غیرت مند عاشق - پارٹ 8

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

غیرت مند عاشق -  پارٹ 8


مسقط کے ہوائی اڈے پر اسے کمپنی کی کار لینے آئی ہوئی تھی ۔ڈرائیور اسے ایک شاندار فلیٹ میں لے آیا جو تین کمروں پر مشتمل تھا ۔ایک کمرہ اس کے لیے تیار کیا گیا تھا باقی ہر کمرے میں دو دو آدمی مقیم تھے ۔ڈرائینگ روم اور کھانے کا کمرہ اکھٹا ہی تھا ۔ایک کونے میں درمیانی میز کے گرد پانچ کرسیاں لگا کر کھانے کی جگہ بنائی گئی تھی ۔جب کہ اس کے ساتھ دو صوفہ سیٹ رکھ کر ڈرائینگ روم تشکیل دیا گیا تھا ۔صوفوں کے سامنے لگی چالیس انچ کی ایل ای ڈی ،اسے ڈرائینگ روم کے ساتھ ٹی وی لاﺅنج کا رنگ بھی دے رہی تھی ۔

چاروں افراد اس کے ماتحت تھے ۔انھوں نے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا ۔تعارف وغیرہ کے بعد چاے اور لوازمات کے ساتھ اس کی تواضع کی گئی ۔تھوڑی دیر دفتر کے ساتھیوں سے گپ شپ کرنے کے بعد وہ فوراََ کمرے میں گھس گیا ۔ وہاں فون کی سہولت موجود تھی ۔رسیور اٹھا کر وہ بے تابی سے گھر کا نمبر ملانے لگا ۔فون رخسانہ چچی نے رسیو کیا تھا ۔اپنی خیرت سے پہنچ جانے کا بتا کر وہ دعا کا پوچھنے لگا ۔

”اس کی فکر نہ کرو، ٹھیک ہو جائے گی ۔“رخسانہ چچی نے اسے تسلی دی ۔
محمود بےتابی سے مستفسر ہوا ۔”کھانا تو کھا لیا تھا نا اس نے ....“
رخسانہ نے گلا کھنکار کر گول مول انداز میں کہا ۔”کہا تو ہے فکر نہ کرو کھا لے گی ۔“
”چچی جان !....اس نے کل رات بھی کھانا نہیں کھایا دوپہر کو بھی نہیں کھایا ،خدارا رات کو منت سماجت کر کے کھلا لینا۔“ اس کی آواز رونے والی ہو گئی تھی ۔”دیکھیں سختی سے نہ کہنا ، تھوڑا سے سمجھانا اور ....“
”پاگل !....بیٹی ہے وہ میری ۔“رخسانہ نے قطع کلامی کرتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا ۔”یہ ساری باتیں میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔اب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے اگر میں تمھیں ڈانتی رہی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مجھے پیاری نہیں ہے ۔“
”شکریہ چچی جان !....میں جانتا ہوں آپ دونوں اسے بہت چاہتے ہو ،بس یونھی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کیا کہوں اور ....وہ ....وہ مجھے بہت یاد آ رہی ہے چچی جان !“محمود کی آواز بھرانے لگی ۔”اسے یہ نہ کہنا کہ میں پریشان یا دکھی تھا ۔اسے کہنا میں بہت بہت خوش ہوں اور اس بات پر پچھتا رہا ہوں کہ میں بہت پہلے ہی کیوں نا یہاں آ گیا تھا ۔“

”روتے نہیں ہیں بیٹا !....“محمود کی سسکیاں سن کر رخسانہ بھی گلوگیر ہونے لگی ۔ ”دو سال کی تو بات ہے ۔اور یہ بھی تمھاری اپنی ضد تھی ۔میں تو اب بھی کہہ رہی ہوں کہ ہفتہ ڈیڑھ لگا کر واپس آجاﺅ۔“
”نہیں چچی جان !....پہلا دن ہے نا ....سب ٹھیک ہو جائے گا ۔آخر یوں بھی تو ایک دن گڑیا نے ہمیں اکیلا چھوڑ کر اپنے گھر چلے جانا ہے ۔“
”ہاں ....“رخسانہ نے ٹھنڈا سانس بھرا ۔
”اچھا چچی جان خدا حافظ ،چچا جان کو سلام کہنا اور گڑیا کو بہت سارا پیار دینا ۔“
”خدا حافظ ۔“کہہ کر رخسانہ نے رسیور نیچے رکھا اور آنکھوں میں نمودار ہونے والی نمی صاف کرنے لگی ۔

”بھیا تھا نا ؟“اچانک قریب سے دعا کی آواز سن کر وہ چونک گئی تھی ۔اور پھر اس کے لب کھولنے سے پہلے وہ پوچھنے لگی ۔”رو رہا تھا ۔۔ ہے نا ؟“
”نن....نہیں تو ....بہت خوش تھا ۔پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کیا ہے ۔کہہ رہا تھا بہت لطف آیا ہے ۔اور تمھارا پوچھ رہا تھا ....“
”امی جان !....یہ کہتے ہوئے کم از کم اپنے چہرے ہی پر خوشی کے اثرات لے آئیں۔ مجھے سمجھاتی ہیں جھوٹ بولنا بری بات ہے ۔“
”میں بھلا کیوں جھوٹ بولنے لگی ۔“رخسانہ نے لہجے میں غصہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ۔
”آپ کے کال رسیو کرتے ہی میں یہاں پہنچ گئی تھی ۔ساری گفتگو سن لی ہے میں نے ۔انھیں کہہ دیں واپس آجائیں ورنہ میری ضد برقرار ہے ۔کھانا کھاﺅں گی تو ان کے ہاتھ سے ورنہ نہیں کھاﺅں گی ،ایک نوالہ بھی حرام ہے مجھ پر ۔“
محمود پر آئے غصے کا نشانہ اپنی ماں کو بنا کر وہ اپنے کمرے میں لوٹ گئی تھی ۔جبکہ رخسانہ افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔
اس کی وہ رات بھی گزشتہ کئی راتوں کی طرح بے چینی اور بے آرامی میں گزری ۔نیند نہ آتی دیکھ کر وہ لیپ ٹاپ آن کرکے دعا کی وڈیوز دیکھنے لگا ۔اور پھر اسی شغل میں اس نے صبح کر دی تھی ۔صبح الٹا سیدھا ناشتا کر کے وہ دفتر جانے کے لیے تیار تھا ۔پہلا دن ہی نہایت بے آرامی اور بے سکونی میں گزرا ۔دفترکا کوئی کام بھی وہ ڈھنگ سے نہ کر سکا ۔اس کے دماغ میں صرف دعا کی سوچیں ہی سرسراتی رہیں ۔آیا اس نے رات کا کھانا کھایاہوگا یا نہیں ۔کہیں مسلسل بھوکی رہ کر بیمار تو نہیں پڑ گئی ہو گی ۔چچا ،چچی اس کی ضد دیکھ کر اسی ڈانٹ تو نہیں رہے ہوں گے ۔ کہیں وہ بار بار محمود کو آوازیں تو نہیں دے رہی ہو گی ۔اس کے ماتحتوں نے بھی اس کی پریشانی بھانپ لی تھی ۔ ایک دو نے دبے لفظوں میں پوچھا بھی مگر وہ ٹال گیا ۔پاکستان وقت کے شام کے مطابق اس نے گھر فون کیا ۔فون رخسانہ چچی ہی نے اٹھایا تھا ۔
”اسلام علیکم چچی جان !“
”وعلیکم سلام بیٹا !....کیسے ہو ؟“رخسانہ چچی نے تسلی بھرا لہجہ اپنانے کی کوشش کی مگر شاید اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی ۔
”میں ٹھیک ہوں چچی جان !....دعا کیسی ہے ،کل رات اس نے کھانا تو کھا لیا تھا نا اور اب کہاں ہے وہ ذرا بات کرا دیں ؟“
”فی الحال وہ خفا ہے تم سے اس لیے یقینا وہ بات نہیں کرے گی ۔“رخسانہ چچی کھانے والی بات گول کر گئی تھی ۔
”میرا خیال ہے اسی کے موبائل فون پر کال کر کے منا لیتا ہوں ؟“
”نہیں ....نہیں ....بلکہ ہاں وہ تمھاری کال بھی بھلا کہاں وصول کرے گی۔“ رخسانہ گڑبڑا گئی تھی ۔
”چچا جان کہاں ہیں ۔“رخسانہ چچی کے لہجے کی لڑکھڑاہٹ نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا ۔
”وہ ....وہ یہیں ہیں ....بلکہ ابھی دعا کو ساتھ لے کر شاید گھر سے باہر نکلے ہیں ۔“
”چچی جان !....کیا بات ہے آپ سیدھی طرح مجھے بتا کیوں نہیں رہیں ؟“
”کوئی بات بھی نہیں ہے بیٹا !....دعا کو ہلکی سی حرارت تھی اور تمھارے چچا اسے ڈاکٹر تک لے گئے ہیں ۔خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہو۔“
”کیا ہوا گڑیا کو اور آپ نے بتایا نہیں اس نے کھانا کھایا تھا یا نہیں ۔“
”بتایا تو ہے اسے ہلکا سا بخار ہے اور بس ۔“
”کھانا کھا لیا تھا یا نہیں ؟“محمود نے سہ بارہ پوچھا ۔
”بیٹا ابھی تک اس نے ضد پکڑی ہوئی ہے اور آج ان شاءاللہ میں اسے ضرور کھلا دوں گی ....“

”ٹھیک ہے چچی جان خدا حافظ !“مزید کوئی بات کیے بغیر اس نے کریڈل دبایا اورانکوائری کا نمبر ڈائل کر کے بکنگ آفس مانگنے لگا ۔اگلے دس منٹ میں وہ رات کی فلائیٹ سے پاکستان کی سیٹ کنفرم کرا چکا تھا ۔
دفتر کے ساتھیوں کو گھر میں ایمرجنسی کا بتا کر وہ باہر آگیا ۔دفتر سے فلیٹ تک جانے کے لیے انھیں ایک کار ملی ہوئی تھی ۔ڈرائیور کو فلیٹ میں جانے کا بتا کر وہ وہ عقبی نشست پر بیٹھ گیا۔ ایک دم اس نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔اپنی گڑیا کو وہ مزید اذیت نہیں دے سکتا تھا۔اس ضدی نے دو اڑھائی دن سے کھانے سے منہ موڑا ہوا تھا اور اس وجہ سے اب اس کی طبیعت بھی خراب ہو گئی تھی ۔وہ اپنی گڑیا کو یوں تڑپتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔اگر اس کی زندگی کسی دکھ اور ناآسودہ خواہش کا شکار تھی تو اس کی پاداش میں اپنی جانِ حیات کو تکلیف دینا کہاں کی عقل مندی تھی ۔اسے مسقط آنے کا فیصلہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔اور اگر کر لیا تھا تو گڑیا کی ضد کو دیکھ کر اسے باز آ جانا چاہیے تھا ۔
”اگر وہ کچھ الٹا سیدھاکھالیتی پھر ؟“ایک اور پشیمان کرنے والی سوچ اس کے دماغ میں ابھری اور وہ خود کو کوسنے لگا ۔
ڈرائیور نے فلیٹ کے سامنے جا کر کار روکی ۔اسے وہیں کھڑا رہنے کا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں آیا سرعت سے اپنا سامان سمیٹا اور کمرے کو تالا لگا کر چابی ڈرائیور کے حوالے کرکے اسے ہوائی اڈے جانے کا کہہ دیا۔
جہاز کی اڑان سے سے چند گھنٹے پہلے ہی وہ ہوائی اڈے پہنچ گیا تھا ۔باقی کا وقت اس نے انتظار گاہ ہی میں گزارا ۔رات کو جانے والی اڑان نے صبح کی آذان سے گھنٹا ڈیڑھ پہلے اسے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتار دیا تھا ۔ہوائی اڈے سے نکل کر اس نے ٹیکسی پکڑی۔ جب گھر کے سامنے اترا تو دور کسی مسجد میں موذّن اللہ پاک کی کبریائی کا اعلان کر رہا تھا۔
اطلاعی گھنٹی کا بٹن دبانے کے چند لمحوں بعد قدموں کی چاپ ابھری اور پھر چچا رضوان کی محتاط آواز ابھری ۔”کون ؟“
”چچا جان !....میں ہوں محمود ۔“

دروازہ کھول کر رضوان نے اسے اپنے بانہوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”خیر تو ہے بیٹا !....اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے ؟“
”خیرہے چچا جان !....دعا کی طبیعت کیسی ہے ؟“
رضوان پھیکے انداز میں ہنسا ۔”اس کی طبیعت کو کیا ہونا ہے ....بس اس ضدی نے جب کہہ دیا کہ اپنے مودی بھیا کے ہاتھوں سے کھانا کھائے گی تو وہ ایسا ہی کرے گی ۔“دروازہ بند کرکے وہ اسے ساتھ لے کر آگے بڑھ گیا تھا ۔
رخسانہ بھی اپنی خواب گاہ کے دروازے پر کھڑی تھی ۔محمود کو دیکھ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔
”جب تم نے مزید تفصیل پوچھے بغیر کال منقطع کر دی تھی تو میں اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ جناب کی ہمت جواب دے گئی ہے اور پردیس جانے کا شوق بھی پورا ہو گیا ہے ۔بس ایک دو دن میں محمود صاحب اپنی لاڈلی کے پاس ہوں گے ۔لیکن تم میرے اندازے سے بھی تھوڑا پہلے ہی آگئے۔“
”چچی جان !....وہ اڑھائی دنوں سے بھوکی ہے ۔“محمود کے لہجے میں تشویش تھی ۔
رضوان طنزیہ لہجے میں بولا ۔”ویسے آدمی کم از کم ہفتہ بھر تو بھوکا پیاسا رہ کر زندہ رہ سکتا ہے ۔“
”اب شرمندہ تو نہ کریں چچا جان !“نادم لہجے میں کہتے ہوئے وہ دعا کے کمرے کی طرف مڑا۔
رضوان اسے روکتے ہوئے بولا۔”محترم !....اسے نیند کی گولی کھلا کر سلایا تھا ،شاید ابھی تک گہری نیند میں ہو ۔“
”نیند کی گولی کھلا دی مگر کھانا نہ کھلایا جا سکا ۔“منھ بناتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ دونوں میاں بیوی ہنستے ہوئے اپنی خواب گاہ میں گھس گئے تھے ۔
اپنا سامان کمرے میں رکھ کر اسے چین نہ آیا اور وہ دعا کو ایک نظر دیکھنے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔اسے لگ رہا تھا جیسے وہ لمبے عرصے سے اسے دیکھ نہیں پایا ہے ۔
دروازہ دھکیلنے پر کھلا ملا ۔یوں بھی وہ محمود کی وجہ سے دروازہ کنڈی نہیں کیا کرتی تھی ۔ کیونکہ محمود صبح صبح نماز کے لیے جاتے وقت اسے جگایا کرتا تھا ۔مدہم روشنی میں وہ سینے تک کمبل اوڑھے سیدھی لیٹی تھی ۔بوجھل سانس یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ گہری نیند میں ہے ۔کمرے کی لائیٹ جلا کر وہ اسے دیکھنے لگا ۔پھول سا چہرہ کملا گیا تھا ۔نیند میں اس کے چہرے پر چھائی معصومیت اور بھی بڑھ گئی تھی ۔اس کے لب ،روشن جبین کے اتصال کے متقاضی ہوئے ۔دل بھی ان کی تائید میں مچلا، مگر دماغ مضبوط دلائل کے ساتھ میدان میں اتر آیا تھا ۔حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا ....
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اس وقت اس کے دل نے بھی دماغ سے یہی درخواست کی تھی لیکن اس کے جذبات پر اس کی عقل غالب تھی ۔ساری زندگی اپنی سوچوں کو پاک رکھنے والا اس تنہائی میں چھوٹے موٹے گناہ کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنی پاک دامنی کا مان رکھ گیا تھا ۔
وہ تھوڑی دیر تک وہاں کھڑا اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتا رہا ،مگر محبو ب کی دید کی پیاسی آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں ۔وہ اگر کئی سال تک وہاں کھڑا رہتا تب بھی اسے یہی لگتا کہ ابھی تو آیا ہوں۔وہ ایسی عبادت نہیں تھی جس سے دل بھرا کرتا ہے ،نہ ایسی تپسیا تھی جس سے تھکن محسوس ہوتی ہو اور نہ وہ ایسا شغل تھا جسے ترک کرنے کو دل چاہے ۔اس کی محویت میں محلے کی مسجد میں گونجنے والے مقدس نغمے نے خلل ڈالا ۔احکم الحاکمین کے منادی نے اس مقدس اور لطیف الخبیرذات کے دربار میں حاضری کا حکم سنایا کہ جو دل میں پیدا ہونے والے اس جذبے کو بھی جان لیتا ہے جس سے خود صاحبِ دل ناواقف ہوتا ہے ۔
جھرجھری لیتے ہوئے وہ دعا کے معصوم چہرے کے سحر سے باہر نکلا اور اس کے کمرے سے بھی نکل آیا ۔اپنے کمرے میں جاکر اس نے وضو کیا اور اس کے قدم مسجد کی جانب اٹھ گئے ۔
نماز وہ باقاعدگی سے پڑھتا تھا اور ہر نماز میں اللہ پاک کے حضور گڑگڑا کر اپنی گڑیا کے اچھے نصیب بھی مانگا کرتا تھا ۔لیکن گزشتہ دو اڑھائی ہفتوں میں وہ اپنی مناجات میں بےسکون دل کاسکون ،بے قرار سوچوں کا قرار اور دعا سے دور رہنے کا حوصلہ مانگنے پر زیادہ زور دے رہا تھا ۔لیکن دعا سے دور رہنے کی دعائیں تو شاید ....
ع دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
جیسے مصرعے کا مصداق بن گئی تھیں ۔مسجد سے واپسی پر وہ چچا چچی کے پاس جا بیٹھا ۔ ساری رات کی بے آرامی کے بعد بھی اس کا دل سونے کو نہیں کر رہا تھا ۔
رضوان چچا نے کہا ۔”ویسے یہ دو سال کچھ جلدی نہیں گزر گئے ....لگتا ہے تم کل ،پرسوں ہی مسقط گئے ہو؟“
”صحیح کہا ۔“لبوں پر پھیکی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
”تم خود ہی پردیس کو برداشت نہ کر پائے یا تمھاری چچی جان نے دعا کی بیماری کا بیان ہی اس خطرناک انداز میں کیا کہ تمھیں آنے پر مجبور ہونا پڑا ۔“
”اب اس تذکرے کو جانے ہی دیں چچا جان !“اس نے دل خراش موضوع سے پہلو تہی کرنا چاہی ۔

”نہیں ،اتنی آسانی سے کیسے جانے دیں ،جب ہم دونوں نے ہاتھ باندھ کر سمجھایا تھا کہ نہ جاﺅ اور تم نے ہماری ایک نہ سنی اب کیوں بھاگ کر آگئے ۔یا پہلے تم محترما گڑیا صاحبہ کی ضد اور ہٹ دھرمی سے ناواقف تھے ۔“
چچا کے تابڑ توڑ حملوں پر اسے بھی جوابی کارروائی کرنا پڑی ۔ ”میں نے سوچا تھا شاید آپ اسے سنبھال لیں گے....لیکن آپ کی ناقص کارکردگی دیکھ کر مجبوراََ اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔“
رضوان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔”یہ بھی خوب کہی میاں !.... ساری زندگی اسے خود سنبھالتے رہے اور اب جبکہ وہ بگڑ کر ناقابلِ علاج ہو چکی ہے تو بوڑھے والدین کے متھے مار دی ۔“
”نہیں جی !....عارضی طور پر حوالے کی تھی ۔اب مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ۔“
”بیٹا !....سچی بات تو یہ ہے کہ تمھارا مسقط جانے کا فیصلہ ہی غلط تھا ۔وہ تمھاری عادی ہو چکی ہے اتنی لمبی جدائی برداشت کرنا اس کے بس سے باہر تھا ۔“رخسانہ ان کی گفتگو میں مخل ہوئی ۔
”چچی جان !....آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ،لیکن جب اس کی شادی ہو گی پھر ؟“
میاں بیوی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ۔ایک لمحے کی خاموشی کے بعد رضوان گہرا سانس لیتے ہوئے بولا ۔”اللہ مالک ہے بیٹا !....ہم تو اس کے نصیب اچھے ہونے کی دعا ہی کر سکتے ہیں ۔ان شاءاللہ اللہ پاک اسے شوہر بھی ایسا دے گا جو اس کی نازبردای میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا ۔“
”ان شاءاللہ ....“محمود نے خلوص دل سے کہا ۔وہ ہمیشہ ہی اپنے پاک ربّ سے یہی دعا تو کیا کرتا تھا کہ دعا کو ایسا شوہر ملے اس کی زندگی خوشیوں کا گہوارا بن جائے ۔
”اچھاچچی جان !....میں نے کبھی آپ سے کچھ نہیں مانگا ،اگر اجازت دو تو ایک درخواست کرنی ہے ۔“ملتجی نظروں سے رخسانہ چچی کو دیکھتے ہوئے اس سے دستِ سوال دراز کیا۔
”کہو نا بیٹا !....مانگو کیا مانگنا ہے ؟“رخسانہ نے اس بے صبری سے کہا کہ محمود حیران ہوگیا تھا ۔جانے اس وقت رخسانہ کے ذہن میں کیا بات تھی ۔وہ اشتیاق اور امید بھری نظروں سے محمود کی جانب متوجہ ہو گئی ۔رضوان بھی پرشوق نظروں سے محمود کو تکنے لگا تھا ۔
”کیا آپ یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ میں گڑیا کے بارے جو فیصلہ کروں گا وہ اس کا فائدہ مدنظر رکھ کر ہی کروں گا ؟“
”دل و جان سے تسلیم کرتی ہوں ۔تم نے جو کچھ گڑیا کے لیے کیا وہ اس کے سگے بھائی تو کیا ہم والدین ہوتے ہوئے بھی نہ کر سکے ۔“
”میرے خیال میں گڑیا کے لیے چچاعمران کا بیٹا کامران ایک بہترین رشتہ ثابت ہو گا۔وہ ایک سلجھا ہوا اور تمیز دار بچہ ہے ۔اس کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہے۔اچھی نوکری پر ہے ، میں کوشش کروں گا کہ وہ شہر ہی میں منتقل ہو جائے ۔“
اس کی بات میں جواب میں رخسانہ نے ٹھنڈی آہ بھری ۔اس کے ساتھ اس کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”میں نے کہا پتا نہیں تم اتنا سسپنس کیوں پھیلا رہے ہو ؟“
”چچی جان !....یہ میری درخواست کا جواب نہیں ہے ۔“
”میرا خیال ہے دعا چھوٹی ہے ۔اور اب تک اس نے اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کی ۔“
”چچی جان !.... میں دعا کے فرض سے سبک دوش ہو کر ہی اپنی شادی کا سوچ سکتا ہوں ۔باقی اس کی عمر کی لڑکیاں ایک بچے کی ماں بن چکی ہوتی ہیں ۔اور جہاں تک اس کی تعلیم کے ادھورا ہونے کا تعلق ہے ،اگر اسے شوق ہوا تو وہ شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی مکمل کر سکتی ہے۔ اس بات کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں کہ کامران اسے مزید تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکے گا ۔“
”محمود بیٹا !....تم ........“رخسانہ نے کچھ کہنے کے لیے لب ہلائے اور پھر شوہر کے گلا کھنکارنے پر ایک لمحہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔”میرا مطلب ہے اگر تم کامران کے بارے مطمئن ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔تم جانو اور تمھاری لاڈلی جانے ۔میں دعا بیٹی کو مجبور نہیں کروں گی ۔“
”شکریہ چچی جان !....آپ کا یہ احسان ہمیشہ قرض رہے گا ۔“
”یہ احسان نہیں ہے بیٹا !....دعا کی زندگی کے بارے فیصلہ کرنے کا تمھیں مکمل اختیار ہے ۔مجھے اور تمھارے چچا کو تم پر بھروسا ہے ۔“
”ان شاءاللہ میں آپ کے بھروسے پر پورا اتروں گا ۔“یہ کہتے ہوئے محمود کی آواز بھرا گئی تھی ۔اپنی دل کے ٹکڑے کو دور جھٹکنے کا فیصلہ کرنا اتنا بھی تو آسان نہیں تھا ۔اس نے حسرت سے سوچا ۔”کاش میں نے اپنے لیے دعا کا رشتا مانگا ہوتا اور چچی جان نے یونھی خوش دلی سے ہاں کر دی ہوتی ۔“مگر ایسا وہ سوچ تو سکتا تھا زبان پر یہ بات لانے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔
ناشتا تیار ہونے تک وہ وہیں بیٹھا ان کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا ۔ماسی نے ناشتا لگنے کا بتایا اور وہ ....”گڑیا !....شاید جاگ گئی ہو ،میں اسے لے آﺅں ۔“کہہ کر ان کے کمرے سے نکل آیا ۔

رخسانہ چچی نے اس کی درخواست تسلیم کر کے اس کا مان بڑھا دیا تھا ۔وہ ان کے خاندان کی سب سے بڑی مخالف تھیں اور اسے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی آسانی سے مان جائیں گی ۔ لیکن کہتے ہیں جب نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جایا کرتی ہے ۔کامران سے دعا کے رشتے کی بات کرتے ہوئے اس کے دل میں بھی کوئی کھوٹ نہیں تھا ۔کامران اس کا دیکھا بھالا لڑکا تھا ۔ نرم خو ،ٹھنڈے مزاج کا سلجھا ہوا لڑکا اسے ہر لحاظ سے دعا کے لیے ایک بہتر جوڑ لگ رہا تھا ۔شکل و صورت کے لحاظ سے بھی اس کا شمار خوب صورت اور پر کشش لڑکوں میں ہوتا تھا ۔اسے یقین تھا کہ دعا نے اس کے ساتھ ایک بہترین اور مثالی زندگی گزارنی تھی ۔کامران کی ماں ،نرگس چچی بھی دو تین بار دبے لفظوں میں محمود کو دعا اور کامران کے رشتے کی بابت منت کر چکی تھی ۔دعا کی شکل و صورت ایسی نہیں تھی اسے بہو بنانے کی حسرت نہ کی جاتی ۔
شکیلہ خالہ بھی اپنے بیٹے بلال کے لیے دعا کے رشتے کی خواہش مند تھی لیکن کامران کو بلال پر اس نے اس لیے ترجیح دی تھی کہ ایک تو بلال کے پاس نوکری نہیں تھی دوسرا وہ مزاج کا ذرا سا تیز تھا ۔اور محمود نہیں چاہتا تھا کہ دعا کو تیز مزاج کا شوہر ملے ۔
اپنی بد بختی کے بارے تو اسے یوں بھی شبہ نہیں تھا ،بچپن میں ماں کے سائے سے محروم ہوا ، لڑکپن میں باپ کا سایہ اٹھ گیا،منگنی کے نتیجے میں پھو پھو جیسے قریبی رشتے سے محروم ہوا اور جسے اپنی ذات سے بڑھ کر چاہا اس کے لیے رشتا ڈھونڈنا پڑ رہا تھا ۔ایسا بھی کوئی ہوگا جو اپنے محبوب کا شریک حیات ڈھونڈتا پھرے ۔اس سے زیادہ بد نصیبی اور بدبختی اور کیا ہوسکتی تھی ۔ محبوب کی بے وفائی اور سنگ دلی کے واقعات تو اس نے بہت زیادہ پڑھے سنے تھے لیکن کوئی ایسا واقعہ اس کی نظر سے نہیں گزرا تھا جیسی اس پر بیت رہی تھی ۔
دعا کی خواب گاہ کے دروازے پر پہنچ کر اس نے سرہلاکر پراگندہ اور اذیت ناک سوچوں کو دور جھٹکا اور دروازہ کھول کر دبے قدموں اندر گھس گیا ۔وہ اپنے بیڈ کی ریسٹ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ ٹانگوں تک کمبل کھینچ کر ،ہاتھ سینے پر باندھے اور آنکھیں بند کیے نہ جانے کن سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
”اس کے سامنے کھڑے ہو کر محمود نے گلا کھنکار کر اسے متوجہ کیا ۔
اس کی گھنی پلکوں میں جنبش ہوئی اور وہ گھنی جھالر نما پلکوں نے وا ہو کر سیاہ آنکھوں سے پردہ ہٹایا ۔محمود کو دیکھنے کے بعد بھی اس کے بدن میں جنبش نہیں ہوئی تھی ۔

محمود نے متبسم ہو کر اسے دیکھا ،مگر وہ خالی خالی نظروں سے اسے تکتی رہی ۔لمحہ بھر اس کی جانب متوجہ رہنے کے بعد اس کی آنکھیں دوبارہ بند ہوئیں اور وہ بڑبڑانے کے انداز میں بولی۔
”مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ۔“
”کیوں گڑیا !....اب تو واپس آگیا ہوں ،پھر بھی خفا ہو ۔“
”ہاں ....ہاں ....ہاں....“اس نے جیسے خودکلامی کے اندازمیں کہنا جاری رکھا ۔ ”اس وقت تک خفا رہوں گی اور کھاﺅں گی پیوں گی نہیں جب تک آپ سچ مچ واپس نہیں آجاتے۔ یوں تصور میں بت بن کر آنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔“
”ارے پگلی!.... میں سچ میں آ گیا ہوں ۔“یہ سوچ کر کہ وہ اس کی آمد کو اپنے تخیل کی کارستانی سمجھ رہی ہے محمود پر جذباتیت طاری ہونے لگی ۔کتنا بلند اور اونچا مقام تھا اس کا دعا کی نظر میں اور اس کی خواہشیں جانے اسے کن پستیوں میں دھکیلنے پر تلی تھیں ۔
”ایسا تو مجھے ہر وقت لگتا ہے کہ آپ سچ میں آگئے ہیں ۔“دعا کی آنکھوں میں نمی نمودار ہوئی اور اس نے دوبارہ آنکھیں کھول دیں ۔
”اب کی بار سچ ہی ہے ۔“دعا کو یقین دلانے کے لیے اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔اس کا لمس پاتے ہی وہ جیسے متوحش ہو کر چونکی ۔اپنے دوسرے ہاتھ سے بے یقینی کے عالم میں اس کا بازو چھوتے ہوئے وہ چیختے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔
”اب میں آپ کو نہیں جانے دوں گی ....آپ نہیں جائیں گے نا .... آپ پکے پکے واپس آ گئے ہیں نا ....سچ سچ بتا ئیں ....مجھے ورغلانا نہیں ....ورنہ اس بار ایسے خفا ہو جاﺅں گی کہ کبھی بھی صلح نہیں کروں گی ....ہر وقت روتی رہوں گی اور روتی رہوں گی ۔“ بے ربط الفاظ منھ سے نکالتے ہوئے وہ اس سے چمٹی رہی ۔
”اگر میری ہر بات ماننے والے وعدے پر پوری اتریں تو کہیں نہیں جاﺅں گا ۔“
”ہر بات مانوں گی ،کوئی ضد نہیں کروں گی ۔آپ بس کہیں جانے کی کوشش نہ کرنا ۔“
”ٹھیک ہے کہیں نہیں جاﺅں گا ۔“دونوں ہاتھوں سے اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے محمود نے خود سے علیحدہ کیا اور اس کے ملیح چہرے پر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہنے لگا ....
”کتنی کمزور ہے گئی ہے میری لاڈو رانی ۔اور کھانا کیوں نہیں کھا رہی تھیں ۔“
وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی ۔”آپ کھلانے کے لیے آ گئے ہیں تو اب کھا لوں گی ۔“
”اور اگر بھوک کی وجہ سے تمھیں کچھ ہو جاتا پھر ؟“محمود کی آواز میں حقیقی اندیشوں کی لرزش تھی ۔
وہ آنکھیں میچتے ہوئے بولی ۔”اللہ پاک کی قسم ،اتنی دعائیں کی تھیں کہ یا اللہ مجھے کچھ ہو جائے ،تاکہ مودی بھیا ساری زندگی مسقط جانے کے فیصلے پر پچھتاتے رہیں ۔“
”اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہوتا ۔اور پاگل میں تمھیں تکلیف دینے کے لیے تھوڑی گیا تھا کہ تم ایسی بددعائیں مانگتی رہی ہو ۔“
”اور تکلیف دینا کیا ہوتا ہے؟“دعا نے منھ بنایا ۔
”اچھا فی الحال چھوڑ ان گلے شکوں کو اور جلدی سے تازہ دم ہو جاﺅ تاکہ میں اپنے ہاتھ سے اپنی گڑیا کو ناشتا کراﺅں ۔“
”میں بس دو منٹ میں آئی ،آپ یہیں بیٹھ کر میرا انتظار کرنا ۔“چھلانگ لگا کر بستر سے اٹھتے ہوئے وہ غسل خانے میں گھس گئی ۔
محمود نے گود میں رکھنے کے لیے اس کا تکیہ اٹھایا،نیچے اپنی فریم شدہ تصوریر رکھی دیکھ کر اس کا دل غم سے بھر گیا تھا ۔نہ جانے وہ دعا کے لیے کتنا اہم اور کتنا پیارا تھا ۔مگر اس بات میں بھی محمود کو کوئی شک نہیں تھا کہ دعا کی محبت ،چاہت اور بے تابی ،اسے ایک مقدس رشتے کی جگہ دینے کی وجہ سے تھی ۔اگر اسے ذرا سی بھی بھنک پڑ جاتی کہ اب محمود کے دل میں اس کے لیے کیا جذبات چھپے ہیں اور وہ اسے دیکھ کر کن کیفیات سے گزرنے لگتا ہے تو یقینا اس کی محبت اور چاہت کو نفرت کا روپ دھارتے دیر نہ لگتی ۔

فریم شدہ تصویر کو واپس رکھ کر اس نے تکیہ تصویر کے اوپر رکھ دیا۔ جانے کیوں وہ دعا کو یہ باور نہیں کراناچاہ رہا تھا کہ اس نے تکیے کے نیچے پڑی اپنی تصویر دیکھ لی ہے ۔ ،حالانکہ دعا نے اپنے دل میں موجود محبت کوچھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی ۔اس کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کے وال پیپر پر بھی محمود ہی کی تصویر لگی تھی اس نے ہمیشہ محمود کے لائے ہوئے کپڑے، جوتے اور سوئیٹر وغیرہ استعمال کیے تھے ۔اگر کبھی والد یا والدہ اس کے لیے کوئی لباس سلوا بھی دیتے تب بھی وہ ایک دن سے زیادہ وہ کپڑے نہ پہنتی اور پھر ان کپڑوں کو اپنی کسی غریب سہیلی کے حوالے کرنے میں دیر نہیں لگاتی تھی ۔اس کی یہ عادت والدین اور دوسرے بھائیوں کی نظر سے بھی اوجھل نہیں تھی لیکن کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ،جب محمود اس کے لیے اتنا مخلص اور اس کے اتنے زیادہ لاڈ اٹھانے والا تھا تو یقینی بات تھی بدلے میں اس کی جانب سے بھی جواب دینا تو بنتا تھا ۔اس معاملے میں تو جانور بھی پیش پیش ہوتے ہیں کہ جس جانور کو آدمی محبت کرے اور اس کا خیال رکھے وہ بھی اس آدمی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے ۔کجا انسان کا بچہ ۔
دعا نے غسل خانے سے باہر آکر اسے خیالات کی دنیا سے باہر نکالا۔اس نے فقط ہاتھ منھ دھونے پر اکتفا کیا تھا ۔پرنور چہرے پر چپکے پانی کے شفاف قطرے ،صبح دم پھول کی پتی پر پڑی شبنم کی یاد دلا رہے تھے ۔ تولیہ اٹھا کر وہ چہرے پر رگڑنے لگی ۔
”چلیں ۔“چہرہ خشک کر کے اس نے اپنی جانب غور سے دیکھتے محمود کا بازو تھام لیا ۔
ناشتے کی میز پر رضوان اور رخسانہ ان کے منتظر بیٹھے تھے ۔
”بیگم !....دیکھو تو یہ وہی لڑکی نہیں ہے جوسال بھر کے روزے اکٹھا رکھنے کا سوچے ہوئے تھی ۔“
رخسانہ قہقہہ لگاتے ہوئے دعا کو دیکھنے لگی ۔
دعا نے فوراََ دھمکی دیتے ہوئے کہا ۔”ابوجان !....اگر آپ نے مجھے تنگ کرنے کی کوشش کی تو میں ناشتا نہیں کروں گی ۔“
”نہ کرو مجھے کیا ۔“رضوان کندھے اچکاتا ہوا بے پروائی سے بولا۔ ”یوں بھی تمھارا دماغ درست کرنے والا محترم پہنچ گیا ہے ۔“
”گڑیا!.... چھوڑو بحث کو اور ناشتا کرو ۔“محمود نے اسے ناشتے کی طرف متوجہ کیا اور وہ مکھن لگی بریڈ اٹھا کر دانتوں سے کاٹنے لگی ۔
اس کے واپس پہنچتے ہی دعا کی بیماری نے رفو چکر ہوتے ہوئے دیر نہیں لگائی تھی ۔ دوپہر اور رات کو اس نے ڈٹ کر کھانا کھایا تھا ۔رات کا کھانا کھا کر وہ تو پڑھنے بیٹھ گئی مگر محمود تھکن کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں آگیا ۔اگلی صبح وہ دعا کو کالج چھوڑ کر دفتر پہنچ گیا ۔
ایم ڈی الیاس اسے دیکھتے ہی خیر خیریت پوچھنے لگا ۔
” گھر میں تھوڑا مسئلہ ہو گیا تھا ۔“اس کے سامنے کرسی سنبھالتے ہوئے اس نے واپس آنے کی وجہ بیان کی ۔
”توواپسی کا ارادہ کب تک ہے ؟“چپڑاسی کو چاے لانے کا بتا کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوگیا ۔
”شاید اب مسقط نہ جا سکوں ۔“
”کیا مطلب ؟“الیاس صاحب حیران رہ گیا تھا ۔

محمود اطمینان سے بولا۔”میرا خیال میں نے وضاحت طلب بات نہیں کہی ۔“
ایم ڈی تیکھے لہجے میں بولا ۔”محمود صاحب !....آپ کی جگہ یہاں دوسرا آدمی بیٹھ گیا ہے ۔اور اب اس کمپنی میں رہنے کے لیے آپ کو مسقط ہی جانا پڑے گا ۔“
”تو میں نے کب کہا کہ میرا اس کمپنی میں رہنا ضروری ہے ۔اپنا حساب کتاب میں نے صاف کرا دیا تھا اور مسقط میں میں نے یوں بھی کوئی کام نہیں کیا اس لیے آپ کی ابھی منگوائی جانے والی چاے الوداعی پارٹی سہی ۔“
محمود کے لہجے کا اطمینان برقرار تھا ۔گو اس کمپنی میں اس کے بہت اچھے دن گزرے تھے اور یہاں اس کی تنخواہ بھی بہت اچھی تھی لیکن وہ ایسی ہزاروں سہولیات اپنی گڑیا کی خوشی کے لیے قربان کر سکتا تھا ۔
”گویا ،یہی اطلاع دینے کے لیے تشریف آوری ہوئی ہے ۔“ایم ڈی الیاس کے لہجے میں شامل ناگواری غیر متوقع نہیں تھی ۔
”نہیں ۔“محمود نے نفی میں سر ہلایا۔”میں تو کام کی غرض سے آیا تھا ،اب آپ کہہ رہے ہیں ، یہاں میری جگہ باقی نہیں رہی تو یقینا میرا یہی کہنا بنتا ہے ۔زبردستی تو نہیں کی جا سکتی آپ کو کام کرنے والے بہت اور میرے لیے کمپنیاں بہت۔“
”آپ پانچ چھ ماہ تو مسقط میں لگا لیں ،اس کے بعد میں کوشش کر کے آپ کو یہیں واپس منگوا لوں گا ۔“
”آپ کا احسان ہے ،بہرحال شکریہ ۔“
”تو پھر کب جا رہے ہیں ؟“ایم ڈی نے اشتیاق سے پوچھا ۔
”ایسا میں نے کب کہا ہے؟“محمود اپنی بات کی وضاحت کرنے لگا ۔”میں شکریہ اس لیے ادا کر رہا ہوں کہ آپ نے میری بہتری کے لیے سوچا ۔باقی جہاں تک بات مسقط لوٹنے کی ہے تو وہاں میں ایک دن کے لیے بھی نہیں جا سکتا ۔“
”ہونہہ!“ برا سامنھ بناتے ہوئے اس نے چاے کی پیالی ہاتھ میں پکڑ لی جو اسی وقت چپڑاسی نے اس کے سامنے رکھی تھی ۔
محمود نے بھی چاے کی پیالی کو منھ لگا لیا ۔ان کے درمیان شاید کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا تھا ۔

چاے پی کر محمود نے الیاس صاحب سے الوداعی مصافحہ کیا اور اس کے دفتر سے باہر آکر دفتر کے باقی ساتھیوں کو بھی اپنے جانے کی اطلاع دے کر وہاں سے نکل آیا ۔زیادہ تر لوگ اس کے جانے پر خفا تھے کہ وہ ایک نرم مزاج اور تعاون کرنے والا شخص تھا ۔
دعا کی چھٹی میں ابھی کافی وقت پڑا تھا ۔اس لیے اس نے گھر کا رخ کیا ۔
”اتنی جلدی کیوں لوٹ آئے ؟“ڈرائینگ میں بیٹھی رخسانہ چچی نے اسے دیکھتے ہی حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا تھا ۔
”کیونکہ یہاں میری جگہ پر انھوں نے دوسرا آدمی رکھ لیا ہے ۔“ چچی کے سامنے نشست سنبھالتے ہوئے وہ بے پروائی سے بولا۔
”تو پھر ؟“رخسانہ چچی اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔
”پھر یہ کہ ،اب کوئی نئی کمپنی ڈھونڈنا پڑے گی ۔“
”اور یہ سارا کیا دھرا تمھاری اس لاڈلی کا ہے ۔میں نے کہا بھی تھا کہ ایک دو دن میں کھانا کھا لے گی مگر تم سے تو ایک دن بھی صبر نہیں ہو رہا تھا ۔“
”چچی جان !....نوکریاں کئی مل جائیں گی ،اگر خدانخواستہ گڑیا کو کچھ ہو جاتا تو آپ کا کیا خیال ہے میں ساری زندگی خود کو معاف کر پاتا ۔“
رخسانہ چچی نے بےپروائی سے کہا۔”کچھ بھی نہیں ہوتا اس ڈھیٹ کو ،بس وہ تمھاری کمزوری جانتی ہے اس لیے بچپن ہی سے تمھیں بلیک میل کرتی آ رہی ہے ۔“
چچی کی بات پر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا تھا ۔”خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں چچی جان !.... اگر وہ بلیک میل کرتی ہے ،تو ہوتی بھی ہے ۔اب دیکھو اس نے وعدہ کیا ہے کہ گھر کے سارے کام کرے گی اور میں جو بات کروں گا اس سے انکار نہیں کرے گی ۔اور اسی وعدے کی آڑمیں میں اسے کامران سے شادی کے لیے راضی کر لوں گا ۔“
رخسانہ چچی نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔”ویسے تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا کہ کامران اس کے لیے بہتر رہے گا ؟میرا تو مشورہ ہے جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں سال ڈیڑھ اور دیکھ لو ۔یہ نہ ہو جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھو۔اور یاد رکھنا بعد میں سب سے زیادہ تکلیف بھی تمھیں ہو گی ،اپنی لاڈلی اور نازوں سے پالی گڑیا کی زندگی میں ذرا سی بے سکونی بھی تم سے برداشت نہ ہو گی ۔“
چچی کی بات پر اس نے زخمی نظروں سے انھیں دیکھا اور حسرت بھرے انداز میں سوچنے لگا ۔”کاش چچی جان !....میں آپ کو بتا سکتا کہ یہ فیصلہ میں کس کرب اوراذیت کے عالم میں کر رہاہوں ۔اپنی جان سے پیاری گڑیا کو میں کس مجبوری اور بے بسی سے کسی اور کے نام ہونے کی اجازت دے رہا ہوں ،یہ میرا پاک رب یا میں جانتا ہوں۔مگر اس کے بنا چارہ بھی تو کوئی نہیں رہا۔اب مجھ میں اتنی ہمت اور سکت باقی نہیں رہی کہ اس کے قریب رہتے ہوئے اپنی سوچوں اور خیالات کو پاکیزہ رکھ سکوں ۔گو وہ مجھے پہلے سے کئی گنا عزیز اور پیاری ہوگئی ہے لیکن افسوس کہ بہن جیسی نہیں رہی ۔اب تو وہ فقط چچا کی بیٹی ہے۔اس کی مثال تو اونچے سنگھاسن پر بیٹھنے والی ملکہ یا شہزادی کی ہے اور میری حیثیت اس غلام کی سی ہے جو اپنا سارا وقت ملکہ کے آرام اور آسائش کا خیال تو رکھ سکتا ہے اس کے احکام کی بجا آوری تو کرسکتا ہے ۔اس کی نازبرداریاں تو اٹھا سکتا ہے ،مگر اسے اپنی شریک حیات بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔کیونکہ اس کی خدمت اور وفاداری کا برملا اعتراف کرنے والی ملکہ کبھی اسے یہ حیثیت دینے پر تیار نہیں ہوگی۔اور غلام تو غلام ہوتے ان میں خواہش اور تمنا کرنے کا مادہ تھوڑی پایا جاتا ہے ۔ ان کی تو سوچ کی پرواز بھی اتنی بلند نہیں ہوتی کہ اپنی ملکہ کو پانے کا خواب ہی دیکھ سکیں ۔“
”کن سوچوں میں کھو گئے ہو بیٹا !“اسے گہری سوچ میں ڈوبے دیکھ کر رخسانہ چچی نے آواز دی ۔
”کچھ نہیں چچی جان !....بس گڑیا کے مستقبل کے بارے سوچ رہا تھا ۔خاندان بھر میں اس کے لیے کامران سے بہتر کوئی نہیں دکھتا ۔یوں تو شکیلہ خالہ کا بیٹا بلال بھی ہے لیکن وہ مزاج کا ذرا تیز ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی گڑیا پر خواہ مخواہ رعب جھاڑتا رہے ۔“
”صحیح کہہ رہو بیٹا !“رخسانہ دکھی دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ گئی تھی ۔
رات کو کھانے کی میز پر رخسانہ نے محمود کے نوکری سے نکالے جانے کی بابت اپنے شوہر کو مطلع کرتے ہوئے ،دعا کی بھی ٹھیک ٹھاک کلاس لی تھی ۔
”تو ،مودی بھیا کو نوکریوں کی کمی ہے کیا ؟“ماں کی بات کو غور سے سن کر بےپروائی سے کہتے ہوئے وہ محمود سے تصدیق چاہنے لگی ۔”کیوں بھیا ؟“
”بالکل ....اس سے بھی اچھی جگہ پر نوکری مل جائے گی ۔“ محمود نے اس کی تائید میں فوراََ اثبات میں سر ہلادیا تھا ۔
”محمود !....تم سے تو اللہ ہی پوچھے ،اب بھی اس کی تائید کر رہے ہو ؟“رخسانہ چچی کا لہجہ رو دینے والا ہو گیا تھا۔
”چھوڑو بیگم !....کیا فضول بحث لے کر بیٹھ جاتی ہو ۔نئی بات سنو ،افنان ایک پیاری سے بیٹی کا باپ بن گیا ہے ۔“رضوان نے خوش خبری سناتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے موضوع تبدیل کر دیا تھا ۔
”اچھا ....“رخسانہ نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا ۔”کل افنان کو ملنے چلیں گے۔“
محمود نے کہا ۔”چچی جان !....کل دعا کو کالج چھوڑ کر میں آپ کو وہاں لے جاﺅں گا۔“
دعا نے بھانجی کی پیدائش پر کوئی خیال ظاہر نہیں کیا تھا۔گو افنان ،ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اس کے باوجود رخسانہ اور رضوان نے اسے دو تین بار منانے کی کوشش کی تھی ۔لیکن افنان اب پہلے والے جھگڑوں میں اپنی بیوی کو نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جب تک دعا کی شادی نہیں جاتی وہ گھر نہیں لوٹے گا ۔
”بھیا !....آج تو آپ نے سارا دن آرام کر کے تھکن اتار لی ہوگی ۔یقینا کھانے کے بعد آپ مجھے پڑھانے کے لیے تھوڑا وقت ضرور نکالیں گے ۔“
محمود نے کہا ۔”ہاں ،تم جاﺅ میں آرہا ہوں ....بلکہ آج تم سے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے ۔“
”ابو جان !....میں جاﺅں ۔“دعا نے کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے والد سے جانے کی اجازت مانگی ۔
”رضوان نے ”ہونہہ!....“کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا ۔
دعا کے جانے کے بعد وہ دونوں بھی اپنی خواب گا ہ کی جانب بڑھ گئے ،جبکہ محمود خوشبو دار قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے ان الفاظ کا چناﺅ کرنے لگا جو اسے دعا کو شادی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے استعمال کرنے تھے ۔یہ مرحلہ اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ فی الوقت دعا شادی کے لیے بالکل تیار نہیں تھی ۔گو وہ بھی دل سے اس کی شادی کرانے کے حق میں نہیں تھا ۔لیکن کیا کرتا کہ دماغ کے دلائل کا بوجھ اب اس سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا ۔ دعا مکمل جوان ہو گئی تھی لیکن اس نے بچپن کی عادات پر قابو پانا نہیں سیکھا تھا ۔وہ اپنے چیختے شباب کی تباہی سے ناواقف تھی یا شاید جان بوجھ کر اس جانب توجہ نہیں دے رہی تھی ۔ محمود نے بارہا جائزہ لیا تھا کہ بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی کسی بھی مرد رشتادار کی آمد پر وہ اپنا دوپٹا وغیرہ بڑے اہتمام سے درست کرنے لگتی ، افنان اور فیضان کی موجودگی میں بھی دوپٹا سر سے نہ سرکنے دیتی۔ یہاں تک کہ اپنے والد کی کمرے میں آمد پر بھی فوراََ دوپٹے کو سر پر جمالیتی، لیکن محمود کی موجودگی میں اس نے کبھی بھی اپنی سیاہ زلفوں کو ڈھانپنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔بلکہ محمود کے ساتھ تو وہ اب بھی اس طرح لپٹ جاتی جیسے بچپن اور لڑکپن میں لپٹتی آرہی تھی ۔یقینا وہ اپنے بھرپور بدن کی تباہ کاری سے ناواقف تھی ورنہ محمود کو یوں امتحان میں نہ ڈالتی ۔یا شاید محمود اس کے تخیلات کی دنیا کا کوئی ایسا فرشتہ تھا جس کے خیالات میں آلودگی کا پایا جانا ممکن ہی نہیں تھا ۔

قہوے کی پیالی کب کی ختم ہو چکی تھی ۔خالی پیالی کو میز پر رکھ کر وہ مرے مرے قدموں سے دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ کمرہ جو اسے ہمیشہ سے ذہنی آسودگی مہیا کرتا رہا تھا اب اس کے لیے کسی اذیت ناک قید خانے سے بڑھ کر تھا ۔اور یہ اذیت بھی اسے ضمیر کی عدالت میں جواب نہ دے سکنے پر ملتی تھی ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 9

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ghyrat-mand-ashaq,Moral stories,urdu font stories, پرانے زمانے کی کہانیاں,hindi moral stories,sabak amoz kahani,Sabaq Amoz Kahani, bad time stories,سبق آموزکہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے