دعا اپنے کمرے میں اپنی والدہ کے ساتھ گم سم بیٹھی تھی۔ بیگم رضوان کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔ وہ اس صورتحال سے بہت پریشان تھی کہ شادی والے گھر میں ایک ایسی آفت آ پڑی تھی۔ جس سے اس کی بیٹی کی خوشیاں پل بھر میں پانی میں تنکوں کی مانند بہ سکتی تھیں۔ رخسانہ کی بیٹی دعا کی شادی کامران کے ساتھ ہونے جا رہی تھی اور مہندی کی رات ایک ایسی دل دہلا دینے والی خبر سننے کو ملی کہ رضوان اور محمود ہسپتال کی جانب دوڑ پڑے۔ ایک خونی حادثہ جس میں کامران اور اس کی والدہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ شادی والے گھر میں ماتم کا سماں تھا لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔
دعا کامران کی دلہن بننے والی تھی اور فرزانہ محمود کی لیکن محمود دعا کے لیے دل میں محبت کا ایک ایسا جذبہ رکھتا تھا جس کو اس نے سب سے چھپا رکھا تھا وہ کسی کے سامنے بھی ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ فرزانہ محمود کی دلہن بنی بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی تو کامران دعا کو دلہن بنا کر لے جانے کے لیے تیار تھا۔ لیکن آنے والا وقت کیسا ہوگا؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ دونوں ماں بیٹی کمرے میں خاموشی سے بیٹھی محمود کے فون کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ جانے سے پہلے رضوان اور محمود نے انہیں بتایا تھا کہ وہ پہنچتے ہی وہاں کے حالات کے بارے میں اطلاع دیں گے۔ رخسانہ نے کہا "اللہ جانے یہ سب کیسے ہو گیا میری بیٹی کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی ہے" یہ کہتے ہی اس کی انکھوں میں آنسو بھر آئے کیونکہ وہ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتی تھی۔ دعا نے نظر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا اور بولی: "امی جان اپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ محمود بھائی اور ابو جان ہسپتال گئے ہیں۔ اپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ جب میں نے آپ لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ لوگوں کو اتنی جلدی کیوں تھی؟ کیونکہ میں دل سے اس شادی کے لیے راضی بھی نہیں تھی۔ مجھے کہیں بھی نہیں جانا مجھے آپ لوگوں کے ساتھ محمود بھیا کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ میں اپ لوگوں سے دور نہیں جا سکتی۔ آپ کو سچ بتاؤں میں نے اللہ سے بہت دعائیں کی ہیں کہ میری شادی نہ ہو شاید اللہ نے میری دعا سن لی ہے۔"
دعا کی بات سن کر رخسانہ نے حیرانگی سے اس کی جانب دیکھا اور کہا: ارے بے شرم کچھ تو شرم کرو. کامران اور اس کی ماں ہسپتال میں پڑے ہیں پتہ نہیں ان کی حالت کیسی ہے اور تجھ کو یہ باتیں سوجھ رہی ہیں۔
اچانک رخسانہ کے فون کی گھنٹی بجی اس نے فورا فون اٹھایا دیکھا تو سکرین پر اس کے شوہر رضوان کا نمبر نظر آرہا تھا رخسانہ نے فورا فون اٹھایا اور کال اٹینڈ کی رضوان نے بتایا کہ کامران اور اس کی والدہ کی حالت کافی خراب ہے۔ کافی خون بہ جانے کی وجہ سے حالت تشویش ناک ہے۔ بہرحال کوشش کی جا رہی ہے۔ بلڈ بھی ارینج ہو چکا ہے لیکن دعا کیجئے کسی قسم کا کوئی برا سانحہ نہ ہو۔ رخسانہ نے کہا اللہ خیر کرے یہ سب کیا ہو گیا ہے۔ ہمیں خوشیاں راس کیوں نہیں آرہی؟ اپ یہ بتائیں کہ آپ کب تک وہاں رکیں گے؟ اور اب شادی کا کیا کرنا ہے؟ اگر کامران کی حالت ٹھیک نہیں ہے تو پھر بارات کیسے آ سکتی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔
رضوان نے کہا ٹھیک ہے میں اس حوالے سے کامران کے سرپرستوں سے بات کرتا ہوں اور کوئی نہ کوئی اس کا حل نکالتے ہیں اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ جلدییں محمود کی ساتھ گھر آ جاؤں تاکہ ہم آنے والے کل کے لیے کوئی لائحہ عمل بنا سکے یہ کہہ کر رضوان نے فون بند کر دیا۔ رخسانہ پریشانی کی حالت میں کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ اسے ایک پل بھی سکون میسر نہیں آ رہا تھا۔ وہ رضوان اور محمود کا انتظار کیے جا رہی تھی۔ ناجانے آنے والا کل کیسا ہوگ؟ رخسانہ اللہ سے دعا کیے جا رہی تھی کہ سب اچھا ہو جائے اور کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
ایک گھنٹے کے بعد رضوان اور محمود کی گاڑی دروازے سے گیراج میں داخل ہوئی رخسانہ ابھی تک کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ وہ تیزی سے ڈرائنگ روم میں آئی تو رضوان اور محمود گھر میں داخل ہو چکے تھے۔ وہ تینوں صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ہر ایک پریشان نظر آ رہا تھا۔ آخر رخسانہ نے پوچھا تو اب ہم کیا کریں گے شادی کے کارڈ لوگوں کو بھیجے جا چکے ہیں۔ اب کیا کرنا ہے؟
میں نے ان سے بات کی ہے۔ کامران کی ماموں موقع پہ موجود تھے تو انہوں نے کہا ہے کہ حالات آپ لوگوں کے سامنے ہیں۔ ابھی اس حالت میں شادی اور رخصتی ممکن بھی نہیں ہے۔ اس لیے فی الحال تمام مہمانوں کو اطلاع پہنچانی ضروری ہے کہ فی الحال شادی ممکن نہیں ہے۔ پھر معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شادی کی کوئی اور تاریخ رکھی جائے گی۔ رضوان نے پریشانی کے عالم میں رخسانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
رخسانہ اپنی بیٹی کے لیے تو فکر مند تھی ہی لیکن ساتھ ہی محمود اور فرزانہ کی شادی کا معاملہ بھی تھا۔ رخسانہ نے رضوان سے پوچھا اگر دعا اور کامران کی شادی اس حادثے کی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر محمود اور فرزانہ کا کیا بنے گا؟ کیا ہمیں محمود اور فرزانہ کا بھی سادگی سے نکاح کر لینا چاہیے؟ رخسانہ کے اس سوال کا جواب رضوان کے پاس بھی نہیں تھا۔ دونوں نے محمود کی جانب دیکھا۔ وہ ہکا بکا دونوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ نہیں ایسا کیسے ممکن ہے جب تک دعا کی شادی نہیں ہوتی میں اپنی شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا اور میں یہ شادی بھی اس لیے کر رہا ہوں کہ دعا شادی کے لیے راضی ہو جائے۔ اپ ایسا کیجئے فرزانہ کے گھر بھی اطلاع دیجئے کہ حادثے کی وجہ سے فی الحال شادی کو کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر رہے ہیں پھر جیسے ہی حالات میسرآئیں گے شادی پھر ہو جائے گی۔
ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ دعا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ لباس تبدیل کر چکی تھی۔ وہ بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ لیکن اس کے چہرے پہ کسی بھی پریشانی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ شاید وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔ اسی تو صرف شادی کے ملتوی ہونے کی خوشی تھی کیونکہ وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ سب اپنی جگہ پر پریشان تھے کہ رضوان نے کہا ٹھیک ہے رات بہت ہو چکی ہے میں اور محمود لوگوں کو اطلاع پہنچا دیتے ہیں۔ تم ماں بیٹی کمرے میں جا کے ارام کر لو ہو سکتا ہے کل ہمیں پھر ہسپتال جانا پڑے۔
رخسانہ اور دعا اٹھ کر اپنے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جب کہ محمود اور رضوان نے کچھ لوگوں کو فون کے ذریعے شادی ملتوی ہونے کی اطلاع دی اور ان کے ذمے بھی لگا دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فورا یہ اطلاع پہنچا دیں۔ رات بھر یہ معاملات چلتے رہے کہ فجر کی اذان کی آواز گونجنے لگی رضوان اور محمود ابھی تک جاگ رہے تھے دونوں نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلے گئے
جبکہ دعا اور رخسانہ بھی نماز کی تیاری کرنے لگیں۔
کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب وہ دل پر چپ کی مہر لگا کر سارے درد خاموشی سے سہ جاتا ہے۔ محبت کے کئی روپ ہوتے ہیں اور ہر روپ دوسرے روپ سے نرالا ہوتا ہے۔ محبت کا پاکیزہ رشتہ دو دلوں کو مضبوطی کے ساتھ باندھ کر رکھتا ہے۔ محبت کے ان رشتوں کو لوگ مختلف طرح کے نام دیتے ہیں لیکن محبت عزت دینے کا نام ہے۔ محبت ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا نام ہے محبت ایک دوسرے کو خوشیاں دینے کا نام ہے۔ محبت ہمیشہ سے ہی قربانی مانگتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ محبت دکھ دیتی ہے لیکن اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کی خوشی کے لیے اپنی خوشیاں قربان کرتے ہیں اور اس کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں تو پھر آپ کو کوئی دکھ نہیں۔ کوئی پریشانی نہیں۔ کوئی غم نہیں کیونکہ آپ نے اپنی خوشیوں کا سودا کسی اور کی خوشیوں سے کر لیا ہوتا ہے۔
صبح ناشتے کی میز پر بھی سب موجود تھے لیکن کسی کا ناشتے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ رضوان نے رخسانہ سے کہا میں اور محمود ہاسپتال جا رہے ہیں۔ آپ لوگ دعا کریں کہ کامران اور اس کی ماں جلد صحت یاب ہو جائیں۔ میرا ایک ڈاکٹر جاننے والا ہے میں میں کوشش کروں گا کہ کامران اور اس کی والدہ کو ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ یہ کہہ کر محمود اور رضوان وہاں سے اٹھ گئے۔ رخسانہ کا بھی ناشتے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران تھی کہ دعا آج بڑی رغبت کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی معصومیت پر دل سے فدا ہو گئی۔ اس کا دلہا ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا لیکن شاید دعا دلی طور پر شادی کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے ان تمام معاملات سے بالکل الگ تھلگ اپنی دنیا میں جی رہی تھی۔
رضوان اور محمود ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ کامران کی والدہ کچھ دیر پہلے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی ہیں اور کامران کی حالت بھی خراب ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے وہ قومے میں چلا جائے۔ کیونکہ کامران کے بارے میں ڈاکٹر یقین سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ محمود نے کہا چچا جان یہ تو بہت برا ہوا۔ ہم نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا لیکن کیا کر سکتے ہیں۔ جو اللہ کو منظور ہونا تو وہی ہے۔ ہم تو صرف صبر ہی کر سکتے ہیں یا پھر اللہ سے دعا کر سکتے ہیں۔
شام سے کچھ دیر پہلے کامران کی والدہ کی تدفین کر دی گئی۔ رضوان اور محمود ہسپتال سے سیدھے کامران کے گھر چلے گئے تھے پھر وہاں جا کر رخسانہ اور دعا کو بھی بلوا لیا گیا تھا۔ رخسانہ اور اس کی بیٹی دعا خواتین میں بیٹھی خاموشی کے ساتھ افسردگی کی حالت میں تھی۔ کچھ خواتین رخسانہ سے افسوس کر رہی تھی کہ دیکھو آج اس لڑکی نے دلہن بننا تھا لیکن کیسی قسمت پائی ہے اللہ معاف کرے۔ کچھ خواتین کی باتیں دعا کے دل کو چھلنی کر رہی تھیں لیکن وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ کچھ خواتین تو دبے الفاظ میں دعا کو منحوس قرار دے رہی تھی کہ دیکھو اس لڑکی کی وجہ سے پورا خاندان تباہ ہو گیا ہے۔ کچھ قریبی جاننے والی خواتین جن کو دعا اور محمود کے تعلق کا علم تھا وہ تو یہاں تک کہہ رہی تھیں کہ لڑکی تو اس شادی پر راضی ہی نہیں تھی۔ یہ زبردستی کی شادی تھی دیکھو لڑکی کو ذرا بھی افسوس نہیں ہو رہا۔ اس کے چہرے کے تاثرات تو دیکھو ایسے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
رخسانہ ساری باتیں سمجھ رہی تھی۔ لیکن معاملے کی نزاکت کو جانتے ہوئے خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ اس لیے دونوں ماں بیٹی تھوڑی دیر وہاں بیٹھی رہیں۔ پھر اٹھ کر چلی گئی۔ محمود اور رضوان بھی تدفین کے معاملات سے فارغ ہو چکے تھے۔ مغرب کے بعد وہ سب لوگ واپس گھر پہنچ گئے۔
اچانک رضوان نے کہا کہ ہمیں فرزانہ اور اس کی ماں کے گھر چلنا چاہیے اور ان سے بھی مشورہ کرنا چاہیے کہ اب کیا کرنا ہے؟ رخسانہ نے ہاں میں ہاں ملائی چونکہ وہ اپنی بیٹی کے حوالے سے بھی پریشان تھے۔ لیکن محمود اور اس کی ہونے والی بیوی فرزانہ کے حوالے سے بھی کوئی لائحہ عمل بنانا تھا کیونکہ کامران کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہی خیال کیا جا سکتا تھا کہ فی الوقت دعا کی شادی تو ممکن نہیں ہے لیکن اس میں فرزانہ بیچاری کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کی رخصتی تو وقت پر ہو سکتی تھی۔ اس لیے ان سارے معاملات کو زیر بحث لانے کے لیے ان کا فرزانہ کے گھر جا کر اس کی ماں سے بات کرنا ضروری تھا۔
آخر یہی طے پایا کہ فرزانہ کی ماں دلدار بیگم کے گھر جا کر اس گتھی کو سلجھایا جائے۔ دعا نے بھی ساتھ جانے کی ضد کی تو اسے بھی ساتھ لے گئے۔ دلدار بیگم کے گھر پہنچ کر وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے یہی سوچ بچار کر رہے تھے۔ دلدار بیگم کا کہنا تھا کہ محمود اور فرزانہ کی شادی اگر سادگی ساتھ کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اب میری بیٹی محمود کے ساتھ منسوب ہو چکی ہے تو میں زیادہ دیر بیٹی کو اپنے گھر نہیں بٹھا سکتی۔آپ جتنی جلدی ممکن ہو سکے سادگی کے ساتھ فرزانہ کو محمود کے نکاح میں لے لیں اور رخصتی بھی سادگی کے ساتھ ہو جائے گی۔ رخسانہ اور محمود بھی یہی چاہتے تھے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے سادگی کے ساتھ ہی صحیح محمود کی دلہن فرزانہ کو رخصت کر کے وہ اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ 10 یا 15 دن کے بعد کی کوئی تاریخ رکھ لیتے۔
اس بارے میں محمود سے پوچھا گیا تو وہ خاموش رہا۔ اسے بھی 10 15 دن کا وقت چاہیے تھا اس لیے یہی طے پایا کہ دس یا 15 دن کے بعد کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ دعا سب کے چہروں کی جانب تکے جا رہی تھی۔ جب فرزانہ کا نام محمود کے ساتھ لیا جاتا تو دعا کے ماتھے پر بل پڑ جاتے تھے۔ کیونکہ شروع سے ہی دعا کسی کو بھی محمود کے ساتھ برداشت نہیں کرتی تھی۔ لیکن حالات کچھ ایسے تھے کہ جب اس کی شادی کی بات کی جانے لگی تو اس نے بھی یہ شرط رکھ دی تھی کہ ساتھ میں محمود کی بھی شادی کر دی جائے۔ بعد میں اسے خیال آیا ایسے تو محمود کسی اور کے ہو جائیں گے اور نہ تو مجھ سے مل پائیں گے اور نہ میں ان کے ساتھ رہ پاؤں گی تو پھر میرے لاڈ کون اٹھائے گا؟ تب دعا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا لیکن جب شادی ملتوی ہو رہی تھی تو اس کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا۔ لیکن اب محمود اور فرزانہ کی شادی کی باتیں دوبارہ چل رہی تھیں اور تھوڑے ہی دنوں میں فرزانہ رخصت ہو کر محمود کے گھر آنے والی تھی تو یہ بات اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے اور محمود کے درمیان کوئی اور حصہ دار بنے۔ وہ خاموش بیٹھی گھور گھور کر غصے سے محمود کی جانب دیکھ رہی تھی اور دل میں سوچ رہی تھی کہ دیکھو نواب صاحب کتنے دل میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ تھوڑے ہی دنوں میں فرزانہ دلہن بن کر ان کے پاس آ جائے گی۔لیکن محمود ایسا کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ اس کی سوچوں میں تو صرف دعا کا خیال تھا وہ فکر مند تھا تو صرف دعا کے حوالے سے۔ اسے خوشیاں عزیز تھیں تو صرف دعا کی۔ اسے اپنی خوشیوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا کیونکہ وہ شادی بھی صرف دعا کی شرط پر کر رہا تھا۔ اب دعا کی شادی ملتوی ہو گئی تھی تو وہ بھی چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ شادی بھی ملتوی ہو جائے لیکن دلدار بیگم اس بات پر زور دے رہی تھیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے میرے سر سے یہ بوجھ اتار دیں۔
رات کا ہلکا پھلکا کھانا انہوں نے دلدار بیگم کے گھر کھایا رضوان اور اس کی بیگم رخسانہ نے فرزانہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دی کہ پریشان مت ہو اور دل بھی چھوٹا نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا اور بہت جلد ہی تمہیں محمود کی دلہن بنا کر ہم یہاں سے لے جائیں گے۔
واپس گھر پہنچ کر رضوان اور رخسانہ اپنے کمرے میں چلے گئے کیونکہ پورے دن کی تھکاوٹ سے ان کا برا حال تھا اور پریشانی بھی الگ تھی اور کامران کے حوالے سے بھی کافی زیادہ تشویش میں مبتلا تھے۔ دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں انہی سوچوں میں گم تھے۔ دوسری طرف دعا اپنے کمرے میں جا چکی تھی اور محمود بھی اپنے کمرے میں آرام دہ چیئر پہ بیٹھا سر جھکائے کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اچانک محمود کو احساس ہوا کہ کوئی اس کے بہت قریب کھڑا ہے اس نے نظر اٹھا کے دیکھا تو دعا اس کے سامنے ہاتھ باندھے سوالیہ نظروں سے گھور کر اسے دیکھ رہی تھی۔ اچھا تو محمود بھیا اب اپ کی تو شادی ہو رہی ہے اپ اپنی دلہن کو لے ائیں گے۔ اپنی زندگی میں مصروف ہو جائیں گے تو پھر میرا کیا؟ مجھ سے تو پھر آپ باتیں بھی نہیں کریں گے۔ میرے پاس بھی نہیں بیٹھیں گے۔ مجھے گاڑی میں گھمائیں گے بھی نہیں۔ اور تو اور میری اتنی ساری خواہشیں ہوتی ہیں پھر وہ کون پوری کرے گا؟ میں تو کہتی ہوں اپ بھی شادی سے انکار کر دیں۔ ہم دونوں ایسے ہی اپنی زندگی خوشیوں سے بھرپور گزاریں گے۔ جیسے کہ پہلے گزار رہے تھے۔ دیکھو کتنا مزہ آتا ہے۔
محمود نے کہا: پیاری گڑیا ایسا نہیں کہتے حالات کچھ ایسے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آرہا کیا کیا جائے۔ محمود نے دعا کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے سمجھانے لگا۔ محمود نے ایک گہری سانس لی اور دعا کی آنکھوں میں جھانکنے لگا پتہ نہیں دعا کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ وہ جو بات اسے سمجھانا چاہتا تھا وہ بھول ہی گیا کچھ دیر یوں ہی خاموشی کے ساتھ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ اچانک دعا نے کہا محمود بھیا: آپ میری ہر بات مان لیتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا کہ اپ شادی کر لیں تو آپ شادی کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن دیکھیں نا میں دل سے نہیں چاہتی تھی کہ آپ کی یا میری شادی ہو اور دیکھو وہ سب کچھ ملتوی ہو گیا ہے تو کیا آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ اپ بھی اس سے شادی نہ کریں؟ کیا انسان کا شادی کرنا ضروری ہوتا ہے بغیر شادی کے کیا لوگ زندگی نہیں گزار سکتے؟
دعا کی ان معصومانہ اور بھولی بھولی باتوں پر محمود کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے دعا کا ہاتھ تھام لیا اور کہا: ارے پگلی شادی تو سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ جب ہم کسی سے شادی کر لیتے ہیں تو زندگی بھر کا ساتھ مل جاتا ہے اور وہ انسان ہمارے دکھ کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ہم ہر دکھ تکلیف اس سے شیئر کر سکتے ہیں۔ اپنے خوشی کے لمحات اس کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور یہ زندگی کا سب سے زیادہ ضروری حصہ ہے۔ اس لیے ہر ایک کی شادی ہو جاتی ہے۔
یہ سن کر دعا نے کہا اگر شادی اتنے ہی ضروری ہے اور شادی کے اتنے زیادہ فائدے ہیں تو کیوں نہ ہم آپس میں شادی کر لیں؟ دعا کی اس بات پر محمود کا دل دھک سے رہ گیا۔ اچانک اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں امنڈ آئیں اور اکثر جب محمود اپنے اور دعا کے معاملے پر بہت زیادہ پریشان ہوتا تو وہ یہی سوچتا تھا کہ دعا اگر اس بات کی ضد کر لے کہ محمود سے ہی شادی کرے گی اپنے ماں باپ سے بھی کہہ دے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ محمود سے ہی شادی کرے گی تو پھر ہو سکتا ہے چچا رضوان اور چچی رخسانہ اس معاملے پر محمود سے بات بھی کر لیتے اور آج دعا کے منہ سے یہ بات سن کر وہ حیران بھی ہوا اور اس کے دل میں خوشی کی لڈو بھی پھوٹ رہے تھے لیکن پھر اچانک ہی اسے فرزانہ کا خیال آیا جو دل میں محمود کے خواب سجائے بیٹھی تھی اب محمود ایسا کیسے کر سکتا تھا۔
محمود کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر دعا نے اپنا ہاتھ محمود سے چھڑا لیا اور اپنی باہیں محمود کے گلے میں ڈال دی اور والہانہ محبت کے ساتھ پھر سے اپنا سوال دہرا دیا۔ بتاؤ نا میں محمود بھیا! ہم آپس میں ہی شادی کر لیتے ہیں تو ساری زندگی اکٹھے رہیں گے۔ کیسا آئیڈیا ہے؟ بتاؤ نا مجھ سے شادی کر لو نا کیونکہ میں کسی اور کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے۔ مجھے آپ کے ساتھ باتیں کرنی ہیں۔ میری زندگی میں کسی اور کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ جب بھی میرا کوئی کام کرتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں اپنی ساری باتیں آپ سے منوا کر خوش ہوتی ہوں۔ بچپن سے لے کے آج تک آپ نے اپنے ہاتھ سے مجھے کھانا کھلایا ہے اور اگر میں ضدی بھی ہوں تو بھی آپ کی وجہ سے کہ مجھے پتہ ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو میری ہر ضد پوری کرے گا۔ تو بتاؤ آپ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے جو مجھے برداشت کرے؟
دعا روانی کے ساتھ بولے جا رہی تھی اور محمود کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا وہ حیرانی کے ساتھ دعا کے اس بدلاؤ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی دعا بھی ایسی باتیں کرے گی۔ محمود کے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ محمود دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ دعا کی بات مان لیتا ہے تو چچا اور چچی اس کے بارے میں پتہ نہیں کیا سوچیں گے۔ یہ بات محمود کے لیے قابل شرم تھی کہ جس لڑکی کو بھائیوں کی طرح پیار دے کر پالا ہے اسی سے ہی شادی کرے یہ سوچتے ہی اس کا سر شرم سے جھک گیا اور اس نے دعا سے کہا: ارے دعا آج تو تم بڑی بڑی باتیں کر رہی ہو۔ لگتا ہے بہت بڑی ہو گئی ہو اور اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے لگ گئی ہ۔و ایسی باتیں نہیں کرتے اس سے بڑوں کو تکلیف پہنچے گی اور ویسے بھی جیسے حالات آج کل چل رہے ہیں۔ ایسی بات کسی کے بھی سامنے مت کرنا۔ ہو سکتا ہے چچا اور چچی تمہیں ڈانٹ دیں اور مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگے گا۔
دعا نے گھورتے ہوئے محمود کو دیکھا اور اسے تھوڑی دور ہٹ گئی اچھا تو اتنی فکر ہے تمہیں میری ٹھیک ہے میں بھی اپنے ماں باپ سے بات کہہ ہی دیتی ہوں کہ مجھے شادی کرنی ہے تو صرف اب محمود بھیا سے ہی کرنی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی محمود بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اس سے پہلے کہ دعا کمرے سے باہر نکلتی اس کا ہاتھ تھام کر کھینچ کر واپس کمرے میں لے آیا۔ دعا اب بچی نہیں تھی نوجوان تھی خوبصورت تھی اس کے دل میں بھی جذبات تھے لیکن وہ بھی خاموش تھی اور اپنے ان جذبات کو کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔ یہ بات تو وہ جانتی تھی کہ وہ محمود کو پسند کرتی ہے لیکن کس روپ میں دیکھنا چاہتی ہے یہ آج تک وہ بھی فیصلہ نہیں کر پائی تھی کیونکہ شروع سے وہ بھی محمود کو محمود بھیا کہہ کر بلاتی تھی اور ان دونوں کا رشتہ سب جانتے تھے کہ بہن بھائیوں والا ہے۔ اس لیے دعا بھی یہ سوچ کر پریشان ہو گئی کہ اس کی اور محمود کی شادی تو نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ دونوں بہن بھائی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔
محمود نے دعا سے کہا: میری بات سمجھو گڑیا ابھی تم ایسا کچھ نہیں کہو گی ابھی سارے حالات تمہارے سامنے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی اور مشکل میں پڑ جائیں پہلے ہی چچا اور چچی بہت پریشان ہیں اور کوشش کرو کہ اپنی کسی بات سے انہیں مزید تکلیف مت پہنچاؤ۔ وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تمہاری خوشیاں انہیں بہت زیادہ عزیز ہیں۔ تمہاری شادی ملتوی ہونے کو لے کر وہ کافی پریشان ہیں۔ اسی لیے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ نہ کرو۔ دعا نے کوئی جواب نہیں دیا وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے محمود کو دیکھے جا رہی تھی۔ وہ تو بس محمود کے پاس رہنا چاہتی تھی ویسے ہی جیسے ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کے سارے خواب پورے کرنے والا ہو۔ کوئی اس کی ساری خواہشیں پوری کرنے والا ہو۔ کوئی اس کے ناز نخرے اٹھانے والا ہو۔ تو یہ سب کچھ اسے محمود کی شکل میں مل رہا تھا اور محمود کے علاوہ کوئی اور تھا بھی نہیں جس سے یہ سب کچھ دعا کو مل سکتا ہو۔ آج تک تو یہ سارا کچھ اسے محمود سے ہی مل رہا تھا۔ اسی لیے اس نے یہ شادی کی بات محمود سے کہہ دی تھی۔ لیکن اب اسے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔
دعا نے کہا چلیں ٹھیک ہے آپ بھی تو میری ساری باتیں مان لیتے ہیں۔ کیا یاد کریں گے میں بھی آپ کی بات مان لیتی ہوں اور آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گی۔ اب تو آپ خوش ہو جائیں اور کریں تیاریاں کیونکہ آپ تو اب فرزانہ کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ میں تو ایسے ہی کباب میں ہڈی بننے والی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی محمود کمرے میں ہکا بکا اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔