محبت اک دھوکہ ہے - اردو کہانی پارٹ 3

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

محبت اک دھوکہ ہے - اردو کہانی پارٹ 3


مگر اس نے بڑی پھرتی سے گن کا رخ اپر کر دیا مجھے ایسے لگا جیسے میرے پیروں میں جان نہ رہی ہو میں روتے روتے اس کے قدموں میں گر گئی میری سزا کو کم کردو مجھے مرتے کیوں نہیں تم ۔۔۔۔میں عرصہے بعد دهاڑیں مار مار کر روئی تھی اس نے مجھے رونے دیا وہ ویسے ہی کھڑا رہا پھر میرے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا ہم دونوں کی نظر ملی اس کی آنکھیں خوب صورت تھیں
اور پلکیں بھیگی ہوئی کون ہو تم ؟؟؟؟ اس نے پوچھا تو یوں لگا برسوں ببعد کوئی اپنا ملا ہو جیسے پتہ نہیں کیوں ایسا لگا تھا میں نے اب بولنا بلکل چھوڑ دیا تھا مگر اس کے ایک بار پوچھنے پر سب کچھ اسے کہتی گئی ۔۔

تم کون ہو اب میرا سوال تھا جس پر وہ بولا ایک گناہ گار اس کی آنکھیں نم تھیں میں 21 سال کا تھا تب کچھ غلط قسم کے دوستوں کی صحبت میں بیٹھ کر غلط روش پر چل پڑا تھا رات کو دوستوں کے ساتھ مل کر ہم لوگوں کو لوٹتے تھے مگر کسی کی جان لینے کا کبھی سوچا تک نہ تھا ہم تین بھائی تھے میں منجهلا تھا دونوں بھائی قابل اور اچھی نوکری کر رہے تھے میں ہر وقت والد کے کوسنے سنتا مگر کرتا وہی تھا جو میرا دل ہوتا والد صاحب کو جس دن پتہ چلا کہ میں چھنتائی کرتا ہوں تو مجھے گھر سے نکال دیا تھا ہماری گاؤں میں زمینیں تھی لیکن تایا میرا ہمارے حصے کی بھی قبضہ کرنا چاہتا تھا مجھے اس کی بیٹی سے محبت تھی کچھ عرصہ بعد میرے والد نے مجھے لالچ دیا کہ اس سے میری شادی کر وائیں گے اگر میں یہ کام چھوڑ دوں میں نے حامی بھر لی پھر میری شادی ہو گئی 
تب میں 23 سال کا تھا دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے میں نے ہر برا فعل ترک کر دیا تھا اور ایک نوکری کرنے لگا تھا میری دنیا بس نیلم ہی تھی ہاں اس کا نام نیلم تھا جب تک اس کا چہرہ نہ دیکھ لیتا میرا دن نہ گزرتا تھا جان بستی تھی اس میں میری پھر زمین پر ہمارے جهگڑے بڑھ نے لگے تایا نہ حق ہماری بھی زمین پر قبضہ چاہتا تھا بات عدالت تک پہنچ گئی تھی ایک دن تایا ہمارے گھر آ کر زبردستی نیلم کو لے گئے میں تب گھر پر نہ تھا ورنہ میرے رہتے یہ ممکن نہ تھا عدالت کا فیصلہ تایا کو یقین تھا کہ ہمارے حق میں ہو گا تب تایا نے بڑی چالاکی سے نیلم کو لے جانے کے اگلے ہی دن فون کر کے کہا کہ میرے والد آ کر نیلم کو لے جائیں وہ گاؤں گئے تھے تو تایا نے والد صاحب پر گولیاں چلوا کر ان کو جان سے مار ڈالا ساتھ ہی ان کے كهیت میں کام کرنے والے ایک كسان کی بیٹی جو ان کی حویلی کی ملازمہ تھی کو بھی مار ڈالا اور اس قتل کو غیرت کے نام پر قتل قرار دے دیا ابو کی میت جب گھر آئی ماتم مچ گیا سب رونے پیٹنے لگے پر میں اس دن ایک آنسو بھی نہ بہایا والد کی تدفین کے بعد تایا نے امی کو فون کر کے دهمكی دی کہ ساری زمین میرے نام کردو ورنہ اپنے بیٹوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گی

 ماں یہ سن کر پیچھے ہٹ گئی تمام زمین جائیداد اس کے نام کر دی اور ہم سے کھا ہم یہ شہر چھوڑ کر چلتے ہیں میرے بھائیوں نے ماں کی بات سے اکتفا کیا مگر میں اپنے باپ کی ذلت بھری موت نہیں بھول سکتا تھا پولیس کی مدد لی مگر کسی نے کوئی مدد نہ کی ہر طرح کی کوشش کے بعد جب مجھے کوئی رستہ نہ دکھا تو میں نے سر پر کفن باندھ کر ایک بار پھر گن اٹھا لی اور ٹھان لیا دشمن کو مار کر مروں گا والد اور تایا دو ہی بھائی تھے تایا کے دو بیٹے اور تھے میں نے ان سب کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا اور رات کے وقت تایا کے گھر میں گھس کر تایا کے بیٹوں کو کلہاڑی کی مدد سے موت کے گھاٹ اترا پھر تایا میرا نشانہ تھا میں نے گولی چلائی۔۔۔۔۔۔

وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے ازيت بھرا تھا بیچ میں نیلم آ گئی اور میں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جان کو مار ڈالا وہ اکیلی نہ تھی بلکہ اس کے وجود میں ایک ننھی جان اور بھی تھی میرا بچہ ۔۔۔۔۔میں نے اپنا بچہ اپنے ہاتھوں سے کھو دیا یہ درد وہی جانتا ہے جس نے اپنی اولاد کھوئی ہو نیلم گری میں نے تایا پر گولیو کی برسات کر دی اور بھاگتے ہوۓ نیلم کے پاس گیا اس کو اپنی بانہوں میں آخری بار بھرا میں بن جل مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اس کو اٹھا کر اسپتال لے جانے لگا میں جانتا تھا اب وہ مجھ سے نفرت ہی کرے گی مگر میں اس کی زندگی بچانے کے لئے ہر حد سے گزر سکتا تھا دو قدم چلتے ہی وہ مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی ۔۔میں پاگلوں کی طرح نیلم نیلم پکارتے اس کو گود میں بھرے روتا رہا آج ٹوٹا تھا وہ آنسو کا سیلاب یہ غم میرے اعصاب پر بھاری پڑ رہا تھا اس دن میری دنیا بے رنگ ہو گئی تھی جس میں اب مرتے دم تک رنگ نہیں بھریں گے
تایا اور اس کے بیٹوں کی موت کے بعد ساری زمین جائیداد میرے بھایوں کیو مل چکی تھی پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی مجھے سزاے موت دی جانے والی تھی کہ اسد صاحب نے مجھے آزاد کروا دیا یہ ایک بڑے پیمانے پر جرایم پیشہ انسان ہے پولیس ان کے ہاتھ میں ہے مجھے وہ کیسے جانتا تھا اور اس نے مجھے کیوں چھڑوایا یہ میں آج تک نہیں جان سکا مگر اس کے بعد سے لے کر اب تک میں اسد صاحب کے لئے کام کر رہا ہوں ہزاروں قتل کر چکا ہوں اب زندگی کا بس یہی مقصد ہے گھر والے قطع تعلق کر چکے ہیں اس نے میری جان کیوں بخش دی میں نہ سمجھ سکی شید میرے نام کی وجہ سے ۔۔

چلو اس نے اچانک میری كلای پکڑی اور بولا مگر کہاں اس نے جواب نہ دیا اور مجھے پکڑ کر باہر لے آیا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی مجھے گاڑی میں بٹھا کر اس نے گاڑی چلا دی زندگی کے اس موڑ پر آ کر میں کسی پر بھی بھروسہ کرنا نہ چاہتی تھی مگر وہ جہاں بھی لے جارہا تھا وہ جگہ اس جہنم سے بہتر ہی ہوگی وہ مجھے ڈاکٹر کے کلینک لے گیا تھا میرے چیک اپ کے بعد میرے لئے دوا لی اور ساتھ ہی کچھ پھل بھی اور مجھے ایک گھر لے گیا شاید وہ اس کا اپنا گھر نہ تھا کیوں کہ اسد سے پنگا لینے کے بعد اس کی اپنی جان بھی محفوض نہ تھی مگر وہ تو جیسے نڈر تھا اس کے چہرے پر ڈر کا کوئی تاثر نہ تھا کچھ دن اس نے مجھے اس گھر میں رکھا تھا مجھے کام کو ہاتھ نہ لگانے دیا خود ہی آ کر کھانا لکڑی پر بناتا تھا اور باقی کے کام بھی خود کرتا بہت سپاٹ چہرہ تھا
 اس کا وہ مسکرا تا نہ تھا مگر نین نقش نہایت پر کشش تھے اس نے میری بہت دیکھ بھال کی جس سے مجھ میں بہتری آنے لگی میں کمرے میں سوتی تھی اور وہ صحن میں اس نے آج تک مجھ پر غلط نگاہ نہ ڈالی تھی پتہ نہیں کیوں وہ دنیا بھر کے ظلم کے مقابلے میں میرے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا تھا وہ چائے بنا رہا تھا کہ میں نے اس سے سوال کر ڈالا تم نے مجھے کیوں نہیں مارا ہمارے بیچ بات چیت بہت کم ہوتی تھی میں نے آج تک کسی مضلوم کی جان نہیں لی ہم یہ بات کر ہی رہے تھی کہ اسد کے بندے دروازہ توڑ کر گھر میں گھس آ گئے عمران نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وہ بہت تھے اور یہ ایک آخر کار ہم وہاں سے جان بچا کر بڑی مشکل سے بھاگ نکلے گولیوں کی بو چھاڑ میں میرے حواس کھو چکے تھے میرے وجود کو بھی عمران نے ہی سمبھال رکھا تھا اس کے بازو میں گولی لگی تھی پھر بھی وہ بڑی تیزی سے گاڑی کچے میں دوڑا رہا تھا ۔ہم ایک ڈھابے بنا ہوٹل میں رہے تھے اس رات وہ بہت تکلیف میں تھا اپنا بازو پکڑ تڑپ رہا تھا بری طرح وہ جانتا تھا اس وقت کسی اسپتال جانا مناسب نہ تھا اس نے اپنے آدمی چاروں طرف پھیلا رکھے تھے پھر پولیس بھی اس کی مٹھی میں تھی وہ ساری رات یوں ہی تڑپتا بلبلاتا رہا میری آنکھوں سے بھی آنسو گر نکلے اس نے خود ہی اپنے وجود سے گولی نکالی مجھ سے تو یہ سب دیکھا بھی نہ جا رہا تھا

کچھ دن بعد وہ پولیس اور اسد اللہ کے آدمیوں سے بچتا بچاتا مجھے میرے شہر لے آیا تھا تا کہ مجھے محفوز آ شیانے تک پہنچا دے میرے ہزار منع کرنے کے بعد بھی اس نے مجھے سمجھایا کہ گھر والوں کی مار بھی دنیا والوں کی دی ذلت سے بہتر ہے آج برسوں بعد میں اپنے محلے میں داخل ہو چکی تھی گھر جانے پر معلوم ہوا کہ ہمارا گھر میں اب کوئی اور رہ رہا تھا آس پاس سے پتہ لگا والد کی ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئی اور والدہ بھی ان کے کچھ ماہ بعد چل بسی بہن کی شادی میری جگہ والد کے دوست سے ہو گئی تھی اور سلیمان چاچو کے ساتھ رہ رہا تھا میرا گھر اب وہ گھر نہ رہا تھا ماں باپ کی موت کا سن کر دل خون کے آنسو رویا مگر آنکھ سے بس دو آنسو ہی گرے اب میں پوری طرح عمران کے رحم و کرم پر آ گئی تھی
 جینے کی کوئی چاہ باقی نہ تھی عمران مجھے اس شہر سے دور اپنے گاؤں لے گیا اس کی اور میری زندگی مسافروں کی طرح تھی ہم ایسے سفر پر تھے جس میں بس کانٹے ہی تھے اور منزل کی کوئی امید نہیں ۔میں نہیں جانتی تھی ہم کہاں جا رہے ہیں وہ قبرستان تھا عمران اندر گیا اور نیلم کی قبر پر دعا کی اب ہم پھر سے ایک راستے پر تھے ۔کب تک میرا بوجھ یوں اپنے کندھوں پر لاد کر گھومو گے مت کرو ایسا میری وجہ سے اسد اللہ خان تمہاری جان لے لے گا کب تک مجھے اپنے ساتھ گهسیٹو گے ؟؟؟؟

 بس کچھ دن اور وہ بولا اور پھر گاڑی میں ایک تلخ خاموشی چھا گئی مجھے لگا اس کا کوئی مفاد ہے مجھ سے جس کے پورا ہونے کے بعد یہ مجھے پھر سے بے سہا را کر جاۓ گا یعنی اب کچھ دن وہ میرے ساتھ تھا گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی تھی اور عمران اتر گیا میں بھی اس کے ساتھ ہو لی وہ یہاں سب سے پنجابی میں بات کر رہا تھا وہ لوگ اس سے بڑی خلوص سے مل رہے تھے عمران نے ان کو بتایا کہ میں اس کی بیوی ہوں یہ سن کر مجھے عجب سا لگا مگر میں چپ رہی کیوں کہ جانتی تھی اس میں بھی عمران کی کوئی مصلحت ہوگی وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھا تا تھا تب ہی اب تک ہم اس اسد اللہ خان سے بچے ہوۓ تھے پھر ہم اس گھر میں ٹھر گئے کھانا کھایا لسی وغیرہ پی ہم دونوں کو ایک كمره دے دیا گیا 
رات کافی ہو چکی تھی ویسے بھی گاؤں والے جلدی ساوجايا کرتے تھے عمران نے کمرے کا دروازاه اچھے سے بند کردیا ۔اور اپنی شرٹ اتار دی میری امید ایک بار پھر ٹوٹنے والی تھی کہ حقیقت نے مجھے شرمنده کر ڈالا کمرے میں کوئلے جل رہے تھے عمران نے ایک چھری کو گرم کیا اور پھر اپنے اس زخم میں ڈال کر نوچ ڈالا وہ گولی کا زہر ختم کر رہا تھا میں نے دیکھا اس کا زخم کافی گہرا تھا کچھ دیر یہ کرنے کے بعد وہ پوری طرح پسینے سے بھیگ گیا جب کہ باہر بہت ٹهنڈ تھی وہ دیوار سے لگ کر هانپ رہا تھا تکلیف سے اس کا چہرہ سرخ تھا وہ آنکھیں بند کئے ہی بیٹھا تھا میں اٹھی اور اپنے دو پٹے کا کچھ حصہ پھاڑ کر اس کے بازو پر باندھ دیا اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں جیسے اس کو عادت نہ رہی تھی کسی کی کیئر کی کسی کی اپنا یت کی وہ حیرت سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا

مجھے اس پل وہ کوئی پیشہ ورانہ قاتل نہیں بلکہ بلکل ایک معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا جو پیار کو بھوکا ہو اپنے بڑی بڑی آنکھیں پھیلائے مجھے تک رہا تھا میں بنا کچھ بولے اپنی جگہ سے اٹھ کر واپس آ گئی وہ بھی چار پائی پر لیٹ گیا اپنا چہرہ اس نے بازو سے چھپا رکھا تھا میں بھی اپنی چار پائی پر لیٹ گئی باہر کڑک دار بارش جاری تھی مگر ہم دونوں کے اندر کے طوفان سے بہت کم تھی مجھے امی ابو کی بہت یاد آ رہی تھی اور وہ شاید اپنی بیوی کو یاد کر رہا تھا نہ جانے کب آنکھ لگی تھی
اگلے دن ناشتے کے بعد عمران گھر سے باہر چلا گیا اور میں ان اجنبیوں کے بیچ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی نہ جانے کیوں عمران کا انتظار کرنے لگی وہ شام کو لوٹا تھا تو گھر والوں کے بیحد اصرار پر مجھے اپنا گاؤں دکھانے نکل گیا ہم دونو خاموشی سے پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے کچھ کھیتوں کے پاس آ کر وہ رک گیا وہ سامنے دیکھ رہی ہو وہ سب ہماری زمین ہے وہ بنا میری طرف دیکھے نہایت جزباتی ہو کر یہ بولا بہت پیار ہے نہ تمہیں اپنی زمین سے
پیار ۔۔۔۔وہ دکھ کو چھپا کر مسکرا گیا جانتی ہو یہ کیا ہے كماد ہے
مجھے سمجھ نہ آیا تھا اس نے ایک گنا لیا اور اس کا رس چوسنے لگا ۔۔کتنے بے مروت ہیں آپ مہمان سے پوچھتے تک نہیں ؟؟؟ آج برسوں بعد میں اپنے پرانے انداز میں بولی تھی آج مدت بعد دل چاہ رہا تھا جینے کو

آپ کھائیں گی ؟؟ وہ سنجیدگی سے بولا تو میں نے مثبت انداز میں سر ہلا دیا جس پر وہ ٹیوب ویل کے کنا رے بیٹھ گیا تو لے لیں سب آپ کے سامنے ہیں میں گنا توڑنے کی کوشش کرنے لگی چونکہ میں اس کام میں بلکل آناڑی تھی میرے اس انداز پر وہ شوخی سے مسکرانے لگا اور بڑی دل چسپی اور پوری توجہ کے ساتھ مجھے دیکھنے لگا میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو مجھے لگا ہی نہیں یہ وہی کرخت چہرے والا کم گو عمران ہے مجھے وہ ایک دل کش اور زندگی سے بھر پور نوجوان لگا اس کی مسکرا ہٹ بہت سچی تھی اور آنکھوں میں ایک چمک آ گئی تھی یوں لگا جیسے اس پل میں وہ بھی کھل کر جیا ہو ۔۔ایسے توڑا جاتا ہے گنے کو ؟؟؟؟
 وہ کھل کر هنسا تو میں بھی اپنی حرکت پر ہنس دی ہم دونوں نے اس پل میں ہی اپنی زندگی کو کو جی بھر کر جی لیا تھا مغرب کی اذان ہونے لگی ہم دونوں گھر کی طرف چل پڑے ہم دو دن وہاں مزید رہے اسد اللہ خان کو کسی نے خبر کر دی تھی ہمارے یہاں ہونے کی اس کے بندوں نے راتوں رات گھر کو گھیر لیا چاروں طرف گولیوں کی آوازیں تھی میں بری طرح کانپ رہی تھی عمران نے اپنی گن لوڈ کی اور مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا وہ جانتا تھا جب تک وہ یہاں ہے ان گھر والوں کے لئے خطرہ ہے اس نے مجھے مزبوطی سے تھام رکھا تھا جیسے میں کانچ کی کوئی گڑیا ہوں وہ مجھ پر آنچ بھی نہ آنے دے رہا تھا ہم بچتے بچاتے پچھلی كهركی سے کودے عمران نے گن ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی اور بڑی ہوشیاری سے وہ ہر قدم اٹھاتا دشمن سے دور ہوتا جارہا تھااللّه کے فضل اور اس کی سوجہ بوجھ اور عقلمندی کی وجہ سے اب تک ہم زندہ تھے اب ہم تیزی سے بھاگ رہے تھے 

عمران نے سڑک والے رستہ کی بجائے كهیتوں کے بیچ کا رستہ لیا وہاں بھاگنا میرے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا عمران کی رفتار مجھ سے بہت زیادہ تھی اس نے مزبوطی سے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا میں بھی گرتی پڑتی اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی ہم بمشکل لاری اڈے پہنچ ہی گئے کراچی کو جانے والی پہلی بس میں سوار ہو گئے بس میں رش بہت تھا وہاں ایک بندے نے میرے ساتھ بد تمیزی کی میں سہم گئی یوں لگا جیسے پچھلے زخم ادھڑ سے گئے ہوں میں چپ رہی مگر عمران نے دیکھ لیا تھا اس نے اس بندے کا گریبان پکڑ لیا کیوں عورت کی عزت کرنا سکھاؤں عمران بولا غصے سے اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو گئیں دوسرا شخص بھی عمران کے گلے کو آنے لگا تو عمران بری طرح بھڑ گیا لوگوں نے بیچ میں پڑ کر صلاہ صفائی کروائی۔۔۔
عمران مجھے کراچی لے آیا میں پوچھتی تو کہتا بہت جلد ہم آزاد ہونے والے ہیں کراچی آ کر اس نے ایک ہوٹل کا كمره لیا اور ہم وہی رہے کچھ دن وہ ہمارا پاسپورٹ بنوا رہا تھا تمام تر فورمالیٹیز اس نے پوری کرلی تھیں اس عرصہ میں ۔آج مجھے اپنے گھر کو چھوڑے پورے چار سال کا عرصہ بیت چکا تھا میں 19 برس کی ہو چکی تھی اب میری صحت کافی بہتر تھی اور سوچنے سمجهنے کی صلاحیت بحال عمران 28 برس کا تھا ہم دونوں ایئر پورٹ پر موجود تھے وہ بے چینی سے آس پاس دیکھ رہا تھا اس نے آج مجھے ٹوپ والا برقع ساتھ رکھنے کو کہا تھا ہم اپنے ٹکٹ ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے عمران اس بات سے واقف تھا کہ اسد اللہ خان کے آدمی وہاں ضرور پوہنچےں گے گئے عمران کا ہاتھ اپنی پینٹ میں لگی گن پر چلا گیا مگر وہ پر سکون بیٹھا رہا جیسے کسی حکمت سے کام لے رہا ہو اس کے ساتھ کچھ دن گزار کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا وہ بہت زهین اور تیز دماغ کا مالک تھا ۔۔

سنو نیلم یہ رہا تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ دبئی ایئر پورٹ سے تمہیں خود کوئی لینے آ جاۓ گا میرا پرانا جاننے والا ہے شریف اور قابل اعتماد بندہ ہے وہ وہاں تمہیں کوئی چھوٹی موٹی مگر عزت دار نوکری دلوادے گا اب تم یہ برقہ جلدی سر پر ڈالو اور جاؤ سامنے جو عورتیں بیٹھی ہیں ان کے پاس جا کے بیٹھ جاؤ وہ لوگ تمہیں نہیں پہچان سکیں گے جلدی جاؤ اس سے پہلے وہ میرے ساتھ تمہیں دیکھ لیں ۔۔۔اس کے الفاظ مجھ پر بجلی گرا گئے اور تم ؟؟؟؟ 
عمران میں نے پہلی بار اس کو نام سے پكارا تھا میری آواز لرز رہی تھی اور آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی دیر مت کرو اور اپنی منزل کا رخ کرو وہ پریشانی سے بولا مگر تم تو کہتے تھے ہم دونوں اپنی منزل کو پہنچیں گے ؟؟؟ ہاں میری منزل یہی ہے ٹہر جانا ہی میری منزل ہے میں بہت تهك چکا ہوں یوں بھاگتے بھاگتے اپنے ویسے بھی نیلم کے بغیر میں کچھ نہیں اور آج تمہیں تمہاری منزل دے کر میں نے اپنی گناہوں سے بھری زندگی میں ایک اطمینان پا لیا ہے مرنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ اس نے بیحد اطمینان کے ساتھ ادا کئے اور گن نکال کر کھڑا ہو گیا تم جاؤ نیلم جلدی ان کو تمہاری ہی تلاش ہے بھاگو میری محنت کو کو شش کو زیا مت ہونے دینا میرا مقصد پورا کرو بھاگو نیلم میں اٹھ کر سامنے بیٹھی عورتوں کے ساتھ جا بیٹھی میں نے برقہ اوڑھ رکھا تھا انہوں نے عمران کو جیسے ہی دیکھا جنگلی جانور کی طرح اس پر لپکے اور دھڑا دھڑ اس کے جسم میں بسیوں گولیاں پیوست کر ڈالی آس پاس لوگوں میں بھگ دڑ مچ گئی عمران کے ہاتھوں بھی ان کے تین بندوں کی جان گئی تھی عمران گھٹنوں کے بل گر کر اپنی منزل سے جا ملا یہ منظر میرے لئے بہت قرب ناک تھا زندگی جیسے گن گن کے مجھ سے بدلے لے رہی ہو میں بس چپ چاپ بیٹھی آنسو بہاتی رہی ۔۔۔۔

میں آج 25 برس کی ہو چکی ہوں اور دبئی میں ایک ہوٹل میں بطورکلرک کام کرتی ہوں اور ایک عزت والی زندگی جی رہی ہوں اب طوفان تھم چکا ہے اور زندگی پر سکون ہے مگر گزرے دنوں کی یادیں بچی کچی زندگی سے زیادہ طویل ہے

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

6 اقساط

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں