حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ

 

حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ
تحریر: رضا فرید چشتی
نام ونسب: اسم گرامی : شیخ عبدالقادرجیلانی۔کنیت : ابو محمد۔القاب : محبوبِ سبحانی، پیرانِ پیر ، محی الدین۔عامۃ المسلمین میں آپ ’’غوث الاعظم‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ والد ماجد کا نام حضرت سید ابو صالح موسیؒ ہے۔ سلسلۂنسب: سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی بن سید ابو صالح موسیٰ بن سید عبداللہ جیلانی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد بن سید داؤد بن سید موسیٰ بن سید عبد اللہ بن سید موسیٰ الجون بن سید عبداللہ محض بن سیدحسن مُثنیّٰ بن سیدنا امام حسن بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ۔ سلسلۂ مادری: کنیت:ام الخیر۔ لقب: امۃ الجبار۔اسم مبارک: ’’ فاطمہ بنتِ عبد اللہ صومعی الحسنیؒ‘‘۔سلسلہ ٔنسب: فاطمہ بنتِ سیدعبد اللہ صومعی بن سید ابو جمال بن سید محمد بن سیدمحمود بن سید طاہر بن سید ابو عطار بن سید عبداللہ بن سید ابو کمال بن سید عیسیٰ بن سید علاء الدین بن سید محمد بن سیدنا امام علی رضا بن سیدنا امام موسیٰ کاظم بن سیدنا امام جعفر صادق بن سیدنا امام محمد باقر بن سیدنا امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن سیدنا علی المرتضی﷢۔آپ ’’ نجیب الطرفین‘‘ سید ہیں۔(تذکرہ قادریہ، ص 129، از پیر سید طاہر علاؤ الدین گیلانی﷫) تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 470ھ، مطابق 15؍مارچ 1078ء کو شمالی ایران میں’’بُحیرۂ کیسپین‘‘ کے جنوبی ساحل پر’’گیلان نامی‘‘ قصبہ میں ہوئی ۔ تحصیلِ علم: بچپن میں والدِ محترم کا وصال ہوگیا تھا۔والدہ ماجدہ کی آغوش میں تربیت پائی؛ اور انہوں نے تربیت کا حق ادا کردیا۔ دس سال کی عمر میں مکتب میں پڑھنے جاتےتو فرشتے فرماتے: ’’افسحوا لولی اللہ‘‘ اللہ کےولی کےلئے جگہ چھوڑو۔اپنے قصبہ جیلان میں ہی حفظ کرلیا تھا۔جب عمراٹھارہ سال ہوئی تو تحصیل ِعلم کےلئے بغداد کاقصد کیا۔)600)چھ سو کلومیٹر سےزائد، تکلیف دہ اور خطرناک سفر طےکرکے 488ھ کوبغداد پہنچے۔بغداد میں قرأتِ سبعہ اور تجوید کےساتھ حاصل کیا۔اسی طرح علم فقہ و اصول فقہ؛ عرصۂ دراز تک بہت بڑے فقہاء مثلاً ابوالوفا علی بن عقیل حنبلی، ابوالخطاب محفوظ الکلوازنی الحنبلی، قاضی ابویعلیٰ، محمد بن الحسین بن محمدالفراء الحنبلی، قاضی ابوسعید؛ اور علم حدیث؛ محمد بن الحسن الباقلائی، ابو سعید محمد بن عبد الکریم بن حشیشا، محمد بن محمد الفرسی وغیرہ ۔علم ِادب؛ابو زکریا یحیٰ بن علی التبریزی سے حاصل فرمایا۔(قلائدالجواہر، ص4) شیخ عبد الوہاب شعرانی ،اور شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی﷫ فرماتے ہیں: ’’ یتکلم فی ثلاثۃ عشر علما‘‘غوث الاعظم تیرہ علموں میں بیان فرماتے تھے۔(سیرت غوث الثقلین، ص64) شیخ عبدالوہاب شعرانی ﷫ فرماتے ہیں: ’’ مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ اور علم کلام پڑھتے،دوپہر سے پہلےاور بعددونوں وقت تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول،صرف و نحو؛ اوربعد نمازِ ظہر قرأتِ سبعہ کےساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے‘‘۔(طبقات الکبریٰ ، ج1، ص127) علم ادب، لغت، اور نحو کےمشہور امام ابو محمد الخشاب نحوی فرماتے ہیں: ’’میں عالم شباب میں علم نحو پڑھتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔آپ نےمجھےدیکھ کر فرمایا تم ہمارے پاس رہو، ہم تمہیں زمانہ کا سیبویہ بنادیں گے، آپ کےپاس پڑھنے لگا، بہت قلیل عرصے میں آپ سےوہ سیکھا جوگزشتہ عمر میں حاصل نہ کرسکا تھا۔مسائل ِ نحویہ و علوم عقلیہ و نقلیہ کےاصول و قواعد مجھے اچھی طرح ذہن نشین ہوگئے‘‘۔(قلائد الجواہر، ص32) اسی طرح شیخ الاسلام شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ الاسلام علامہ ابن قدامہ حنبلی، قطب الاقطاب شیخ علی بن ہیتی وغیرہ﷢؛ آپ کےشاگرد اور تربیت یافتہ ہیں۔ آپ کےصاحبزادے سید عبدالوہاب ﷫فرماتے ہیں: ’’آپ نے 528ھ تا 561ھ تینتیس سال درس و تدریس اور فتاوٰی نویسی کےفرائض سرانجام دیئے‘‘۔(قلائد الجواہر، ص18)۔ علامہ شعرانی﷫ فرماتے ہیں: ’’کانت فتواہ تعرض علی العلماء باالعراق فتعجبھم اشدا الاعجاب فیقولون سبحان من انعم علیہ‘‘ یعنی علماء ِعراق کےسامنے آپ کےفتاویٰ پیش کیے جاتےتھے،تو ان کو آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت پر سخت تعجب ہوتا تھا؛ اور وہ یہ پکار اٹھتے تھے کہ وہ ذات پاک ہے جس نےان کوایسی علمی نعمت سےنوازا ہے۔(طبقات الکبریٰ، ج1، ص127) آپ کےعلمی کمالات کےبارے میں مذکورہ تمام اقوال عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ بیان کرنےکامقصد یہ ہےکہ ہمارےزمانے کےواعظین صرف آپ کی کرامات پراکتفاء کرکےدادِ تحسین وصول کرتے ہیں، علمی مقام بیان نہیں کیاجاتا، اور اکثر سجادہ و متولیان ِ اولیاءِ کرام علم و عمل سےکوسوں دورہیں؛ اگر ان کو علم دشمن کہاجائے تو بےجانہ ہوگا۔ یہ حضرات اپنی مجالس میں علم ِدین اور علماء کی توہین کرتےہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وہ خانقاہیں جو ماضی میں علوم و فنون کامرکزتھیں آج وہاں کچھ اور مناظر ہیں؛ جیساکہ علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا ہے: قم بِاذنِ اللہ کہہ سکتے تھے جو، رُخصت ہوئے۔۔۔۔خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن۔۔۔خود غوث الاعظم فرماتے ہیں: ’’دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّى صِرْتُ قُطْباً۔۔۔۔ وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَى الْمَوَالِي ‘‘۔ ترجمہ: میں نے علم حاصل کیا یہاں تک کہ قطبیت کےمرتبے پر فائز ہوا، میں نے استاذالاساتذہ شیخ کامل کے حضور حاضر ہوکر سعادت کی منزلوں کو پایا۔(قصیدہ غوثیہ) بیعت وخلافت: سیدنا ابو سعید مبارک مخزومی ﷫ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ سیرت و خصائص: محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، شہباز لامکانی، محی الدین، شیخ الاسلام، غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ﷫۔آپ ﷫کے اخلاقِ حسنہ اور فضائلِ حمیدہ کی تعریف وتوصیف میں تمام متأخرین اولیاء ِ کاملین کے تذکرے بےشمار ہیں۔ قدرت نے آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق ومحامد سے متصف فرمایاتھاکہ آپ کے معاصرین آپ کی تحسین کئے بغیر نہیں رہتے تھے۔اپنے تواپنے غیرمسلم بھی آپ کےحسن ِسلوک کےگرویدہ تھے۔آپ اسلامی اخلاق اورانسانی اوصاف کے پیکر تھے۔شیخ حراوہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کوئی کریم النفس، رقیق القلب، فراخ دل اور خوش اخلاق نہیں دیکھا‘‘۔آپ اپنے علوِّ مرتبت اور عظمت کے باوجود ہر چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے تھے۔سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔کمزوروں اور مسکینوں کے ساتھ تواضع وانکساری کے ساتھ پیش آتے۔لیکن اگر کوئی بادشاہ یا حاکم آجاتا توآپ مطلقاً تعظیم نہ فرماتے اور نہ ہی ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر گئے، نہ عطیات قبول کئے۔مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ مُروَّت سے پیش آتے۔سچائی اور حق گوئی کادامن کبھی نہیں چھوڑا خواہ کتنے ہی خطرات کیوں نہ درپیش ہوتے، مگر سچ کہنے سے کبھی بھی چوکتے نہیں تھے۔ حاکموں کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے اور کسی کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بلکہ مصلحت و خوف کو پاس تک بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔آپ معروف(نیکی) کا حکم دیتے اور منکرات(برائی) سے روکتے تھے۔آپ کے اعلائے کلمۃ الحق نے سلاطین اور امراء کے محلات میں زلزلہ بپاکردیا تھا۔ سیدنا غوثِ اعظم﷫مجسمہ ایثاروسخاوت تھے۔دریا دلی کا یہ عالم تھاکہ جوکچھ پاس ہوتاسب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔عفووکرم کے پیکر جمیل تھے۔کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور فوراً امداد پر کمر بستہ ہوجاتے، مگر خود اپنے معاملے میں کبھی بھی غصہ نہیں آتا۔لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے۔ امام ابو عبداللہ محمد یوسف البرزالی لکھتے ہیں: ’’آپ مستحبات الدعوات تھے، ہمیشہ اللہ﷯ کے ذکر وفکر میں مشغول رہتے اور کثرتِ ذکراورخوفِ خدا سے آپ کی آنکھیں اشک باررہتیں ۔ آپ انتہائی رقیق القلب، شگفتہ رو، کریم النفس ، فراخ دست، ذی علم، بلند اخلاق اور عالی نسب تھے۔ عبادات اور مجاہدے میں آپ سب سے رفیع الشان تھے اور آپ کانورانی چہرہ ہمیشہ بشّاش اور تبسُّم آمیز نظر آتا‘‘۔ مفتی عراق محمد بن حامد البغدادی لکھتے ہیں: ’’آپ فحش باتوں سے کوسوں دورتھے، اپنی ذات کے معاملے میں آپ نہ کبھی کسی پر غصہ آیا اور نہ ہی آپ نے کسی سے انتقام لیا، سوائے اس کےکہ کسی نے ایسا کام کیاہو جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث ہو، تو آپ غضب ناک ہوجاتے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی توحیدکےحوالےسےکسی رُو رعایت کےقائل نہ تھے‘‘۔ کرامات کےعلاوہ ہم نےصرف آپ کی سیرت مبارکہ کی ایک مختصر جھلک پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ کےمعجزات بےشمار ہیں، اسی طرح آپ کی کرامات بھی بےشمار ہیں۔آپ ﷫ خود فرماتے ہیں: ’’ہر ولی کسی نہ کسی مُقتد ا کے نقشِ قدم پرگامزن رہتا ہے اور میں بَدرُ الکمال یعنی سیدالمرسلین ﷺکے نقش قدم پر ہوں ‘‘۔
غوث اعظم کی فضیلت فقیر کے ایک تعلق دار پہلے خارجی تھے، پھر وہ راہ راست پر آگئے، مگر ان کا ٹیڑھ باقی تھا، ایک مربہ سیدنا غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا کہ میں آپ کا قدم اولیاء متقدمین پر نہیں مانتا اور کہا کہ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے کندھوں پر بھی قدم ہے؟ ان ہی ایام میں فقیر عازمِ مدینہ طیبہ ہوا تو ان صاحب نے مجھ سے درخواست کی کہ اُن کوحضرت سیدی قطب مدینہ علیہ الرحمہ سے بیعت کروادیا جائے۔ جب احقر مدینہ طیبہ حاضر ہواتوایک رات حضرت سیدی ومرشدی رضی اللہ عنہ سے ان کا تعارف کرتے ہوئے سلسلہ میں داخل کرنے کی درخواست کی ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’وہ جو کہتا ہے کہ وہ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا قدم مبارک اولیاء متقد مین پر نہیں مانتا۔ اور کہتا ہے کہ کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر بھی قدم ہے؟ میں اُس کے اس الزامی سوال پر یہ پوچھتا ہوں کہ جب باپ بیٹے کو اپنے کندوں پر اٹھا کر کے سوار کرتا ہے تو اس کے قدم کہاں ہوتے ہیں؟مگر اس کا فہم ناقص ہے، کہ وہ ولی اور صحابی کے مقام کے فرق میں تمیز نہیں کرسکا۔‘‘ واپسی پر ان صاحب سے پورا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو ہر طرح سے اطمینان دلاتا ہوں کہ حضرت سیدی علیہ الرحمہ سے آپ کے خیالات کا تذکرہ میں نے نہیں کیا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے۔ جب احقر پھر مدینہ طیبہ کی حاضری کےلیے جارہا تھاتو صاحب مذکور نے ایک تحریری توبہ نامہ فقیر کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت سیدی قطب مدینہ علیہ الرحمہ کو سنا دینا آپ کا بہت کرم ہوگا۔ حضرت سیدی علیہ الرحمہ کو سنادیا آپ علیہ الرحمہ بہت خوش ہوئے ان کےلیے دعا اور داخلِ سلسلہ فرمالیا۔
شریعت کی پابندی: آپ اپنے مریدین اور شاگردوں کوقرآن و حدیث،اور فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: ’’شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنت کے دو پروں کےساتھ پروازکرو۔ اپنا ہاتھ رسول اللہﷺکے دست مبارک میں دےکراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے‘‘۔(الفتح الربانی، 145) تاریخِ وصال: آپ کاوصال 11؍یا 17؍ ربیع الآخر561ھ91سال کی عمر مبارک میں بغدادمیں ہوا۔
(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ، ص256/ سیرتِ غوث اعظم، ص247)
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں