درویش کامل - قسط 2

 


درویش کامل - قسط 2

1998ء میں اسے ایک دوست نے حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی کے آستانے جامعہ جیلانیہ نادرآباد لاہورمیں بھیج دیا۔ یہ بندگان سیفیہ ایران، افغانستان اور ملک بھر سے آئے ہوئے تھے اور غم یار میں بھوک، پیاس سے بھی بیگانے تھے۔ سیفیت میں اور بالخصوص حضرت مبارک صاحبؒ کے مہمانوں کی خاطر داری کرنا ایک مسلّمہ اصول تھا لیکن اتنی بڑی خلقت کے لنگر کا اہتمام ہسپتال میں کرنا آسان نہیں تھا۔

’’نہیں ہم کریں گے، ہم اپنے محبوب شیخ کے مہمانوں کو تینوں پہر ہی کیا جب بھی مانگیں گے انہیں کھانا کھلائیں گے۔ نہ مانگیں گے تب بھی ان کی خاطر داری کریں گے۔۔۔‘‘ حضرت اخندزادہ مبارک صاحب کے خلفاء کی میٹنگ میں قبلہ پیر محمد عابد حسین سیفی صاحب نے عزم کا اظہار کیا اور پھر خلفاء نے باہمی فیصلہ کے بعد ناشتے، ظہرانے اور عشائیہ لنگروں کو آپس میں بانٹ لیا۔
حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی نے اسی وقت اپنے محبوب مرید و خلیفہ پیر محمد رمضان سیفی کو حکم دیا اور کہا ’میں تمہارے حالات سے واقف ہوں۔ مگر یاد رکھنا، آج جو لوگ حضرت مبارک صاحبؒ کی خدمت کریں گے وہ بھی پچھتائیں گے۔ اور جو محروم رہ جائیں گے وہ ان سے بھی زیادہ پچھتائیں گے۔اگر تم چاہتے ہوں یہ سعادت تمہیں نصیب ہوتو ناشتہ کی ذمّہ داری تمہاری ہے‘‘
پیر محمد رمضان رضوی سیفی نے اپنے شیخ کا حکم سنا تو جذبہ خدمت کے تصوّر سے ہی ان کے باطن میں مٹھاس گھل گئی۔ وہ مجھے بتا رہے تھے ’’چودھری صاحب اپنے شیخ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنا اور پھر دادا مرشد کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا تصوّر میرے لئے ایمان کا درجہ رکھتا تھا۔ حالانکہ اس وقت میرے پاس تین لوگوں کو کھانا کھلانے کے اسباب بھی موجود نہیں تھے۔ کجا تین سو لوگوں کا ناشتہ تیار کرانا اور پھر وہ بھی پرُتکلف، انواع و اقسام کے کھانوں پر مشتمل۔

میرے شیخ حضرت پیر محمد عابد حسین صاحب نے فرمایا تھا’’ دیکھو رمضان۔ حضرت مبارک صاحبؒ کے مہمان دوسرے ملکوں سے بھی آ رہے ہیں اور یہ بہت لاڈلے مہمان ہیں۔ ان کیلئے کھانے میں نان چھولے نہیں چلیں گے۔ حلوہ پوڑیاں، مرغ قورمے، بریانی، آملیٹ، پراٹھے، بریڈمکھن الغرض جو بھی ممکن ہو وہ تیار کرنا ہے۔ کیونکہ حیدری صاحب نے ازراہ تعفن مجھے کہہ دیا ہے کہ پیر صاحب ’’چھولے گھوڑے کھاتے ہیں‘‘۔ لہٰذا کھانے میں صاحبزادگان اور پختون سیفیوں کے ذوق و شوق کو ملحوظ رکھنا ہے۔ افغانی بہت اچھا گوشت کھاتے ہیں، پائے، نہاری، کوفتے، غرض ہلکا پھلکا اور بھاری بھر کم شاہانہ ناشتہ تیار کرانا ہے۔ یہ ہماری آن کا بھی مسئلہ ہے۔ اور ادب و خدمت اور مہمان نوازی کا بھی تقاضا‘‘
میں نے عرض کیا۔ ’’حضور میں حاضر۔ بس آپ استقامت کیلئے دعا فرمائیں‘‘۔ سرکار پیر صاحب نے دست دعا بلند کئے اور خصوصی دعا فرمائی۔
ابو نعمان پیر محمد رمضان سیفی جب اپنے عاجزانہ انداز میں اپنی یادداشتوں کو تازہ کر رہے تھے، قبلہ پیر محمد عابد صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ فرمانے لگے ’’یہ میرا بیٹا سخی، مخلص اور مخدوم ہے۔ اس نے ہم سب کی لاج رکھ لی اور میرے شیخ مبارک صاحبؒ کی خدمت نے اسے شہرت و عزت اور دولت سے نوازا ہے۔ اللہ نے اس کا عجز اور خدمت قبول کر لی‘‘

اپنے شیخ کے مہمانوں کو ہسپتال میں ناشتہ فراہم کرنا بذات خود بہت تفصیل طلب ہے۔
’’ 24 روز تک متواتر، وقت پر شاہانہ ناشتہ تیار کرانے کیلئے ہم رات کو ہی دیگیں چڑھا دیتے تھے‘‘۔ پیر محمد رمضان اپنے مرشد کے خاموش ہونے پر گویا ہوئے۔ ’’میں خالی ہاتھ تھا۔ مرشد کریم نے مجھے ایک بڑا ڈالا (گاڑی) دے دیا تھا تاکہ اس پرناشتہ کی دیگیں اور سامان لے جایا جا سکے۔ میں قرض لیکر اپنے ساتھیوں کی مدد سے ناشتہ کا سامان لیکر تیار کراتا۔ چوبیس روز یہی معمول رہا۔ اس دوران غیب سے میری مدد ہوتی رہی۔ ایک روز میں بیکری میں گیا تو سوچ رہا تھا ۔ ’’یاالہٰی آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ڈبل روٹی، انڈوں کا پہلے ہی کریڈٹ چل رہا ہے۔ اب کس منہ سے بیکری والے سے سامان مانگوں‘‘۔ میں جھجھک رہا تھا، ساتھ سامان بھی لے رہا تھا۔ اس دوران ایک کلین شیو لڑکا چشمہ لگائے بیکری والے کے پاس آیا۔ اور اس نے کہا ’’اس سارے سامان کا بل میں ادا کروں گا‘‘۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔نہ جان پہچان ، اس سے کبھی سلام دعا بھی نہ ہوئی تھی۔ ۔ میں اسے مبارک صاحبؒ کی کرامت سمجھا کہ میرا اللہ میرے لجپال شیخ کے مریدین کو کہیں شرمندہ نہیں ہونے دیتا۔ اس دوران ایسی اور بھی بہت سے کرامتیں ظاہر ہوتی رہیں۔ ایک روز میرے مرشد میرے ساتھ گاڑی میں آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ پیچھے دیگیں اور کھانے کی پراتیں رکھی تھیں۔ جب گاڑی برکت مارکیٹ کے قریب پہنچی تو اچانک سامنے سے آنیوالی گاڑی کی غلطی سے ہماری گاڑی بڑی تیزی سے فٹ پاتھ کی طرف گھوم گئی۔ ایک دم میری زبان سے نکلا یااللہ مدد ۔ اس لمحہ گاڑی فٹ پاتھ پر لگے ایک بڑے سے بجلی کے کھمبے کے پاس یوں جا کر کھڑی ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دیگیں جوں کی توں حالت میں تھیں حالانکہ گاڑی اپنے ٹائروں پر گھوم کر رہ گئی تھی جس سے ہر شے الٹ پلٹ ہو سکتی تھی مگر یہ میرے شیخ کا لنگر تھا۔ اور اس نے خود اپنے لنگر کی حفاظت کر لی تھی

24روز تک زید ہسپتال میں ناشتہ کا فرض ادا ہوا تو حضرت پیر محمد رمضان نے اپنی خدمت کی ادائیگی پر اللہ کے حضور گڑ گڑا کر اس کی مقبولیت کے لئے دعا کی۔ قرض خاصا چڑھ گیا تھا۔ پریشانی تو تھی لیکن گھبراہٹ تھی نہ ایمان میں کمزوری ۔ یقین تھا اللہ کریم اس کے اسباب پیدا فرما دیں گے۔
جس روز حضرت مبارک صاحبؒ شیخ زیدہسپتال سے فقیر آباد واپس آئے تو ہسپتال میں آنے والے ہر مہمان و سالک نے پیر محمد رمضان کی بے لوث خدمات کو سراہا اور حضرت پیر محمد عابد سیفی سے کہتے رہے ’’ اس مرید نے مرشد مبارک کی خدمت کرکے معرفت میں جو مقام پایا ہے اللہ بہت کم کو یہ رتبہ نصیب کرتا ہے‘‘کچھ ممتاز پیران کرام نے تو یہ بھی کہہ دیا’’پیر صاحب یہ مرید آپ ہمیں کیوں نہیں دے دیتے‘‘ ۔
اس پر پیر صاحب فرماتے’’ میرا ہر مرید میرا نہیں بلکہ مبارک صاحب کامریدہے۔رمضان ان مریدوں میں سے ہے جس کے بارے میں سرکار مبارک صاحبؒ فرماتے ہیں کہ یک مرید نر مرید‘‘۔۔۔

صاحبزادہ حیدری صاحب اور صاحبزادہ مولانا حمید جان نے اس موقع پردعا فرمائی۔ ’’اے اللہ پنجاب والوں نے حضرت مبارک صاحب اور آپ کے خاندان و مہمانوں کی جس طرح جان و مال سے خدمت فرمائی ہے بالخصوص حضرت پیر محمد عابد صاحب کے مرید محمد رمضان نے جس جذبے لگن اور خلوص کے ساتھ ناشتہ کی والہانہ پرخلوص ذمہ داری ادا کی ہے اسے قبول و منظور فرما اور اس کے رزق میں وسعت فرما‘‘
صاحبزادگان تو سیف الزبان ہیں۔ ان کی دعاؤں سے عاجز و منکسرالمزاج محمد رمضان کا ذوق طریقت اور بڑھ گیا۔ اس دوران حضرت پیر محمد عابد سیفی صاحب نے پیر محمد رمضان کے اسباق بھی مکمل کرا دیئے تھے اور پھر حضرت مبارک صاحبؒ نے اپنے دست مبارک سے پیر محمد رمضان کو مطلق خلافت سے سرفراز کیا۔

پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے دل میں اپنے دادا مرشد سے ملاقات کی تمنا انگڑائی لیتی رہتی تھی ۔وہ اپنے مرشد سے گزارش کرتے رہتے تھے۔ انہی دنوں حضرت پیر محمد عابدحسین سیفی کے بیٹے مفتی حافظ عرفان اللہ سیفی کی شادی طے ہوگئی تو ان کا نکاح حضرت مبارک صاحبؒ نے پڑھانے کا وعدہ فرمایا۔ نکاح کے روز پیر محمد عابد حسین صاحب نے اپنے چہیتے مریدمحمد رمضان سے کہا ’’چلو بھئی تمہاری فرمائش پوری کر دیں۔ آج عرفان اللہ کا نکاح ہے اور تم بھی ساتھ چلو ۔۔۔‘‘ پیر محمد رمضان کے لیے یہ موقع مسرت انگیز تھا۔ انہوں نے راستے سے گلاب کے پھولوں کی مالائیں خرید لیں۔
حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی نے ان کایہ ذوق دیکھاتو فرمایا ’’محمد رمضان میرے مرشد کی اب طبیعت چونکہ قدرے نازک ہے ۔ آپ کو خوشبو سے الرجی ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہتر تھا کہ تم اصلی پھول کی مالائیں نہ خریدتے۔‘‘
’’جی حضور۔۔۔آپ فرماتے ہیں تو میں دوسری مالائیں خرید لیتا ہوں‘‘ پیر محمد رمضان نے عرض کی۔

’’چلو اب چلتے ہیں۔ اللہ خیر کرے گا۔ میرے مرشد اپنے صادق سالکین کے تحائف کو بخوشی قبول فرماتے اور اپنی ناسازی طبع کو خاطر میں نہیں لاتے ۔۔۔میرے مرشد فرماتے ہیں صادق سالک کا دل توڑنا گناہ ہے، کبر ہے۔‘‘
نکاح کا اہتمام مسجد میں کیا گیا تھا۔ سالکین وسیع حلقہ بنا کر بیٹھ گئے تھے۔ دور منبر کے پاس حضرت مبارک صاحبؒ وہیل چیر پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے پاس ہی حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی حسب روایت موجود تھے۔
’’میں آپ مبارکؒ سے کافی دور بیٹھا تھا۔۔۔‘‘ پیر محمد رمضان کی آنکھوں میں یادوں کے چراغ روشن ہوگئے۔ وہ نم ناک لہجے میں گویا ہوئے’’مالا والا شاپر میرے سامنے رکھا تھا۔ مبارک صاحبؒ نے دور سے انگشت شہادت سے میری جانب اشارہ کیا۔ یہ بلاوا تھا۔ میرے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آپؒ نے اتنے سارے سالکین میں سے میرے ذوق وتمنا کو دیکھ لیا تھا۔ایک سالک کی تڑپ اور خلوص کا پیمانہ تول لیا تھا۔ میرے مرشد کریم نے آپ مبارکؒ سے اس دوران عرض کی حضور یہ میرا مرید ہے اور آپ کی زیارت کے لئے بے تاب رہتاہے۔اس نے ہسپتال میں آپ کے مہمانوں کی بہت خدمت کی ہے۔آج آپ کے لیے پھولوں کی مالائیں لایا ہے۔‘‘ آپؒ نے تبسم فرمایااوران تازہ گلابوں کو سونگھ کر فرمایا ’’سبحان اللہ ۔۔۔‘‘ پھر آپؒ نے فرمایا’’یہ مالائیں صاحبزادوں کو پہنا دو۔۔۔‘‘
میں وہ سعادت آفریں لمحے بھول نہیں سکتا۔ آج بھی ان لمحوں کے احساس سے میرے بدن میں جذبۂ حال پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس روز مجھے خصوصی توجہ فرمائی اور پھر جب بھی آپؒ کی زیارت کے لیے حاضر ہوتا آپؒ مجھ فقیر پر شفقت فرماتے۔ آپ کی توجہ کی تاثیر مجھے عزم و استقامت اور روحانی لذت سے آشنا کر دیتی اور پھر میرے عسرت زدہ دن پھرنے لگے۔۔۔

حقیقت میں ان دنوں میں بہت زیادہ تنگ دستی کا شکار تھا۔ بالکل خالی ہاتھ تھا۔ لیکن مشائخ کے صدقے آپ کی نگاہوں نے مجھے خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا۔
توکل اللہ۔۔۔وللہ کسی صوفی یا راہ سلوک کے مسافر کا رازق و خالق مطلق پر کامل و مکمل بھروسہ اعتماد کمزور ہوتو اس کی نیت و عمل سے کھوٹ ظاہر ہوتی ہے۔ راہ سلوک میں اصل کامیابی ہی اللہ کریم پر توکل میں مضمر ہے۔ حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کی زندگی اس وقت کڑی آزمائش سے دوچار ہوگئی جب مرشد کریم حضرت پیر محمد عابد سیفی نے انہیں تلونڈی سے لاہور ہجرت کرنے کا حکم دیا۔
’’رمضان لاہور پہنچو اور دین حق کی خدمت کا کام شروع کر دو۔۔۔لاہور تمہارا منتظر ہے،فوراً لاہور پہنچو ۔اب تمہارا یہاں ٹھہرنا نامناسب ہے‘‘
’’جی حضور۔۔۔آپ دعا فرمائیں۔۔۔تاکہ میں بندوبست کرلوں‘‘ پیر محمد رمضان نے ادب و احترام سے عرض کی۔
’’بندوبست کس بات کا۔اللہ کی راہ میں ہجرت کررہے ہو،کیا تم مشائخ اور اولیا کرام کی تاریخ بھول گئے۔کتنی کریم ہستیوں نے خالی ہاتھ ہجرت فرمائی اور اللہ کریم نے خود اسکا بندوبست کردیا۔‘‘
مرشد کا حکم تھا ،کڑی آزمائش تھی،گھر سے خالی ہاتھ نکلنا تھا۔گھر والوں سے بات کی تو سب نے بخوشی اجازت دے دی لیکن جس روز کرایہ کی ایک گاڑی میں وہ اپنی بیگم،چار بیٹیوں ،تین بیٹوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ کوئی سامان ساتھ لئے بغیر سوار ہو کر الوداع کہہ رہے تھے تو والدین بہن بھائیوں سمیت سب رشتہ داروں کی چیخیں نکل گئیں۔ایک اچھے بھلے گھرانے کا فرد یوں خالی ہاتھ اپنے مرشد کے حکم پر ہجرت فرما رہا تھا کہ جیب میں صرف ایک سو روپیہ تھا،سخت سردیاں تھیں ،نہ کمبل ،نہ بچھونا،چھوٹے چھوٹے بچے تھا اور بس ۔۔۔ ایک ایمان اور توکل کی دولت دل میں لئے وہ حسنین آباد لاہور اپنا قافلہ لے کر پہنچ گئے تھے۔

مرشد کے حکم کی تعمیل ہو گئی تھی لیکن مرشد نے جس غرض سے اپنے اطاعت گزار مرید کو لاہور طلب کیا تھا، اس کا مرحلہ بھی آپہنچا۔ اس امتحان میں بھی وہ اپنے شیوخ کی دعاؤں سے کامیاب ہو گئے۔ مرشد نے حکم دیا ’’رمضان تم دین اور طریقت کی اشاعت کیلئے لاہور بلائے گئے ہو۔ اب تمہارا سونا، جاگنا، کھانا، پینا اور چلنا پھرنا سب دین کی خدمت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ اللہ کا ولی جب نیت کر لیتا ہے تو قادر مطلق اس کے ہر عمل کو عبادت سے معمور فرماتا ہے۔ پس یہ جان لو۔ جسم و روح کی طہارت و پاکیزگی برقرار رکھنی ہے، لذتِ باطن سے آسودگی حاصل کرنی ہے تو میرے مبارکؒ کے صدقے اُن کے مشن کو لیکر آگے چلنا ہے تمہیں‘‘ ۔
صرف تن کے کپڑوں میں ٹھٹھری راتوں میں حسین آباد گلبرگ لاہور میں ہجرت کے بعد قیام کرنے والے پیر محمد ر مضان رضوی سیفی نے کرایہ کے گھر میں ہی قرآن کا درس شروع کیا اور بچّوں کو پڑھانا شروع کیا ۔ جب شیخ و مربّی حضرت پیر محمد عابد سیفی نے باقاعدہ جامعہ بنانے کی ہدایت فرمائی تو پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے پاس ان دنوں دو وقت کی روٹی کا بھی سامان میّسر نہیں تھا۔ آپ کے شیخ مستجاب الدعوت ہیں۔ لہٰذا آپ نے شیخ سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے ولولہ آمیز انداز میں اپنا عصازمین پر مارتے ہوئے تین بار کہا۔ ’’یہیں اور اسی جگہ جامعہ بنے گا۔ اللہ کریم اپنے فضل سے عطا فرمائے گا اور یاد رکھنا جو لوگ اللہ کی رضا کیلئے کام کرتے ہیں، اللہ کی مدد ان کیلئے آ پہنچتی ہے۔ اللہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھا دیتا ہے کہ جاؤ ہمارا فلاں جگہ پر فلاں بندہ دین کا کام کر رہا ہے، اس کی مدد کرو۔ ربّ ذوالجلال اولیاء کا ولی و نصیر ہے۔ وہ ذات کبریا تمہیں مایوس نہیں کرے گی‘‘

یہی ہوا۔۔۔۔۔۔ مشیّت الہٰی، حکمت الہٰی کے اسباب و اسرار کون جان سکتا ہے۔ پیر محمد رمضان اپنے اس پُرآشوب دور میں اپنے شیخ کی دعائیہ لمحات کو یاد کرتے ہوئے دلگیر ہو جاتے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں ’’میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میری اپنی کوئی کاوش بھی نہیں تھی۔ یہ سب میرے مرشد کی دعا کا فیض تھا کہ دوست احباب اور انجان لوگ بھی دین کے کام کیلئے والہانہ بھاگتے ہوئے مدد کو آن پہنچتے۔ یہ جگہ خریدی گئی، طلبا کیلئے یہاں یہ چار منازل قائم ہیں۔ اس کی تعمیر کا ہر لمحہ مجھے یاد ہے۔ جامعہ کا کام ہو رہا ہوتا تو پیسے ختم ہو جاتے اور کام رک جاتا۔ ہم دعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھاتے، شیخ کی بارگاہ پہنچتے اور دعا کیلئے عرض کرتے اور یوں ہمارے شیخین کے صدقے غیب سے امداد آجاتی اور جامعہ تعمیر ہوتا چلا گیا۔ یہ میرے شیخ کی زندہ کرامت ہے کہ طلبا کے جامعہ کے بعد اسی گلی میں طالبات کیلئے بھی چار منزلہ عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔ میرے داد مرشد حضرت اخندزادہ مبارکؒ کے فیض کے چشمے ان جامعات میں رواں ہیں اور بچّے بچیاں دین کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘‘۔(جاری ہے )

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں 

درویش کامل اردو کہانی قسط نمبر 3

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,


hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,ج, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں