Urdu Font Stories (مزے دار کہانیاں)
بلو بھائی کا بکرا - اردو کہانی
گڈو نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے احتیاطاً دروازے کی درز سے جھانکا اور یہ دیکھ کر، دل نے صدمے سے ایک غوطہ کھایا کہ اماں جان سامنے برآمدے میں پلنگ پر تشریف فرما تھیں۔ حالانکہ اس وقت تو وہ دو پہر کی ہانڈی روٹی نمٹا کر ، آرام فرمارہی ہوتی تھیں مگر آج سکون سے بیٹھی ، کیریاں چھیل رہی تھیں ۔ غالباً ابا جان نے آم کی چٹنی کی فرمائش کی تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کی عقابی نظروں سے بچ کر اپنے کمرے تک کیسے جائے۔ سارا دن دوستوں کے ساتھ مٹر گشتی کرنے کے بعد، آتے ہوئے بلو بھیا کی فرمائش پر ، ان کی منگیتر صاحبہ کے گھر سے ہو کر آیا تھا اور منگیتر صاحبہ نے حسب عادت ان کے لیے ایک بڑا سا گفٹ پیک تھما دیا تھا۔ جبکہ اماں جان دوران منگنی اس قسم کے تحفے تحالف کے تبادلے کے سخت خلاف تھیں۔ اب جب وہ ان کے سامنے سے گزرتا تو وہ ضرور اس پیکٹ کا پوسٹ مارٹم کرتیں۔ اب منگیتر صاحبہ نے. خالی خولی تحفے پر اکتفا نہیں کیا ہوگا۔ لازمأ اندر سے مہکتا ہوا ایک محبت نامہ بھی برآمد ہوتا ۔
اس لیے بلو بھیا کی مٹی پلید کروانے سے بہتر تھا کہ وہ مطلع صاف ہونے کا انتظار کرتا رہے۔ مگر آخر کب تک ! گھر سے باہر بھی یوں بے مقصد کھڑا ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہی سوچ کر اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا ۔ شکر ہے کہ کنڈی نہیں لگی ہوئی تھی۔ دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔ اماں اپنے کام میں مگن تھیں۔ ڈیوڑھی میں واشنگ مشین دھری تھی۔ اسے دیکھ کر اس کے شاطر دماغ میں ایک خیال آیا۔ اس نے بے آواز ڈھکن اٹھایا اور گفٹ پیک اندر میلے پیروں میں دبا کر دوبارہ بند کر دیا – متنازع چیز ٹھکانے لگی تو اعتماد بحال ہوا اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا صحن میں داخل ہوا۔ اسی وقت اماں نے سراٹھا کر دیکھا۔ السلام علیکم اماں جان! اس نے پورے جوش سے سلام کیا۔ وعلیکم السلام! اتنی دوپہر میں کہاں سے لور لور پھر کر آ رہے ہو ؟ اماں نے کڑے تیوروں سے گھورا۔ اماں ! ہم سب ہی دوست مل کر عاقب کی بیٹھک میں پڑھائی کرتے ہیں ۔ وہیں سے آرہا ہوں ۔ اس نے سب سے محفوظ عذر پیش کیا۔ مگر ہاتھوں میں کوئی قلم، کتاب تو نظر نہیں آرہی۔ اماں نے کسی تفتیشی آفیسر کی طرح سرسے پاؤں تک جائزہ لیا۔ او ہو اماں ! اتنا بھاری بھر کم تو بستہ ہوتا ہے کون روز لاد کر لے جائے۔ وہیں رکھ کر آجاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اس نے تیزی سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔ گھنٹے بعد جب اماں کیریوں سے بھری پرات اٹھا کر ، کچن میں چلی گئیں تو وہ جلدی سے جا کر مشین سے پیکٹ نکال لایا اور اپنی اور بلو بھیا کی مشترکہ الماری میں چھپا دیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ وہ ہزاروں بار تحالف ادھر سے ادھر اور ، ادھر سے ادھر پہنچا چکا تھا۔ مگر تب وہ پیکٹ اپنے بستے میں چھپا لیتا تھا۔ اسی مقصد کے لیے تو بلو بھیا نے اسے جہازی سائز بستہ خرید کر دیا تھا۔ مگر آج کل کرمیوں کی چھٹیاں چل رہی تھیں ۔ عید الاضحی قریب ہونے کی وجہ سے ٹیوشن اکیڈمی بھی بند تھی ۔ وہ تو دوستوں کے ساتھ موج مستی کر رہا تھا جب بلو بھیا کا پیغام موصول ہوا تھا کہ وہ واپسی پر ان کی منگیتر صاحبہ کے گھر سے ہوتا ہوا آئے ۔ وہ ان کے لیے کچھ بھجوانا چاہ رہی تھی۔ خیر یہ مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو اس نے سکون کا سانس لیا-
رات کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب دونوں بھائی کمرے میں آئے گڈو نے جھٹ تحفہ نکال کر بلو کے حوالے کیا، جسے دیکھ کر بلو کا چہرہ خوشی سے اناری رنگ کا ہو گیا۔ وہ نہایت الفت سے کھولنے لگا تو گڈو بھی اشتیاق سے قریب آ گیا۔ عام طور پر کھانے پینے کی چیزیں ہی برآمد ہوتی تھیں ۔ جن میں لا محالہ گڈو کو بھی حصہ ملنا تھا ۔ مثلاً بیسن کے لڈو، گھر کی بنی برفی، گڑ کا مرنڈ ا یا پھر نمکو وغیرہ۔ مگر اس بار کچھ خلاف توقع برآمد ہوا ۔ مہندی کے پیکٹ، رنگ برنگے اونی پھندنوں کے سے بنے ہار اور ایک چمڑے کا پٹہ جو گھنگھرو اور موتی ستاروں سے مزین تھا۔ اوہو شاید رانو آپی نے غلطی سے کوئی اور پیکٹ پکڑا دیا ہے ۔ گڈو بولا ۔ نہیں پگلے آ یہ اس نے اپنے بکرے کی عیدی بهیجی ہے۔ بلو دبے دبے جوش سے بولا ۔ ہیں کیا بکرے کی عیدی ؟ گڈو کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ ہاں یار بکرے کی عیدی ہے یہ دیکھ یہ مہندی بکرے کو لگائیں گے۔ یہ رنگین پھندنے اس کی ٹانگوں کے ساتھ باندھیں گے۔ اور یہ پٹہ اس کے گلے میں ڈالنے کے لیے ہے۔ رانو نے اپنے ہاتھوں سے موتی ستارے ٹانکے ہیں۔ ہمارے تو بکرے کی سجاوٹ ہی نرالی ہوگی۔ بلو کی تو خوشی دیدنی تھی۔ گڈو بھی اب سمجھ کر ان چیزوں کو قدر سے دیکھ رہا تھا۔
صبح کا وقت تھا۔ اماں کھٹا کھٹ گرم گرم پراٹھے اتار رہی تھیں ۔ ابا ، بلو اور گڈو ان کے پاس ہی چوکیوں پر بیٹھے لذیذ ناشتے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وے بلو ! میں کہہ رہی ہوں ، شیدے قصائی سے کہہ دو کہ اس بار سب سے پہلے ہمارے ہاں آئے۔ پچھلی بار اتنی دیر سے آیا تھا۔ گوشت کاٹتے اور تقسیم کرتے کرتے شام ڈھل گئی تھی۔ اماں نے پر اٹھا بلو کی پلیٹ میں منتقل کرتے ہوئے کہا۔ اماں! میں نے تو شیدے چچا کو ایک مہینے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ پرسوں جب پھر یاد دھیانی کروائی تو اپنی جیب سے، اتنی لمبی لسٹ نکال کر دکھانے لگا کہ پہلے پانچ نمبر تو اس کے سسرالی رشتے داروں کے ہوتے ہیں۔ چھٹا یا پھر ساتوں شاید ہمارا ہو۔ اچھا ! منہ مانگی فیس ہم سے لیتا ہے اور لسٹ میں پہلا نمبر ، اپنے سسرالیوں کا رکھا ہوا ہے اس کم بخت نے اماں کس کر بولیں ۔ گڈو کی ماں! تو شیدے کی لسٹ کو چھوڑ اپنی لسٹ بنا کہ کن کن گھروں میں قربانی نہیں ہے جہاں گوشت بھیجنا ہے، پچھلے سال خالہ کبری کو بھول گئے تھے تو اس نے کتنا ہنگامہ برپا کیا تھا۔ بڑی مشکل سے مانی تھی۔ ابا چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے۔ آپ کے تو سارے کے سارے رشتے دار ہیں ہی فسادی- اماں توا چولہے سے نیچے پٹختے ہوئے بولیں۔
عید الاضحیٰ کی حسین صبح تھی۔ ابا جان ، بلو اور گڈو نے نہا دھو کر، کلف لگے کرتے شلوار زیب تن کیے اور عید کی نماز کے لیے روانہ ہوئے۔ واپس آئے تو اماں نے ڈھیر ساری گلاب جامن ڈال کر ، زردہ بنایا ہوا تھا وہ کھا کر قربانی کی تیاری کرنے لگے۔ بلو بار بارنم آنکھوں سے بکرے کی پشت پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ قربانی کی خوشی اپنی جگہ تھی مگر اتنے دن سے پال پوس رہا تھا تو جدائی کا خیال بھی اداس کر رہا تھا ۔ گڈو نے رسی ، بالٹی ، ٹب اور چاقو، چھری وغیرہ اکٹھے کیے۔ خدا کا شکر کہ قصاب بھی بروقت پہنچ گیا۔ آج کے دن تو اس کے نخرے ہی ساتویں آسمان پر تھے۔ جانور ذبح کیا۔ کھال اتاری۔ تھوڑا بہت گوشت کاٹنے میں مدد کی اور پھر تگڑی سی رقم بٹور کر یہ جا وہ جا۔
اب وہ تینوں مل کر گوشت کاٹنے لگے۔ کام تقریبا ختم ہونے کے قریب تھا جب بلو کے سرکا درد ناقابل برداشت ہو گیا۔ اس نے کمرے میں آکر سر درد کی گولی پھانکی اور تھوڑی دیر کے لیے ستانے لیٹ گیا۔ نجانے کب آنکھ لگ گئی، جو پھر اماں کی پاٹ دار آواز سے ہی کھلی۔ وے بلو! اٹھ جا اب میں نے گوشت پیک کر دیا ہے ۔ جا کر رشتے داروں میں بانٹ آ، اماں! گڈو کو بھیج دونا اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر کہا۔ گڈو نے گوشت کاٹتے ہوئے اپنا ہاتھ زخمی کرالیا ہے۔ تو ہی چلا جا، جا شاباش اماں ایک بڑی سی ٹوکری سامنے پڑی میز پر رکھ کر باہر کی گئیں۔ وہ دو چار انگڑائیاں لے کر اٹھ بیٹھا۔ ٹوکری میں جھانکا تو سفید رنگ کے شاپنگ بیگز میں پیک تازہ تازہ گوشت دکھائی دے رہا تھا۔ اماں نے ہرشاپر پر رشتے دار کا نام لکھ کر چٹ نتھی کر رکھی تھی ۔ وہ دل ہی دل میں ان کی انتظامی صلاحیت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ یونہی دو چار پیکٹ الٹ پلٹ کردیکھے توعجیب سا احساس ہوا۔ بلاوجہ کے وسوسے کو جھٹکنے کے لیے نیچے دبے پیکٹ نکال کر جانچ پڑتال کی تو خدشے کی تصدیق ہوگئی ۔ بددلی سے ٹوکری پرے گھسیٹی اور دوبارہ بیڈ پر ڈھیر ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اماں دوبارہ کمرے میں داخل ہوئیں اس کو جوں کا توں لیٹے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔ بلو ! تو اٹھا نہیں اب تک گوشت خراب ہو جائے گا۔ جلدی کر اٹھ جا اماں! میں نہیں جا رہا وہ بوجھل آواز میں بولا۔ اس گوشت کو بانٹنے سے بہتر ہے کہ تو اسے بھی فریج میں رکھ لے۔ سارا سال کھائیں گے۔ وئے بلو! کیا اول فول بک رہا ہے۔
کیا پہلے سارا فریج میں رکھ لیتے ہیں ۔ تقسیم نہیں کرتے ؟ اماں کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا- وہ جو ٹھس سا لیٹا تھا۔ لفظ تقسیم پر کرنٹ کھا کرسیدها ہوا۔ تقسیم اماں غیرمنصفانہ تقسیم کہو وہ پھٹ پڑا۔ اماں ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھنے لگیں تو اس نے ٹوکری سے دو پیکٹ نکالے اور ان کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔ اماں! یہ دیکھو! یہ خالہ کلثوم اور ماموں ریاض کے نام کے پیکٹ ہیں جن کے ساتھ تمہارے مثالی تعلقات ہیں۔ اس لیے گوشت بھی تم نے چھانٹ کرعمدہ ڈالا ہے ۔ اس نے لفافے کھول کر ان کو دکھائے ۔ اور یہ چچا لیاقت اور ممانی رقیہ کے نام کے دو پیکٹ ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ تمہاری ان بن رہی ہے اس لیے گوشت بھی کتنا بے کارسا ڈالا ہوا ہے- اس نے شاپر کا منہ کھولا۔ چھیچڑے نما بوٹیوں اور ہڈیوں کے درمیان پاؤ بھر صاف ستھری بوٹیاں بھی شرمائی لالجائی جھانک رہی تھیں۔ اس کا مقصد تو اماں کو ان کی غلطی کا احساس دلانا تھا مگر وہ بجائے نادم ہونے کے بھڑک اٹھیں ۔ بس کر بلو! آج تو جو مجھے انصاف کا سبق پڑھا رہا ہے۔ کبھی تم نے ان رشتے داروں کے رویوں پر بھی غور کیا ہے۔
چاچا لیاقت کے بیٹے کی شادی کا ماجرا بھول گئے۔ سارے خاندان کو تو اس نے بمع اہل و عیال بلایا تھا مگر ہمارے ہاں صرف تمہارے ابا کے نام دعوت نامہ آیا تھا وہ بھی فقط ولیمہ کا ۔ تمہارا اور گڈو کا کتنا من تھا شادی میں جانے کا ۔ دل مسوس کر رہ گئے تھے۔ اور یہ جو مامی رقیہ ہے۔ تھڑدلی اورعیار اپنے پوتے کی پیدائش پراپنے میکے والوں کو تو کلو کلو مٹھائی کے ڈبے بھیجے اور ہمارے ہاں صرف برنی کے تین ٹکڑے اور پھر- اماں ! بھلا بدلہ لینے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ بلو نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اماں! اس طرح تو قربانی جیسی سعادت سے حاصل ہونے والا ثواب ہی ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ وہ ذرا رکا پھر بولنے لگا۔ اماں ! تو ٹھیک کہہ رہی ہے۔ ان رشتے داروں نے بھی کچھ برا کیا ہو گا مگر برائی کا جواب برائی سے دینا بھی تو غلط ہے۔ ہرشخص اپنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ پھر قربانی کا تو فلسفہ ہی یہ ہے کہ اللہ تک ہمارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ جب دل میں ہی اتنی کدورت ہو تو پھر قربانی کا فائدہ ہی کیا ؟
وہ بول بول کر تھک گیا تو خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر تک دونوں کے درمیان خاموشی رہی ۔ پھر اماں بولیں ۔ لہجہ پستہ تھا۔ پھر بتا تو کیا چاہتا ہے ؟ انداز مصالحانہ تھا- اماں ! میرے چاہنے یا نہ چاہنے کو چھوڑو اپنے آپ سے پوچھو کہ تمہیں کیا کرتا ہے؟؟؟ وہ کچھ دیر تک سوچتی رہیں پھر دھیرے سے بولیں۔ تو ٹھیک کہتا ہے بلو، میں کیوں اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے قربانی کا انمول ثواب ہاتھوں سے گنواؤں۔ جن پیکٹ پر تمہیں اعتراض ہے۔ میں وہ لے جاتی ہوں اور دوبارہ بنا کر لاتی ہوں۔ یہ ہوئی نا اچھی اماں والی بات ! بلو نے چہکتی آواز میں کہا ۔ پھر ماں بیٹے کی نظریں ملیں تو دونوں کھلکھلا کر ہنس دیے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے