محبت اک دھوکہ ہے - اردو کہانی پارٹ 2

 اردو کہانی

Sublimegate Urdu Font Stories

محبت اک دھوکہ ہے - اردو کہانی پارٹ 2


آج 7 مہینہ ہو چکے تھے بلال نے مجھے ایک اپارٹمنٹ میں رکھا تھا وہ کسی میڈیکل کا سٹوڈنٹ نہیں تھا اس نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا وہ تو مٹرک پاس تھا اور اس کی ایک کمیونیکیشن شاپ تھی مگر اصل دھوکہ یہ نہ تھا اصل دھوکہ یہ تھا کہ اس کو مجھ سے نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں وہ تو سدا کا آوارہ تھا اس کا تو کام ہی تھا لڑکیوں کو پهسا کر ان کا فائدہ اٹھانا اور میں پاگل اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ کر یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ مجھے میرے خوابوں کا شہزاده مل گیا ہے ۔۔صرف اتنا ہی نہیں وہ اپنی حوس بجھانے کی خاطر مسلسل مجھے نوچتا رہا تھا اور اب جب اس کا دل مجھ سے بھر گیا تو وہ ہفتے کی رات کو اپنے اوباش دوستوں کو بھی لے آتا اور بھی درندوں کی طرح مجھے نوچتے 

سارا ہفتہ وہ مجھے تالا لگا کر اس چھوٹے سے گھر جو ایک ہی کمرے پر تھا میں مجھے چھوڑ جاتا کھانے کا سامان گھر میں موجود ہوتا وہ دو سے تین دن بعد آتا میں اس کی خدمت کرتی کھانا بنا کے دیتی کپڑے دھو کر استری کر کے دیتی پیر دباتی ذرا سا کام غلط ہو جانے پر وہ مجھے بے رحمی سے پیٹتتا تھا آخر ابو بھی تو مارتے تھے مگر اس بے رحمی سے تو آج تک ابو نے بھی نہ مارا تھا سوچتی ہوں باپ کی اس مار میں بھی کہیں نہ کہیں شفقت تھی جس نے مجھے زمانے کی ان ٹھوکروں سے بچا رکھا تھا میرے بدن پر نیل پڑے رہتے تھے مگر بلال کے لئے میں ایک گوشت کے ٹکڑے سے بڑھ کر اور کچھ نہ تھی یقین نہ آتا تھا یہ وہی مہربان ہے جو میرا ایک آنسو تک برداشت نہ کرتا تھا کتنے وعدے کئے تھے ہم نے سب خاک ۔۔۔۔۔ بہت درد ہوتا تھا مجھے جب ظلم محبوب کی شکل میں کیا جاتا تھا جو مجھے اپنی عزت کہا کرتا تھا آج کس طرح مجھے اپنے دوستوں میں بانٹ رہا تھا ۔ آج بھی اس کے دوست آ ئے تھے مگر اب جا چکے تھے میں رات کے برتن دھو رہی تھی میں امید سے تھی یہ بچہ بلال کا تھا مگر وہ اس بارے میں نہیں جانتا تھا

 بلال باورچی خانے میں آ گیا چائے بنا کے دو مجھے نیلم اچھی سی ذرا جلدی میں جو خاموشی سے آنسو بہاتے اپنی ذات کے تار تار ہو جانے کا سوگ منا رہی تھی میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا آج عرصہ بعد میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا آخر یہی تو تھیں وہ آنکھیں جو پوری دنیا سے الگ بہت اپنی سی تھیں جو آج اس قدر غیر ہو چکی تھیں میرے لئے پر میں کچھ بول نہ پائی میری آنکھوں میں شکوه صاف تھا میں اس میں بس اپنا کہیں کھویا ہوا محبوب ڈھونڈ رہی تھی نہ جانے اس پر کیا اثر ہوا وہ مجھ سے نظر چرا گیا آج اور جلدی سے باہر نکل گیا تھا دل نے کہا اس شخص کے اندر ہی کہیں نہ کہیں میرا بلال موجود ضرور ہے پر وہ مجھ سے بہت دور جا چکا ہے لیکن میں اپنی محبت سے اسے کھنچ لاؤں گی بہت یاد آتی تھی بلال کی مجھے هالانکہ دن رات وہ میری نظر کا سامنے ہوتا تھا مگر پھر بھی وہ میرا بلال نہ تھا میں انہیں سوچوں میں ڈوبی چائے بنا کر بلال کے پاس چل دی پیر دباو وہ بولا تو میں اس کے پیر دبانے لگی وہ آنکھیں بند کئے لیٹا تھا اور میں اس کا چہرہ تکے جا رہی تھی آج مجھے اندازہ ہوا تھا کہ عورت کی محبت بہت مضبوط ہوتی ہے بلال نے مجھے اس قدر نفرت دی پھر بھی مجھے اس چہرے سے نفرت نہ ہو سکی
 اچانک دروازہ زور سے کھٹکا تو بلال اٹھ کر باہر چل دیا شور شربے کی آواز سن کر میں بھی باہر بھاگی تو دیکھا پولیس نے بلال کا گریبان پکڑ رکھا تھا اور اس کے ساتھ گالم گلوچ کر رہے تھے پھر وہ اس کو گهسیٹتے ہوۓ لے جانے لگے میں تڑپ گئی اور بیچ میں پڑی پولیس نے مجھے بھی اس کے ساتھ گاڑی میں بٹھا یا اور تھانے لے گئی وہاں پولیس والوں نے مار مار کر بلال کی ہڈیاں توڑ دی اور خوا تین پولیس اہلکاروں نے میرے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا ان کے تھپڑ اور گالی گلوچ میری روح چھلنی کر رہے تھے پولیس کو یہ لگا تھا کہ میں اپنی مرضی سے یہ کام کر کے پیسہ کما رہی ہوں کیوں کہ میں نے بلال کے خلاف اک لفظ نہ بولا تھا میں بولنا چاہتی تھی مگر پتہ نہیں کون سی ایسی طاقت تھی جس نے مجھے روکے رکھا شاید اسی کو عشق کھا جاتا ہے یا پھر پاگل پن میں نہیں جانتی ۔۔۔

مجھے لگا شاید مجھے میرا بلال واپس مل جاۓ گا آخر کار غلطی کس سے نہیں ہوتی بلال سے بھی ہو گئی مگر اب وہ میرے پیار کو سمجھے گا مگر میں ایک بار پھر دھوکہ کھا گئی اس کے دوست دے دلا کر اس کو چھڑا کر لے گئے اور پولیس نے مجھ پر ایک جھوٹا کیس بنا دیا اور مجھے چھ ماہ کے لئے جیل بھیج دیا گیا میں روز بلال کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا اور مجھے ایک بار پھر منہ کے بل گرنا پڑا پولیس والے بھی مجھے اپنی حوس کا شکار بناتے رہے

ایک ایک دن مجھ پر بھاری تھا امی کی بہت یاد آتی میں تو بس آنسو ہی بہاتی رہتی آخر کار ایڑیاں رگڑتے چھ ماہ گزر ہی گئی اور میں آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہو سکی میں ایک ایسی زنجیر میں جکڑ چکی تھی جس سے آزاد ہونا اب نہ ممکن تھا یہ ازيت موت سے بھی بڑھ کر تھی کہ میں بہت جلد ماں بننے والی تھی اور سڑک پر اپنی اولاد کو جنم دینے والی تھی جیل سے نکلنے کے بعد بلال کا کوئی پتہ نہ تھا ایسے میں اس کے وہ گھٹن سے بھرا اپارٹمنٹ بھی میرے لئے غنیمت تھا مگر اس دن کے بعد سے میں نے بلال کو نہ دیکھا اجنبی سہر تھا میں گھر کا راستہ بھی نہ جانتی تھی میں بس سڑک کنارے چلی جارہی تھی اور سوچ رہی تھی یہ زندگی کتنی بے رحم اور تلخ ہے امی کی بہن بھائی اور ابو کی بھی بہت یاد آ رہی تھی پر اب گھر لوٹ کر جانے کا کوئی راستہ نہ بچا تھا میری کشتیاں تو کب کی جل چکی تھیں گرمی بہت تھی اور کچھ کھایا پیا نہ تھا جس کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا اور میں کچھ دیر بیٹھ گئی بہت بھوک لگ رہی تھی اب احساس ہوا تھا کہ گھر میں بننے والی ایک وقت کی روٹی کتنی بڑی نعمت تھی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے وہ سب مجھے اس وقت بہت خوش نصیب لگ رہے تھے ان سب کے پاس گھر تھے اپنے کام ختم کرنے کے بعد وہ لوگ اپنے گھر لوٹ جائیں گے اور میں ۔۔۔۔آج احساس ہوا سر پر چھت ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
یاد ہے مجھے وہ رات آج بھی جب اللّه نے مجھے ایک بیٹا عطاء کیا تھا رات کافی گہری ہو چکی تھی سڑکیں ویران ہو گئی تھیں میں تکلیف سے تڑپ رہی تھی مگر میری مدد کرنے والا کوئی نہ تھا طوفانی بارش ہونے والی تھی تیز ہوا چل رہی تھی یوں لگتا جیسے پوری دنیا خالی ہو چکی ہو آخرکار اللّه نے مجھے ایک بیٹے سے نواز دیا جب میں نے اس کی صورت دیکھی تھی تو ایک پل کو میں سچے دل سے مسکرا گئی تھی ایک پل کو میرے سارے غم غلط پڑ گئے تھے پتہ چلا تھا ماں بننے کا مطلب کیا ہوتا ہے آخر میں نے اس کو اپنی گود میں بھر لیا اس کے رونے کی آواز مجھے بہت بهلی لگی ایک دم سے مجھے بلال کی یاد آ گئی یاد آیا کہ ہم دونوں نے اپنے پہلے بچے کو لے کر کیا کیا خواب سجائے تھے اور آج حقیقت کیا ہے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے ایک گھنٹہ ہی ہوا ہوگا کہ تیز بارش شروع ہو گئی بچہ بھی میرے ساتھ بھیگنے لگا میں فورا سے اٹھی اور بھاگتے ہوۓ ادھر ادھر کوئی ایسی جگہ ڈھونڈی جہاں بارش نہ پڑرہی ہو 

سوچا کسی کا در کھٹکا کر مدد مانگ لوں مگر بچے کو اکیلا یھاں چھوڑ کر بھی نہ جا سکتی تھی اور نہ ہی اسے بارش میں ساتھ لے جا سکتی تھی وہیں بیٹھی بارش تھمنے کا انتظار کرنے لگی کہ میں نے محسوس کیا بچہ سانس رک رک کر لے رہا ہے شاید بارش کا پانی اس کے منہ میں جانے کی وجہ سے ایسا ہوا میں بری طرح پریشان ہو گئی اس کی کمر تهپتھپائی اپنے طور سے پوری کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا چارو نہ چار میں بچے کو یہاں چھوڑے بھاگتے ہوۓ کسی کی مدد لینے دوڑی دو تین گھروں کے دروازے کھٹکھائے مگر دروازہ نہ کھلا وہاں ایک کتا میرے بچے کے پاس آ گیا میں بھاگتے ہوۓ وہاں پہنچی تب تک کتا اس کی ٹانگ نوچ چکا تھا میں نے کتے کو بھگا یا ہر طرف خون خون ہو رہا تھا بچہ بری طرح رو رہا تھا نہیں بتا سکتی اس وقت میری حالت کیا تھی میں اس کو گود میں بھر کر بیٹھی رہی اور بارش تھمنے کی دعا مانگتی رہی بارش تو نہ تھمی مگر اس معصوم کی سانسیں تھم گئیں میں نے اس کو اپنی گود میں ساکت محسوس کیا تو میرا حلق خشک ہونے لگا وہ بس اتنی سی ہی زندگی لے کر آیا تھا ؟
وہ بہت خوب صورت تھا مگر بہت ہی بد قسمت تھا اتنا بد قسمت کہ نماز جنازہ بھی اس کو نصیب نہ ہوئی کمزوری اور نقاہت سے یوں لگتا جیسے ابھی بے ہوش ہو جاؤں گی میری ہمت ختم ہو چکی تھی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ رہا تھا نہیں چاہتی تھی میرے بچے کی لاش کو کتے نوچ کھائیں اس سے بہتر مجھے یہی لگا اور میں نے وہیں ہاتھوں سے ایک چھوٹا کھڈا کھودا اور اس ننھے وجود کو جس کو نو ماہ اپنے پیٹ میں سمبھال کر رکھا تھا میں نے جو میری پہلی اولاد تھا جس نے مجھے ماں بنایا تھا کو کھڈے میں ڈال کر دبا دیا اب سمجھ آیا میں نے اولاد ہو کر اپنے ماں باپ کو تکلیف دی اسی لئے مجھے اولاد کی شکل میں اس قدر تکلیف ملی مجھے اتنا تو پتہ تھا اس بچے کو میں عمر بھر نہیں بھول سکوں گی
جب میں اٹھی تو سڑک کنارے بھکاریوں کی طرح پڑی تھی آنے جانے والوں کو میری کوئی پرواہ نہ تھی میں اٹھی اور چلتے ہوۓ سامنے پہلا جو گھر آیا ادھر دستک دی ایک بوڑھے آدمی نے دروازہ کھولا سر پر ٹوپی اور داڑھی والا وہ شخص شریف لگ رہا تھا میں نے اس سے کہا میری مدد کریں میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا میں رونے لگی تو وہ مجھے اندر اپنے گھر میں لے آیا گھر میں اس نے اپنی بہو کو آواز دی اور پشتو زبان میں کچھ بول کر چلا گیا اس کی بہو بہت اچھی تھی اس نے مجھے کھانا دیا کپڑے بدلوائے بہت ہی غریب سے تھے مگر اچھے لوگ تھے اس کا نام حنا تھا حنا نے مجھے دوائی دے دی اور پھر میں میں کب سوئی مجھے نہیں پتہ آرام سکون سے سوتی رہی مجھے کسی نے ڈسٹرب نہ کیا کچھ دن انہوں نے مجھے پناہ دی اس کے بعد میرا ایک جوان عورت کا یوں اس طرح دو مردوں والے گھر میں رہنا مناسب نہ تھا تب ایک دن اس بوڑھے آدمی نے مجھے نکاح کی دعوت دی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا پہلے تو دل بلکل نہ مانا مگر حالات کو دیکھتے ہوۓ میں نے ہاں کر دی تھی

 جس دن میرا نکاح شیر خان سے ہوا مجھے گھر والوں کی بہت یاد آئی تھی آج میری شادی تھی اور میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح سے ہوگی میری شادی سادگی سے گھر پر نکاح ہوا مجھے سرخ جوڑا پہنایا جا رہا تھا رہ رہ کر بلال کے دکھائے جھوٹے خواب یاد آ رہے تھے وہ تو کہتا تھا تم صرف میری دلہن بنو گی میری آنکھوں سے آنسو بھی نہ نکلتے تھے اب میں پتھر کی مورت بنی بیٹھی تھی اوپر سے تو مجھے سجا دیا گیا تھا مگر کوئی نہ جانتا تھا میرے اندر ایک سوگ وار ماں تھی ۔اس دن میں شیر خان کی بیوی بن گئی تھی اور وہ میرا شوہر کچھ بھی تھا مگر میرے لئے وہ ایک محافظ تھا اور ایک محفوظ چھت دینے والا میں نے فیصلہ کیا آج سب کچھ بھلا کر میں سچے دل سے شیر خان کو اپنا لوں گی اور میں نے یہی کیا اس کو دل و جان سے خدمت کرتی وہ اور اس کا بیٹا دن بھر مزدوری کرتے رات کو لوٹ آتے تو ہم سب بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تو احساس ہوتا کہ میں دنیا میں اکیلی نہیں ہوں یہ سب میرے اپنے ہیں اس موڑ پر آ کر زندگی کچھ پر سکون لگنے لگی تھی مگر شاید مجھے راس نہ آ سکی کچھ دن یہاں رہنے کے بعد شیر خان مجھے اپنے ساتھ ان کے گاؤں ایبٹ آباد لے آیا ہم کسی شادی پر گئے تھے کہ وہاں ایک امیر کبیر شخص کو میں پسند آ گئی اور شیر خان نے مجھے اس شخص کو فروخت کر دیا اور ایک بار پھر مجھے میرا گھر چھوڑنا پڑا کتنی محبت اور لگن سے یہ گھر سجايا بنایا تھا میں نے اور ایک بار پھر گھر سے زبردستی نکال دی گئی
 میں تب سوچا اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے کی یہ سزا ہے کہ آج نہ چاہتے ہوۓ مجھے اپنا گھر اپنی یہ چھوٹی سی دنیا چھوڑ کر ایک بار پھر اس ظالم زمانے کے رحم و کرم پر چلنا پڑے گا جس نے مجھے خریدا تھا میں نے اس کی بس ایک ہی جهلك دیکھی تھی وہ دیکھنے ہی سے کوئی بد کار انسان لگتا تھا ۔کل میری طلاق کی تمام تر کاروائی پوری ہونے والی تھی اور مجھے اس شخص کے ساتھ جانا تھا اس رات میں گھر سے بھاگ گئی تھی مگر وہ بہت اثر و سروخ والا بندہ تھا اس کے آدمیوں نے دو دن ہی میں مجھے ڈھونڈ نکالا تھا پھر اس نے نفرت میں آ کر مجھے ایک کال کوٹھری نما کمرے میں قید کر دیا وہ ایک گھر تھا آبادی سے دور آس پاس کوئی گھر نہ تھا اک دو انسان آتے جاتے دکھ جاتے ایک گورنمنٹ کا اسکول تھا جو شاید سالوں سے بند تھا اس گھر میں سارا دن میں اکیلی رہتی دم گھٹتا تھا میرا چیخ چیخ کر روتی سر پٹختی تھی مگر سننے والا کوئی نہ تھا وہ روز رات کو آتا تھا اور اپنا مقصد پورا کر کے صبح چلا جاتا مجھے سے اپنے جوتے اترواتا پیر دھلواتا بال نوچتا تشدد کرتا تھا کیوں کہ میں نے بھاگ کر اس کی جھوٹی انا کو للکارا تھا جس کا بدلہ وہ یوں مجھ سے لے رہا تھا

 خیر میری آنکھ سے اب آنسو نہ گرتا میں پتھر کی سی ہو گئی تھی مجھے اس کے ایسے رویہ کی عادت ہو گئی تھی 8 ماہ گزر گئے اس کے بعد اس نے مجھے ایک بازارو عورت بنا دیا گھر میں مردوں کو بلاتا اچھے پیسے لے کر مجھے ان کے سامنے پیش کرتا ہزاروں مرد آ چکے تھے یہاں اب تو مجھے میرے وجود سے نفرت آتی تھی یوں لگتا میں پیدا ہی دوسروں کی تفریح کے لئے ہوئی ہوں میرا اپنا کو وجود نہیں میرے جسم پر بہت سے دانے بن رہے تھے جس کی وجہ سے مجھے بہت بخار تھا جسم تپ رہا تھا مگر پھر بھی مجھ سے وہ کام لیا جا رہا تھا میرا کوئی علاج نہ ہو رہا تھا میں بہت تکلیف میں تھی بلکل جوان ہو کر بھی خود کو ایک بوڑھی محسوس کرنے لگی تھی یوں لگتا جسم تو کب کا درندوں نے نوچ کھایا اب ہڈیاں بھی گل رہی تھیں
دوپہر کا وقت تھا آج اسد اللہ (جس نے مجھے خرید رکھا تھا )نے آنا تھا اس کو گھر گندہ بلکل پسند نہ تھا تب ہی میں گھر کے کام میں مصروف تھی کپڑے دھو کر اوپر دیوار پر ڈالے تھے وہ اٹھانے جا رہی تھی میری طبیت بلکل ٹھیک نہیں تھی دانوں میں پس پڑ رہی تھی کوئی سکن انفیکشن ہوا تھا جس کا علاج نہ کروانے پر وہ بڑھ رہا تھا کمزوری سے مجھے چکر آ گیا میں گر گئی نیم بے ہوش تھی گھر میں کوئی تھا ہی نہیں جو میری مدد کرتا میں تیز دھوپ میں وہی اؤندھے منہ گری رہی دھوپ میرے جسم کو جهلسا رہی تھی میرے بدن میں ذرا سی بھی طاقت نہ تھی اس پل محسوس ہوا شاید جان اس بھاری وجود کے بوجھ سے آزاد ہو رہی ہے یہ خیال میرے لبوں پر مسكان لے آیا

 میری نظر کے سامنے امی ابو بہن بھائی گھومنے لگے ان کی آوازیں کانوں میں پڑنے لگی تھی مگر میں اتنی بد قسمت تھی میں مری نہیں اس دن بھی میں بچ گئی تھی جب اسد اللہ کو یہ لگنے لگا کہ میں اب اس کے کسی کام کی نہ رہی تو اس نے اپنے ایک خاص آدمی کو یہ کام سونپا کہ مجھے کسی ویران جگہ پر لیجا کر قتل کر دے ۔۔رات کا وقت تھا میں سو رہی تھی بخار اب بھی تھا کہ اچانک شور سے میری آنکھ کھلی تو سامنے اک شخص کھڑا تھا اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا اور مجھ پر گن تانی ہوئی تھی پھر مجھے بازو سے پکڑ کر وہ صحن میں لے آیا مجھے گھٹنوں کے بل بٹھا دیا میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا نہ کوئی خوف آیا مجھے میں نے بس اپنی آنکھیں بند کر لیں تمہیں ڈر نہیں لگا ؟ اس نے سوال کیا جس پر میں نے نفی میں سر کو جنبش دی اور کہا تم تو میرے محسن ہو جو مجھے اس جہنم سے نجات دینے آگئے ہو ورنہ یہ کم بخت جان نکل ہی نہیں رہی ہے مجھے آرام نہیں آ رہا ۔میری بات پر اس کو حیرت کا ایک جھٹکا ضرور لگا وہ کچھ دیر خاموشی سے کھڑا رہا پھر بولا کیا نام ہے تمہارا
نیلم ۔۔۔۔ جس پر وہ لڑ کھڑا سا گیا اور دو قدم پیچھے ہوا اور گن ایک طرف رکھ کر رخ پھیر کر کھڑا ہو گیا مجھے یہ بلکل اچھا نہ لگا میں چاہتی تھی جلدی وہ میری روح کو آزاد کرے میں اس کے پیر پڑنے لگی کہ مجھے مار دے جب اس نے ایسا نہ کیا تب میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس کی گن اٹھا لی اور اپنے سر پر رکھ کر چلا دی

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

محبت اک دھوکہ ہے اردو کہانی - پارٹ 3

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں