کو پھر وہاں روکنا پڑا بزرگ کہتے۔
پہلی بات جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے اور تم انسان ہو آرام سے ہر کام کیا کرو اور جب بھی کوئی انسان جلدی میں کام کرتا ہے تو وہ اُس کام میں کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے جس کا پھر اسے نقصان اُٹھنا پڑتا ہے۔
اب تمہارے مُدے کی بات مجھے لگتا ہے تم لوگوں کو میری بہت اشد ضرورت پڑنے والی ہے۔ طلہ ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں آپکی ضرورت کیوں پڑے گی فلحال ہمیں ابھی بس کی اشد ضرورت ہے یہ کہے کہ وہ مڑتے ہیں۔
بزرگ بھی مسکرائے اور کہنے لگے تم ہی میرے پاس بھاگتے آؤں گے اور مدد کا کہو گے کیونکہ اس وقت میں ہی تمہاری مدد کر سکتا ہو گا تو سنو تم میرا پتہ اپنے زین میں بیٹھا لو میں فلاں فلاں جگہ پر رہتا ہوں اور وہی میرا گھر ہے اور تم لڑکے حمزہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم خاص کر اپنا زیادہ خیال رکھنا کیونکہ وہ تمہارے لیے یہاں تک آگئی ہے وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہے یہ کہے کہ بزرگ وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
طلہ حیران اور ایک سوچ میں گھوم ہوتا ہے کہ یہ بزرگ کیا کہے کے گیے ہیں وہ ابھی اسی سوچ میں ہوتا ہے کہ حمزہ اسے ہلتا ہے تو طلہ ہوش میں آتا ہے پھر وہ دونوں بس کی جانب بڑھتے ہیں اور طلہ کو ٹائم کی بس مل جاتی ہے۔طلہ سارے راستے یہی سوچتا ہے کہ وہ بزرگ کون تھے اور انھوں نے ایسا کیوں کہا۔
دوسری طرف حمزہ کے ساتھ بھی ایک حادثہ ہو جاتا ہے ۔
طلہ بس میں جا رہا ہوتا ہے اور پوریے راستے یہی سوچتا رہتا ہے کہ وہ بزرگ کون ہے اور مجھے ایسا کیوں کہے گیے اور حمزہ سے ایسا کیوں کہے رہے تھے کہ اپنا خاص خیال رکھنا کیا اسے کچھ ہونے والا ہے نہیں نہیں کچھ نہیں ہونے والا اور وہ کس کا کہے رہیں تھے کون ہے جو حمزہ کو اپنے ساتھ لے کے جائے گا نہیں نہیں کچھ نہیں ہو گا اللہ پاک سب خیر کرے گا اور حمزہ کو کچھ نہیں ہو گا اور وہ سارے راستے یہی سوچتا رہتا ہے اور یہ سوچتے سوچتے وہ اپنے گھر چلا جاتا ہے۔
دوسری طرف حمزہ بھی گھر جا رہا تھا راستے میں اس کی گاڑی کے آگے ایک بلی آجاتی ہے (یہ گاڑی انہوں نے تب لی جب ان کا کام بہت اچھا ہو گیا تھا) تو حمزہ اس بلی کو بچانے کے لیے گاڑی کا رخ بدل دیتا ہے بلی تو بچ جاتی ہے پر حمزہ کی گاڑی سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا جاتی ہے اور دونوں کو چوٹیں لگتی ہے پر بچ جاتے ہیں اب دونوں ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتے ہیں اب غلطی ناجانے کس کی ہے۔ سامنے سے آنے والا کہتا ہے کہ میری گاڑی کے آگے ایک لڑکی آگئی تھی اُسے بچانے کے لیے میںنے گاڑی موڑی گاڑی زیادہ گھوم گئی اور سامنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی اور حمزہ کی گاڑی کے آگے بلی آگئی تھی اس نے اس لیے گاڑی گھمائی تھی اور یہ حمزہ کی زندگی میں اس کے آنے کی پہلی نشانی یہ ایکسیڈنٹ تھا کیونکہ حمزہ اسے مل جاتا ہے اور اب وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہے ۔ 2 دن میں حمزہ کے زخم کافی حد تک ٹھیک ہو جاتے ہیں پھر حمزہ گھر آجاتا ہے ۔ ہورین حمزہ سے ملنے اس کے گھر جاتی ہے ہورین حمزہ کو زخمی دیکھ کر روتی ہے اور اس کے پاس جاتی ہے اور روتے ہوئے ہاتھ پکرتی ہےاور کہتی ہے کہ جناب آپ اپنا خیال نہیں رکھتے آپ کو اس طرح دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے جے آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا آپ کو پتہ ہے میں آپ کے بینا اب جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہو مجھے اب اپنی ساری زندگی آپ کے ساتھ اور آپ کے پاس رہے کر گزارنی ہے حمزہ ہورین کو اداس دیکھتا ہے تو اسے ہنسنے کے لیے تنگ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
جناب خیال تو دکھتے ہیں پر خیال میں بھی آپ رہتے ہیں
اور جب آپ کو اداس دیکھتے ہیں تو اپنی ہنسی کو بھی بھول جاتے ہیں
ہورین مسکرائی اور کہتی بس کیجیے جے آپ کو میرا اتنا خیال ہوتا تو آپ اپنا خیال ضرور رکھتے اس طرح بستر پر نا ہوتے حمزہ کہتا ہے کہ
جے ہم ٹھیک ہوتے تو آپ کونسا ملنے آتے
چلے اس بہانے آپ ہم سے ملنے تو آئے
ہورین حمزہ سے کہتی ہے کہ: حمزہ بس کیجیے آپ کی شاعرانہ باتیں ہمیں سمجھ نہیں آتی کیا آپ ہم سے سیدھی سیدھی بات نہیں کر سکتے ۔ حمزہ کہتا ہے کہ : سیدھی سیدھی باتیں تو تب کرتا تھا جب آپ کو ملا نہیں تھا اور کسی کا دیوانہ بھی نہیں تھا۔ ابھی عشق کی باتیں ہو رہی تھی کہ حمزہ کی والدہ آگئی۔دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا تھا تو ایک دم سے چھوڑ دیا۔ حمزہ کی والدہ اندر آئی اور مسکرائی اور واپس مڑتے ہوئے بولی شاید میں غلط وقت پر آگئی۔ حمزہ کہتا نہیں نہیں امی آپ آئے۔ حمزہ کی والدہ حمزہ کے لئے سوپ بنا کر لائی تھی آتے ہی ہورین کو سوپ والا برتن پکرا دیںے اور کہا تو اسے یہ سوپ پلاؤں مجھے کام ہے میں چلی۔ ہورین نے کہا پر پر تب تک وہ جا چکی تھی اب حمزہ کہتا: ہاں جی جناب کرو خدمت ہونے والے شوہر کی اور ساتھ ہنسا بھی ۔ ہورین نے بازو پر مارتے ہوئے کہا آپ بھی ناں ۔ ہورین کے بولنے کے بعد حمزہ نے اوچ کی آواز نکلی اور ہورین ڈر گئی اور کہتی کیا ہوا حمزہ کہتا آپ سے عشق ۔ ہورین شرماتے ہوئے بولی آپ باز آجائیں ۔ اس کے بعد وہ دونوں اپنی باتوں میں مگن ہو گے تھوڑی دیر بعد حمزہ کو لگا کہ شاید کوئی انھے دیکھ رہا ہے حمزہ اِدراُدر دیکھتا ہے پر کوئی نہیں ہوتا ہورین کہتی کیا ہوا حمزہ کہتا کچھ نہیں اور پھر شام ہو گئی اور ہورین اپنے گھر چلی جاتی ہے ۔ حمزہ رات سوتا ہے اور ڈر کر اُٹھ جاتا ہے
حمزہ دات کو سوتا ہے تو اس کے خواب میں ایک آواز آتی ہے وہ کسی لڑکی کی آواز ہوتی ہے وہ کہے رہی ہوتی ہے کہ حمزہ تم صرف میرے ہو اور میرے ہی رہو گے تمہارے اور میرے بیچ کوئی نہیں آ سکتا ہے اور جے کسی نے آنے کی کوشش کی تو وہ مرے گا حمزہ یہ سنتے ساتھ ہی ڈر کے اٹھ جاتا ہے حمزہ کو کافی پسینہ آیا ہوتا ہے وہ اٹھتے ساتھ ہی پہلے پانی پیتا ہے۔ پانی پی کر گلاس رکھتا ہی ہے کہ اذان ہونا شروع ہو جاتی ہے حمزہ اٹھتا ہے اور اٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز کے لئے مسجد چلا جاتا ہے نماز پڑھنے کے بعد جب حمزہ واپس آرہا ہوتا ہے تو اسے ایک فقیر ملتا ہے وہ کہتا ہے اللہ کے نام پہ کچھ دی دے بچہ۔پہلے حمزہ ڈر جاتا ہے کیونکہ اتنی صبح صبح کوئی فقیر اسے نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا فقیر پھر کہتا ہے اللہ کے نام پہ کچھ دے بچہ تو پھر حمزہ جیبے چیک کرتا ہے پر پرس نہیں ہوتا ہے وہ کہتا ہے بابا میں اپنا پرس گھر بھول آیا ہو۔ بابا کہتا اچھا بچہ ایک بات کہو ۔حمزہ کہتا جی کہے ۔ بابا کہتا تو اپنے پاس چاہیے کچھ بھی نہ رکھ پر لوہے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور رکھا کر۔ حمزہ کہتا ہے کہ کیوں بابا ۔بابا کہتا ہے کیونکہ بچہ جو میں دیکھ سکتا ہوں وہ تو نہیں دیکھ سکتا اور جے میں تجھے بتا دو تو تو ڈر جائیں گا اور کیا پتہ کہ تجھے پتہ چلنے کے بعد وہ تجھے نقصان پہنچائیں اسی لیے تجھے نہیں بتا رہا ہوں پر ہاں میری بات کو اپنے ذہن میں بیٹھا لے تو کہ اب تو کبھی بھی باہر نکلے تو اپنے پاس کوئی لوہے کی چیز رکھ کر نکلی یہ کہے کہ بابا آگے بڑھ جاتا ہے۔ حمزہ اس بابا سے کچھ پوچھنے کے لیے مُڑتا ہے تو وہاں کوئی نہیں ہوتا ہے تو حمزہ بہت حیران ہوتا ہے اور اس سوچ میں گھوم ہوتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے پہلے کسی کے آواز آنا پھر بابے کا ملنا اور ایک دم سے غائب ہو جانا حمزہ بہت حیران ہوتا ہے اور پریشان بھی اس بابے کی باتیں حمزہ پر اپنا اثر دیکھنا شروع کر دیتی ہے حمزہ گھر سے باہر بہت کم نکلنے لگا اور نکلتا تو اپنے پاس کوئی لوہے کی چیز ضرور رکھتا ہے ایسے ہی تین دن آواز آتی رہی۔ حمزہ کو اب آواز کی عادت ہونے لگی تھی اب آواز کا آنا ایک معمول بن گیا تھا اس لیے حمزہ اس سے ڈرتا نہیں بس اگنور کرتا تھا اب آتے ہیں ہورین کی طرف ۔ ہورین کے عشق میں حمزہ کا دیوانا پن اور اس کے لیے شاعری لکھنا حمزہ جنون بنتا جاتا ہے حمزہ جب بھی ہورین سے ملتا تو کچھ نہ کچھ ضرور سنتا اب جس عشق نے حمزہ کو شاعر بنا دیا اسی عشق نے ہورین کو بھی شاعر بننے پر مجبور کر دیا ایک روز حمزہ ہورین سے ملنے جاتا ہے تو اب دو عشق کرنے والوں کا انذاز دیکھیں۔ حمزہ کو نہیں علم کہ ہورین بھی شاعری کرتی ہے
ہورین شاعری میں اتنی مہارت رکھتی ہے
کہ اپنے عشق کی داستاں ہر روز شاعری میں لکھتی ہے
اے عشق تجھ میں لوگ کیا کر بیٹھتے ہیں
جن کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا وہ بھی شعر لکھ بیٹھتے ہیں
اب دونوں کی ملاقات پر آتے ہیں حمزہ ہورین سے کہتا ہے
جناب آج کل تو ہم سے بات بھی نہیں کرتے
کیا اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ یاد بھی نہیں کرتے
ہورین حمزہ سے کہتی ہے کہ
جناب بات تو اُن سے کرتے ہیں جو دور ہوتے ہیں
جو دل میں بستے ہیں اُن سے تو ہم کلام ہوتے ہیں
اور جناب جہاں تک یاد نہ کرنے کی بات ہے
کوئی کام کرنا بھول جائیں پر آپ کو یاد کرنا نہیں بھولتے ہیں
حمزہ نے پہلی بار ہورین کو شعر کہتے سنا تو حیران ہو گیا ایک پل کے لیے وہ تہم گیا تھا تو ہورین نے ہلا کر جگایا جناب اُٹھیے اور جائیں آپ کو نیچے بولا رہے ہیں
حمزہ اُٹھتا ہی ہے تو ہورین کہتی ہے کہ
جناب آپ کے عشق نے ہم پہ بھی جادو کر دیا
سیدھی سادی آپکی جناب کو شاعر بنا دیا
حمزہ اسکو دیکھ کر مسکراتا ہے اور نیچے چلا جاتا ہے ہورین حمزہ کی مسکراہٹ کو دیکھ کر خوب جھومتی ہے اس کا دل اس کے قابو سے اٹھ کر ہوا میں گھومتا ہے ہورین کو لگتا ہے کہ شاید اسے آج دنیا بھر کی خوش مل گئی ہے
ارے بھائی عشق میں محبوب کا مسکرانا
دنیا کی ہر خوشی سے بڑھ کر ہی ہونا
مسکرا کر آپ کا کچھ نہیں جانا
پر آپ کو جوش دیکھ کر اُن کو سب مل جانا
کیا علم تھا ہورین کو کہ آگے کیا ہونے والا ہے
ہورین بہت خوش تھی پر وہ یہ دیکھ کر خوش نہیں تھی ادر ہورین خوشی میں ڈُوب رہی تھی اور دوسری طرف وہ غم میں۔ پر وہ ہورین کو کچھ کہتی نہیں ہے پر ہاں وہ بہت زیادہ غصے کو خود میں سمیٹ رہی تھی ان کی باتوں سے اسے پتہ چلا کہ حمزہ کو شاعری پسند ہے بہت پھر وہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔ حمزہ بھی اپنے کام میں مصروف تھا وہ وہاں سے اُڑ کر حمزہ کے پاس آجاتی ہے اور حمزہ کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور اپنا سارا غصہ بھول جاتی ہے حمزہ کام کر کے گھر جا رہا ہوتا ہے تو وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر اس کے ساتھ جا رہی ہوتی ہے اور حمزہ کو محسوس تک نہیں ہونے دیتی ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہے یا کوئی اسے دیکھ رہا ہے بس اپنی پیار بھری نظروں سے حمزہ کو دیکھتی رہتی ہے وہ اس کے لیے بہت پاگل ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ حمزہ تم صرف میرے ہو اس کا یہ کہنا ہی ہوتا ہے کہ حمزہ کو یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں اور وہ گاڑی روک لیتا ہے ادر ادر نظر دوڑتا ہے کوئی بھی نہیں ہوتا پھر حمزہ گھر پہنچ جاتا ہے۔ رات سوتا ہے تو روز کی طرح آواز کا معمول ہے پر دیدار کا نہیں پتہ، آج وہ خوب سج دج کر آئی ہے
آج وہ خوب سج دج کر محبوب سے ملنے آئی ہے
مانو انسان کی سجاوٹ کو پیچھے چھوڑ کر آئی ہے
کسی جن کی نگاہ ناں پڑے خود پر
اس انداز میں خود کو لپیٹ کر آئی ہے
رات کا دوسرا پہر حمزہ کے خواب میں وہ آئی حمزہ پہلے ڈر کر اُٹھ گیا وہ سمجھتا ہے کہ کوئی برا خواب ہے اس لیے دعا پڑھ کر پھر سو گیا اب وہ سویا تو اس کی ملاقات ہو گئی اس سے وہ کہتی ہے
ہر روز ملنے کا دل کرتا آپ سے
اور آپ ڈر جاتے ہیں ہم سے
حمزہ کہتا کہ کیا مطلب اور آپ اس طرح کیوں بات کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے
مطلب کیسے بتائیں ہم آپکو
ہر روز تو پکارتے ہیں ہم آپکو
اور
یہ انداز اس لیے اپنایا ہے
کیونکہ یہ اندازِ گفتگو پسند آپکو
یہ سنتے ہی حمزہ اپنی آنکھیں کھول لیتا ہے اور حیران ہوتا ہے وہ کون تھی اور مجھ سے ایسے کیوں بات کر رہی تھی ابھی حمزہ یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ اتنے میں اذان کی آواز آتی ہے حمزہ اٹھتا ہے وضو کرتا ہے وضو کر کے نماز پڑھنے چلا جاتا ہے۔ نماز پڑھ کر گھر آتا ہے اور روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ رات ہو جاتی ہے وہ دن کا تھکاہرا بستر پر گرتے ہی نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔وہ آتی ہے اور اسے تھکاہرا دیکھ کر مسکراتی ہے ساری رات وہی رہتی ہے اس کے بالوں کو سہلاتی ہے اور کچھ یوں کہتی ہے۔
اے محبت تُو کیوں ایسا کرتی ہے
مسکراتا محبوب سب سے خاص رکھتی ہے
دکھی کرنا تو دور کی بات ہے
دکھ کو پاس آنے نہیں دیتی ہے
ایک بار تم مجھے اپنا بنا لو
مینے تمہارے انتظار میں دنیا تمہارے نام رکھی ہے
اس کو وہاں بیٹھے بیٹھے صبح ہو جاتی ہے حمزہ کو اٹھنے اس کی والدہ آتی ہے تب تک وہ جا چکی ہوتی ہے۔ آج بھی روز کی طرح خوب سارے کام کرتا ہے حمزہ اور رات کو آکر پھر سو جاتا ہے وہ پھر آتی ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتی ہے آج حمزہ کے پاس آتے 3 دن ہو جاتے ہیں۔ اب شادی 7 دن باقی ہے آج وہ حمزہ کو دیکھتی ہے مسکراتی ہے اور صبح ہوتے ہی چلی جاتی ہے۔
کیا محبت ہے ناں ایک چڑیل کی ایک انساں سے
نا ہی چھوا اور نا ہی بخار ہوا بس پیار کیا محبوب سے
اگلے روز کام کچھ زیادہ ہو گیا جو اسے پسند نہیں آیا جیسے ہی رات ہوئی حمزہ کمرے میں آیا تو وہ وہاں کھڑی تھی چٹکی بجائی اور حمزہ صاحب بےہوش کیا اور وہ پھر اسے ساتھ لے گئی صبح ہوئی تو حمزہ کی والدہ آئی اور حمزہ کو کمرے میں نہ پا کر شور مچایا اسے بہت ڈھونڈا پر حمزہ ملا نہیں
حمزہ گھر آتا ہے تو اس کو آرام کرنے کا کہتے ہیں وہ سو جاتا دوسری طرف طلہ بھی آجاتا ہے۔ حمزہ جب غائب ہوا تھا تو اس تک یہ خبر پونچ گئی تھی پر کام زیادہ ہونے پر لیٹ آیا جب وہ آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ حمزہ بیمار لگ رہا ہوتا ہے وہ اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے ساری رات وہی اس کے پاس رہتا ہے۔ دوسری طرف چڑیل دکھی ہوتی ہے کیونکہ کہ اس نے حمزہ کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں محبوب تڑپ رہا ہو اور عاشق کو چین آجائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ادر صبح ہوتی ہے حمزہ طلہ کو دیکھتا ہے تو فوراً اٹھتا ہے اور کہتا تم یہاں کیسے۔ تین دن سے لاپتہ تھے تم خبر ہوئی تو کیسے نہ آتا ویسے کہا گے تھے۔ گیا نہیں تھا وہ لے گئی تھی... بس یہ کہتے روک جاتا ہے اور منہ دوسری جانب گھوما لیتا ہے۔ طلہ وہ کون طلہ کے بار بار پوچھنے پر سارا قصہ سنا دیتا ہے۔ پھر طلہ سوچتا ہے کہ کیا کرے اور اب وہ پہیلی سلجھنے لگی جو نہیں سلجھ رہی تھی۔ طلہ حمزہ کو کہتا ہے چل چلے۔ حمزہ کہتا کہا ۔ طلہ کہتا ساری باتیں بعد میں پہلے چل۔ پھر وہ دونوں نکل جاتے ہیں اور طلہ وہاں جا کر گاڑی روکتا ہے جہاں وہ بزرگ کا گھر ہوتا ہے۔ حمزہ یہ کہا آگئے ہم۔ طلہ اور حمزہ اندر جاتے ہیں تو وہی بزرگ وہاں بیٹھے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگے تم میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا آؤں بیٹھو۔ حمزہ دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ ہم کہا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے پتہ ہے کیا معاملا ہے حمزہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ بتاؤں تمہاری طبیعت کب خراب ہوئی ۔ حمزہ بتاتا ہے کہ آج سے چند روز پہلے میں اس کے شہر گیا تھا۔ رات کا وقت تھا ہم بائیک پے تھے۔ تھنڈی ہوا چل رہی تھی مجھے گنگنانے کی بھی عادت تھی ہم جا رہے تھے راستہ سنسان تھا پر موسم اچھا تھا میں گنگنانے لگا اس نے منع کیا پر میں باز نہیں آیا۔ پھر ہم ایک قبرستان کے پاس سے گزرے میں گنگناں رہا تھا کہ اچانک تیز ہوا کا گزر ہوا میں اسے اور اچھا ماحول سمجھ کر اور تیز گنگنانے لگا۔ گنگناتے ہی ہم نے ایک زور دار چیخنے کی آواز سنی اور ہم ڈر گے اور وہاں سے ہم نے بائیک فل تیز اوڑیا اور گھر آ کر بریک ماری رات سو گئے اور صبح یہ اٹھنے آیا تو اس نے مجھے ہاتھ لگایا تو تب مجھے بخار تھا ۔ تب ہم معمولی بخار سمجھ رہے تھے پر آج پتہ چلا کہ وہ بخار کیوں ہوا ۔ پھر بزرگ کچھ پڑھتے ہیں تو حمزہ میں سے ایک سایہ نکلتا ہے۔ بزرگ اس سے بات کرتے ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک چڑیل ہے اس کا نام مریم ہے اور جس قبرستان کے پاس سے تم گزرے یہ وہی تھی اور تمہارا گنگنانا اسے پسند آگیا اور اب یہ تمہاری دیوانی ہو گئی ہے اور کہتی ہے تمہارے ساتھ رہنا ہے۔ طلہ بابا جی اس سے بچنے کے لیے تو آپ کے پاس آئیں ہے۔ بابا پھر کچھ پڑھتے ہیں اور ایک دم اس چڑیل کو ایک کانچ کی بوتل میں بند کر دیتے ہیں۔ حمزہ کو آواز آتی ہے کہ حمزہ تم صرف میرے ہو اور میرے ہی رہو گے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ نےفکر ہو کر گھر جاؤں یہ اب تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔ دونوں گھر کی طرف آرہے ہوتے ہیں کہ طلہ حمزہ کو چھیڑتا ہے کہ بھائی ہمیں ایک نہیں مل رہی اور آپ پے دو دو دیوانی ہے ایک دیوانی انسان اور دوسری دیوانی چڑیل ہاہاہاہاہایایایایایایا۔
پھر حمزہ اور ہورین کی شادی ہو جاتی ہے اور وعدے کے مطابق طلہ خوب لوڈیا ڈالتا ہے۔
حمزہ اپنے کمرے میں جاتا ہے تو ہورین وہاں اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ حمزہ آتا ہے تو ہورین کہتی ہے۔
ہم جناب کا یہاں انتظار کیے جا رہے ہیں
اور جناب کو فرست تک نہیں ہیں
حمزہ کہتا ہے
منتظر تو ہم بھی تھے اپنے چاند کو دیکھنے کے لئے
پر کیا کرے جناب دوستوں نے روک رکھا تھا اپنے لیے
ہورین کہتی
جائیں اور ساری رات دوستوں میں بیٹھ کر گزاریے
یہاں آنے کی اتنی ضہمت کیوں کی آپ نے
حمزہ اچھا چلے غصہ تھوکیے اور مسکرا دیجئے ہمیں اپنا چاند مسکراتا چاہیے
اب ہورین اور حمزہ خوشی خوشی رہے رہیں ہوتے ہیں اور وہاں مریم آزاد ہو جاتی ہے
اب کیا ہو گا ان کی زندگی میں دیکھے سیزن 2 میں۔
آئی ہوپ آپکو سٹوری پسند آئی ہو گی۔ آپ کہے گے تو ہی سیزن 2 لکھو گا اور کب آئیں گا اگلی نئی سٹوری پر بتاؤں گا
شکریہ آپکا سٹوری پڑھنے کے لیے اور اتنا پیار دینے کے لیے
خوش رہیں خوشیاں بانٹتے رہیں اور اپنا خیال رکھیں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں