پرستان کی شہزادی - پارٹ 6

 urdu stories

Sublimegate Urdu Font Stories

پرستان کی شہزادی - پارٹ 6


امی حوریہ نے پکارا عطیہ نے بمشکل آنکھیں کھولی اور ہاتھ بڑھایا حوریہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کے پاس بیٹھ گی حوریہ انہوںنے کپکپاتے ہونٹوں سے کہا جی امی کوشش کے باوجود آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہۓ تھے وہ ایک بیٹی تھی اور بیٹی کےلیے اس درد ناک لمحہ کوئ نہیں ہوتا جب وہ جانتی ہو کے وہ اپنی ماں کو آخری بار دیکھ رہی ہۓ ماں کی آواز آخری بار سن رہی آخرری بار ان کی خوشبوں خود میں سمیٹ رہی ان کی آنکھوں میں پہلی بااپنا عکس دیکھ رہی ۔۔۔۔۔
میرا بیٹا اپنا بہت خیال رکھنا میں چاہتی تھی کے اپنی زندگی میں گھر کا کردوں پر زندگی نے مہلت نہ دی اتنی تمہاری زندگی میں بہت مصیبتیں آئیں گی تم گھبرانا نہیں سامنا کرنا ہم انہوں نے بہت مشکل سے بات مکمل کی جانے ماوں کو یہ غیب کا علم کہاں سے ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
نہیں امی پلیز ایسے نہیں بولیں میں کسے رہوں گی مجھے نہیں چھوڑ کے جائیں میں مر جاؤ گی حوریہ تم سنبھال لو خود ان کی آنکھیں بند ہو گی امی امی حوریہ چلائ اور باہر کی طرف دوڑی چاچو چاچو امی کو دیکھیں وہ بول نہیں رہی چاچو حوریہ نے اسد کو پکڑتے ہوۓ کہا اسد حوریہ کو تھام کر کمرے میں داخل ہوا جہاں ڈاکٹرز عطیہ کے پاؤں کے آنگوٹھے باندھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ ہاں آپ میری امی کو چھوڑیں حوریہ نے آگے بڑھتے ہوۓ کہا امی اٹھیں امی۔۔۔امی ایک بار اٹھ جائیں نا جو آپ کہیں گی آپ کی حوری کریں گی امی حوریہ نے عطیہ کو جھنجھوڑتے ہوے کہا بیٹا میت کو تکلیف ہوگی ایسے نہیں کریں نرس نے حوریہ کو پکڑتے ہوۓ کہا مم۔مم۔مم۔میت نہیں۔نہیں۔نہیں۔حوریہ چیخی نی میری امی ہیں میری امی یہ میت نہیں ہیں سنا آپ نے امی آپ اٹھیں چلیں ہم گھر۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہاں سے دور چلتے ہیں جہاں میں اور آپ ہوں گے میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دو گی حوریہ اپنے حواس کھو چکی تھی اسد اس کو باہر لے آیا میت گھر لایا گیا لوگ بھی آنے لگے عروسہ حوریہ کے ساتھ چار پائ کے پاس حور کو خود سے لگائ بیٹھی تھی حور زمین کہ گھورے جارہی تھی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے چہرہ جہاں ہر وقت شرارتیں ہوتی تھی وہ پیلا پڑ چکا تھا یوں گمان ہونا جیسے کسی نے ساراخون نیچوڑ لیا ہو۔۔۔۔۔
جنازے کا ٹائم ہوا تو مرد آگے بڑھے چار پائ اٹھانے کے لئے کسی نے کہا بیٹی کو ماں کا آخری دیدار تو کرواواور نہ زندگی بھر خلارہ جاۓ گا کے ایک بار دیکھ لیا ہوتا عروسہ نے حوریہ کو سہارا دے کر کھڑا کیا جیسے ہی کفن ہٹایا حوریہ دیوانا کی طرح چلانے لگی امی امی اٹھیں میری امی کو کوئ ہاتھ نا لگانا کوئ مت رو چپ ہو جاؤ ششششششش میری امی سو رہی ہیں چپ کر جاؤ سب حوریہ نے ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پیاری امی سو رہی ہیں اٹھ جائیں گی تو ڈانٹیں گی سب کو حوریہ حوصلہ کرو آنٹی چلی گی ہیں سب کو چھوڑ کر عروسہ نے حوریہ کو سینے سے لگاتے ہوۓ کہا نہیں نہیں نہیں تم جھوٹ کہتی ہو تم سب جھوٹ بولتے ہوبھلا ماں جاتی ہیں بیٹی کو چھوڑ کر میری امی تو مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں ایک پل دور نہیں رو سکتی اتنے دور جانے کا سوال ہی نہیں امی اٹھیں امی حوریہ نے ان کو جھنجھوڑنے لگی اسد نےآگے بڑھ کر حوریہ کو تھاما پر حوریہ بار بار یہی بول رہی تھی امی کو اٹھائے وہ بیمار تھی نا چچا۔۔۔۔۔
ان کو دوا بھی دینی ہو گی اٹھائیں نہیں ورنہ زیادہ بیمار ہو جائیں گی حوریہ بیٹا وہ مر چکی ہیں تم کیوں نہیں سمجھ رہینہیں چاچو وہ ٹھیک ہیں وہ زندہ ہیں میں اٹھاتی ہوں حورہی جانے لگی کے اسد نے پکڑا چاچو چھوڑیں امی کو اٹھانا ہیں امی امی حوریہ چلانے لگی اسد نے تھپڑ مارا حوریہ زمین پر بیٹھ گی اسد نے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
چاچو امی چلی گی ابو کی طرح مجھے چھوڑ کر ہاۓ میں کیا کرو گی چاچو عروسہ نے آگے بڑھ کر حوریہ کو سنبھلا اور چار پائ کے پاس لے کر کھڑی ہوگی امی مجھے معاف کر دے میں اچھی بیٹی نہیں بن پائ امی حوریہ نے ان کا گال چومتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
عطیہ نے سفید لباس پھولوں کا تاج پہنے ایک خوبصورت ہیروں کے تخت پر بیٹھی تھی امی امی حوریہ نے عطیہ کو بلایا انہوں نے مسکرا کر دیکھا اور کہا عائینے کی دنیا بہت خطر ناک ہیں وہاں نا آنا۔۔۔وہاں سے واپسی کا راستہ بہت مشکل ہۓ میرا بیٹا حوریہ آگے بڑھے تو عطیہ دوسری طرف منہ کر کے بیٹھی تھی امی حوریہ نے پکارا جب وہ مڑری تو عطیہ نہیں کوئ فناک شکل کی چڑیل تھی حوریہ ڈر کے پیچھے مڑی حوریہ کی آنکھ کھل گی۔
یا اللہ یہ کیسا خواب تھا ۔۔۔آئینہ کی دنیا ہی کیا تھا کون سی دنیا افففف حوریہ سر تھام کر بیٹھ گی آئینہ کی دنیا تمہاری منتظر ہیں آو حوریہ کو ایک عجیب سی آواز آئ حوریہ نے آئینہ کو دیکھا تو وہاں وہی خواب والی چڑیل تھی اس نے حوریہ کی طرف دیکھا تو حوریہ کی نیلی آنکھیں لال ہونے لگی ۔۔۔۔۔
اس آنئینے کے قریب جانے لگی وہ سیاہ زہریلا آئینہ اسے نگلنے کے لئے منتظر تھا ۔قریب آتے ہوے اس آنئینے کے اندر موج بن رہی تھی ایسا لگ رہا تھا سیاہ سمندر موجود ہیں وہاں جس میں وہ بالکل ڈوبنے والی ہیں کسی میگنیٹ کی طرح وہ عورت حوریہ کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔
حوری کے جسم میں درد کی لہراٹھی جب آنکھ کھلی تو وہ ایک انجان جگہ پر قید تھی اس نے جب اپنے جسم پر غور کیا تو جگہ جگہ زخم تھے اور خون رس رہا تھا ابھی وہ مکمل حوش میں نا آئ تھیکے دوبارہ اس کا سر چکرانے لگا اور دوبارہ بے ہوش ہو گئ۔۔۔۔۔۔
عدیل کمرے میں ٹہل رہا تھا تھبی وہاں ذاران آیا کیا ہوا عدیل ذران نے عدیل کو دیکھتے ہوۓ پوچھا کچھ نہیں مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی ایسا لگ رہا میری حوریہ کسی تکلیف میں ہیں مجھے بلا رہی ہیں تو جا کے دیکھ لو ذاران نے بیٹھتے ہوۓ کہا نہیں تھوڑی دیر میں شاہی دربار جانا اس کے بعد جاؤن گا عدیل نے لمبا سانس لیا۔۔۔۔۔
اووووووو یاد آیا۔۔۔۔رانی رانیا ہی بلا رہی ہیں ذاران نے زبان دانتوں میں دیتے ہوۓ کہا حد ہۓ بےوقوف بڑے جلدی یاد آیا چل اب عدیل نے ذاران کے سر پر چپیٹ لگاتے کرسیوں پر بیٹھے تھے زمین پر سرخ رنگ کا دبیز قالین بچھا تھا اور دیواروں پر جیسے سونے اور چاندی کا کام ہوا تھا دربار کے بیچ و بیچ دو بڑسے تخت بچھے ہوۓ تھے ان تک پہنچنے کے لئے تین چھوڑے زنیے بنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن میں مختلف ہیرے جڑے تھے جس پر تخت رانی رانیا تھی وہ سونے کا بنا ہوا بہایت خوبصورت تخت تھا جس کے دونوں بازؤں پر عقاب منہ میں سنہری تار میں پروے یا قوت اور قیمتی جوہرات کی لڑایاں منہ میں لئے دونوں پروں کو کھولے کھڑا تہا عقاب ایک پر تیلا تیز نظر اور خطرناک شکاری ہوتا ہۓ ایک حکمران میں ےہ تمام خصوصیات ہوتی ہیں پشت کے سرے قیمتی موتی جڑے تھے ۔۔۔۔۔
رانی رانیا سنہری تاج لال اور نیلے موتیوںسے جڑا ہوا نیلی چمکدار آنکھیں لال ہونٹ ہلکا سانولا رنگ نیلا لمبا فراک جو ان کے پیروں تک آرہا تھا پہنے ہاتھ میں ایک چھڑی جس پر ایک بڑا سا سفید موتی جگمگارہا تھا چہرے پر سنجیدگی لیے پر وقار انداز میں چلتی ہوئ تخت پر بیٹھ گی ۔۔۔۔۔۔
عدیل اور ذاران دربار میں پہنچے تو سب ان کے آدب میں کھڑے ہوگے عدیل نے سر ہلا کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا سب بیٹھ گے عدیل چلتا ہوا رانی رانیا کے پاس پڑے تخت پر بیٹھ گیا جس پر دو خوبصورت گول تکیے سجا کر رکھے گئے تھے اسی گول تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا رانی رانیا نے پیار سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔
جو زرق بق لباس گلے میں پڑے موتیؤں کے ہار سانولی رنگت نیلی آنکھوں کھڑے مغرور ناک کے ساتھ ٹھاٹ باٹھ سے بیٹھا کسی ریاست کا شہزادہ ہی دکھ رہا تھا کیا ہوا ماں وہ اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتا گویا ہوا کچھ نہیں عدیل انہوں نے کہا ۔۔۔
تبھی وہاں حاکم ظاہر ہوے رانی اور عدیل کو سلام کیا رانی کے چٹکی بجانے پر دائیں جانب سنہری رنگ کی اک کرسی نمودار ہوئ جس پر وہ بیٹھ گے وہ جھحھجکتے ہوۓ بولے رانی رانیا ہمیں اس لڑکی کا پتا چل گیا ہیں پر انہوں نے ماتھے سے پیسنے صاف کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
ہم رانی رانیا نے ایک لمبا سانس لیا اور اپنے تخت سے کھڑی ہوتے ہوۓ گویا ہوئ کیا آپ جانتے ہیں ہم نے آپ کو یہاں کس لئے بلایا ہیں رانی رانیا نے اپنی رعب دار داریاں آواز میں آغاز کیا سب نے ایک دوسری طرف دیکھا اور نہیں میں سر ہلایا رانی رانیا مسکرائ اور حاکم صاحب سے مخاطب ہوئ آپ بات شروع کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانی رانیا ہم نے مریم کو آخر کار ڈھونڈ لیا ہیں اتنے سالوں بعد پر وہ چھایا کے قبضے میں ہیںحاکم نے ٹہر ٹہر کر کہا کیا رانی رانیا کے لہجے میں پریشانی تھی جی رانی رانیا صاحبہ حاکم نے کہا عدیل سمجھنے کیکوششش کر رہا تھا پر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ مریم کون ہیں اور رانی رانیا پہلے اس کے ملنے پر اتنی خوش اور پھر اس کے چھایا کے باس ہونے پر پریشان کیوں۔۔۔۔۔۔۔
چھایا کو وہ جانتا تھا پر آپ کچھ کریں حاکم صاحب رانی رانیا کی آواز پر عدیل خیالوں سے باہر آیا حاکم صاحب نے ہاتھ ہوا میں گھمایا اور ایک سفید گولا ظاہر ہوا جس میں مریم درد سے کہرا رہی تھی عدیل کی جیسے ہی نظر سفید گولے پر پڑی تو وہ تڑپ گیا اور چلایا حوریہ نہیں نہیں رانی رانیا نے عدیل کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا ہوا عدیل ماں ماں یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔ حوریہ ہیں میری حوریہ ماں وہ تکلیف میں ہیں۔
مجھے جانا ہیں ماں اس کے پاس ماں عدیل دیوانوں کی طرح بولے جا رہا تھا رانی رانیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا دربار میں عجیب سا ماحول ہو گیا سب شہزادے کی حالت دیکھ کر حیران تھے رانی رانیا نے ہاتھ سامنے کیا ایک پیلا آیا جو انہوں نے زبردستی عدیل کے لبوں سے لگایا اور وہ کچھ ہی لمحوں میں عدیل پر غنودگی چھا گئ۔۔۔
وہ گھنٹوں میں سر دباے بے پناہ خوف آنکھیوں میں لئے شدت سے رو رہی تھی اس کا وجود ہولے لرز رہا تھا نجانے کتنا وقت بیتا تھا اس عقوبت خانے میں بند وہ رات دن کا تصور تک بھولے ہوۓ تھی اسے بیتے لمحوں اور گزرتے وقت کو یاد کرنے پر یوں لگ رہا تھا کہ گویا صدیاں بیت گئ ہوں ۔۔۔۔۔
یا اللۀ ۔۔۔۔ ہاتھ کی پشت سے چہرہ صاف کرتے وہ زمین سے اٹھ کھڑی ہوئ نجانے وہ کہاں تھی اور ادھیر کیوں لائ گئ تھی اس اندھیرے کمرے میں واحد دیا تھا جو روشن تھا کمرے میں کوئ کھڑکی تو ایک طرف ایک چھوٹا سا روشن دان تک نہ تھا شروع میں وہ بہوش سی سوتی جاگتی کیفیت میں بے خبر ہی رہی تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کیوں ہیں۔۔۔۔۔۔
اسے رات کا خوف اور وہ عورت یاد آی اس کا خیال آتے ہی وہ لرز گی رونا دھونا ترک کر کے وہ ایک بار پھر دروازے کے پاس آکھڑی ہوئ تھی ارے کوئ ہۓ مجھے یہاں سے نکالو پلیز مجھی نکالو ۔۔۔۔ورنہ میرا دم گھٹ جاۓ گا میں مر جاؤں گئ۔۔۔۔
ہوش میں آنے کے بعد وہ عمل کئ بار دوہرا چکی تھی کہ اب کی بار اسے اپنے ہاتھ شل ہوتے محسوس ہورہے تھے جسم میں طاقت ختم ہوتی لگ رہی تھی وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکام ٹھری تھی ۔۔۔۔
دروازے کے دوسری طرف اس کی آواز سن۔کر بھی جواب کوئ نہ تھا وہ دروازے کے ساتھ پیشانی ٹکا کر سسک اٹھی تھی نجنے کتنا وقت بیتا تھا کہ اس کی حسیات ایک دم الرٹ ہوئ تھی ٹک ٹک اسے دور قدموں کی چاپ سنائ دے رہی تھی یوں لگ رہا تھا جسے کوئ تیزی سے اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا وہ ایک دم سیدھی ہوتے ہوۓ دروازے سے ہہٹ کر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔۔۔
آنے والا پتا نہیں کون تھا اس کے کیا مقاصد تھا اسے یہاں کیوں لاگیا تھا قدموں کی چاپ قریب آکر رک گئ تھی اور پھر چند منٹ بعد کلک کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا تھا وہ جو دم سادھے بھیگے چہرے سمیت پوری جان سے دروازے پر نظریں گاڑھے ہوۓ تھی وہ اندر آنے وجود کو دیکھ کر بت کی مانند دیکھ رہی تھی آنے والے کو دیکھ کر کئ لمحے تک اپنی جگہ سے ہل نہ سکی تھی اس کی منہ سے دبی دبی چیخ نکلی وہ جود دھیرے دھیرے آگے بڑھا ایک دم دئیے کی روشنی تیزہو گئ حوریہ نے اس عورت کا چہرا غور سے دیکھا تو اس کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا چہرہ نہیں بلکہ ایک جلا ہوا بھیانک چہرہ تھا سر پر ایک بھی بال نہ تھا آنکھوں کے اوپر پلکیں تو پلکیں پپوٹے بھی نہ تھے ہونٹوں کی جگہ دانت نظر آرہے تھے جیسے ابھی ابھی جلایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ نے آنکھیں بند کی اور چلانے لگی رانی رانیا نے سب کو جانے کا اور حاکم صاحب کو اس مسلے کا حل نکلنے کو کہا رانی رانیا عدیل کے کمرے میں تھی کے تبھی ذاران آیا رانی ماں آپ نے بلایا ذاران نے اندر آتے ہوۓ ادب سے پوچھا ہاں ذاران ہم نے بلایا ہیں رانی رانیا نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔
ذاران ان سے تھوڑی دور رکھی کرسی پر جھکجھکتے ہوۓ بیٹھ گیا دو منٹ کے لئے خاموشی چھا گئ رانی رانیا نے خاموشی کو توڑتے ہوۓ بات شروع کی ذاران آپ عدیل کے بہت اچھے دوست ہیں یقنا آپ بہت کچھ جانتے ہوں گے نا رانی رانیا نے کھڑے ہوتے ہوے کہا ذاران نے ہاں میں سر ہلایا ہم مطلب آپ مریم ۔۔۔۔۔حوریہ کو بھی جانتے ہوں گے جی رانی ماں میں جانتا ہوں ایک دوبار عدیل اسے پرستان بھی لایا پر میں حیران ہوں کے حوریہ وہاں کیسے پہنچی کیا آپ کو یقین ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ حوریہ ہی تھی رانی رانیا نے جیسے یقین کرنا چاہا جی رانی ماں سو فیصد ذاران نے سر کو ہلا کر کہا رانی رانیا کا طوطا کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا رانی رانیا نے اسے حکم دیا جاؤ شہلا کو اسی لمحے میرے سامنے حاضر ہونے کا کہو رانی رانیا کی بات ختم ہوتے ہی ذاران نے ان سے پوچھا رانی رانیا یہ چھایا کون ہیں اور آپ حوریہ کو مریم کیوں بول ابھی ذاران کی بات مکمل نا ہوئ تھی کے شہلا وہاں ظاہر ہوئ شہلا نے رانی رانیا اور ذاران کو سلام کیا اور پوچھا۔۔۔۔۔
کیا حکم ہۓ میرے لئے میری رانی شہلا جیسے کے آپ کو پتا ہیں حوریہ چھایا کے پاس ہۓ ۔۔۔۔۔س کے گھر والے پریشان ہورہۓ ہوں گے ہم چاہتے ہیں جب تک حوریہ نہیں آجاتی آپ حوریہ کی شکل میں سب کے پاس رہیں اور کوشش کریں کسی کو شک نہ ہو آپ پر جی رانی رانیا شہلا نے سرجھکایا اور ہوا میں غائب ہو گئ ہاۓ اتنی مشکل سے ہمٹ کی تھی رانی ماں سے سوال گرنے کی اب کس سے پوچھو چھایا کون ہیں عدیل کے اٹھنے کا انتظار کرنا ہو گا ہاۓ ذاران نے سر کھجاتے ہوۓ پوچھا۔۔
حاکم صاحب اپنے "جنی سکول""کے ایک بڑے سے ہال میں آنکھیں بند کر کے بیٹھے تھے ان کے سامنے ایک تھال تھا جس میں سفید مایا تھا حاکم صاحب منہ میں کچھ پڑھ کر اس پر پھونگ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے مایا سفید سے سیاو ہو گیا اور اس میں بلبلے نکلنے لگے انہوں نے اپنی آنکھیں کھولی تو سامنے کا منظر دیکھ کر حیران ہو گے یہ یہ کیسے ہو سکتا ہے مریم وہاں کیسے پہنچ سکتی یا خدا اب تو اس کو لانا بہت مشکل ہو گا اس کا حل جلد سے جلد نکالنا ہو گا اگر مریم کو اندھیری دنیا کی لت لگ گی تو غذب ہو جاۓ گا حاکم صاحب اٹھے اور ایک بھاری بھر کم۔کتاب جس پر "کالی نگری" لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسی میں راستہ ہو گا کالی نگری سے نکلنے کا اس کتاب کو کھولنا بھی آسان نہیں ہیں اس کو کھولنے کے لئے کافی طاقت چاہئے ہم وہ کچھ سوچ کر شاہی محل کی طرف چل دیۓ حوریہ بیٹا اٹھو کچھ کھا لو تین دن سے کچھ نہیں کھایا تم نے اسد نے حوریہ کو اٹھاتے ہوے کہتے ہۓ حوریہ کمبل پر سے پیر تک اوٹھ کر دوبارہ سو جاتی ہیں اچھا ٹھیک ہے تم اور سو لو تب تک میں ناشتہ بنا دیتا ہوں اسد یہ کہ کر باہر کی طرف نکل جاتا ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی حوریہ اٹھ جاتی اور وہ تو یہ حوریہ کے چاچو ہیں حوریہ اٹھ کر شیشے کے سامنے آتی اور چکٹی بجا کر اپنے روپ میں آجاتی ہے وہ شہلا تم تو ان کپڑوں میں اور بھی حسین لگ رہی کوئ جن تو کیا انسان بھی تم پر فدا ہو جاۓوہ ایک ادا سے کہتی ہوئ مسکراتی ہے اور صوفے پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ جاتی ہاۓ میرا تو بچپن کا خواب پورا ہو گیا انسانوں کی دنیا میں رہنےکا اور اب تو رانی رانیا بھی نہیںہیں یہاں اب تو میں خوب جادو کے جو ہر دیکھاؤ گئ۔۔۔۔۔۔
خوبصورت خوبصورت لباس پہن کر گھوموں گی اور انسانی لزیذ کھانے کھاؤں گئ افففف پانی آگیا منہ میں حوریہ حوریہ کہاں ہو روبینہ نے حوریہ کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوۓ کہا اوووو شہلا سپرنگ کی طرح اچھل کر صوفے سے کھڑی ہوی روبینہ جو کمرے کے اندر آنے ہی لگی تھی شہلا نے اس کو آتا دیکھ کر چوٹکی بجائ تو دروازہ دھڑ سے بند ہوا اور سیدھا روبینہ کے منہ پر جا لگا آئ میری ناک ہاۓ میں مر گئ اؤ خدایا روبینہ نے زمین پر بیٹھ کر رونے کا شوخل شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا شہلا پیٹ پکڑ کر ہسنے لگی اففففف یہ نامونہ کون ہیں حوریہ نے دروازہ کھولا اور باہر آئ اسد اور ایک 40,35 سال کی عورت زمین پر بیٹھی ناک پکرۓ رونے کا شوخل کر رہی تھی اس کے دائیں بائیں ایک لڑکا لڑکی کھڑے تھے گندمی رنگ گول مٹول اور نین نقش اس عورت جیسے تھے شاید بچے تھے اس کے کیا ہود روبینہ باجی اسد نے پوچھا بھائی میرا ناک دروازے سے لگ گیا ہاۓ مر گئ تو دیکھ کے چلتی نا اماں ایک تو پتا نہیں تیرا دھیان کہاں ہوتا تانیہ ( روبینہ کی بیٹی نے کہا) چپ کر توں بد تمیز اولاد نہ ہو۔۔۔۔۔۔
اچھا پھر بیٹھ کے بھاں بھاں کرتی رہ ہم تو جارہے ہمیں بہت بھوک لگی ہیں فرقان نے کہا اور دونوں باہر چلے گے ہاۓ دو انڈے وہ بھی گندے روبینہ نے ناک منہ چڑھ کر کہا شہلا نے ہنسی نکل گی پھر خود کو نارمل کرتے ہوۓ پوچھا چاچو یہ کون ہیں حووریہ نے اس کو مخاطب کر کے پوچھا بیٹا یہ میری دور کی کزن ہیں روبینہ تم چھوٹی تھی جب یہ آی تھی اب عطیہ باجی کی تعزیت کے لئے آئ ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اسد کہتے کہتے آخر میں دوہانساہوا ہم شہلا کو دکھ ہوا حوریہ کی والدہ کا سن کر پھر خود کو کمپوز کر کے بولی چلیں چاچو ناشتہ کرنے ہاں بیٹا چلو روبینہ باجی چلیں آپ بھی اسد نے کہا اور حوریہ کو لے کر ڈائنیگ ڈیبل پر آگیا فرقان اور تانیہ پہلے ہی ناشتے سے دودو ہاتھ کر رہے تھے حوریہ بیٹا آپ بیٹھو میں آپ کے لئے ٹوسٹ اور فریش جوس لے کر آتا ہوں جی چاچو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا کو اسد بھلا انسان لگا تھا ہنہاتنی بڑی ہو گئ ے اپنے کام خود نہیں کرتی خیر اب آگی ہوں نا میں تو اس گھر پر اپنا حکم چلاؤں گئ روبینہ نے دل ہی دل میں سوچا اور مسکرائ شہلا نے سن لیا تھا اوہ تو یہ یہاں کسی اور ہی مقصد سے آئ ہۓ کوئ نہیں بیٹا اب تو دیکھتی جا اسد ناشتہ لایا اور سب ناشتہ کرنے لگے شہلا نے روبینہ کی پلیٹ کی طرف دیکھا تو وہاں کا کروچ آگے آآکاکروچ روبینہ چلاتے ہوۓ کھڑی ہوئ شہلانے جلدی سے کاکروچ غائب کر دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا روبینہ آنٹی حوریہ نے آنکھیں ٹمٹما کر معصومیت سے کہا کاکروچ میری میری پلیٹ میں روبینہ نے رک رک کر کہا ارے کہا ہیں کاکروچ باجی روبینہ نے اپنی پلیٹ میں دیکھا تو وہاں کچھ نا تھا باجی لگتا ہۓ آپ تھک گئ ہیں سفر کی وجہ سے آپ ریسٹ کر لیں ناشتے کے بعد اسد نے اطمینان سے کہا اور سب ناشتہ کرنے کا بول کر کسی کام کا کہ کر باہر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔
میں جاؤں گا اپنی حوریہ کو بچانے عدیل نے نم آنکھوں سے کہا ےہ کیا بول رہا ہۓ وہ کسی چھایا کے پاس ہۓ اور رانی ماں نے تو ابھی حکم بھی نہیں دیا جانے کا ذاران نے اسے سمجھتے ہوۓ کہا میں اس چھایا کو دیکھ لوں گا پہلے بھی میں نے ہی اسے قید کیا تھا اور میں حوری کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا دیکھا نہیں تھا وہ کیسے کہرار ہی تھی عدیل نے تکلیف سے آنکھیں بھینچ لی مجھے لگ رہا میرا دل بند ہو جاۓ گا ذاران عدیل نے لمبا سانس لیتے ہوۓ کہا حوصلہ کر یار ذاران نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔
اچھا یار یہ چھایا ہے کون مطلب میں نے کبھی اسکا نام نہیں سنا ذاران نے عدیل کے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا چھایا ایک ڈائن ہیں عدیل نے بتایا ڈائن۔۔ڈائن تو انسانوں میں سی ہوتی نا ذاران نے جیسے یقین کرنا چاہا ہاں ڈائن انسانوں میں سے ہوتی ہۓ اور جنات وشیاطین کی مدد سے نا پاک علم حاصل کر کے لوگوں کو تکلیف پہنچاتی ہے یہ ڈائن پس ماندہ قوم بھنگی اور دبلوںگندگی غلاظت کی ایک رذیل قوم ہے میں سے زیادہ ہوتی ہیں چھایا بھی ایک عام انسان تھی پہلے پھر ایک عامل سے ناپاک علم سے سیکھ کر وہ انسانوں کو تکلیف دینے لگی سب سے پہلے اس نے اپنے ہی گھر والوں کو موت کے گاٹ اتارا اور ان کے خون سے شیطان کو خوش کیا ایک دن اس نے پرستان پر حملہ کرنے کی نیت باندھی پر حاکم صاحب کو پہلے ہی اسکے ناپاک ارداوں کی خبر ہوگی میں نے حاکم صاحب نے اسکا جسم دھڑ سے الگ کر کے دفنا دیا پر اب وہ کالی پری کی مدد سے آزاد ہو گی ہے لیکن اب اس کو قید نہیں مرنا ہو گا عدیل نے مٹھیاں بھیتچے ہوے کہا۔۔۔۔۔۔۔
پر کالی پری تو رانی ماں کی ذاران بولنے ہی والا تھا کے رانی ماں کا طوطا آیا اور انہیں رانی ماں کے کمرے میں آنے کا کہا اے لڑکی اٹھو اب بس کرو بے ہوشی کا نانٹک چھایا نے حوریہ کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
آااااااا حوریہ پاؤں کے زخم پر ہاتھ رکھ کر اٹھ بیٹھی اور پٹھی پٹھی نظروں سے اس عورت کو دیکھا اور چیخیں مارنا شروع کر دی بس کر یہ ڈرامہ سمجھی چھایا نے حوریہ کے بال ہاتھوں میں دبوچے اور اپنے سامنے کھڑا کیا چل میرے ساتھ چھایا اسے گھسٹیتے ہوۓ باہر لے آئ۔۔۔۔۔
پوری حویلی سیاہ تھی ہر طرف کنکال لٹک رہے تھے حوریہ کو لگ رہا تھا وہ اگلا سانس نہیں لے پاۓ گئ جانے کہاں پھنس گئ تھی وہ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ ے کہاں اور کیوں ہۓ تو پھر کیا حل ہیں اس بات کا رانی رانیا نے حاکم سے پوچھا اتنے میں عدیل اور ذاران بھی داخل ہوۓ۔۔۔۔۔۔
دونوں نے آکر رانی رانیا اور حاکم صاحب کو۔سلام کیا حاکم صاحب کچھ پتا چلا کے چھایا نے حوریہ کو کہا رکھا ہیں عدیل نے بھرائ آواز میں کہا رانی رانیا نے نم آنکھوں سے عدیل کو دیکھا جس کا رنگ چند لمحوں میں ذرد اور نکھیں لال ہو چکی تھی......
جی شہزادے وہ اس وقت کالی نگری میں ہۓ حاکم صاحب نے بتایا ہم ماں میں جانا چاہتا ہوں عدیل نے رانی رانیا کو دیکتھتے ہوۓ اجازت چاہی رانی رانیا چاہ کر بھی اجازت نہیں دے سکی نہیں عدیل آپ وہاں نہیں جا سکتے بیٹا اگر آپ وہاں جائیں گے تو آپ کی طاقتیں مفلوج ہو جائیں گی رانی رانیا نے عدیل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
پر عدیل بولنے ہی لگا کے رانی رانیا بولی بیٹا مریم آجاۓ گئ پر وہ اپنی مدد آپ کے تحت آۓ گی وہ ایک عام لڑکی نہیں ہیں رانی رانیا نے سمجھتے ہوئے کہا مریم۔۔۔ عام لڑکی نہیں۔۔۔کیا بول رہی ہیں آپ ماں مجھے سمجھ نہیں آرہا عدیل نے نا سمجھنے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا آج سے 23 سال پہلے کی بات ہیں پرستان سے تھوڑی دور جنوں کا ایک اور علاقہ تھا جو بہت ہی خوبصورت اور پرامن تھا وہاں کے راجہ ماشا کا بہت ہی رحمدل اور تھے اور ان کی رانی بھی بلکل ان کے جیسی رحمدل تھی ۔پوری رعیان سکون سے رہتی ان کے پاس سب تھا پر اولاد کی نعمت نا تھی ایک بار ان کا دوست کا کوران سے ملنے آۓ وہ بہت بڑے حاکیم تھے ان کی جڑی بوٹیوں نے اثر دیکھا اور راجہ کے یہاں ایک بہت خوبصورت شہزادی ہوئ۔۔۔۔۔
رانی رانیا نے ایک لمباسانس لیا اور دوبارہ گویا ہوئ بادشاہ پر کسی نے حملہ کر دیا بادشاہ اور رانی کو اپنی بیٹی کی فکر تھی انہوں نے اپنی تمام۔جادوئ طاقتیں اپنی بیٹی کو دے دی اور اپنی شہزادی کو ہماری طرف بھجیوایا کے ہم اس کی حفاظت کریں حاکم صاحب نے پیشن گوئ کی کے اس بچی کے 1 لاکھ جنوں کو۔ایک وقت میں مارنے کی طاقت موجود ہۓ اور اس کو بہت سی بری طاقتیں اپنی طرف کرنے کی کوشش کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بچی اور کوئ نہیں مریم تھی ہم نے مریم کی حفاظت کے لیۓ بہت سے جن تعینات کر دئیے پر ایک دن مریم پرستان سے غائب ہو گئ ہم نے بہت ڈھونڈا پر نہیں ملی ہمیں حاکم صاحب نے جادو کی مدد سے پتا کیا تو وہ ایک عام انسانوں کے گھر میں تھی اسے پرستان رکھنا ویسے بھی اچھانا تھا ہم نے اور حاکم صاحب نے کچھ عمل کر کے اس کی جادوئ طاقتیں اس کے 21 سال ہونے تک مفلوج کر دی ہم جانتے تھے جب تک وہ جادوئ طاقتیں استعمال نہیں کر پائ گئ تب تک بری طاقتیں اس سے دور رہۓ گئ ۔۔۔۔۔۔۔
اب چونکے وہ ۲۱ سال کی ہو گئ ہۓ تو کالی پری نے چھایا کی مدد سے اسے کالی نگری میں قیدکر لیا ہم بہت شرمندہ ہیں ہم اپنا وعدہ پورا نہیں کر پاۓ رانی رانیا نے بھرائی ہوئ آواز میں کہا پر رانی ماں حوریہ میرا مطلب مریم کو وہاں کیوں لے گۓ ہیں ذران نے پوچھا تاکے ذاکا اس سے شادی کر کے پرستان پر راج کر سکے رانی رانیا کی بجائے حاکم صاحب نے جواب دیا ایسا نا ممکن ہیں حوریہ صرف عدیل کی ہیں صرف عدیل کی عدیل نے مٹھایا بھیچتے ہوۓ کہا۔
حوریہ بیٹا ذرا چاۓ تو بنا دو سر دکھ رہا ہۓ میرا روبینہ نے حوریہ کو کہا جو ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی آپ کو دیکھتا نہیں میں ٹی وی دیکھ رہی خود بنا لیں اور وہاں ایک کپ میرے لیے بھی شہلا نے بے نیازی سے پاؤں جھلاتے ہوۓ کہا ہم اچھا روبینہ تلملاتی کلیستی ہوئ کچن کی طرف چل دی بڑی آئ شہلا سے کام کروانے والی ہنہ شہلا نے ایک ادا سے کہا آپ کیا دیکھ رہی ہیں لاۓ مجھے ٹی وی دیکھنا ہیں تانیہ نے شہلا کی طرف بڑھتے ہوۓ کہا
اور ریموٹ چاہیۓ آو لے لو آکر شہلا نے مسکراتے ہوۓ کہا تانیہ جیسے ہی آگے بڑھنے لگی شہلا نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور کرسی ہوا میں اڑتی ہوئ تانیہ کی کمر میں لگی اور وہ دھڑم سے منہ کے بل گر گی شہلا نے اشارہ کیا کرسی واپس اپنی جگہ چلی گئ تانیہ کی چیخ سن کر روبینہ دوڑتی ہوئباہر آئ تانیہ منہ کے بل گری ہوئ تھی ۔۔۔۔۔
کیا ہوا تانیہ روبینہ نے تانیہ کو اٹھاتے ہوۓ پوچھا جواب منہ کھول کر رو رہی تھی اس کی آواز ایسی تھی کے شہلا کو ہاتھ کانوں پر ہاتھ رکھنے پڑے ارے بس بھی کر اب بتا تو ہوا کیا گر کیسے گئ وہ۔۔۔۔وہ اماں۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔کھڑی۔۔۔تھی میری کمرمیں کچھ زور سے لگا تانیہ نے روتے ہوۓ کہا کمر میں روبینہ نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا پر وہاں کوئ چیز نا تھی اور بڑابڑتی ہوئ کچن میں چلی گئ ۔۔۔
شہلا لان میں ٹہل رہی تھی کے اس کی نظر فرقان پر پڑی جو اپنے سامنے پیزا اور برگر رکھے کھا رہا تھا شہلا کے منہ میں پانی آگیا شہلا اطمینان سے چلتے ہوۓ اس کے پاس بیٹھ گی فزقان یہ کیا کھا رہۓ ہو شہلا نے پوچھا اندھی ہو نظر نہیں آتا برگر اور پیزا کھا رہا فرقان نے ناک منہ چڑھاتے ہوۓ کہا۔۔۔
تیری تو ....شہلا نے دانت پیس کر کہا کیا فرقان نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہوۓ کہا کچھ نہیں شہلا اٹھ کر چلی گئ دور جا کر شہلا نے پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو پیزا برگر غائب ہو کر اس کے ہاتھ میں آگیا اور وہ مزہے سے کھاتی ہوی اندر کی طرف بڑھ گئ یہ کیا میرا برگر اور پیزا کہا گیا فرقان نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ سوچا ۔۔۔۔
اماں اماں فرقان روبینہ کو بلاتے ہوۓ اندر آیا روبینہ چاۓ اور پکوڑے سامنے رکھے ہوۓ بیٹھی تھی ہاں کیا ہو گیا کیوں گلا پھاڑ رہا ہیں روبینہ نے چاۓ یکی چوسکی لیتے ہوۓ کہا اماں وہ میں پیزا اور برگر کھا رہا تھا وہ اچانک کہیں غائب ہو گیا فرقان نے پکوڑوں کی طرف ہاتھ بڑھتے ہوۓ کہا کہیں۔۔۔نہیں تیرے پیٹ میں غائب ہوا ہیں اب شکل گم ہکر اپنی یہاں سے روبینہ نے اس کے بڑتھے ہوۓ ہاتھ پر تپھڑ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
چھایا اس کو گھیسٹ کر لے جارہی تھی حوریہ کو اندازہ ہوا کہ اس کا گزر کسی کھنڈر سے ہو رہا ہۓ ایک بڑے پتھریلے میدان سے ہوتا ہوۓ وہ عورت اسے اک تنگ وتاریک پتھروں کی بنی گلی سے لے کر گزرتی ہوئ اک ہال میں آکر رکی اور غائب ہو گئ اس کے جانے کے بعد کتنی ہی دیر وہ اکیلے کھڑی گھبراتی رہی پھر خود ہی ہمت کرتی چل پھر کر اس ہال کا جائزہ لینے لگی وہ ہال بھی پتھروں کا بنا تھا ۔۔۔۔
تبھی وہاں عجیب و غریب جن ظاہر ہوۓ جو حوریہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا حوریہ ابھی اس عجیب مخلوق کو دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ دونوں چلتے ہوۓ اس کے قریب آۓ اور اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اسے اپنے کندھوں پر لاد کر تیزی سے آگے بڑھ گے ۔۔۔۔
حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ وہ جمچاہ کر بھی مزاحمت نہیں کر پارہی تھی حوریہ کو لے کر وہ اک کمرے میں آے اور اک نرم ملائم بستر پر پٹخ کر چلتے بنے حوریہ نے آگے بڑھ کر ان کو روکنا چاہا تو ان میں سے ایک نے حوریہ کو دھکا دیا حوریہ کا سر کسی چیز سے اتنی ذور سے ٹکرایا کے وہ بے ہوش ہو گئ۔۔۔۔۔۔
ماں آپ کہتی ہیں حوریہ کو بچانے جانا بھی نہیں ہیہیں تو تو وہ خود کیسے آۓ گئ عدیل نے تھکے ہوۓ لہجے میں کہا کالی نگری سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہۓ اور اس راستے میں تین دروازے ہر دروازہ خطرناک ہۓ اس سے گزرے کے لیۓ اسے بہت ہمت اور ہوشیاری سے کام لینا ہو گا کسی ایک دروازے میں وہ اٹکی تو وہی قید ہو جاۓ گی حاکم صاحب نے بتایا ۔۔۔۔۔
پر حوریہ کو کیسے پتا چلے گا کے راستہ کیسے تلاش کرنا اور ان تین دروازوں کا ہم ذاران نے پوچھا ہم اسے بتائیں گے رانی رانیا نے کہا پر کیسے ماں عدیل بولا یا یہاں کی مدد سے رانی رانیا نے منہ کچھ پڑھ کر پھونکا تو وہاں ایک عجیب سا پرندہ ظاہر ہوا یایہا ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے اور ہم جانتے ہیں یہ تمہارے علاوہ کوئ نہیں کر سکتا کیا تم ہماری مدد کرو گے رانی رانیا نے التجائیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔
جی رانی حکم کریں یا بہانے باریک آواز میں کہا تمہیں کالی نگری جا کر حوریہ کو ایک پیغام دینا ہو گا س بار حاکم صاحببولے یایہا نے کہا میں تیار ہوں رانی رانیا نے اسے تمام بات سمجھائ اور وہ ہوا میں غائب ہو گیا ذاکااب ہماری حکومت کے دن دور نہیں پورے پرستان پر ہماری حکومت ہو گی کالی پری نے چہکتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔
ہاں برسوں سے اس دن کا انتظار تھا میں اس رانیا کو جھکتا ہو گڑ گڑاتاہوا دیکھنا چاہتا ہوں میں اس کے سامنے اس کے بیٹے کا گلا کاٹوں گا وہ روۓ گی تڑپے گی اپنے بیٹے کی ذندگی مانگے گی پر میں ہاہاہاہاہاہا سارے بدلے لوں گا ذاکا نے غرور سے کہا ۔۔۔۔
پر دیکھو ذاکا رانی رانیا کو میں اپنے ہاتھوں سے ماروں گئ تبھی جاکر میرے دل مین جلتی ہوئ ہوئ آگ ٹھنڈی ہوگئ کالی پری نے اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنے ذاکا نے مکا بناکرسامنےکی دیوار پر مارتے ہوۓ کہا اس مریم کا سوچا تم نے کالی پری نے بے ذاری سے کہا ۔
ارے وہ تو سونے کی چڑیاں ہۓ چڑیاں اور بلا کی حسین بھی سنا ہۓ عدیل کی محبت بھی اس کی طاقتیں چھین کر اس کو اپنا غلام بناؤں گا ذاکا نے مسکراتے ہوۓ کہا کیا تم جانتے ہو اس کی طاقتوں کے لئے تمہیں کالی پری کی بات پوری کرنے سے پہلے ذاکا بولا ہاں جانتا ہوں اس سے شادی کرنی ہو گی اور اس کی پہلی اولاد شیطان کے سامنے قربان کرنا ہو گا ۔۔کون سا مشکل کام ہۓ ذاکا نے مکاری سے کہا کالے محل میں دونوں کا قہقہ گونجا ۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . باب ماضی کے پنے اور کالی نگری کے دروازے . . . . . . . .
تم کتنی پیاری ہو کتنی ی ی ی ی ی ی پیاری ی ی ی ی ی ی ی کانوں میں یہ آواز پڑنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر حوریہ حوش میں آئ ایک انجانی طاقت اسے آنکھیں کھولنے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
دھیرے دھیرے آواز تیز ہونے لگی وہ آنکھیں کھولنے کے لئے تڑپ رہی تھی پر کامیاب نہیں ہو پارہی تھی تبھی اسے عطیہ کی بتائ ہوئ ایک بات یاد آئی عطیہ نے کہا تھا کہ جب کبھی آپ کو لگے کہ آپ بے بس ہیں اور کوئی آپ کی مدد کرنے والا نہیں تو دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کو یاد کریں الله کا نام ہاں ہاں الله کا نام اس نے تیزی سے دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا ابھی وہ پوری آیت الکرسی بھی ختم نہیں کر پائی تھی کہ ایک دم سے اس کی جکڑن ختم ہوئی اور پل بھر میں خود با خود اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد چھایا آئی اور اسے لے کر ایک کمرے میں گئ چھایا نے حوریہ کو دھکا دیا وہ کسی کے پاؤں میں جاگری حوریہ نے سر اٹھایا تو سامنے ایک عورت بیٹھی تھی جس میں سے ہلکی سی جھلک عدیل کی آتی تھی ۔۔۔۔۔
اس عورت نے حوریہ کے بالوں میں سے پکڑ کر قریب کیا اور بولی کچھ دیر میں چھایا سامان لے کر آۓ گی تیار ہو جانا سمجھی کالی پری نے چھایا کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کچھ دیر میں چھایا اور دو جننیاں سنگھار کا سامان لئے اس کے سامنے کھڑی تھی کون ہو تم لوگ؟؟؟
اور کیوں لائ ہو مجھے یہاں مجھے اپنی سب باتوں کا جواب چاہیے تم بولتی کیون نہیں میں کہتی ہوں بولو میں کہاں ہوں بولوو ووووووو وہ روتے ہوۓ چلائی یہ کپڑے پہن لو جلدی پھر ہم نے تمہین تیار بھی کرنا ہہیں آقا تمہارا شدت سے انتظار کر ہۓ ہیں بلا آخر میں سے ایک جنی نے لال عروسی جوڑا اس کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
کیوں پہنوں میں یہ جوڑا اور کون ہیں آقا تمہارا جو میرا انتظار کر رہا ہے حوریہ نے گھبرا کر پوچھا ہمارے آقا ہمارے مالک اس سلطنت کے بادشاہ ہیں اور کچھ دیر بعد تمہاری اور ان کی شادی ہونے جاری ہے اس لئے زیادہ سوال جواب کر کے ہمارا وقت ضائع مت کرو اور جلدی سے یہ کپڑے پہن لو تاکہ ہم تمہیں تیار کر سکیں ان میں سے ایک جننی نے بتیا ۔۔کی بکواس کی تم نے کون ہے تمہارا آقا بادشاہ جو بھی ہیں اور اس کی ہمت کیسے ہوئی یہ سب بکواس سوچنے کی اور مجھے لایا تھا اسے بلاؤ ابھی ۔۔۔۔
دماغ خراب مت کرو میرا حوریہ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا ۔وہ سب ہمیں نہیں پتا تم بس جلدی سے یہ کپڑے پہن لو ورنہ ہم زبردستی کریں گے ان میں سے ایک جننی نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور کر کہا نہیں بدلتی جاؤ کر لو جو کرنا ہے حوریہ اپنا ڈر ان پر ظاہر کر کے کمزور نہیں دکھنا چاہتی تھی

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

پرستان کی شہزادی اردو کہانی - پارٹ 7

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں