Sublimegate Urdu Font Stories
غیرت مند عاشق - پارٹ 9
وہ کتاب کھولے ،تکیے کو چھاتی کے نیچے رکھ کر اس پر ہاتھ ٹیکے اوندھے منہ لیٹی تھی ۔اس کے اندر داخل ہوتے ہی وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولی ۔
”پہلے آپ اپنی ضروری بات کرلیں پھر سبق پڑھتے ہیں ۔“
”ہاں یہ ٹھیک ہے ۔“
صوفے پر نشست ہوئے محمود نے اس کے بے ترتیب ہوتے بدن سے نگاہیں چرائیں ۔اور تھوڑی دیر پہلے یاد کی ہوئی تمہید کو ذہن میں دہراتا ہوا بولا۔ ”تم نے وعدہ کیا تھا نا کہ اگر میں مسقط نہیں جاﺅں گا تو میری ہر بات مانو گی ۔“
”ہاں ۔“سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے اس نے تکیہ اٹھا کر گود میں رکھا اور محمود کی جانب پر اشتیاق نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔
”میں چاہتا ہوں تم امتحانات کے بعد شادی کر لو ۔“ساری تمہید بھلا کر اس نے ایک دم دھماکا کیا ۔
”شش ....شادی ....مگر کس سے ؟“اس کے ہونٹوں پر چھائی ہکلاہٹ اس کی آنکھوں میں چھپے پر شوق اضطراب کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔
”کامران سے ۔“
ایک دم محمود کو اس کی روشن آنکھوں میں مایوسی کی لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ نظریں جھکاتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی ۔
”مجھے کامران پسند نہیں ہے ۔نہ میں نے کبھی اس کے بارے ایسا سوچا ہے ۔“
”تو کب سوچو گی ؟....یوں بھی تم نے میری بات ماننے کا وعدہ کیا ہے اور میں تمھیں وعدہ ہی یاد دلانے آیا ہوں ۔“
”جب میری پسند کا رشتا آئے گا تو یقینا میں وعدہ پورا کرنے میں دیر نہیں کروں گی اور معاف کرنا میری عمر اتنی بھی زیادہ نہیں ہوئی کہ آپ میری شادی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیں۔“
”شریعت اولاد کے بالغ ہوتے ہی اس کی شادی کا حکم دیتی ہے ۔“محمود نے اپنی بات منوانے کے لیے شریعت کا کندھا استعمال کیا ۔
”تو آپ کب بالغ ہوں گے ۔یا ساری زندگی نابالغ ہی رہیں گے ۔“ نجانے کیوں محمود کو اس کا بدتمیزانہ لہجہ معنی خیز لگا تھا ۔
اس نے زخمی لہجے میں پوچھا ۔”کیا میرے شادی نہ کرنے کی وجہ تمھیں معلوم نہیں ہے ؟“
”اچھی طرح معلوم ہے ۔لیکن اس احسان کا بدلہ میری شادی وقت سے پہلے اور کسی ایرے غیرے سے کر کے نہ چکائیں نا ؟یوں بھی آپ نے مجھ پر کوئی ایک احسان نہیں کیا کہ آپ کو جتلانے کی ضرورت پڑے ۔کس کس احسان سے نظریں چراﺅں گی ۔میری زندگی کا ہر لمحہ آپ کے کسی نہ کسی احسان کی یاد تازہ کرتا ہے ۔“
وہ گفتگو کرنے کے فن میں طاق تھی ۔اس معاملے میں اس کا سب سے بڑا استاد محمود ہی تو تھا جو بچپن ہی سے اسے بات کا جواب دینا سکھاتا آرہا تھا اور آج وہی سکھلائی نپے تلے جوابوں کی صورت اس کے سامنے آ رہی تھی ۔
”مگر کامران ایرا غیرا نہیں ہے ۔اور نہ میں کوئی احسان جتلا کر تمھیں شادی پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔تمھاری شادی کرانا میری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو کر ہی میں اپنی نظر میں سرخ رو ٹھہروں گا ۔“
”کسی کے ایرا غیرا ہونے کا انحصار ہماری پسند و ناپسند کے مرہونِ منت ہوتا ہے ۔ اگر وہ مجھے پسند نہیں ہے تو وہ جتنا بھی اچھا اور قابلِ تعریف ہو میرے لیے ایرا غیرا کہلائے گا ۔“
”میں نے چچچی جان اور چچا جان سے بھی بات کر لی ہے وہ بھی اس رشتے پر راضی ہیں، اس لیے فضول اور بے دلیل اعتراضات جڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“محمود نے اپنے لہجے میں سختی پیدا کرنا چاہی ،
دعا روکھے لہجے میں بولی ۔”اس بارے میری پسند کو بھی کوئی مقام حاصل ہے یا یہ حق بھی شریعت نے میرے والدین اور آپ کو دے دیا ہے ۔“
محمود کو اس کی بات سے بہت اذیت محسوس ہوئی تھی وہ زخمی لہجے میں بولا ۔”میں نے ایسا کب کہا ۔اور تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو ؟“
”جب بات میری زندگی گزارنے کی آئے گی تو میں ایسا کچھ بھی سوچ سکتی ہوں جس کا آپ تصور بھی نہ کرسکیں ۔“
”کیا میں تمھارے لیے اچھا فیصلہ نہیں کروں گا ،کیا مجھ پر اعتبار نہیں رہا ۔“
” بعض اوقات انجانے میں بھی ایسے فیصلے کر لیے جاتے ہیں جو بعد میں صرف اذیت اور دکھ کا باعث بنتے ہیں۔لیکن اس وقت تک پچھتانے کا وقت نکل چکا ہوتا ہے۔“
”دعا تمھاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آرہی ۔بات صرف تمھاری شادی کی نہیں ہے ۔ تمھارے ساتھ میری زندگی بھی ملوث ہے ۔میں اڑتیس سال کا ہو گیا ہوں مزید کتنی دیر انتظار کروں گا ۔“
دعا کی آنکھوں میں نمی ظاہر ہوئی ۔وہ اس کی طرف دکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔” جانتی ہوں کہ میں آپ کے لیے بوجھ بن گئی ہوں ۔ایک ایسا بوجھ جسے مسافر ہلکا سمجھ کر خوشی خوشی اٹھا تو لیتا ہے مگر سفر کی طوالت کی وجہ سے وہی ہلکا بوجھ پیٹھ پر پڑے پڑے اس کے اعصاب کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔مجھے سہولت دینے کی خاطر آپ کی آبائی زمین بکی ، میری ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ کا رشتا ٹوٹا ،میری بے وقوفی یا ضد کی بدولت آپ کے ہاتھ سے اتنی اچھی نوکری چلی گئی ۔ورنہ یقینا آج آپ مسقط میں ریال اکٹھے کر رہے ہوتے ۔آپ سے چھوٹے فیضان بھائی کے دو بچے ہیں ،افنان بھی باپ بن گیا ہے اور آپ صرف اور صرف میری وجہ سے اولاد جیسی نعمت کی خوشیوں سے محروم ہیں ۔میری وجہ سے امی جان کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کر رہے ہیں ۔آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں یقینا میں آپ کے احسان ساری زندگی نہیں اتار سکوں گی ۔“
محمود جانتا تھا کہ وہ یہ ساری باتیں طنزیہ طور پر نہیں کر رہی تھی اس کا مقصد فقط محمود پر جذباتی دھونس جمانا تھا ۔اب محمود کیا کرتا کہ وہ تو بچپن ہی سے اس کی دھونس مانتا آرہا تھا ۔جس سے محبت کی جائے اس کی دھونس میں آنا پڑتا ہے ۔محمود کے دل میں اس کے بارے موجود جذبات کی نوعیت بدلی تھی اس کی محبت تو اس کے دل سے کم نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ اب تو محمود کی چاہت میں ایک میٹھے درد کی کسک اور بے چینی شامل ہو گئی تھی ۔دعا کی ڈبڈبائی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اضطراب کی ایک تیز لہر اس کے دل میں اٹھی ۔اس کا جی چاہا کہ دعا کو اپنی مہربان آغوش میں لے کر اس دنیا سے اتنی دور چلا جائے جہاں کوئی اسے مطعون کرنے والا نہ ہو، کوئی ایسا نہ ہو جو اسے دعا کو اپنانے سے روک سکے ۔
’اگر میرے اتنے احسان مانتی ہو تو ٹھیک ہے مجھ سے شادی کر لو ،کیا اس کے لیے تیار ہو ۔“اس کے مضطرب دل نے منھ پھاڑ کر اپنے احسانات کی منھ مانگی قیمت مانگنے کیلیے اسے اکسایا۔ پگلے دل کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ چھوٹے موٹے احسانات کا معاوضا اتنا زیادہ نہیں ہوا کرتا کہ دعا جیسی لڑکی بدلے میں مل جائے ۔اس سے کئی گنا احسانات کے بدلے میں بھی اگر وہ مل جاتی تو بہت سستی لگتی ۔مگر دل کی بات مان کر وہ خود کو رسوا نہیں کر سکتا تھا ۔اس نے کراہتے ہوئے کہا ۔
”میرے احسانوں کو مانتی ہو مگر میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ۔“
”بتایا ہے نا ،جب میری پسند کا رشتا آگیا تو میں ناں نہیں کروں گی ۔لیکن کامران سے شادی نہیں کر سکتی ۔“محمود کی جانب سے رخ پھیر کر اس نے گھٹنوں میں سر دے دیا تھا ۔
محمود چند لمحے اس کے لرزتے وجود کو دکھی دل سے دیکھتا رہا اور پھر مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا ۔دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر دعا نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔آنکھوں پر الٹا ہاتھ پھیر کے نم پلکوں کو خشک کیا اور کتاب صوفے کی جانب اچھال کر چادر میں چھپ گئی ۔ روشنی بجھانے کی ضرورت بھی اس نے محسوس نہیں کی تھی ۔دو تین منٹ اسی طرح لیٹنے کے بعد اس نے تکیے کے نیچے رکھی محمود کی فریم شدہ تصویر نکالی اور سینے پر وہ تصویر رکھ کر اسے نم آنکھوں سے دیکھنے لگی ۔شاید اپنے بدتمیزانہ رویے پر نادم ہوتے ہوئے وہ اس کی تصویر سے معذرت کر رہی تھی۔ اپنے محسن کا دل دکھا کر یقینا کوئی بھی خوش نہیں ہوتا وہ بھی اس کی تصویر پر نظریں گاڑھے جانے کیسی کیسی صفائیاں پیش کر رہی تھی ۔
٭٭٭
ایک اور پراذیت رات اس کی منتظر تھی ۔دردناک سوچوں نے مضبوط لوہے کے ایسے کانٹوں بھرے جال کی طرح اس کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا۔جس سے نکلنے کا کوئی رستا نہیں تھا ۔ آزادی کے حصول کے لیے وہ جتنا تڑپنے اور زور لگانے کی کوشش کرتا ،اتنا ہی زخمی ہوتا جا رہا تھا۔محبت ہونے کے بعد اسے تو بس یہی تجربہ ہوا تھا کہ ،محبت دکھ دیتی ہے ،بے سکون کرتی ہے ، بے چینی اور اضطراب پیدا کرتی ہے ،نہ مرنے دیتی ہے اور نہ زندہ رہنے کے قابل چھوڑتی ہے ۔
اپنی گزشتہ زندگی پر نظر دوڑا کر وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب ننھی دعا بے بی کاٹ پر پڑی رو رہی تھی اور اس نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا کر چپ کرایا تھا ۔اگر اس دن اسے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ہوتا تو آج دکھ کے سمندر میں غوطے نہ لگا رہا ہوتا ۔
”کیا دعا کی معیت میں گزرنے والی زندگی بے کار تھی ۔“ اس نے خود سے سوال کیا ۔ جس کا جواب اسے نفی کی صورت ملا تھا ۔دل بے ایمان دعا کے ریشمی لمس کی سوغات کے ایک پل کو زندگی بھر کا حاصل قرار دینے پر تلا تھا ۔یہ کیا کم تھا کہ اس کی محبت اور چاہت کے بدلے میں دعا نے اسے اتنے اونچے سنگھاسن پر بٹھایا تھا جہاں تک نہ تو اس نے اپنی ماں کی رسائی ہونے دی تھی اور نہ اپنے باپ ہی کو وہ مقام بخشا تھا ۔
دماغ نے طنزیہ انداز میں کہا ۔”ہاں مگر اتنا اونچا مقام بھی کسی کسی ہی کو راس آتا ہے ۔ ہر بلندی پر پہنچنے والے کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ وہاں قرار پکڑ سکے ۔اور پھر اتنے بلند مقام سے گرنے والے کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ اپنی جان بچا پائے ۔
اس کی سماعتوں میں دعاکا دکھی لہجہ گونجا ۔” جانتی ہوں کہ میں آپ کے لیے بوجھ بن گئی ہوں ۔ایک ایسا بوجھ جسے مسافر ہلکا سمجھ کر خوشی خوشی اٹھا تو لیتا ہے مگر سفر کی طوالت کی وجہ سے وہی ہلکا بوجھ پیٹھ پر پڑے پڑے اس کے اعصاب کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔“
”تم میرے لیے بوجھ نہیں ہو گڑیا ....“وہ آنکھوں میں نمی بھرتے ہوئے بڑبڑایا ۔ ”تمھاری مثال تو اس نعمت کی سی ہے جو مجھ سے چھننے والی ہے ۔پگلی !....خوشبو بھی کسی پر بوجھ بنی ہے ، خوشی کے احساس نے بھی کسی کے اعصاب پر دباﺅ ڈالا ہے ۔پھول کا وزن بھی کبھی تھکاوٹ کا باعث بنا ہے ۔تم بھی میرے لیے پھول ،خوشبو اور خوشی کی مانند ہی تو ہو۔اور جنھیں تم میرے احسانات سمجھ رہی ہونا، وہ اصل میں تمھارے احسان ہیں ۔ایک بے بضاعت،بے حیثیت اور معمولی انسان کے بے قیمت نذرانوں کو شرف قبولیت بخش کر تم نے احسان ہی تو کیے ہیں ۔ایسی کئی عمارائیں ، ہزاروں نوکریاں اور زندگی کی ہر ساعت میں تمھارے قدموں میں نچھاور کر کے بھی یہی سمجھوں گا کہ میں نقصان میں نہیں رہا بشرط تم مجھے زندگی کی آخری چند گھڑیوں میں یوں میسر آجاﺅ کہ تم پر میرے علاوہ کوئی بھی اپنی ملکیت کا دعوے دار نہ ہو، تمھیں گلے سے لگاتے وقت میرا ضمیر ملامت نہ کرے ،تمھاری روشن جبیں سے اپنے پیاسے ہونٹ لگاتے ہوئے میرے دل میں ندامت کا احساس نہ جاگے ،تمھاری گھنی زلفوں کے سائے میں میں بغیر شرمندگی محسوس کیے چند لمحے بتا سکوں ،میرے ہاتھوں میں تمھارے بدن کے ریشمی لمس سے لذت کشید کرتے ہوئے احساس گناہ کی آمیزش شامل نہ ہو ،میرے ہونٹوں کو ہر من مانی کرنے کی چھوٹ ہو، مجھے ہر شرارت کی شرعی آزادی حاصل ہو اور ان سارے وظائف کے دوران تمھارے یاقوتی لبوں پر ایک شرمیلی مسکان رقصاں رہے ، حیا کے بار سے جھکی ہوئی غزالی آنکھیں میرے چہرے پر گڑی رہیں اور تم سراپا تسلیم و رضا بن کر میری گستاخیوں کو یوں نظر انداز کرتی رہو جیسے وصال کی خوشی میں پرانی رنجشوں کو بھلا دیا جاتا ہے ۔“
ایک ٹھنڈا سانس لے کر اس نے بند آنکھیں کھولیں اور دیوار سے ٹنگی دعا کی مسکراتی ہوئی تصویر کودیکھنے لگا ۔اس کے موتیوں کے سے دانت تصویر میں بھی چمک رہے تھے ۔ جادوبھری روشنی ان موتیوں کی لڑی سے نکل کر کمرے کے اجالے میں اضافے کا باعث بن رہی تھی ۔
”پتا نہیں تم اتنی معصوم ،اتنی پیاری ،اتنی پر کشش کیوں ہو ؟.... خوبصورتی کے ہر میعار پر یوں پوری اتر رہی ہو جیسے مستند درزی کی سلی ہوئی قمیض کسی دوشیزہ کے بدن پر فٹ بیٹھتی ہے ۔یقینا خالق نے تمھاری تخلیق میں کسی بھی کمی کی دخل ا ندازی کو قبول نہیں کیا ۔“
وہ دل ہی دل میں دعا کی خوب صورتی کے قصیدے پڑھتا رہا ، اس سے محبت کا اعتراف کرتا رہا ،اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی تمنا گردانتا رہا ۔وہ ایسا مجبور اور بے بس تھا کہ اپنے علاوہ کسی اور سے یہ ذکر نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک مریض اپنی بیماری کے علاج کے لیے معالج کا رخ کرتا ہے ، شرعی مسئلے سے دوچار آدمی، عالم یا مفتی کے در پر حاضری دیتا ہے اور کسی کی محبت میں گرفتار شخص اپنے راز دار دوستوں یا قریبی احباب سے مشورے کرتا ہے اور پھر کسی کے ذریعے یا بذات خود محبوب تک اپنے دل کا حال پہنچاتا ہے ۔مگر وہ تو اتنی بے بسی اور بے چارگی کا شکار تھا کہ کسی کے سامنے اپنے دل کا حال نہیں کھول سکتا تھا ۔خود اپنے محبوب کو بھی اپنے دل حال نہیں بتا سکتا تھا ۔دکھ بانٹنے کی چیز نہیں ہے نہ اس میں کوئی حصہ دار بنا کرتا ہے لیکن کسی اپنے کو دکھ کا حال سنا کر دکھ کی شدت میں کمی کی جا سکتی ہے اور وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا جسے وہ اپنے دل کا حال کھل کر سنا سکتا ۔نہ کوئی سجن بیلیوں میں ایسا موجود تھا اور نہ کوئی عزیز و اقارب ہی میں ایسا تھا جسے وہ بتا سکتا کہ وہ کس مشکل سے دوچار ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے ۔وہ تو اپنی بیماری کا خود ہی معالج بن بیٹھا تھا اور اس ضمن میں جو دوا اور پرہیز اس نے اپنے لیے تجویز کیا تھا اس سے اس کے درد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا ۔نا معلوم آگے کیا ہونے والا تھا ۔نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان ہوا کرتا ہے جبکہ وہ تو اس میدان میں بالکل اناڑی تھا ۔اور اناڑی کا خود کو ہلاکت میں ڈالنا کسی اچنبھے کا باعث نہیں تھا ۔
وہ ساری رات سیخ میں پروئے کباب کی طرح کروٹیں بدلتا رہا ۔یہاں تک کے مالک کے حضور سر جھکانے کا وقت آگیا ۔نماز پڑھ کر جانے کتنی دیر وہ ہاتھ بلند کیے خاموش بیٹھا رہا ۔اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا ۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے قادر و مطلق رب سے کیا طلب کرے کہ اس کی خواہشوں کا آغاز دعا سے ہو رہا تھا اور اسی پر اس کا اختتام بھی تھا ۔اسے دعا چاہیے بھی تھی اور وہ دعا سے بچنا بھی چاہ رہا تھا ۔وہ دعا کو دکھ بھی نہیں دینا چاہتا تھا ،لیکن اظہار محبت نہ کر سکنے کی وجہ سے جو اذیت درپیش تھی وہ بھی اس کی برداشت سے باہر تھی ۔
ہاتھ اٹھائے اٹھائے اس کے لبوں سے اپنے مالک کی بارگاہ میں عاجزی بھرے الفاظ نکلے ۔
”یا اللہ پاک تو دلوں کے حال جانتا ہے ،تو مجھ بےکس ،عاجز اور گناہ گار کی ہر ایک بات کو جانتا ہے ،میری ہر وہ بات جو لوگوں کے سامنے ہے اور ہر وہ بات جو کسی کو بھی معلوم نہیں ، بلکہ تمھیں تو وہ کچھ بھی ہے جو خود مجھے بھی اپنے بارے معلوم نہیں ہے۔یااللہ پاک تو کرم فرما ، رحم فرما، اپنے خزانوں سے میرے لیے سکون کا نزول فرمادے ۔یااللہ ساری عزتیں تیرے حکم کے تابع ہیں اور ساری ذلتیں تیری منشا کے تحت ہیں ۔یااللہ اگر مجھے ذلت دے کرتیرے جاہ و جلال اور بادشاہی میں اضافہ ہوتا ہے تو مجھے ذلت ہنسی خوشی قبول ہے اور اگر مجھے عزت دیتے ہوئے تیرے جاہ و جلال اور خزانوں میں کمی واقع ہوتی ہے تب بھی یا اللہ مجھے ذلت منظور ہے اور اگر مجھے ذلت دے کر تیرے خزانوں میں اضافہ نہیں ہوتا اور عزت دے کر تیرے خزانوں میں کمی نہیں ہوتی تو یااللہ میں عزت کا طلب گار ہوں ،یا اللہ میں سکون کا متلاشی ہوں ،یا اللہ میں اپنی معصوم گڑیا کی خوشیوں کا متمنی ہوں ،یااللہ تو ہی قبول فرمانے والا ہے۔قبو ل فرما ،قبول فرما ،قبول فرما۔“نہ جانے کتنی دیر وہ گڑگڑاتا رہا ،روتا رہا آنسو بہاتا رہا ،اپنے رب کو اپنے دل کا حال سناتا رہا ،اپنی بے کسی ،بدحالی اور غم کی داستان سے علیم و خبیر ذات کے سامنے پردہ اٹھاتا رہا ۔اپنی خواہشوں اور تمناﺅں کو کھول کر بیان کرتا ۔پھر اچانک ہی اسے سر پر کسی کے ہاتھ کا دباﺅ محسوس ہوا ۔
”بس کرو بیٹا !....اتنا نہیں روتے ۔“
اس نے چونکتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا وہ امام مسجد مولانا عبدالمالک تھے جو اسے شفقت بھری نظروں سے گھور رہے تھے ۔اس وقت محمود کو معلوم ہوا کہ وہ کافی دیر سے آنسو بہا رہا تھا مولانا صاحب اشراق کی نماز پڑھ کر ہی گھر تشریف لے جاتے تھے ۔فرض نماز کے بعد سے اسے یوں مسلسل گڑگڑاتے دیکھ کر وہ بےساختہ اسے تسلی دینے لگ گئے تھے ۔
مولانا صاحب کی بات کے سن کر وہ جیب سے رومال نکال کر آنکھیں صاف کرنے لگا ۔مولانا صاحب اس کے سامنے ہی بیٹھ گئے تھے۔
”خیریت تو ہے نا محمود بیٹا !“وہ محمود کو اچھی طرح جانتے تھے ۔
وہ دھیرے سے بولا ۔”ہاں خیریت ہے مولانا صاحب !“
”یہ نہ سمجھنا کہ میں آپ کے رونے پر کوئی اعتراض کررہا ہوں ، اللہ پاک کے سامنے آنسو بہانا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے بیٹا !.... میں تو بس یونھی آپ کو روتے دیکھ کر خود پر قابو نہ پا سکا اور آپ کے اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز میں مخل ہو گیا ۔اگر برا لگا ہو تو مجھے معاف کر دینا، اللہ پاک مجھے معاف کرے ۔“
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں مولانا صاحب !....آپ میرے باپ کی جگہ پر ہیں ،اچھا کیا جو آپ نے مجھے متوجہ کر لیا ورنہ مجھے تو اپنا ہوش نہیں تھا ۔“
”اچھا بیٹا !....اگر میں آپ کے کسی کام آسکتا ہوں تو حکم کرو ۔“مولانا صاحب نے بین السطور اس کی ناگفتہ ہ حالت کی وجہ دریافت کی ۔
محمود آہستہ سے بولا ۔”جو میرے کام آسکتا ہے اسے بتا دیا ہے مولانا صاحب !“
”لا ریب ....بیٹا !....وہی تو مشکلوں کو آسان کرنے والا ،بلاﺅں کو ٹالنے والا،غم کو خوشی میں تبدیل کرنے والا اور بےچینی اور بےسکونی کو اطمینان بخشنے والا ہے ۔وہی بگڑی بناتا ہے ،وہی داتا ،وہی مولا ،وہی مشکل کشا اور وہی حاجت روا ہے ۔“
”جی بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔“محمود نے سکون بھرا سانس سینے میں اتارتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اچھا بیٹا !....اجازت چاہوں گا ۔“اس سے مصافحہ کر کے مولانا صاحب دروازے کی جانب بڑھا ۔ایک دم اس کے دل میں کافی دنوں سے مچلتا ہوا مسئلہ ابھرا اور اس نے فوراََ مولانا صاحب کو آواز دے دی ۔
”حضرت !....ایک شرعی مسئلہ دریافت طلب تھا ۔“
”پوچھو بیٹا!“مولانا صاحب پھر اس کے پاس آن بیٹھے ۔
اضطراب بھرے انداز میں اپنے ہاتھ مروڑتے ہوئے وہ چند لمحے الفاظ کو اپنے ذہن میں ترتیب دیتا رہااور پھر نپے تلے الفاظ میں گویا ہوا ....
”مولانا صاحب !....اگر ایک جوان کسی چھوٹی بچی کو گود میں لے کر پال پوس کر بڑا کرے ، ہمیشہ اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتا رہے ۔ پھر لڑکی کے جوان ہونے پر ایک دم اس کے دل میں لڑکی کے لیے چھپے پاکیزہ جذبات روایتی محبت کا روپ دھار لیں اور اس کے دل میں لڑکی سے شادی کرنے کا خیال اتنی شدت سے ابھرے کہ اس کا خود پر قابو پانا مشکل ہو جائے ایسی صورت میں اس مرد کو کیا کرنا چاہیے ؟“
” اس مرد کو چاہیے کہ فوراََ اس لڑکی کے والدین سے رشتہ طلب کرے اور اس سے شادی کر لے ؟“
”اگر وہ لڑکی ،اسے بھائی سمجھتی ہو ،اس کے والدین اور باقی رشتہ داروں کی نظر میں بھی وہ دونوں بھائی بہن جیسے ہی ہوں ،تب وہ کیا کرے ؟“
”بیٹا !....شریعت کسی کے سوچنے سمجھنے پر حکم نہیں لگاتی۔اللہ پاک نے واضح انداز میں ارشاد فرما دیا ہے کہ ایک مرد کن عورتوں سے شادی کر سکتا ہے اور کن عورتوں سے شادی نہیں کر سکتا ۔اگر وہ لڑکی کسی ایسے رشتے کی حدود میں آرہی ہے جس سے شادی کرنے سے اللہ پاک منع فرما چکا ہے تو اس آدمی کو فوراََ توبہ کر لینا چاہیے اور اگر وہ لڑکی شرعی طور پر اس کی محرم نہیں ہے تو دنیاوی قباحتوں پر شرعی احکام کا نزول نہیں ہوا کرتا ۔اور اسی منہ بولے اور سگے رشتے کے درمیان فرق بتانے کی خاطر اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ سے ایسی سنت کا اجراءفرمایا جو قیامت تک کے لیے ایک بہترین سبق ہے ۔ام المومنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی شادی آپﷺ کے مبارک حکم سے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے انجام پائی جو آپ ﷺ کے لے پالک اور منہ بولے بیٹے تھے ۔دونوں کا مزاج موافق نہ ہوا اور طلاق ہو گئی ۔اللہ پاک نے نبی پاکﷺ کو حکم فرما دیا کہ آپﷺ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے عقد مبارک میں لے لیں۔ اس وقت عرب کے اندر منھ بولے اور لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح ہی سمجھا جاتا تھا اور بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کسی صورت جائز نہیں تھا ۔مگر قربان جائیں اس رحیم و کریم ذات پر جس نے اپنے محبوب رسول ﷺ کی مبارک ذات کو نمونہ بنا کر یہ حکم نازل فرما دیا کہ منہ بولا رشتہ ،حقیقی رشتے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔نہ کسی کو بہن کہنے ،سمجھنے سے کوئی لڑکی بہن بن سکتی ہے اور نہ اپنی سگی بہن کو بہن نہ سمجھنے سے یہ رشتا ختم ہو سکتا ہے ۔سگے رشتوں کو قائم کرنے والا تو وہ رب پاک ہے ۔اور رب پاک کے قائم کیے ہوئے رشتے اور انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے رشتوں میں بہت فرق ہوتا ہے ۔اس فرق کی عام مثال یہ ہے کہ تم نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی گناہ گار سے گناہ گار شخص کے دل میں اپنی سگی بہن یا بیٹی وغیرہ سے شادی کرنے کا خیال آیا ہوا ۔البتہ منھ بولے رشتوں میں یہ بات عموماََ پیش آتی رہتی ہے ۔اس کی زندہ مثال وہ شخص ہے جس کے بارے آپ سوال کر رہے ہیں ۔“
”اللہ پاک آپ کو اجر دے مولانا صاحب !“اس نے سر جھکاتے ہوئے خلوص بھرے لہجے میں کہا ۔اور مولانا عبدالمالک اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔ان کے دل میں محمود کے رونے کی وجہ جاننے کی جو جستجو ابھری تھی وہ اللہ پاک نے پوری کر دی تھی ۔
محمود پہلے سے یہ مسئلہ جانتا تھا ۔لیکن ایک مستند عالم سے استفسا ر کرکے کم ازکم اتنا ضرورہوا تھا کہ اس کے دل میں موجود ندامت کا اثر کافی حد تک کم ہو گیا تھا ۔اس کے باوجود وہ اتنی جرّات اپنے اندر مفقود پاتا تھا کہ دعا کے سامنے اس مسئلے کی باریکیاں بیان کر سکے ۔وہ معصوم لڑکی بچپن سے اسے جن نظروں سے دیکھتی آ رہی تھی یقینا چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی نظروں میں تبدیلی نہیں لا سکتی تھی ۔جس لڑکے کو وہ بھیا کہتی اور سمجھتی رہی تھی ا ب اسے اپنے شوہر یا چاہنے والے روپ میں بھلا وہ کیسے دیکھ سکتی تھی ۔اور پھر شریعت ان دونوں کو آپس میں شادی کی اجازت دیتی تھی حکم نہیں کہ جس کا ماننا دعا یا خود اس پر فرض ہوتا ،کسی لڑکی کے سگی بہن نہ ہونے کی صورت اسے ساری زندگی بہن سمجھنے کی شریعت مخالفت نہیں کرتی تھی ۔بلکہ یہ تو ایک مستحسن عمل تھا ۔کسی بات کے جائز ہونے اور لازم ہونے میں بہت فرق ہے ۔دعا سے اس کا شادی کرنا جائز ضرور تھا لازم نہیں تھا ۔اور اگر وہ لازم تھا بھی سہی تو صرف محمود کی اپنی ذات کے لیے تھا ۔اور جو چیز اس کے لیے لازم تھی ضروری نہیں تھا کہ باقی لوگوں کے لیے بھی اس کی اتنی ہی اہمیت ہوتی ۔
مولانا صاحب کے جانے کے بعد بھی کافی دیر یونھی بیٹھا خیالوں میں کھویا رہا ۔ اچانک مسجد کی دیوار سے ٹنگی گھڑی پر اس کی نگاہ پڑی اور اچھل پڑا ۔دعا کے کالج جانے کا وقت گزر چکا تھا ۔نامعلوم اس نے ناشتہ بھی کیا تھا یا نہیں ۔وہ فوراََ مسجد سے باہر آ گیا ۔
٭٭٭
”دعا اور محمود کو بھی ناشتے کے لیے بلاﺅ ۔“رضوان نے ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے شاہینہ ماسی کو کہا ۔
”جی صاحب!....کہہ کر وہ پہلے دعا کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ اسے ناشتے کا کہہ کر محمود کے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔مگر اس کا کمرہ خالی تھا ۔غسل خانے کا کھلا دروازہ بھی اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ وہ وہاں بھی موجود نہیں ہے ۔کمرے سے باہر آتے ہوئے اس کی نگاہ دعا پر پڑی جو ناشتے کی میز کے قریب جا کر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ رہی تھی ۔
”محمود بیٹا تو اپنے کمرے میں موجودنہیں ہے صاحب جی !“وہ رضوان کو مطلع کرنے لگی ۔
”کمرے میں موجود نہیں ہے ؟“رضوان نے حیرت بھرے انداز میں دعا کی جانب دیکھا ۔وہ خود بھی ماسی کی بات سن کر اس کی جانب حیرانی بھرے انداز میں گھور کر رہ گئی تھی ۔
”جی صاحب !“رضوان کے سوالیہ لہجے پر اس نے ایک بار پھر تصدیقی انداز میں کہا اور باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔
دعا خاموشی سے بریڈ پر مکھن لگانے لگی ۔رخسانہ نے کھوجتی نظروں سے بیٹی کے چہرے کا جائزہ لیا مگر دعا کا چہرہ بے تاثر تھا ۔
بریڈ پر مکھن لگا کر اس نے تھرماس سے اپنے لیے چاے کی پیالی بھری ۔بریڈ کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹ کر اس نے واپس پلیٹ میں رکھا اور چاے پینے لگی ۔
”آج جوس کی جگہ چاے لے رہی ہو ؟“رخسانہ مستفسر ہوئی ۔
”جی ماں جی !....سر میں تھوڑا درد ہے ۔“
دھیمے لہجے میں کہہ کر وہ ہلکے ہلکے گھونٹ بھرنے لگی ۔بریڈ کو ایک مرتبہ ہلکا سا کاٹ کر اس نے دوبارہ منھ نہیں لگایا تھا ۔رہ رہ کر اس کی نظریں محمود کی کرسی کی طرف اٹھ جاتیں ۔اور اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں اپنی رات کی گفتگو گونجنے لگتی ۔وہ محمود کے ساتھ کافی بدتمیزی سے پیش آئی تھی ۔یقینا اسی وجہ سے وہ صبح سویرے ہی کہیں چلا گیا تھا ۔
”نہ تم نے انڈے کھائے ہیں اور نہ تم بریڈ کھا رہی ہو ؟“ماں، اس کی پراگندہ سوچوں میں مخل ہوئی ۔
”جی امی جان !....دل نہیں چاہ رہا ۔“وہ بمشکل بول پائی تھی ۔
”جب وہ تمھاری زندگی میں اتنا اہم ہے تو اس کی بات ماننے میں کیوں تساہل برتتی ہو ۔“رخسانہ نے اندازہ لگانے میں دیر نہیں کی تھی ۔
”ماں جی !....کیا میں آپ لوگوں پر بوجھ بن گئی ہوں جو ابھی سے مجھے گھر سے باہر نکالنے پر تل گئے ہیں ۔“ کافی دیر سے روکی نمی شبنم کے قطروں کی طرح اس کی پلکوں پر نمودار ہو گئی تھی۔
”ماں کی جان !....بیٹیاں بوجھ نہیں ذمہ داری ہوتی ہیں اور ذمہ داری سے جتنی جلدی سبک دوش ہوا جائے اتنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔“
”ہاں مگر ذمہ داری سے سبک دوش ہونے کا مطلب ،ذمہ داری کو کندھوں سے اتار پھینکنا بھی نہیں ہوتا ۔اگر کامران کا رشتا مجھے قبول نہیں تو وہ کیوں زور دے رہے ہیں ۔ساری زندگی نازبرداریاں کرتے رہے ،میرے سب سے بڑے طرف دار بنے رہے ہیں اور آخر میں آکر میری پسند کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے ۔“
”گڑیا !....اگر تمھیں کامران سے شادی نہیں کرنی تو یقینا اس میں تمھارے محمود بھیا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور نہ وہ اس بات پر تم سے ناراض ہوں گے ۔“
”اگر ناراض نہیں ہیں تو کہاں گئے ہیں ۔کیا وہ نہیں جانتے کہ میں ان کی غیر موجودگی میں کچھ نہیں کھا سکتی ۔کیا وہ نہیں جانتے کہ مجھے ان کی کتنی عادت ہے ۔اور میں نے ان سے وعدہ بھی کیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا رشتا آیا جو میرے معیار کے مطابق ہوا میں ہاں کرنے میں دیر نہیں لگاﺅں گی ۔اور ان کی جان چھوٹ جائے گی مجھ سے، تنگ آ گئے ہیں نا میرے لاڈ اٹھاتے اٹھاتے ۔“
سسکیاں بھرتی ہوئی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
”نہ جانے ایک دم محمود کو اس کی شادی کی فکر کیوں پڑ گئی ہے ؟“رخسانہ خاموش بیٹھے رضوان کو مخاطب ہوئی جو اس ساری گفتگو کے درمیان اپنے ناشتے کی جانب ہی متوجہ رہا تھا ۔
”محمود کو اس کی شادی کی نہیں اپنی شادی کی فکر پڑ گئی ہے ،آخر کب تک وہ ایک منھ بولی بہن کی خاطر اپنی زندگی کی رنگینیوں اور خوشیوں سے لاتعلق بنا رہے گا ۔“
رخسانہ نے منھ بنایا ۔”تو وہ خود شادی کر لے ،دعا پر کیوں زور دے رہا ہے ؟“
”کیا تم نہیں جانتی ہو دعا سے پہلے وہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتا ۔کیا عمارہ کا حشر تمھیں بھول گیا ہے ۔اگر اس کی بیوی کے ساتھ بھی دعا کا رویہ ارتضیٰ بہو جیسا رہا تو محمود کس طرف ہو گا ۔ افنان کو اپنی بیوی پیاری تھی وہ اس کی خاطر ماں باپ اور بہن کو چھوڑ کر چلا گیا ۔لیکن محمود کو کون پیارا ہے یہ تم اچھی طرح جانتی ہو ۔اگر وہ دعا کی زیادتیوں پر خاموش رہے گا تو یہ بیوی سے زیادتی ہو گی جبکہ دعا کو کچھ کہنا محمود کے بس سے باہر ہے ۔وہ اس کی ایسی لاڈلی ہے جسے وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس کی زندہ مثال اس کا نوکری کو خیر باد کہنا ہے ۔کتنے عزم سے مسقط گیا تھا لیکن اس کے دو دن کھانا نہ کھانے پر اتنی اچھی نوکری کو لات مار کر بھاگتا چلا آیا اور اسے ڈانٹنے یا شرمندہ کرنے کے بجائے اس کی نازبرداری میں لگ گیا ۔“
رخسانہ پر خیال لہجے میں بولی ۔”ویسے مجھے تو اس سارے معاملے میں کوئی اور چکر نظر آ رہا ہے ۔“
”کیا ؟“رضوان نے سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں ۔
”رہنے دیں،آپ نے پھر خفا ہو جانا ہے ۔“رخسانہ دل کی بات ہونٹوں پر نہ لا سکی ۔
”شکریہ ،جو تم نے میری ناراضگی کو اس قابل جانا ۔“چاے کی خالی پیالی میز پر رکھتے ہوئے محمود نے مزاحیہ لہجے میں کہا ۔
”اچھا میری ہنسی اڑانے کی ضرورت نہیں ،محمود جانے کس وقت آئے گا آپ دعا کو اسکول چھوڑتے جائیں گھر میں تو وہ خواہ مخواہ اکیلی پڑی روتی رہے گی ۔“
”خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ،محمود آتا ہی ہوگا ۔اور وہ اس کا مزاج ٹھیک کرنا جانتا ہے ۔“
”باپ ہوتے ہوئے کچھ ذمہ داری آپ بھی نبھا لیں ۔“
”جو حکم سرکار ۔“رضوان سینے پر ہاتھ رکھ کر مودّبانہ انداز میں جھکا اور رخسانہ کے ہونٹوں پر ہنسی کھلنے لگی ۔
رضوان بھی ہنستا ہوا بیٹی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔دعا کو اسکول کے لباس میں دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا تھا ۔
”ارے میری بیٹی تو تیار ہے ،چلو آج میں اپنی لاڈو کوخود کالج چھوڑ دیتا ہوں ۔“
”جی پاپا!....“اس نے فرماں برداری سے سر ہلا دیا ۔
اور وہ اسے ساتھ لے کر باہر نکل آیا ۔رخسانہ بھی بیٹی کو تیاری حالت میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی ۔
ماں کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے وہ سر جھکا کر کہنے لگی ۔وہ پہلے سے خفا ہیں اور میں انھیں مزید خفا نہیں کرنا چاہتی ۔“
رخسانہ طنزیہ لہجے میں بولی ۔”شکر ہے کسی کی ناراضگی کا خیال تو تمھیں ہے ۔“
ماں کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے وہ باہر نکل گی ۔رضوان کار کی چابی اٹھانے اپنے کمرے کی طرف بڑ ھ گیا تھا ۔
دعا اس کی کار کے ساتھ کھڑی ،محمود کی کار پر نظریں جمائے جانے کس سوچ میں تھی کہ باپ کے آنے کا بھی اسے پتا نہیں چلا تھا ۔
”بیٹھو بیٹی !“ڈرائیونگ پر بیٹھتے ہوئے رضوان نے اسے آواز دی۔
”جی پاپا!....“وہ چونکتے ہوئے باپ کو دیکھنے لگی ۔اور پھر اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دیکھ کر جلدی سے دروازہ کھول کر اندر گھس گئی ۔
رستے میں اس کا دل بہلانے کے لیے محمود اس کی پڑھائی کے بارے سوال کرتا رہا اور وہ غائب دماغی سے اس کے سوالات کا جواب دیتی رہی ۔
”میری بیٹی کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہی ہے ؟“لڑکیوں کے کالج کے سامنے کار روکتے ہوئے رضوان پوچھے بنا نہیں رہ سکا تھا۔
وہ سسکتے ہوئے بولی ۔”پاپا!....آپ محمود بھیا کو بتائیں نا کہ وہ مجھے شادی کے لیے مجبور نہ کریں ، میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی ۔کم از کم پڑھائی کی تکمیل تک تو بالکل بھی نہیں ۔تین چار سال کی مہلت تو مجھے دے سکتے ہیں نا ؟“
رضوان نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا ۔”کیا محمود نے ہمیشہ تمھاری ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا ؟“
وہ دھیرے سے بولی ۔”میں نے کب شک کیا ہے ۔“
”کیا اس نے تمھاری خاطر کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ کیا ہے ؟“
وہ دائیں بائیں سر ہلانے لگی ۔
”تمھاری کوئی ایسی خواہش اور تمنا جو اس کے بس میں ہو اور اس نے وہ پوری کرنے میں تساہل برتا ہو ؟“
”کبھی نہیں ۔“اس بار بھی دعا کا جواب نفی میں تھا ۔
”تو کیا خیال ہے، تمھیں شادی کے لیے مجبور کرنے میں اس کی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے یا وہ یونھی ضد پر اڑا ہوا ہے۔“
وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔”اس بارے میں نے نہیں سوچا ۔“
”ہاں تم سوچو گی بھی کس لیے،تم تو بس لاڈ اٹھوانے ، نازبرداریاں کروانے اور حکم منوانے کے لیے پیدا ہوئی ہو ۔سارے حقوق تمھیں حاصل ہیں اور تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔کبھی سوچا ہے کہ محمود کی عمر کتنی ہے،اس کی عمر کے مرد چار پانچ بچوں کے باپ ہوتے ہیں اور اس کے پلے کیا ہے ؟....ایک ایسی منھ بولی بہن جسے صرف اپنی خوشیوں اور ضرورتوں سے غرض ہے ۔دوسروں کی مجبوریوں کا نہ تو اسے کوئی احساس ہے اور نہ فکر ۔کوئی مرتا ہے تو مرا کرے ،کوئی کڑھتا ہے تو ہزار بار کڑھے ،کسی کو تکلیف ہے تو پرواہ نہیں ،کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے۔ ہے نا ؟“
رضوان نے عام فہم لہجے میں اس کی توجہ محمود کے مسائل کی طرف مبذول کرائی ۔
”یہ بات نہیں ہے پاپا!....“سسکیاں لیتے ہوئے وہ بلک پڑی ۔”میں سب جانتی ہوں ،اتنی بھی بچی نہیں ہوں ۔لیکن کیا کروں مم....میں مجبور ہوں ....میں ....میں ....“کچھ کہنے کے لیے اس نے ہمت مجتمع کی مگر پھر اسے کہنے کا حوصلہ نہ ہوا اور وہ گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی ۔
”پاپا کی جان !....“رضوان اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگا ۔”دیکھو ہر لڑکی نے ایک نہ ایک دن ماں باپ کے گھر سے وداع ہو کر جانا ہوتا ہے ۔اگر میں یا محمود چاہیں بھی تو تمھیں نہیں روک سکتے ۔پھر ابھی کیا اور تین چار سال بعد کیا، رہی بات تمھاری تعلیم کی تکیمل کی تو اس بارے محمود ذمہ داری لے رہا ہے نا ،کامران تمھارے پڑھنے پر کوئی قدغن نہیں لگائے گا ، بلکہ ایسا ہے یہ سب کچھ ہم نکاح نامے میں لکھوا لیں گے ۔اس کے علاوہ کوئی مسئلہ ہے تو بتاﺅ ۔“
”ہاں ،اس کے علاوہ بھی مسئلہ ہے پاپا!....اور وہ یہ کہ مم.... میں .... میں .... شادی نہیں کرنا چاہتی ۔“ دعا شاید دل میں چھپی بات والد کے سامنے کہنے کی جرّات نہیں کر پائی تھی ۔یا شاید رضوان ہی کو ایسا لگا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پا رہی ۔
رضوان نے گہرا سانس لے کر کہا ۔”مجھے تم پر زور دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔تم اس بارے اپنے مودی بھیا کو خفا کر سکتی ہو ،میں تو پھر کسی شمار میں نہیں آتا ۔“
”چلتی ہوں پاپا!“شولڈر بیگ سے رومال نکال کر اس نے آنکھوں کو رگڑا ۔اور والد سے اجازت لے کر کار سے باہر نکل گئی ۔اس کے دروازے میں داخل ہونے تک رضوان اسے دیکھتا رہا ۔بیٹی کا ہچکچانا اس کے دل میں عجیب و غریب اندیشے بھر رہا تھا ۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں
غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 10
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ghyrat-mand-ashaq,Moral stories,urdu font stories, پرانے زمانے کی کہانیاں,hindi moral stories,sabak amoz kahani,Sabaq Amoz Kahani, bad time stories,سبق آموزکہانیاں,
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ghyrat-mand-ashaq,Moral stories,urdu font stories, پرانے زمانے کی کہانیاں,hindi moral stories,sabak amoz kahani,Sabaq Amoz Kahani, bad time stories,سبق آموزکہانیاں,
0 تبصرے