نیلا ستارہ - اردو کہانی

urdu stories
 

Urdu Font Stories (مزے دار کہانیاں)

نیلا ستارہ - اردو کہانی

محبت کیا شے ہے۔ زندگی بھر اس لفظ سے عقیدت نبھاتے ، اس نام پر خود کو نچھاور کرتے ، وہ آج پہلی بار اس کے معنی کھوج رہی تھی۔ وفا اور امانتداری کے مفہوم بھی آج اس نے پہلی بار جانچے تھے۔ اس نے زندگی میں کیا کچھ نہیں سنا تھا مگر آج اس نے کیا سنا تھا اور اب وہ خود کیا کہہ گئی تھی۔ آنسوؤں کی دھندلاہٹ میں وہ اس شخص کا چہرہ کا واضح دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جس کے لیے اس نے اپنی ذات بھلا دی تھی۔ جس کے وجود سے اس نے دنیا میں سب سے بڑھ کر محبت کی تھی، جس کی تکلیف اور خوشی کو اس نے اس سے بڑھ کر محسوس کیا تھا، جس کی محبت تک سے اس نے عشق کیا تھا۔ آج ہر شے ختم ہو رہی تھی شاید صرف اس کے لیے ختم ہو رہی تھی ۔ قول نبھانے ، امانت لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔

 اس نے زندگی کو انگلیوں کے بیچ سے بہتے ہاتھوں سے نکلتے محسوس کیا تھا۔ ایشیا میں لیدر کا کام کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کا نمائندہ کانٹریکٹ پر دستخط کر کے فائل آگے سرکا چکا تھا۔ فائل اب میرے سامنے رکھی گئی تھی۔ کانٹریکٹ میرا پہلے سے دیکھا ہوا تھا۔ یہ بنوایا ہی میں نے خود تھا، اپنی مرضی کی شرطوں پر ۔ لیدر کی مصنوعات کی فراہمی کے اس معاہدے کی کتنی ہی کمپنیز خواہاں تھیں اور میں نے یہ با آسانی ان کے منہ سے چھین لیا تھا۔ یہ بے شک بڑی کامیابی تھی مگر اس کانٹریکٹ یہ سائن کرتے مجھے کوئی خوشی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سینیٹری (Signatory) سے ہاتھ ملاتے میں رسما بھی نہ مسکرا سکا تھا۔ میرا پی اے روحیل ان لوگوں کو باہر تک چھوڑنے گیا تھا۔

 یہ کام ہمیشہ میں خود کرتا ہوں پر آج نہ کر سکا تھا۔ اپنے آپ میں الجھنے کے سوا میں فی الحال کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں روحیل ایک بار پھر میرے سامنے تھا۔ وہ مجھے کانٹریکٹ سائن ہونے کی مبارک باد دے رہا تھا۔ ”سر! وہ جنید سر کا بھی فون آیا تھا، وہ یاد دہانی کرا ر ہے تھے کہ گھر کا انٹریئر تقریباً مکمل ہو گیا ہے، آپ کو دیکھنے جانا تھا۔ میں نے سر کی جنبش سے بات سن لینے کا اشارہ دیا تھا۔ نتاشہ میڈم آئی تھیں، آپ میٹنگ میں تھے تو وہ مسیج چھوڑ گئی ہیں کہ ڈنر آپ ان کے ساتھ کیجیے گا۔“میں نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ روحیل کے چہرے پہ رشک تھا۔ واضح تھا کہ میرا پی اے مجھے جنت میں کھڑا دیکھ رہا ہے- تیس سالہ روحیل احمد دو سال قبل میرے پاس نوکری کے لیے آیا تھا۔

 معاشی مجبوریوں نے اسے تعلیم مکمل نہیں کرنے دی تھی۔ وہ محنتی ہے محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان دار اور وفادار بھی تھا۔ جب ہی میں نے اسے بطور پرسنل اسٹینٹ متعین کر لیا تھا۔ یہ صرف روحیل کی مشکل زندگی کا شاخسانہ نہ تھا، کوئی بھی ہوتا تو اس وقت عاریان ریاست جہاں ہے اسے دیکھ کر وہ رشک ہی کرتا یا پھر پچھلے تین سال میں میرے کاروبار نے معجزاتی ترقی کی تھی۔ میرے ہاتھ تھے کہ جسے چھو لوں وہ سونا ہو جائیے۔ جس پوش علاقے میں کتنی بڑی میں نے زمین کی تھی ، وہی کم بات نہ تھی کہ پھر اس گھر کی تعمیر اور آرائش پاکستان کے ماہر اور بہترین ناموں نے کے اس بنگلے کو دیکھنے سے تعلق رکھنے والی چیز بنا دیا تھا اور یہ سب کیا کم تھا کہ اب وہ حسین نتاشا نامی بلا صبح شام میرے آگے پیچھے پھر رہی تھی۔ ۔ روحیل کا رشک کچھ ایسا ہے جواز بھی نہ تھا، بس اس رشک کے پیچھے کی وجوہات سمجھی تھیں ۔ 

پچھلے دو دن میں ، میں پہلی بار مسکرا رہا تھا۔ ٹھیک ہے، تم جاؤ۔” اسے وہاں سے بھیجتے میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے قدرے پر سکون تھا۔ میں نے ایک اہم فیصلہ لے لیا تھا، وہ زیادہ منطق پر مبنی نہ تھا مگر میں مطمئن تھا ۔گاڑی ہموار راستے پہ تیزی سے رواں تھی۔ میں ایک کنسائمنٹ کو دیکھنے شہر سے باہر اپنے گودام جارہا تھا۔ آرائشی قالینوں کے اس آرڈر کو میرا کلیئرنس ملنے پر سپلائی کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ گاڑی میں میرے ساتھ روحیل اور ڈرائیور بشیر تھے۔ ”سر آپ اپنے نئے گھر میں کب شفٹ ہوں گے۔” میں اپنے موبائل پر ای میلز دیکھ رہا تھا۔ میرے فارغ ہوتے ہی روخیل نے اپنی جستجو کا اظہار کیا تھا۔ مجھ سے زیادہ وہ میرے نئے گھر میں شفٹ ہونے کا منتظر تھا۔ میں اس کی بے تابی پر ہنس پڑا، جبکہ میرے جواب پر اس کا منہ اتر گیا۔ فی الحال تو کچھ عرصہ تک میں وہاں شفٹ نہیں ہو سکوں گا۔“ ” کیوں سر؟ اس کے علم میں تھا کہ وہاں سب کام مکمل ہو چکا ہے۔

میری وائف وہاں جانے میں کمفرٹیبل نہیں ہے۔ وجہ سن کر روحیل نہ صرف حیران ہوا تھا بلکہ اس کے چہرے سے ظاہر تھا کہ اسے میرا فیصلہ اور اس کے انتہائی احمقانہ لگے ہیں۔ اپنے طور پہ تو وہ یہی طے کیے بیٹھا تھا کہ میں اب اس نئے شان دار گھر میں ۔ نئی بیوی وہ بھی نتاشا یا اس جیسی عورت کے ساتھ ۔ پچھلے دو سال میں روحیل نے ہر پل میرا مشاہدہ کیا تھا، میں جیسے اس کا مدرسہ بھی تھا اور استاد بھی۔ خاک سے اٹھ کر کامیابی کی بلندیوں تک کیسے پہنچنا وہ یہ میری زندگی سے سیکھنا چاہتا تھا اور میں جو وہاں پہنچ گیا تھا؟ کامیابی کے اصل معنی اب سمجھا تھا۔ جو فیصلہ روحیل کو حماقت لگ رہا تھا ، اسے لیتے میرے دل ہے وہ بوجھ اتر گیا تھا جو پچھلے دو دن سے مجھے کسی پل چین نہیں لینے دے رہا تھا ۔ وہ میری زندگی سے سب سیکھ رہا تھا اور میں اسے اتنا اہم سبق نہ دیتا۔ وہ گڑ بڑایا تھا۔ اس کے پاس اس سوال کا جواب یقینا نفی میں تھا۔ اس کی اپنی شیادی ڈیڑھ سال پہلے اس کے چچا کی بیٹی سے ہوئی تھی۔

 مشکل حالات اور اس میں شادی جیسی ذمہ داری اس نے بیمار باپ کے دباؤ میں آ کر کی تھی۔ ایسی عورت کی اسے کتنی قدر تھی جو اس کے سر تھوپی گئی تھی ، اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ لیکن سر! انسان اپنی کامیابی بھی انجوائے نہ کرے کیا ؟“” کامیابی کیا ہوتی ہے روحیل احمد ! اگر تمہیں لگتا ہے کہ بنگلا، گاڑی، بینک اکاؤنٹ میں روپیوں کا ڈھیر کامیابی ہے تو تم غلط ہو۔ میں زندگی بھر ان چیزوں کے پیچھے بھاگا ہوں۔ اس بھاگ دوڑ میں کیا گنواتا رہا ہوں، مجھے اب پتا چلا ہے۔ ان چیزوں کی خواہش رھی غلط نہیں ، ان کے لیے محنت بھی کرنی چاہیے لیکن انہیں زندگی کا حصہ سمجھنا چاہیے، کل زندگی نہیں۔ اگر یہ سب چیزیں آپ کو سکون نہ دے سکیں، جو خوشی پاس ہوا سے محسوس نہ کرنے دیں تو یہ کامیابی کہلانے کے لائق ہو سکتی ہیں بھلا ؟“ میں رکا تھا۔ روحیل خاموش رہا ۔ اس کو خوشی کے معنی بتاتے میں جیسے خود اس کے معنی نئے سرے سے جان رہا تھا۔ خوشی میری بیوی کے محبت سے پکائے کھانے میں ہے، جس کے بارے میں مجھے یقین ہو کہ وہ رزق حلال ہے۔ اس پر سکون نیند میں ہے جبکہ مجھے طمینان ہو کہ میری وجہ سے کسی دوسرے کی نیند حرام نہیں ہوتی ہے۔ کامیابی تو اس مسکراہٹ میں بھی ہے و میری بیوی کے چہرے پہ چند روپیوںسے آجاتی ہے۔”

میرے تصور میں ایک مسکراہٹ کھیلی تھی، روحیل ذرا متاثر نہیں لگ رہا تھا۔ ہم دنیا داری میں پڑے اس کے معیاروں سے چلتے اکثر کامیابی کا وہ پیمانہ فراموش کر دیتے ہیں جو رب ذو الجلال نے بیان فرمایا ہے، مجھے اچانک وہی یاد آیا تھا ۔ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ انسان جہنم سے بچ جائے اور جنت میں چلا جائے۔ اللہ کی رحمت کا امیدوار ہونے کے لیے ہمیں اتنا تو کرنا ہی ہے تاکہ اس کی عائد کردہ عبادت کے فرائض ادا کریں اور اس کے بندوں کے حقوق نبھا ئیں ۔ لوگوں میں پہلا حق گھر والوں کا ہوتا ہے اور اہل بیت میں سب سے پہلے بیوی آتی ہے۔ ہم دنیا کے سامنے مینزڈ بنتے یہ ایک اہم بات اتنی آسانی اور دیدہ دلیری سے فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم سے اس عورت کے حقوق کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی جسے ہم نے اللہ کے اقرار کے ساتھ نکاح میں لیا ہے۔ لاشعوری طور پر ہم کھنچتے ہیں تو اس عورت کی طرف جو شیطان کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اپنا آپ اس طرح پیش کرتی ہے کہ ہم بچھ جا تے ۔ ہم ایسی عورت کی عزت چاہے نہ کریں، ہم اپنی توجہ اور التفات اسی پہ لٹاتے ہیں۔

 ہمیں اہمیت دینے کے قابل ہی لگتی ہے، گھر میں ہماری عزت کی پاسدار بنی سادہ سی عورت کو تو ہم فارگرانٹڈ لیتے ہیں۔ بیوی ہے کیا بڑی بات ہے، ہماری خوشی اور عزت کا خیال رکھنا فرض ہے اس کا ۔ ہم اس کے حقوق بھول جاتے ہیں، غلط کرتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے اس کی خوشی کا خیال رکھنا۔ نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے اور ہم اسے دنیا کی سب سے ہلکی شیے گردانتے ہیں جانتے ہو کہ وہ قابل قدر کیوں ہوتی ہے؟“ ظاہر ہے روحیل یہ نہیں جانتا تھا، میں بھی تو یہ سب آج ہی دریافت کر رہا تھا ۔ “کیوں کہ پاکیزہ بیویاں آدمی کو جنت میں ملیں گی۔ دنیا میں جس طرح اللہ نے جہنم سے عبرت دلانے کے لیے باغات اور نہریں بنائی ہیں ، اسی طرح نیک بیوی بھی جنت کی عورت کی جھلک ہے ۔گاڑی میں اب گہرا سناٹا تھا۔ روحیل میری بات سے متفق تھا یا نہیں، میں نہیں کہہ سکتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈرائیور بھی ہماری طرف متوجہ تھا۔ وہ بیک ویو مرر میں روحیل کو دیکھ رہا تھا، مخاطب البتہ مجھ سے ہوا تھا۔ ”صاحب جی! آپ جتنی گہری باتیں تو میں نے نہیں سوچی تھیں، البتہ میں نے تو تو بڑی سادہ سی بات سے اپنی بیوی کو عزت دینی سیکھی تھی، میں پہلے جب دوسری جگہ نوکری کرتا تھا بڑا خوار ہوتا تھا۔ دن بھر صاحب لوگوں کے سامنے جی حضوری کرتے میرے پاس اپنا اختیار اور اقتدار دکھانے کو صرف بیوی ہی ہوتی تھی۔ میں اسے بہت سنا سکتا تھا ، سناتا تھا۔ اس نے برداشت کرنا تھا ، وہ کرتی تھی۔ پھر ایک بار گجرے بیچنے والے ایک بچے سے جان چھڑانے کے لیے میں نے اس سے گجرے خرید لیے ۔ گھر لا کر بیوی کے ہاتھوں پہ رکھے تو وہ بے تحاشا حیران ہوئی۔

 اس کی حیرانی مجھے گالی کی طرح لگی۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ میری بیوی مجھے چند روپیوں کے پھولوں کا بھی اہل نہیں سمجھتی ۔ پھر وہ خوش ہونے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ اسے خوش کرنا کتنا آسان کام تھا اور صاحب جی جب میں نے اس کے ہاتھ سے لے کر وہ گجرے اسے پہنا دیے تو وہ بس خوشی سے مری ہی نہیں تھی۔اس دن سے میں نے اپنا رویہ بدل لیا اس سے۔ اس سے مسکرا کر بات کرتا ، اس کی بات سنتا، اسے عزت کیا دی، اللہ نے مجھے عزت دلوادی۔ پانچ سال ہو گئے اس بات کو اور اس دن سے کسی نے مجھ سے بد تمیزی سے بات نہیں کی۔ عزت ذلت دینے والی ذات تو بس اللہ کی ہے نا۔ ہم اس کی دی نعمت کی ناقدری کر کے اپنے لیے کون سے تم نے نام کرا لیں گے۔ ہم مرد سب ایک سے ہوتے ہیں ، عورتیں بہت الگ الگ طرح کی اور یہ جو ہماری عورتیں ہوتی ہیں نا۔

 قناعت والی ناقدری سے رکھو تو خوش نہیں رہتیں۔ عزت اور جان سے گھر کی ملکہ بناؤ تو خوش رہتی ہیں۔ یہ پودوں کی طرح ہوتی ہیں، تیز دھوپ میں جھلس جاتی ہیں مگر شور نہیں کرتیں۔ ان پڑھ ڈرائیور گہری باتیں کر رہا تھا۔ میں اور روحیل گہری سوچ میں تھے، میں یہ سوچ رہا تھا کہ دوسروں کو نصیحت کرنا کتنا آسان کام تھا، ہاں میں نے اتنے برسوں میں ستارہ کا بہت خیال رکھا دیگر صرف اس حد تک کی اپنی بساط کے مطابق سہولتیں دیتا رہا تھا۔ محبت کی تشنگی کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ میرے کچھ قصور تھے، میں انہیں سوچ رہا تھا مگر ساتھ ہی ستارہ کی غلطیاں بھی شمار کر رہا تھا۔ ساتھ بیٹھا روحیل نہ جانے کیا سوچ رہا تھا، شاید وہ بھی خود کو جانچ رہا تھا۔

گاڑی گودام کے باہر رکی تو سوچوں کا سلسلہ تمام ہوا ۔ ڈرائیور گودام کے منیجر کو بلانے گیا تو میں نے روحیل سے پوچھ ہی لیا کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔ میں بس حیران ہو رہا تھا کہ آپ کی وائف ایک لگژری بنگلو میں شفٹ ہونے میں ان کمفرٹیبل کیوں ہیں؟“ روحیل کو اپنی بیوی کو سوچنا تھا مگر وہ عام مردوں کی طرح کسی اور کی بیوی کو سوچ رہا تھا۔ اس کا سوال مجھے چبھا تھا۔ عورت کا قصور ڈھونڈ لینا آسان ہے، اپنی کوتاہی بھی اس کے کھاتے میں ڈال دینا اس سے بھی زیادہ آسان۔ اچانک میری غلطیاں پس منظر میں چلی گئی تھیں، ، ستارہ کے قصور بڑے ہو گئے تھے۔ کارگو کے لیے جانے والا سارا سامان بالکل ٹھیک تھا۔ کام ختم ہونے کے بعد میں وہاں سے فوراً نکل گیا تھا۔ 

میری عادت ہے کہ کام ختم ہونے کے بعد میں کچھ دیر وہاں ٹھہر کر اپنے ماتحتوں اور مزدوروں کا حال احوال لیتا ہوں۔ اسلم نظر نہیں آرہا ؟ سب سے باتیں کرتے اچانک مجھے اپنے ایک لوڈر کا دھیان آیا تھا۔ روشنی کم ہے نا اس لیے نظر نہیں آ رہا ہوگا۔کسی کونے سے صدا بلند ہوئی تھی اور پھر ہر طرف قہقہے ہی قیقے تھے۔ پھر کسی نے اسے بلانا شروع کیا تھا۔ کلو کلو ادھر آ ۔ صاحب بلا رہے ہیں ۔ اسے میرے سامنے کیا گیا اور میں آج پہلی بار ان کے طرز تخاطب پہ غور کر رہا تھا۔ ان لوگوں نے آپس میں نام رکھے ہوئے تھے ، رنگ، قد یا جسمانی ہیئت کے مطابق اور ان میں سے اکثر تضحیک کا پہلو لیے تھے۔ میں نے پکی رنگت والے اس نوجوان لڑکے اسلم کی طرف دیکھا تھا۔ وہ خود یہ کسے گئے جملے سن چکا تھا اور اب اپنی رنگت پر شرمندہ نظر آ رہا تھا ۔

 وہ چیز جو اس کے اختیار میں نہ تھی اس پر سر جھکائے کھڑا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں، الگ الگ رنگ و نسل ، قد و ہیئت میں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی شناخت کر سکیں ۔ اس لیے نہیں کہ کسی کو خود سے کم تر سمجھیں۔ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو بہترین صورت دی، ہم میں جو باقیوں سے الگ ہے وہ ہماری خاص شناخت ہے، ہمارے نقص کا پہلو نہیں ۔ اب سے کوئی کسی کو برے نام سے نہیں بلائے گا ۔”الفاظ خود بخود میرے منہ سے ادا ہو رہے تھے، جو کچھ دیر قبل میں خود سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب انہیں سمجھا رہا تھا بعض دفعہ ساری گر ہیں ایک کے بعد ایک کھلتی جاتی ہیں، سارے جواب ایک ساتھ مل جاتے ہیں یا پھر شاید جواب ہمیشہ سے ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ ہم ہی انہیں دیکھ نہیں پارہے ہوتے ہیں ، کسی نے سچ کہا ہے کہ وہ لوگ جو ہماری زندگی کا حصہ ہوتے ہیں ، جن کی تکلیف ہم روز دیکھتے ہیں ان کے لیے ہمارے اندر کا احساس آہستہ آہستہ سو جاتا ہے۔ پرائے لوگوں سے ہمدردی کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے درد کو دور کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرنا نہیں ہوتا ۔ بس زبانی ہمدردی جتلائی ، ان کے اپنوں کو ملامت کی اور آپ بڑے بن گئے۔ روحیل کا جو سوال مجھے چپ کرا گیا تھا اس کا جواب اور مجھے الجھائے معمے کا آخری ٹکڑا میرے ہاتھ آ گیا تھا۔

☆☆☆

”دیکھ میں نا کہتی تھی کہ یہ ہے ہی ایسی۔ اس کے نہ ہاتھ میں کوئی چیز ٹھہرے گی، نہ جہاں اس کا سایہ پڑے گا وہاں کوئی چیز پھلے گی۔ یہ نیلا داغ تو ویسے بھی نحوست کی علامت ہوتا ہے۔“ ”میری بہو کے ہاں خوش خبری ہے، نیلو سے کہنا اب ہمارے گھر نہ آئے ۔“ یہ ستارہ کا بچپن تھا۔ محلے کی عورتوں کے پاس اس کے بارے میں ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں۔ یہ صرف اس چھوٹے شہر کے متوسط طبقے کے محلے کی عورتوں کی ذہنیت کی بات نہ تھی، معزز محفلوں میں بھی اس نے اپنے ساتھ چلنے والی اس شے پہ لوگوں سے کچھ نہ کچھ سن رکھا تھا۔ “اچھا آپ کا نام ستارہ ہے، مجھے لگا نیلم یا نیلوفر وغیرہ ہوگا۔ پھر سب آپ کو نیلوکیوں کہتے ہیں؟ اچھا یہ جملہ ادھورا چھوڑا گیا تھا لیکن اس کے چہرے پہ جھی اس نظر نے الفاظ کی کمی پوری کر دی تھی۔ مہنگی ساڑھی اور ڈائمنڈ جیولری میں لدی ایک ریٹائرڈ کرنل کی وہ کہنے کو مہذب اور تعلیم یافتہ بیوی ، اس لمحے میں ہمارے محلے کی جاہل عورتوں سے کسی طرح کم نہ لگی تھی۔ بہت سی چیزیں انسان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں مگر وہ ان کا عادی نہیں ہو پاتا ، شاید وہ بھی نہیں تھی۔ وہ پیدائشی یتیم تھی۔ اس کی پیدائش سے دو ماہ قبل عفیف علی اچانک ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ کوثر خالد نے شوہر کی آخری نشانی کو اللہ کی عطا کردہ تسکین جانتا تھا اور ۔ بے حد محبت اور مان سے اس کا نام ستارہ رکھا تھا۔ بیٹی تم نے بھی کہاں اس کا نام ستارہ رکھ دیا ہے۔

 اتنی تو بد نصیب ہے یہ ، بری قسمت کا ہی ستارہ بنے گی۔“ محلے کی سب سے بزرگ خاتون رخسانہ اماں نے رائے دی تھی اور اس کے بعد سے تو جیسے یہ بات مصم ہو گئی تھی کہ ستارہ بد قسمت تھی اور اس کی بدقسمتی پھیلتی گئی۔ یہ رائے شاید اتنی پکی نہ ہوتی اگر اس کے چہرے پہ وہ نیلا داغ نہ ہوتا ۔ اس کے بائیں رخسار پہ آنکھ کے کناروں تک پھیلا نیلے رنگ کا پیدائشی نشان تھا۔ ستارہ کی ساری خوب صورتی اس داغ کے آگے نظر انداز کر دی گئی تھی اور وہ داغ نحوست کی علامت قرار پاتے اس کی پہچان بن گیا تھا۔ محلے کی عورتیں اور بچے تیلی نیلی کہہ کر چھیڑتے۔ کوثر خالد کچھ عرصے تک تو احتجاج کرتی رہی تھیں مگر پھر مستقل جہاد جیسی زندگی نے ان کی توانائی دوسری چیزوں میں الجھادی تھی۔

پھر یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے، ستارہ کے ہاتھ سے دودھ کا بھرا برتن گرا تھا۔ حالات کی ماری کوثر خالد کے لیے وہ نقصان اتنا بڑا تھا کہ غصے میں انہوں نے پہلی بار ستارہ کو نیلو پکارا تھا۔ اس دن میں نے ستارہ کے یقین کو سامنے پڑے مٹی کے برتن سے زیادہ ٹکڑوں میں بٹتے دیکھا تھا ۔ وہ بہت لائق نہ تھی مگر پاس ہو جاتی تھی۔ اس دن پہلی بار کلاس ٹیسٹ میں فیل ہوئی تھی۔ اسے ستارہ پکارنے والی واحد ہستی اس کی ماں نے بھی اسے نیلو بنا دیا تھا اور اس نے خود کو نیلو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ جہاں تک میری بات تھی تو میں بھی باقیوں کی طرح اسے نیلو ہی پکارتا تھا لیکن میں نے بھی اسے نحوست نہیں سمجھا۔ میں کیسے سمجھ سکتا تھا میرے چہرے یہ کوئی نیلا داغ نہ تھا مگر کہانی میری بھی ستارہ سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ میں اس کے سامنے والے گھر میں رہتا تھا ، میرے والد کا بھی میرے بچپن میں انتقال ہو گیا تھا اور اس صدمے نے میری ماں کو آدھے دھڑ کا فالح دے دیا تھا۔ میں ستارہ سے زیادہ لائق اسکول ، کالج میں پوزیشن لیتا رہا تھا مگر اتنا بھاگ کر بھی وہیں کھڑا تھا۔ میری ماں میرے افسر بننے کے خواب دیکھتی تھی اور میں ایک ڈھنگ کی نوکری تک نہ حاصل کر پایا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں بس نا کام ہونے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ ناکامیوں کے ان گھٹا ٹوپ میں پہلی بار مجھے کچھ من چاہا ملا تھا۔ زرتاشہ اندھیروں میں افتخار وہ ہمارے محلے میں ہی رہتی تھی ۔ عمر میں ستارہ سے پانچ سال چھوٹی تھی، مگر اداؤں میں اس سے کہیں آگے تھی۔

 وہ صرف حسین نہیں تھی بلکہ فتنہ خیز حد تک حسین تھی۔ میں اس کی ایک جھلک پر اس کا دیوانہ ہو گیا تھا اور ایک ملاقات کے بعد اس کا اسیر- اظہار محبت اور اس کے جوابی اقرار سے مجھے یوں لگا تھا کہ زندگی کی ہر محرومی کا ازالہ ہو گیا تھا۔ ہمارا سلسلہ ڈیڑھ سال چلا تھا۔ ہمارے بیچ قاصد ستارہ تھی۔ خطوط ، پھول، تحائف میرے اختیار میں جو کچھ تھا میں زرتاشہ یہ لٹانے کو تیار تھا مگر میرا اختیار بہت محدود تھا۔ اس کی شادی ایک امیر شخص سے کر دی گئی تھی جو عمر میں اس سے خاصا بڑا تھا ۔ میں رشتہ بھیجنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ زرتاشہ شادی ہو کر کسی دوسرے شہر چلی گئی تھی اور ان ہی دنوں میری امی کا بھی انتقال ہو گیا -میرے لیے جیسے دنیا ختم ہوگئی تھی۔ دنیا میں تو کوئی کوثر خالد کا بھی نہیں تھا، وہ ستارہ کی فکر میں بیمار رہنے لگی تھیں۔ ستارہ جوان تھی، پڑھی لکھی اور خوب صورت تھی۔ وہ نیلا نشان جو پیدائش کے وقت اس کے آدھے سے زیادہ رخسار پہ پھیلا ہوا تھا ، عمر کے ساتھ آنکھ تلے اور رخسار کی ہڈی تک محدود رہ گیا تھا۔ مگر بات خوب صورتی کی تھی ہی نہیں ، جسے ایک زمانہ بدنصیبی کے لیے جانتا تھا اسے کون اپنا نصیب بناتا ۔ 

جن کی خوشی کے لیے آپ جان دے سکتے ہوں اور وہی آپ کے تم میں مر رہے ہوں تو یہ سہنا دنیا کا کٹھن ترین کام ہوتا ہے، اپنی مشکل سے نجات حاصل کرنے ستارہ میرے پاس آئی تھی۔ ”مجھ سے شادی کرلوں عاریان! زندگی میں اگر کبھی زرتا شہ واپس آگئی تو میں تمہاری زندگی سے خاموشی سے چلی جاؤں گی ۔ میں با آسانی مان گیا تھا۔ کوثر خالد کا بہت مقام تھا میرے دل میں یوں بھی مجھے یقین تھا کہ اب بھی محبت نہیں ہوئی تو پھر ستارہ ہوتی یا کوئی اور کیا فرق پڑتا تھا۔ ہماری شادی کے آٹھ ماہ بعد کوثر خالد کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ میں ستارہ کو لے کر کراچی آ گیا تھا۔ بڑے شہر میں بڑے خواب لے کر ، اب مگر میں پہلے والا عاریان ریاست نہ رہا تھا۔ میں پہلے بھی پیسے اور آن بان کے خواب دیکھتا تھا مگر پہلے کی طرح اپنی ماں کی خواہش مطابق افسر نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں اب پریکٹیکل ہو کر سوچتا تھا، پرائیوٹ نوکریاں کرتے میں نے ایم بی اے کیا تھا اور پھر انتھک محنت کے بارہ سال لگے تھے کہ وہ جو زندگی میں ہر طرح ناکام تھا، 

اب پاکستان میں برآمدات کا سب سے بڑا نام بن گیا تھا- آج میرے پاس وہ سب کچھ تھا ، جس میں کبھی میں نے خوشی کے معنی مقرر کیے تھے۔ گھر، گاڑیاں، کاروبار اور وہ جے بھی دیوانوں کی طرح چاہا تھا زرتاشہ۔ وہ بھی میرے پاس پلٹ آئی تھی، اپنے دوسرے شوہر کو اس نے حال ہی میں چھوڑا تھا اور اب وہ میرے گرد منڈلا رہی تھی۔ اس نے اپنا نام یاشہ کر لیا تھا، وہ اب بھی ویسی ہی بلا کی حسین تھی۔ ادا میں اس کی وقت کے ساتھ مزید قاتل ہوگئی تھیں ۔ ” مجھے اس شہر میں سب ملا بس محبت نہیں ملی ۔اس کی فرمائش پر میں آج اسے ڈنر کے لیے لایا تھا۔ وہ بہت سے اعتراف کرتی پھر اقرار پہ آئی تھی ۔ اس نے ایسی لجاجت سے مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی کہ اگر میں تیرہ سال پہلے والا عاریان ہوتا تو پھل کر اس کی مٹھیوں میں جا سماتا۔ ” تم اگر صرف محبت سے لیے مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو مت کرو۔ وہ میرے پاس تیرہ سال پہلے تھی تمہارے لیے، اب نہیں ہے۔ ہاں میرے پاس اب وہ ہے جس کے لیے تب تم مجھے چھوڑ گئی تھیں۔ تاشہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔ وہ آخر مجھے کتنا بے وقوف سمجھتی تھی۔ تیرہ سال پہلے جب میں نے ہار مانی تھی، اپنے حالات سے نہیں مانی تھی۔ اس کی بے وفائی سے مانی تھی۔ اس کی شادی کی خبر پر میری آشفتہ سری دیکھ کر ستارہ ایک آخری کوشش کرنے گئی تھی زرتاشہ کے پاس۔ اس نے مجھے زرتاشہ کی مجبوری کے دس عذر بنائے تھے۔ بہت سے معاملوں میں ستارہ بالکل اناڑی تھی اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنا تھا۔ میں اپنی تشفی کے لیے ایک بار خود سے جا کر دیکھ بھی آیا تھا کہ زرتاشہ کس قدر خوش تھی اس شادی پر – مجھ جیسے خالی ہاتھ شخص کی محبت پہ کسی کی دولت کو چن لیا- برا یہ تھا کہ آج ایک بار پھر وہ اس محبت کو جو وجود ہی نہیں رکھتی تھی، ہتھیار بنا کر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ سے میں پہلے ہی اپنا کتنا نقصان کر چکا تھا۔ اس کی ضد میں کیا بن گیا تھا میں اس کے چھوڑ جانے کی جلن میں ۔ میں نے کامیابی اور خوشی کا معیار صرف پیسے، اسٹیٹس اور شان و شوکت کو بنالیا تھا۔ میں ہر روز کی چھوٹی خوشیوں کو جینا بھول گیا تھا، محبت کو محسوس کرنے کا دھیان نہ رہا تھا مجھے اور پھر کیا ہوا تھا۔

 دو روز قبل جب میں نے ستارہ کو بتایا تھا کہ بنگلے پر کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور اب جلد ہمیں وہاں شفٹ ہونا ہوگا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔

میں جانتی ہوں کہ زرتاشہ واپس آگئی ہے۔ میں اپنے قول پہ قائم ہوں ۔ تم میرے ہر حق سے آزاد ہو۔ تم اس سے شادی کر کے اپنے نئے گھر میں چلے جاؤ۔ جانے اسے کسی سے، کیسے اور کیا پتا چلا تھا کہ وہ اتنی دل گرفتہ تھی۔ مجھے قدم قدم سنبھالنے والی جب میرے سامنے زار زار روئی تو مجھے یوں لگا کہ جیسے کوئی میرے دل پہ تیشہ چلا کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکال رہا ہے۔ میں نے بے اختیار اسے گلے لگایا تھا ، اس کی تکلیف مجھ سےسہی نہیں جارہی ۔ اب جب اس نے مجھے ہر حق ، ہر فرض سے آزاد کر دیا تھا تو مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں اس سب سے تو بندھا ہوں بھی نہیں۔ ذمے داری اور اخلاقی پابندی تو پتا نہیں کب اور کتنی پیچھے رہ ہی گی۔ میں تو اب اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ وہ میری ضرورت ہی نہیں عادت ہو گئی تھی بلکہ مجبوری بن گئی ہے۔ ہاں محبت مجبوری ہیں تو تھی، میں اسے بتا نہیں پایا تھا کہ میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں اور وہ مجھے پرے ہٹا کر چلی گئی تھی۔ میں اس دن سے اس الجھن میں تھا کہ ستارہ آخر ایسی کیوں تھی۔ اعتماد سے خالی، اسے اگر اپنے حق کے لیے لڑنا نہیں آتا تھا تو کم از کم اپنی جگہ تو نظر آنی چاہیے۔ ہم ساتھ ہی اس چھوٹے شہر سے نکلے، 

وہ مجھ سے چند ہی ماہ چھوٹی ہے۔ پرائیویٹ ہی سہی لیکن اس نے گریجویشن کر رکھی ہے پھر وہ اتنی کم عقل کیسے ہو سکتی ہے کہ اپنے شوہر کو کسی اور عورت کے حوالے کرنے کے لیے اتنی آسانی سے تیار تھی۔ میں یہ کبھی نہ سمجھ سکتا اگر آج گودام میں اسلم کا چہرہ نہیں دیکھ آیا ہوتا۔ کیسے کسی ایک شخص کے منہ ہے نکلا معمولی جملہ ہر کسی کی زبان پر چڑھ جاتا تھا۔ رائج رائے سے پھر وہ اس حقیقت بن جاتا ہے اور ایسے بین جاتا ہے کہ پھر دیمک کی طرح کسی کی ساری خوبیوں، اعتماد کو کھا جاتا ہے۔ لاشعوری طور پر وہ شخص خود بھی اپنے بارے میں ہی جانے والی باتوں کو سچ مان لیتا ہے پھر اس کے لیے خود کو جانچتا، پرکھتا، اپنی قیمت پہچاننا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

ستارہ کے لیے بھی ایسے ہی تھا۔ رخسانہ ا ماں کے منہ سے نکلے اس ایک جملے نے ستارہ کی زندگی کو کیا رخ دے دیا تھا۔ نیلو کوکوئی چاہ نہیں ہو سکتی، یہ سب چیزیں ستارہ کے لاشعور کا حصہ میں اور میں ، میں نے بھی اس کی اس سوچ کی صحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے تو بلکہ اسے سرے سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی- نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیدائشی یتیم تھے اور ان کی تو والدہ کا بھی بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ نصیب لکیروں میں ہے نہ بدشگونی کیسی رنگ کے داغ میں ۔ یہ ہماری جاہلا نہ سوچ میں ہوتی ہے۔ ہے، قسمتیں اس رب نے اپنے پاس لکھ رکھی ہیں، جینے کی مدت، مرنے کا وقت رزق کا حساب وہ اپنی مشیت سے پہلے ہی لکھ چکا ہے۔ ہمیں بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے اعمال ابھی لکھے جارہے ہیں یا علیین میں یا سجین میں لکھ حساء اور یہ ہمارے اختیار میں ہے۔” پیل بھی کسی کسی کم عقلی میں کہی بات یا طعنے کے جواب میں، میں ستارہ کی حمایت میں بول پڑتا تھا۔ ایسا کرنے میں میری نیت محض جہالت کی مخالفت اور حق بات کہنے کی ہوتی تھی مگر میں نے بھی سوچا ہی نہیں کہ وہ جس کو سب نے چھوڑ رکھا تھا وہ میری اس ہمدردی کو کیسے لیتی ہوگی۔ کیا اپنے واحد غم خوار کے لیے اس کے دل میں کوئی خاص احساسات نہیں ہوں ا گے۔ میں نے واقعی بھی اس پہلو پر غور نہیں کیا، نہ بھی اس نے احساس کرایا۔ وہ تو دل و جان سے میری اور زرتاشہ کی محبت کے کامیاب ہونے کی خواہاں تھی۔ مجھے تو یہ تک خیال نہ رہا تھا کہ بھی ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔ اماں کی بیماری اور میری ناکامی کے دور میں میرے پاس اپنا حال کہنے کو صرف ستارہ ہی ہوتی تھی۔ 

ہم گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔ کئی بار ہم نے ساتھ بیٹھ ک خواب بنے تھے۔ میں وہ چھوٹا شہر اور عام سی زندگی میں وہ چھوڑنے کی باتیں کرتا تھا اور ستارہ نہیں ان لوگوں اور ان کی باتوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ مزے کی بات تو یہ کی کہ جو بازر تاشہ سے شادی کے بعد شہر آنے کے منصوبے اسے بنایا کرتا تھا تب بھی میں – اسے بھی اپنے ساتھ اپنے بڑے شہر کے بڑے بنگلے ۔ شہر بنگلے میں شمار کرتا تھا۔ وہ تب بھی اس حد تک میری زندگی کا تھی کہ میں نے اپنی عمر بھر کے خوابوں میں اس کا ۔ حصہ رکھا ہوا تھا، بس پیچ مقام پر نہیں رکھا تھا ۔ بعض مرتبہ یوں ہوتا ہے کہ ادھوری حسرتوں سے زیادہ وہ چیز پریشان کرتی ہے جو ان کے بدلے میں زندگی میں آئی ہوتی ہے۔ گاہے بہ گاہے اس خواہش یا تمام کی یاد دلاتی رہتی ہے، اس کا خلا بھر بھی نہیں پاتی اور وہ جگہ خالی بھی نہیں رہنے دیتی۔

 اور وہ خالی ہاں میں ہر گز ستارہ کی کم اعتمادی پہ چوٹ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ میں ہی تھا جس نے زرتاشہ کی حقیقت جانتے بھی اسے خواہش نا تمام مان لیا۔ اپنے اور ستارہ کے بیچ ایک ایسا گریز رکھا کہ وہ یہ تھی نہ سمجھے کہ وہ میری محبت حاصل کر سکتی ہے۔ وہ میری بیوی، رے سفید و سیاہ کی مالکن تو ہو سکتی ہے مگر میرے دل تک رسائی نہیں پاسکتی۔ میں کہیں اپنے اندر اس چیز پہ پختہ ہو گیا تھا کہ مجھے کب کیا چاہیے ، پھر رفتہ رفتہ میں اس کا اتنا عادی ہو گیا تھا کہ پورے دن کی خواری کے دوران ایک ایک اطمینان رہتا تھا کہ گھر پہنچوں گا تو سارے دن کی تھکن کا علاج اور بیش بہا سکون میرا منتظر ہوگا۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے مرد کے لیے کہ اسے گھر اور بیوی کا سکون نصیب ہو۔ ایسی عورت میسر ہو، جو تابع اور صابر ہو، ہر طرح کے حالات میں احسن انداز میں نباہ کرنا جانتی ہو۔ جو زرتاشہ جیسی نہیں ہوتی کہ ذرا کڑا وقت آنے پہ آنکھیں پھیر جائے۔

بدلے میں ، میں نے ستارہ کے ساتھ کیا کیا تھا، اس شہر کو چھوڑتے میں سب بھول گیا تھا۔ دوستی، اپنائیت، خواب میں خود تو وہ محلہ اور Mediocare لائف اسٹائل پیچھے چھوڑ آیا تھا مگر ستارہ صرف وہاں کے لوگ پیچھے چھوڑ سکی تھی۔ وہ نام، اس سے جڑی ساری باتیں اور یادیں میں نے بھی اس سے دور ہونے ہی نہیں دیں۔ آج سوچنے پہ مجھے احساس ہوا تھا کہ میں نے ستارہ کو بھی اس کی نئی پہچان بنانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ جب پکارا، ایسے نیلو ہی پکارا۔ یہ محض اس کے خود پر اعتماد کی کمی نہیں تھی بلکہ مجھ پہ اعتبار کا بھی فقدان تھا۔ عورت اپنے مرد کا عکس ہوتی ہے، وہ اتنا ہی سمجھ سکتی ہے جتنا اس کا آدمی اسے سمجھا پاتا ہے۔ جہاں ہمیں اپنا چہرہ بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عکس سے الجھنا نا دانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ میں نے ستارہ کا اعتبار جیتنے اور اپنی محبت اس پہ ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر میں یہ کام اچانک نہیں . کافیصلہ کیا یہ کرنا چاہتا تھا۔ روشنی اچھی ہوتی ہے، ضروری بھی ہوتی ہے مگر یک دم بہت تیز روشنی کا سامنا بینائی کے : لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس نے بھی تو کبھی آئینہ پکڑا کہ کے میری محبت کی حقیقت مجھ پہ منکشف کرنے کی 1 وشش نہیں کی، مجھے وقت دیا کہ میرے زخم خود بخود بھر جائیں۔ اگر وہ یہ سوچ کر ایک لگژری بنگلو میں میرے شفٹ ہونے میں آرام دہ نہیں ہے کہ وہ بس برے وقت تک کی ساتھی ہے۔ میرے اقتدار کے ۔ وقت میں میری شایان شان نہیں تو میں پھر فی الحال اس کے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے پرانے پرانے گھر گھر میں میں ہی ہی رہوں گا۔

 ایک اوسط مگر خوش باش زندگی میں حمل سے اس پر اس کی اہمیت واضح کروں گا اور جب اسے یقین ہو جائے گا کہ وہ میرے ساتھ ساتھ ہے تب میں اس کے ساتھ اپنے خوابوں کی زندگی کی ابتدا کروں گا۔ سارے گٹھ جوڑ سے فارغ ہو کر میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر چکا تھا اور میرے سامنے بیٹھی زرتاشہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے مجھے دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے اس عورت کی حالت پہ افسوس ہوا جس کا عورت ہونا اس کی باقی صنف کے لیے باعث شرمندگی ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے پہلے شوہر نے اس کو جس افیئر کی وجہ سے چھوڑا تھا اس بندے کو یعنی اپنے دوسرے شوہر کو وہ ایک مالی بحران کی وجہ سے چھوڑ آئی تھی۔ ویٹر نے کھانا سرو کیا تو میں نے بل بھی ساتھ ہی ادا کر دیا تھا۔ تم میرے ساتھ ڈنر کے لیے آنا چاہتی تھیں، سمجھو پرائی محلے داری نبھاتے میں نے تمہاری یہ فرمائش پوری کر دی۔ اس سے زیادہ کی مجھ سے توقع نہ رکھنا ۔ اب تم کھانا کھاؤ، میری بیوی گھر پہ میرا کھانے کے لیے انتظار کر رہی ہوگی ۔ میں اسے اس کے حال پہ چھوڑ آیا تھا۔ روز کی طرح میرے دروازہ کھٹکھٹانے پہ وہ دروازہ کھولنے آئی تھی مگر آج ہمیشہ کی طرح اس نے مسکرا کر میرا استقبال نہیں کیا تھا بلکہ فوری طور پر واپس پلٹنے کو تھی۔ میں نے بھی اسی تیزی سے ہاتھ میں موجود سرخ گلابوں کا بکے اس کی طرف بڑھا دیا تھا۔ میں اس کے لیے بہت چیز میں لایا تھا، پھول آج پہلی بار لایا تھا۔ اس کے چہرے پہ حیرت تھی، میں نے اس گالی کو خندہ پیشانی سے سہا تھا۔ بہت بھوک لگی ہے ۔ 

میں نے اعلان کیا تو وہ سر ہلاتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئی تھی۔ میں بیٹھ کر اسے ٹیبل سیٹ کرتے دیکھنے لگا تھا۔ سادہ سے حلیے میں میرے گھر کے کام کرتی وہ نئے سرے سے میرے دل میں اتر رہی تھی۔ سب کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیمار ماں کی جیسی خدمت کی ویسی بہت کم لوگ کر پاتے ہیں حالانکہ میں صرف اپنا فرض پورا کر رہا تھا۔ میری ماں مجھے ڈھیروں دعا میں دیا کرتی تھیں، ان کی ایک دعا بڑی عجیب تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ اللہ سوہنا تجھے ستاروں جیسی دلہن دے گا۔

نہ چاند جیسی دلہن تو سنا تھا ، ستاروں جیسی دلہن کی مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی تھی پر اب آگئی تھی۔ چاند پرائی روشنی منعکس کرتا ہے ، گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ ستارہ مدھم سی پر اپنے اندر کی روشنی جھلملاتا ہے، کبھی جگمگانے سے نہیں چوکتا۔ اندھیری راتوں میں بھٹکے مسافروں کو امید بھی دلاتا ہے اور منزل کی سمت بھی دکھاتا ہے۔ میں بھی اپنے سامنے جگمگاتے نیلے ستارے کی روشنی سے اپنی آنکھوں اور روح کو خیرہ ہوتا محسوس کر رہا تھا ، اپنے دل اور گھر کو منور ہوتا دیکھ رہا تھا۔ کھانا لگانے کے بعد وہ میرے ساتھ آ کر بیٹھی تھی ، خود سے پہلے میرے لیے کھانا نکال رہی تھی ۔ ستاره ”ستارہ ۔ میں نے اسے پکارا۔ ڈش سے چاول اتارتے اس کا ہاتھ وہیں رک گیا تھا۔ اسے کتنے عرصے بعد کسی نے اس نام سے بلایا تھا۔ ” تم پہ نیلا رنگ بہت جچتا ہے ۔

 اس نے اپنے نیلے لباس یہ نگاہ ڈالی ۔ وہ عام سا کائن کا سوٹ تھا۔ وہ شوخ رنگ ہم پہنتی تھی حالانکہ اچھی لگتی تھی۔ تیز رنگ جہاں اس کی سفید رنگت کو ابھارتے تھے وہیں اس کے چہرے پہ موجود داغ کو مزید واضح کر دیتے تھے۔ اس نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں میری طرف دیکھا تھا مگر میری نگا ہیں اس کے لباس پر کب تھیں اس کے نیلے داغ تھیں ۔ وہ حیران نظروں سے مجھے تک رہی تھی مگر میں نے ابھی اسے اور حیران کرنا تھا۔ میں نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے پوروں سے ہولے سے اس کے رخسار پہ موجود نشان کو چھوا تھا۔ اس کے کناروں کا احاطہ کرتے پھر انگوٹھے سے اسے سہلایا تھا۔ پھر بے ساختہ میں نے اپنی ان ہی دو انگلیوں کو چوم لیا۔

اب میں ایک بار پھر اسے دیکھنے میں مگن تھا۔ پوری فرصت سے اس کے صحیح چہرے کے ایک ایک نقش کو، شانوں پہ کھلتے اس کے بالوں کو اس کی گہری آنکھوں کو پوری تفصیل سے سب کچھ از سر نو از بر کر رہا تھا۔ میں اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ بہت خوب صورت ہے اور اس نیلے داغ سمیت خوب صورت ہے، اللہ نے اگر یہ اس کے چہرے پر سجایا ہے تو اس میں بھی حسن رکھا ہے۔ ستارہ کیے چہرے پہ کئی رنگ کھلے تھے، آنکھوں میں چمک آئی تھی اور پھر میں نے ان آنکھوں میں اس نیلے دھبے کا مقام بڑھتے اسے معتبر ہوتے دیکھا تھا۔ اس کا ہاتھ اب بھی وہیں وہیں ڈش پہ پہ رکا رکا ہوا تھا۔ تھا۔ میں اس کی بے خودی پہ مسکرا دیا بیک وقت اسے بھی اپنی کیفیت کا ادراک ہوا تو وہ کھلکھلا کر نہیں پڑی تھی۔ ایس ہمی سے پھوٹتی میں نے اعتبار کی پہلی کرن دیکھی تھی۔


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,


hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے