اگلا دن محمود کی زندگی کا ایک اہم دن تھا۔ کامران اپنے ماں باپ کے ساتھ دعا کے رشتے کے لیے رضوان کے گھر موجود تھا۔ رضوان کی بیوی رخسانہ نے کامران اور اس کے ماں باپ کو خوش آمدید کہا۔ سب کی چہرے پہ خوشی تھی۔ رخسانہ کامران اور اس کے والدین کے سامنے بچھی جا رہی تھی۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی کی شادی کامران کے ساتھ ہو جائے کیونکہ کامران ایک اچھا لڑکا تھا اور اس کا مستقبل بھی روشن تھا۔ سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک محمود گھر میں داخل ہوا سب کو سلام کیا اور ایک کرسی پر برجمان ہو گی۔ا محمود نے کامران سے اس کی سٹڈی کے بارے میں اور کچھ مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی۔ کامران نے جواب دیا "جی محمود بھائی کوشش تو بہت کر رہا ہوں اور انشاءاللہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کر کے بیرون ملک چلا جاؤں گا اور وہاں سے سپیشلائزیشن کروں گا"۔
رخسانہ اور رضوان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بھی اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ یہ تمام باتیں جا ری تھیں۔ سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ لیکن دروازے کی دوسری طرف کھڑی دعا ان سب کے چہروں کو بغور دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل کسی بھی صورت کامران کے ساتھ شادی کے لیے راضی نہیں ہو رہا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اگر کامران کے ساتھ شادی ہو گئی تو وہ محمود سے دور ہو جائے گی اور یہ دوری اس کی جان بھی لے سکتی تھی۔ اس لیے وہ بہت پریشان تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ماں باپ کے سامنے جائے اور رشتے سے منع کر دے۔ لیکن اتنی ہمت اس میں نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ محمود کو بغور دیکھے جا رہی تھی اور اس کے چہرے کے تاثرات اور فکر مندی کی جھلک صاف نظر آرہی تھی۔ رخسانہ نے محمود سے کہا محمود اب تمہیں بھی شادی کی تیاری کر لینی چاہیے۔ کیونکہ تمہارا بہانہ تو یہی تھا کہ دعا کی شادی جب تک نہیں ہو جاتی تب تک تم شادی نہیں کرو گے۔ اب جلدی سے اپنے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈو یا پھر ہم ڈھونڈیں اور میں تو کہتی ہوں دعا کے ساتھ ساتھ تمہاری دلہن بھی لے کے گھر آ جائیں۔ سب لوگ قہقے لگانے لگے لیکن محمود سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد کامران نے کہا۔
بھیا مجھے اپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ محمود نے نظر اٹھا کر کامران کی طرف دیکھا اور کہا جی کامران کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کامران ہچکچا رہا تھا تو کامران نے محمود سے کہا بھئی اگر مناسب سمجھیں تو ہم باہر لان میں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔ محمود اٹھ کر کامران کے ساتھ باہر چلا گیا۔ لان میں کرسیاں موجود تھیں ایک پر کامران اور دوسری پر محمود برجمان ہو گیا۔ محمود نے کہا جی کامران صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ کھل کر بات کیجئے۔ کامران نے کہا محمود بھائی جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ دعا اور اپ کا ایک بہن بھائی کا مضبوط رشتہ ہے لیکن پتہ نہیں کیوں میں اس رشتے کو کسی اور نظر سے دیکھ رہا ہوں کیونکہ دعا کی اپ کے ساتھ حد سے زیادہ اٹیچمنٹ شادی کے بعد اس کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔
محمود پھٹی پھٹی نگاہوں سے کامران کی طرف دیکھ رہا تھا اور بولا: کامران میں تمہاری بات سمجھا نہیں آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کامران نے کہا: بھائی جان میری بات کا برا مت مانیے گا۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ شادی کے بعد دعا مجھے وقت دے پائے گی یا نہیں؟ کیونکہ وہ آپ کے بنا ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔ یہاں تک کہ ناشتہ کھانا اور جس طرح سے آپ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ آپ کی جس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اپ کے علاوہ وہ کسی کا وجود اپنے پاس برداشت نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں اگر میں دعا سے شادی کر لیتا ہوں تو کیا انجام ہوگا؟ کیا یہ شادی چل سکے گی؟
محمود حیرت میں ڈوبا کامران کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ محمود کے دل میں دعا کے لیے جو محبت تھی وہ بہن بھائیوں والی محبت سے بہت آگے کی تھی۔ لیکن محمود چاہتا تھا کہ دعا کی کہ کہیں شادی ہو جائے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے لگے تو ہو سکتا ہے محمود کو اس اذیت سے نجات مل جائے۔ لیکن کامران کی باتیں سن کر وہ بت بنا بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ "دیکھو کامران یہ تو تم پر منحصر ہے کہ تم دعا کو کتنی محبت سے رکھتے ہو۔ کس قدر اپنا عادی بنا لیتے ہو کہ وہ سب کو بھول جائے۔ باقی دعا اور میرا رشتہ بہن بھائیوں کی طرح ہے اس کی خوشیاں مجھے بہت زیادہ عزیز ہیں میں اس کی آنکھ میں ایک آنسو بھی دیکھ نہیں سکتا۔ یوں سمجھ لو کہ میں اس کا سب کچھ ہوں۔ میں اس کی ماں بھی ہوں۔ باپ بھی ہوں۔ بھائی بھی ہوں۔ بہن بھی ہوں اور ایک دوست بھی ہوں۔ اس لیے اگر تمہارے ذہن میں کسی بھی قسم کی کوئی بات ہے تو اپنے ذہن کو صاف کر لو یہ شادی ہم سب کی مرضی سے ہو رہی ہے۔
محمود بھائی ہمیں تو پتہ چلا تھا کہ اپ ایک دفعہ کام کے سلسلے میں دبئی بھی چلے گئے تھے۔ لیکن ایک دن سے بھی زیادہ وہاں نہیں رہ پائے اور دعا کے بیمار ہونے پر فورا واپس لوٹ آئے اور دعا نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے وہ کچھ نہیں کھائے گی تو اس صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کل اگر دعا میرے ساتھ کہیں جاتی ہے تو پھر یہ یقینی سی بات ہے آپ کو بھی ہمارے ساتھ ہی جانا پڑے گا۔ کیونکہ مجھ سے زیادہ وہ اپ کے قریب رہنا چاہتی ہے تو بتائیے اس صورتحال میں مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ شادی بیاہ کا جو رشتہ ہے یہ ایک بار بند جائے تو بہتر ہے بار بار توڑ کر دوبارہ رشتے بنانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ مجھے دعا سے شادی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میرے دل کی تسلی نہیں ہو رہی کہ شادی کے بعد دعا مکمل طور پر میری بن جائے گی یا نہیں؟
دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ رخسانہ چائے لے کر آگئی اور کہنے لگی کامران بیٹا تمہیں دعا کے بارے میں جو بھی جاننا ہے وہ محمود سے پوچھ لو کیونکہ ہم سے زیادہ تو محمود کو پتہ ہے ۔اس کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا ہر چیز کا ٹائم ٹیبل اسی کے پاس ہے۔ وہ ہماری بیٹی کم اس کی زیادہ ہے۔ رخسانہ کی اس بات پر کامران مسکرا دیا اور اس کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لے لی اور ایک کپ محمود کی طرف بڑھا دیا اور ایک خود تھام لیا۔ رخسانہ واپس چلی گئی۔ لیکن ابھی تک محمود کامران کو واضح نہیں کر پایا تھا اور کامران کو اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملے تھے۔ اس لیے اس کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ آخر محمود نے کہا کامران جیسا کہ تم جانتے ہو وہ جب چھوٹی سی تھی تو میں نے اسے اپنی گود میں کھلایا اور پال پوس کر بڑا کیا۔ بھائیوں کا پیار دیا۔ ایک اچھا دوست بن کر اس کے ساتھ زندگی گزاری۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ بچہ جس کے ساتھ زیادہ وقت بتاتا ہے اس سے مانوس ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ ایک بیٹی اپنے باپ یا ماں کے ساتھ اس قدر منسلک ہو جاتی ہے۔ لیکن جب شادی ہوتی ہے تو اسے سب کچھ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر جانا پڑتا ہے۔ ایک دن دو دن ایک ہفتہ یہاں تک کہ ایک مہینے کے بعد وہ اپنی نئی زندگی میں مصروف ہو جاتی ہے اور اپنے جیون ساتھی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتی ہے۔ دعا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے مجھے امید ہے کہ تم سے شادی کے بعد دعا ایک نئی زندگی کا آغاز کرے گی جس میں صرف دعا ہوگی اور کامران ہوگا۔
تھوڑی دیر کے بعد محمود اور کامران اٹھے اور واپس ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ کامران کچھ دیر رضوان اور رخسانہ سے بات جیت کرتا رہا۔ دونوں فیملیز نے ایک دوسرے کو جانچ پرکھ لیا تو وہ لوگ واپس چلے گئے۔ رضوان نے محمود سے کہا رضوان بیٹا ہمیں تم پر بھروسہ ہے۔ تم ہماری بیٹی کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرو گے ہمیں منظور ہوگا۔ کامران لڑکا ہمیں بھی بہت پسند آیا ہے اور اچھی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ماں باپ بھی نہایت شریک اور مہذب لوگ ہیں۔ امید ہے اگر یہ رشتہ جڑ جاتا ہے تو ہماری بیٹی خوش رہے گی۔
رخسانہ نے بھی محمود کا شکریہ ادا کیا۔ محمود تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا پھر اٹھ کر دعا کے کمرے کی جانب چل دیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بیڈ پر دعا لیٹی ہوئی دوسری طرف منہ کیے خاموش پڑی تھی۔ محمود اس کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر وہ جی بھر کر دعا کو دیکھتا رہا۔ اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اس کی گالوں پر گرم گرم آنسوؤں کی لکیریں بن رہی تھیں۔ اچانک دعا نے پلٹ کر محمود کو دیکھا تو وہ بھی بہت حیران ہوئی اور بولی: ارے محمود بھیا آپ رو کیوں رہے ہیں آج تک میں نے آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھا اور یہ انسو کس خوشی میں بہائے جا رہے ہیں؟ کیا اپ کو میری شادی کر کے خوشی محسوس ہو رہی ہے؟ تو کیا یہ خوشی کے انسو ہیں؟
اچانک محمود کو ہوش آیا تو جلدی سے اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور بولا: ارے نہیں گڑیا ایسی بات نہیں ہے بس تم سے جدا ہو جانے کا ڈر رلا رہا ہے۔ لیکن تمہاری خوشیاں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں ۔تو مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں کامران کیسا لگا گڑیا کا موڈ بن گیا اور بولی مجھے تو ذرا بھی پسند نہیں ہے اور ویسے بھی آپ کو بتا چکی ہوں کہ مجھے شادی نہیں کرنی مجھے تو صرف آپ کے ساتھ رہنا ہے۔ پلیز آپ میرے ماں باپ کو سمجھائیں نا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔ کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں شادی کر کے اگر کسی کے گھر چلی جاؤں گی۔ تو وہاں تو آپ نہیں ہوں گے پھر میرا دل اداس ہوگا۔ تو بتائیے میں کیا کروں گی؟ تو کیا آپ میرے ساتھ ہی جائیں گے؟ دعا کے اس معصومانہ سوال پر محمود تڑپ اٹھا۔ لیکن ایسے لگتا تھا جیسے آج محمود کے پاس کسی بھی سوال کا جواب موجود نہیں ہے. وہ دعا کو سمجھانے لگا۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا جب تمہاری شادی ہوگی تو تمہیں نئی خوشیاں ملیں گی۔ ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا اور تمہیں اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہیے اپنے شوہر کے بارے میں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں.
آج دعا کو محمود کا لہجہ اور رویہ اجنبی سا لگ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا یہ وہی محمود ہے جو اس کا اتنا خیال رکھتا تھا۔ اس کی ہر ضرورت اور ہر خواہش کو پوری کرتا تھا۔ لیکن آج اگر دعا کہہ رہی تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس کی یہ بات یہ خواہش کیوں پوری نہیں کی جا رہی تھی؟ کیونکہ یہ بات پہلے بھی وہ محمود سے کئی بار کہہ چکی تھی دونوں خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کو تکتے رہے محمود والہانہ انداز میں دعا کے چہرے کو تکے جا رہا تھا پھر اچانک اپنی نظریں جھکا لیں تھوڑی دیر بیٹھا رہا اور پھر کمرے سے اٹھ کر چلا گیا۔
٭٭٭
رضوان اور رخسانہ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ دعا کی شادی میں چھ دن باقی تھے۔ دعا نے بالکل چپ ساد لی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ سوچتی تھی کہ آخر ایسا کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ محمود بھائی کے ساتھ رہے۔ آخر اس کے ذہن میں ایک ہی بات آتی تھی کہ اگر وہ محمود سے شادی کر لے تو ہی یہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا لیکن ایسا سوچتے ہوئے وہ فورا اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ محمود اس کو بہن کی طرح پیار کرتا ہے اور اگر محمود کو پتہ چلا تو ہو سکتا ہے وہ بہت زیادہ ناراض ہو جائے اس لیے اس کی ناراضگی کے ڈر سے وہ اس بات کو ہمیشہ کے لیے ذہن سے نکال رہی تھی۔ لیکن پھر بھی اس کے ذہن میں کوئی حل نہیں تھا۔ وہ شروع سے ہی محمود کو محمود بھیا کہا کرتی تھی یا مودو بھائی کہہ کر پکارتی تھی اور سب جانتے تھے کہ ان دونوں کے درمیان بہن بھائی کا کتنا مضبوط رشتہ ہے تو اس مضبوط رشتے کو جو بہن بھائی کے نام سے جڑا ہوا تھا وہ میاں بیوی میں تبدیل نہیں کر سکتی تھی۔
جانے لوگ کیا سوچتے؟ لوگ کیا کیا باتیں بناتے؟ یہ سوچ کر ہی وہ اتنی شرمندہ ہوئی کہ فورا اس بات کو اپنے ذہن سے جھٹک کر واش روم میں چلی گئی اور وہاں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے لگی ۔ ساتھ ساتھ اس کے دکھی دل نے اس کی آنکھوں کو آنسوں سے بھر دیا۔ دعا ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ خاموش ہوتی جا رہی تھی کیونکہ وہ اپنا دکھ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔ یہاں تک کہ محمود بھائی کو بھی نہیں دوسری طرف محمود بھی ایک کرب میں مبتلا تھا۔ لیکن وہ اپنا درد اور کرب سب سے چھپا رہا تھا۔ اس کے دل میں بھی یہی بات تھی کہ وہ جو سوچ رہا ہے۔ دعا کے حوالے سے اس رشتے کو کوئی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھے گا اور لوگ اس کو لام تان کریں گے یہاں تک کہ چچا اور اس کی بیوی رخسانہ بھی کیا سوچیں گے کہ جسے ہم نے اپنی بیٹی سونپی ہے جس بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے محمود کو خود مختیار کیا ہے وہ ان کی بیٹی کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے۔صورتحال کچھ ایسی تھی کہ نہ محمود کی سمجھ میں کچھ آ رہا تھا اور نہ دعا کی سمجھ میں وہ دونوں محبت کے اس رشتے کو برقرار بھی رکھنا چاہتے تھے لیکن خیالات کی پاکیزگی کہ ساتھ۔
رضوان اور رخسانہ شادی کی شاپنگ میں مصروف تھے تو محمود کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جب گھر لوٹے تو بہت تھکے ہوئے تھے۔ محمود نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو دعا کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ جب بھی وہ دعا کے بارے میں سوچتا اس کا دل بیٹھ جاتا تھا۔ اس نے رخسانہ چچی کو چائے بنانے کا کہا اور خود دعا کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جب کمرے میں داخل ہوا تو دعا کمرے میں موجود نہیں تھی۔ پورا کمرہ ایک اداسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ محمود کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ وہ دعا کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہو جاتا تھا کہ کہیں دعا کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے پھر اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے۔ دعا اس کے کمرے میں موجود ہو وہاں سے وہ اپنے کمرے میں آیا تو دعا اس کے کمرے میں موجود تھی۔ محمود کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر دعا خود پہ قابو نہ رکھ سکی اور محمود کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہاں تک کہ محمود کا سینہ اس کے آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ پتہ نہیں ایسا کیا تھا کہ جب دعا محمود کے قریب ہوتی تو محمود کو دنیا جہاں کا سکون میسر آ جاتا اور یہی حال دعا کا تھا۔ سارا دن کی پریشانی اور اگتاہٹ ایک دم سے ختم ہو گئی تھی۔ محمود کا دل چاہ رہا تھا کہ لمحے یہیں تھم جائیں۔
اچانک دعا محمود سے الگ ہو گئی اور دور جا کر کھڑی ہو گئی اور بولی ٹھیک ہے محمود بھائی اگر آپ میری شادی کروانا چاہتے ہیں تو میں بھی اپ کی شادی کرواؤں گی۔ میری بھی یہی شرط ہے کہ جس دن میری شادی ہوگی اسی دن آپ کی بھی شادی ہونی چاہیے۔آپ نے کبھی میری کوئی بات نہیں ڈالی۔ میری ساری خواہشیں پوری کرتے ہیں۔ اب میری یہ خواہش بھی اپ کو پوری کرنا ہوگی نہیں تو میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی اور اپنی جان دے دوں گی۔ خواہ اس سے آپ کو اور میرے ماں باپ کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچے۔ محمود دعا کی بات سن کر تڑپ اٹھا وہ جانتا تھا کہ دعا کو اس کے ارادے سے باز رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
وہ دعا کے قریب ہو گیا اور اس کے بازو کو تھام لیا اور بولا: گڑیا اپنے منہ سے دوبارہ ایسی منحوس بات مت نکالنا۔ تمہیں کبھی بھی کچھ نہیں ہوگا۔ دعا نے اپنے بازو چھڑا لیے اور ناراض ہو کر دوسری جانب منہ کر کے کھڑی ہو گئی۔ مجھے بس میرے سوال کا جواب چاہیے کیا آپ بھی اسی دن شادی کریں گے جس دن میری شادی ہے؟ تو بتائیے۔ محمود عجیب صورتحال میں پھنس چکا تھا۔ انکار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی اور کوئی جواب بھی نہیں بن پا رہا تھا۔ دعا اس کی جانب مڑی اور اس کا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ ڈرائنگ روم میں رخسانہ اور رضوان بیٹھے تھے۔ دعا نے ان سے کہا: امی جان مجھے شادی پہ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میری بھی ایک شرط ہے کہ محمود بھیا کی بھی اسی دن ہی شادی ہوگی آپ ان سے کہہ دیجئے اگر میری بات نہیں مانیں گے تو میں بھی شادی سے انکار کر دوں گی۔
رخسانہ اور رضوان ہکے بکے کبھی دعا کو دیکھ رہے تھے تو کبھی محمود کو محمود گنہگاروں کی طرح سر جھکائے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اچانک دعا کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ تو جانتے تھے کہ دعا اپنے بھیا محمود کو بہت چاہتی ہے لیکن ایسی کوئی شرط رکھ دے گی اس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ رخسانہ مسکرا اٹھی یہ تو اور بھی اچھی بات ہے اگر محمود مان جاتے ہیں تو ان کی شادی بھی لگے ہاتھوں نپٹا دیتے ہیں۔ رضوان نے کہا لیکن اس وقت اتنی ارجنٹ دلہن آئے گی کہاں سے؟ رخسانہ نے کہا یہ بات تم مجھ پہ چھوڑ دو بس رضوان تم ایک دفعہ محمود کے منہ سے ہاں نکلوا لو۔ محمود سب کو حیرانگی سے تک رہا تھا کہ ان سب کو کیا ہو گیا ہے۔ آخر اس نے دعا کی جانب دیکھا اور کہا گڑیا اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔ مجھے تمہاری خوشیاں عزیز ہیں اور تمہاری خوشیوں کے لیے میں ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔ دعا نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور آنکھوں میں آنسو لیے واپس اپنے کمرے میں ا گئی۔ آج پہلی دفعہ اس نے دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ کیونکہ اب اسے لگنے لگا تھا کہ اب کوئی نہیں آئے گا۔ کوئی اس کے لاڈ نہیں اٹھائے گا۔ کوئی اس کے آنسو نہیں پونھچے گا۔ وہ وہ بستر پر دراز ہو گئی اور تکیے کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ تکیے کے نیچے پڑی تصویر پر اس کی نظر پڑی تھوڑی دیر وہ محمود کی تصویر کو دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
محمود کے لیے دلہن کا بندوبست کرنا رخسانہ کے لیے اتنا مشکل نہیں تھا۔ رخسانہ اور رضوان نے رضوان کی پھوپھی کی بیٹی فرزانہ سے محمود کی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ کیونکہ شادی میں دن کم تھے اسی لیے بات کرنے میں حرج نہیں تھا۔ دونوں نے فرزانہ کی امی سے رابطہ کیا۔ کیونکہ والد تو اس کے فوت ہو چکے تھے اور فرزانہ کا چھوٹا بھائی اور والدہ تینوں گھر میں رہتے تھے۔ آخررخسانہ کے اصرار پر فرزانہ کی امی نے ہاں کر دی۔ وہ بھی اس بات پر کہ شادی کا تمام تر خرچہ رضوان خود اٹھا رہا تھا۔ یہ خوشخبری محمود کو بھی سنا دی گئی اور یہ بات دعا کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ لیکن وہ پتھر بن چکی تھی۔ اس کے دل میں ایسا ساتھ مردہ ہو چکے تھے۔ بس سارا دن کمرے میں رہتی۔ دل کیا تو کچھ کھا لیا۔ نہ کیا تو کمرے میں ہی زیادہ وقت گزار دیا۔ محمود نے بھی اس کے کمرے میں جانا بند کر دیا تھا۔ زیادہ وقت وہ باہر گزارتا تھا اور شادی کی تیاریوں کے حوالے سے مختلف قسم کے انتظامات اس کے ذمہ تھے۔
شادی میں دو دن باقی تھے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھی لیکن محمود اور دعا ان تمام چیزوں سے بیگانہ اپنے الگ خیالات کی دنیا میں مگن تھے۔ ایک عجیب سی اذیت نے ان دونوں کو گھیر رکھا تھا۔ آنے والا وقت کس نے دیکھا ہے لیکن جدائی کا درد اور یہ خیال کہ کیا پتہ جب شادی ہو جائے گی تو ایک دوسرے سے مل بھی پائیں گے کہ نہیں اور کیسے رہ پائیں گے؟ ایسے خیالات ان کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ لیکن بہتری اسی میں تھی کہ حالات کے سامنے سر خم تسلیم کر لیا جائے۔
یہ مہندی کی رات تھی۔ دعا نے خوبصورت جوڑا پہنا ہوا تھا لیکن اس کے چہرے پہ اداسی صاف نظر آرہی تھی۔ مہندی کی رسم ادا کرنی تھی تو یہ فیصلہ ہوا کہ دعا اور محمود کو اکٹھی مہندی لگائی جائے۔ گھر میں ہر طرف خوشیاں تھیں بہت سارے مہمان گھر میں جمع تھے۔ دعا اور محمود کو ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا تھا لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے اس قدر بیگانہ تھے کہ ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ دونوں الگ الگ اپنے خیالات میں کھوئے ہوئے تھے۔ مہندی کی رسم ادا ہو گئی۔
رات 12 بج رہے تھے موسم کے تیور بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ کچھ مہمان گھروں کو لوٹ گئے اور کچھ ابھی رخصت ہو رہے تھے۔ دعا اپنے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ لیکن محمود رخسانہ اور رضوان کے ساتھ مہمانوں کو الوداع کہہ رہا تھا۔ محمود کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کس طرح کی کیفیت ہے جو اس کو جگڑے ہوئے ہے۔ اچانک رضوان کے موبائل کی بیل بجی۔ تمام مہمان رخصت ہو چکے تھے اور ایک دو مہمان جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ محمود نے ان کو بھی رخصت کر دیا اور باہر کا گیٹ بند کر دیا۔ اچانک رضوان دوڑا دوڑا ان کے پاس آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیں اڑ رہی تھیں۔ محمود اور رخسانہ کو بتایا کہ غضب ہو گیا کامران کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ وہ لوگ اسے ایمرجنسی میں لے کے گئے ہیں۔ رخسانہ نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ اللہ خیر کرے یہ سب کیسے ہو گیا؟
محمود نے فورا رضوان اسے پوچھا: چچا جان کیا ہوا ہے ذرا مجھے بتائیں۔ رضوان نے بتایا کہ کامران کے دوست کا فون آیا ہے واپسی پہ جاتے ہوئے ایک ٹرک نے ان کی گاڑی کو اس شدت سے ٹکر ماری ہے کہ کامران اور اس کی والدہ شدید زخمی ہو کر ہاسپٹل پہنچا دیے گئے ہیں۔ باقی لوگوں کو بھی کچھ چوٹیں آئی ہیں۔ لیکن ان کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔ محمود نے کہا ہمیں فورا ہاسپٹل چلنا چاہیے یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے۔ رخسانہ بھی ساتھ جانا چاہتی تھی لیکن انہوں نے اسے دعا کے پاس رہنے کے لیے کہا کہ وہاں جا کر فون پر بتائیں گے کہ کیا صورتحال ہے۔ محمود نے تیزی کے ساتھ گاڑی دروازے سے باہر نکالی اور ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔