حضرت خالدبن ولیدؓ - قسط 6

 urdu font stories


حضرت خالدبن ولیدؓ۔
اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی
  قسط 6

یہ درست ہے کہ رومی اور فارسی سلطنتوں میں طوائف الملوکی تھی، مگراس کے باوجود بھی وہ بڑی زبردست فوجی قوتیں تھیں۔لہذا صرف عسکری نقطہء نظر سے یہ وضاحت نہیں کی جاسکتی کہ کیوں مسلمان ہر جنگ میں ان کو اس بری طرح شکست دیتے رہے۔ حالانکہ وسائل اور عددی اعتبار سے بھی مسلم افواج دشمنو ں سے کئی گنا کم ہوتیں۔اس کا جواب عسکری پہلو میں نہیں،سیدنا خالد بن ولیدؓ کی روحانی قیادت میں ہے۔جو کچھ بھی ان جنگوں میں ہورہا تھا اس کو کسی جنگی قائدے کے تحت نہیں سمجھا جاسکتا، جب تک کہ اس روحانی پہلو کو نہ سمجھا جائے کہ جو ’’سیف اللہ‘‘ کو حاصل تھا۔
مسلمانوں کو نفسیاتی فائدہ بھی حاصل تھا، کیونکہ شروع میں احساس برتری اور تکبر سے سرشار فارسی فوج نے مسلمانوں کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ وہ سمجھے کہ روپے، پیسے، مال و دولت کے چکر میں کچھ لٹیرے آگئے ہیں کہ جو ہمارے ملک میں لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے ذریعے ہی ٹھکانے لگا دیں گے۔ اس احساس برتری کے زعم میں مبتلا فارسی منصوبہ ساز مسلمانوں کی اس حربی طاقت کو سمجھ ہی نہ سکے کہ جس کی بنیاد اسلام کی اخلاقی وروحانی اساس پر تھی۔


ان تمام حالات میں شام کی حیثیت غیر معمولی تھی ۔ اس زمانے میں ملک شام میں موجودہ اردن، لبنان اور فلسطین بھی شامل تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بیت المقدس (یروشلم) میں ہوئی ،لہذا تمام عیسائی دنیا کے لیے بیت المقدس کی وہی حیثیت ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے مکہ و مدینہ کی ۔ جب حضرت عیسیٰؑ کا ظہور ہوا تو اس وقت اس تمام علاقے پر رومی حکمرانی کررہے تھے۔
حضرت عیسیٰؑ کے تین سو سال بعد رومی سلطنت نے بھی عیسائیت قبول کرلی۔آج بھی استنبول میں ’’آیا صوفیہ‘‘ کا ایک نوسو سال پرانا کلیسا ہے کہ جو آج بھی اس بازنطینی سلطنت کی نشانی کے طور پر موجود ہے۔ آنے والی صدیوں میں تمام صلیبی جنگوں کا مرکز بھی قسطنطنیہ ہوا کرتا تھا کہ جو بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔یہ صلیبی ایشیا کوچک اور ترکی کے راستے آیا کرتے اور شام، مصر اور بیت المقدس پر حملہ آور ہوتے ۔جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے عراق میں اپنی عسکری مہم جوئی شروع کی اور اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں شام جانے کا حکم دیا، تو اس وقت شام، رومی بازنطینی سلطنت کا ایک بہت بڑا صوبہ تھا۔ بنیادی طور پر وہاں جتنے بھی بازنطینی کمانڈر تھے، وہ یورپ سے آیا کرتے تھے ۔


حضرت خالد بن ولیدؓ کی یہ شام کی مہم رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کا پہلا بڑا تصادم تھا۔ اس تصادم میں شام میں موجود وہ تمام رومی فوج شریک تھی کہ جس کی قیادت قسطنطنیہ کا حکمران ’’ہر قل‘‘ یعنی ہر کولیس خود کررہا تھا۔بازنطینی سلطنت کے صوبے آرمینیا سے یورپ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس رومی فوج میں آرمینی، سلاو، انگریز، فرانسیسی اور جرمن دستے اپنے اپنے کمانڈروں کے ہمراہ شامل تھے۔
جب خلیفہ اوّل حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنی فوج کے ہر اوّل دستے کو شام کی طرف بھیجا، اس وقت شام کی ساری آبادی عیسائی تھی کہ جس میں عرب عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔اس کے علاوہ پارسی(مجوسی)بھی بہت بڑی تعداد میں آباد تھے۔اس ساری صورتحال میں جنگی مہم کیلئے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو وہاں بھیجا گیا۔شام میں پہلے سے موجود دستوں میں سے ایک کی قیادت جلیل القدر صحابی امین الامت ،حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کررہے تھے کہ جو عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں۔ مختلف جانب سے مسلمانوں کے کئی دستے کہ جو مختلف علاقوں میں موجود تھے ،ملک شام پہنچ رہے تھے۔ ان کے مقابلے پر ہرقل نے ایک بڑی فوج اکٹھی کرنا شروع کردی۔ چنانچہ خطرہ پیدا ہوا کہ چونکہ مسلمانوں کے دستے آس پاس کے علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،اس لیے وہ رومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان مسلمان دستوں کو اکٹھا ہی نہ ہونے دیا جائے اور ایک ایک دستے کو اپنی اپنی جگہ پرحملہ کرکے تباہ کردیا جائے۔ہرقل کی حکمت عملی بھی یہی تھی کہ وہ بھاری لشکر کے ہمراہ ان مسلمان دستوں کو ملانے والے راستوں کو منقطع کردے۔وہ مسلمان لشکروں کو تقسیم کرکے ختم کرنا چاہتا تھا۔ جب یہ اطلاع سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ تک پہنچی تو آپؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ وہ فوراً شام پہنچیں اور وہاں کے لشکروں کی قیادت سنبھالیں۔ پھر حضرت خالدبن ولیدؓ ریگستان سے ہوتے ہوئے شام میں داخل ہوگئے۔ رومی فوج کو یہ توقع ہی نہ تھی کہ مسلمان لشکر اس راستے سے بھی آسکتا ہے ۔


شام پہنچ کر سیدنا خالد بن ولیدؒ نے سب سے پہلے ابو عبیدہ بن الجراحؓ سے رابطہ قائم کیا اور پھر دونوں افواج آپس میں مل گئیں۔ آپس میں بیٹھ کر صلاح مشورہ کرکے جنگی حکمت عملی تیار کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسلمان فوجیں فی الفور اکٹھی ہوں، تاکہ اکیلے اکیلے دشمن کے نرغے میں آنے کی بجائے ایک بڑا لشکر تشکیل دیا جاسکے کہ جو براہ راست رومی سلطنت کے قلب ،یعنی دمشق پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ دمشق پر قبضہ کرنے کی صورت میں شام پر قبضہ کرنا بہت آسان ہوجاتا۔شام کے بڑے بڑے شہروں یعنی دمشق، انطاکیہ، بیت المقدس اور سمندر کے ساتھ ساتھ لبنان میں بیروت کے آس پاس کے علاقوں میں بڑے بڑے قلعے اور شہرآباد تھے۔
شام بازنطینی سلطنت کا سب سے خوبصورت صوبہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ بہت شدت سے اس کا دفاع کررہے تھے۔چنانچہ پہلے مسلمانوں کی رومیوں سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوئیں اور چند ایک چھوٹے قلعوں پر قبضہ کیا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے براہ راست دمشق کا محاصرہ کرلیا۔دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ مسلمانوں کو خبر ملی کہ رومی بادشاہ ہر قل نے اپنی فوجوں کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو پشت سے گھیرنا چاہتا ہے اور اجنا دین کے مقام پر رومی فوجوں کو جمع کیا جارہا ہے۔


مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ دمشق کا محاصرہ طویل ہوتا جارہا ہے، تو خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوجوں کو لیا اور حضرت ابو عبیدہؓ کیساتھ اجنا دین کی جانب بڑھنا شروع کیا، کہ جہاں پر مسلمانوں کی رومیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی اور فیصلہ کن جنگ ہونے والی تھی۔ لیکن اس سے پہلے ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔
مسلمانوں کا کیمپ اور لشکر جب دمشق کے محاصرے کو چھوڑ کر واپس پلٹا تو اس کے آخر میں مسلمان عورتوں کے کیمپ پیچھے رہ گئے۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ تھوڑا جب تھوڑا آگے نکل گئے، تو رومی قلعے سے باہر نکل کر اس کیمپ پر حملہ آور ہوئے کہ جس میں مسلمان عورتیں تھیں۔ان حملہ آوروں کی تعداد تقریباً چھ ہزار تھی۔رومیوں نے مسلمان عورتوں کے خیموں کو گھیر لیا ۔ان میں حضرت خولہؓ بھی تھیں کہ جو مشہور صحابی حضرت ضرارؓ کی بہن تھیں۔انہوں نے تمام مسلمان خواتین کو ہمت دلائی اور وہ خیموں کے ڈ نڈے اور چوبیں نکال کر رومیوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوگئیں۔ رومیوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان عورتوں کو زندہ گرفتار کرکے دمشق کے قلعے میں لے جائیں گے ۔خالدؓ بن ولید کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ فوراً پلٹے اور صرف مٹھی بھر مجاہدین کو ساتھ لیکر غیض و غضب کے عالم میں قیامت بن کر کفار پر ٹوٹے۔کفار کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کس کو چھیڑ دیا ہے۔ایک طرف تو خالدؓ تھے کہ جن کا جلال اپنی انتہا کو چھو رہا تھا کہ رومیوں نے مسلمانوں کی عزت پر حملہ کیا تھا اور دوسری طرف حضرت ضرار بن الازورؓ کا جلال کہ جن کی جان سے پیاری بہن رومیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔رومیوں کو اندازہ بھی نہ ہواکہ کہاں اور کس طرح سے ان پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ حضرت خالدؓ بن ولید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بجلی بن کر ان پر گرے ۔ چھ ہزار رومیوں میں سے صرف چند سو ہی بمشکل اپنی جانیں بچا کر واپس قلعے تک پہنچ سکے۔ باقی پوری فوج اسی میدان میں کاٹ دی گئی۔


جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ دشمن پر ہلکا ہاتھ رکھنے کے قائل ہی نہ تھے ۔وہ جب تلوار نکالتے تو جب تک ہزار دو ہزار کی گردنیں نہ اتار لیتے،ان کو سکون ہی نہیں ملتا تھا۔خالد بن ولیدؓ کے وہ سارے کارنامے کہ جو یہ عراق میں فارسیوں کے خلاف انجام دے چکے تھے، ان کے شام پہنچنے سے پہلے ہی رومی فوج کے ایک ایک سپاہی سے لیکر سپہ سالار تک پہنچ چکے تھے، اور خالدؓ کا نام سن کر ہی دشمن پر سراسمیگی طاری ہوجاتی تھی۔


اجنا دین کی لڑائی وہ پہلی بڑی جنگ تھی کہ جو مسلمانوں اور رومیوں کے مابین ہوئی۔ یہاں پر عددی تناسب دیکھا جائے تو ایک لاکھ رومی تھے۔ رومیوں نے بھی صرف اپنے ہر اوّل دستے ہی بھیجے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ چالیس ہزار مسلمانوں کیلئے رومیوں کایہ ہر اوّل دستہ ہی کافی ہوگا۔رومیوں کا ابھی تک مسلمانوں سے کوئی ایسا واسطہ نہیں پڑا تھا کہ وہ باقاعدہ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی حکمت عملی دیکھ سکتے۔ حضرت خالدؓ کا انہوں نے نام ضرور سنا تھا، لیکن خالدؓ کو میدان جنگ میں لڑتے نہیں دیکھا تھا۔رومیوں کی کئی صدیوں کی حربی تاریخ کی جنگی حکمت عملیاں، حضرت خالدؓ کے خلاف معرکوں میں ٹوٹتی اور بکھرتی جارہی تھیں۔مسلمان فوج کے پاس کوئی خاص ہتھیار نہیں تھے، جبکہ رومیوں کے پاس منجنیقیں اور گھڑ سوار دستے تھے، اور وہ خود بھی سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں غرق تھے۔ مسلمانوں کے پاس ہلکی تلواریں اور نیزے اور ہلکا گھڑ سوار دستہ تھا۔ لیکن جب جنگ اجنا دین اختتام پذیر ہوئی تو نتائج انتہائی غیر معمولی اور ناقابل یقین تھے۔ ستر ہزار رومی قتل ہوئے جبکہ صرف ساڑھے چار سو مسلمان شہید ہوئے۔ان نتائج کو سمجھنے سے انسانی ذہن قاصر ہے۔


دنیا کی تمام جنگی تاریخ میں آپکو ایسے نتائج کہیں نہیں ملیں گے۔یہ کون سی طاقتیں تھیں کہ جو وہاں کام کررہی تھیں؟ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا رومی اور فارسی سلطنتوں نے چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں ؟رومیوں کو عددی برتری بھی حاصل تھی ،اسلحہ کے زور پر وہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کردینے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔مگر اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کے سامنے ٹک نہ پائے۔ جب تک اس معاملے کے ایمانی و روحانی پہلو کو نہ سمجھا جائے ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکتے۔ جب تک آپ مسلمانوں کی ان روحانی طاقتوں کو نہیں سمجھیں گے کہ جو ان فوجوں کیساتھ تھیں، آپ کبھی بھی اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس قسم کی جنگ کے بعد یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے۔
قرآن پاک میں جنگ بدر میں حضورﷺ کی ایک مشت خاک پھینکنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ترجمہ:’’۔۔۔ جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ اللہ نے مارے تھے۔۔۔‘‘(الانفال آیت نمبر۱۷)اور پھر ملائکہ کے نزول کا واقعہ کہ جب وہ حضرت جبرائیلؑ کی سرکردگی میں صف در صف نازل ہوئے اور مسلمان لشکر میں شامل ہوکر مشرکین کے خلاف لڑے ۔جنگ بدرمیں بھی ۱۴ مسلمان شہید ہوئے اور۷۰ کفار مارے گئے۔ اور پھر وہی بات کہ مسلمان دشمن کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں تھے اور ان کے پاس کوئی قابل ذکر اسلحہ بھی نہ تھا، پھر بھی انہوں نے دشمن کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا ۔تاریخ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی جنگ لڑی گئی ہو کہ جس میں مسلمان عددی طور پر دشمن سے زیادہ ہوں ۔یہ ایک حیران کن معجزہ ہے۔


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ جیسا بہترین گھڑ سوار سالار دنیا کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا ۔وہ جس طرح گھڑ سوار دستے کو جنگ میں استعمال کرتے تھے،اس سے پہلے کبھی انکا ایسا استعما ل نہیں کیا گیا۔وہ دشمن کے گھڑ سوار دستوں کو الجھائے رکھتے۔عموماً دشمن کے پاس بھاری گھڑ سوار دستے ہوئے، جبکہ مسلمانوں کے پاس ہلکا گھڑ سوار دستہ (Light Cavalry) ہوتا تھا۔ وہ دشمن کے گھڑ سوار دستوں کو الجھا کر اپنے گھڑ سوار دستے کا ایک حصہ اس لڑائی سے نکال کر دشمن کے پیادہ دستے پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اسے پیچھے دھکیل دیتے۔ پھر دوبارہ یہاں سے پیچھے ہٹ کرایک مرتبہ پھر دشمن کے گھڑ سوار دستوں کے خلاف حملہ آور ہوتے ۔
جس طریقے سے خالدؓ گھڑ سوار دستے کے ذریعے مخالف فوج پر پہلو کی جانب سے حملہ آور ہوتے اور جھپٹتے پلٹتے، یہ اس وقت کی حربی حکمت عملی میں ایک نیا اضافہ تھا۔یہ ایک ایسی جنگی و حربی چال تھی کہ جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔حضرت خالدؓ کی وضع کردہ اس جنگی تکنیک کو جدید دور میں جرمن افواج نے بھی جنگ عظیم دوم میں افریقہ کے محاذ پر نہایت کامیابی کے سا تھ استعمال کیا تھا۔


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ دنیا کے عظیم ترین سپہ سالار تھے، مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خالدؓ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کا راز اس نور اور فیض میں ہے کہ جو ان کو حضورﷺ کی طرف سے نصیب ہوا ہے۔ وہ ایمان کی حد تک حضورﷺ کے بال مبارک اپنے وجود سے لگا کر رکھتے تھے اور پھر سیدی رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب بذات خود اس بات کی ضمانت تھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ’’اللہ کی تلوار‘‘ کو شکست نہیں دے سکتی۔ کوئی تو وجہ ہے کہ عراق و شام کی فتح کا کام خالدؓ سے لیا گیا۔


اجنا دین کی جنگ کے بعد مسلمان اب اس قابل ہوگئے تھے کہ پورے شام کے مختلف علاقوں میں پھیلیں اور براہ راست دشمن کے مقابلے پر آئیں۔ اجنا دین کی شکست رومیوں کے لیے ایک بہت بڑی شکست تھی۔لیکن اب بھی بڑے بڑے شہر یعنی دمشق،بیت المقدس وغیرہ ان کے پاس تھے اور وہاں بھی ان کی بڑی بڑی چھاؤنیاں موجود تھیں۔ لیکن خالدؓ کے ہاتھوں اپنی فوجوں کے قتل عام سے ان کی آنکھیں کھل گئیں۔انہوں نے پہلی مرتبہ اس شکست کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔انہوں نے اپنی پوری سلطنت سے فوجیں بلانی شروع کیں۔ آرمینیا کا بادشاہ ’’باہان‘‘(Baanes) خود اپنی فوج لے کر پہنچا، پورے یورپ اور یوگو سلاویہ سے فوجیں آئیں اور خود ہرقل یعنی ہر کولیس اپنے لشکر جرار کیساتھ وہاں موجود تھا۔اب انہوں نے مل کر ایک اور بڑی جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کردیں۔ مسلمانوں کو اندازہ تو تھا کہ مزید خونریزجنگیں آنے والی ہیں، لیکن خود اکثر مسلمانوں کو بھی، کہ جومکہ و مدینہ سے یہاں آئے تھے، یہ اندازہ نہیں تھا کہ انکی شدت کتنی ہوگی۔
اگر ہم ان تمام مہمات کا ایک جامع تجزیہ کریں کہ جو اس زمانے میں مسلمانوں کو فارسی اور رومی سلطنتوں کے خلاف درپیش آئیں، مسلمان اور رومی بازنطینی افواج کی عسکری چالوں اور جنگی منصوبہ بندی پر نظر ڈالیں، تو ہم ان سب تجزیات میں ایک بہت اہم پہلو کوبھی موضوع بحث بنانا چاہیں گے کہ جس کی تاریخ شہادت دیتی ہے۔


جنگ اجنا دین میں جب پہلی دفعہ رومیوں کا واسطہ سیدنا خالد بن ولیدؓ سے پڑا، تورومیوں کا ایک پادری سیدنا خالد بن ولیدؓ کے پاس آیا اور سیدنا خالدؓ سے پوچھا کہ کیا تم ان کے سپہ سالار ہو؟ خالدؓ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک ان کا سپہ سالار ہوں کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا رہوں گا اور جب میں حکم عدولی کرونگا ،پھریہ نہ میری عزت کریں گے اور نہ ہی میں ان کا سپہ سالار رہوں گا۔یہ سن کرپادری کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ یہی وجہ ہے کہ تم لوگ ہمیں شکست پر شکست دیتے جارہے ہو۔


اسی طرح ایک مرتبہ خالدؓ نے حضرت ضرارؓ کو بھیجا کہ وہ رومی لشکر کی جاسوسی کریں۔ضرارؓ ’’ ننگے بدن جنگجو‘‘ کے نام سے مشہور تھے، یعنی جب وہ دشمن کی صفوں پر حملہ کرتے، تو جوش ایمانی میں آکر کمر تک اپنی قمیض اتار دیا کرتے اور زرہ پھینک کر دشمن پر ٹوٹ پڑتے ،یعنی صرف تلوار اور نیزہ لیکر جنگ کرتے اور اپنے اس خاص حلیے کی وجہ سے دور سے پہنچانے جاتے کہ یہ ضرار بن الازورؓ ہیں۔وہ فطرتاً ایک دلیر اور جانباز جنگجو تھے۔


جب ضرارؓ کو جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تو وہ رومی لشکر کے اتنے قریب چلے گئے کہ بالکل رومیوں کے سامنے کھڑے ہو کر انکا جائزہ لینا شروع کردیا ۔رومیوں نے ان کے مقابلے پر ۳۰ مضبوط سپاہی روانہ کیے کہ ان کو گرفتار کرکے لاؤ ۔ضرارؓ پہلے تو اپنے گھوڑے کو آہستہ آہستہ دُلکی چال دوڑاتے رہے ۔جب رومی اپنے کیمپ سے دور آگئے، تو پھر ضرارؓ نے پلٹ کر ان پر حملہ کردیا۔ آناً فاناً ۳۰ میں سے۱۹ کو ضرارؓ نے موقع پر ہی مار گرایا ،جبکہ باقی دہشت زدہ ہو کربھاگ کھڑے ہوئے۔ اب صحیح معنوں میں رومی لشکر پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہوچکی تھی اور رومی لشکر میں بھی یہ افواہیں زور پکڑنے لگیں تھیں کہ کوئی غیر مرئی طاقتیں اور روحانی قوتیں مسلمانوں کیساتھ ہیں۔


رومی جرنیل نے بھی اپنا ایک جاسوس خالدؓ کے لشکر میں بھیجا۔وہ شخص مسلمانوں کیساتھ آسانی سے گھل مل گیا کیونکہ وہ ایک عرب عیسائی تھا۔اس نے مسلمانوں کے لشکر میں آکر ایک رات گز اری اور واپس جا کر اپنے بادشاہ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ رات میں ان کو دیکھو تو لگتا ہے کہ راہب ہیں۔ساری رات عبادت، نماز،زہد، قرآن ،ذکر و اذکار میں گزار دیتے ہیں کہ جیسے دنیا سے ان کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ۔اور دن میں دیکھو تو ایسے شہسوار ہیں کہ لگتا ہے شہ سواری کے سوا ان کا کوئی اور کام ہی نہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے تو وہ اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیں اور اگر بادشاہ وقت خود کوئی گمراہی یا بدکاری کرے تو اس کو بھی سنگسار کردیں! یہ مسلمان فوج کے کردار کے حوالے سے اتنی بڑی گواہی تھی کہ جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت کر دی گئی۔
جب تک مسلمان جرنیل، دفاعی، عسکری اور فوجی علوم و فنون کے ماہر، اس ایمانی و روحانی پہلو کو بروئے کار نہیں لائیں گے، کہ جس کو ماضی میں تاریخ اسلام کا ہر مسلمان جرنیل، سپہ سالار اور غازی بروئے کار لایا،کہ جس نے نئی تاریخ مرتب کی ، ہم وہ فتوحات حاصل نہیں کرسکتے کہ جو قرون اولیٰ میں ان مجاہدین کو حاصل ہوئیں۔ ان کی غیر معمولی فتوحات میں سب سے اہم یہی روحانی پہلو تھا۔ یہ عسکری زاوئیے سے نظر نہ آنے والا روحانی و اخلاقی پہلو ہی مسلمانوں کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہاہے اور آئندہ بھی کرے گا۔


جنگ اجنادین میں ایک اور غیر معمولی واقعہ ہوا کہ جس کا تذکرہ کرنا ضروری ہے ۔
وردان بور کہ جورومیوں کا ایک کمانڈر تھا ،اس نے منصوبہ بنایا کہ ہم دھوکے سے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو شہید کردیتے ہیں اور اس مقصد کیلئے ایک خاص مقام پر اس نے اپنے دس شہسوار چھپا دیئے اور ایک آدمی قاصد کے طور پر خالدؓ کے پاس بھیجاکہ جو آپؓ سے یہ کہے گا کہ صبح وردان آپؓ سے ملنا چاہتا ہے، یعنی رومی سپہ سالار میدان جنگ کے عین بیچ میں حضرت خالدؓ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ جب خالد بن ولیدؓملاقات کے لیے میدان جنگ میں آئیں گے ،تو وہاں وردان خود ان کو پکڑے گا اور چھپے ہوئے دس سوار نکل کر حضرت خالدؓ کو شہید کردیں گے ۔
لہذاجب وہ عیسائی سیدنا خالدؓ کے سامنے پہنچا تو اس نے خرافات بکنی شروع کردیں کہ رومی سالار آپ سے معاہدہ امن کرنا چاہتا ہے۔ یہ نام نہاد اعتماد سازی کے اقدامات(Confidence Building Measures) کہ جن کے نام ہم آجکل بھی سنتے رہتے ہیں، یہ سب کمزوری کی علامتیں ہیں۔ دشمن کی فطرت مسلمانوں کے خلاف کبھی نہیں بدلے گی۔ یہ اعتماد سازی کے اقدامات محض دھوکہ اور فریب کا جال بچھا کر نقصان پہنچانے کی سازش ہی ہے۔ جنگِ اجنا دین میں بھی ایسی ہی سازش کارفرما تھی۔ آج بھی پاک ،ہندوستان تعلقات میں یہی سازش کارفرما ہے۔


بہرکیف خالدؓ سیف اللہ تھے، انہیں روحانی تائید و مددحاصل تھی۔ بظاہرکوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی کہ قاصد کی بات پر اعتبار نہ کیا جائے، لیکن اللہ کی طرف سے اشارہ ہوا اور یہ اللہ کا مجاہد جلال میں آگیا۔ خالدؓ نے اسے گھور کر دیکھا اور صرف اتنا پوچھا کہ کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو خوف کے مارے اس قاصد کے اوسان خطا ہوگئے اور اس نے اپنی جان کی امان لے کر سارے راز بتا دیئے۔ خالدؓ پر جب یہ عقدہ کھلاکہ وردان کا کھیل کیا ہے، تو پہلے آپؓ جلال میں آکر خود تلوار لے کر ان چھپے ہوئے دس رومیوں کو موت کے گھاٹ اتار نے پر تیار ہوگئے، مگر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے صلاح دی کہ خودجانے کے بجائے ضرارؓ کو بھیج دیں اور ضرارؓ وہاں جا کر ان رومیوں کو قتل کردیں گے یا ان کو زندہ گرفتار کریں گے اور پھر اگلے دن کی ترتیب ویسے ہی رکھی جائے کہ جیسے پہلے سے طے شدہ تھی، تاکہ رومیوں کو شک نہ گزرے۔ لہذا اگلے دن جب حضرت خالد بن ولیدؓ رومی سپاہ سالار وردان سے ملاقات کے لیے میدان کے عین درمیان میں پہنچ گئے، تو اس سے پہلے ہی رات کو حضرت ضرارؓ دس ساتھیوں کیساتھ جاکے ان دس رومیوں کو قتل کرچکے تھے اور ان کے جنگی لباس اور زرہ بکتر پہن کر خود وہاں چھپے ہوئے تھے۔ جب وردان نے وہی شرارت کی کہ جس کا منصوبہ اس نے بنا رکھا تھااور خالدؓ کو پکڑنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو آوازدی ،تو خالدؓ سکون سے اپنی جگہ کھڑے رہے اور حضرت ضرارؓ دس ساتھیوں کیساتھ وردان کو گھیر کر کھڑے ہوگئے۔ جب وردان نے یہ دیکھا کہ کھیل الٹ گیا ہے تو اس نے خالدؓ سے صرف یہ التجا کی کہ مجھے اپنے ہاتھ سے قتل کیجیے گا، ضرارؓ کے حوالے نہ کریں۔ خالدؓ اتنے جلال میں تھے کہ انہوں نے ضرارؓ کو صرف اشارہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ضرارؓ نے وردان کا سر تن سے جدا کردیا ۔


اجنا دین میں فتح حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کا رخ واپس دمشق کی جانب ہوگیا ۔دمشق میں مسلمان فوج کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک طرف سیدنا خالدؓ اور دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے کمان سنبھال لی۔ دمشق کے لوگوں کو یقین تھا کہ دمشق کا مضبوط قلعہ ان کی حفاظت کرے گا اور وہ کسی بھی قیمت پر صلح پر راضی نہیں تھے۔ جو مار رومیوں کو اجنا دین یا باقی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں پڑچکی تھی، وہ اس سے نہایت خوفزدہ تھے، لہذا باہر نکل کر جنگ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔یہ رومی پہلے ہی حضرت خالدؓ کے ہاتھوں اپنے چھ ہزار جوانوں کا خون کرواچکے تھے۔ اب اس کیفیت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو محاصرہ نہایت طویل لگنے لگا تو آپؓ نے چھاپہ مار کارروائی(Commando Action) کے ذریعے قلعے کی دیوار پھلانگ کردروازے کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔اور پھر یہی ہوا۔
شہر کے ایک جانب سے حضرت خالدؓ اپنی فوجوں کو لیکر جنگ کرتے ہوئے داخل ہوگئے۔جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت خالدؓ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور شکست یقینی ہے، تو شہر کی قیادت اس دروازے کی طرف دوڑی کہ جہاں حضرت ابوعبیدہؓ کی فوجیں موجود تھیں اور دروازہ کھول کر حضرت ابوعبیدہؓ کو امن و عافیت کے ساتھ شہر میں داخل ہونے اور اپنے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرتے ہوئے صلح کی شرائط طے کرلیں۔حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کو امان دے دی۔ لیکن دوسری جانب حضرت خالدبن ولیدؓ کو اس امان نامے اور صلح کی اطلاع نہیں ہوئی تھی اور وہ ابھی تک لڑائی میں مصروف تھے۔ یہاں ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا کہ جب دونوں مسلمان فوجیں دمشق کے عین بیچ میں آپس میں ملتی ہیں، ایک امن سے داخل ہورہی ہے اور دوسری طرف خالدؓ کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہوتا ہے۔خالدؓ کا استدلال یہ تھا کہ میں نے شہر تلوار کے زور پر فتح کیا ہے، جبکہ حضرت ابو عبیدہؓ اس بات پر مصر تھے کہ یہ شہر ایک صلح کے نتیجے میں قبضے میں آیا ہے۔بالآخر حضرت خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کی دلیل کو تسلیم کرلیا اور تمام امن کی شرائط مان لی گئیں اور اس طرح مسلمانوں نے دمشق پر بھی قبضہ کرلیا۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں 

حضرت خالدبن ولیدؓ اردو کہانی - پارٹ 7

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,


hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,ج, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں