جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 3

 Urdu Story

 Urdu Font Stories (مزے دار کہانیاں)

جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 3

ملکہ اے پربت کی آغوش میں سمائی ھوئی جھیل سیف الملوک پر کھڑی وہ لڑکی سارے قدرتی حسن کو بے معنی کررہی تھی کسی کی اضطراب سی نظر اس کے چہرے پر جمی ھوئی تھی وہ اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے صدیوں سے اسے جانتا ھو مگر وہ لڑکی اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی بلا شبہ وہ نوجوان بہت خوبصورت تھا مگر چونکہ لڑکی اسے پہچانتی نہیں تھی اس لیے اس سے کچھ قدم دور ھو گئی کون ھیں آپ؟ اس لڑکی کے لہجے سے اجنبیت چھلک رہی تھی

مگر لڑکا چلتا ھوا پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تم مجھ سے بھاگ کیوں رہی ھو جب کے تم مجھ سے کئی بار مل چکی ھو باتیں کر چکی پھر یہ اجنبیت کیوں؟
اور دیکھو تم جہاں آنا چاہتی تھی نہ میں تمہیں لے آیا مگر سچ کہوں تو ان نظاروں سے اس خوبصورتی سے یہاں اترنے والی پریوں سے مجھے کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ میری پری کے سامنے یہ سب کچھ۔
کچھ بھی نہیں ھے
تم میری پری ھو ثانی
اس لڑکے نے لڑکی کا نرم ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا

ثانیہ نے اس کے ہاتھ کی گرماھٹ محسوس کی تھی یہ لمس اسے پہلی بار محسوس ھوا تھا اسکے دل میں ہلچل سی ھوئی تھی گبھراھٹ اور بے چینی سے اس کی آنکھ کھل گئی وہ لمس اسے ابھی بھی اپنے ہاتھ پر محسوس ھورہا تھا اس نے ہلکی سی روشنی میں گھڑی پر ٹائم دیکھا ابھی رات کے 2 بجے تھے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی یہ سب کیا تھا کچھ دیر تو ثانیہ اس خواب کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر اسے محض ایک خواب سمجھ کر سر جھٹک دیا اور دوبارا لیٹ گئی مگر اسے باہر کسی کے چلنے کی آہٹ سنائی دی پہلے تو اس نے کہا شاید کوئی بلی ھوگی گاؤں میں بہت بلیاں ھوتی ھے مگر مسلسل آواز کے آنے سے اس نے ارادہ کیا وہ جاکے دیکھے کے آخر باہر ھے کون؟

وہ آہستہ سے اٹھی اپنا دوپٹہ اٹھا کر سر پر لیا اور چلتی ھوئی دروازے تک آئی زرا سا دروازا کھول کر پہلے اس نے باہر جھانکا مگر باہر کوئی بھی نہیں تھا اس نے سارا دروازا کھول دیا اور باہر نکل آئی باہر ہلکی پھلکی سرد ھوا چل رہی تھی ثانیہ نے ایک لمبی سانس لی پھر سارے صحن میں نظر دوڑائی اسے کچھ بھی نظر نہ آیا تو وہ مڑکر کمرے میں جانے لگی وہ جیسے ہی مڑی اسے اپنے کان کے پاس کسی کی سانسوں کی اور ہنسنے کی ملی جلی آواز محسوس ہوئی وہ ڈر کر دو قدم آگے ھوئی پھر پلٹ کر پیچھے دیکھا کوئی بھی تو نہیں ھے نہ جانے مجھے کیا ھوگیا ھے یہ شاید اس خواب کی وجہ سے ھورہا ھے اس نے اپنے سر پر ایک چپت لگائی اور اندر کمرے میں آتے ہی دروازا بند کیا اور جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی اس نے ایک نظر لائبہ کو دیکھا جو بے فکر سو رہی تھی اور وہ بھی دوبارا سونے کی کوشش کرنے لگی

باہر آزر دروازے پر کھڑا اس بھیانک اور شیطانی مخلوق کو گھور رہا تھا جسکی وجہ سے ثانیہ باہر آئی تھی اس کی شیطانی ہنسی آزر کو زہر لگ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا اسے ابھی مڑوڑ کر رکھ دوں مگر وہ اپنی طاقتوں سے محروم تھا اور یہ بات ابھی اس شیطان سے چھپی ہوئی تھی وہ نہیں چاہتا تھا اسکی کمزوری کا فایدہ اٹھا تے ھوئے وہ شیطانی مخلوق ثانیہ کو کوئی نقصان پہنچائے اسی لئے آزر چپ تھا اور اس کے وار کا انتظار کر رہا تھا۔
آج اسے ایک بات سمجھ آگئی تھی کے اس سے اسکی طاقتیں کیوں چھین لی گئی تھی
کیونکہ وہ صرف اپنے دکھ میں اپنے دشمنوں کو سزا دے رہا تھا باقی قبیلے والوں کا تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا

کیا میں خد غرض ھوں یا نہ سمجھ آزر نے خد سے سوال کیا؟
میں نے ایک بار بھی سوچنا گوارہ نہیں کیا کے میرے قبیلے والوں کا کیا ھوگا اگر میرے اس رویئے کا بدلہ میرے قبیلے والوں کو چکانا پڑتا تو؟
میں تو اس قبیلے کا ھونے والا سردار ھوں مجھے تو انکی بھی حفاظت کرنی تھی جب کہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے علاوہ ان سب کے پاس اتنی طاقتیں نہیں ھیں آزر سچ میں بہت دکھی لگ رہا تھا

میں یہ کیسے بھول گیا کہ اس قبیلے نے مجھے کتنا پیار دیا میرے ماں باپ کو کتنا پیار عزت واحترام دیا آزر کی آنکھوں میں آنسوں چمکنے لگے تھے کتنے عرصے سے وہ اپنے لوگوں سے اپنے دوست سے اپنے گھر سے دور تھا
اب تو ثانیہ بھی اسی کی زماداری تھی اور ثانیہ کی بات آتے ہی وہ خد غرض ھوجاتا تھا اسکی "محبت" اس کے فرض کے آڑے آ جاتی تھی آج وہ خد کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا وہ وہی دروازے میں کھڑا رہ گیا کے اسے ثانیہ کا خیال رکھنا تھا

ثانیہ صبح فجر کی آذان سن کر جاگ گئی تھی آذان سنتے سنتے اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی اس نے آنکھیں صاف کی اور اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی وضو کرکے آئی تو لائبہ بھی اٹھ چکی تھی
میں نماز پڑھنے چھت پر جارہی ھوں آپ بھی وضو کرکے چھت پر آجانا یہ کہہ کر ثانیہ نے سلطان کا پنجرہ اٹھایا اور چھت پر آگئی۔
دیکھوں یہاں کا موسم کتنا حسین ھے شہر میں تو تمہیں لگتا ھوگا نہ کے تم کسی قید میں ھو اس نے سلطان کا پنجرہ کھول دیااور مسکرا کر بولی تمہارا دل بھی تو کرتا ھوگا آزاد فضا میں اڑنے کو گھومنے کو خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کو جاؤ تم بھی جہاں جانا چاہتے ھو چلے جاؤ میں نے تمہیں آزاد کیا (ثانیہ کو کیا معلوم کہ وہ تو خد ہی اس کا اسیر ھوا تھا)

سلطان پنجرے سے باہر آیا اور ثانیہ کو دیکھنے لگا کچھ دیر یونہی دیکھتا رہا پھر اڑ کر اسی مخصوص درخت پر جا بیٹھا اور چہچہانے لگا ثانیہ کو لگا جیسے وہ کھلی ھوا میں خوش ھو رہا ھو آزادی کے گیت گا رہا ھو وہ کچھ دیر اسے خوشی سے دیکھتی رہی پھر جائے نماز پر آگئی۔
ثانیہ نے نماز شروع ہی کی تھی کے لائبہ بھی آگئی دونوں نے مل کر نماز پڑھی اور دعا مانگی ۔ دعا کہ بعد دونوں بہت دیر تک چھت پر بیٹھی رہی گاؤں کا موسم بہت پیارا ٹھنڈی ھوا اور ہر طرف پرندوں کی خوبصورت آوازیں ہلکے اندھیرے سے پھوٹتا ہوا سویرا ثانیہ مدھوش سی بیٹھی تھی کہ لائبہ نے کہا یہاں کتنا سکون ھے اور موسم کیسا حسین دل کر رہا ہے بس یہ وقت یہاں رک جائے اس پر سکون ماحول میں ایسے ہی بیٹھیں رھے میں بھی یہی سوچ رہی تھی ثانیہ نے لائبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں مسکرا دی۔ اتنے میں لائبہ کی امی چھت پر آگئی تم دونوں ادھر بیٹھی ھو ہم لوگ نیچے تم کو ڈھونڈ رہے تھے ثانیہ بیٹا بتا تو دیتی کے آپ لوگ ادھر ھو دیکھو دن چڑھ گیا ھے دھوپ نکل رہی ھے نیچے چلو تم دونوں۔

وہ دونوں ایسے باتوں میں مصروف تھی کہ انکو دن چڑھنے کا احساس تک نہیں ھوا ثانیہ شرمندہ سی ھو کر بولی بس چچی جان ہم لوگ چھت پر نماز پڑھنے آئی تھی آپ کو بتانا بھول گئ سوری آپ چلو میں جائے نماز لے کر آرہی ہوں لائبہ اپنی امی کہ ساتھ ہی نیچے چلی گئی تو ثانیہ نے جائے نماز تہہ کر کے اٹھائی اور بے ساختہ نگاہ سلطان کے پنجرے پر پڑی وہ واپس پنجرے میں بیٹھا تھا ثانیہ اسکی طرف مڑی "کیوں"
" آپ مجھے چھوڑ کر نہیں گئے"
مجھے خوشی بھی ھورہی ھے لیکن افسوس بھی کہ میری وجہ سے آپ آزاد نہیں رہ سکتے مجھے پیر صاحب نے بتایا تھا آپ میرے ساتھ ہی رھوگے آج آپ نے ان کی بات سچ کر دی
"تم نے محبت دیکھی ھے وفا نہیں"
"کہ پنجرے کھول بھی دو تو کچھ پنچھی اڑا نہیں کرتے"
ثانیہ نے زیرلب یہ شعر دھرایا اور نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

اس نے سلطان کے پر سہلائے اور اس کو لے کر نیچے آگئی چچی جان نے سب کہ لئے ناشتہ بنا دیا تھا سب نے مل کر ناشتہ کیا اور ناشتے کے بعد شام کے فنگشن کی ڈسکس کی سب نے یہ پلان بنایا کہ حاکم چچا کے بیٹے کی مہندی اور شادی کی تقریب اعجاز احمد کی حویلی میں رکھتے ھے بہت عرصے سے یہ حویلی نما گھر بند تھا لوگ خوف کھاتے تھے اس حویلی سے اندر آنا تو دور پاس سے بھی نہیں گزرے تھے شادی کی تقریب یہاں ھوگی تو لوگوں کا آنا جانا بنے گا اورساتھ ساتھ ڈر اور خوف بھی ختم ھو جائے گا اور یہ سارا پلان علی کا تھا سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی وہ چاہتا تھا جتنے دن وہ لوگ جہاں رھے ثانیہ خوش رھے اور اس واقعے کے بارے زیادہ نہ سوچے سب نے اس کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا اور اب حاکم چچا کو بلا کر ان سے بات کرنا باقی تھا سب بہت خوش لگ رھے تھے سوائے ثانیہ کے وہ بس چپ تھی اور سب کو دیکھ اور سن رہی تھی اتنے میں عدیل حاکم چچا کو بلاکر لے آیا سب نے ان سے باری باری مہندی اور شادی کی تقریب حویلی میں کرنے کی بات کی تو وہ مان گئے علی نے سب کو ان کے کام سمجھائے ڈیکوریشن کھانے پینے کے انتظامات کے بارے میں اور عبداللہ کو گاڑی دے کر بھیجا کہ حاکم چچا کی فیملی کو ادھر لے آئے اور ان کا سامان وغیرہ بھی۔ لائبہ اور ثانیہ کو انکے لئے کمرے صاف کروانے کا کہا تاکے ثانیہ بھی مصروف رھے اور زیادہ نہ سوچے ثانیہ اور لائبہ اٹھ کر جانے لگی تو حاکم چچا نے ثانیہ کو روکا بیٹا رکو میں نے کچھ بات کرنی ہے آپ سے تو ثانیہ رک گئی حاکم چچا خد چل کر اس تک آئے تو ثانیہ مسکراتے ھوئے بولی جی چچا بولے۔

حاکم چچا نے لائبہ سے کہا پتر آپ جاؤ ثانیہ ابھی آ رہی ہے تو لائبہ وہاں سے چلی گئی اس کے جانے کے بعد حاکم چچا نے ایک نظر سب کو دیکھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے تو حاکم چچا نے ثانیہ کو اپنے پیچھے آنے کا کہا اور کھلے ھال کمرے میں آگئے ثانیہ بھی ان کے پیچھے اسی کمرے میں آگئی جی چچا بولے ایسی کیا بات تھی جو آپ سب کے سامنے نہیں کرسکتے تھے۔
بیٹھو پتر حاکم چچا نے اسے بیٹھنے کا کہا تو وہ بیٹھ گئی

دیکھوں پتر مجھے آپ کو بہت ضروری بات بتانی تھی آپ کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہ گھر بہت سنسان ھو گیا تھا کوئی آتا جاتا نہیں تھا ادھر لوگ تو پاس سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے اور آپ لوگ بھی جہاں واپس نہیں آنا چاہتے تھے تو آپ کے دادا سے پوچھ کر میں نے یہ گھر کسی کو کرایے پر دیا تھا میں چاہتا تھا یہ بات آپ کو وی پتہ ھو ایک بوڑھی عورت ھے اور ساتھ اسکا پوتا دونوں بڑے بھلا مانس تے چنگے ہیں کسی کام سے شہر گئے تھے دو دن پہلے آج وہ لوگ بھی واپس آجائیں گے تو آپکو کوئی دقت تو نہیں ان کے یہاں رہنے سے؟

ویسے بھی میں تو یہ گھر کرایے پر دینے کے حق میں نہیں تھا مگر پیر ناصر شاہ صاحب نے کہا تو منا نہیں کرپایا انھوں نے تو آپ کو یہاں آنے سے منا کیا تھا مگر آپ پھر بھی آگئی آپ اپنا خیال رکھنا مجھے آپ کی بہت فکر ھورہی ھے پتر ۔
چھوڑئیے چچا ان سب باتوں کو اور ویسے بھی مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا موت کو بہت قریب سے دیکھا ھے میں نے اور زندگی اور موت کا فیصلہ تو میرا اللہ کرتا ھے نہ اگر میری زندگی ھے تو وہی میری حفاظت فرمائے گا اور اگر زندگی اتنی ہی ھے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا ثانیہ نے مسکرا کر کہا تو حاکم چچا بھی حیران ھو گئے ثانیہ کی ہمت کی داد دینی چاہیے تھی جو اتنا سب جھیل کر بھی اتنی ہمت سے بات کررہی تھی حاکم چچا نے ثانیہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تو ثانیہ بولی اور رہی بات ان کرائے داروں کی تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ان سے آپکو میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ملے گی یہ کہہ کر ثانیہ کمرے سے نکل آئی سامنے سے آتے علی پر نظر پڑی جسکی نظرے سوال کررہی تھی کیا بات ھے تو ثانیہ نے ہلکا سا سر نفی میں ہلایا اور اس کے پاس سے گزر گئی

آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جھولے والے درخت پر جاکے جھولہ جھولے اسے لگ رہا تھا اس گاؤں کی ہر ایک چیز اسکی اپنی ھے ہر چیز سے اپنا پن محسوس ھورہا تھا ورنہ پہلے تو وہ گاؤں آنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

لائبہ نے اسکے آنے سے پہلے ہی حاکم چچا کی فیملی کے لئے کمرے صاف کروا دیئے تھے اس نے لائبہ کو اپنے ساتھ لیا چچی کو کہا چچی جان ہم ابھی آتی ھے کہہ کر وہ جھولے والے درخت کے پاس آگئیں اس نے دیکھا وہ جھولا ویسے کا ویسا ہی تھا جیسے پانچھ سال پہلے تھا فرق صرف اتنا تھا اب اس کے ساتھ آصف نہیں تھا جو آتے ہی جھولے پر بیٹھ کر کہتا تھا آپی پہلے مجھے جھولے دو نا آنسوں آنکھوں کے پیالوں سے چھلک پڑے تھے ثانیہ نے اس جھولے کو چھوا اور آہستہ سے بولی "آصف" لائبہ نے اس کے آنسوں صاف کئے ثانیہ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ھے نہ چلو گھر چلیں ثانیہ نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا اور لائبہ کو دیکھ کر مسکرائی دیکھو میں بلکل ٹھیک ھوں اور جھولے پر بیٹھ گئی جیسے ہی وہ جھولے پر بیٹھی اسے لگا کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی اسے لائبہ کہ سوا کوئی نہیں دکھا پھر پتوں کی سرسراہٹ ہوئی تو اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا درخت پر سلطان بیٹھا تھا پہلے تو وہ حیران ھوئی پھر اسے یاد آیا اس نے پنجرے کا دروازہ بند نہیں کیا تھا ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کے اسے پھر سے کسی کی نظروں کی گرماھٹ محسوس ہوئی اب سلطان بھی عجیب سی آوازیں نکال رہا تھا لائبہ نے جھرجھری لی اور ثانیہ کو گھر چلنے کا بولا ویسے ثانیہ تمہیں ڈر نہیں لگتا ایک یہ سنسان جگہ اوپر سے اتنی خوفناک آوازیں مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے چلو جلدی گھر چلیں ورنا ماما ناراض ھونگی اب کی بار ثانیہ نے بھی عجیب سا خوف محسوس کیا مگر وہ ڈری نہیں ہاں چلو ثانیہ نے بس اتنا ہی کہا اور دونوں گھر کی طرف چل پڑی ابھی وہ گھر کے اندر داخل ھونے ہی والی تھی کے کسی سے بری طرح ٹکرا گئی ثانیہ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو کوئی اجنبی تھا اسے لگا شادی والا گھر ھے کوئی ڈیکوریشن والا ھوگا پہلے تو وہ اسے اچھا خاصا سنانے والی تھی پھر اسے یاد آیا حاکم چچا نے کسی کرایے دار کا بتایا تھا کہی وہ ہی نہ ہو

لائبہ اندر چلو مگر لائبہ تو یک ٹک اس اجنبی کو گھور رہی تھی اس سے پہلے کے ثانیہ کچھ اور کہتی لائبہ نےاس اجنبی کو دیکھتے ہوئے پوچھا آپ کون ھے؟
لائبہ تو جیسے مری جارہی تھی اس سے بات کرنے کو وہ اجنبی کچھ بولتا اس سے پہلے ہی ثانیہ نے لائبہ کا ہاتھ پکڑا اور کھنچتی ھوئی اندر لے کر چلی گئی اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر اس کا ہاتھ چھوڑا اور ایک آئی برو چڑھا کر بولی یہ کیا ھو رھا تھا لائبہ گڑبڑاگئی۔
کیا ھورہا تھا الٹا اسی سے پوچھنے لگی
اگر علی بھائی کو پتہ چلا تو وہ کتنا ناراض ھونگے پتہ ھے نا
یار تم نے تو اسے دیکھا ہی نہیں کتنا خوبصورت تھا اسکی آنکھیں ہائے اللہ پوچھنے تو دیتی کہ وہ تھا کون
اتنا بھی خاص نہیں تھا ثانیہ نے منہ بنا کر کہا
ثانیہ اگر میں تمہارے علی بھائی کے ساتھ انگیجڈ نہ ھوتی تو اس کو سیدھا پرپوز کر دیتی

یہ کہہ کر لائبہ کھل کھلا کر ہنس دی پہلی بار سن رہی ھوں کوئی اجنبی جیسے ہم نہ جانتے ھو نہ پہچانتے ھو اسکی ایک ہی جھلک دیکھ کر اسے پرپوز کر دینا نہ جانے کون ھے کیسا ھے کہاں سے آیا ہے ثانیہ نے لائبہ کی بات پر حیران ھوتے ھوے کہا
ارے ثانیہ تم تو سیریس ہی ھوگئ یار مزاق کررہی ھوں
پھر ثانیہ کے کان کے پاس جاکے آہستہ سے بولی ویسے وہ خوبصورت بہت ھے کبھی دیکھنا تو اسے تم نظر نہیں ہٹا پاؤگی میری طرف سے چیلنج ھے اور ایک بار پھر ہنس دی مجھے کوئی دلچسپی نہیں ایسے فضول کے چیلنجیز ایکسیپٹ کرنے کی لائبہ ہستے ھوئے بولی ڈر گئی نہ کے کہیں ہار نہ جاؤں ہممم
تو ثانیہ کو بھی اس کے پاگل پن پر ہنسی آگئی

وہ دونوں ہنستے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھیں لائبہ نے اسے آج پہلی بار اس طرح ہستے ھوئے دیکھا تھا شہر میں ہنسنا تو دور وہ مسکراتی بھی بہت کم تھی اور جب بھی مسکراتی تھی لگتا تھا زبر دستی مسکرا رہی ہے۔
مگر گاؤں آنے کے بعد اس کے چہرے پر ایک الگ ہی چمک تھی اور اب وہ ہنس رہی تھی تو بہت خوبصورت لگ رہی تھی لائبہ نے دل ہی دل میں ثانیہ کی معصومیت اور خوبصورتی کی داد دی اور ثانیہ کے لئے اللّٰہ سے دعا کی کے وہ ہمیشہ خوش رھے۔

کسی کے دروازہ نوک کرنے پر دونوں نے ایک ساتھ دروازے کی طرف دیکھا دروازے میں عبداللہ کھڑا تھا لیکن اس کی نظر ثانیہ پر ٹہر سی گئی تھی وہ وہی کھڑا رہ گیا ثانیہ کا چہرا کھلا ھوا تھا اور وہ بہت خوش لگ رہی تھی نہ جانے کس بات پر مگر عبداللہ کو وہ بہت اچھی لگی تھی ثانیہ کے لیئے اس کی آنکھوں میں محبت ہی محبت تھی وہ یہ تک بھول گیا کے لائبہ بھی پاس ہی کھڑی ہے عبداللہ چلتا ھوا سیدھا ثانیہ کے سامنے آ کھڑا ہوا اس کے چہرے پر نظریں جمائے وہ اس کے کان کے قریب کہہ رہا تھا ہمیشہ ایسے ہی ہنستی رہا کرو بہت پیاری لگ رہی ھو عبداللہ نے ہلکا سا مسکرا کر کہا ثانیہ نے سر اٹھا کر اسے غورا مگر زیادہ دیر تک اسے دیکھ نہیں پائی اس کی نظروں میں چاہت کا ایک جہاں آباد تھا ثانیہ سر جھکا گئی تو لائبہ نے عبداللہ کو کہنی ماری وہ جان گئی تھی ثانیہ کو عبداللہ کا بات کرنے کا طریقہ اچھا نہیں لگا۔
عبداللہ نے پلٹ کر لائبہ کو دیکھا اور زور سے کہکا لگایا تو بولو کیسی لگی میری ایکٹنگ؟؟؟
بلکل بکواس لائبہ نے منہ بنایا
مگر ثانیہ خاموش رہی
وہ شاید اپنی فیلنگز لائبہ سے چھپانا چاہتا تھا
یا پھر ثانیہ سے بھی مگر اس کا یہ مزاق ثانیہ کو بہت برا لگا اسی لیئے وہ کچھ بھی کہے بنا کمرے سے نکل گئی تھی عبداللہ بچپن سے ثانیہ کو پسند کرتا تھا کہ بس اسے اپنا پیار جتانا کبھی نہیں آیا اور عبداللہ کی آنکھوں میں جو ثانیہ کہ لئے محبت کا جذبہ تھا وہ سچا تھا اس میں کچھ بھی مزاق نہیں تھا۔
لائبہ نے عبداللہ کو ایک گھوری سے نوازا اور ثانیہ کے پیچھے چلی گئی کہ کہی وہ علی سے عبداللہ کی شکائیت ہی نہ کردے وہ باہر آئی ثانیہ کو ھال کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی ھال کمرے میں سب بیٹھے تھے اور چائے کا دور چل رہا تھا
کمرے میں داخل ھوتے ہی ثانیہ کی نگاہ سامنے بیٹھی ایک بزرگ مگر باروب سی خاتون پر پڑی اور ان کے ساتھ وہی لڑکا بیٹھا ہوا تھا جو گھر کے دروازے پر ثانیہ سے ٹھکرایا تھا وہ نظریں جھکائے کسی شریف بچے کی طرح بیٹھا تھا لائبہ اور ثانیہ بھی وہی ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی ان کے بیٹھتے ہی علی نے ان کا تعارف کروایا یہ اماں جی ھے اور یہ انکا پوتا ھے اسی گھر میں پچھلے دو سالوں سے کرایے پر رہ رھے ھیں کیونکہ ہم جہاں آتے جاتے نہیں تھے تو ہماری ان سے کبھی ملاقات نہ ھوسکی۔
اب سے کچھ دنوں تک آپ گیسٹ روم میں رھے گے میں نے گیسٹ روم صاف کروا دیا ھے پھر ہمارے جانے کے بعد آپ جانے اور آپ کا گھر علی نے بات مکمل کی اور پھر چائے پینے لگا
ثانیہ کو وہ خاتون پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی ان کے چہرے سے ممتا چھلک رہی تھی ثانیہ کا دل چاہا وہ کے پاس بیٹھے ان سے باتیں کرے ثانیہ نے سب سے پہلےان کو سلام کیا اور بولی آئیں میرے ساتھ آپکو آپکے کمرے تک چھوڑ آؤں
مہرین بیگم نے مسکراتے ہوئے ثانیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا جیتی رھو بیٹی اور بولی بیٹی آپ کیوں تکلف کررہی ھو یہ میرا بیٹا ھے نہ یہ لے جائے گا مجھے ثانیہ کا دل جیسے بجھ سا گیا اتنے میں وہ اجنبی لڑکا اٹھا اور انکو اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے گیا
ثانیہ بھی چپ چاپ سی اٹھی اور اپنے کمرے میں جانے لگی تو چچی کی آواز پر رک گئی ثانیہ بیٹا یہ چائے والے برتن لیتی جاؤ کچن میں رکھ دینا وہ واپس مڑی اور برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے چلی گئی جب وہ کچن سے نکلی تو اس نے کسی کو اس کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا وہ بھی اس کے پیچھے ھولی کچھ دیر تو وہ اس کے پیچھے چلتی رہی پھر اچانک اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا یہ وہی اجنبی تھا
آپ میرے کمرے کی طرف کیوں جارھے ھیں وہ اس سے کوئی سوال کرتا اس سے پہلے ہی ثانیہ نے سوال کردیا تھا
کیونکہ میں اسی کمرے میں رکا ہوا تھا تو میرا کچھ سامان آپ کے کمرے میں چھوٹ گیا ھے وہی لینا تھا۔ مجھے لگا آپ کمرے میں ہی ھونگی تو آپکی موجودگی میں اپنا سامان اٹھا لاؤں وہ نظرے جھکا کر بولا
ثانیہ نے بھی اسے نظر اٹھا کر دیکھا گوارا نہ کیا بس آہستہ سے بولی میں جاکر دیکھتی ھوں ۔۔۔
اور اپنےآئی تو لائبہ اپنے کپڑے پریس کررہی تھی ثانیہ کمرے میں آکر دیکھنے لگی کہ کیا کیا سامان ھے ان کا مگر اسے وہاں کچھ نہیں ملا تو خد سے کہنے لگی جہاں تو ان کا کوئی سامان نظر نہیں آرہا
کبھی کبھی ہمیں صرف وہی نظر آتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ھیں اس کے علاوہ سب کچھ نظروں سے اوجھل ھوجاتا ھے
آپ ہٹیئے میں خد ڈھونڈ لیتا ہوں وہ اندر آتے ھوئے بولا تھا
اب لائبہ نے بھی مڑ کر دیکھا اور کھڑی ہوگئی پھر ثانیہ سے پوچھنے لگی یہ ادھر کیا کرنے آیا ھے ثانیہ نے ھولے سے اسے ساری بات بتائی
کتنا میٹھا بولتا ہے لائبہ پھر سے شروع ہو گئی تھی ویسے آپکا سامان اس کمرے میں کیسے آیا لائبہ نے پوچھا
کیونکہ میں پچھلے دو سال سے اسی کمرے میں رہ رہا تھا جس پر آپ نے آتے ہی قبضہ کر لیا ہے یہ بات اس نے ثانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی اور اس کا لہجہ بھی تھوڑا سرد ھوگیا تھا
تو مجبوراً ثانیہ کو بھی کہنا پڑا کہ یہ کمرہ میرا ھے اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ لوگ یہاں رکے ہوئے ھو اب کی بار ثانیہ نے بھی اسکو دیکھتے ہوئے بات مکمل کی تھی
وہ ہلکا سا مسکرایا
یار اسکی مسکراہٹ تو دیکھ لائبہ الگ اس کے کان کھا رہی تھی اسے لائبہ کا یہ پاگل پن بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا
اب اگر آپکی اجازت ھو تو میں اپنا سامان اٹھا لوں اس نے پھر ثانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا
اب ثانیہ کو اس سے چیڑ ھونے لگی تھی
سامان آپکا ھے تو ہم سے کیسی اجازت لائبہ نے مسکراتے ہوئے کہا
ہاں یہ تو ھے وہ بھی ھولے سے بولا
آپ کا نام ؟؟
ثانیہ نے جلدی سے لائبہ کا ہاتھ دبایا جو کہ وہ بھی دیکھ چکا تھا
"محمد شاہ"
اب وہ اس سے آگے کچھ نہیں بولا اور آرام سے اپنا سامان اٹھانے لگا ایک بیگ جو کہ الماری کے اوپر رکھا تھا بیڈ کے سائڈ ٹیبل ڈرا سے دو بکس اور الماری سے اپنے دو تین سوٹ آئینے کے پاس سے مین بوڈی سپرے کنگا اور باقی کچھ چیزے جو اٹھا کر اس نے بیگ میں رکھی اور پوکٹ سے ایک چابی نکال کر الماری کے سیو سے ایک ڈبا نکالا اور شلف سے قرآن پاک اٹھا کر اس ڈبے کے اوپر رکھا اور کمرے سے نکلنے لگا تو ثانیہ نے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی روکا
سنے یہ قرآن کریم آپ ادھر ہی رہنے دیں ہم لوگ تو کچھ دن بعد چلے جائے گے آپ چاہے تو پھر سے اس کمرے شفٹ ھوجانا
وہ پیچھے مڑا اور قرآن ثانیہ کی طرف بڑھا دیا ثانیہ نے بڑے پیار اور احترام سے قرآن کریم اس سے لے کر دوبارا شلف پر رکھا اور اس کا شکریہ ادا کرنے کو مڑی مگر وہ کمرے میں نہیں تھا اس نے حیرانی سے لائبہ کو دیکھا وہ
وہ تو گیا اپنا پہلا تحفہ تمہیں دے کر اور وہ بھی کتنا پیارا تحفہ لائبہ نے شرارت سے کہا اور ہنستی ہوئی باہر نکل گئی
ثانیہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی
ساری تیاریاں مکمل ھوچکی تھی آج یہ دلہن کی طرح سجا ہوا گھر لگ نہیں رہا تھا کہ یہ ایک خوفناک حویلی ھے جس سے لوگ ڈرتے تھے بلکہ آج تو بہت چہل پہل اور رونک لگی ھوئی تھی بہت پیارا سجایا گیا تھا حویلی کو اور مہمان بھی آنا شروع ہوگئے تھے حاکم چچا کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی آج شادی تھی وہ بہت خوش تھے گھر کی سب عورتیں تیار ھو رہی تھی ثانیہ بھی اپنے کمرے میں تیار ہونے آئی تھی مگر پتہ نہیں کیوں اسے لگ رہا تھا کوئی ہر لمحہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے کوئی اسکا پیچھا کررہا ھو مگر کچھ نظر نہیں آرہا تھا وہ بیڈ پر بیٹھی تھی کے اس کے سامنے چھت سے فرش پر ایک چپکلی گری ابھی وہ اس چھپکلی کو دیکھ ہی رہی تھی کے چھپکلی کا سائز بڑھنا شروع ھوگیا اور وہ پھیلنے لگی اسکی آنکھیں لال اور بڑے بڑے ناخن ثانیہ کی پہلے تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی کہ یہ کیا ھورہا ھے مگر جب اس نے چھپکلی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی اور  وہ چلانے لگی


تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں 

جنات کی دشمنی اردو کہانی - پارٹ 4

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے