غیرت مند عاشق - پارٹ 10

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

غیرت مند عاشق -  پارٹ 10

”گڑیا !....کالج چلی گئی ہے ۔“محمود نے گھر میں داخل ہوتے ہی ڈرائینگ میں بیٹھی رخسانہ چچی سے پوچھا ۔
”ہاں ....مگر تم صبح صبح کہاں مٹر گشت کرتے پھر رہے ہو ؟“
”امام مسجد مولانا عبد المالک صاحب سے گپ شپ کر رہا تھا ۔“
”اچھا ،ان سے اتنے تعلقات کب سے ہو گئے ہیں یا اپنی گڑیا کی شادی کے لیے نکاح خواں کا بندوبست کرنے لگ گئے تھے ۔“
”گڑیا بھی کوئی ہے ۔“محمود کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”ایسے بات کرتی ہے مخالف کو لاجواب ہونا پڑتا ہے ۔“
”ویسے وہ سمجھ رہی ہے کہ تم اس سے خفا ہو گئے ہو اور اسی لیے صبح ناشتے پر بھی حاضر نہیں تھے ۔“
” ایسی کوئی بات نہیں ،تھوڑی پریشانی ضرور ہے لیکن خفا نہیں ہوں ۔“محمود نے نفی میں سر ہلا کر حقیقت اگلی ۔
”پریشانی کس بات کی ؟“رخسانہ سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگی ۔
”یہ پریشانی کیا کم ہے کہ گڑیا میری بات نہیں مان رہی ۔“
رخسانہ بغیر لگی لپٹی رکھے بولی ۔”اس معاملے میں تو خیر مجھے تم غلطی پر نظر آرہے ہو باقی تمھاری اپنی مرضی ۔“
”بھلا وہ کیسے ؟“محمود بحث پر تیار ہو گیا تھا ۔
”دعا بیٹی اتنی بھی بڑی نہیں ہو گئی کہ اس کی شادی کے لیے تم یوں پریشان ہوتے پھرو۔“
”بات اس کی عمر کی نہیں ہے چچی جان !....اچھے رشتے کی ہے ۔میری نظر میں کامران سے اچھا رشتا اسے مل ہی نہیں سکتا ۔وہ نرم خو ہے ،تعلیم یافتہ ہے اچھی نوکری کر رہا ہے اور پھر نرگس چچی بھی گڑیا کو بہو بنانے کی متمنی ہے ۔گڑیا اور کامران پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ کہ کامران میرا بہت زیادہ احترام کرتا ہے ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ گڑیا کو کوئی تکلیف پہنچائے ۔“
”کامران کی نرم خو طبیعت کی وجہ سے مجھے بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں ہوا ،لیکن اب دعا بیٹی کو سمجھانا میرے بس سے باہر ہے ۔“
”اس نے ناشتہ کر لیا تھا ۔“محمود کو اس کے کھانے کی فکر ہوئی ۔
رخسانہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”جس بات کا علم ہو وہ پوچھی نہیں جاتی۔“
ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اس نے کام والی کو آواز دی ۔”شاہینہ ماسی !....ایک پیالی چاے تو پلا دیں ۔“
”لائی بیٹا !“باورچی خانے سے کام والی کی آواز ابھری ۔
رخسانہ نے پوچھا ۔”ناشتا نہیں کرنا ؟“
”بھوک نہیں ہے ۔“صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے اس نے گہرا سانس لیا ۔
شاہینہ ماسی نے اس کے سامنے چاے کی پیالی رکھی ۔وہ پوچھنے لگا ۔
”ماسی !....گڑیا دوپہر کا کھانا تو ساتھ لے گئی تھی نا ؟“
”نہیں بیٹا!“ نفی میں سر پلاتے ہوئے وہ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔
”پتا نہیں کیا مصیبت ہے اس لڑکی کے ساتھ ۔“افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے اس نے چاے کی پیالی اٹھائی ۔”اب آدمی چند گھنٹوں کے لیے اس سے ناراضی بھی ظاہر نہیں کر سکتا ۔“
رخسانہ کھل کھلا کر ہنس پڑی تھی ۔”رہنے دو بھوکا ،تم کیوں فکر کرتے ہو۔“
”ایسا تو خیر نہیں ہو سکتا ۔“محمود نے نفی میں سر ہلایا۔”دیکھا نہیں دو دن کی بھوک میں کیسے اس کا پھول سا چہرہ کملا گیا تھا ۔“
رخسانہ نے منھ بنایا۔”تو نہ رہے بھوکی ،کسی نے اس کے ہاتھ سے نوالہ تو نہیں چھینا۔“
”اچھا چھوڑیں اس بحث کو ،آپ تیار ہو جائیں تاکہ افنان کے ہاں سے ہو آئیں ۔“
”اوہ ....میرے تو ذہن ہی سے نکل گیا تھا ۔“رخسانہ جلدی سے اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔
چاے کی پیالی حلق سے اتار کر اس نے بھی کمرے میں جاکر کپڑے تبدیل کیے اور کار کی چابی اٹھا کر باہر نکل آیا ۔رخسانہ تیار ہو کر اپنی خواب گاہ سے باہر نکل رہی تھی ۔
چچی کے لیے کار کا دروازہ کھول کر محمود نے اس کے اندر بیٹھنے کا انتظار کیا اوراس کے بیٹھتے ہی دروازہ بند کر کے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا ۔چچا ،چچی کے ساتھ اس کا برتاﺅ ہمیشہ سعادت مندانہ ہوا کرتا تھا ۔افنان اور فیضان ماں باپ کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا محمود رکھتا تھا اور اسی وجہ سے شروع شروع میں اس کی ہر بات کی مخالفت کرنے والی رخسانہ کے نزدیک اب محمود کی حیثیت ایک بیٹے جیسی ہی تھی ۔اس کے مسقط جانے پر اسے اپنے شوہر رضوان سے زیادہ پریشانی ہوئی تھی ۔تنہائی میں وہ کئی بار اپنے شوہر کے سامنے اس بات کا اعتراف کر چکی تھی کہ شروع کے کئی سال تک اس کا رویہ محمود کے ساتھ مناسب نہیں تھا ۔لیکن محمود نے زندگی کے کسی بھی موڑ میں اسے سگی ماں سے کم اہمیت نہیں دی تھی ،بلکہ اس معاملے میں تو محمود اس کے سگے بیٹوں سے بھی بڑھ کر ثابت ہوا تھا ۔ وہ دونوں انھیں چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے تھے، جبکہ محمود پرایا ہوتے ہوئے اس گھر ذمہ داریاں یوں نبھا رہا تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہی تو ہو ۔ جتنا خرچ رضوان نے اپنے بھتیجے کی پڑھائی وغیرہ پر کیا تھا اس سے کئی گنا بڑھ کر وہ اس گھر پر خرچ کر چکا تھا ۔
”چچی جان !....میرا خیال ہے پہلے بازار جا کر کوئی تحفے وغیرہ خرید لیتے ہیں ۔“ محمود نے گفتگو کی ابتدا کی ۔
”ہاں ٹھیک ہے ۔“رخسانہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
بازار جا کر انھوں نے افنان کی بچی کے لیے کچھ ضروری خریداری کی اور اس کے گھر کی طرف بڑھ گئے ۔گھر کیا تھا ایک کمرے کا کوارٹر ہی تھا۔کمرے کے سامنے چند فٹ کا برآمدہ جس سے ملحق چھوٹا سا باورچی خانہ اور دس بارہ فٹ کا صحن تھا۔ دونوں میاں بیوی تنگی محسوس کرتے ہوئے بھی ہنسی خوشی وقت گزار رہے تھے ۔دفتر سے واپسی پر افنان کی جان روزانہ کی چخ چخ سے چھوٹ گئی تھی ۔
گلی میں کار پارک کر کے وہ کوارٹر کے دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔افنان بھی گھر ہی میں موجود تھا ۔دستک کے جواب میں اسی نے دروازہ کھولا تھا ۔ارتضیٰ انھیں دیکھ کر کافی خوش ہوئی تھی ۔اس کی ماں بھی بیٹی کے پاس آئی ہوئی تھی ۔دونوں جانب سے ہلکی سی کدورت ہونے کے باوجود انھیں خوشی کے موقع پر ہنس کر ملنا پڑ گیا تھا ۔
مبارک باد کے رسمی کلمات کہہ کر انھوں نے تحائف ارتضیٰ کے حوالے کیے اور کمرے میں پڑی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
انھیں وہاں بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ محمود کا موبائل فون بجنے لگا ۔سکرین پر نظر دوڑا کر وہ افنان کو معذرت کہتا ہوا کوارٹر سے باہر آگیا ۔
”اسلام علیکم سر !“ کال اس کے کمپنی کے چیئرمین کی جانب سے تھی ۔
”محمود صاحب !....ہم سے کوئی خطا ہو گئی ہے جو آپ نے کمپنی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔“چیئر مین علاﺅ الدین کے لہجے میں گہری خفگی چھپی تھی ۔
”سر ! آپ اصل بات سے لاعلم ہیں یا مذاق کر رہے ہیں ۔“
”کیا مطلب ؟“علاﺅ الدین صاحب نے حیرانی سے پوچھا ۔
”مطلب یہ کہ میں کسی گھریلو مسئلے کی وجہ سے مسقط سے واپس آیا ۔اگلے دن دفتر پہنچا اور الیاس صاحب سے معذرت کر لی کہ میں اب مسقط نہیں جا سکوں گا ۔انھوں نے کہا کہ میری جگہ پر دوسرا آدمی رکھ لیا گیا ہے اور اب میری جگہ مسقط کے علاوہ کمپنی میں نہیں بنتی ۔اب آپ ہی بتائیں ،کمپنی کو میں نے چھوڑا ہے یا کمپنی نے مجھے دھتکارا ہے ۔“
”کیا ....؟“علاﺅالدین صاحب کے لہجے میں شامل حیرانی مصنوعی نہیں تھی ۔
”جی سر !....آپ الیاس صاحب سے پوچھ لیں یہی بات ہوئی تھی ۔“
”مگر مجھے تو وہ کہہ رہا تھا کہ آپ نے ازخود استعفیٰ پیش کر دیا ہے ۔“
محمود نے اطمینان سے کہا ۔”آپ ہم دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر اصل بات سے پردہ اٹھا سکتے ہیں ۔“
”شاید اس کی ضرورت نہ پڑے ۔بس آپ یہ بتا دیں کہ اور کتنی چھٹیاں کرنی ہیں؟“
”سر !آپ جانتے ہیں کہ چھٹی میں صرف اتوار کے دن ہی کیا کرتا ہوں ۔“
” تو کل میں آپ کے دفتر میں چاے پینے آرہا ہوں ۔“علاﺅ الدین صاحب نے ایک محنتی کارکن کو اس کی سیٹ واپس دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا تھا ۔
”شکریہ سر !....لیکن کوشش کریں کہ چھٹی کے وقت تشریف لائیں ،میں دراصل دفتری اوقات میں مہمانوں سے تھوڑا دور ہی رہتا ہوں ۔“
اس نے مزاحیہ انداز میں کہا تھا ،لیکن علاﺅ الدین صاحب جانتا تھا کہ اس میں کوئی جھوٹ یا مبالغہ شامل نہیں تھا ۔ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔”تو آپ جو ادھ گھنٹا مجھے عنایت کریں گے اس کے پیسے اپنی تنخواہ سے منھا کر لینا ۔“
”اچھا مشورہ ہے ۔“محمود نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
اور علاﺅ الدین صاحب نے ۔”اسلام علیکم ۔“کہہ کر رابطہ منقطع کر دیا ۔محمود کے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا ۔گو اس کے لیے کسی نئی کمپنی میں نوکری تلاش کرنا مشکل نہیں تھا، لیکن وہاں وہ اتنے عرصے تک کام کرتا رہا تھا، تنخواہ بھی بہت اچھی تھی اس کمپنی کو چھوڑ دینے کے خیال سے دکھ تو ہونا تھا ۔
واپس کوارٹر میں آکر وہ ان کی گفتگو میں شریک ہو گیا ۔
افنان پوچھنے لگا ۔”محمود بھیا !....آپ کے مسقط جانے کا سنا تھا پھر ایک دم واپسی ہو گئی؟“
محمود کے جواب دینے سے پہلے رخسانہ نے کہا ۔”ہاں بیٹا !....تم جانتے تو ہو کہ ہمارے گھر میں ایک مستقل سر درد موجود ہے ، پھر یہ سوال پوچھنے کا مطلب ؟“
افنان ہنسا ۔”دعا کی بات کر رہی ہو ؟“
”سر درد اور کون ہو سکتا ہے ۔محمود کے جانے کے بعد محترما نے دو دن کھانا نہیں کھایا ، اور محترم کو جب پتا چلا تو اتنی اچھی نوکری کو لات مار کر بھاگتا چلا آیا ۔“
”چچی جان !....آپ یونھی ہی پریشان ہو جاتی ہیں ۔ابھی کمپنی چیئرمین ہی کی کال تھی ۔اس بات پر خفگی کا اظہار کر رہا تھا کہ میں نے کمپنی کیوں چھوڑ دی ہے ۔میرے وضاحت کرنے پر کہ ایسا کمپنی کے ایم ڈی نے کہا تھا ، انھوں نے کل سے پھر نوکری پر آنے کا کہہ دیا ہے۔“
”شکر ہے ایک مصیبت تو ٹلی ۔“
”گھر والی مصیبت کب ٹل رہی ہے ،تاکہ میں بھی واپس آ سکوں ۔“ افنان نے بظاہر مزاحیہ انداز میں کہا تھا لیکن محمود کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے دل پر گھونسا مارا ہو ۔ وہ سب جسے بار بار مصیبت کہہ رہے تھے محمود کے لیے تو اللہ پاک کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر تھی ۔اگر اس کے بس میں ہوتا تووہ اس مصیبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گلے کا ہار بنالیتا ۔
”تمھارا محمود بھیا آج کل زور و شور سے اسی معاملے میں حل کرنے کی تگ و دو میں ہے ۔لیکن اپنی بہن کی ہٹ دھرمی کو تو تم جانتے ہو نا ۔کامران سے رشتہ جوڑنے کی بات کی تھی ، صاف انکار کر دیا ۔کہہ رہی ہے کہ میرے میعار کا کوئی رشتا آیا پھر قبول کروں گی ۔“
ارتضیٰ کی ماں ان کی گفتگو میں مخل ہوئی ۔”دعا بہت پیاری اور خوب صورت بچی ہے ۔ ایسی لڑکی کوتو رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔اگر آپ لوگ محسوس نہ کریں تو میں اپنے پڑوسیوں سے بات چلاﺅں ،لڑکا چارٹرڈ اکاﺅٹینٹ ہے اور ایک اچھی پوسٹ پر فائز ہے ۔اس کی ماں دو تین دن پہلے ہی مجھ سے کسی اچھے رشتے کا پوچھ رہی تھی ۔“
محمود نے فوراََ پوچھا ۔”خالہ !....لڑکے کا مزاج کیسا ہے ،میرا مطلب ہے بہت غصے والا یا تند خو تو نہیں ہے نا؟“
”نہیں بیٹا !....مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے ۔یقین مانو میں نے تو اپنی ارتضیٰ کے لیے اسی کا انتخاب کیا ہوا تھا ،لیکن افنان بیٹے اور ارتضیٰ نے مجھے موقع ہی نہ دیا۔“
” ٹھیک ہے خالہ جان !....آپ کل شام ہی انھیں لے کر آجائیں ۔“ دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دباتے ہوئے محمود نے ملاقات طے کر لی ۔دعا کی شادی کی بات کرتے ہوئے بائیں جانب کی پسلیوں کے نیچے اتنی شدت کا درد جاگتا تھا کہ اس کا اپنی کراہوں پر قابو پانا مشکل ہوجاتا تھا ۔اور ایسی حالت میں وہ بے ساختہ گہرے گہرے سانس لینے لگ جاتا ۔
”کل یا پرسوں شام ،لڑکے کے گھر والوں سے مل کر جو بھی طے ہوا میں آپ کو فون پر مطلع کر دوں گی ۔“
ارتضیٰ کی ماں نے اطمینان بھرے انداز میں سر ہلایا۔دعا کی جلدی جلدی شادی میں اس کی بیٹی کا مفاد بھی پوشیدہ تھا کہ اس کی واحد کمرے کے کوارٹر سے جان چھوٹتی ۔ گو بیٹی کو علیحدہ رہنے پر مجبور کرنے والی وہ خود تھی ،لیکن کہاں اتنا شاندار مکان اور کہاں تین مرلے کا کوارٹر ۔یوں بھی اس کی بیٹی کو ساس سسر یا دیور سے کوئی شکایت نہیں تھی ۔مصیبت کی جڑ تو ایک نند ہی تھی ۔اس کے رخصت ہونے کے بعد اس کی بیٹی اطمینان سے وہاں رہ سکتی تھی ۔
٭٭٭
اس دن دعا کا دل پڑھائی میں بالکل ہی نہیں لگ رہا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اس کے لاڈ اٹھانے والا اس سے خفا ہوا تھا ۔دو پیریڈ غائب دماغی سے خاتون پروفیسرز کا سبق سنتی رہی ۔ دوسرے پیریڈ کے اختتام پر پروفیسر اسماءعلی نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”دعا ....تمھاری طیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔میرا خیال ہے تمھیں آرام کی ضرورت ہے ۔“
”جی میڈم!“ اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے پروفیسر اسماء کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
”بہتر ہو گا چھٹی کر لو ۔“پروفیسر اسماءعلی اسے مشورہ دیتی ہوئی کلاس روم سے نکل گئی۔ اور وہ اپنی ہر دل عزیز پروفیسر کے مشورے کو حکم جانتے ہوئے کلاس روم سے باہر آگئی ۔ پہلے تو اس کا ارادہ ہوا کہ کال کر کے محمود کو بلالے ،مگر پھر کالج کے گیٹ کے باہر کھڑے رکشے دیکھ کر اس نے گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو کہا ۔
”چچا جان !....میں نے گھر جانا ہے اگر آپ کسی شناسا رکشے والے کے ساتھ مجھے بٹھا دیں ۔“
”کیوں نہیں بیٹی !“خوش دلی سے مسکرا کر اس نے وہیں سے ایک جاننے والے کو آواز دی ۔”امجد بھائی !....اپنا رکشا تو لے آﺅ ۔“
ایک ادھیڑ عمر شخص اپنا رکشا اسٹارٹ کر کے گیٹ کے قریب لے آیا ۔
چوکیدار کا شکریہ ادا کر کے وہ رکشے میں بیٹھ کر ڈرائیور کو گھر کا پتا بتانے لگی ۔وہ زندگی میں پہلی بار رکشے میں سفر کر رہی تھی ۔گھنٹے ،پون گھنٹے کا سفر اسے کافی عجیب اور مشکل لگا تھا ۔گھر کے سامنے اتر کر اس نے کرایہ ادا کیا ۔اور گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔
دستک کے جواب میں شاہینہ ماسی نے دروازہ کھولا۔
”اسلام علیکم شاہینہ ماسی !“اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے سلام کہا ۔
”وعلیکم اسلام دعا بیٹی !....جیتی رہو ۔“شاہینہ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔ ”آج جلدی لوٹ آئی ہو ؟“
”ہاں ماسی طبیعت تھوڑی خراب تھی ۔آپ مجھے چاے پلا سکتی ہیں ؟“
”کیوں نہیں بیٹی !“شاہینہ نے خوش دلی سے کہا ۔”اگر بھوک لگی ہے تو گرم گرم روٹی ڈال دوں ؟“
”نہیں ماسی !....بس چاے۔اور پتی تھوڑی زیادہ ڈالنا ،سر درد کر رہا ہے ۔“ماسی کو کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی ،گھر میں اسے سناٹا نظر آرہا تھا ۔محمود کے کمرے کو باہر سے بند دیکھ کر وہ پوچھنے بنا نہیں رہ پائی تھی ۔”ماسی ! امی جان اورمودی بھیا کہاں ہیں ؟“
”افنان بیٹے کے ہاں گئے ہیں ۔“ماسی اسے جواب دیتے ہوئے باورچی خانے میں گھس گئی ۔جبکہ وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔صبح ناشتا نہ کرنے کے باوجود اسے بھوک محسوس نہیں ہورہی تھی۔محمود اس کے چاے پینے کے سخت خلاف تھا ۔خاص کر صبح ناشتے کے وقت چاے پینے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ۔اسی طرح دن میں ایک پیالی سے زیادہ چاے پینے کی عیاشی بھی اس کی قسمت میں نہیں تھی ۔اس چاے میں بھی محمود دودھ زیادہ اور پتی نہایت کم ہی ڈلوایا کرتا تھا۔محمود کی خفگی کے خوف سے اس نے کبھی کالج کنٹین میں بھی چاے نہیں پی تھی ۔کیونکہ محمود باقاعدگی سے اس کی کالج کی سرگرمیوں کے بارے پوچھا کرتا تھا اور یہ محمود ہی کی عمدہ تربیت تھی کہ وہ جھوٹ بالکل بھی نہیں بولتی تھی ۔آج نہ جانے کیوں اس کا دل اس بے قاعدگی پر آمادہ تھا ۔ اتنا تو وہ جانتی تھی کہ محمود تک اس کے صبح ناشتا نہ کرنے کی خبر پہنچ چکی ہو گی ۔اب اسے اس بات کا انتظار کرنا تھا کہ وہ کس وقت اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے آتا ہے ۔اسے گھر میں موجود نہ پا کر دعا کو کوفت تو بہت زیادہ ہوئی تھی کہ کالج سے جلدی لوٹ کر آنے کی بات اس تک پہنچانا چاہتی تھی ۔محمود کی ناراضگی کے جواب میں ہمیشہ سے سے اس کی یہی عادت رہی تھی کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتی اور سارے وہ کام کرنے لگتی جن سے محمود نے منع کیا ہوتا ۔یا ان کاموں کو ترک کر دیتی جن کی محمود نے سختی سے تاکید کی ہوتی ۔
شاہینہ ماسی نے اس کے لیے چاے لا کر تپائی پر رکھی ۔تبھی وہ پوچھنے لگی ۔
”ماسی !....مودی بھیا نے گھر آکر میرے بارے کچھ پوچھا تھا ۔“
”یہ تو مجھے نہیں معلوم ،البتہ مجھ سے آپ کے کھانا لے جانے کی بابت پوچھ رہا تھا ۔“
”تو آپ نے کیا بتایا ؟“اس کے لہجے میں اشتیاق ابھر آیا تھا۔
”یہی کہ دعا بیٹی اپنے ساتھ کھانا نہیں لے گئی ۔“
”ہونہہ!....“اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ بولی ۔”اب جونھی وہ گھر میں آتے ہیں آپ نے انھیں بتا دینا کہ میں کالج سے بھی جلدی لوٹ آئی ہوں اور دوسری بار چاے بھی پی چکی ہوں اور ابھی کھانا بھی نہیں کھایا۔“
”ٹھیک ہے بیٹی !“شاہینہ ماسی مسکراتے ہوئے اس کے کمرے سے نکل گئی کہ یہ تو آئے روز کا معمول تھا ۔دعا کا روٹھنا اور محمود کا منتیں کر کر کے منانا کوئی نئی بات نہیں تھی کہ اسے حیرت ہوتی ۔وہ جانتی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو کتنی شدت سے چاہتے ہیں۔کبھی کبھی وہ سوچا کرتی کہ جب محمود کی زندگی میں دعا کی اتنی اہمیت تھی تو وہ اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتا ۔مگر پھر یہ بات وہ کسی سے پوچھنے کی جرّات نہ کر پاتی ۔گھر والے اسے گھر کے ایک فرد جتنی ہی اہمیت دیا کرتے تھے لیکن ملازمہ ہوتے ہوئے اسے اپنی حدود کا پتا تھا ۔اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ جس گھر میں ساری زندگی اسے کسی نے تم کہہ کر نہیں پکارا تھا وہاں اس کی کسی بات پر ناک بھوں چڑھا کر اسے اپنے کام سے کام رکھنے کا حکم دے دیا جائے ۔اس سے بہتر یہی تھا کہ وہ خود اپنے کام سے کام رکھتی تھی ۔
دعا نے بہ مشکل چاے کی پیالی خالی کی تھی کہ اس کے کانوں میں کار کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔
وہ بیڈ سے اٹھ کر دروازے سے کان لگا کر کھڑی ہو گئی تھوڑی دیر بعد ہی اس کے کانوں میں شاہینہ ماسی کی آواز گونجی وہ اس کی ماں سے پوچھ رہی تھی ۔
”بی بی جی !....مبارک ہو پوتی کو دیکھ آئی ہو ۔“
”خیر مبارک شاہینہ ماسی !....اور یہ لو تمھارے لیے کپڑوں کا جوڑا لائی ہوں ۔“ اسے اپنی ماں کی ہشاش بشاش آواز سنائی دی ۔
”شاہینہ ماسی !....میں نے تو آپ کے لیے کپڑوں کا جوڑا نہیں لیا ۔یہ کچھ پیسے رکھ لو اپنی پسند کی چیز خرید لینا ۔“محمود ہمیشہ شاہینہ ماسی کو نقد رقم دیا کرتا تھا تاکہ اس کو جس چیز کی ضرورت ہو وہ خود خرید سکے ۔
”اللہ آپ کو بہت ساری خوشیاں دے بیٹا !“شاہینہ نے خلوص دل سے اسے دعا دی۔
”آمین ....آپ کو بھی ۔“یہ کہتے ہوئے محمود کا رخ اپنے کمرے کی جانب ہو گیا تھا ۔
”محمود بیٹا !....دعا بیٹی کافی دیر ہوئی کالج سے واپس آ گئی ہے ،میں نے کھانے کا پوچھا تو انکار کر دیا اور البتہ تیز پتی والی چاے کی پیالی پی ہے ۔اور صبح بھی اس نے ناشتے وقت بس ایک پیالی چاے ہی پی تھی ۔“شاہینہ نے فوراََ اس کا تفصیلی پیغام محمود کے گوش گزار کر دیا ۔
”اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے ،بخار تو نہیں ہوا تھا ۔“محمود کی گھبرائی ہوئی پریشانی سے لبریز آواز نے دعا کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیری اور وہ جلدی سے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی ۔اسے معلوم تھا کہ محمود نے وہاں آنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگانا تھی ۔وہی ہوا اگلے ہی لمحے دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹا کر وہ اندر داخل ہوا ۔اس نے بیڈ ریسٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں ۔ بس اس کی سماعتیں محمود کے قدموں چاپ سنتی رہیں ۔اور پھر محمود کے گرم دہکتے ہوئے ہاتھ نے اس کی پیشانی کو چھو کر اس کی ساری بیزاری اور تھکن دور کر دی تھی ۔
”گڑیا طبیعت تو ٹھیک ہے ؟“ اس کی نرم آواز دعا کو ہمیشہ نہال کر دیا کرتی تھی ۔ کتنا اچھا اور اس کا خیال رکھنے والا تھا وہ ۔
”اس سے آپ کو کیا فرق پڑے گا ۔“اس نے خفگی بھرے لہجے میں جواب دیا ۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ روٹھنا محمود کا بنتا تھا کہ گزشتہ رات وہ اس کے ساتھ اس بدتمیزی کے ساتھ پیش آئی تھی ۔لیکن شروع دن ہی سے روٹھنا اس کا ہی حق تھا اور اپنے حق سے وہ کسی صورت دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھی ۔
”اچھا کالج سے جلدی چھٹی کیوں کر لی ہے ؟“اپنا ہاتھ اس نے دعا کی پیشانی سے ہٹا لیا تھا ۔
”لازمی بات ہے طبیعت ٹھیک نہ ہونے پر چھٹی کی جاتی ہے ۔“
وہ آنکھیں بند کیے اس کی پیش قدمی کی منتظر تھی ۔اب محمود نے اس کی منتیں کرنا تھیں ،اسے ہاتھ سے کھانا کھلانا تھا ، اس کی پیشانی پر محبت بھرا بوسا ثبت کرنا تھا ،اگر پھر بھی وہ راضی نہ ہوتی تو اسے گدگدی کر کے اس کی ناراضی ختم ہونے کا اعلان کرانا تھا ۔مگر اس دن اس کا کوئی انداز ہ بھی صحیح نہ ہوا ۔محمود اس کے بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوئے بولا ۔
”اچھا میں ماسی کو کھانا لانے کا کہتا ہوں تھوڑا سا کھانا کھا لو پھر سر درد کی دوائی لے کے سو جانا ۔“
ایک دم اس کی آنکھیں وا ہوئیں ۔محمود کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے ہویدا حیرانی چیخ چیخ کر محمود کے رویے کی شکایت کر رہی تھی ۔
”کیا ہوا ؟“محمود اس کی ششدر نظریں دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔
”ہوا یہ ہے کہ میں آپ سے خفا ہوں ۔منائیں مجھے ۔“وہ جیسے چیخ پڑی تھی ۔
”مگر خفا تو مجھے ہونا چاہیے تھا ۔“زخمی لہجے میں کہتے ہوئے وہ صوفے پر ٹک گیا ۔
”کس بات پر خفا ہوں گے آپ ۔زیادتی بھی آپ کی ہے اور خفا ہونا بھی آپ کا بنتا ہے ۔“
”اچھا میں بھی سنوں ،بھلا کس زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں ۔“
محمود کے لہجے نے دعا کی دھڑکن تیز کر دی تھی ۔اس نے آج تک اس لہجے میں گفتگو نہیں کی تھی ۔وہ فوراََ بیڈ سے اتر کر اس کی طرف بڑھی اگلے ہی لمحے وہ اس سے لپٹ کر سسک رہی تھی ۔
”میں نے صبح ناشتا بھی نہیں کیا ۔پاپا کے ساتھ جاتے ہوئے بھی مجھے رونا آرہا تھا ۔ کالج میں بھی میرا دل نہیں لگ رہا تھا ۔آپ کو ذرا بھی اپنی گڑیا کا احساس نہیں ہے ؟“اس کا معصومانہ انداز ایسا نہیں تھا کہ محمود اس کی دھونس میں نہ آتا ۔یوں بھی اس کے اتنے قریب آنے پر محمود کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی تھی کہ دل گویا سینے سے نکل کر باہر ہی آگرے گا ۔
وہ گھبرا کر اٹھتے ہوئے بولا ۔”اچھا ٹھیک ہے ،میں کھانا لاتا ہوں اور اپنے ہاتھوں سے اپنی گڑیا کو کھلاﺅں گا ۔اب خوش ۔“یہ کہتے ہی اس کے قدم دروازے کی جانب بڑھ گئے ۔اس کی گھبراہٹ اور پریشانی نے دعا کے چہرے پر عجیب سے تاثرات بکھیر دیے تھے ۔وہ دانتوں سے ہونٹ کاٹتے اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی ۔
٭٭٭
اسی دن شام کو محمود کو افنان کی کال ملی کہ ارتضیٰ کی ماں نے اپنے پڑوسیوں سے بات کر لی تھی اور وہ اگلے دن سہ پہر کو ان کے ہاں آنے والے ہیں ۔محمود نے کھانے کی میز پر رخسانہ چچی کو یہ بات بتاتے ہوئے کہا ۔
”چچی جان !....افنان کی کال آئی تھی ۔بتا رہا تھا کہ کل سہ پہر کو مہمان آئیں گے ۔“
رضوان نے قدرے حیرت سے پوچھا۔”کون مہمان؟“دعا کے بھی کان کھڑے ہو گئے تھے ۔
”کھانا کھاﺅ گڑیا !....“محمود چچا کی بات کا جواب دیے بغیر دعا کو مخاطب ہوا ۔وہ جانتا تھا کہ اگر دعا کے کانوں میں یہ بھنک بھی پڑ گئی کہ وہ کس مقصد سے آرہے تھے تو یقینا اس نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لینے تھے ۔
محمود کے انداز پر رضوان کو حیرت تو ہوئی تھی لیکن کچھ کہے بنا وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔اتنا بچہ تو وہ بھی نہیں تھا کہ محمود کا نظر انداز کرنا اس کی سمجھ میں نہ آتا ۔
دعا کھوجتی نظروں سے محمود کے چہرے کا جائزہ لیتی ہوئی ڈونگے سے سالن لینے لگی ۔
”دعا کے ابا !....کیا بتاﺅں افنان کی بیٹی کتنی پیاری اور خوبصورت ہے ۔ بالکل اپنی دعا پر گئی ہے ۔“رخسانہ نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے ان کی سوچوں کو نیا رخ دیا ۔
”اچھا ....“رضوان خوش ہوتے ہوئے بولا ۔”اس کا مطلب ہے کل مجھے وہاں جانا پڑے گا ....گڑیا تم چلو گی ؟“اس نے دعا سے پوچھا ۔
”نہیں ،مجھے امتحان کی تیاری کرنی ہے ۔“دعا نے نفی میں سر ہلادیا ۔
”ایک اور خوش خبری بھی ہے ۔“رخسانہ کو محمود کی نوکری بحال ہونے کا خیال آیا اور وہ فوراََ بتانے لگی کہ کس طرح کمپنی چیئرمین نے خود کال کر کے محمود کو دوبارہ اپنی سیٹ پر بحال کر دیا تھا ۔
”یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ۔“رضوان نے ایک مرتبہ پھر خوشی کا اظہار کیا ۔رخسانہ کی اس بات پر دعا کے چہرے پر بھی خوشی نظر آنے لگی تھی ۔وہ محمود کو مخاطب ہوئی ۔
”اب دوبارہ چیئرمین صاحب کی منتوں پر مسقط نہ بھاگ جانا ۔“
محمود نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”جو تمھاری حالت نظر آرہی ہے ، مجھے لگتا ہے یونھی کرنا پڑے گا ۔“
”کھانا کھائیں بھیا !“بے نیازی سے سر جھٹکتے ہوئے وہ محمود کے لیے سالن ڈالنے لگی ۔
محمود اس سے امتحانات کی تاریخ کے بارے پوچھنے لگا ۔جبکہ رخسانہ ،شوہر کے ساتھ روزمرہ کی گفتگو میں مصروف ہو گئی تھی ۔کھانے کے بعد وہ تینوں قہوہ پینے لگے اور دعا اجازت لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی محمود نے کہا ۔
”معذرت خواہ ہوں چچاجان !....آپ کی بات کو نظر انداز کرنا پڑ گیا تھا ۔اصل میں کل گڑیا کو دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آرہے ہیں ۔ارتضیٰ بھابی کی امی خالہ زینب سے آج ملاقات ہوئی تھی ۔وہ بتا رہی تھیں کہ ان کے پڑوسیوں کا بیٹا چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہے ۔لڑکے کے پاس بہترین نوکری بھی ہے اور گھرانا بھی بہت اچھا ہے ۔اگر یہ بات میں آپ کو اس وقت بتا دیتا تو گڑیا نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لینے تھے ۔“
”ہونہہ!....تو کل وہ آئیں گے ،پھر تمھاری گڑیا سے ان کا تعارف کیسے کروائیں گے ۔“
”کل تک تو سکون رہنے دیں ۔یا آپ چاہتے ہیں کہ آج پھر اس کی جلی کٹی سنوں ۔“
رضوان نے مزاحیہ لہجے میں کہا ۔”کتنا ڈرتے ہو یار !“
”ڈرتا بس اس بات سے ہوں کہ اس کی نسبت کسی غلط جگہ پر طے نہ کر بیٹھوں ۔“ محمود کے لہجے میں مستقبل کے اندیشے واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے تھے ۔
”اللہ پاک خیر کرے گا بیٹا !“رخسانہ نے اسے تسلی دی ۔یا شاید وہ خود کو تسلی دے رہی تھی ۔
قہوہ پی کر رخسانہ اور رضوان تو اپنی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہ ایک بار پھر ضمیر کی عدالت سجانے دعا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
وہ امتحانات کی تیاری میں مصروف تھی ۔محمود کو دیکھتے ہوئے وہ توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
”کون سے مہمان آرہے ہیں مودی بھیا !“
محمود اپنے اتھل پتھل ہوتے سانسوں پر قابو پاتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھ گیا اس طرح کم ازکم اسے اپنا رخ دوسری جانب کرنے کا بہانہ مل گیا تھا ۔
”تو کیا پڑھائی ہو رہی ہے ۔“صوفے پر نشست سنبھالتے ہوئے وہ اس کا جواب گول کر گیا تھا ۔
”پڑھائی وہی ہو رہی ہے جو روزانہ ہوتی ہے ،آپ سے جو پوچھا ہے اس کا جواب دیں ۔“وہ اتنی آسانی سے محمود کے جھانسے میں نہیں آ سکتی تھی ۔
”مہمان تو مہمان ہوتے ہیں گڑیا !“اس نے جواب گول مول کرنا چاہا ۔
”سچ سچ بتائیں ،ان کی آمد کا مقصد کیا ہے ۔“سامنے پڑی کتاب بند کرتے ہوئے اس نے پر اندیشہ لہجے میں پوچھا ۔
”اگر میں کہوں وہ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں۔“
”یہ سوال ہے یا....حقیقت۔“
”فی الحال تو سوال ہی سمجھو ۔“
”تو جواب ہے بھاڑ میں جائیں ۔“دعا کے لہجے میں شامل بدتمیزی محمود کو تپا گئی تھی ۔
”گڑیا !....بد تمیزی کی کوئی حد ہوتی ہے ۔“
”بڑی جلدی نظر آ گئی ہے میری بدتمیزی ....“
”کیا مطلب ؟“محمود نے اپنی نظروں میں غصہ پیدا کرتے ہوئے اسے گھورا ۔
وہ اس کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی ۔”آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے میں شروع دن سے ایسی ہی ہوں ۔“
”ہاں ،مگر اب خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرو ،تم پرائے گھر جانے والی ہو اور میں نہیں چاہتا کہ وہ یہ سوچیں کہ ہم تمھاری تربیت ہی ٹھیک طریقے سے نہیں کر سکے ہیں ۔“یہ کہتے ہوئے محمود کے لہجے میں دنیا جہان کا درد سمٹ آیا تھا ۔
دعا نے لجاجت بھرے لہجے میں پوچھا ”کیا آپ مجھے کچھ عرصے کی مہلت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔“
”پہلے کسی مناسب جگہ رشتہ طے ہو جائے پھر مہلت کے موضوع پر بحث ہو گی ۔“
وہ دوٹوک لہجے میں بولی ۔”میں ابھی سے کہے دیتی ہوں ،مجھے یہ رشتا پسند نہیں ہے۔“
”ہر رشتے کو یونھی ہٹ دھرمی سے دھتکارتی رہو گی تو یاد رکھنا تنگ آکر مجھے زبردستی کرنا پڑے گی اور میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔“
”میری ایک بات پر یقین کریں گے ۔“خلاف توقع دعا کے لہجے میں لجاجت اور عاجزی بھری ہوئی تھی ۔
”معلوم ہونے پرکچھ کہہ سکوں گا ۔“اس کا عاجزانہ لہجہ سن کر محمود کو کچھ ہونے لگا تھا لیکن اس وقت کمزوری دکھانے کا مطلب دعا کو شہہ دینا تھا ۔اور وہ موقع اس کے لیے مناسب نہیں تھا ۔
”اللہ پاک کی قسم ،جس دن مجھے رشتہ پسند آیا آپ مجھے انکار کرتے نہیں دیکھیں گے۔“
”کسی بھی رشتے کو ناپسند کرنے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ،سب سے پہلے تو تم یہ بتاﺅ کہ کامران میں ایسی کون سی خامی تھی جو اسے مسترد کیا ۔“
”پہلی بات تو یہ کہ میں اپنے خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتی اور دوسرا میں نے ہمیشہ اسے کامران بھائی کہا ہے ۔تو اب کیسے میں کسی نئے رشتے سے اس کا خیر مقدم کر سکوں گی ۔“
محمود کے اندر زوردار چھناکا ہوا ۔اسے یوں لگا جیسے شیشے کا بڑا برتن بلندی سے پختہ فرش پر گر کر ایک زور دار آواز پیدا کرکے کئی ٹکڑوں میں تبدیل ہوگیا ہو ۔کبھی کبھار کامران سے مل کر اسے بھائی کہنے والی کو صرف اس لیے اس رشتے سے انکار تھا اور محمود کو تو بھیا بھیا کہہ کر اس کی زبان نہیں تھکتی تھی ،اس کے بارے یقینا وہ خواب میں بھی ایسا تصور نہیں کر سکتی ۔اسی وقت محمو د کو دعا کی جلد از جلد شادی کرانے کا فیصلہ بالکل درست لگا ۔
”تو جسے بھائی کہہ دیا جائے وہ سچ مچ بھائی ہو جاتا ہے کیا ؟“محمود کو اپنی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی تھی ۔
”تو بھائی کہنے سے بھائی بن نہیں جاتا؟“اس نے معنی خیز معصومیت سے پوچھا ۔
”نہیں پاگل ایسا نہیں ہوتا ۔“محمود اس کی معصومیت پر حیران ہوتے ہوئے اسے سمجھانے لگا ۔”اصل رشتا تو وہی ہوتا ہے جو اللہ پاک نے جوڑا ہو، منھ بولے رشتے تو بس کہنے کی ہی حد تک ہی ہوتے ہیں ۔“
”اس کا مطلب ہے ....“محمود کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے ہونٹ کچھ کہنے کو کپکپائے مگر پھر وہ دانت بھینچ کر خاموش ہو گئی ۔
”ہاں اس کا مطلب وہی ہے جو تم سوچ رہی ہو ۔“اسے خاموش پا کر محمود نے از خود وہ نامکمل فقرہ مکمل کر دینا چاہا مگر پھر اس کی جرّات نہ ہوسکی۔اس نے التجائیہ نگاہیں دعاکی طرف اٹھائیں ، اس کادل چاہا کہ وہ بدتمیزی یا معصومیت سے جو سوال منھ سے نکالنا چاہتی ہے وہ کہہ دے ۔وہ پوچھ لے کہ اس کا مطلب ہے ہم دونوں کی شادی بھی ہو سکتی ہے اور میں کہوں ہاں ہو تو سکتی ہے اور یہ بھاگ کر ماں کے پاس جا کر کہے کہ ۔۔۔۔
”امی جان ،میری اور محمود کی شادی ہو سکتی ہے ،بس میں محمود کے ساتھ ہی شادی کروں گی ۔“اور مجھے اس کی ضد پر سرجھکانے کا بہانہ مل جائے کاش ایسا ہو جائے ۔ مگر وہ کاش ہی کیا جو کبھی پورا ہو ۔دعا اس کی التجائیہ نظروں کو نہ جان پائی چند لمحے اس کی طرف متوجہ رہنے کے بعد وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولی ۔
”نہیں میں کامران بھائی کو اس نئے رشتے میں قبول نہیں کر سکتی ۔“
”چلو ،دیکھتے ہیں کل کے رشتے میں تمھیں کون سی خامی نظر آتی ہے ۔“محمود جانے کے ارادے سے کھڑا ہو گیا ۔وہ خاموش بیٹھی رہی ۔
”فی الحال پڑھائی کرو ....کل خوب دیکھ بھال کے ہی خامی نکالنا ....یوں اسے دیکھے بغیر تمھارے ذہن میں کوئی بہانہ نہیں آئے گا ۔“محمود نے مزاحیہ انداز اپنا کر ماحول میں چھائی گھمبرتا ختم کرنے کی کوشش کی ۔
دعا کے چہرے پر دھیمی مسکان نمودار ہوئی ۔”مودی بھیا !....آپ بھی بس ہر وقت مجھے چھیڑتے رہتے ہیں ۔“
اسے متبسم دیکھ کر محمود کو تھوڑی سی تسلی ہوئی اور وہ اس کی گھنی زلفوں کو بکھیرتا اس کی خواب گاہ سے باہرنکل آیا ۔اس نے بھی محمود کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔۔۔
بستر پر چت لیٹا جانے کتنی دیر وہ دعا کے نامکمل فقرے کے سحر میں کھویا رہا ۔
”اس کا مطلب ہے کہ ........“کے بعد جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی ۔کیا اس کے دماغ میں وہی بات آئی تھی جو محمود کی سمجھ میں آرہی تھی ۔اس ادھورے فقرے کو اس نے طنزیہ جان کر مکمل نہیں کیا تھا یا وہ محمود کو مطعون نہیں کرنا چاہتی تھی یا اسے لاج آ گئی تھی ۔
کچھ بھی تھا ،محمود ۔”اس کا مطلب ہے ....“کو اس وقت تک سوچتا رہا جب تک کہ نیند کی مہربان دیوی اسے اس دنیا میں نہ لے گئی جہاں وہ بے جھجکے ،بغیر گھبرائے اوربغیر کسی ندامت کے دعا کو وہ سب کچھ کہہ سکتا تھا جو جانے کب سے اس کے دل میں مقید تھا۔جہاں دعا کو چھوتے ہوئے اسے ضمیر کا وعظ نہیں سننا پڑتا تھا ۔جہاں دعا کے جسمانی خطوط سے اسے نظریں چرانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔جہاں اسے آغوش میں سمیٹتے ہوئے اسے دماغ کی نصیحتیں نہیں سننا پڑتی تھیں ۔جہاں دعا کی حیثیت وہی تھی کہ جو حیثیت اس کا دل دعا کو دیتا تھا نہ کہ دماغ ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

غیرت مند عاشق اردو کہانی - پارٹ 11

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ghyrat-mand-ashaq,Moral stories,urdu font stories, پرانے زمانے کی کہانیاں,hindi moral stories,sabak amoz kahani,Sabaq Amoz Kahani, bad time stories,سبق آموزکہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے